پہلی بات :
و الذین ہم لفروجہم حفظون إلا علی أزواجہم أو ما ملکت أیمانہم ۔۔۔ کی جو تاویل کرکے استمنا کو جائز قرار دیا گیا ہے ، اس کی تردید بعد والی آیت میں ہی موجود ہے ، بيويوں اور لونڈیوں کے دو جائز طریقے بیان کرنے کےبعد واضح الفاظ میں ارشاد باری تعالی ہے :
فمن ابتغى وراء ذلك فأؤلئك هم العادون
جو ان کے علاوہ کوئی اور طریقہ اختیار کرتے ہیں وہ حد سے تجاوز کرنے والے ہیں ۔
دوسری بات :
رہا اس فعل کی ممانعت میں صحیح احادیث کا وارد نہ ہونا ، تو یہ بات اگر درست بھی ہو تو پھر بھی اس کے جواز کی دلیل نہیں بن سکتی ، کیونکہ قرآن کے عمومی آیات سے اس کی اس تحریم ثابت ہورہی ہے ، دوسرا حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی مختلف مواقع پر صحابہ کرام کو فطری خواہش کے علاج کے لیے شادی کی ترغیب ، یا روزے رکھنے کی ترغیب پر اکتفا کرنا ، اور استمنا جیسے آسان ، سہل اور سستے اور مشقت سے خالی طریقے کی طرف رہنمائی نہ کرنا ، اس بات کا قرینہ ہے کہ یہ فعل ناجائز ہے ۔
اس فعل کی شناعت میں زنا ، لواطت وغیرہ گناہوں کی طرح صحیح و صریح احادیث کے وارد نہ ہونے کی توجیہ یہ پیش کی جاسکتی ہے ، کہ اس دور میں لوگ اس فعل شنیع کا ارتکاب کرتے ہی نہیں تھے ، کہ اس کی شدید الفاظ میں مذمت کرنے کی ضرورت پیش آتی ۔
اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی درج ذیل حدیث:
( اے نوجوانوں کی جماعت ! تم میں سے جوبھی شادی کرنے کی استطاعت رکھے اسے شادی کرنی چاہیے ، اورجوطاقت نہيں رکھتا وہ روزے رکھے اس لیے کہ یہ اس کے لیے ڈھال ہیں ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 5065 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1400 )
کا جواب یہ دیا ہے کہ:
"
اس لیے کے مشت زنی شادی کا متبادل نہیں. شادی کے بعد جنسی عمل کا متبادل صرف زنا ہے. اور اس حدیث میں اس سے روکا گیا ہے۔"
پتہ نہیں صاحب تحریر اس سے کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں ، بہر صورت یہ حدیث بالکل واضح ہے کہ شہوت کا توڑ عورتوں سے حلال طریقے سے استمتاع یا روزے رکھ کر صبر کرنا ، اور تیسرا کوئی طریقہ نہیں ہے ، اگر ہوتا تو بیان کردیا جاتا ۔
نیز یہ کہ:
اگر یہ اتنا ہی برا فعل ہوتا جتنا آج علمائے کرام نوجوانوں کو باور کروا رہے ہیں، تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس برائی کی واضح الفاظ میں مذمت کیوں نہیں کی۔ معاملہ اتنا مشکوک کیوں ہے کہ اس موضوع پر فقط ایک ہی آیت اور ایک ہی حدیث سے استدلال کیا جاتا ہے اور دونوں ہی اپنے موضوع پر واضح ہیں، نا ہی صریح۔
اہل علم سے توجہ کی درخواست ہے۔
یہ آج کے علماء کرام ہی نہیں ، اس فعل کی حرمت پر اوپر قدیم علماء کے حوالے گزر چکے ہیں ، اور پھر اس موضوع پر صرف ایک آیت یا حدیث ہی نہیں ہے ، بلکہ دیگر آیات بھی ہیں ، اور احادیث بھی اگرچہ احادیث کی صحت میں کلام ہے ۔ تفصیل
یہاں دیکھی جاسکتی ہے ۔