کیا صحابہ کرام کے مابین کوئی اختلاف باقی نہیں رہا، سارے اختلافات ختم ہوگئے تھے؟؟؟ اگر آپ ایسا سمجھتے ہیں تو آپ تاریخ سے بالکل نا بلد ہیں۔
نہیں میرے بھائی!!
سیدنا علی وعائشہ وامیر معاویہ کے مابین جو جنگیں ہوئیں کیا ان میں کوئی دوسرے کو دلائل نہیں دیتا تھا؟؟؟ دیتے تھے، لیکن دلائل کے فہم میں اختلاف تھا۔
اب یہاں آپ ان کو کذاب کہنے کا فتویٰ جڑ دیں!!
میرے بھائی!! کیا آپ کو ہی دین کی سمجھ آئی ہے، آج تک کسی عالم کو سمجھ نہیں آئی؟؟ علمائے کرام نے تو کبھی اختلافِ رائے کی بناء پر کسی کو کذاب یا منافق نہیں کہا۔ تو آپ ایسا کیونکر جائز سمجھتے ہیں؟؟؟
جہاں تک علماء کی تقلید کا مسئلہ ہے تو آپ کو پہلے تقلید کا مفہوم سمجھنا چاہئے، پھر کسی پر تقلید کا الزام لگانا چاہئے۔
ویسے میرے بھائی! آپ نے ابھی تک اس تھریڈ میں دوسروں پر الزام لگانے کے سوا اور کیا ہی کیا ہے؟ کسی پر منافقت، کسی پر کذب اور کسی پر تقلید کا الزام؟؟؟
ابھی تک اپنے موقف پر کوئی ایک حدیث مبارکہ بھی آپ نے پیش نہیں کی!!
اللہ تعالیٰ ہمیں دین کی سمجھ عطا فرمائیں!!
لگتا ہے کہ آپ نے میری پیش کردہ حدیث کو غور سے نہیں پڑھا
پہلی حدیث
عن أسلم أبي عمران قال: غزونا من المدينة نُرید القسطنطينية وعلی الجماعة عبدالرحمٰن بن خالد بن الولید والروم مُلصقو ظُہُورہم بحائط المدينة فحمل رجل علی العدوّ فقال الناس: مہ مہ لا إلہ إلا اﷲ یلقي بیدیہ إلی التهلكة۔فقال أبو أیوب: إنما نزلت ہذہ الآية فینا معشر الأنصار لما نصر اﷲ نبیَّہ وأظہر الإسلام قلنا ہلمَّ نقیم في أموالنا ونُصْلِحُہَا فأنزل اﷲ {وَاَنْفِقُوْا فِیْ سَبِیْلِ اﷲِ وَ لاَتُلْقُوْا بِاَیْدِیْکُمْ اِلی التَّهْلُكَةِ} فالإلقاء بالأیدي إلی التهلكة أن نقیم في أموالنا ونصلحہا وندع الجہاد۔ قال أبو عمران: فلم یزل أبو أیوب یجاہد في سبیل اﷲ حتی دفن بالقسطنطينية (سنن ابو داؤد: کتاب الجہاد: باب فی قولہ عزوجل ولا تلقوا بایدیکم)
’’سیدنا اسلم ابو عمران کا بیان ہے کہ ہم مدینہ سے جہاد کے لیے قسطنطنیہ کی طرف روانہ ہوئے اس وقت امیر جیش سیدنا عبدالرحمن بن خالدبن الولید تھے۔رومی فوج شہر پناہ سے پشت لگائے مسلمانوں سے آمادہ پیکار تھی۔ اسی اثنا میں (مسلمانوں کی صف میں سے نکل کر) ایک شخص نے دشمن (کی فوج) پرحملہ کردیا۔ لوگ کہتے رہے: ’’رکو، رکو، لا الہ اِلا اللہ یہ شخص تو خود اپنے ہاتھوں اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈال رہا ہے۔‘‘ یہ سن کر سیدنا اَبوایوب اَنصاری نے فرمایا کہ یہ آیت تو ہم انصاریوں کے بارے میں اتری ہے۔ (واقعہ یہ ہے) کہ جب اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیﷺ کی مدد فرمائی اور اسلام کو غلبہ نصیب فرمایا تو ہم نے کہا تھا کہ اب تو ہم کو مدینہ میں رہ کر اپنے اَموال کی خبرگیری اور ان کی اصلاح کی طرف توجہ دینا چاہئے۔ اس پر اللہ عزوجل نے یہ آیت ِشریفہ نازل فرمائی:
’’ وَاَنْفِقُوْا فِیْ سَبِیْلِ اﷲِ وَ لاَتُلْقُوْا بِاَیْدِیْکُمْ اِلی االتَّهْلُكَةِ ‘‘ (البقرۃ:۱۹۵) ’’اور اللہ کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے آپ کو اپنے ہاتھوں ہلاکت میںنہ ڈالو۔‘‘
لہٰذا اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنا تو جہاد کو چھوڑ کر ہمارا اپنے اَموال کی خبرگیری اور اس کی اصلاح کے خیال سے اپنے گھروں میں بیٹھ رہنا تھا۔ سیدنا ابوعمران کہتے ہیں کہ سیدنا ابوایوب مسلسل اللہ کی راہ میں جہاد ہی کرتے رہے تاآنکہ وہ دفن بھی قسطنطنیہ میں ہوئے۔‘‘
دوسری حدیث
صحیح بخاری میں سیدنا محمود بن الربیع کا بیان ہے، وہ فرماتے ہیں:
’’میں نے (نفل نماز کی جماعت والی یہ) حدیث ایک ایسی قوم کے سامنے بیان کی کہ جن میں رسول اللہﷺ کے صحابی (اور میزبان) سیدنا ابوایوب انصاری بھی تھے اور اُنہوں نے اسی غزوہ کے دوران وفات پائی اور یزید بن معاویہ اس لشکر پرسالار تھے۔‘‘ (صحیح بخاری: ۱۱۸۶)
ایک غزوہ میں حضرت ایوب انصاری راضی اللہ زندہ ہیں اور دوسرے غزوہ میں انھوں نے وفات پائی
اب بتایں کہ کون سا لشکر پہلا تھا