• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

یزید بن معاویہ کی امارت

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,806
پوائنٹ
773
لگتا ہے کہ آپ نے میری پیش کردہ حدیث کو غور سے نہیں پڑھا
کیا گذشتہ پوسٹ میں آپ کی پیش کردہ حدیث ، حدیث رسول ہے؟؟؟؟؟؟
یادرہے آپ نے کہا تھا :
ہمیں اس بات کو خوب یاد رکھنا چاہئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح حدیث کے مقابلے میں کسی کے بھی قول کی کوئی اہمیت نہیں ہے چاہے وہ کتنے بھی بڑے امام کا ہو یا کتنی ہی مشہور کتاب میں درج ہو۔
اس پر مین نے عرض کیا تھا :
یا للعجب !
اب تک آپ نے اپنے موقف (یزید کی اول جیش کی فضیلت سے محرومی) کی تائید میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی کون سی صحیح حدیث پیش کی ہے ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
ہمیں تو آپ کی پوری تحریر میں ایک بھی حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم نظر نہ آئی جسے آپ نے اپنے موقف کے دلیل میں پیش کیا ہو !!!!

کہیں ایسا تو نہیں کہ حدیث کی کتابوں میں آپ جو روایت بھی دیکھ لیتے ہیں اسے حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم سمجھ بیٹھتے ہیں۔
اگرایسا ہے تو دوہری مصیبت:
  • ایک تو غیرمتعلق روایت پیش کرنا ۔
  • اوردوسرے اس روایت کو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان سمجھنا ۔

بہت خوب !

اب ذرا آپ اپنی پیش کردہ حدیث پھر سے بار بار پڑھیں اور یہ بتائیں کہ کیا یہ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسم ہے؟؟؟؟؟
قطع نظراس کے کہ اس کامفہوم کیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

باذوق

رکن
شمولیت
فروری 16، 2011
پیغامات
888
ری ایکشن اسکور
4,011
پوائنٹ
289
لگتا ہے کہ آپ نے میری پیش کردہ حدیث کو غور سے نہیں پڑھا
عن أسلم أبي عمران قال: غزونا من المدينة نُرید القسطنطينية وعلی الجماعة عبدالرحمٰن بن خالد بن الولید والروم مُلصقو ظُہُورہم بحائط المدينة فحمل رجل علی العدوّ فقال الناس: مہ مہ لا إلہ إلا اﷲ یلقي بیدیہ إلی التهلكة۔فقال أبو أیوب: إنما نزلت ہذہ الآية فینا معشر الأنصار لما نصر اﷲ نبیَّہ وأظہر الإسلام قلنا ہلمَّ نقیم في أموالنا ونُصْلِحُہَا فأنزل اﷲ {وَاَنْفِقُوْا فِیْ سَبِیْلِ اﷲِ وَ لاَتُلْقُوْا بِاَیْدِیْکُمْ اِلی التَّهْلُكَةِ} فالإلقاء بالأیدي إلی التهلكة أن نقیم في أموالنا ونصلحہا وندع الجہاد۔ قال أبو عمران: فلم یزل أبو أیوب یجاہد في سبیل اﷲ حتی دفن بالقسطنطينية (سنن ابو داؤد: کتاب الجہاد: باب فی قولہ عزوجل ولا تلقوا بایدیکم)
جناب عالی ! بچپن میں ہمارے اساتذہ چند ہم جماعتوں کو ٹوکتے تھے کہ توتے کی طرح رٹا لگانا بند کرو۔ اب کیا یہی جملہ یہاں دہرانا ہمارے لیے ضروری ہو گیا ہے؟؟
عجیب بات ہے کہ آپ ایک ہی بات کو بار بار دہراتے ہوئے (پہلے تصویری اردو پھر یونیکوڈ اردو ۔۔۔) یہ فراموش کر دیتے ہیں کہ آپ کی انہی باتوں کے جواب پچھلے مراسلات میں دئے جا چکے ہیں۔ کیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ اب آپ اپنے قلم کو بند کر کے ہم سب پر احسان کریں؟
کفایت اللہ بھائی ، متذکرہ روایت سے متعلق گفتگو کا جواب ایک ہفتہ قبل ہی یوں دے چکے تھے :
صحیح حدیث پیش کرنے کے ساتھ ساتھ حدیث کا صحیح مفہوم بھی پیش کرنا ضروری ہے میرے ناقص مطالعہ کے مطابق سلف نے متفقہ طور پر اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ مدینہ قیصر پرحملہ کرنے والے پہلے لشکرکے امیر یزید رحمہ اللہ تھے ، رہی ابوداؤد کی وہ صحیح حدیث جسے بنیاد بناکر آپ اپنے آپ کو حق پر اور دوسروں کا باطل پر سمجھ رہے ہیں ، تو اس صحیح حدیث کا صحیح مطلب سمجھنے کے لئے درج ذیل موضوع کا سنجیدگی سے مطالعہ کریں :

اللہ صحیح سمجھ کی توفیق دے ، آمین۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
بلکل ٹھیک صحابہ کرام کے درمیان بھی اختلاف رہا ۔ لکن جب ان کو ایک صحیح بات پتا چلی تو انھوں نے اسی وقت رجوح کر لیا

لیکن کیا ہمارے علماء ایسا کرتے ہیں ۔ہم دوسروں کو تو تقلید سے روکتے ہیں لکن خود اپنے بزرگوں کی تقلید کرتے ہیں ۔ کیا صحابہ کرام بھی سچ معلوم ہونے کے بعد ایسا کرتے تھے ۔
کیا صحابہ کرام﷢ کے مابین کوئی اختلاف باقی نہیں رہا، سارے اختلافات ختم ہوگئے تھے؟؟؟ اگر آپ ایسا سمجھتے ہیں تو آپ تاریخ سے بالکل نا بلد ہیں۔

نہیں میرے بھائی!!

سیدنا علی وعائشہ وامیر معاویہ ﷢ کے مابین جو جنگیں ہوئیں کیا ان میں کوئی دوسرے کو دلائل نہیں دیتا تھا؟؟؟ دیتے تھے، لیکن دلائل کے فہم میں اختلاف تھا۔

اب یہاں آپ ان کو کذاب کہنے کا فتویٰ جڑ دیں!!

میرے بھائی!! کیا آپ کو ہی دین کی سمجھ آئی ہے، آج تک کسی عالم کو سمجھ نہیں آئی؟؟ علمائے کرام﷭ نے تو کبھی اختلافِ رائے کی بناء پر کسی کو کذاب یا منافق نہیں کہا۔ تو آپ ایسا کیونکر جائز سمجھتے ہیں؟؟؟

جہاں تک علماء کی تقلید کا مسئلہ ہے تو آپ کو پہلے تقلید کا مفہوم سمجھنا چاہئے، پھر کسی پر تقلید کا الزام لگانا چاہئے۔

ویسے میرے بھائی! آپ نے ابھی تک اس تھریڈ میں دوسروں پر الزام لگانے کے سوا اور کیا ہی کیا ہے؟ کسی پر منافقت، کسی پر کذب اور کسی پر تقلید کا الزام؟؟؟

ابھی تک اپنے موقف پر کوئی ایک حدیث مبارکہ بھی آپ نے پیش نہیں کی!!

اللہ تعالیٰ ہمیں دین کی سمجھ عطا فرمائیں!!
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
کیا صحابہ کرام﷢ کے مابین کوئی اختلاف باقی نہیں رہا، سارے اختلافات ختم ہوگئے تھے؟؟؟ اگر آپ ایسا سمجھتے ہیں تو آپ تاریخ سے بالکل نا بلد ہیں۔

نہیں میرے بھائی!!

سیدنا علی وعائشہ وامیر معاویہ ﷢ کے مابین جو جنگیں ہوئیں کیا ان میں کوئی دوسرے کو دلائل نہیں دیتا تھا؟؟؟ دیتے تھے، لیکن دلائل کے فہم میں اختلاف تھا۔

اب یہاں آپ ان کو کذاب کہنے کا فتویٰ جڑ دیں!!

میرے بھائی!! کیا آپ کو ہی دین کی سمجھ آئی ہے، آج تک کسی عالم کو سمجھ نہیں آئی؟؟ علمائے کرام﷭ نے تو کبھی اختلافِ رائے کی بناء پر کسی کو کذاب یا منافق نہیں کہا۔ تو آپ ایسا کیونکر جائز سمجھتے ہیں؟؟؟

جہاں تک علماء کی تقلید کا مسئلہ ہے تو آپ کو پہلے تقلید کا مفہوم سمجھنا چاہئے، پھر کسی پر تقلید کا الزام لگانا چاہئے۔

ویسے میرے بھائی! آپ نے ابھی تک اس تھریڈ میں دوسروں پر الزام لگانے کے سوا اور کیا ہی کیا ہے؟ کسی پر منافقت، کسی پر کذب اور کسی پر تقلید کا الزام؟؟؟

ابھی تک اپنے موقف پر کوئی ایک حدیث مبارکہ بھی آپ نے پیش نہیں کی!!

اللہ تعالیٰ ہمیں دین کی سمجھ عطا فرمائیں!!
لگتا ہے کہ آپ نے میری پیش کردہ حدیث کو غور سے نہیں پڑھا

پہلی حدیث
عن أسلم أبي عمران قال: غزونا من المدينة نُرید القسطنطينية وعلی الجماعة عبدالرحمٰن بن خالد بن الولید والروم مُلصقو ظُہُورہم بحائط المدينة فحمل رجل علی العدوّ فقال الناس: مہ مہ لا إلہ إلا اﷲ یلقي بیدیہ إلی التهلكة۔فقال أبو أیوب: إنما نزلت ہذہ الآية فینا معشر الأنصار لما نصر اﷲ نبیَّہ وأظہر الإسلام قلنا ہلمَّ نقیم في أموالنا ونُصْلِحُہَا فأنزل اﷲ {وَاَنْفِقُوْا فِیْ سَبِیْلِ اﷲِ وَ لاَتُلْقُوْا بِاَیْدِیْکُمْ اِلی التَّهْلُكَةِ} فالإلقاء بالأیدي إلی التهلكة أن نقیم في أموالنا ونصلحہا وندع الجہاد۔ قال أبو عمران: فلم یزل أبو أیوب یجاہد في سبیل اﷲ حتی دفن بالقسطنطينية (سنن ابو داؤد: کتاب الجہاد: باب فی قولہ عزوجل ولا تلقوا بایدیکم)

’’سیدنا اسلم ابو عمران کا بیان ہے کہ ہم مدینہ سے جہاد کے لیے قسطنطنیہ کی طرف روانہ ہوئے اس وقت امیر جیش سیدنا عبدالرحمن بن خالدبن الولید تھے۔رومی فوج شہر پناہ سے پشت لگائے مسلمانوں سے آمادہ پیکار تھی۔ اسی اثنا میں (مسلمانوں کی صف میں سے نکل کر) ایک شخص نے دشمن (کی فوج) پرحملہ کردیا۔ لوگ کہتے رہے: ’’رکو، رکو، لا الہ اِلا اللہ یہ شخص تو خود اپنے ہاتھوں اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈال رہا ہے۔‘‘ یہ سن کر سیدنا اَبوایوب اَنصاری نے فرمایا کہ یہ آیت تو ہم انصاریوں کے بارے میں اتری ہے۔ (واقعہ یہ ہے) کہ جب اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیﷺ کی مدد فرمائی اور اسلام کو غلبہ نصیب فرمایا تو ہم نے کہا تھا کہ اب تو ہم کو مدینہ میں رہ کر اپنے اَموال کی خبرگیری اور ان کی اصلاح کی طرف توجہ دینا چاہئے۔ اس پر اللہ عزوجل نے یہ آیت ِشریفہ نازل فرمائی:
’’ وَاَنْفِقُوْا فِیْ سَبِیْلِ اﷲِ وَ لاَتُلْقُوْا بِاَیْدِیْکُمْ اِلی االتَّهْلُكَةِ ‘‘ (البقرۃ:۱۹۵) ’’اور اللہ کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے آپ کو اپنے ہاتھوں ہلاکت میںنہ ڈالو۔‘‘
لہٰذا اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنا تو جہاد کو چھوڑ کر ہمارا اپنے اَموال کی خبرگیری اور اس کی اصلاح کے خیال سے اپنے گھروں میں بیٹھ رہنا تھا۔ سیدنا ابوعمران کہتے ہیں کہ سیدنا ابوایوب مسلسل اللہ کی راہ میں جہاد ہی کرتے رہے تاآنکہ وہ دفن بھی قسطنطنیہ میں ہوئے۔‘‘

دوسری حدیث
صحیح بخاری میں سیدنا محمود بن الربیع کا بیان ہے، وہ فرماتے ہیں:

’’میں نے (نفل نماز کی جماعت والی یہ) حدیث ایک ایسی قوم کے سامنے بیان کی کہ جن میں رسول اللہﷺ کے صحابی (اور میزبان) سیدنا ابوایوب انصاری بھی تھے اور اُنہوں نے اسی غزوہ کے دوران وفات پائی اور یزید بن معاویہ اس لشکر پرسالار تھے۔‘‘ (صحیح بخاری: ۱۱۸۶)


ایک غزوہ میں حضرت ایوب انصاری راضی اللہ زندہ ہیں اور دوسرے غزوہ میں انھوں نے وفات پائی

اب بتایں کہ کون سا لشکر پہلا تھا
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
لگتا ہے کہ آپ نے میری پیش کردہ حدیث کو غور سے نہیں پڑھا


’’سیدنا اسلم ابو عمران کا بیان ہے کہ ہم مدینہ سے جہاد کے لیے قسطنطنیہ کی طرف روانہ ہوئے اس وقت امیر جیش سیدنا عبدالرحمن بن خالدبن الولید تھے۔رومی فوج شہر پناہ سے پشت لگائے مسلمانوں سے آمادہ پیکار تھی۔ اسی اثنا میں (مسلمانوں کی صف میں سے نکل کر) ایک شخص نے دشمن (کی فوج) پرحملہ کردیا۔ لوگ کہتے رہے: ’’رکو، رکو، لا الہ اِلا اللہ یہ شخص تو خود اپنے ہاتھوں اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈال رہا ہے۔‘‘ یہ سن کر سیدنا اَبوایوب اَنصاری نے فرمایا کہ یہ آیت تو ہم انصاریوں کے بارے میں اتری ہے۔ (واقعہ یہ ہے) کہ جب اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیﷺ کی مدد فرمائی اور اسلام کو غلبہ نصیب فرمایا تو ہم نے کہا تھا کہ اب تو ہم کو مدینہ میں رہ کر اپنے اَموال کی خبرگیری اور ان کی اصلاح کی طرف توجہ دینا چاہئے۔ اس پر اللہ عزوجل نے یہ آیت ِشریفہ نازل فرمائی:
’سیدنا اسلم ابو عمران کا بیان ہے کہ ہم مدینہ منورہ سے جہاد کے لئے روانہ ہوئے ہم قسطنطنیہ جانا چاہئے تھے اس وقت امیر جماعت سیدنا عبدالرحمن بن خالدبن الولید تھے۔ رومی فوج شہر پناہ سے پشت لگائے مسلمانوں سے آمادہ پیکار تھی۔ اسی اثنا میں (مسلمانوں کی صف میں سے نکل کر) ایک شخص نے دشمن (کی فوج) پرحملہ کردیا۔

لفظوں کو گھما پھرا کر کس مقصد کے حصول کی کوشش کی جارہی ہے؟؟؟...

فرض کیجئے لوولی آل ٹائم جہاد کے لئے روانہ ہوتے ہیں...
وہ قسطنطنیہ جانا چاہتے ہیں...
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کیسے؟؟؟...
یہ لشکر مدینہ منورہ سے نکلا...
اب دوسرا سوال کیا سمندر مدینہ المنورہ میں ہے؟؟؟...

دوسری حدیث
صحیح بخاری میں سیدنا محمود بن الربیع کا بیان ہے، وہ فرماتے ہیں:
’’میں نے (نفل نماز کی جماعت والی یہ) حدیث ایک ایسی قوم کے سامنے بیان کی کہ جن میں رسول اللہﷺ کے صحابی (اور میزبان) سیدنا ابوایوب انصاری بھی تھے اور اُنہوں نے اسی غزوہ کے دوران وفات پائی اور یزید بن معاویہ اس لشکر پرسالار تھے۔‘‘ (صحیح بخاری: ۱۱۸۶)
اس حدیث کا عربی متن پیش کیجئے...
 

s.s.salafi

مبتدی
شمولیت
جون 28، 2012
پیغامات
15
ری ایکشن اسکور
60
پوائنٹ
15
[الرد على المتعصب العنيد المانع من ذم يزيد لابن الجوزي ص: 40]۔
شیخ میرے ٰعلم کے مطابق یہ کتاب ابن جوزی کی نھیں ھے بلکہ انکے پوتے یوسف فراگلی نے ان سے منسوب کی ھے اور ابن جوزی کے پوتے کے حوالے سے ابن رجب طبقات ابن حنابلہ کی دوسری جلد میں لکھتے ھیں کہ وہ رافظی تھا لھذا پورا نسخہ قابل اعتبار نھیں
ا
 

s.s.salafi

مبتدی
شمولیت
جون 28، 2012
پیغامات
15
ری ایکشن اسکور
60
پوائنٹ
15
اور lovely time bhai ایک بات ذرا ٹھنڈے دماغ سے سوچے پیارے بھائ ابن حجر ابن تیمیہ ابن کثیر ان کے علاوہ ابن تین اور مھلب جیسے مخالفین بھی قسطنطنیہ کا مصداق یزید کو ٹھرا رھے ھیں سوال یہ اٹھتا ھے یہ سب غلط اور اکیلے زبیر علی زئ ٹھیک ھے دال میں کچھ کالا ھے یا یو کھو کہ ساری دال ھی کالی ھے
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
lovelyalltime کا موقف ٹھیک لگا مجھ آگے واللہ اعلم
بہتر ہے کہ اس معاملے میں ذیادہ بحث نہ کی جائے اگر وہ جنتی ہے تو ہمیں کیا اگر جہنمی ہے تو ہمیں کیا اس پرب ات کرنے سے حاصل کچھ نہیں ہو گا البتہ کوئی نہ کوئی گمراہ ضرور ہو جائے گا۔
یزید رحمہ اللہ علیہ کے جنتی یا جہنمی ہونے سے ہمیں کیا، یہ کہہ دینے سے معاملہ یہاں ختم نہیں ہوجاتا۔۔۔ سوال یہ ہے جو سازش کوفیوں نے کی تھی۔۔۔ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے حوالے سے اُس کا سارا مدعا یزید پر لادھ دیا جائے گا۔۔۔ حالانکہ مسئلہ چل رہا ہے روایات پر۔۔۔ اور فہم کے غلط ادراک کی وجہ سے یہ تابڑ توڑ کوشش ہورہی ہے کے کسی طرح سے یہ ثابت کردیں کے یزید رحمہ اللہ علیہ پہلے بحری بیڑے کی امیر نہیں تھے۔۔۔ کیونکہ اگر یہاں پر یہ اس سازش میں کامیاب ہوجاتے ہیں ٹامک ٹوئیاں مار کے تو پھر حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے قتل کا سارا مدعا یزید رحمہ اللہ پر رکھ دیا جائے گا اور کوفیوں کو بچا لیا جائے گا۔۔۔ یعنی آج تک جو لوگ رافضیوں اور خوارج کے لئے جو زبان استعمال کررہے تھے یا تاثرات رکھتے تھے وہ یزید بن معاویہ رضی اللہ عنہ کے دفاع میں بولنے والوں کو ناصبی بنا کر اُن کے خلاف یہ زبان استعمال کی جائے گی۔۔۔
 
شمولیت
مئی 21، 2012
پیغامات
68
ری ایکشن اسکور
331
پوائنٹ
0
یہ بھی ٹھیک ہے۔ لیکن میں نے زبیر علی زئی کا مقالہ پڑھا اس میں انہوں نے کہا کہ یزید اول جیش میں شامل نہیں تھا اور اول جیش کے لیے خوشخبری ہے
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top