حرب بن شداد
سینئر رکن
- شمولیت
- مئی 13، 2012
- پیغامات
- 2,149
- ری ایکشن اسکور
- 6,345
- پوائنٹ
- 437
حدثني إسحاق حدثنا يعقوب بن إبراهيم حدثنا أبي عن ابن شهاب قال أخبرني محمود بن الربيع الأنصاري أنه عقل رسول الله صلی الله عليه وسلم وعقل مجة مجها في وجهه من بئر کانت في دارهم فزعم محمود أنه سمع عتبان بن مالک الأنصاري رضي الله عنه وکان ممن شهد بدرا مع رسول الله صلی الله عليه وسلم يقول کنت أصلي لقومي ببني سالم وکان يحول بيني وبينهم واد إذا جائت الأمطار فيشق علي اجتيازه قبل مسجدهم فجئت رسول الله صلی الله عليه وسلم فقلت له إني أنکرت بصري وإن الوادي الذي بيني وبين قومي يسيل إذا جائت الأمطار فيشق علي اجتيازه فوددت أنک تأتي فتصلي من بيتي مکانا أتخذه مصلی فقال رسول الله صلی الله عليه وسلم سأفعل فغدا علي رسول الله صلی الله عليه وسلم وأبو بکر رضي الله عنه بعد ما اشتد النهار فاستأذن رسول الله صلی الله عليه وسلم فأذنت له فلم يجلس حتی قال أين تحب أن أصلي من بيتک فأشرت له إلی المکان الذي أحب أن أصلي فيه فقام رسول الله صلی الله عليه وسلم فکبر وصففنا ورائه فصلی رکعتين ثم سلم وسلمنا حين سلم فحبسته علی خزير يصنع له فسمع أهل الدار رسول الله صلی الله عليه وسلم في بيتي فثاب رجال منهم حتی کثر الرجال في البيت فقال رجل منهم ما فعل مالک لا أراه فقال رجل منهم ذاک منافق لا يحب الله ورسوله فقال رسول الله صلی الله عليه وسلم لا تقل ذاک ألا تراه قال لا إله إلا الله يبتغي بذلک وجه الله فقال الله ورسوله أعلم أما نحن فوالله لا نری وده ولا حديثه إلا إلی المنافقين قال رسول الله صلی الله عليه وسلم فإن الله قد حرم علی النار من قال لا إله إلا الله يبتغي بذلک وجه الله قال محمود بن الربيع فحدثتها قوما فيهم أبو أيوب صاحب رسول الله صلی الله عليه وسلم في غزوته التي توفي فيها ويزيد بن معاوية عليهم بأرض الروم فأنکرها علي أبو أيوب قال والله ما أظن رسول الله صلی الله عليه وسلم قال ما قلت قط فکبر ذلک علي فجعلت لله علي إن سلمني حتی أقفل من غزوتي أن أسأل عنها عتبان بن مالک رضي الله عنه إن وجدته حيا في مسجد قومه فقفلت فأهللت بحجة أو بعمرة ثم سرت حتی قدمت المدينة فأتيت بني سالم فإذا عتبان شيخ أعمی يصلي لقومه فلما سلم من الصلاة سلمت عليه وأخبرته من أنا ثم سألته عن ذلک الحديث فحدثنيه کما حدثنيه أول مرةدوسری حدیث
صحیح بخاری میں سیدنا محمود بن الربیع کا بیان ہے، وہ فرماتے ہیں:
’’میں نے (نفل نماز کی جماعت والی یہ) حدیث ایک ایسی قوم کے سامنے بیان کی کہ جن میں رسول اللہﷺ کے صحابی (اور میزبان) سیدنا ابوایوب انصاری بھی تھے اور اُنہوں نے اسی غزوہ کے دوران وفات پائی اور یزید بن معاویہ اس لشکر پرسالار تھے۔‘‘ (صحیح بخاری: ۱۱۸۶)
ایک غزوہ میں حضرت ایوب انصاری راضی اللہ زندہ ہیں اور دوسرے غزوہ میں انھوں نے وفات پائی
اب بتایں کہ کون سا لشکر پہلا تھا
صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر ١١٢٣
اسحاق، یعقوب بن ابراہیم، ابراہیم، ابن شہاب، محمود رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن ربیع انصاری سے روایت کرتے ہیں کہ مجھ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یاد ہیں اور وہ کلی بھی یاد ہے جو میرے چہرے پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمارے گھر کو کنوئیں سے لے کر کی تھی، انہوں نے کہا کہ میں نے عتبان بن مالک انصاری کو جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بدر میں شریک ہوئے تھے کہتے ہوئے سنا کہ میں اپنی قوم بنی سالم کو نماز پڑھاتا تھا اور میرے درمیان اور ان کے درمیان ایک وادی حائل تھی اور جب بارش ہوتی تو میرے لئے ان کی مسجد کی طرف راستہ طے کرکے جانا دشوار ہوتا، میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس یا اور عرض کیا کہ میری نگاہ کمزور ہے اور وادی جو ہمارے اور ہماری قوم کے درمیان حائل ہے جب بارش ہوتی ہے تو مجھ پر دشوار ہوتا ہے کہ راستہ طے کرکے وہاں پہنچوں، اس لئے میں چاہتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آئیں اور میرے مکان میں ایک جگہ پر نماز پڑھ لیں کہ میں اس کو نماز کی جگہ بنالوں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں ایسا کروں گا، چنانچہ صبح کے وقت میرے پاس نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ پہنچے جب کہ دھوپ تیز ہوچکی تھی پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت چاہی تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اجازت دے دی، آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ابھی بیٹھے بھی نہ تھے کہ فرمایا تم اپنے گھر میں کون سی جگہ پسند کرتے ہو جہاں میں نماز پڑھوں؟ میں نے اس جگہ کی طرف اشارہ کیا جس میں نماز پڑھنا پسند کرتا تھا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور تکبیر کہی اور ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے صف قائم کی پھر دو رکعت نماز پڑھی پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سلام پھیرا اور ہم نے بھی سلام پھیرا اور جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سلام پھیر چکے تو میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خزیرۃ(ایک قسم کا کھانا) پر روکا، جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیلئے تیار کرلیا گیا تھا۔ جب دوسرے گھر والوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز میرے گھر میں سنی تو دوڑ پڑے یہاں تک کہ گھر میں لوگ بہت زیادہ ہوگئے تو ان میں سے ایک شخص نے کہا کہ مالک نے کیا کیا، میں اسے نہیں دیکھتا ہوں تو ان میں سے ایک شخص نے کہا کہ وہ منافق ہے اللہ کے رسول سے اسے محبت نہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایسا نہ کہو، کیا تم نہیں دیکھتے کہ اس نے لا الہ اللہ کہا ہے اس سے اللہ کی رضا چاہتا ہے تو اس نے کہا اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں لیکن ہم تو بخدا اس کی محبت اور اس کی گفتگو منافقین ہی سے دیکھتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ نے جہنم پر اس شخص کو حرام کردیا ہے جو لا الہ اللہ کہے اور اس سے رضائے الٰہی چاہتا ہو۔ محمود نے بیان کیا کہ میں نے اس کو ایک جماعت سے بیان کیا جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی ابوایوب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی تھے اور اس جنگ میں بیان کیا جس میں انہوں نے وفات پائی اور اس وقت روم میں یزید بن معاویہ حاکم تھا، ابوایوب نے ہماری اس حدیث کا انکار کیا اور کہا و اللہ جو تو نے کہا میرا خیال ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کہا، یہ مجھے برا معلوم ہوا اور میں نے اللہ کیلئے نذر مانی کہا اگر وہ مجھے صحیح و سالم رکھے یہاں تک کہ میں اس غزوہ سے واپس ہوجاؤں تو میں اس حدیث کے متعلق عتبان رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن مالک سے پوچھوں گا، اگر میں نے انہیں ان کی قوم کی مسجد میں زندہ پایا، چنانچہ میں غزوہ سے لوٹا میں نے حج یا عمرہ کا احرام باندھا پھر میں چلا یہاں تک کہ مدینہ پہنچا، میں بنی سالم کے پاس پہنچا تو دیکھا کہ عتبان بڈھے اور نابینا ہوگئے ہیں اپنی قوم کو نماز پڑھاتے ہیں، جب وہ نماز سے فارغ ہوئے تو میں نے ان کو سلام کیا اور بتایا کہ میں کون ہوں، پھر میں نے ان سے حدیث کے متعلق پوچھا تو انہوں نے مجھ سے اسی طرح بیان کیا جس طرح پہلی بار بیان کیا گیا تھا۔