یہ کام بش اور اوباما نے بھی کئے پھر تو وہ بھی جنت میں جائیں گے،اگر زیادہ قبضہ جنت کا باعث ہے تو اسرائیلی تمام صدور بھی جنتی ہیں،فرق صرف اتنا ہے کہ اسرائیلی صدور کی مائیں زنا چھپ کرکرتی تھیں اور معاویہ کی ماں گھر پر جھنڈا گاڑ کر لوگوں کو بلاتی تھی،اور ہمارے پاس مصدقہ روایات ہیں جس میں معاویہ کے چار باپ کے ولد یعنی ولد الزنا ہونے کا واضح شارہ ہے۔تم لوگ دشمنی رسول و آل رسول ص میں اندھے ھو چکے اور علاج تمھارا صرف اور صرف جحیم ہے،
جہاد اورمجاہدین فی سبیل اللہ کے فضائل کے بیان میں
اس باب میں کئی فصلیں ہیں [ابتداء میں اس باب کی مناسبت سے کچھ قرآنی آیات ملاحظہ فرمائیے]
اللہ تبارک وتعالیٰ کا فرمان ہے۔
(۱) [ARABIC]لا يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ وَالْمُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ فَضَّلَ اللَّهُ الْمُجَاهِدِينَ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ عَلَى الْقَاعِدِينَ دَرَجَةً وَكُلا وَعَدَ اللَّهُ الْحُسْنَى وَفَضَّلَ اللَّهُ الْمُجَاهِدِينَ عَلَى الْقَاعِدِينَ أَجْرًا عَظِيمًا دَرَجَاتٍ مِنْهُ وَمَغْفِرَةً وَرَحْمَةً وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا ۔[/ARABIC] (النساء۔۹۵۔۹۶)
جو مسلمان (گھروں میں ) بیٹھ رہتے (اور لڑنے سے جی چراتے) ہیں اور کوئی عذر نہیں رکھتے وہ اورجو اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنے مال اورجان سے لڑتے ہیں وہ دونوں برابر نہیں ہوسکتے ۔ مال اورجان سے جہاد کرنے والوں کو بیٹھ رہنے والوں پر اللہ تعالیٰ نے درجے میں فضیلت بخشی ہے اور (گو) نیک وعدہ سب سے ہے لیکن اجر عظیم کے لحاظ سے اللہ تعالیٰ نے جہاد کرنے والوں کو بیٹھ رہنے والوں پر کہیں فضیلت بخشی ہیں اور رحمت میں اور اللہ تعالیٰ بڑ ا بخشنے والا اور مہربان ہے ۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔
(۲) [ARABIC]وَمَنْ يُقَاتِلْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَيُقْتَلْ أَوْ يَغْلِبْ فَسَوْفَ نُؤْتِيهِ أَجْرًا عَظِيمًا ۔[/ARABIC] (النساء۔ ۷۴)
اورجو شخص اللہ تعالیٰ کی راہ میں جنگ کرے پھر شہید ہوجائے یا غلبہ پائے ہم عنقریب اس کو بڑا ثواب دیں گے۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔
(۳) [ARABIC]الَّذِينَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ أَعْظَمُ دَرَجَةً عِنْدَ اللَّهِ وَأُولَئِكَ هُمُ الْفَائِزُونَ يُبَشِّرُهُمْ رَبُّهُمْ بِرَحْمَةٍ مِنْهُ وَرِضْوَانٍ وَجَنَّاتٍ لَهُمْ فِيهَا نَعِيمٌ مُقِيمٌ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا إِنَّ اللَّهَ عِنْدَهُ أَجْرٌ عَظِيمٌ [/ARABIC]۔ (التوبہ ۔ ۲۰۔۲۱۔۲۲)
جو لوگ ایمان لائے اور وطن چھوڑگئے اوراللہ تعالیٰ کی راہ میں مال اور جان سے جہاد کرتے رہے اللہ تعالیٰ کے ہاں ان کے درجے بہت بڑے ہیں اور وہی مراد کو پہنچنے والے ہیں ان کا پروردگا ران کو اپنی رحمت کی اور خوشنودی کی اور بہشتوں کی خوشخبری دیتا ہے جن میں ان کے لئے نعمت ہائے جاویدانی ہیں (اور وہ )ان میں ابد الآباد رہیں گے ۔ کچھ شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں بڑا صلہ(تیار)ہے۔
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں۔
(۴) [ARABIC] إِنَّ اللَّهَ اشْتَرَى مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنْفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَيَقْتُلُونَ وَيُقْتَلُونَ وَعْدًا عَلَيْهِ حَقًّا فِي التَّوْرَاةِ وَالإنْجِيلِ وَالْقُرْآنِ وَمَنْ أَوْفَى بِعَهْدِهِ مِنَ اللَّهِ فَاسْتَبْشِرُوا بِبَيْعِكُمُ الَّذِي بَايَعْتُمْ بِهِ وَذَلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ [/ARABIC]۔ (التوبہ۔ ۱۱۱)
بے شک اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں سے ان کی جانوں اوران کے مالوں کو اس قیمت پر کہ ان کے لئے جنت ہے خرید لیا ہے وہ لوگ اللہ تعالیٰ کے راستے میں لڑتے ہیں پھر قتل کرتے ہیں اورقتل کئے جاتے ہیں(یہ )اللہتعالیٰ کے ذمہ سچا وعدہ ہے تورات اور انجیل اورقرآن میں اور اللہ تعالیٰ سے زیادہ اپنے عہد کو پورا کرنے والا کون ہے؟ پھر تم خوشیاں مناؤ اس معاملے (خرید وفروخت) پر جو تم نے اللہ تعالیٰ سے کیا ہے اور یہ بڑی کامیابی ہے۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔
(۵) [ARABIC] يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ تَنْصُرُوا اللَّهَ يَنْصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ أَقْدَامَكُمْ [/ARABIC]۔ (محمد۔۷)
اے اہل ایمان ! اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ بھی تمہاری مددکرے گا اور تم کو ثابت قدم رکھے گا۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔
(۶) [ARABIC]إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ ثُمَّ لَمْ يَرْتَابُوا وَجَاهَدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أُولَئِكَ هُمُ الصَّادِقُونَ [/ARABIC]۔ الحجرات۔۱۵)
ایمان والے تو وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے اللہ تعالیٰ پر اور اسکے رسول پر ]ھر وہ شبہے میں نہیں پڑے اور وہ لڑے اللہ تعالیٰ کے راستے میں اپنے مال اوراپنی جان سے یہی لوگ سچے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔
(۷) [ARABIC]يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا هَلْ أَدُلُّكُمْ عَلَى تِجَارَةٍ تُنْجِيكُمْ مِنْ عَذَابٍ أَلِيمٍ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَتُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ بِأَمْوَالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ يَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَيُدْخِلْكُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الأنْهَارُ وَمَسَاكِنَ طَيِّبَةً فِي جَنَّاتِ عَدْنٍ ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ وَأُخْرَى تُحِبُّونَهَا نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا أَنْصَارَ اللَّهِ كَمَا قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ لِلْحَوَارِيِّينَ مَنْ أَنْصَارِي إِلَى اللَّهِ قَالَ الْحَوَارِيُّونَ نَحْنُ أَنْصَارُ اللَّهِ فَآمَنَتْ طَائِفَةٌ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ وَكَفَرَتْ طَائِفَةٌ فَأَيَّدْنَا الَّذِينَ آمَنُوا عَلَى عَدُوِّهِمْ فَأَصْبَحُوا ظَاهِرِينَ [/ARABIC]۔(الصّف۔۱۰۔۱۴)
اے ایمان والو! میں تم کو ایسی تجارت نہ بتادوں جو تم کوایک درد ناک عذاب سے بچالے ۔ تم لوگ اللہ تعالیٰ پر اوراس کے رسول پر ایمان لاؤ اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنے مال اورجان سے جہاد کرو یہ تمہارے حق میں بہت بہتر ہے اگر تم سمجھ رکھتے ہو۔ (جب ایسا کرو گے تو) اللہ تعالیٰ تمہارے گناہ معاف کردے گا اورتم کو جنت کے ایسے باغات میں داخل کردے گا جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی اورعمدہ مکانوں میں (داخل کرے گا) جو ہمیشہ رہنے کے باغو ں میں (بنے )ہوں گے یہ بڑی کامیابی ہے اورایک اورچیز (تمہیں دے گا) جس کو تم پسند کرتے ہو یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے مدد اور جلدی فتح یابی اورآپ ایمان والوں کو بشارت دے دیجئے۔ اے ایمان والو ! تم اللہ تعالیٰ کے (دین کے ) مددگار بن جاؤ جیسا کہ عیسیٰ ابن مریم (علیہ السلام ) نے اپنے حواریوں سے فرمایاکہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں ہومیرا (تم میں سے ) کون مدد گار ہے! وہ حواری بولے ہم اللہ تعالیٰ (کے دین )کے مددگار ہیں بنی اسرئیل میں سے کچھ لوگ ایمان لائے اور کچھ لوگ منکر رہے پس ہم نے ایمان والوں کو ان کے دشمنوں کے مقابلے میں قوت دی پس وہ غالب ہوگئے۔
اس بارے میں آیات بہت زیادہ ہیں اورجہاد کے فضائل بے شمار ہیں اب میں [مصنفؒ]مختلف فصلوں میں جس قدر آسان ہو اان فضائل کو بیان کرتاہوں۔
فصل
ایمان،فرض نماز اورماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کے بعد جہاد سب سے
افضل ہے:
٭ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ سب سے افضل عمل کون ساہے؟ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا نماز کو اس کے وقت پر پڑھنا ۔ میں نے عرض کیا اس کے بعد کون سا [عمل افضل ہے ] ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کرنا۔ (بخاری۔مسلم)
٭ اسی طرح حضرت قتادہ رضی اللہ تعالیٰ کی روایت میں بھی ہے وہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیا اور آپ نے اس میں جہاد کا تذکرہ فرمایا اورفرض نماز کے علاوہ کسی عمل کو جہاد سے افضل قرار نہیں دیا۔ (ابوداؤد)
٭ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے فرض نماز کے بعد جہاد فی سبیل اللہ میں چہرہ تھکانے اورپاؤں خاک آلود کرنے جیسا کوئی عمل نہیں ہے جس سے جنت کے درجات کو حاصل کیا جاسکے۔ (کتاب الجہاد لابن مبارک)
٭ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے بارے میں آتا ہے کہ نماز کے بعد جہاد ہی کو سب سے افضل عمل سمجھتے تھے۔ (السنن الکبریٰ)
فصل
جہاد فی سبیل اللہ ایمان کے بعد سب سے افضل ترین عمل ہے
٭ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ سب سے افضل عمل کون سا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانا۔ سوال کیا گیا کہ اسکے بعد کونسا عمل [سب سے افضل ہے] آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کرنا پھر پوچھا گیا کہ اسکے بعد کون سا عمل [سب سے افضل ہے] آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا حج مبرور۔ (بخاری ۔مسلم)
فائدہ: اس حدیث شریف میں جہاد کو دیگر تمام اعمال [مثلا ً فرض نماز اوروالدین کے ساتھ حسن سلوک وغیرہ ] سے بھی افضل قراردیا گیا ہے۔ یہ دراصل اس وقت ہے جب جہاد فرض عین ہوجائے جبکہ جہاد کے فرض کفایہ ہونے کی صورت میں حدیث شریف کا معنیٰ یہ ہوگا کہ اس شخص کے لئے جہاد سب سے افضل عمل ہے جس کے والدین نہ ہوں یا انہوں نے اسے جہاد میں جانے کی اجازت دے دی ہو۔
٭ حضرت ماعزرضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیاگیا کہ سب سے افضل عمل کون سا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اللہ وحدہ پر ایمان لانا پھر جہاد کرنا پھر حج مبرور،مشرق ومغرب کے درمیان کے تمام اعمال سے افضل ہے۔ (مسند احمد)
یعنی ایمان اورجہاد کے علاوہ باقی تمام اعمال سے حج افضل ہے۔
٭ حضرت ابوذررضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ سب سے افضل عمل کون سا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا اوراس کے راستے میں جہاد کرنا ۔ میں نے پھر پوچھا کون ساغلام آزاد کرنا افضل ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو اپنے مالک کو پسند ہو اور اس کی قیمت زیادہ ہو۔ (بخاری ۔ مسلم)
٭ حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک بار رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے درمیان کھڑے ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ بے شک جہاد فی سبیل اللہ اوراللہ تعالیٰ پر ایمان لانا اعمال میں سے سب سے افضل عمل ہے۔ [یہ سن کر ] ایک شخص کھڑے ہوئے اورانہوں نے عرض کی اے اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مجھے یہ بتائیے کہ اگر میں اللہ تعالیٰ کے راستے [جہاد] میں مارا گیا تو کیا میرے سارے گناہ بخش دئیے جائیں گے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں [تمہارے گناہ بخش دئیے جائیں گے] ۔ (مسلم)
فصل
ایمان، جہاد اور حج تمام اعمال سے افضل ہیں
٭ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں ک حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ایسا ایمان جس میں شک نہ ہو ایسا جہاد جس میں مال غنیمت کی چوری نہ ہواورحج مبرور اللہ تعالیٰ کے نزدیک اعمال میں سب سے افضل عمل ہیں۔ (موارد الظمآن)
٭ حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ ایک شخص حاضر خدمت ہوئے اور انہوں نے عرض کیا اے اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اعمال میں سے سب سے افضل عمل کون ساہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا اس کے راستے میں جہاد کرنا اورحج مبرور، جب وہ شخص واپس لوٹنے لگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تمہارے لئے اس سے زیادہ آسان اعمال یہ ہیں کہ کھانا کھلانا، نرم گفتگو کرنا، نرم برتاؤ کرنا، اور اچھے اخلاق سے پیش آنا۔ پھر جب وہ شخص واپس لوٹنے لگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تمہارے لئے اس سے بھی زیادہ آسان بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے لئے جس چیز کا فیصلہ فرمادے تو تم اس پر اللہ تعالیٰ سے شکوہ نہ کرو[بلکہ اللہ تعالیٰ کی ہر تقدیر پر خوش رہو]۔ (مسند احمد)
فصل
جہاد اذان دینے سے افضل ہے
حضرت سعد سے روایت ہے کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں اذان دیتے تھے پھر آپ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی زندگی میں بھی اذان دی مگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اے بلال کیا وجہ ہے کہ آپ نے اب اذان چھوڑدی۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہ فرمانے لگے کہ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال تک اذان دی پھر میں نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے وصال تک اذان دی کیونکہ انہوں نے مجھے آزاد کرایا تھا اورمیں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تمہارے اعمال میں جہاد سے بڑھ کر کوئی عمل نہیں ہے۔ اس کے بعد حضرت بلال رضی اللہ عنہ جہاد کے لئے نکل کھڑے ہوئے۔ (ابو یعلی۔ ابن ابی شیبہ)
ایک روایت یہ بھی ہے کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے زمانے ہی میں اذان ترک فرمادی اورجہاد کے لئے روانہ ہوگئے اورانہوں نے مذکورہ بالا حدیث کو بطور دلیل کے پیش فرمایا۔
مصنف رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ اذان ترک فرما کر مدینہ منورہ سے ملک شام جہاد کے لئے تشریف لے گئے اوروہیں آپ کا ۲۶ ہجری میں انتقال ہوا دمشق میں باب کیسان نامی جگہ پر مدفون ہوئے یہ واقدی کی روایت ہے جبکہ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ آپ کی آخری آرام گاہ حلب میں ہے۔ واللہ اعلم۔
فصل
حجاج کو پانی پلانے اورمسجد حرام کو آباد رکھنے سے بھی جہاد افضل ہے
٭ حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے منبر کے پاس بیٹھا ہواتھا کہ ایک شخص کہنے لگے میں تو اسلام لانے کے بعد سب اعمال کی بنسبت حجاج کرام کو پانی پلانازیادہ بہتر سمجھتا ہوں ایک دوسرے صاحب کہنے لگے میں تو اسلام کے بعد دوسرے اعمال کی بنسبت مسجد حرام کو آباد رکھنا زیادہ بہتر سمجھتا ہوں۔ ایک اور صاحب نے کہا تم دونوں کی بات درست نہیں ہے بلکہ جہاد فی سبیل اللہ ان سب اعمال سے زیادہ افضل ہے جن کا تذکرہ تم نے کیا ہے [یہ گفتگو جاری تھی کہ ] حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان حضرات کو تنبیہہ فرمائی کہ آج جمعہ کادن ہے آپ لو گ منبر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنی آوازوں کو بلند نہ کریں البتہ جمعہ کی نماز کے بعد میں تمہارے اس مسئلے کے بارے میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کروں گا اس پر قرآن کی یہ آیت نازل ہوئی۔
(۱)[ARABIC]
أَجَعَلْتُمْ سِقَايَةَ الْحَاجِّ وَعِمَارَةَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ كَمَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ وَجَاهَدَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ لا يَسْتَوُونَ عِنْدَ اللَّهِ وَاللَّهُ لا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ[/ARABIC] ۔ (التوبہ۔ ۱۹)
کیا تم نے حجاج کے پانی پلانے کو اور مسجد حرام کے آباد رکھنے کو اس شخص (کے عمل) کے برابر قرار دے دیا جو اللہ تعالیٰ پراور آخرت کے دن پر ایمان لایا ہو اور اس نے اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کیا ہو یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے نزدیک برابر نہیں ہیں اور اللہ تعالیٰ راستہ نہیں دیتے ظالموں کو۔
٭ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ارشادفرماتی ہیں کہ میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا اے اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہم [عورتیں] جہاد کو تمام اعمال سے افضل سمجھتی ہیں تو کیا ہم جہاد میں نہ نکلیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تمہارے لئے افضل ترین جہاد حج مبرور ہے۔ (بخاری)