کیا جنت میں بوڑھے بھی جائیں گے؟[/QUOTE]
ایک روایت پیش کی جاتی ہے کہ
عن الحارث عن علي قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ابو بكر وعمر سيدا كهول اهل الجنة من الاولين والآخرين إلا النبيين والمرسلين لا تخبرهما يا علي ما داما حيين
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابوبکرو عمر نبیوں اور رسولوں کے علاوہ جملہ اولین و آخرین میں سے جنتیوں کے كهول کے سردار ہوں گے، اور فرمایا اے علی! جب تک وہ دونوں زندہ رہیں انہیں یہ بات نہ بتانا
دین کوئی ایسی بات نہیں جو نبی علیہ السلام نے چھپائی ہو یا اس کو ظاہر نہ کرنے کا حکم دیا ہو لیکن اس کے باوجود
اس روایت کو البانی صحیح کہتے ہیں
روایت میں «كہول» کا لفظ ہے جو جمع ہے «كہل» کی- «كہل» سے مراد وہ مرد ہوتے ہیں جن کی عمر تیس سے متجاوز ہو گئی ہو، اور بعضوں نے کہا چالیس سے اور بعضوں نے تینتیس سے پچپن تک- تاریخ کے مطابق حسن کی پیدائش ٣ ہجری اور وفات ٥٠ ہجری میں ہوئی اور حسین کی پیدائش ٤ ہجری اور شہادت ٦١ ہجری میں ہوئی -
حسین رضی الله عنہ کی شہادت کے وقت ٥٧ سال عمر تھی اور حسن رضی الله عنہ کی ٤٧ سال تھی لہذا دونوں اس کھول کی تعریف پر پورا اترتے ہیں- لہذا ابو بکر ہوں یا عمر یا حسن یا حسین سب کھول بن کر اس دنیا سے گئے –
حُذَيْفَةَ رضی الله عنہ کی سند
ایک دوسری روایت ہے
أَنَّ الْحَسَنَ، وَالْحُسَيْنَ سَيِّدَا شَبَابِ أَهْلِ الْجَنَّةِ
اس روایت کو ترمذی نے بھی عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ مَيْسَرَةَ بْنِ حَبِيبٍ، عَنْ المِنْهَالِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ زِرِّ بْنِ حُبَيْشٍ، عَنْ حُذَيْفَةَ کی سند سے نقل کیا ہے اور وہ کہتے ہیں
هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الوَجْهِ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ إِسْرَائِيلَ
یہ حدیث حسن غریب ہے اس طرق سے اس کو ہم نہیں جانتے سوائے اسرئیل کی سند سے
سند میں إِسْرَائِيلَ بْنُ يُونُسَ بن أبى إسحاق السبيعى الهمدانى ہے
مسند احمد میں یہ إِسْرَائِيلُ، عَنِ ابْنِ أَبِي السَّفَرِ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ حُذَيْفَةَ کی سند سے نقل ہوئی ہے
الذھبی سیر الاعلام میں لکھتے ہیں
وَرَوَى: عَبَّاسٌ، عَنْ يَحْيَى بنِ مَعِيْنٍ، قَالَ: كَانَ القَطَّانُ لاَ يُحَدِّثُ عَنْ إِسْرَائِيْلَ، وَلاَ عَنْ شَرِيْكٍ.
عبّاس کہتے ہیں کہ يَحْيَى بنِ مَعِيْنٍ کہتے ہیں کہ یحیی القَطَّانُ اسرائیل اور شریک سے روایت نہیں کرتے تھے
احمد کہتے ہیں یہ مناکیر روایت کرتے ہیں
إِسْرَائِيلَ بْنُ يُونُسَ صحیحین کے راوی ہیں لیکن ان کی ظاہر ہے بعض مناکیر نقل نہیں کی گئیں- سند میں المِنْهَالِ بْنِ عَمْرٍو بھی ہے جو روایت کرتا تھا کہ معاویہ نے سنت کو بدلا اور علی صدیق اکبر ہیں لہذا ایسے مفرط شیعوں کی روایت کس طرح قابل قبول ہے؟
روایت کی ایک تاویل کی جاتی ہے کہ اس دنیا کے وہ لوگ جو جوانی میں ہلاک ہوئے ان کے سردار حسنین ہوں گے
لیکن حدیث کے الفاظ اس مفروضے کے خلاف ہیں کیونکہ اس میں ہے کہ اہل جنت کے جوانوں کے سردار حسنین ہوں گے
یہ مفروضہ اس لئے گھڑا گیا کیونکہ دیگر صحیح روایات کے مطابق جنت میں سب ہی جوان ہوں گے جن میں انبیاء و رسل
بھی شامل ہیں اس حساب سے زیر بحث روایت حسنین کو انبیاء و رسل کا سردار بھی بنا دیتی ہے جو اہل جنت میں سے ہیں
أَبِي سَعِيدٍ رضی الله عنہ کی سند
یہ روایت ایک اور سند سے بھی ترمذی اور مسند احمد میں آئی ہے
حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي نُعْمٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الْحَسَنُ وَالْحُسَيْنُ سَيِّدَا شَبَابِ أَهْلِ الْجَنَّةِ
اس کی سند میں عبد الرحمن بن أبي نعم البجلي ہیں جن کے لئے میزان میں الذھبی لکھتے ہیں كوفي، تابعي مشهور ہیں
وقال أحمد بن أبي خيثمة، عن ابن معين، قال: ابن أبي نعم ضعيف، كذا
نقل ابن القطان، وهذا لم يتابعه عليه أحد.
ابن معین، ابن القطان ان کو ضعیف کہتے ہیں
عبد الرحمن بن أبي نعم البجلي صحیحین کے راوی ہیں لیکن یہ مخصوص روایت صحیح میں نہیں دوم ان سے سنے والے يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ ہیں جو کوفہ کے کٹر شیعہ ہیں
أبي هُرَيْرَة رضی الله عنہ کی سند
نسائی نے یہ روایت کتاب خصائص علی میں أبي هُرَيْرَة کی سند سے نقل کی ہے
أخبرنَا مُحَمَّد بن مَنْصُور قَالَ حَدثنَا الزبيرِي مُحَمَّد بن عبد الله قَالَ حَدثنَا أَبُو جَعْفَر واسْمه مُحَمَّد بن مَرْوَان قَالَ حَدثنِي أَبُو حَازِم عَن أبي هُرَيْرَة قَالَ أَبْطَأَ رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم عَنَّا يَوْم صدر النَّهَار فَلَمَّا كَانَ العشى قَالَ لَهُ قائلنا يَا رَسُول الله قد شقّ علينا لم نرك الْيَوْم قَالَ إِن ملكا من السَّمَاء لم يكن رَآنِي فَأَسْتَأْذِن الله فِي زيارتي فَأَخْبرنِي أَو بشرني أَن فَاطِمَة ابْنَتي سيدة نسَاء أمتِي وَإِن حسنا وَحسَيْنا سيدا شباب أهل الْجنَّة
محمد بن مروان الذهلى ، أبو جعفر الكوفى مجھول ہے جس کا کسی نے ذکر نہیں کیا
ابن عمر رضی الله عنہ کی سند
ابن ماجہ کی روایت ہے
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُوسَى الْوَاسِطِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا الْمُعَلَّى بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: “الْحَسَنُ وَالْحُسَيْنُ سَيِّدَا شَبَابِ أَهْلِ الْجَنَّةِ، وَأَبُوهُمَا خَيْرٌ مِنْهُمَا”
حسن و حسین اہل جنت کے سردار ہیں اور ان کے باپ ان سے بہتر ہیں
ضعفاء العقيلي کے مطابق
قال أَبُو داود : سمعت يحيى بْن مَعِين: وسئل عن المعلى ابن عَبْد الرحمن – فقال: أحسن أحواله عندي أنه قيل لَهُ عند موته: ألا تستغفر اللَّهِ. فقال: ألا أرجو أن يغفر لي وقد وضعت فِي فضل علي بْن أَبي طالب سبعين حديثا
ابو داود کہتے ہیں میں نے يحيى بْن مَعِين سے سنا اور ان سے المعلى ابن عَبْد الرحمن کے حوالے سے سوال کیا انہوں نے کہا کہ میرے نزدیک اس کا حال احسن ہے ان کی موت کے وقت ان سے کہا گیا کہ آپ الله سے توبہ کریں پس کہا بے شک میں امید رکھتا ہوں کہ میری مغفرت ہو گی اور میں نے علی بن ابی طالب کی فضیلت میں ٧٠ حدیث گھڑیں
البانی اس روایت کو صحیح کہتے ہیں اور امام حاکم مستدرک میں اس کو اسی سند سے نقل کرتے ہیں
چونکہ یہ تمام روایات ضعیف ہیں لہذا یہ روایت امام ترمذی کے حساب سے حسن ہے – اس کو منقبت میں پیش کیا جاتا ہے لیکن اس کا متن جلیل القدر اصحاب رسول کو بھی حسن و حسین کی سرداری قبول کروا رہا ہے حالانکہ خود ان اصحاب رسول نے اپنی زندگی میں حسین کی بغاوت کو قبول نہیں کیا
ابن عمر رضی الله عنہ کا موقف خروج حسین پرامام بخاری بیان کرتے ہیں کہ
باب إِذَا قَالَ عِنْدَ قَوْمٍ شَيْئًا، ثُمَّ خَرَجَ فَقَالَ بِخِلاَفِهِ
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ نَافِعٍ قَالَ لَمَّا خَلَعَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ يَزِيدَ بْنَ مُعَاوِيَةَ جَمَعَ ابْنُ عُمَرَ حَشَمَهُ وَوَلَدَهُ فَقَالَ إِنِّى سَمِعْتُ النَّبِىَّ – صلى الله عليه وسلم – يَقُولُ «يُنْصَبُ لِكُلِّ غَادِرٍ لِوَاءٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ». وَإِنَّا قَدْ بَايَعْنَا هَذَا الرَّجُلَ عَلَى بَيْعِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ، وَإِنِّى لاَ أَعْلَمُ غَدْرًا أَعْظَمَ مِنْ أَنْ يُبَايَعَ رَجُلٌ عَلَى بَيْعِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ، ثُمَّ يُنْصَبُ
نافع کہتے ہیں کہ جب مدینہ والوں نے يَزِيدَ بْنَ مُعَاوِيَةَ کی بیعت توڑی تو عبدللہ ابن عمر رضی الله تعالیٰ عنہ نے اپنے خاندان والوں کو جمع کیا اور کہا کہ میں نے نبی صلی الله علیہ وسلم سے سنا ہے کہ ہر دغا باز کے لئے قیامت کے دن اک جھنڈا گا ڑھا جائے گا – اور بے شک میں نے اس آدمی کی بیعت کی ہے الله اور اس کے رسول (کی اتبا ع پر) اور میں کوئی ایسا بڑا عذر نہیں جانتا کہ کسی کی الله اور رسول کے لئے بیعت کی جائے اور پھر توڑی جائے
عبد الله ابن عمر رضی الله عنہ کی رائے یزید کے خلاف خروج کرنے والوں کے لئے کتنی سخت ہے مسلم بَابُ الْأَمْرِ بِلُزُومِ الْجَمَاعَةِ عِنْدَ ظُهُورِ الْفِتَنِ وتحذير الدعاة إلى الكفر کی حدیث ہے
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللهِ بْنُ مُعَاذٍ الْعَنْبَرِيُّ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا عَاصِمٌ وَهُوَ ابْنُ مُحَمَّدِ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ نَافِعٍ، قَالَ: جَاءَ عَبْدُ اللهِ بْنُ عُمَرَ إِلَى عَبْدِ اللهِ بْنِ مُطِيعٍ حِينَ كَانَ مِنْ أَمْرِ الْحَرَّةِ مَا كَانَ، زَمَنَ يَزِيدَ بْنِ مُعَاوِيَةَ، فَقَالَ: اطْرَحُوا لِأَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ وِسَادَةً، فَقَالَ: إِنِّي لَمْ آتِكَ لِأَجْلِسَ، أَتَيْتُكَ لِأُحَدِّثَكَ حَدِيثًا سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُهُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «مَنْ خَلَعَ يَدًا مِنْ طَاعَةٍ، لَقِيَ اللهَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ لَا حُجَّةَ لَهُ، وَمَنْ مَاتَ وَلَيْسَ فِي عُنُقِهِ بَيْعَةٌ، مَاتَ مِيتَةً جَاهِلِيَّةً»
نافع کہتے ہیں عبد الله ابن عمر عبد الله بن نِ مُطِيعٍ کے پاس گئے جب حرہ میں ہوا جو ہوا یزید بن معاویہ کے دور میں اس نے کہا ابی عبد الرحمان اور ان کے سرداروں کے لئے ہٹاؤ عبد الله ابن عمر نے کہا میں یہاں بیٹھنے نہیں آیا تم کو رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی ایک حدیث سنانے آیا ہوں جو رسول الله سے سنی کہ جو اطاعت میں سے ایک ہاتھ نکلا اس کی الله سے ایسے ملاقات ہو گی کہ اس کے پاس کوئی حجت نہ ہو گی اور جو مرا کہ اس کی گردن پر اطاعت کی بیعت نہ ہو تو وہ جاہلیت کو موت مرا
جو اصحاب رسول زندگی میں حسین کو سردار نہیں مان رہے وہ ان کو اہل جنت کا سردار کہیں نہایت عجیب بات ہے جو ظاہر کرتی ہے کہ یہ روایت مشکوک ہے
واضح رہے کہ بحث اس پر ہے ہی نہیں کہ حسنین اہل بہشت میں سے ہیں یا نہیں- بحث اس مسئلہ پر ہے کہ کیا جنت میں بھی اس دنیا کی طرح کا کوئی نظام ہے جس میں سردار یا غیر سردار کی تقسیم ہو گی
قرآن جو نقشہ کھینچتا ہے اس میں تو سب جنتی سرداروں کی طرح مسندوں پر ہوں گے
گروہ بندی اور سرداری تو دنیا کی سیاست کے معاملات ہیں جن میں ایک گروہ کسی سردار پر متفق ہوتا ہے اور
اس کی سربراہی میں کام کرتا ہے جبکہ جنت تو کسی بھی سیاست سے پاک ہو گی اوراس طرح کی گروہ بندی یا سرداری کا کوئی تصور باقی نہیں رہتا اب
چونکہ یہ کہنا ہی صحیح نہیں لہذا یہ ایک مہمل بات بنتی ہے جو حدیث رسول نہیں ہو سکتی
ابو بکر صدیق رضی الله عنہ کہتے ہیں
ارقبوا محمدًا صلی اللہ علیہ وسلم في أھل بیتہ
محمد صلی الله علیہ وسلم کے اہلِ بیت (سے محبت) میں آپ صلی الله علیہ وسلم کی محبت تلاش کرو۔
صحیح البخاری
لیکن محبت میں غلو سب کے لئے منع ہے اور اس میں احتیاط ضروری ہے
جب تک ہمیں معلومات ہیں،جنت میں تمام جوان ہو کر جائیں گے ،کوئی بوڑھا نہیں جاسکے گا،اس سلسلے میں حضرت سلمان فارسی کی روایت بھی ہے۔