• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

یزید کا معاملہ نئے اہلحدیثوں کے لئے پریشانی کا باعث تو نہیں؟

شمولیت
دسمبر 10، 2013
پیغامات
386
ری ایکشن اسکور
137
پوائنٹ
91
فیض الابرار بھائی آپ کو ان بکس میں میسیج کر دیا ہے
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
یزید کون تھا اس کا جرم کیا تھا ؟ ویڈیو دیکھیں



لنک



اس گفتگو میں بھی وہی روایتی انداز اور اسلوب موجود ہے جس کے تحت حسب سابق الزامات اور ضعیف روایات پر انحصار کرتے ہوئے قصہ ختم کر دیا ہے
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
یزید بن معاویہ کے بارہ میں ہماراموقف :

میں نے یذيد بن معاویہ کے بارہ میں سنا ہے کہ وہ کسی زمانے میں مسلمانوں کا خلیفہ رہا ہے ، اوروہ بہت نشئ‏ اوربے کار شخص اورحقیقی مسلمان نہيں تھا ، توکیا یہ صحیح ہے ؟

آپ سے گزارش ہے کہ آپ مجھے تاریخی حوالہ سے بتائيں ۔


الحمد للہ :

نام ونسب :

اس کا نام یزید بن معاویہ بن ابوسفیان بن حرب بن امیہ الاموی الدمشقی تھا ۔

امام ذھبی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں کہ :

یزید قسطنطنیہ پرحملہ کرنے والے لشکر کا امیر تھا جس میں ابوایوب انصاری رضی اللہ تعالی عنہ جیسے صحابی شامل تھے ، اس کے والد امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ نے اسے ولی عھد بنایا اور اپنے والد کی وفات کے بعد تیس برس کی عمر کے میں رجب ساٹھ ھجری 60 ھ میں زمام اقدار ہاتھ میں لی اورتقریبا چار
برس سے کم حکومت کی ۔

اوریزید ایسے لوگوں میں سے ہے جنہیں نہ توہم برا کہتے اورنہ ہی اس سے محبت کرتےہیں ، اس طرح کے کئ ایک خلیفہ اموی اورعباسی دورحکومت میں پاۓ گۓ ہيں ، اور اسی طرح ارد گرد کے بادشاہ بھی بلکہ کچھ تو ایسے بھی تھے جو يزید سے بد تر تھے ۔

اس کی شان و شوکت عظیم اس لیے ہوگئ کہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے انچاس 49 برس بعد حکمران بنا جو کہ عھد قریب ہے اورصحابہ کرام موجود تھے مثلا عبداللہ بن عمر رضي اللہ تعالی عنہ جو کہ اس سے اوراس کے باب دادا سے بھی زیادہ اس معاملہ کے مستحق تھے ۔

اس نے اپنی حکومت کا آغاز حسین رضي اللہ تعالی عنہ کی شھادت سے اوراس کی حکومت کا اختتام واقعہ حرہ سے ہوا ، تولوگ اسے ناپسند کرنے لگے اس کی عمرمیں برکت نہیں پڑی ، اورحسین رضی اللہ تعالی عنہ کے بعد کئ ایک لوگوں نے اس کے خلاف اللہ تعالی کے لیے خروج کیا مثلا اھل مدینہ اور ابن زبیر رضی اللہ تعالی عنہ ۔ دیکھیں : سیراعلام النبلاء ( 4 / 38 ) ۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی نے یزيد بن معاویہ کے بارہ میں موقف بیان کرتے ہوۓ کہا ہے :

یزيد بن معاویہ بن ابی سفیان کے بارہ میں لوگوں کے تین گروہ ہيں : ایک توحد سے بڑھا ہوا اوردوسرے بالکل ہی نیچے گرا ہوا اورایک گروہ درمیان میں ہے ۔

جولوگ توافراط اورتفریط سے کام لینے والے دو گروہ ہیں ان میں سے ایک تو کہتا ہے کہ یزید بن معاویہ کافر اورمنافق ہے ، اس نے نواسہ رسول حسین رضي اللہ تعالی عنہ کو قتل کرکے اپنے بڑوں عتبہ اورشیبہ اور ولید بن عتبہ وغیرہ جنہیں جنگ بدر میں علی بن ابی طالب اور دوسرے صحابہ نے قتل کیا تھا ان کا انتقام اور بدلہ لیا ہے ۔

تواس طرح کی باتیں اوریہ قول رافضیوں اورشیعہ کی ہیں جو ابوبکر و عمر اور عثمان رضي اللہ تعالی عنہم کو کافر کہتے ہیں توان کے ہاں یزید کو کافرقرار دینا تواس سے بھی زيادہ اسان کام ہے ۔

اور اس کے مقابلہ میں دوسرا گروہ یہ خیال کرتا ہے کہ وہ ایک نیک اورصالح شخص اورعادل حکمران تھا ، اور وہ ان صحابہ کرام میں سے تھا جونبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں پیدا ہوۓ اوراسے اپنے ھاتھوں میں اٹھایااور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کےلیے برکت کی دعا فرمائ ، اوربعض اوقات تووہ اسے ابوبکر ، عمر رضي اللہ تعالی عنہما سے سے افضل قرار دیتے ہیں ، اورہو سکتا کہ بعض تو اسے نبی ہی بنا ڈاليں ۔

تو یہ دونوں گروہ اور ان کےقول صحیح نہیں اورہراس شخص کے لیے اس کا باطل ہونا نظرآتا ہے جسے تھوڑی سی بھی عقل ہے اور وہ تھوڑ ابہت تاريخ کو جانتا ہے وہ اسے باطل ہی کہے گا ، تواسی لیے معروف اہل علم جو کہ سنت پرعمل کرنے والے ہیں کسی سے بھی یہ قول مروی نہیں اور نہ ہی کسی کی طرف منسوب ہی کیا جاتا ہے ، اوراسی طرح عقل وشعور رکھنے والوں کی طرف بھی یہ قول منسوب نہيں ۔

اورتیسرا قول یا گروہ یہ ہے کہ :

یزید مسلمان حکمرانوں میں سے ایک حکمران تھا اس کی برائیاں اور اچھایاں دونوں ہيں ، اور اس کی ولادت بھی عثمان رضي اللہ تعالی عنہ کی خلافت میں ہوئ ہے ، اور وہ کافر نہيں ، لیکن اسباب کی بنا پر حسین رضي اللہ تعالی عنہ کے ساتھ جوکچھ ہوا اوروہ شھید ہوۓ ، اس نے اہل حرہ کے ساتھ جو کیا سو کیا ، اوروہ نہ توصحابی تھا اور نہ ہی اللہ تعالی کا ولی ، یہ قول ہی عام اہل علم و عقل اوراھل سنت والجماعت کا ہے ۔

لوگ تین فرقوں میں بٹے گۓ ہیں ایک گروہ تواس پرسب وشتم اور لعنت کرتا اور دوسرا اس سے محبت کا اظہار کرتا ہے اورتیسرا نہ تواس سے محبت اورنہ ہی اس پر سب وشتم کرتا ہے ، امام احمد رحمہ اللہ تعالی اوراس کے اصحاب وغیرہ سے یہی منقول ہے ۔

امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ تعالی کے بیٹے صالح بن احمد کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد سے کہا کہ : کچھ لوگ تو یہ کہتے ہیں کہ ہم یزید سے محبت کرتے ہیں ، توانہوں نے جواب دیا کہ اے بیٹے کیا یزید کسی سے بھی جو اللہ تعالی اوریوم آخرت پرایمان لایا ہو سے محبت کرتا ہے !!

تو میں نے کہا تو پھر آپ اس پر لعنت کیوں نہیں کرتے ؟ توانہوں نےجواب دیا بیٹے تونےاپنے باپ کو کب دیکھا کہ وہ کسی پرلعنت کرتا ہو ۔

اورابومحمد المقدسی سے جب یزيد کے متعلق پوچھا گیا توکچھ مجھ تک پہنچا ہے کہ نہ تواسے سب وشتم کیا جاۓ اور نہ ہی اس سے محبت کی جاۓ ، اورکہنے لگے : مجھے یہ بھی پہنچا ہے کہ کہ ہمارے دادا ابوعبداللہ بن تیمیۃ رحمہ اللہ تعالی سے یزيد کےبارہ میں سوال کیا گیا توانہوں نے جواب دیا :
ہم نہ تواس میں کچھ کمی کرتےہیں اورنہ ہی زيادتی ،۔

اقوال میں سب سے زيادہ عدل والا اوراچھا و بہتر قول یہی ہے ۔ ا ھـ

مجموع الفتاوی شیخ الاسلام ابن تیمیہ ( 4 / 481 - 484 ) ۔

واللہ تعالی اعلم .
الشیخ محمد صالح المنجد

http://islamqa.info/ur/14007

 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
ابو ذید ضمیر حفظہ اللہ



####
 
Last edited by a moderator:

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
عرض ہے کہ میرے پاس یو ٹیوب نہیں چلتا اور دوسری بات یہ ہے کہ جب ہمیں معلوم ہے کہ یزید رحمہ اللہ قتل حسین رضی اللہ عنہ سے بری تھا تو ہم خاموش کیوں رہیں اور اس کی برات کا اظہار سرعام کیوں نہ کریں اگر یزید رحمہ اللہ کا فسق و فجور ثابت کرنا ہو تو علی الاعلان کریں لیکن اگر ان کی اچھائی بیان کرنی ہو تو خاموش رہیں
اور آخر کب تک کس کس بات پر ہم خاموش رہنے کا منھج اختیار کرتے رہیں گے شیخ الاسلام نے اس پر سابقین کے موقف نقل کر دیے ہیں اور بس
 
Last edited by a moderator:

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
اعتدال پرستی اچھی بات ہے لیکن جہاں اس کی مناسبت ہو ہر جگہ نہیں شادی شدہ زانی کو انتہائی سخت سزا دی جاتی ہے اور قحط سالی میں سید نا عمر رضی اللہ عنہ نے ایک چور کے ہاتھ نہیں کاتے تھے
ہر امر کا مناسب موقع ہوتا ہے
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
عرض ہے کہ میرے پاس یو ٹیوب نہیں چلتا اور دوسری بات یہ ہے کہ جب ہمیں معلوم ہے کہ یزید رحمہ اللہ قتل حسین رضی اللہ عنہ سے بری تھا تو ہم خاموش کیوں رہیں اور اس کی برات کا اظہار سرعام کیوں نہ کریں اگر یزید رحمہ اللہ کا فسق و فجور ثابت کرنا ہو تو علی الاعلان کریں لیکن اگر ان کی اچھائی بیان کرنی ہو تو خاموش رہیں
اور آخر کب تک کس کس بات پر ہم خاموش رہنے کا منھج اختیار کرتے رہیں گے شیخ الاسلام نے اس پر سابقین کے موقف نقل کر دیے ہیں اور بس
بھائی بہت پیارا لیکچر دیا ہے شیخ نے ایک دفعہ ضرور سنیں

ابو ذید ضمیر حفظہ اللہ



###
 
Last edited by a moderator:

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
یزید بن معاویہ کے بارہ میں ہماراموقف :

میں نے یذيد بن معاویہ کے بارہ میں سنا ہے کہ وہ کسی زمانے میں مسلمانوں کا خلیفہ رہا ہے ، اوروہ بہت نشئ‏ اوربے کار شخص اورحقیقی مسلمان نہيں تھا ، توکیا یہ صحیح ہے ؟

آپ سے گزارش ہے کہ آپ مجھے تاریخی حوالہ سے بتائيں ۔


الحمد للہ :

نام ونسب :

اس کا نام یزید بن معاویہ بن ابوسفیان بن حرب بن امیہ الاموی الدمشقی تھا ۔

امام ذھبی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں کہ :

یزید قسطنطنیہ پرحملہ کرنے والے لشکر کا امیر تھا جس میں ابوایوب انصاری رضی اللہ تعالی عنہ جیسے صحابی شامل تھے ، اس کے والد امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ نے اسے ولی عھد بنایا اور اپنے والد کی وفات کے بعد تیس برس کی عمر کے میں رجب ساٹھ ھجری 60 ھ میں زمام اقدار ہاتھ میں لی اورتقریبا چار
برس سے کم حکومت کی ۔

اوریزید ایسے لوگوں میں سے ہے جنہیں نہ توہم برا کہتے اورنہ ہی اس سے محبت کرتےہیں ، اس طرح کے کئ ایک خلیفہ اموی اورعباسی دورحکومت میں پاۓ گۓ ہيں ، اور اسی طرح ارد گرد کے بادشاہ بھی بلکہ کچھ تو ایسے بھی تھے جو يزید سے بد تر تھے ۔

اس کی شان و شوکت عظیم اس لیے ہوگئ کہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے انچاس 49 برس بعد حکمران بنا جو کہ عھد قریب ہے اورصحابہ کرام موجود تھے مثلا عبداللہ بن عمر رضي اللہ تعالی عنہ جو کہ اس سے اوراس کے باب دادا سے بھی زیادہ اس معاملہ کے مستحق تھے ۔

اس نے اپنی حکومت کا آغاز حسین رضي اللہ تعالی عنہ کی شھادت سے اوراس کی حکومت کا اختتام واقعہ حرہ سے ہوا ، تولوگ اسے ناپسند کرنے لگے اس کی عمرمیں برکت نہیں پڑی ، اورحسین رضی اللہ تعالی عنہ کے بعد کئ ایک لوگوں نے اس کے خلاف اللہ تعالی کے لیے خروج کیا مثلا اھل مدینہ اور ابن زبیر رضی اللہ تعالی عنہ ۔ دیکھیں : سیراعلام النبلاء ( 4 / 38 ) ۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی نے یزيد بن معاویہ کے بارہ میں موقف بیان کرتے ہوۓ کہا ہے :

یزيد بن معاویہ بن ابی سفیان کے بارہ میں لوگوں کے تین گروہ ہيں : ایک توحد سے بڑھا ہوا اوردوسرے بالکل ہی نیچے گرا ہوا اورایک گروہ درمیان میں ہے ۔

جولوگ توافراط اورتفریط سے کام لینے والے دو گروہ ہیں ان میں سے ایک تو کہتا ہے کہ یزید بن معاویہ کافر اورمنافق ہے ، اس نے نواسہ رسول حسین رضي اللہ تعالی عنہ کو قتل کرکے اپنے بڑوں عتبہ اورشیبہ اور ولید بن عتبہ وغیرہ جنہیں جنگ بدر میں علی بن ابی طالب اور دوسرے صحابہ نے قتل کیا تھا ان کا انتقام اور بدلہ لیا ہے ۔

تواس طرح کی باتیں اوریہ قول رافضیوں اورشیعہ کی ہیں جو ابوبکر و عمر اور عثمان رضي اللہ تعالی عنہم کو کافر کہتے ہیں توان کے ہاں یزید کو کافرقرار دینا تواس سے بھی زيادہ اسان کام ہے ۔

اور اس کے مقابلہ میں دوسرا گروہ یہ خیال کرتا ہے کہ وہ ایک نیک اورصالح شخص اورعادل حکمران تھا ، اور وہ ان صحابہ کرام میں سے تھا جونبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں پیدا ہوۓ اوراسے اپنے ھاتھوں میں اٹھایااور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کےلیے برکت کی دعا فرمائ ، اوربعض اوقات تووہ اسے ابوبکر ، عمر رضي اللہ تعالی عنہما سے سے افضل قرار دیتے ہیں ، اورہو سکتا کہ بعض تو اسے نبی ہی بنا ڈاليں ۔

تو یہ دونوں گروہ اور ان کےقول صحیح نہیں اورہراس شخص کے لیے اس کا باطل ہونا نظرآتا ہے جسے تھوڑی سی بھی عقل ہے اور وہ تھوڑ ابہت تاريخ کو جانتا ہے وہ اسے باطل ہی کہے گا ، تواسی لیے معروف اہل علم جو کہ سنت پرعمل کرنے والے ہیں کسی سے بھی یہ قول مروی نہیں اور نہ ہی کسی کی طرف منسوب ہی کیا جاتا ہے ، اوراسی طرح عقل وشعور رکھنے والوں کی طرف بھی یہ قول منسوب نہيں ۔

اورتیسرا قول یا گروہ یہ ہے کہ :

یزید مسلمان حکمرانوں میں سے ایک حکمران تھا اس کی برائیاں اور اچھایاں دونوں ہيں ، اور اس کی ولادت بھی عثمان رضي اللہ تعالی عنہ کی خلافت میں ہوئ ہے ، اور وہ کافر نہيں ، لیکن اسباب کی بنا پر حسین رضي اللہ تعالی عنہ کے ساتھ جوکچھ ہوا اوروہ شھید ہوۓ ، اس نے اہل حرہ کے ساتھ جو کیا سو کیا ، اوروہ نہ توصحابی تھا اور نہ ہی اللہ تعالی کا ولی ، یہ قول ہی عام اہل علم و عقل اوراھل سنت والجماعت کا ہے ۔

لوگ تین فرقوں میں بٹے گۓ ہیں ایک گروہ تواس پرسب وشتم اور لعنت کرتا اور دوسرا اس سے محبت کا اظہار کرتا ہے اورتیسرا نہ تواس سے محبت اورنہ ہی اس پر سب وشتم کرتا ہے ، امام احمد رحمہ اللہ تعالی اوراس کے اصحاب وغیرہ سے یہی منقول ہے ۔

امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ تعالی کے بیٹے صالح بن احمد کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد سے کہا کہ : کچھ لوگ تو یہ کہتے ہیں کہ ہم یزید سے محبت کرتے ہیں ، توانہوں نے جواب دیا کہ اے بیٹے کیا یزید کسی سے بھی جو اللہ تعالی اوریوم آخرت پرایمان لایا ہو سے محبت کرتا ہے !!

تو میں نے کہا تو پھر آپ اس پر لعنت کیوں نہیں کرتے ؟ توانہوں نےجواب دیا بیٹے تونےاپنے باپ کو کب دیکھا کہ وہ کسی پرلعنت کرتا ہو ۔

اورابومحمد المقدسی سے جب یزيد کے متعلق پوچھا گیا توکچھ مجھ تک پہنچا ہے کہ نہ تواسے سب وشتم کیا جاۓ اور نہ ہی اس سے محبت کی جاۓ ، اورکہنے لگے : مجھے یہ بھی پہنچا ہے کہ کہ ہمارے دادا ابوعبداللہ بن تیمیۃ رحمہ اللہ تعالی سے یزيد کےبارہ میں سوال کیا گیا توانہوں نے جواب دیا :
ہم نہ تواس میں کچھ کمی کرتےہیں اورنہ ہی زيادتی ،۔

اقوال میں سب سے زيادہ عدل والا اوراچھا و بہتر قول یہی ہے ۔ ا ھـ

مجموع الفتاوی شیخ الاسلام ابن تیمیہ ( 4 / 481 - 484 ) ۔

واللہ تعالی اعلم .
الشیخ محمد صالح المنجد

http://islamqa.info/ur/14007

امام ابن كثير رحمه الله (المتوفى774)نے امام مدائنى کی روایت مع سند نقل کرتے ہوئے کہا:وقد رواه أبو الحسن على بن محمد بن عبد الله بن أبى سيف المدائنى عن صخر بن جويرية عن نافع ۔۔۔۔۔۔۔۔ ولما رجع أهل المدينة من عند يزيد مشى عبد الله بن مطيع وأصحابه إلى محمد بن الحنفية فأرادوه على خلع يزيد فأبى عليهم فقال ابن مطيع إن يزيد يشرب الخمر ويترك الصلاة ويتعدى حكم الكتاب فقال لهم ما رأيت منه ما تذكرون وقد حضرته وأقمت عنده فرأيته مواضبا على الصلاة متحريا للخير يسأل عن الفقه ملازما للسنة قالوا فان ذلك كان منه تصنعا لك فقال وما الذى خاف منى أو رجا حتى يظهر إلى الخشوع أفأطلعكم على ما تذكرون من شرب الخمر فلئن كان أطلعكم على ذلك إنكم لشركاؤه وإن لم يطلعكم فما يحل لكم أن تشهدوا بما لم تعلموا قالوا إنه عندنا لحق وإن لم يكن رأيناه فقال لهم أبى الله ذلك على أهل الشهادة فقال : ’’ إِلَّا مَنْ شَهِدَ بِالْحَقِّ وَهُمْ يَعْلَمُونَ ‘‘ ولست من أمركم فى شىء قالوا فلعلك تكره أن يتولى الأمر غيرك فنحن نوليك أمرنا قال ما أستحل القتال على ما تريدوننى عليه تابعا ولا متبوعا قالوا فقد قاتلت مع أبيك قال جيئونى بمثل أبى أقاتل على مثل ما قاتل عليه فقالوا فمر ابنيك أبا القاسم والقاسم بالقتال معنا قال لو أمرتهما قاتلت قالوا فقم معنا مقاما تحض الناس فيه على القتال قال سبحان الله آمر الناس بما لا أفعله ولا أرضاه إذا ما نصحت لله فى عباده قالوا إذا نكرهك قال إذا آمر الناس بتقوى الله ولا يرضون المخلوق بسخط الخالق (البداية والنهاية: 8/ 233 )

امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748) رحمہ اللہ نے بھی اس روایت کو مع سند نقل کرتے ہوئے کہا:وَزَادَ فِيهِ الْمَدَائِنِيُّ، عَنْ صَخْرٍ، عَنْ نَافِعٍ: فَمَشَى عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُطِيعٍ وَأَصْحَابُهُ إِلَى مُحَمَّدِ بْنِ الْحَنَفِيَّةِ، فَأَرَادُوهُ عَلَى خَلْعِ يَزِيدَ، فَأَبَى، وَقَالَ ابْنُ مُطِيعٍ: إِنَّ يَزِيدَ يَشْرَبُ الْخَمْرَ، وَيَتْرُكُ الصَّلاةَ، وَيَتَعَدَّى حُكْمَ الْكِتَابِ، قَالَ:مَا رَأَيْتُ مِنْهُ مَا تَذْكُرُونَ، وَقَدْ أَقَمْتُ عِنْدَهُ، فَرَأَيْتُهُ مُوَاظِبًا لِلصَّلاةِ، مُتَحَرِيًّا لِلْخَيْرِ، يَسْأَلُ عَنِ الْفِقْهِ [تاريخ الإسلام للذهبي ت تدمري 5/ 274]

جب اہل مدینہ یزید کے پاس سے واپس آئے تو عبداللہ بن مطیع اوران کے ساتھی محمدبن حنفیہ کے پاس آئے اوریہ خواہش ظاہر کی کہ وہ یزید کی بیعت توڑدیں لیکن محمد بن حنفیہ (حضرت علی رضی الله عنہ کے فرزند) نے ان کی اس بات سے انکار کردیا ، تو عبداللہ بن مطیع نے کہا: یزیدشراب پیتاہے ، نماز یں چھوڑتا ہے کتاب اللہ کے حکم کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ تو محمدبن حنفیہ نے کہا کہ میں نے تو اس کے اندر ایسا کچھ نہیں دیکھا جیساتم کہہ رہے ہو ، جبکہ میں اس کے پاس جاچکا ہوں اوراس کے ساتھ قیام کرچکاہوں ، اس دوران میں نے تو اسے نماز کا پابند، خیرکا متلاشی ، علم دین کاطالب ، اورسنت کا ہمیشہ پاسدار پایا ۔ تولوگوں نے کہاکہ یزید ایسا آپ کو دکھانے کے لئے کررہاتھا ، تو محمدبن حنفیہ نے کہا: اسے مجھ سے کیا خوف تھا یا مجھ سے کیا چاہتاتھا کہ اسے میرے سامنے نیکی ظاہرکرنے کی ضرورت پیش آتی؟؟ کیا تم لوگ شراب پینے کی جوبات کرتے ہو اس بات سے خود یزید نے تمہیں آگاہ کیا ؟ اگرایسا ہے تو تم سب بھی اس کے گناہ میں شریک ہو ، اوراگر خود یزید نے تمہیں یہ سب نہیں بتایا ہے تو تمہارے لئے جائز نہیں کہ ایسی بات کی گواہی دو جس کا تمہیں علم ہی نہیں ۔ لوگوں نے کہا: یہ بات ہمارے نزدیک سچ ہےا گرچہ ہم نے نہیں دیکھا ہے ، تو محمدبن حنفیہ نے کہا: اللہ تعالی اس طرح کی گواہی تسلیم نہیں کرتا کیونکہ اللہ کا فرمان ہے: ''جو حق بات کی گواہی دیں اورانہیں اس کا علم بھی ہو'' ، لہذا میں تمہاری ان سرگرمیوں میں کوئی شرکت نہیں کرسکتا ، تو انہوں نے کہا کہ شاید آپ یہ ناپسندکرتے ہیں کہ آپ کے علاوہ کوئی اورامیر بن جائے توہم آپ ہی کو اپنا امیربناتے ہیں ، تو محمدبن حنفیہ نے کہا: تم جس چیز پرقتال کررہے ہو میں تو اس کوسرے سے جائز ہی نہیں سمجھتا: مجھے کسی کے پیچھے لگنے یا لوگوں کو اپنے پیچھے لگانے کی ضرورت ہی کیا ہے ، لوگوں نے کہا: آپ تو اپنے والد کے ساتھ لڑائی لڑچکے ہیں؟ تو محمدبن حنفیہ نے کہا کہ پھر میرے والد جیسا شخص اورانہوں نے جن کے ساتھ جنگ کی ہے ایسے لوگ لیکر تو آؤ ! وہ کہنے لگے آپ اپنے صاحبزادوں قاسم اور اورابوالقاسم ہی کو ہمارے ساتھ لڑائی کی اجازت دے دیں ، محمدبن حنفیہ نے کہا: میں اگران کو اس طرح کا حکم دوں تو خود نہ تمہارے ساتھ شریک ہوجاؤں ۔ لوگوں نے کہا : اچھا آپ صرف ہمارے ساتھ چل کرلوگوں کو لڑالی پر تیار کریں ، محمدبن حنفیہ نے کہا: سبحان اللہ ! جس بات کو میں خود ناپسندکرتاہوں اوراس سے مجتنب ہوں ، لوگوں کو اس کا حکم کیسے دوں ؟ اگر میں ایسا کروں تو میں اللہ کے معاملوں میں اس کے بندوں کا خیرخواہ نہیں بدخواہ ہوں ۔ وہ کہنے لگے پھر ہم آپ کو مجبورکریں گے ، محمدبن حنفیہ نے کہا میں اس وقت بھی لوگوں سے یہی کہوں گا کہ اللہ سے ڈرو اورمخلوق کی رضا کے لئے خالق کوناراض نہ کرو۔اس روایت کو بیان کرنے والے المدائنی بالاتفاق صاحب تصنیف اور ثقہ تھے۔۔العلامة الحافظ الصادق أبو الحسن علي بن محمد بن عبد الله بن أبي سيف المدائني الأخباري . نزل بغداد ، وصنف التصانيف.
 
Top