• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

یورپ میں حجاب ونقاب کے خلاف مہم

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
بسم اللہ الرحمن الرحیم

حافظ ڈاکٹر حسن مدنی​
مغرب نے تین صدیاں قبل، اپنی نشاۃِ ثانیہ کے مرحلہ پردین ومذہب کو دیس نکالا دے کر ’قومی ریاستوں‘ کا نظریہ پیش کیا، اور اس موقع پر دین وریاست کے مابین حد بندی کے سیکولر نظریے کو متعارف کرایاگیا۔ اس وقت ان کا خیال تھا کہ یہ نظریہ الحاد ودہریت کے لئے ایک مضبوط ڈھال ثابت ہوگا اور اس طرح مذہب کو ایک تنگ دائرے میں بند کرکے جدید دنیا کا انسان اپنی من مانی کرنے میں آزاد ہوگا۔ یہ امر حقیقت ہے کہ دین وریاست کے مابین حد بندی اور جدائی کا یہ نظریہ، مغربی نظریات میں سے انتہائی خطرناک ثابت ہوا، اور اس نے مذاہب کے دائرئہ عمل کو محدود کرنے میں نمایاں کامیابی حاصل کی۔ اس بنا پر آج کی مغربی ریاستوں کے بارے میں یہ تصور کرنا کہ وہ عیسائی ریاستیں ہیں، ایک غلط فہمی ہے۔ اہل مغرب نے پہلے پہل اپنے عیسائی مذہب سے ہی آزادی حاصل کی تھی اور کلیسا سے آزادی کی جنگ لڑی تھی، اس کے بعد آج وہاں اِلحاد ودہریت اور انسانی خواہشات کی حاکمیت، جمہوریت کی صورت میں قائم ہے۔ جبکہ مغربی معاشرے کا مذہبی حوالہ اسی حد تک ہے کہ اپنے تاریخی پس منظر کی بنا پر وہ دیگر مذاہب کے بالمقابل عیسائیت سے زیادہ قربت اور مانوسیت رکھتا ہے۔
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
عیسائیت ویہودیت ہو یا ہندو مت اور بدھ و جین مت وغیرہ، ان کی حد تک مغرب کا یہ نظریہ کارگر ثابت ہوا، لیکن اسلام جو اللہ جل جلالہ کا نازل کردہ کامل اور آخری دین ہے، اس کے مقابلے میں مغرب کو یہ کامیابی حاصل نہ ہوسکی۔ مذاہب وادیان کی تاریخ پر معمولی نظر رکھنے والا بھی یہ جانتا ہے کہ قرآنِ کریم کی حفاظت اور اس کے شانہ بشانہ علومِ اسلامیہ کی غیرمعمولی ترقی ایسی ناقابل شکست برتری رکھتی ہے کہ اس کے مقابل آنے والا ہر نظریہ آخرکار شکست خوردہ ہوجاتا ہے۔ کسی بھی جاذبِ نظر اور بظاہر بڑے مفید نظریہ کو جب اسلام کے سامنے پیش کیا جاتا ہے تو قرآن وسنت کے محکم دلائل کے سامنے اس کی حقیقت لمحوں میں کھل جاتی ہے۔ اگر اسلامی نظریات کو مسخ بھی کرلیا جائے تو تھوڑے ہی عرصے میں قرآنِ کریم کی بدولت حقیقی اسلام دوبارہ نکھر کر سامنے آجاتا ہے۔ اسلامی تعلیمات کی تاثیراتنی قوی اور انسانوں سے اسلام کے تقاضے اتنے فطری اور حقیقی ہیں کہ اسلام کی طرف مخلصانہ رجوع کرنے والا کوئی بھی انسان ان سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اگر اسلام کی تفصیلات کو دیکھا جائے تو یہ دیگر مذاہب کے برعکس زندگی کے تمام دائرہ ہائے حیات کو گھیری نظر آتی ہیں۔ اسلام اپنے ماننے والوں سے روزانہ پنج وقتہ نماز کی صورت میں اللہ کی بندگی کا تقاضا کرتا ہے، جبکہ دیگر مذاہب کا عبادتی تقاضا اس کا عشر عشیر بھی نہیں ہے۔ اسلام کو یہ تاثیر اور قوت اس کی بھرپور حفاظت نے عطا کی ہے جس کی ذمہ داری براہِ راست اللہ تعالیٰ نے روزِقیامت تک لی ہے۔
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
مغرب میں نت نئے نظریات کو پیش کرنے والوں کا خیال تھا کہ آخر کار ان کی بنا پر وہ ایک من پسند اورانسانی خواہشات کے تابع معاشرہ تشکیل دینے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ اس بے جا اعتماد کے نتیجے میں اُنہوں نے مسلم ممالک پر جارحانہ چڑھائی اور اپنے ہاں ہونے والی دنیوی ترقی کے بعد اس سے متمتع ہونے کے لئے آنے والے مسلمانوں کو روکنے کی کوئی ضرورت محسوس نہ کی، کیونکہ ان کے پیش کردہ نظریات اور اس کے نتیجے میں تشکیل پانے والا معاشرتی وسیاسی ڈھانچہ اُنہیں اس قابل نظر آیا کہ آخر کار یہ مسلمان بھی اس میں جذب ہو کر رہ جائیں گے، لیکن دیگر مذاہب کے برعکس مسلمانوں کی حد تک عملاً ایسا نہ ہوسکا۔ چنانچہ آج امریکہ ویورپ کی صورتحال یہ ہے کہ وہ اپنے معاشروں میں اسلام کے بڑھتے معاشرتی مظاہر سے بری طرح خوفزدہ نظر آتے ہیں۔ امریکی ویورپی معاشروں میں بسنے والے مسلمانوں کو ان ممالک کے قوانین اور عدالتیں تو دبے لفظوں میں تحفظ فراہم کررہی ہیں لیکن ان ممالک کے بدلتے معاشرتی حالات پر نظر رکھنے والے سماجی ماہرین اپنے قانون و نظریہ کے برعکس، مسلمانوں کو اپنے تہذیبی بلکہ اسلامی مظاہر ترک کرنے کے لئے ہر بہانے کا سہارا لینے پر مجبور دکھائی دیتے ہیں۔ ان حالات میں اہل مغرب کو اپنے دستور وقانون کی از سر نو تشکیل یا تعبیر جدید کی ضرورت محسوس ہورہی ہے۔
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
اکیسویں صدی میں اگر اس تہذیبی مباحثے کا جائزہ لیا جائے تو یورپ میں اسلام اور اس کے شعائر کے خلاف مختلف حوالوں سے معاشرتی مخاصمت کا ایک طویل سلسلہ نظر آتا ہے۔ یورپی اقوام آئے روز کسی نہ کسی اسلامی شعار کے خلاف کمربستہ ہوکر اپنے داخلی خوف کا اظہار کررہی ہوتی ہیں۔ درجہ بدرجہ اسلام کو بنیاد پرستی، انتہاپسندی، شدت پسندی اور آخر کار دہشت گردی کا مترادف باورکرانے کی ہرممکنہ کوششیں کی جا رہی ہیں۔ ہریورپی ملک کا میڈیا یک رخی رپورٹنگ اور پروپیگنڈے کے بل بوتے پر اپنے عوام کی اسلام مخالف ذہن سازی پر کمر بستہ ہے، یوں لگتا ہے کہ اُنہیں ’اسلامو فوبیا‘ ہوگیا ہے۔ اُنہیں مغربی ممالک کی ظالمانہ جارحیت اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے سنگین انسانی المیوں سے اپنے عوام کو متعارف کرانے کی تو کوئی ضرورت محسوس نہیں ہوتی، جبکہ اس کے ردعمل میں مظلوم کی پکار کو اس انداز میں اُبھارا جاتا ہے کہ اس سے شدت و تشدد کا تاثر اُبھر کر سامنے آئے۔ یورپ میں امن و رواداری کے چمپئن سکنڈے نیوین ممالک نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی اہانت کا اپنا روزمرہ معمول بنا رکھا ہے۔ آج کے آزاد منش انسان کو یہ رکاوٹ بری طرح کھٹکتی ہے کہ مسلمان اپنی مقدس شخصیات کے بارے میں ان کی سی آزاد روش کو کیوں اختیار نہیں کرلیتے؟ مدارس و مساجد اور ان کے متعلقین کے بارے اہل مغرب کی دلچسپی دیدنی ہے اور وہ اُنہیں دنیا کا امن برباد کرنے والا ثابت کرنے پر تلے بیٹھے ہیں۔ قرآنِ کریم کے بالمقابل ’فرقان الحق‘ کے نام سے خود ساختہ قرآن کو پروان چڑھانے کی سازشیں کی جا تی ہیں اور اس مقدس کتاب کو معاذ اللہ نجس نالیوں میں بہایا جاتا ہے۔ اسلام کا نظریۂ جہاد اور مجاہدین ان کے لئے خوف کی سنگین علامت بنے ہوئے ہیں اور یورپی پارلیمنٹوں سے وابستہ اراکین قرآنِ کریم کی آیات کو خود ساختہ عالمی امن کے لئے شدید خطرہ قرار دے چکے ہیں۔ اسلام کے خلاف اور اسلامی مفاہیم کو مسخ کرنے کے لئے دنیا کی ہر زبان میں کئی ایک فلمیں بنائی اور دکھائی جارہی ہیں۔ حال ہی میں سویڈن میں مساجد کے مینارعظیم شناختی مسئلہ بن کر اُبھرے ہیں، یاد رہے کہ سویڈن میں ۴۰ کے قریب مساجد میں یہ مینار صرف تین مساجد پر ایستادہ تھے، لیکن سویڈن کا سیکولرزم اس سے خطرہ میں پڑا ہواہے۔ انہی دنوں امریکہ سمیت یورپی ممالک میں ائیرپورٹس پر مسلمانوں کو برہنہ سکیننگ کے مرحلے سے گزارا جارہا ہے، امریکہ کے برعکس برطانیہ ویورپ میں اسے ائیرپورٹ انتظامیہ کا اختیار قرار دیا گیا ہے کہ وہ کس مسلم خاتون کی باڈی سکیننگ کرنا ضروری خیال کرتے ہیں۔ مسلم دانشور اسے ’برہنہ دہشت گردی‘ کا عنوان دے کر مسلم اُمہ سے اس امتیازی سلوک کی برملا شکایت کررہے ہیں۔ ۲۰ مئی کو مقبولِ عام ویب سائٹ ’فیس بک‘ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خاکے بنانے کے عالمی دن منانے کا اعلان کردیا جس پر لاہو رہائیکورٹ نے فیس بک اور پھر یوٹیوب نامی ویب سائٹس پر پاکستان میں پابندی عائد کر دی۔ اسلام کے بارے اپنی من مانی کو گوارا نہ کرنے اور ان ویب سائٹس کو بند کرنے پر مغربی دانشورپاکستان کو شدیدتنقید کا نشانہ بنائے ہوئے ہیں۔ تہذیبوں کی جنگ اور سماجی ومعاشرتی رویوں کا تضاد و اختلاف ہر جگہ سرچڑھ کر بول رہا ہے!! تہذیبی تصادم کے اس مرحلے میں دراصل مسلمان ایسی اقوام کی عسکری اور ابلاغی جارحیت و انتہا پسندی کا شکار ہیں جن کا دعویٰ مذاہب کی آزادی، رواداری اورمفاہمت کا ہے جب کہ خود وہ دنیا بھر کو انسانی حقوق اور تہذیب کا درس دیتے نہیں تھکتے
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
خواتین کا حجاب ونقاب تو یوں لگتا ہے کہ فی زمانہ یورپی اقوام کا سب سے بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔ یورپ میں دو کروڑ سے زائد مسلمان آباد ہیں، جن میں سے بلجیم میں ۶ لاکھ،جرمنی میں ۳۰، برطانیہ میں ۲۰ اور فرانس میں ۶۰ لاکھ مسلمان قیام پذیر ہیں۔ فرانس کے ۳۰ لاکھ مسلمان تو باقاعدہ یہاں کی شہریت بھی رکھتے ہیں جو ماضی میں فرانس کے مقبوضہ ’الجزائر‘ کو اس کا باقاعدہ حصہ قرار دیئے جانے کی بنا پر فرانس میں ہی نقل مکانی کرآئے تھے۔یورپ کی سب سے بڑی مسلم اقلیت یہاں ہی اقامت گزیں ہے۔ فرانس اپنے سیکولرنظامِ حکومت پر نازاں ہونے کے باوجود ’مسلم تشخص‘ کے نظریاتی مسئلہ سے بری طرح دوچار ہے۔ یہاں حجاب ونقاب اور برقعہ کا معاملہ گذشتہ پانچ برس سے مرکزی مسئلہ بنا ہوا ہے اور فرانس اس سلسلے میں پورے یورپ کی قیادت کررہا ہے۔ فرانسیسی حکومت کے بیانات آئے روز اخبارات میں شائع ہوتے ہیں اور حکومتی ذمہ داران سے ہر پلیٹ فارم پر اس ضمن میں سوال کیا جاتا ہے۔
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
ستمبر۲۰۰۳ء کو بڑے طویل بحث مباحثے کے بعد فرانسیسی حکومت نے پبلک مقامات اورسرکاری اداروں میں سکارف(سرڈھانپنے) کی ممانعت کا قانون منظور کیا گیا۔ قانون کو مؤثر بنانے کے لئے اس کی خلاف ورزی کی صورت میں جرمانہ اور قید کی سزا تجویز کی گئی ۔
3 فرانس کے ا س قانون کے بعد دیگر یورپی ممالک میں بھی یہ بحث شروع ہوگئی، اور اکتوبر ۲۰۰۶ء میں برطانیہ کے وزیر خارجہ جیک سٹرا اور دیگر حکومتی اراکین نے برطانیہ میں بھی اسے زیر بحث لانے کی تجویز پیش کی۔ سکارف سے آگے بڑھتے ہوئے برطانوی وزیر خارجہ جیک سٹرا نے نقاب پر پابندی کے مسئلہ کو پارلیمنٹ میں زیر بحث لانے کا تقاضا کیا اور یہ قرار دیا کہ نقاب کے ذریعے برطانیہ میں بسنے والی آبادیوں کے باہمی معاشرتی تعلقات متاثر ہوتے ہیں۔ ان کی تائید برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیر نے کی اور کہا کہ میں پابندی لگانے کو تو نہیں کہتا، لیکن اسے زیر بحث لانے کی تائید کرتا ہوں۔ جیک سٹرا پر اس حوالے سے تنقید بھی کی گئی اور نائب وزیر اعظم جان پریسکاٹ نے اسے مسلمان خواتین کا حق قرار دے کرنقاب کا دفاع کیا۔ کمیونٹی اور مقامی حکومتوں کے وزیر فل وولس نے کہا کہ
’’ اُصولاً تو نقاب پر پابندی ہونی چاہئے، کیونکہ ا س سے خوف اور دوسروں کی تضحیک کا اندیشہ لاحق ہوتا ہے ، البتہ اگر اس پر سختی اور قانون سازی کی گئی تو مسلمان اپنی روایات کا دفاع کریں گے اورا س کے نتیجے میں ’برائی دربرائی‘ کا طویل اور نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوجائے گا جس سے بی این پی جیسی انتہاپسند جماعتیں فائدہ اُٹھاتی ہیں۔ لہٰذا قانون سازی کی بجائے مناسب اقدامات سے برطانیہ میں نقاب کو آہستہ آہستہ ختم کرنا چاہئے۔‘‘
جیک سٹرا پر تنقید کرتے ہوئے چرچ آف انگلینڈ نے یہ قرار دیا کہ مختلف اقلیتوں کے بارے قانون سازی سے برطانوی معاشرہ مزید تفریق کا شکار ہوجائے گا، اس لئے ایسی بحثوں سے گریز کرنا چاہئے۔ اندریں حالات یہ بحث برطانیہ میں زیادہ نہ پنپ سکی۔
3 جون ۲۰۰۴ء میں برطانیہ میں شبینہ نامی ایک ۱۵ سالہ مسلم طالبہ کا کیس بھی سامنے آیا جس کو لیوٹن شہر میں برقعہ پہننے پر سکول سے خارج کردیا گیا تھا۔ حجاب پر فرانس میں لگنے والی پابندی کے بعد سازگار فضا کی بنا پر ہائیکورٹ نے یہ قرار دیا کہ ’’سکول کی پالیسی درست ہے جو تما م مذاہب میں ہم آہنگی اور تہذیبوں کے مابین مفاہمت کو فروغ دیتی ہے، اس لئے اُصولاً تو سکول کو یونیفارم وغیرہ کی بنا پر طلبہ کو خارج نہیں کرنا چاہئے، لیکن اگر کوئی طالبہ اس پر اصرار کرے تو سکول کے پاس ایسا کرنے کا اختیار موجود ہے۔‘‘
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
سکول میں نقاب وسکارف پہننے کا مسئلہ مارچ۲۰۰۴ء میں امریکہ میں بھی پیش آیا، جہاں ریاست اوکلو ہاما میں ۱۱ سالہ نتاشا نے سرڈھانپنے پر پابندی عائد کرنے پر امریکی عدالتِ انصاف سے داد رسی طلب کی تھی۔ یہاں بھی سکول انتظامیہ نے یونیفارم کی خلاف ورزی کی بنا پر طالبہ کو خارج کردیا تھا۔ امریکی عدالت ِانصاف نے برطانوی ہائی کورٹ کے برعکس یہ قرار دیا کہ سکولوں میں مذہبی تفریق کی اجازت نہیں ہے اور مسکوجی پبلک سکول ایسا کوئی قانون نافذ نہیںکرسکتا جس سے کسی کے ذاتی حقوق یا آزادی سلب ہوتی ہو۔
فرانس میں حجاب وسکارف پر لگنے والی پابندی کے بعد یہ سلسلہ جرمنی تک دراز ہوگیا اور اپریل۲۰۰۴ء میں شمالی جرمنی کی ۷ ریاستوں بہ شمول بدین ، ویور ٹمبرگ وغیرہ میں خواتین کے سر ڈھانپنے پر پابندی عائد کر دی گئی۔ جرمنی میں اس پابندی کا پس منظر ۹۹۸اء میں فرشتے لودن نامی ایک مسلم خاتون کو حجاب کی بنا پر ملازمت سے انکار کی صورت میں شروع ہوا تھا، جس پر جرمنی کی سب سے بڑی عدالت نے یہ قرار دیا کہ اگر حجاب کے ذریعے لوگوں پر غلط تاثرات قائم ہوئے تو حکومت حجاب پر پابندی عائد کرسکتی ہے۔
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
جرمنی میں حجاب کے خلاف تعصب شدید صورتحال اختیار کرچکا ہے، جس کے نتیجے میں ایک بدترین المیہ رونما ہوا۔ یکم جولائی ۲۰۰۹ء کو جرمنی کی ایک عدالت میں ایک مسلم مصر نژاد خاتون مروۃ شربینی اپنے خاوند عکاظ علوی کے ہمراہ داد رسی کے لئے آئی تھی۔ایگزل نامی جرمن نوجوان نے اس کے حجاب پہننے پر نبی کریم1 کے خلاف گستاخانہ جملے کسے او رکہاتھا کہ اگر میرا بس چلے تو میں تمہیں حجاب کی ایسی سزا دوں کہ ہمیشہ یاد رہے۔ عدالت نے جرم ثابت ہونے پر ایگزل کے خلاف فیصلہ دیا تو اس نے مروۃ شربینی (جو چار ماہ کی حاملہ بھی تھی) پر حملہ کردیا او راس پر چاقو سے شدید وار کئے، اس کے پیٹ پر پولیس اور جیوری کی موجودگی میں ٹھڈے مارے جس سے یہ مسلم خاتون موقع پر ہی شہید ہوگئی۔ اس کے خاوند نے ایگزل کو روکنے کی کوشش کی تو عکاظ پر متعصب جرمن پولیس نے فائرنگ کردی۔ یہ سارا سانحہ عدالت میں ہی رونما ہوا۔ مغربی میڈیا میں اس خبر کو سامنے نہ آنے دیا گیا، مروۃ کی میت جب مصر کے شہر سکندریہ پہنچی تومصری میڈیا نے پورے واقعے کی تحقیقات کرکے اسے شائع کیا۔ مروۃ شربینی کو حجاب کے لئے اس کی بے مثال قربانی کی بنا پر’شہیدہ حجاب‘ کا لقب دیا گیا۔
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
برطانیہ جیسی صورتحال کا سامنا گذشتہ سالوں میں ہالینڈ کو بھی رہا ہے۔ جہاں برطانوی وزیر خارجہ جیک سٹرا کی طرح ولندیزی وزیر امیگریشن ریٹا وردنک نے ۲۰۰۶ء میں حکومت کے سامنے یہ تحریک پیش کی کہ باہمی عزت کے لئے مردو خواتین کا ایک دوسرے کو دیکھنا انتہائی ضروری سماجی تقاضا ہے۔ وردنک کی تحریک پر ولندیزی حکومت نے برقع پر پابندی لگانے کا عندیہ دیاجس پر ہالینڈ میں بحث مباحثہ شروع ہوگیا۔ حکومت کے مطابق ہالینڈ میں صرف ۱۰۰ خواتین برقعہ پہنتی ہیں اور ایک کڑوڑ ساٹھ لاکھ کی آبادی میں صرف ۶ فیصد مسلمان ہیں۔ اندریں حالات حکومت کا یہ رویہ قبل از وقت حفاظتی اقدام اور منصوبہ بندی کے طورپر قرار دیا جاسکتاہے۔
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
فرانس میں پبلک مقامات پر سکارف پر پابندی کے بعد جرمنی اور ہالینڈ میں بھی یہ پابندی نافذ کردی گئی جبکہ امریکہ اور برطانیہ میں صورتحال آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہی ہے۔
2 حال ہی میں فرانس میں یہ معاملہ سکول وکالج میں سکارف پر پابندی سے آگے بڑھ کر نقاب اور برقعہ کی پابندی تک بھی پہنچ گیا۔ فرانسیسی صدر نکولس سرکوزی ایک برس سے برقعہ کے بارے میں اپنے شدید جذبات کا اظہار کررہے ہیں اور ۲۰ جنوری ۲۰۱۰ء کو باقاعدہ فرنچ حکومت نے اس سمت پیش قدمی کا اعلان کردیا جس کے بعد سے یورپی ممالک میں ایک بار پھر یہ بحث تازہ اور بیانات کا سلسلہ جاری ہوگیا ہے۔ گذشتہ ماہ اپریل ۲۰۱۰ء کے وسط میں فرنچ حکومت نے سیاسی اور عالمی صورتحال کا جائزہ لینے کے بعد بل کو حتمی شکل دے لی اور آخرکار ۱۲ مئی کو فرانس کی پارلیمنٹ میں برقعہ کے خلاف قرار داد کو پیش کردیا گیا ہے۔
3اس سلسلے میں فرانس سے پہلے پیش قدمی کرتے ہوئے بلجیم نے۳۰؍اپریل کو ہی ایوانِ زیریں میں ایسا ہی ایک بل پیش کیا ہے جہاں کسی اختلاف کے بغیر متفقہ طورپر برقعہ پر پابندی نافذکر دی گئی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ نقاب پہننا خواتین کی توہین اور شناخت کو چھپانے کی کوشش ہے۔ بل میں قرار دیا گیا ہے کہ خواتین کواپنی شناخت چھپانے کی اجازت نہ ہوگی۔ اگر پولیس کی اجازت کے بغیر ایسا کیا گیا تو ’مجرم‘ خاتون کو ۲۵ یورو یا ۷ یوم قید تک سزا ہوسکتی ہے۔اس سال جون میں یہ بلجیم کا ملکی قانون بن جائے گا اور بلجیم یورپی ممالک میں وہ پہلا ملک ہوگا جہاں برقع ونقاب پر پابندی عائد ہو گی۔ غور طلب امر یہ ہے کہ بلجیم کے سرکاری اعداد وشمار کے مطابق ۶ لاکھ مسلم آباد ی میں سے صرف ۳۰ خواتین برقع یا نقاب لیتی ہیں۔ اس قانون سازی پر تنقید کرتے ہوے یورپی مسلمانوں کی تنظیم ’مسلم ایگزیکٹو آف بریٹن‘ نے اسے مسلم خواتین کی گھروں میں قید سے مماثلت دی ہے۔
فرانسیسی حکومت کی تین چار ماہ پر محیط تدابیر کے بعد آخر کار برقعہ اور نقاب پر پابندی کا بل فرانسیسی پارلیمنٹ میں ۱۲ مئی کو پیش کردیا گیا، جس میں برقعہ یا نقاب اوڑھنے پر ۷۵۰ یورو کے جرمانہ کی سزا شامل ہے۔ بی بی سی نے خبر دی ہے کہ فرانس کی وزارتِ داخلہ کے مطابق فرانس میں برقعہ پوش خواتین کی تعداد ۱۹۰۰ سے زیادہ نہیں ہے۔ اس کے باوجود فرانس کی حکومت کی یہ حساسیت دراصل مستقبل کی پیش بندی ہے جس میں حقائق سے زیادہ مسلم کلچر کے پروان چڑھنے کا خوف غالب ہے۔ برقع پر پابندی کا یہ سلسلہ فرنچ صدر سرکوزی کی بیان بازی سے شروع ہوا ، جب گذشتہ سال اُس نے یہ قرار دیا تھا کہ فرانس میں ایسے ملبوسات کی کوئی جگہ نہیںجو خواتین حقوق سلب کرتے ہیں۔ اس معاملے کو آگے بڑھاتے ہوئے فرانس کی ایک پارلیمانی کمیٹی نے ۲۰۰ صفحات پر مبنی رپورٹ دی جس میں یہ تجویز کیا گیا تھا کہ کٹر مذہبیت کا اظہار کرنے والوں کو رہائشی کارڈ اور شہریت سے محروم کردینا ہی مسئلے کااصل حل ہے۔
 
Top