آج اس دھاگہ کو دعا بہن نے پسند ریٹ کیا تو یہ دھاگہ نظروں میں آگیا۔ اسی حوالہ سے ایک اور اردو فورم میں اپنا اسی عنوان سے ملتا جلتا ایک تازہ دھاگہ یاد آگیا، جس میں ”یوسف ثانی“ کا مصری نہیں بلکہ ”جمعہ بازار“ لگا ہوا ہے۔ اس بازار میں آپ بھی قسم قسم کے ”یوسف ثانی“ سے مل سکتے ہیں (ابتسامہ)
پروفیسر انور مسعود سے ایک غیر رسمی انٹرویو
گورنمنٹ کالج (لائبریری) سٹلائٹ ٹاؤن، راولپنڈی
۱۳ جنوری ۰۹۹۱ءصبح دس بجے
انٹرویو پینل : محمد یعقوب آسی ، محمد احمد، محمد یوسف ثانی، آفتاب رانا
خلیل بھائی! یہ تیسرے یوسف ثانی کون ہیں؟؟؟ پہلا تو میں خود ہوں
”دوسرے“ یوسف ثانی ایک شاعر ہیں جو 1995 ء میں لندن میں اس وقت "دریافت" ہوئے تھے، جب یہ احقر روزنامہ جنگ لندن سے وابستہ تھا۔ تب جنگ کے لندن شمارے میں ایک مجموعہ کلام کا اشتہار شائع ہوا تھا اور شاعر تھے "یوسف ثانی" ۔ تب میں نے جنگ لندن میں چھپنے والے مراسلہ میں لکھا تھا کہ: گو کہ میں1986 سے اسی یوسف ثانی کے نام سے مسلسل لکھ رہا ہوں، اور میری آئندہ آنے والے کتابیں بھی اسی نام سے شائع ہوں گی اور میں نے اپنے اس قلمی نام کا "اعلان" ایک معروف قومی روزنامہ کے ادبی صفحہ پر بھی کر چکا ہوں، تاہم جس یوسف ثانی کے مجموعہ کلام کا یہ اشتہار شائع ہوا ہے، وہ میں نہیں ہوں۔
اور آج آپ نے ایک تیسرے یوسف ثانی سے ملوا دیا، جو اُس انٹرویو پینل میں شامل ہے، جس نے 1991 میں انور مسعود سے انٹرویو لیا تھا۔ اگر ان کے بارے میں کچھ علم ہو یا ان سے رابطہ کا وسیلہ معلوم ہو تو ضرور شیئر کیجئے گا۔
کوئی ابتدائی ایک عشرہ تک تو ہم اہنے اصلی اور پیدائشی نام سے لکھتے رہے۔ اردو سائنس کالج میگزین کی ادارت بھی اسی نام سے کی اور جنگ سمیت قومی اخبارات میں بھی اسی نام سے لکھتے رہے۔ انہی دنوں میری ہم نام ایک اور صاحب کے مضامین اخبارات میں شائع ہونے لگے ۔ اور اُن کے مضامین کی "داد" مجھے ملنے لگی (اور شاید میرے مضامین کی ”بےداد" اُنہیں ملتی ہو) تو میں نے اپنا نام تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا۔ بعد میں پتہ چلا کہ "متذکرہ بالاصاحب جامعہ کراچی کے ایڈمنسٹریشن ڈپارٹمنٹ سے تعلق رکھتے ہیں، جو چند سال پہلے ریٹائرڈ ہوچکے ہیں۔ کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا ع
لیکن یہ ہماری بھول تھی کہ مارکیٹ میں صرف تین یوسف ثانی موجود ہیں۔ پچھلے دنوں سے جب میں اپنا فیس بُک اوپن کرتا تو پروفائل میں صفحہ اول پر کسی اور کی تصویر نظر آتی اور میں حیران ہوتا رہا کہ "میرے" صفحہ پر یہ کسی "غیر" کی تصویر کیوں؟
میں فیس بُک کا باقاعدہ یوزر نہیں ہوں ۔ ۔ ۔ گو کہ صفحہ موجود ہے۔ بس کبھی کبھار ہی وزٹ کرتا ہوں۔ اس لئے اس کی باریکیوں سے ہنوز نا آشنا ہوں ۔ لہٰذا اپنے سب سے چھوٹے بیٹے کی مدد لی کہ یہ صاحب میرے پروفائل والی تصویر پر کیا کر رہے ہیں۔ لیکن جب اس تصویر پر کلک کیا تو پتہ چلا کہ موصوف کو بھی اپنے تئیں "یوسف ثانی" ہونے کا "دعویٰ" ہے۔ ابھی تک تو ہم تین ہوسف ثانی ہی کے تکون میں چکرا رہے تھے کہ یہ چوتھے صاحب آن نکلے۔ پھر خیال آیا کہ ذرا "علامہ گوگل" سے تو پوچھیں کہ میاں تم کتنے یوسف "ثانیوں" کو جانتے ہو ۔۔۔ بس یہ پوچھنا غضب ہوگیا۔ کیوں ؟فہرست یہاں اور تصاویر علامہ گوگل کی امیج البم میں دیکھی جاسکتی ہیں۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے لئے تو مصر کا بازار سجا تھا۔ نیٹ ورلڈ میں یوسف ثانی کا ایک "جمعہ بازار" لگا ہے۔ (ابتسامہ)
- ایم یوسف ثانی، لاہور
- یوسف ثانی، منامہ، بحرین
- یوسف ثانی، بنگلور انڈیا
- یوسف ثانی، نائیجیریا
- یوسف ثانی، حج عمرہ سروسز، پاکستان
- یوسف ثانی آبوجا، ٹویٹر
- یوسف ثانی، فیس بُک
- یوسف ثانی گردیزی، (پیدائشی نام سیدہ فاطمہ، شوہر یوسف ثالث)
یہ تو صرف چند نمونے ہیں۔ جن میں بغیر تصویر والی ایک محترمہ بھی خود کو "یوسف ثانی" قرار دینے پر تلی ہوئی ہیں جبکہ محترمہ کے شوہر "یوسف ثالث" کہلوانے پر مُصر ہیں۔ اول اول تو میں "ضرورتاً" (ایک منفرد قلمی نام کے حصول کے لئے ) یوسف ثانی بنا، پھر احباب کے معنی خیز نگاہوں اور جملوں نے "شرمندہ" کرنا شروع کیا ۔۔۔ لیکن تب تک خاصی ”دیر“ ہوچکی تھی۔ تب تک کئی کتب اور سینکڑوں تحریریں چھپ چکی تھیں۔ اور نام کی ایک بار پھر تبدیلی ممکن نہ تھی۔ اسی اثناء میں ایک عالم دین کا فون موصول ہوا کہ آپ کا یہ قلمی نام "غیر شرعی" سا ہے کہ اس طرح آپ خود کو حضرت یوسف علیہ السلام کا ۔ ۔ ۔ جواباً میں نے انہیں غالب کا یہ شعر سنا کر خاموش کرنے کی ”ناکام“ کوشش کی۔
دی مرے بھائی کو حق نے از سر نو زندگی
میرزا یوسف ہے غالب، یوسف ثانی مجھے
لیکن اتنے سارے ”یوسف ثانی“ کی موجودگی میں اب مجھے چنداں "فکر" کی ضرورت نہیں کہ اب تو ایک ڈھونڈو ہزار ملتے ہیں۔ (ابتسامہ)