• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

یو تھ کی تباہی اور بربادی کا پروگرام !!!

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,013
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
شاہد بھائی ! ایک چیز کی دو قیمتیں ہوں مثلا نقد 100 روپے کی اور ادھار 110روپے کی ۔
اگر ان دونوں میں سے ایک پر عقد طے ہوجائے مثلا کوئی کہے کہ میں ادھار 110 میں لیتا ہوں یا میں نقد 100 میں لیتا ہوں ۔ تو پھر یہ سود نہیں ہے ۔
ہاں اسطرح سود ہوگا کہ پہلے دونوں میں سے ایک قیمت طے نہیں ہوئی بلکہ یوں ہے کہ یہ چیز میں آپ کو 110 کی دے رہا ہوں اگر آپ نے دس دن کے اندر اندر پیسے جمع کروادیے تودرست ورنہ اس کے بعد 110 پر اضافہ ہونا شروع ہوجائے گا ۔ ایسی صورت میں یہ اضافہ سود شمار ہوگا ۔
وضاحت کا شکریہ خضر حیات بھائی لیکن مبشراحمد ربانی حفظہ اللہ، حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ اور بہت سے دیگر اہل علم کا موقف اسکے برعکس ہے وہ ہر صورت میں نقد اور ادھار کی الگ الگ قیمتوں کو سود کہتے ہیں اور انہیں لوگوں کے دلائل مضبوط ہیں۔
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
السلام علیکم

جی بالکل درست ادھار پر ایک ایگریمنٹ بنتا ھے اس کے مطابق اگر ادھار 90 دن یا مقرر وقت سے اوپر بھی ہو جائے تو اس پر 110 روپے جو تہہ ھے وہی رہتا ھے بڑھتا نہیں۔

والسلام
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
ادھار ميں موجودہ قيمت سےزيادہ فروخت كرنے كا حكم !!!


كيا كسي شخص كےليےيہ ممكن ہےكہ جب وہ كوئي چيزنقد دس ريال ميں فروخت كرتا ہے تو جب خريدار تيس دنوں كےبعد قيمت دينے كا كہے تووہ قيمت زيادہ كردے، مثلا: جب كوئي چيز نقد ميں دس ريال كي فروخت كي جا رہي ہو اورجب خريدار رقم تيس دن كےبعد دينا چاہےتو كيا بائع اسي چيز كےگيارہ ريال مانگ سكتا ہے، آپ سے گزارش ہے كہ سودي معاملات كي روشني ميں اس كي وضاحت كريں ؟

الحمد للہ :

سامان مدت تك كےليے ( ادھار ) موجودہ قيمت سے زيادہ قيمت ميں فروخت كرنا جائز ہے، چاہے اس كي قيمت ايك قسط ميں يا كئي ايك قسطوں ميں وقت مقررہ پر ادا كي جائے، ليكن شرط يہ ہےكہ بائع اور مشتري بيع كي نوع اور قسم كي تعيين كرنے سےقبل جدا نہ ہوئے ہوں اور اس كےنقد يا ادھار پر متفق ہوئےہوں.
اور زيادہ قيمت سود نہيں، اورشرع ميں كوئي ايسي نص نہيں جس ميں مدت تك كي بيع ميں زيادہ لينے كي كوئي حد مقرر ہو، ليكن رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم نے خريدوفروخت ميں اورفيصلہ كرنےاور كروانےميں معاف كرنے پرابھارا ہے.
فتوي اللجنۃ الدائمۃ
ديكھيں: كتاب فتاوي اسلاميۃ ( 2 / 335 ) .

ليكن مثلا اگراس نے وہ چيز دس ميں فروخت كردي اور پھر خريدار نے قيمت ادا كرنے ميں دير كرنا چاہي تو فروخت كرنےوالے كےليے اس پر زيادہ كرنا جائز نہيں، اور اگر وہ مدت زيادہ كرنے كےمقابلے ميں قيمت ميں اضافہ كرتا ہے تو يہ سود اور حرام و كبيرہ گناہ ہےاللہ تعالي سےسلامتي كےطلبگار ہيں.

واللہ اعلم .
الشيخ محمد صالح المنجد

http://islamqa.com/ur/12638
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
بائع كے ليے قيمت كى ادائيگى ميں تاخير كرنے والے پر رقم كا اضافہ كرنا جائز نہيں

ميں شريعت اسلاميہ كے مطابق قسطوں ميں گاڑياں فروخت كرتا ہوں، يعنى ميں فوائد تو نہيں ليتا ليكن اپنے بچاؤ كے ليے جب كوئى خريدار ادائيگى ميں وقت مقررہ سے تاخير كرے تو ميں اس پر جرمانہ ليتا ہوں، كيا ايسا كرنا جائز ہے ؟

الحمد للہ :

آپ جو زيادہ رقم لے رہے ہيں وہ گاہك كے ذمہ قرض كى ادائيگى ميں تاخير كے عوض ميں ہے، اور يہ بعينہ سود ہے، اور اس ليے كہ اہل جاہليت كا يہ وطيرہ تھا كہ جب كوئى مقروض شخص ادائيگى ميں تاخير كرتا تو قرضہ دينے والا اسے مدت بڑھانے كے عوض رقم بھى زيادہ كرديتا تھا جب اللہ تعالى نے اس سود كى حرمت كا ذكر كيا تو قرضہ دينے والے كو ادائيگى كى مدت بغير كسى اضافہ كے زيادہ كرنے كا حكم ديتے ہوئے فرمايا:

{اور اگر كوئى تنگى والا ہو تو اسے آسانى تك مہلت دينى چاہيے اور صدقہ كرو تو تمہارے ليے بہت ہى بہتر ہے، اگر تم ميں علم ہے} البقرۃ ( 280 ).

واللہ اعلم .
الشيخ محمد صالح المنجد

http://islamqa.com/ur/ref/1231
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
قسطوں ميں فروخت كرنا !!!

قسطوں ميں خريدوفروخت كا حكم كيا ہے؟ اور جب كوئى خريدار قسطوں كى ادائيگى ميں تاخير كرے تو اس سے شرعا كس طرح نپٹا جائے ؟

الحمد للہ:

اول:
ادھار ميں موجودہ قيمت سے زيادہ لينا جائز ہے، اور اسى طرح نقدوں اور ايك معلوم مدت تك كى قسطوں ميں خريدارى كى قيمت بتانا بھى جائز ہے، اور بيع اس وقت تك صحيح نہيں ہو گى جب تك خريدار اور فروخت كرنے والا دونوں نقد يا ادھار پر اتفاق نہ كر ليں، لھذا اگر بيع نقد يا ادھار ميں تردد كے ساتھ ہوئى ہو وہ اسطرح كہ كسى ايك قيمت پر يقينى اتفاق نہ ہوا ہو تو يہ بيع شرعا جائز نہيں ہو گى.

دوم:
معاہدے كے اندر ادھار كى بيع ميں موجودہ قيمت سے عليحدہ قسطوں پر فوائد شامل كرنا شرعا جائز نہيں ، وہ اسطرح كہ مدت كے ساتھ مرتبط ہو چاہے خريدار اور تاجر فائدے كى نسبت پر اتقاق كريں يا اسے عام چلنے والے فائدہ سے مربوط كرديں.

سوم:
جب خريدار مدت مقررہ پر اقساط كى ادائيگى ميں تاخير كرے تو اس پر اسے لازم كرنا جائز نہيں، يعنى كسى سابقہ شرط يا بغير كسى شرط كے ہى قرض كى رقم زيادہ كرنا جائز نہيں كيونكہ يہ سود اور حرام ہے.

چہارم:
قرض لينے والے ( يعنى اقساط پر خريدارى كرنے والے ) كے ليے اقساط كى ادائيگى ميں ٹال مٹول سے كام لينا حرام ہے، ليكن اس كے باوجود اقساط كى تاخير كى بنا پر تاخير كے عوض ميں پيسے زيادہ كرنا شرعى طور پر جائز نہيں.

پنجم:
بائع كے ليے شرعا جائز ہے كہ وہ معاہدے كے وقت مدت كى شرط ركھےكہ: خريدار نے اگر كچھ اقساط ميں تاخير كردى تو وقت سے قبل ہى اقساط ختم كردى جائيں گى ، ليكن اس ميں شرط يہ ہے كہ اگر خريدار اس پر رضامندى كا اظہار كرے تو پھر معاہدے ميں يہ شرط ركھى جاسكتى ہے.

ششم:
بائع كو كوئى حق نہيں كہ وہ فروخت كردہ چيز كى ملكيت اپنے پاس ركھے، ليكن يہ جائز ہے كہ وہ خريدار كے ساتھ يہ شرط ركھے كہ بطور ضمانت فروخت كردہ چيز اس كے پاس رہن ركھے تا كہ مقرر كردہ اقساط پورى ہوسكيں.
ديكھيں: مجمع الفقہ الاسلامى صحفہ نمبر ( 109 )

ہفتم:
مدت پر حاصل كردہ قرض كى وقت سے قبل ادائيگى كى بنا پر قرض ميں سے كچھ كمى كرنا شرعا جائز ہے، چاہے يہ كمى قرض لينے والے كے مطالبہ پر ہو يا قرض دينے والے كى طرف سے، جب كسى سابقہ اتفاق كى بنا پر ايسا نہ ہو تو يہ حرام كردہ سود ميں شامل نہيں ہو گا اورجب تك قرض خواہ اور مقروض دونوں كے مابين ہى يہ معاملہ اور تعلق رہے، ليكن جب اس ميں كوئي تيسرا فريق شامل ہو گيا تو پھر جائز نہيں، كيونكہ اس وقت تجارتى اوراق كى كمى كے حكم ميں آ جائے گا.

ہشتم:
جب اقساط ادا كرنے والا تنگ دست نہ ہو اور مستحق اقساط ميں سے كوئى قسط ادا نہ كرسكنے كى حالت ميں خريدار اور تاجر كا مكمل اقساط ختم كرنے پر اتفاق كرنا جائز ہے.

نہم:
مقروض كى موت يا اس كے مفلس ہو جانے يا پھر ادائيگى ميں ٹال مٹول كرنے كى حالت ميں رضامندى كے ساتھ قرض وقت سے پہلے ادا كرنے كى صورت ميں قرض ميں كمى كرنا جائز ہے.

دہم:
تنگ دستى كا ضابطہ جس كى بنا پر اسے ڈھيل اور مہلت دينا واجب اور ضرورى ہے يہ ہے كہ: مقروض كے پاس اس كى ضروريات سے زيادہ مال نہ ہو جو اس كے قرض كى ادائيگى كر سكےيا پھر كوئي ايسى بعينہ چيز نہ پائى جائے جو اس كى ادائيگى كرسكتى ہو.
ديكھيں: مجمع الفقہ الاسلامى صفحہ نمبر ( 142 ).

http://islamqa.com/ur/1847
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
دس فيصد سےزيادہ منافع لينا


كيا تاجركو مال پر دس فيصد سےزيادہ منافع لينا جائزہے ؟

الحمد للہ :

شرعي طور پر تاجر كےليے تجارت ميں نفع كي نسبت اورمقدار مقرر نہيں ليكن مسلمان كےليے يہ جائز نہيں كہ وہ خريدار كو دھوكہ دے، اور وہ اسے اس ريٹ پر سواد فروخت كرے جوماركيٹ ميں معروف نہيں ، بلكہ مسلمان كے ليے مشروع ہےكہ وہ نفع ميں مہنگائي نہ كرے، بلكہ اسے خريدوفروخت كرتے وقت نرم اور آسان رويہ اختيار كرنا چاہيے، اس ليے كہ نبي كريم صلي اللہ عليہ وسلم نے لين دين ميں نرمي برتنےپر ابھارا ہے.
ديكھيں: فتاوي اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 13 / 92 ) .

http://islamqa.com/ur/10031
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
شاہد بھائی ! ایک چیز کی دو قیمتیں ہوں مثلا نقد 100 روپے کی اور ادھار 110روپے کی ۔
اگر ان دونوں میں سے ایک پر عقد طے ہوجائے مثلا کوئی کہے کہ میں ادھار 110 میں لیتا ہوں یا میں نقد 100 میں لیتا ہوں ۔ تو پھر یہ سود نہیں ہے ۔
ہاں اسطرح سود ہوگا کہ پہلے دونوں میں سے ایک قیمت طے نہیں ہوئی بلکہ یوں ہے کہ یہ چیز میں آپ کو 110 کی دے رہا ہوں اگر آپ نے دس دن کے اندر اندر پیسے جمع کروادیے تودرست ورنہ اس کے بعد 110 پر اضافہ ہونا شروع ہوجائے گا ۔ ایسی صورت میں یہ اضافہ سود شمار ہوگا ۔
محترم بھائی آپ کو اس پر شرح صدر ہو گا مجھے علماء کے اختلاف کا تو پتا ہے لیکن محترم حافظ عبد المنان نور پوری رحمہ اللہ کے دلائل پڑھے تھے جو اسکے خلاف تھے اور ٹھیک لگے تھے
محترم بھائی کچھ سمجھا دیں شاہد مجھے بھی شرح صدر ہو جائے اللہ آپ کو جزا دے امین
اگر یہاں یہ موضوع نہیں تو دوسرے کسی دھاگے کا حوالہ دے دیں
خضر حیات
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
قسطوں اورنقد ميں عليحدہ قيمت مقرر كرني !!!

كيا خريدار اگر نقد خريدنا چاہے تواس كي اور قيمت اور اگر قسطوں ميں خريدنا چاہےتواس كي اور قيمت مقرر كي جاسكتي ہے؟ مثلا: يہ گاڑي نقد ميں پچاس ہزار اور قسطوں ميں ساٹھ ہزار كي ہے.

الحمد للہ :

جب بائع يہ كہےكہ: يہ گاڑي نقد پچاس ہزار اور قسطوں ميں ساٹھ ہزار كي ہے، تو اس مسئلہ كي دوصورتيں ہيں:

پہلي صورت:

بائع اور مشتري گاڑي كي قيمت اور ادائيگي كا طريقہ طے كرنے كےبعد جدا ہوں جائيں، تويہ بيع جائز ہے.

دوسري صورت:

قيمت پر متفق ہوئےبغير ہي جدا ہو جائيں، تو يہ بيع حرام ہو گي اور صحيح نہيں.

امام بغوي رحمہ اللہ تعالي " شرح السنۃ " ميں اس دوسري صورت كےمتعلق كہتےہيں:

اكثراہل علم كےہاں يہ فاسد ہےاس ليے كہ اس ميں كوئي علم نہيں كہ دونوں ميں سے كس بنياد پر قيمت ركھي گئي ہے.اھ

اوربہت سےعلماء نے نبي كريم صلي اللہ عليہ وسلم كي ايك بيع ميں دو بيع كي نہي كي يہي تفسير اور شرح كي ہے.


ابوھريرہ رضي اللہ تعالي عنہ بيان كرتےہيں كہ: رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم نے ايك سودے ميں دو سودے كرنےسے منع كيا ہے.
جامع ترمذي حديث نمبر ( 1152 ) علامہ الباني رحمہ اللہ تعالي نے صحيح ترمذي ( 985 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

امام ترمذي رحمہ اللہ تعالي كہتےہيں:

اہل علم كا عمل اسي پر ہے، اور بعض اہل علم نے اس كي تفسير كرتے ہوئےكہا ہےكہ: ايك بيع ميں دوبيع يہ ہے كہ كوئي يہ كہے: ميں نےيہ كپڑا نقد ميں آپ كو دس اور ادھار بيس ميں فروخت كيا، اور دونوں ميں سےايك بيع پر جدا ہو، لھذا جب وہ دونوں ميں سےايك پر جدا ہو اوركسي ايك پر سودا بھي طے ہوچكا ہو تواس ميں كوئي حرج نہيں. اھ

اور امام نسائي رحمہ اللہ تعالي سنن نسائي ميں كہتےہيں:

ايك بيع ميں دو بيع يہ ہےكہ: فروخت كرنے والا يہ كہے ميں نےيہ سامان آپ كو نقدسودرھم ميں اور ادھار دو سودرھم ميں فروخت كيا .

اور اما شوكاني رحمہ اللہ تعالي نيل الاوطار ميں كہتےہيں:

ايك بيع ميں دو بيع كي حرمت كي علت يہ ہےكہ ايك ہي چيز كودو قميتوں ميں فروخت كرنےكي صورت ميں قيمت كا عدم استقرار ہے. اھ.

مستقل فتوي كميٹي سے مندرجہ ذيل سوال كيا گيا: ِ

ايك گاڑي نقد دس ہزار اور قسطوں ميں بارہ ہزار ميں فروخت كرنے كے متعلق آپ كي رائےكيا ہے؟

كميٹي كا جواب تھا:

جب كوئي شخص كسي دوسرے كو گاڑي نقد دس ہزار اور ادھار بارہ ہزار ميں فروخت كرے اور مجلس سے بغير كسي سودے پر متفق ہوئےبغير ہي اٹھ جائيں يعني نقد يا ادھار كي قيمت پر متفق ہوئےبغير ہي، تو يہ بيع جائز نہيں اور جھالت كي بنا پر كہ آيا نقد بيع ہوئي يا ادھار اس كا كوئي علم نہ ہونے كي بنا پر يہ بيع صحيح نہيں ہوگي.

اس پر بہت سےعلماء كرام نے نبي صلي اللہ عليہ وسلم كي ايك بيع ميں دو بيع كي نہي والي حديث سے استدلال كيا ہے، جسےامام احمد اور نسائي ترمذي نےروايت كيا اوراسےصحيح كہا ہے، اور اگر خريدنےاور فروخت كرنے والا مجلس سے اٹھ كرجدا ہونے سے قبل نقد يا ادھار ميں سےكسي ايك پر متفق ہوجائيں اور پھر جدا ہوں توقيمت اور اس كي حالت كي علم كي بنا پر صحيح اور جائز ہے. اھ
ديكھيں: فتاوي اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 13 / 192 ) .

اور ايك دوسرے سوال ميں ہےكہ:

جب فروخت كرنےوالا يہ كہےكہ: يہ سامان ادھار دس ريال ميں اور نقد پانچ ريال ميں ہے تواس كا حكم كيا ہوگا؟

كميٹي كا جواب تھا:

جب واقعتا ايسا ہي جيسا سوال ميں مذكور ہے توبيع جائز نہيں، اس ليے يہ ايك بيع ميں دوبيع كي صورت بنتي ہے، اور نبي كريم صلي اللہ عليہ وسلم سے ايك بيع ميں دو بيع كي نہي ثابت ہے، كيونكہ اس ميں ايسي جہالت ہے جو اختلاف اور جھگڑے كاباعث بنےگي. اھ
ديكھيں: فتاوي اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 13 / 197 ) .

اور فقہ اكيڈمي كي قرار ہے كہ:

جس طرح نقد اور معلوم مدت كي قسطوں والي بيع كي قيمت ميں زيادتي جائزہےاسي طرح موجودہ اور ادھار كي قيمت ميں بھي زيادتي جائز ہے، اور بيع اس وقت جائزنہ ہوگي جب تك دونوں فريق نقد يا ادھار كا فيصلہ نہ كرليں، لھذا اگر بيع نقد اور ادھار كےمابين متردد ہو اور فريقين كا كسي ايك قيمت پر اتفاق نہ ہوا ہو تو يہ بيع شرعا ناجائزہوگي. اھ

واللہ اعلم .
الاسلام سوال وجواب

http://islamqa.com/ur/13722
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
محترم بھائی آپ کو اس پر شرح صدر ہو گا مجھے علماء کے اختلاف کا تو پتا ہے لیکن محترم حافظ عبد المنان نور پوری رحمہ اللہ کے دلائل پڑھے تھے جو اسکے خلاف تھے اور ٹھیک لگے تھے
محترم بھائی کچھ سمجھا دیں شاہد مجھے بھی شرح صدر ہو جائے اللہ آپ کو جزا دے امین
اگر یہاں یہ موضوع نہیں تو دوسرے کسی دھاگے کا حوالہ دے دیں
خضر حیات
ٹھیک ہے ۔ بھائی جان اس طرح کرتے ہیں کہ آپ عبد المنان نور پوری صاحب کے فتوی ( بیع قسط جائز نہیں ) کو یونیکوڈ میں نقل کریں اور میں حافظ ذوالفقار صاحب کی کتاب ’’ دور حاضر کے مالی معاملات کا شرعی حکم ‘‘ سے اس مسئلہ ( بیع قسط جائز ہے ) کو نقل کرتا ہوں ۔
تاکہ ایک علمی مسئلہ پر بحث و مباحثہ کے ساتھ ساتھ دو علمائے کرام کی رائے یونیکوڈ میں منتقل کرنے کا ثواب بھی مل جائے ۔ اتوار اور سوموار کو میرا اختبار (پیپر ) ہے ان شاء اللہ منگل والے دن میں اپنی ذمہ داری پوری کردوں گا ۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
ٹھیک ہے ۔ بھائی جان اس طرح کرتے ہیں کہ آپ عبد المنان نور پوری صاحب کے فتوی ( بیع قسط جائز نہیں ) کو یونیکوڈ میں نقل کریں اور میں حافظ ذوالفقار صاحب کی کتاب ’’ دور حاضر کے مالی معاملات کا شرعی حکم ‘‘ سے اس مسئلہ ( بیع قسط جائز ہے ) کو نقل کرتا ہوں ۔
تاکہ ایک علمی مسئلہ پر بحث و مباحثہ کے ساتھ ساتھ دو علمائے کرام کی رائے یونیکوڈ میں منتقل کرنے کا ثواب بھی مل جائے ۔ اتوار اور سوموار کو میرا اختبار (پیپر ) ہے ان شاء اللہ منگل والے دن میں اپنی ذمہ داری پوری کردوں گا ۔
عبدہ

http://forum.mohaddis.com/threads/قسطوں-میں-خرید-و-فروخت-۔.19047/
 
Top