• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

یو تھ کی تباہی اور بربادی کا پروگرام !!!

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
اس کے بعد اگر سائل کسی ماہ کی قسط وقت مقررہ پر ادا نہ کر سکے تو سود در سود نہیں لگے گا بلکہ معاہدہ توڑنے کا "کفارہ" ادا کرنا پڑے گا۔ ابتسامہ۔
سوائے اس کے کہ ٹرمنالوجی مختلف ہے، عملاً ان کے اور سودی بنکوں کے طریقہ کار میں کوئی فرق سرے سے پایا ہی نہیں جاتا۔

اسی لئے میں نے ”اسلامی بنکوں“ کو واوین میں لکھا ہے کہ ابھی یہ مکمل اسلامی بنک نہیں ہیں۔ اسلام میں تو ”قرض حسنہ“ کا تصور ہے، جسے ”تجارتی بنک“ اپنانے سے قاصر ہیں۔ قرض حسنہ تو اسلامی ریاست یا اس کے ذیلی ادارے ہی دے سکتے ہیں۔ موجودہ عہد میں اگر حکومت نے قرض حسنہ دیا تو شاید ہی کوئی واپس کرے۔ ابتسامہ

پیپر کرنسی کی بجائے اگر ”گولڈ کرنسی“ کو رواج دیاجائے تو ایک تو افراط زر ختم ہوجائے گا، دوسرے مہنگائی کا جن قابو میں آجائے گا اور ضرورت پڑنے پر دیئے گئے قرض پر سود، منافع، جرمانہ یا کفارہ کے نام پر کچھ بھی ’اضافی‘ نہیں دینا پڑے گا۔

اس پر بھی اپنی قیمتی رائے ضرور دیجئے۔
 

ابو عبدالله

مشہور رکن
شمولیت
نومبر 28، 2011
پیغامات
723
ری ایکشن اسکور
448
پوائنٹ
135
پیپر کرنسی کی بجائے اگر ”گولڈ کرنسی“ کو رواج دیاجائے تو ایک تو افراط زر ختم ہوجائے گا، دوسرے مہنگائی کا جن قابو میں آجائے گا اور ضرورت پڑنے پر دیئے گئے قرض پر سود، منافع، جرمانہ یا کفارہ کے نام پر کچھ بھی ’اضافی‘ نہیں دینا پڑے گا۔

اس پر بھی اپنی قیمتی رائے ضرور دیجئے۔

یہ کسی قدر بہتر صورت ہے۔
باقی "اسلامی" کے نام سے رائج بینکس اور انشورنس وغیرہ کا معاملہ تو میری نظر میں بہت ہی خطرناک ہے کیونکہ انہوں نے صرف ٹرمینالوجی بدلی ہے باقی کام سب وہی ہو رہا ہے۔
اور حال یہ ہے کہ ایک انشورنس ایجنٹ نے (عثمانی صاحب اور کچھ اور دیوبندی علماء کے فتاویٰ اس کے بیگ میں تھے) مجھ سے پوچھا کہ آپ یہ بتائیں آپ کا تعلق کس فرقہ سے ہے میں اسی فرقہ کے مولوی کا فتویٰ آپ کو دکھاتا ہوں کہ یہ جائز ہے۔۔۔۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
پیپر کرنسی کی بجائے اگر ”گولڈ کرنسی“ کو رواج دیاجائے تو ایک تو افراط زر ختم ہوجائے گا، دوسرے مہنگائی کا جن قابو میں آجائے گا اور ضرورت پڑنے پر دیئے گئے قرض پر سود، منافع، جرمانہ یا کفارہ کے نام پر کچھ بھی ’اضافی‘ نہیں دینا پڑے گا۔۔
بات تو بادی النظر میں بالکل درست معلوم ہوتی ہے۔
لیکن کیا یہ ممکن ہے بھی سہی؟ دنیا میں کسی ملک نے اس کا تجربہ کیا ہے؟
اور اگر یہ گولڈ کرنسی گولڈ ہی ہو، تو اس کی حفاظت کیونکرممکن ہوگی؟
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
بات تو بادی النظر میں بالکل درست معلوم ہوتی ہے۔
لیکن کیا یہ ممکن ہے بھی سہی؟ دنیا میں کسی ملک نے اس کا تجربہ کیا ہے؟
اور اگر یہ گولڈ کرنسی گولڈ ہی ہو، تو اس کی حفاظت کیونکرممکن ہوگی؟
شاکر بھائی!
پیپر کرنسی سے پہلے دنیا میں سونے چاندی ہی کے سکے مروج تھے۔ درہم و دینار کیا تھے؟ اشرفیاں کیا تھیں؟
پیپر کرنسی تو ایک حکومتی فراڈ اور جعلسازی ہے۔ اس بارے میں اوریا مقبول جان کے معلوماتی مضامین دیکھے جاسکتے ہیں۔ نمونے کے طور پر ان کے گروپ نے طلائی سکے پاکستان میں جگہ جگہ فروخت کے لئے رکھوائے تو ہیں۔ ویسے عقلمند لوگ تو پہلے ہی اپنی بچت پیپر کرنسی کی بجائے سونے کے بسکٹ میں رکھ رہے تھے۔ سونے کے بسکٹ ہوں یا سونے کے سکے ایک ہی بات ہے۔ جب تک حکومتی سرپرستی نہ ہو، انفرادی طور پر لوگ اپنی بچتوں کو سونے کے سکوں یا بسکٹوں میں رکھ سکتے ہیں اورقرض میں (سود سے بچنے کے لئے) گولڈ کرنسی میں لین دین کیا جاسکتا ہے بلکہ کرنا چاہئے۔
گولڈ کرنسی گولڈ ہی ہوگی۔ اس کی حفاظت بھی اسی طرح کی جائے جیسے پیپر کرنسی کی کی جاتی ہے۔ لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال خراب ہو، کیش، کریڈٹ ڈیبیٹ کارڈز اور موبائل وغیرہ چھنے جارہے ہوں تو کیا لوگوں نے یہ چیزیں رکھنا چھوڑ دی ہیں؟
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
مسئلہ وہی ہے کہ ”اسلامی بنکس“ پر بھی علماء کے ایک گروپ کا اعتراض ہے کہ اس سسٹم میں محض سود کا نام تبدیل کردیا گیا ہے جبکہ دوسرا گروپ اسے عین اسلامی کہتا ہے۔ حکومت کی ”نیت“ بھی یہ ہے کہ اسے جب یہ قرضے واپس ملیں تو اس کی مالیت ”ڈیویلیو“ نہ ہو۔

اگر حکومت نوجوانوں کو ”ایک لاکھ روپے کا قرضہ“ جاری کرنے کی بجائے ”20 گرام 22 قیراط کا سونا“ بطور قرض جاری کرے جو مناسب قسطوں (جیسے ایک سال کے بعد سے ایک گرام سونا ماہانہ) کے ذریعہ واپس لے تو حکومت کو ”ڈیویلیوڈ مالیت کی واپسی“ سے بھی نجات مل جائے گی اور سود کا چکر سرے سے ہی ختم ہوجائے گا۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکومت لوگوں کو سونا کیسے دے گی اور لوگ سیک سیک گرام سونا کیسے واپس کریں گے۔ ایسا عملی طور ر تو ممکن نہیں ہے۔ اس کا ایک آسان سا حل ہے کہ ۔۔۔ حکومت قرضہ تو 20 گرام سونا ہی منظور کرے۔ لیکن قرض کی ڈیلیوری میں یہ آپشن کھلا رکھے کہ قرض لینے والا، جس روز قرض وصول کرے، وہ چاہے تو سونے میں وصول کرے، چاہے تو اس روز اس کی قیمت کے مساوی روپیہ وصول کرلے ۔ یہ اوپن آپشن ہوگا تو لوگ مساوی روپیہ ہی لینا پسند کریں گے، سونا لے کر بھی تو اسے فروخت ہی کرکے کوئی کام شروع کریں گے۔ اسی طرح قرض کی واپسی کا بھی دو آپشن ہو کہ یا تو ایک گرام سونے کی قسط جمع کرواؤ یا اس روز ایک گرام سونے کی مالیت کے مساوی روپیہ۔

واللہ اعلم بالصواب
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
اسلام میں قرض لینا کیسا ہے ؟
الحمد للہ:

اول:

فقھاء كرام نے قرض كى تعريف كرتے ہوئے كہا ہے كہ: " يہ ايسا حق ہے جو كسى كے ذمہ ہوتا ہے"
ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 21 / 102 ).

اور دين كے لغوى معنى انقياد اور الذل كے ارد گرد گھومتے ہيں، اور شرعى و اصطلاحى اور لغوى معنى كے درميان ربط ظاہر ہے، كہ مقروض شخص اسير اور قيدى ہے-

جيسا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" يقينا تمہارا ساتھى اپنے قرض كے بدلے قيدى ہے "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 3341 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح ابو داود ميں اسے حسن قرار ديا ہے.
دوم:

شريعت اسلاميہ ميں قرض كے معاملہ ميں بہت سختى آئى ہے، اور اس سے بچنے كا كہا گيا ہے، اور اس سے حتى الامكان احتراز كرنے كى ترغيب دلائى گئى ہے:
عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم ہر نماز ميں درج ذيل دعا پڑھا كرتے تھے:

" اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْمَأْثَمِ وَالْمَغْرَمِ "
اے اللہ ميں تيرى پناہ پكڑتا ہوں گناہ سے اور قرض سے "
تو ايك كہنے والے نے عرض كيا:
آپ قرض سے اتنى كثرت كے ساتھ پناہ كيوں مانگتے ہيں ؟
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" بلا شبہ جب آدمى مقروض ہو جاتا ہے ( يعنى جب قرض ليتا ہے ) تو بات چيت ميں جھوٹ بولتا ہے، اور وعدہ كرتا ہے تو وعدہ خلافى كرتا ہے "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 832 )صحيح مسلم حديث نمبر ( 589 )
اور امام نسائى رحمہ اللہ نے محمد بن جحش رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كيا ہے وہ كہتے ہيں:

" ہم رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس بيٹھے ہوئے تھے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنا چہرہ مبارك آسمان كى طرف اٹھايا اور پھر اپنى ہتھيلى اپنى پيشانى پر ركھى اور فرمانے لگے:

سبحان اللہ! كتنى سختى اور تشديد نازل كى گئى ہے ؟

تو ہم خاموش رہے اور سہم گئے، اور جب دوسرے دن ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے دريافت كيا كہ اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم وہ كونسى سى سختى اور تشديد تھى ؟

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" اس ذات كى قسم جس كے ہاتھ ميں ميرى جان ہے! اگر كوئى شخص اللہ كى راہ ميں قتل كر ديا جائے، پھر اسے زندہ كيا جائے، پھر قتل كر ديا جائے، اور پھر زندہ كيا جائے اور پھر قتل كر ديا جائے، اور اس پر قرض ہو تو وہ جنت ميں داخل نہيں ہو گا، حتى كہ اس كا قرض ادا نہ كر ديا جائے"
سنن نسائى حديث نمبر ( 4605 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح سنن نسائى حديث نمبر ( 4367 ) ميں اسے حسن قرار ديا ہے.
اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ايسے شخص كى نماز جنازہ نہيں پڑھائى تھى جس كے ذمہ دو دينار قرض تھے، حتى كہ ابو قتادہ رضى اللہ تعالى عنہ نے اس كا قرض ادا كرنے كى حامى بھرى تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس كى نماز جنازہ ادا كى، اور جب دوسرے دن ابو قتادہ رضى اللہ تعالى عنہ كو ديكھا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" اب اس كى چمڑى ٹھنڈى ہوئى ہے "
مسند احمد ( 3 / 629 ) امام نووى رحمہ اللہ نے الخلاصۃ ( 2 / 931 ) ميں اور ابن مفلح نے الآداب الشرعيۃ ( 1 / 104 ) ميں نقل كيا ہے، اور مسند احمد كے محققين نے اسے حسن قرار ديا ہے.
 
Top