۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اصل مراسلہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔السلام علیکم !
احباب گرامی ! زیر نظر تھریڈ کے ابتدائی مرسلات ایک اور تھریڈ میں پائے جاتے تھے جنہیں اب انتظامیہ نے مفید خیال کرتے ہوئے گفتگو کے لیے الگ تھریڈ کی صورت دے دی ہے ۔ اس لیے پس منظر بارے کچھ چیزوں کی وضاحت لازمی ہو گئی ہے۔
خوارج کی علامات نامی طویل تھریڈ میں اس بحث کا آغاز برادر @محمد ارسلان کے ایک استفسار سے ہوا جو محدث فتوی کمیٹی سے مسلمانوں کے خلاف کفار کی مدد و نصرف کے موضوع پر کیا گیا۔ جواب اس لنک میں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔ اس سلسلے میں سورہ المائدہ کی آیت:١٥ کو بنیاد بنایا گیا (جیسے آیت ولایت کے نام سے بھی یاد کیا گیا ہے)۔ یہی فتویٰ شیخ ابن باز اور شیخ محمد صالح المنجد کا بھی نقل کیا جاتا ہے۔
مسلمانوں کے خلاف کفار کی معاونت
حكم من يطالب بتحكيم المبادئ الاشتراكية والشيوعية |
Islam Question and Answer - مسلمانوں کے خلاف کافرفوج کی مدد کرنے کا حکم
اس پر بحث چل نکلی اور برادر یاسر اکرم نے حافظ زبیر صاحب (ابو الحسن علوی) کا مضمون آیت ولایت پر نقل کیا جو بذات خود تکفیر کی بنیادؤں پر ایک طویل مقالے کا حصہ ہے۔ اس مضمون میں حافط صاحب ایت ولایت کی رو سے حکمرانوں کی تکفیر کیے جانے کا رد کرتے نظر آتے ہیں ۔
اس آیت پر انہوں نے نکتہ وار گفتگو کی ہے جو مفصل بات کی متقاضی ہے ۔ البتہ زیر نظر مراسلہ میں ان میں سے نکتہ اول اور کسی قدر نکتہ سوم کا جائزہ لیا گیا ہے ، یہ دونون نکات آپس میں مربوط ہیں۔ حافظ صاحب کے مطابق:
اول: ایت کریمہ کے اصلا مراد اعتقادی منافقین ہیں۔
دوم: چونکہ اصل میں یہ ایت نازل منافقین کے لیے ہوئی تھی اس لیے آیت مبارکہ کی رو سے اگر اعتقادی منافق کفار کی مددونصرت کرے تو وہ کفر و ارتداد ہے، البتہ عام مسلمان ایسا کریں تو کفر نہیں ہے۔
سوم: اعتقادی منافقین کا علم اللہ کی ذات کے علاوہ کسی کو اس وقت نہیں ہو سکتا جب تک وہ خود سے اپنے نفاق کا اعلان نہ کر دیں۔
مزید یہ کہ وہ "تعلق ولایت" جیسی اصطلاحیں استعمال کرتے ہوئے ، اور بالخصوص "اعتقادی نفاق" اور "قلبی دوستی" کے استعمال سے ایک ایسا ناقابل تسخیر حصار تعمیر کرتے ہیں کہ اس کی رو سے از وفات نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم تا قیام قیامت آیہ مبارکہ کی تطبیق عملا ممکن نہیں رہتی۔
انہی صغریٰ کبریٰ کا مشاہدہ کرتے یہ بات بھی سامنے آئی کہ حافظ صاحب ایات قرآنی کا ترجمہ کرتے ہوئے ولی ۔ اولیاء کا ترجمہ ( نہ کہ مفہوم!) کہیں "دوستی" تو کہیں " قلبی دوستی" کرتے نظر اتے ہیں۔ مراجعہ کرنے سے یہ سامنے آیا کہ اردو کے معروف اور مستند مترجم علماء نے کہیں بھی یہ چیز روا نہیں رکھی ہے۔ اس پر بھی ایک مراسلہ "" چمن میں تلخ نوائی مری گوارا کر"" کے مصداق آپ کو ملے گا۔
یہی "سلوک" امام طبری رحمہ اللہ عبارت کے ساتھ رکھا گیا ہے! اب کی "رواں دواں گفتگو" بعد کے مراسلوں میں اسی "قلبی دوستی" پر نظر ائے گی، البتہ حافط زیر صآحب کے اس سارے ہی مقالے پر ازسرنو تحقیق مزید کی ضرورت موجود ہے ۔(اور جیسا کہ زیر نظر مراسلے میں بھی آخر میں بھی اس کا ذکر موجود ہے)
بعض اصحاب کو شاید بادی النظر میں یہ ایک لفظی بحث زیادہ معلوم ہو ، لیکن جو حضرات موصوف کا مضمون دیکھ لیں گے ان پر ذرا سے تامل کرنے سے واضح ہو جائے گا کہ اس یک لفظی اضافے نے حافظ صاحب کو استدلال میں کس بنیادی تبدیلی کی راہ نکال دی ہے۔ مضمون کا لنک یہ ہے :
http://www.kitabosunnat.com/forum/یونیکوڈ-119/توحید-حاکمیت-اور-فاسق-وظالم-حکمرانوں-کی-تکفیر-726/index2.html#post3607
ابن تیمیہ و ابن عبدالوہاب رحمہ اللہ کے کچھ اقتباسات بھی موجود ہیں جو اقوال فیصل اور قابل توجہ ہیں۔ بحث جاری ہے ، آُپ پڑھتے بھی رہیں گے اور اللہ وصول الی لحق کی توفیق بھی عطا فرمائیں ،بس دو سطروں میں سلف کا موقف بس اتنا سا ہے کہ :
سلف کی عبارات آیت مبارکہ میں ذکر کردہ دوستی کو کسی "خاص قسم کی دوستی" تک محصور کرنے کی بھی تردید کرتی ہیں ۔ اور دلی دوستی کی قباحت کے ساتھ ساتھ وہ عملی مددونصرت مستقل طور پر ارتداد قرار دیتے ہیں ، اگرچہ وہ دلی تعلق کے بغیر ہی کیوں نہ ہو!
""سورہ المائدہ کی اس آیت مبارکہ میں تمام مسلمانوں کو کفار سے دوستی سے منع کیا گیا ہے اور اس کا حکم (صرف منافقین نہیں بلکہ)تمام مسلمانوں کے لیے قیامت تک باقی ہے۔نیز آیت کی رو سے عملی دوستی کی قوی ترین صورت "مسلمانوں کے خلاف کفار کی مددو نصرت کرنا" بذات خود کفرو ارتداد ہے اور نواقض اسلام میں سے ایک ہے۔""
موجودہ جائزہ محض سرسری اور سرراہے قسم کا سمجھ لیں ، البتہ زیر نقد مقالہ کی تمام جوانب کے تحقیقی "مطالعے" کے لیے انتظار فرمائیں اور دعا کریں کہ اللہ اپنے کسی بندے کو اس کی کما حقہ توفیق عطا فرمائے۔ آمین
١٠.٠٣.١٣
ایک غلطی کا ازالہ :
برادر یاسر! اپ نے ایک علمی بات کرنے کی کوشش کی ہے ، لیکن حق یہ تھا کہ اپ حوالہ پیش کرنے سے پہلے دیکھ لیتے ۔ حقیقت یہ ہے کہ امام طبری کی عبارت جس مقام سے "اچکی" گئی ہے وہ کچھ یوں ہے:اس آیت مبارکہ سے مسلم حکمرانوں اور اداروں کی تکفیر پر ظاہری استدلال بوجوہ ناقص ہے۔پہلی بات تو یہ ہے کہ اس سے اگلی آیت میں یہ بات بالکل واضح موجود ہے کہ یہ خطاب اعتقاد ی منافقین سے ہے۔
کیونکہ اگلی آیت مبارکہ کے الفاظ ہیں:
(فَتَرَی الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِھِمْ مَّرَض یُّسَارِعُوْنَ فِیْھِمْ یَقُوْلُوْنَ نَخْشٰی اَنْ تُصِیْبَنَا دَائِرَة) (المائدة : ٥٢)
'' پس آپﷺ دیکھتے ہیں کہ جن لوگوں کے دلوں میں نفاق کی بیماری ہے وہ انہی یہود و نصاری میں گھستے چلے جاتے ہیں اور وہ کہتے ہیں ہمیں اندیشہ ہے کہ ہم پر کوئی گردش دوراں نہ آ جائے۔''
اسی طرح اس سے اگلی دو آیات میں بھی منافقین ہی کا تذکرہ ہے ۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
(وَیَقُوْلُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ھٰؤُلَآئِ الَّذِیْنَ اَقْسَمُوْا بِاللّٰہِ جَھْدَ اَیْمَانِھِمْ اِنَّھُمْ لَمَعَکُمْ حَبِطَتْ اَعْمَالُھُمْ فَاَصْبَحُوْا خٰسِرِیْنَ )۔(یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَنْ یَّرْتَدَّ مِنْکُمْ عَنْ دِیْنِہ فَسَوْفَ یَاْتِی اللّٰہُ بِقَوْمٍ یُّحِبُّھُمْ وَیُحِبُّوْنَہ اَذِلَّةٍ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اَعِزَّةٍ عَلَی الْکَافرِیْنَ)
(المائدة : ٥٣۔٥٤)
'' اور اہل ایمان(ایک دوسرے سے )کہتے ہیں: کیا یہ ہیں وہ لوگ( یعنی منافقین) جنہوں نے اللہ کے بارے میں سخت قسمیں کھاکر کہا تھا کہ وہ لازماً تمہارے (یعنی مسلمانوں) کے ساتھ ہیں۔ان(منافقین) کے اعمال ضائع ہو گئے اور وہ خسارہ پانے والوں میں سے ہوگئے۔اے ایمان والو! اگر کوئی تم میں سے اپنے دین سے پھر جائے گا(مثلاً منافق ہو جائے گا) تو اللہ تعالی ایسی قوم کو لائیں گے جو اللہ سے محبت کرتی ہو گی اور اللہ اس سے محبت کرتے ہوں گے اور یہ قوم اہل ایمان کے لیے نرم اور کافروں پر سخت ہو گی۔ ''
اسی لیے امام المفسرین' امام ابن جریر طبری نے لکھا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ آیات منافقین ہی کے بارے میں نازل ہوئی تھیں۔
امام ابن جریر طبری فرماتے ہیں:
'' غیر أنہ لا شک أن الآیة نزلت فی منافق کان یوالی یھودا أو نصاری خوفا علی نفسہ من دوائر الدھر لأن الآیة التی بعدہ ھذہ تدل علی ذلک وذلک قولہ : فَتَرَی الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِھِمْ مَّرَض یُسَارِعُوْنَ فِیْھِمْ یَقُوْلُوْنَ نَخْشٰی اَنْ تُصِیْبَنَا دَائِرَة.'' (تفسیر طبری : المائدة : ٥١)
'' اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ آیت مبارکہ ایسے منافق کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو اپنے بارے میں آنے والے حالات کے خوف سے کسی یہودی یا عیسائی کو قلبی دوست بنا لیتا تھا۔
اس آیت مبارکہ کے بعد والی آیت اس بات پر دلالت کر رہی ہے اور وہ یہ آیت ہے:
"فتری الذین فی قلوبھم مرض یسارعون فیھم یقولون نخشی أن تصیبنا دائرة۔''
"" فإذ كان ذلك كذلك فـالصواب أن يُحْكم لظاهر التنزيـل بـالعموم علـى ما عمّ، ويجوز ما قاله أهل التأويـل فـيه۔۔۔۔۔ غرہ أنہ لا شک أن الآیة نزلت فی منافق کان یوالی یھودا أو نصاری خوفا علی نفسہ۔۔۔۔۔ الخ ""
""درست بات یہی ہے کہ اس آیت میں مسلمانوں کو جو عام حکم دیا گیا اس کو عام ہی سمجھا جائے ․․․․․․․․اگرچہ یہ بات اپنی جگہ بجاہے کہ یہ آیت ایک منافق کے بارے میں نازل ہوئی تھی ۔وہ منافق یہودیوں اور عیسائیوں سے دوستیاں کرتا تھا۔اس کے دل میں یہ خوف سوار تھا کہ کہیں یہودیوں وعیسائیوں کی طرف سے مجھے ناگفتہ بہ اور ناساز گار حالات کا سامنا نہ کرنا پڑجائے۔یہی وجہ ہے کہ سورۃ المائدہ کی آیت :۵کے بعد والی جو اگلی آیت ہے اس میں اللہ تعالیٰ نے اس خوف کی وضاحت بھی فرمائی ہے ۔""
اب پہلا جملہ علوی صاحب نے چھوڑ کر باقی عبارت لے لی!اور یہ بھی دیکھ لیں کہ ایک ایک جملے کو کاٹ پھینکنا کلام کا مفہوم کیا سے کیا کر سکتا ہے۔اب یہ تصویر سامنے اتی ہےکہ امام صاحب اس آیت کو سب مسلمانوں کے لیے جانتے ہیں اور قیامت تک اسے حکم عام بتلاتے ہیں ۔
امام طبری رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں :
""والصواب من القول فـي ذلك عندنا أن يقال: إن الله تعالـى ذكره
نهى الـمؤمنـين جميعاً
أن يتـخذوا الـيهود والنصارى أنصاراً وحلفـاء علـى أهل الإيـمان بـالله ورسوله، وأخبر أنه من اتـخذهم نصيراً وحلـيفـاً وولـياً من دون الله ورسوله والـمؤمنـين، فإنَّه منهم فـي التـحزّب علـى الله وعلـى رسوله والـمؤمنـين، وأن الله ورسوله منه بريئان. وقد يجوز أن تكون الآية نزلت فـي شأن عُبـادة بن الصامت وعبد الله بن أبـيّ ابن سلول وحلفـائهما من الـيهود، ويجوز أن تكون نزلت فـي أبـي لُبـابة بسبب فعله فـي بنـي قريظة، ويجوز أن تكون نزلت فـي شأن الرجلـين اللذين ذكر السدّيّ أن أحدهما همّ بـاللـحاق بدهلك الـيهودي والآخر بنصرانـي بـالشأم، ولـم يصحّ بواحد من هذه الأقوال الثلاثة خبر يثبت بـمثله حجة فـيسلـم لصحته القول بأنه كما قـيـل.’’ہمارے نزدیک یوں کہنا درست ہے کہ اللہ رب العزت نے تمام مسلمانوں کومنع کیا ہے ۔اس بات سے کہ وہ یہودیوں اور عیسائیوں کو اللہ تعالیٰ پر اور اس کے آخری رسول جناب محمد ﷺپر ایمان رکھنے والے مومنوں کے خلاف اپنے حمایتی ،مددگار اور حلیف بنائیں ۔اللہ تعالیٰ نے اس بات سے بھی خبردار کیا ہے کہ جو مسلمان ۔اللہ تعالیٰ ،اس کے رسول ﷺکو اور مومنوں کو چھوڑ کر ان کافروں کو اپنا حمایتی ،مددگار اور دوست بنائے گا پھر وہ ان یہودیوں اور عیسائی کافروں کی پارٹی کا ہی فرد گردانا جائے گا ۔گویایہ شخص اللہ رب العالمین ،رسول اللہﷺاور مومنوں کے مدمقابل کافروں کی پارٹی اور جماعت کا ایک کارکن اور ورکر (worker)ہوگا۔اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول ﷺاس سے کلیتاً بیزار اور لاتعلق ہوں گے۔""
Altafsir.com - The Tafsirs - التفاسير
اب حضرات خود دیکھ سکتے ہیں کہ امام طبری رحمہ اللہ تویہ کہیں کہ اس آیت کے مخاطب سارے ہی مسلمان ہیں اور اس کا حکم قیامت تک ہے اور ہمارے امام علوی صاحب ان کی تفسیر سے کیا دکھا رہے ہیں !
مزید یہ کہ جو ترجمہ ابو الحسن علوی صاحب نے "قلبی دوستی" کیا ہے وہ بھی محل نظر ہے! امام طبری فرماتے ہیں کہ:
یعنی وہ منافق زمانے کی گردشوں کے ڈر کر یہودیوں یا عیسائیوں سے دوستی رکھتا تھا۔منافق کان یوالی یھودا أو نصاری خوفا علی نفسہ من دوائر الدھر
اب کیا حآلات سے ڈر کر قائم کی جانے والی دوستی "قلبی دوستی" ہوتی ہے؟؟
یہی بات اگلی آیت بھی کہہ رہی ہے کہ اصل بات کیاتھی ::
یُّسَارِعُوْنَ فِیْھِمْ یَقُوْلُوْنَ نَخْشٰی اَنْ تُصِیْبَنَا دَائِرَة
ان میں گھسے جاتے ہیں کہتے ہیں ہم پر کوئی گردش دوراں نہ آ جائے۔
امام ابن تیمیہ رحمہ اﷲ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
قََالَ اللّٰہُ تَعَالٰی ﴿وَ مَنْ یَّتَوَلَّہُمْ مِّنْکُمْ﴾ فَیُوَافِقْھُمْ وَ یُعِینُھُمْ ﴿فَاِنَّہٗ مِنْہُمْ﴾ وَ قَالَ أَیْضًا فِی تَفْسِیر ھٰذِہِ الْآیۃ: وَالْمُفَسِّرُوْنَ مُتَّفِقُوْنَ عَلٰی أَنَّھَا نَزَلَتْ بِسَبَبِ قَوْمٍ مِمَّنْ کَانَ یُظْھِرُ الْاِسْلَامَ وَ فِیْ قَلْبِہٖ مَرَضٌ خَاف أَنْ یَغْلِبَ أَھْلُ الاِسْلَام فَیُوَالِی الْکُفَّارَ مِنَ الْیَھُودِ وَالنَّصَارٰی وَ غَیْرِھِمْ لِلْخَوفِ الَّذِیْ فِیْ قُلُوْبِھِمْ لَا لاِعْتِقَادِھِمْ أَنَّ مُحَِمَّدًا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَاذِبٌ وَأَنَّ الْیَھُودَ وَالنَّصَارٰی صَادِقُوْنَ‘‘
’’اﷲ تعالیٰ کے زیر تفسیر فرمان ﴿وَ مَنْ یَّتَوَلَّہُمْ مِّنْکُمْ﴾کامعنی ہے کہ ’’فَیُوَافِقْھُمْ وَ یُعِینُھُم‘‘۔
ترجمہ: یعنی جو یہودیوں اور عیسائیوں کی موافقت کرتا ہے اور ان کی مدد اور تعاون کرتا ہے تو ﴿فَاِنَّہٗ مِنْہُمْ﴾وہ ان میں سے ہی شمار ہوگا۔‘‘امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں: تمام مفسرین کرام اس بات پر متفق ومتحد ہیں کہ :
مذکورہ بالا آیت کا شانِ نزول ایک ایسی قوم کے افراد سے متعلق ہے جو بظاہر اسلام کا دعوٰی اور اظہار کرتے تھے مگر ان کے دلوں میں یہ خوف جاگزیں تھاکہ اگر بالفرض اہل اسلام کافروں کے ہاتھوں شکست کھاگئے توپھر ہمارا کیا بنے گا ،ہم کدھر جائیں گے ۔بس اس خوف سے ہی وہ کلمہ پڑھنے کے باجوود یہودیوں ،عیسائیوں اور دیگر کافروں کے ساتھ بنارکھتے تھے ۔ان کے دوستانہ تعلقات کی بنیاد فقط وہ خوف تھا جو ان کے دل ودماغ پر بُری طرح سوار تھا۔کافروں سے دوستیاں کرنے والے اور ان سے بناکر رکھنے والوں کے دلوں میں یہ اعتقاد ونظریہ بالکل نہ تھا کہ (نعوذ باﷲ من ذلک)محمد صلی اﷲ علیہ و سلمجھوٹے پیغمبر ہیں اور یہود ونصارٰی سچے ہیں ۔‘‘
(مجموع الفتاوی:۱۹۳/۷،۱۹۴)
برادر یاسر ! آپ اپ کا بجا طور پر حق بنتا ہے کہ آپ اس "تحریر" اور صاحب تحریر دونوں پر "ایمان بالغیب" ترک کر دیں اور خود سے تحقیق کریں ۔
باقی اسی مضمون " ظالم فاسق حکمرانوں کی تکفیر" کے آخر میں کفار کی جو "شاندار" تقسیم کی گئی ہے اور اس کی بنیاد پر انہیں دوست بنانے یا نہ بنانے کا جو "مجتہدانہ" موقف قائم کیا گیا ہے ، اس بارے بھی قابل احترام محترم عبدالغفار مدنی حفظہ اللہ، عبد الرحمان مکی یا عبد السلام بھٹوی حفظھم اللہ سے پوچھ لیجئے گا ۔
مجھے لگتا ہے کہ اس سارے مضمون پر ہی کوئی ماری موٹی نظر ثانی کرنی پڑے مجھے کسی دن ، آپ لوگ تو مانو "بلائنڈ ٹرسٹ" کرتے جا رہے ہو ان ایک دو تحریروں پر!!
ویسے بھی ساری تحقیقات اور "ارشادات" صرف اہل تقلید کے لیے ہی مخصوص نہیں رہنی چاہییں ، اس فورم پر اہل علم موجود رہتے ہیں ۔ انہیں ہی کچھ کرنا چاہیے !!
والسلام