• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

یہودیت اور شیعیت کے مشترکہ عقائد از ڈاکٹر ابو عدنان سہیل

ابوعمر

رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
66
ری ایکشن اسکور
358
پوائنٹ
71
مقدمہ
الحمد ﷲ والصلوٰۃ والسلام علیٰ رسول اﷲ
پیش نظر کتاب ہم نے ’’یہودیت ‘‘ اور ’’شیعیت‘‘ کا باہمی موازنہ کرتے ہوئے ،ثانی الذکر کو یہودیت کا چربہ اور اس کی ایک نقاب بتایا ہے ۔اور بطور ثبوت دلائل قرآن مجید کی کچھ آیتیں بھی پیش کی ہیں ۔ اس سلسلے میں ہم یہ وضاحت کردینا چاہتے ہیں کہ’’اہل تشیع ‘‘کو ’’یہود ‘‘کی ایک شاخ ماننے اور انہیں ایک ہی سکے کے دورخ تسلیم کرنے میں ناچیز مولف منفرد نہیں بلکہ صدیوں قبل اندلس کے مشہور عالم دین ’’ابن عبدربہ‘‘اپنی کتاب ’’العقد الفرید‘‘میں اس حقیقت کی تصدیق کرچکے ہیں ،انہوں نے بھی یہودیوں اور شیعوں کے درمیان عقائد کی مماثلت اور مشابہت کی نشان دہی کی تھی ،موجودہ دور میں بھی ایک محقق اور عالم دین ڈاکٹر محمد یوسف نگرامی نے اپنی کتاب ’’الشیعۃ فی المیزان‘‘میں یہود وروافض کے درمیان جو فکری مشابہت بیان کی ہے اس کا خلاصہ ہم سطور ذیل میں پیش کررہے ہیں :

(۱) یہودی اپنے آپ کو اﷲ کی پسندیدہ قوم تصور کرتے ہیں اور ان کا دعویٰ ہے کہ یہودیوں کے علاوہ تمام انسان ’’گوئم‘‘(Goium)یعنی حیوان ہیں جو یہودیوں کی خدمت کے لیے پیدا کیے گئے ہیں ،اور ان کے مال ودولت کی لوٹ مار جائز ہے ۔
اہل تشیع بھی بالکل یہی دعویٰ کرتے ہیں ۔وہ کہتے ہیں کہ ان کا تعلق اہل بیت سے ہے اس لئے ہم سب سے افضل اور اﷲکے محبوب بندے ہے ،وہ بھی اپنے علاوہ تما م انسانوں کو’’ ناصبی‘‘ کہتے ہیں یعنی ان کے عقیدے کے دشمن !جن کے مال ودولت کو لوٹنا صرف جائز ہی نہیں بلکہ ثواب کار ہے ۔

(۲) یہود نسلی برتری وتعصب کے علم بردار ہیں وہ عربوں کو بلکہ تمام مسلمانوں کو ذلت وحقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
شیعوں کابھی عربوں کے بارے میں یہی نظریہ اور خیال ہے ۔جدید ایران کے ایک مصنف’’مہدی بازرگان‘‘اسی رافضی نظریہ کی یوں وضاحت کرتا ہے :
’’عربوں کی طبیعت میں سختی اور خشونت ہے ۔ان کا مزاج جارحانہ اور سوچ بڑی پست ہے ‘‘
(الحد الفاصل بین الدین والسیاسہ ،مہدی بازرگان ص:۶۸)

(۳) جہاں کہیں بھی یہودیوں نے آبادی اختیار کی وہیں کچھ عرصے کے بعد ان کے خلاف یہ بات سننے میں آئی کہ وہ قوم کے اندر ایک قوم ہیں ،انہوں نے اپنی اس انفرادیت (جس کا خمیر نسلی برتری ہے)کو قائم رکھنے کے لئے ہمیشہ اپنی علیحدہ نوآبادیاں بنائیں ان آبادیوں یا محلوں کو ’’گیٹو‘‘(Geto)کہا جاتا تھا ،یورپ کے صنعتی انقلاب نے جوان یہودیوں کا ہی لایا ہوا تھا ’’گیٹوں کی دیواروں کو ڈھادیا تھا ‘‘لیکن یہودی اپنے سماج اور معاشرے میں گھل مل نہ سکے ۔ان کی نظریں ہمیشہ اپنی ارض موعود کی جانب اٹھتی رہیں اور قیام اسرائیل کے بعد ساری دنیا کے یہودی ’’تل ابیب ‘‘کے حکام کے تابع ہوگئے ۔
ٹھیک یہی حالت ’’اہل تشیع ‘‘کی بھی ہے ۔یہ جہاں بھی رہتے ہیں وہاں یہودیوں کی طرح ’’گیٹو‘‘بناتے ہیں ،برصغیر کے ہر شہر اور قصبہ میں جہاں شیعوں کی آبادی ہے آپ کو شیعوں کے ’’گیٹو‘‘ضرور نظر آئیں گے لکھنؤ کا محلہ ’’قلعہ عالیہ‘‘اس کی واضح مثال ہے ۔یہودیوں کی طرح رافضیوں یعنی اہل تشیع کی وفاداری بھی صرف ایران کے ساتھ ہوتی ہے ۔یہ لوگ جہاں اور جس ملک میں رہتے ہیں ،ا س ملک اور اس کے عوام کے لیے درد سر بن جاتے ہیں کیونکہ تخریبی سرگرمیاں ان کے دین کا ایک حصہ ہیں ۔اس سلسلے میں ابوجعفر کلینی کی ایک شر انگیز عبارت کا ترجمہ ملاحظہ فرمائیں ،کلینی نے لکھا ہے:
’’ابوبکر سے لے کرآج تک تمام سنی حکمران غاصب وظالم ہیں ،کیونکہ حکمرانی کا حق صرف شیعہ اماموں یا ان کی امامت کو ماننے والے شیعوں کو ہے اور شیعوں کا فرض ہے کہ تمام سنی حکومتوں کو تباہ کرنے میں لگے رہیں ،کیونکہ اگر انہوں نے ایسانہ کیا اور سنی حکومت میں اطمینان سے رہے تو چاہے یہ شیعہ کتنے ہی عبادت گذار کیوں نہ ہوں عذاب الٰہی کے مستحق ہوں گے ‘‘ (اصول کافی ص:۲۰۶)

(۴) یہودیوں نے اپنے اقتدار وتسلط کے لئے تاریک کے ہر دور میں جنس(Sex)کا سہارالیا انہوں نے علم وادب کے نام پر دنیا میں ایسی فحاشی اور بے حیائی پھیلائی کہ مشرق ومغرب کے معاشروں کی اخلاقی قدریں تار تار ہوگئیں ،جرمنی کایہودی ’’فرائڈ‘‘یہودیوں کی اس اباحی تحریک کا علمبردار تھا،اس نے ہر چیز کو جنس کی عینک لگا کر دیکھا اباحیت کی اس تحریک کو ’’فرانس کے تگڈم‘‘سارٹر،سیمون ری بواراور ’’ایسرکامی‘‘نے جلابخشی ،فحاشی کی اس یہودی تحریک نے ’’ہنری ملر ‘‘البرٹ موراوبا جیسے فحش نگاروں کو جنم دیا اور اسی فلسفہ یہودیت نے سارٹر کو سیمون کے ساتھ چالیس سال تک ناجائز تعلقات قائم کرنے پر فخر کرنے کی ہمت دلائی ،اور اباحیت کے اسی یہودی فلسفے نے یورپ کی حالیہ جنسی بے راہ روی اور اجتماعی زنا کاری کی راہ ہموار کی جس نے انسان وحیوان کے فرق کو مٹادیا۔
شیعوں نے بھی انسانی معاشرے کو کھوکھلا کرنے کے لیے زناوبدکاری پر ’’متعہ‘‘کانقاب ڈال کر اس کو اعلیٰ ترین عبادت کا درجہ دے دیا اور کلینی سے خمینی تک تمام رافضی اہل قلم اس بات پر متفق ہیں کہ جو متعہ سے محروم رہا وہ جنت سے بھی محروم رہے گا اور قیامت کے دن نکٹا اٹھے گا اور اس کا شمار اﷲکے دشمنوں میں ہوگا ۔شیعہ علماء ومجتہدین میں عاملیؔ تو اجتماعی بدکاری پر زور دے ہی چکے تھے ،لیکن عصر حاضر کے کلینی یعنی ’’آیت اﷲخمینی ‘‘ نے بدکار اور فاحشہ عورتوں کے ساتھ زنا کرنے کی ترغیب دی ہے ۔ (تحریر الوسیلۃ ،آیت اﷲخمینی ۔ج۲ص ۳۹۰)
یہودیوں کی طرح شیعوں نے بھی شہوت رانی کا پورا سامان مہیا کردیا ہے تاکہ ہر قوم وملت کا نوجوان طبقہ ان کی چال میں پھنس کر ان کے ناپاک ارادوں اور عزائم کی تکمیل کرنے میں مددگار ہو۔

(۵) یہودیوں کے ’’پروٹوکولز‘‘نے اقتدار اور اس کی بقاء واستحکام کے لیے ذرائع ابلاغ پر کنٹرول وگرفت کو ضروری قرار دیا ۔آپ تاریخ کے کسی بھی دور کو دیکھیں ہمیشہ یہودی ذرائع وابلاغ پر چھائے نظر آئیں گے ،یورپ کے صنعتی انقلاب کے بعد یہودی یورپ وامریکہ کے ذرائع ابلاغ پر کس طرح قابض ہوئے وہ ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔
اہل تشیع بھی یہودیوں کی طرح ہمیشہ ذرائع وابلاغ کو پنجوں میں جکڑے رہے ،خلافت اسلامیہ کے مختلف ادوار میں شیعہ حضرات ذرائع وابلاغ اور علم وادب پر قابض رہے ،مثال کے طور پر اورنگ زیب عالم گیر کے دربار کا سب سے کامیاب نثر نگار اور شاعرنعمت اﷲخان نامی ایک رافضی تھا ،علامہ شبلی نعمانی کے بیان کے مطابق اس زمانے کے ممتاز شعراء وادباء کا مذہب رافضیت تھا اور عہد عالم گیری کا مورخ بذات خود بڑا متعصب شیعہ تھا ۔اردو ادب کی ابتدا اور ترقی میں بھی شیعہ اہل قلم کا بڑا ہاتھ تھا ۔اور حقیقت یہ ہے کہ ہماری علمی اور ادبی زندگی میں شیعہ حضرات کا حصہ ان کے تناسب تعداد سے کہیں زیادہ ہے ،غالب سے لے کر پروفیسر احتشام حسین تک ممتاز شعراء وادباء اکثر وبیشتر شیعہ ہی ملیں گے ،رافضیوں کی ہماری ادبی وشعری زندگی پر حکمرانی نے اُردو شاعری میں کربلائی ادب کو جنم دیا جس کے آج کے علمبردار جانثار اختر اور افتخار عارف جیسے دین سے بے بہرہ لوگ ہیں ،رافضیت کی ہمارے شعر وادب پر یلغار اتنی سخت تھی کہ مولانا محمدعلی جوہر جیسے مرد مومن رافضیت کے رنگ میں یہ شعر کہہ گئے :
قتل حسین اصل میں مرگ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
(الشیعہ فی المیزان(اردو ترجمہ)ڈاکٹر محمد یوسف نگرامی ص۳۰،۳۸(دہلی ۱۹۷۹)
آخر میں استدعا ہے کہ قارئین کرام اس کتاب کے مطالعہ کے دوران جہاں کوئی خامی اور کوتاہی محسوس فرمائیں،اس کی اصلاح اور نشان دہی فرمادیں تاکہ آئندہ ایڈیشن میں اس کی تصحیح اور تدارک کیا جاسکے ،مجھے اپنی کم علمی اور بے مائیگی کا اعتراف ہے اور اس بات کا احساس بھی کہ ’’روایات شکنی ‘‘کی میری یہ کوشش لازمی طور پر کچھ حلقوں کو گراں گزرے گی ۔تاہم اس ضمن میں مثبت اور تعمیری تنقید کا میں کھلے دل سے خیر مقدم کروں گا۔
وما توفیقی الا باﷲ
(ڈاکٹر ابوعدنان سہیل)

جاری ہے۔۔۔۔
 

ابوعمر

رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
66
ری ایکشن اسکور
358
پوائنٹ
71
یہودیت اور شیعیت کے مشترکہ عقائد از ڈاکٹر ابو عدنان سہیل - قسط دوم

اسلام کے شدید ترین دشمن کون ہیں

خلفائے راشدین رضی اﷲ عنہم کے مبارک عہد کے بعد سے آج تک ہر دور میں مسلسل اسلام کے خلاف سازشیں کی جاتی رہی ہیں ،ہر زمانے میں اس کو مٹانے اور جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے مختلف جتن کئے گئے ،اسلام کے خلاف محاذ آرائی بیرونی طور پر جنگ وجدال اور صلیبی معرکوں کے ذریعہ جس شدومدسے کی گئی اس سے زیادہ کہیں زیادہ زور وقوت کے اندرونی طور پر اسلام کی دیواریں کھوکھلی کرنے او ر انہیں منہدم کرنے کی سعی نامشکور ہر دور میں ہوتی رہی ہے ،اس میں کوئی شک وشبہ نہیں کہ میدان حرب وضرب میں اسلام کے خلاف دشمنوں کو خاطر خواہ کامیابی نہیں مل سکی ،جس کی انہیں توقع تھی ،البتہ اندرونی محاذ پر اُن کی تخریبی سازشیں پوری طرح کامیاب رہی ہیں جس کے نتیجہ میں ملت اسلامیہ آج پارہ پارہ نظر آتی ہے ۔اسلام کے خلاف سازشیں کرنے والے کون لوگ ہیں اور انہوں نے کن ہتھیاروں سے اسلام کے قلعہ میں شگاف ڈالنے کی کوشش کی ہے؟اس کا جواب کافی تفصیل طلب ہے ،اسلام کے حقیقی دشمنوں کے بارے میں اﷲربّ العالمین سے زیادہ کوئی نہیں جانتا ،آئیے قرآن مجید میں دیکھیں خالقِ کائنات کن لوگوں کو اسلام اور مسلمانوں کا سب سے بڑا دشمن قرار دیتاہے ،دشمن کے تعین کے بعد ہی ہم اس کے تخریبی ہتھکنڈوں پر غوروفکر کرسکیں گے ۔
سورۂ المائدۃ میں باری تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
( لتجدن اشد الناس عد اوۃ للذّ ین ء منوا الیھود والذ ین اشرکوا ولتجدن اقربھم مودۃ للذ ین قالوا انا نصاریٰ ذلک بانھم قسیسین ورھبانا وانھم لا یستکبرون )
’’تمام لوگوں میں سب سے زیادہ مسلمانوں سے عداوت رکھنے والے تم قوم یہود کو پاؤگے اور ان لوگوں کو جو شرک کرتے ہیں ،اور مسلمانوں کیلئے نرم گوشہ ان لوگوں کے دلوں میں ہے جو اپنے آپ کو نصاریٰ کہلاتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ ان میں درویش اور عبادت گذار لوگ پائے جاتے ہیں اور وہ تکبر نہیں کرتے ‘‘۔
قرآن مجید کی اس آیت کی روشنی میں ہمارے سب سے بڑے اور شدید دشمن ’’یہود ‘‘قرار پاتے ہیں اور ان کے ساتھ وہ لوگ بھی جو شرک کا ارتکاب کرتے ہیں ! اﷲتعالیٰ نے عیسائیوں کو کسی قدر ہمدرد بتایا ہے ۔ربّ العالمین سے زیادہ سچی بات کس کی ہوسکتی ہے ؟لیکن جب ہم ان آیات کی روشنی میں تاریخ کے صفحات کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں یہ دیکھ کر تعجب ہوتا ہے کہ وہ نصاریٰ جن کے دلوں میں ہمارے لئے نرم گوشہ بتایا گیا ہے ،ان سے گذشتہ چودہ سو سالوں میں مسلمانوں کے بے شمار معرکے اور محاذ آرائیاں ہوئی ہیں ،خاص طور پر صلیبی جنگوں کا طویل سلسلہ تو تاریخ میں مشہورہی ہے ۔،اسی طرح مشرکین اور کافروں سے بھی بہت سی جنگیں مسلمانوں نے لڑی ہیں ،مگر ہمارے سب سے بڑے دشمن یعنی ’’یہودی ‘‘جو ہم سے شدید عداوت رکھتے ہیں ،ان کے بارے میں تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ رسول اﷲﷺ نے ’’خیبر ‘‘میں یہود کی جو گوشمالی فرمائی تھی اور پھر آخر میں حضرت عمر رضی اﷲتعالیٰ عنہ نے انہیں خیبر اور گردونواح سے نکال باہر کیا تھا اس کے بعد سے یہود کے ساتھ مسلمانوں کی کوئی قابل ذکر محاذ آرائی یا معرکہ موجودہ صدی تک ہمیں نظر نہیں آتا ،البتہ اس صدی میں ’’اسرائیل‘‘کے ناجائز قیام کے بعد سے یہود کی عربوں سے متعدد جنگیں ہوچکی ہیں اور اب بھی ان سے جنگ وجدال کا ماحول جاری ہے ۔
ہمارا ایمان ہے کہ اﷲتعالیٰ کا قرآن مجید برحق ہے اور اسی طرح ہمیں یہ بھی یقین کامل ہے کہ کوئی ’’شدید دشمن‘‘چودہ سو سال کے طویل عرصہ تک خاموش اور چپ چاپ نہیں بیٹھ سکتا ۔وہ تو اپنی فطرت کے مطابق لازمی طور پر حریف کو زک پہنچانے اور اس کو خاک میں ملانے کی کوشش ہمہ وقت کرتا رہے گا۔
آئیے اس بات پر غور کریں کہ ہمارے سب سے بڑے دشمن ’’قوم یہود ‘‘نے گذشتہ چودہ سو سالوں میں ہمیں کہاں کہاں اور کیسے کیسے زک پہنچانے کی کوشش کی ہے ۔

یہود کی ریشہ دوانیاں

تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ حضرت عمر رضی اﷲعنہ کے دور خلافت تک قوم یہود کو اسلام اور ملت اسلامیہ کی طرف بُری نگاہ ڈالنے کی ہمت بھی نہیں ہوئی ،لیکن اس کے بعد حضرت عثمان غنی رضی اﷲعنہ کے عہد مبارک میں مختلف عوامل اور اسباب کی بناپر یہود کو اپنے پر پُرزے نکالنے کا موقع مل ہی گیا ۔سب سے پہلے عبداﷲبن سبانامی یہودی جو یمن کا رہنے والا تھا ،ایک سازش کے تحت بظاہر اسلام قبول کیا اور پھر مسلمانوں کے درمیان رہ کر مکر وفریب کے جال پھیلانے میں مصروف ہوگیا ،قسمت نے اس کی یاوری کی اور نئے نئے دائرہ اسلام میں داخل ہونے والے اس وقت کے مسلمان (خصوصاً مصر اور عراق کے علاقہ میں )اس کے دام وفریب میں آگئے ۔اور ان لوگوں کی ریشہ دوانیوں کاپہلا ہدف حضرت عثمان غنی رضی اﷲعنہ کی ذات مبارکہ ہوئی ۔آپ کی شہادت کے خونچکاں واقعات ،اور پھر اس کے نتیجہ میں جنگ وجمل وصفین میں مسلمانوں اور خاص کر صحابہ کرام کی قیمتی خون کی ازرانی نے ملتِ اسلامیہ کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ عبداﷲبن سبا کا پورا گروہ جس کی تعداد اچھی خاصی ہوگئی تھی ۔ان دونوں جنگوں میں حضرت علی رضی اﷲ عنہ کے ساتھ تھا ۔اس زمانہ اور اس مخصوص فضا میں اس کو پورا موقع ملا کہ لشکر کے بے علم اورکم فہم عوام کو حضرت علی رضی اﷲ عنہ کی محبت کے غلو کی گمراہی میں مبتلا کردے۔ پھر جب حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے عراق کے علاقہ ’’کوفہ‘‘کو اپنا دارالخلافہ بنالیا۔ تو یہ علاقہ اس گروہ کی سرگرمیوں کا مرکز بن گیا ،اور چونکہ مختلف اسباب وجوہات کی بنا پر اس علاقہ کے لوگوں میں غالیانہ اور گمراہانہ افکار ونظریات قبول کرنے کی صلاحیت زیادہ تھی۔ اس لئے کوفہ میں عبداﷲبن سبا کے گروہ کو اپنے مشن میں بہت زیادہ کامیابی حاصل ہوئی ۔
ابن جریر طبری اور دیگر مورخین کا بیان ہے کہ عبداﷲبن سبانے سادہ لوح مسلم عوام کو گمراہ کرنے کے لیے سب سے آسان طریقہ یہ اختیار کیا کہ ان کی محبوب اور مقدس ترین شخصیت کے بارے میں غلو وافراط کا نظریہ عام کیا جائے گا ،اس مقصد کے لیے اس یہودی نے یہ شوشہ چھوڑا کہ ’’مجھے مسلمانوں پر تعجب ہے جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے اس دنیا میں دوبارہ آمد کا عقیدہ تو رکھتے ہیں ،مگر سید الانبیاء حضرت محمد ﷺ کی اس دنیا میں دوبارہ آمد کے قائل نہیں۔ حالانکہ آپ ﷺ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور تمام انبیاء سے افضل واعلیٰ ہیں۔ آپ ﷺ بھی یقیناًدوبارہ اس دنیا میں تشریف لائیں گے۔‘‘ عبداﷲبن سبا نے یہ بات ایسے جاہل اور ناتربیت یافتہ مسلمانوں کے سامنے رکھی جن میں اس طرح کی خرافات قبول کرنے کی صلاحیت دیکھی پھر جب اس نے دیکھا کہ اس کی یہ غیر اسلامی اور قرآنی تعلیم کے سراسرخلاف بات مان لی گئی ،تو اس نے رسول اﷲﷺ کے ساتھ حضرت علی رضی اﷲ عنہ کی خصوصی قرابت کی بنیاد پر آپ کے ساتھ غیر معمولی عقیدت ومحبت کا اظہار کرتے ہوئے ان کی شان میں غلو آمیز باتیں کہنا شروع کردیں ،ان کی طرف عجیب وغریب ’’معجزے‘‘منسوب کرکے حضرت علی رضی اﷲعنہ کو مافوق البشر ہستی باور کرانے کی کوشش کی اور جاہلوں اور سادہ لوحوں کاطبقہ جو اس کے قربت کا شکار ہوگیا تھا، وہ ان کی ساری خرافات قبول کرتا رہا ،اس طرح اس نے اپنی سوچی سمجھی اسکیم کے مطابق تدریجی طور پر حضرت علی رضی اﷲ عنہ کے بارے میں ایسے خیالات رکھنے والے اپنے معتقدین کا ایک حلقہ بنالیا۔ اس یہودی نے انہیں یہ باور کرایا کہ اﷲتعالیٰ نے نبوت ورسالت کے لئے دراصل حضرت علی بن ابی طالب رضی اﷲ عنہ کو منتخب کیا تھا، وہی اس کے مستحق اور اہل تھے۔ اور حامل وحی فرشہ جبرائیل امین کو ان کے پاس نبوت لے بھیجا تھا، مگر انہیں اشتباہ ہوگیا اور وہ غلطی سے وحی لے کر حضرت محمدبن عبداﷲﷺ کے پاس پہنچ گئے۔
اس سے بھی آگے بڑھ کر اس نے کچھ احمق اور سادہ لوحوں کو یہ سبق پڑھایا کہ حضرت علی رضی اﷲعنہ اس دنیا میں اﷲکا رُوپ ہیں اور ان کے قالب میں اﷲکی روح ہے، اور اس طرح گویا وہی اﷲہیں۔ حضرت علی رضی اﷲ عنہ کے علم میں جب یہ بات آئی کہ ان کے لشکر میں کچھ لوگ ان کے بارے میں ایسی خرافات پھیلارہے ہیں تو آپ نے ان شیاطین کو قتل کردینے اور لوگوں کی عبرت کے لیے آگ میں ڈالنے کا حکم صادر فرمایا اور اس طرح حضرت علی رضی اﷲ کی الوہیت کا عقیدہ رکھنے والے یہ شیاطین ان ہی کے حکم سے قتل کردئیے گئے اور آگ میں ڈالے گئے۔
(منہاج السنۃ ،شیخ الاسلام ابن تیمیہ ؒ ج۱ص۷)
عبداﷲبن سبا یہودی نے اسلام میں ’’شیعیت ‘‘کی صرف بنیاد ڈالی تھی یا تخم ریزی کی تھی، اس کے بعد یہ تحریک خفیہ طور پر اور سرگوشیوں کے ذریعہ جاری رہی اور رفتہ رفتہ اسلام میں مستقل طور پر ایک ’’یہودی لابی ‘‘وجود میں آگئی ،جو حضرت رضی اﷲعنہ کی محبت کی آڑ لے کر اسلام اور مسلمانوں میں مختلف ڈھنگ سے باہم نفرت وعداوت اور بغض وکینہ پیدا کرنے میں مصروف ہوگئی، اس یہودی تحریک یعنی’’ شیعیت ‘‘کے مختلف داعی تھے جو مختلف لوگوں سے موقع محل کے لحاظ سے الگ الگ ڈھنگ سے بات کرتے اور ان کی ذہنی استعداد وصلاحیت کے مطابق ان کے عقائد واعمال کو متغیر کرتے تھے۔
اس طرح شیعیت کے نام پر مسلمانوں کے اندر مختلف گروہ پیدا ہوگئے جن کی الگ الگ اپنی اپنی ڈفلی تھی اوراپنا اپنا راگ !کچھ لوگ حضرت علی رضی اﷲ کی الوہیت یا ان کے اندر روحِ الٰہی کے حلول کے قائل تھے اور کچھ ایسے تھے جو اُن کو رسول اﷲﷺ سے بھی افضل واعلیٰ نبوت ورسالت کا اصل مستحق سمجھتے تھے اور جبرائیل امین کی غلطی کے قائل تھے، کچھ لوگ ان میں ایسے تھے جو رسول اﷲﷺ کے بعد کے لئے اﷲتعالیٰ کی طرف سے نامزد امام ،امیر اور وصی رسول مانتے تھے، اور اس بناء پر خلفاٗ ثلاثہ یعنی حضرت ابوبکر، حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اﷲعنہم، اور ان تمام صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کو جنہوں نے ان حضرات کو خلیفہ تسلیم کیا تھا اور دل سے ان کا ساتھ دیا تھا، یہ بدباطن لوگ انہیں کافر ومنافق یا کم ازکم غاصب وظالم اور غدار کہتے تھے۔ ان کے علاوہ بھی ان میں مختلف عقائد ونظریات رکھنے والے گروہ تھے جو مختلف ناموں سے پکارے گئے۔ ان سب میں نقطۂ اشتراک حضرت علی رضی اﷲ عنہ کے بارے میں غلو تھا، ان میں بہت سے فرقوں کا اب دنیا میں غالباً کہیں وجود بھی نہیں پایا جاتا، تاریخ کی کتابوں کے اوراق ہی میں ان کے نام ونشان باقی رہ گئے ہیں۔ البتہ چند فرقے اس دور میں بھی مختلف ممالک میں پائے جاتے ہیں، ان شیعوں کے ’’اثنا عشریہ‘‘فرقے کو امتیاز واہمیت حاصل ہے۔
ہم اس بات کے ثبوت میں کہ عبداﷲبن سبا یہودی ہی اسلام میں شیعیت کا موجد وبانی ہے۔ نیز شیعیت دراصل یہودی تحریک ہے جو اسلام کے نام پر امت مسلمہ کو باہم متفرق اور ٹکڑے ٹکڑے کرکے ان کا وجود ختم کرنے کے لیے، ایک سازش کے تحت برپاکی گئی تھی اور آج بھی یہ شیعیت یا دوسرے لفظوں میں ’’یہودیت ‘‘اپنے اصلی روپ میں نیز مسلمانوں میں موجود مختلف بدعتی فرقوں اور تصوف کے پس پردہ اپنا مشن پورا کرنے میں مصروف ہے۔ ابن سبا کے بارے میں شیعہ حضرات کی اسماء الرجال کی مستند ترین کتاب ’’رجال الکشی‘‘سے ایک اقتباس نقل کررہے ہیں۔
حالانکہ ابن جریر طبری ’’تاریخ الامم والملوک ‘‘شہرستانی کی ’’الملل واالنحل ‘‘ابن حزم اندلسی کی ’’الفصل فی الملل والنحل ‘‘اور ابن کثیر دمشقی کی ’’البدایہ والنہایہ‘‘میں بھی اس بات کی صراحت کی گئی ہے کہ شیعیت کا بانی عبداﷲبن سبا یہودی ہے ۔مگر چونکہ بہت سے شیعہ علماء اورمصنفین عبداﷲ بن سبا سے براء ت کا اظہار کرتے ہیں ،یہاں تک کہ ماضی قریب کے بعض شیعہ مصنفین نے تو عبداﷲبن سبا کو ایک فرضی ہستی قرار دے دیا ہے گویا وہ سرے سے اس کے وجود ہی کے منکر ہیں،اس لئے شیعوں کی اسماء رجال کی مستند ترین کتاب ’’رجال کشی ‘‘کاحوالہ ہی مناسب ہے تاکہ جانب داری اور الزام کے جُرم سے ہمارا دامن داغدار نہ ہو۔
(ذکر بعض اہل العلم انّ عبد اﷲ بن سبا کان یھودیاً فاسلم ووالی علیاً علیہ السلام ، وکان یقول وھو علی یھود یتہ في یوشع بن نون صی موسی بالغلو ، فقال فی الاسلام بعد وفاۃ رسول اﷲ ﷺ في علی علیہ السلام مثل ذلک ، وکان اول من اشھر بالقول بفرض امامۃ علی واظھر البراء ۃ من اعداۂ وکاشف مخالفیہ اکفرھم ۔)
بعض اہل علم نے ذکر کیا ہے کہ عبداﷲبن سبا پہلے یہودی تھا ،پھر اسلا م قبول کیا اور حضرت علی علیہ السلام سے خاص تعلق کا اظہارکیااور اپنی یہودیت کے زمانے میں وہ حضرت موسیٰ کے وصی یوشع بن نون کے بارے میں غلو کرتا تھا ،پھر رسول اﷲﷺ کی وفات کے بعد اسلام میں داخل ہوکر وہ اسی طرح کاغلو حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں کرنے لگا ،اور وہ پہلا آدمی ہے جس نے حضرت علی کی امامت کے عقیدے کی فرضیت کا اعلان کیا ،اور ان کے دشمنوں سے براء ت ظاہر کی اور کھلم کھلا ان کی مخالفت کی اور انہیں کافر قرار دیا ۔ (رجال الکشی :ص۱۷،طبع بمبئی ۱۳۱۷ ؁ھ ایضاً :ص۷۱)
دلچسپ ترین بات یہ ہے کہ شیعوں کے اسماء الرجال کی اسی مستند ترین کتاب ’’رجال کشی‘‘میں امام جعفر صادق سے متعدد روایتیں نقل کی گئی ہیں، جن میں اس بات کی تصدیق کی گئی ہے کہ شیعیت کا یہ بانی عبداﷲبن سبا اور اس کے ساتھی حضرت علی رضی اﷲ عنہ کی الوہیت کا عقیدہ رکھنے اور اس کی دعوت دینے کے جرم میں خود حضرت علی رضی اﷲ عنہ کے حکم سے آگ میں ڈلوا کر ہلاک کردئیے گئے ۔
(رجال الکشی :ص۷۰ طبع بمبئی ۱۳۱۷ ؁ھ ایضاً :ص۷۰)

جاری ہے ۔ ۔ ۔

(اگر انتطامیہ کو کہیں غلطی نظر آئے تو گزارش ہے کہ اس کو درست کر دیا جائے، خاص طور پر عربی ٹائپنگ میں غلطی کے امکانات زیادہ ہیں۔ جزاک اللہ)
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
اکثر فورمز پر تقابل ادیان کے خانہ میں ایسی ہی تحریریں ملتی ہیں۔ یہودیت کے زمرہ میں ایسی تحریریں ہونی چاہیں جس سے یہودیوں کے عقائد اورفرق پر روشنی پڑتی اور یہودیوں کے تعلق سے ہماری معلومات جونہایت کم ہیں اس میں کچھ اضافہ ہوتا ۔لیکن اس کے بجائے ہم صرف اسی قسم کے مضامین لکھتے ہیں جس میں زیادہ زور یہودیوں کے بارے میں جاننے سے زیادہ کسی فرقہ کو یہودی ثابت کرناہوتاہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
ابو عمر
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
کافی عرصے سے کام ادھورا پڑا ہوا ہے۔ آپ کی اجازت کے بغیر ہی مکمل کرنا چاہتا ہوں۔ ان شاء اللہ برا نہیں منائے گے۔ جزاک اللہ خیرا۔
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
ہم صرف اسی قسم کے مضامین لکھتے ہیں جس میں زیادہ زور یہودیوں کے بارے میں جاننے سے زیادہ کسی فرقہ کو یہودی ثابت کرناہوتاہے۔
آپ کا گلا بجا ہے۔۔۔
مگر کیا کرسکتے ہیں۔۔۔ نبیﷺ نے خود اس فرق کو نمایاں کیا ہے۔۔۔
کے بنی اسرائیل میں بہتر فرقے ہونگےاور میری امت میں تہتر فرقے ہونگے۔۔۔
شاید آپ کی طبعیت پر یہ تحریر اس لئے گراں گذری کے حنفی مذہب کے عقائد میں شیعی آمیزش یا امام صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا کوفی ہونا ہو۔۔۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
یہودیت اور شیعیت کی مشترکہ قدریں

(۱) دین میں غلو یا مبالغہ آرائی:
مذہبی پیشواؤں اور دینی رہنماؤں کے مرتبہ میں حد سے زیادہ مبالغہ آرائی اہل کتاب خصوصاً قوم یہود کی نمایاں صفت ہے ،قرآن مجید میں متعدد جگہوں پر اس عیب کی نشان دہی کی گئی ہے ،مثلاً:
﴿ یٰآَہْلَ الْکِتٰبِ لَا تَغْلُوْا فِیْ دِیْنِکُمْ وَ لَا تَقُوْلُوْا عَلَی اﷲِ اِلَّا الْحَقَّ﴾
''اے اہل کتاب !(یہود ونصاریٰ) اپنے دین میں غلو اختیار نہ کرو اور اﷲ تعالیٰ سے منسوب کرکے غلط باتیں نہ کہو ''۔)النساء: (171
﴿ وَ قَالَتِ الْیَہُوْدُ عُزَیْرُ ِابْنُ اﷲِ وَ قَالَتِ النَّصٰرَی الْمَسِیْحُ ابْنُ اﷲِ﴾
''یہود نے عزیر کے بارے میں دعویٰ کیا کہ وہ اﷲ کے بیٹے ہیں اور نصاریٰ مسیح کو اﷲکا بیٹا بتاتے ہیں''۔)التوبۃ: (30
﴿ وَ قَالُوْا لَنْ یَّدْخُلَ الْجَنَّۃَ اِلَّا مَنْ کَانَ ہُودًا اَوْ نَصٰرٰی تِلْکَ اَمَانِیُّہُمْ قُلْ ہَاتُوْا بُرْہَانَکُمْ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ﴾
''یہ لوگ کہتے ہیں کہ یہود ونصاریٰ کے علاوہ کوئی دوسرا جنت میں داخل نہ ہونے پائے گا ۔یہ ان لوگوں کی دل بہلاوے کی باتیں یں ،آپ ان سے پوچھئے کہ اپنے اس دعویٰ کی کوئی دلیل ہو تو لاؤ اگر تم سچے ہو''۔)البقرۃ: (111
(۲) اپنے دینی رہنماؤں کو اﷲکے اختیارات سے متصف کرنا :
﴿اِتَّخَذُوْآ اَحْبَارَہُمْ وَ رُہْبَانَہُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اﷲِ ﴾
''انہوں نے اﷲ کو چھوڑ کر اپنے دینی پیشواؤں او ر علماء ومشائخ کو اپنا رب بنالیا ہے '')التوبۃ: (31
﴿ قُلْ یٰآَہْلَ الْکِتٰبِ تَعَالَوْا اِلٰی کَلِمَۃٍ سَوَآءٍ بَیْنَنَا وَ بَیْنَکُمْ اَلاَّ نَعْبُدَ اِلَّا اﷲَ وَ لَا نُشْرِکَ بِہٖ شَیْئًا وَّ لَا یَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اﷲِ﴾
''(اے نبی !)آپ اہل کتاب سے کہہ دیجئے کہ آؤ اس بات کی طرف جو تمہارے اور ہمارے درمیان مشترک ہے و ہ یہ کہ اﷲکے علاوہ ہم میں سے کوئی کسی کو اپنا رب قرار نہ دے'')آل عمران: (64
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
(۳) التباس وکتمانِ حق:
﴿اِنَّ الَّذِیْنَ یَکْتُمُوْنَ مَآ اَنْزَلْنَا مِنَ الْبَیِّنٰتِ وَ الْہُدٰی مِنْ بَعْدِ مَا بَیَّنّٰہُ لِلنَّاسِ فِی الْکِتٰبِ اُولٰٓئِکَ یَلْعَنُہُمُ اﷲُ وَ یَلْعَنُہُمُ اللّٰعِنُوْنَ﴾
''جو لوگ ہماری نازل کردہ نشانیوں اور فرمان ہدایت کو چھپاتے ہیں حالانکہ ہم نے اسے اپنی کتاب(توریت وانجیل)میں لوگوں کے لیے واضح طور پر بیان کردیاتھا ۔ایسے ہی لوگوں پر اﷲتعالیٰ لعنت فرماتا ہے اور تمام لعنت کرنے والوں کی لعنتیں بھی ان پر پڑ تی ہیں'')البقرۃ: (159
﴿یٰآَہْلَ الْکِتٰبِ لِمَ تَکْفُرُوْنَ بِاٰیٰتِ اﷲِ وَ اَنْتُمْ تَشْہَدُوْنَ، یٰآَہْلَ الْکِتٰبِ لِمَ تَلْبِسُوْنَ الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَ تَکْتُمُوْنَ الْحَقَّ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ﴾
''اے اہل کتاب !(یہود ونصاریٰ )تم جان بوجھ کر کس لئے اﷲ کی آیات کاانکا ر کرتے ہو؟اور اے اہل کتاب!تم کس لیے حق پر باطل کا غلاف چڑھا کر اسے پوشیدہ کرتے ہو ۔حالانکہ تم دیدہ دانستہ حق کو نظر انداز کررہے ہو''۔)آل عمران: (71-70
(۴)مسلمانوں سے شدید عداوت ودشمنی:
﴿ لَتَجِدَنَّ اَشَدَّ النَّاسِ عَدٰاوَۃً لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوا الْیَہُوْدَ وَ الَّذِیْنَ اَشْرَکُوْا﴾
''تمام لوگوں میں سب سے زیادہ عداوت رکھنے والے تم قوم یہود کو پاؤگے اور ان لوگوں کو بھی جو شرک کا ارتکاب کرتے ہیں''۔)المائدۃ: (82
یہ ہے قرآن کی گواہی اہل کتاب خصوصاً یہود کے بارے میں اﷲتعالیٰ سے زیادہ سچی بات اور کس کی ہوسکتی ہے؟؟
آئیے اب ہم یہود کی ان خصوصیات کی شیعی لٹریچر میں تلاش کرتے ہیں
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
سب سے پہلے دین میں غُلو یا مبالغہ آرائی کو لیجئے:

امت مسلمہ کے نزدیک جس طرح تمام نبی ورسول اﷲتعالیٰ کی طرف سے مقرر اور نامزد ہوتے ہیں ،امت یا قوم اسے منتخب نہیں کرتی ٹھیک اسی طرح شیعہ حضرات کے یہاں نبی کے بعد ان کے جانشین وخلیفہ اور امام بھی اﷲتعالیٰ ہی کی طرف سے نامزد کیے جاتے ہیں ۔ان کے عقیدے کے مطابق ان کے یہ تمام ''امام''ایک ''نبی''کی طرح معصوم ہی ہوتے ہیں ،انبیاء ورسل ہی کی طرح ان کی اطاعت امت پر فرض ہوتی ہے ۔مرتبہ کے لحاظ سے یہ''ائمہ ''تمام انبیاءا ورسولوں سے افضل اور رسول اکرم ﷺ کے برابر ہوتے ہیں ۔ان کے خیال میں خاتم النبیین ﷺ کی وفات کے بعد اس دنیا کے خاتمہ تک اﷲتعالیٰ کی طرف سے بارہ امام نامزد ہیں ۔جو امام اول علی﷜ سے شروع ہوکر علی الترتیب حسن عسکری تک دنیا میں آکر کاروبار امامت انجام دینے کے بعد وفات پاگئے مگر بارہویں اور آخری امام بغداد کے پاس ''سرمن رای ''کے غار میں روپوش ہیں اور وہی قرب قیامت میں مہدی بن کر نمودار ہوں گے اور دنیا پر بلا شرکت غیرحکومت کریں گے وغیرہ وغیرہ۔
ایران کے مقتدر شیعی رہنما اور ایرانی انقلاب کے بانی آنجہانی آیت اﷲ خمینی اپنی کتاب ''الحکومۃ الاسلامیہ ''میں ''الولایۃ التکوینیہ ''کے عنوان کے تحت رقم طراز ہیں :
( وان من ضروریات مذ ھبنا ان لأئمتنا مقاماً لا یبلغہ ملک مقرب ولا نبي مرسل )
''اور ہمارے مذہب (اثنا عشریہ )کے ضروری اور بنیادی عقائد میں سے یہ عقیدہ بھی ہے کہ ہمارے ائمہ کو وہ مقام ومرتبہ حاصل ہے ،جس تک کوئی مقرب فرشتہ اور نبی مرسل بھی نہیں پہنچ سکتا''۔(الحکومۃ الاسلامیہ ،آیت اﷲ خمینی ص:52 )
جمہور امت مسلمہ کے نزدیک کائنات کے ذرہ ذرہ پر حکومت وفرماروائی صرف اﷲ تعالیٰ کی ہے اور ساری مخلوق اس کے تکوینی حکم کے سامنے سرنگوں اور تابع وفرمان ہے یہ شان کسی نبی اور رسول کی بھی نہیں ۔قرآن مجید کی بے شمار آیتیں اس بات کا واضح طور پر اعلان کرتی ہیں مگر اہل تشیع کا عقیدہ ہے کہ :
( فان للامام مقاماً محمود اً ودرجۃ سامیۃً وخلافۃً تکوینیۃ تخضع لولایتھا وسیطرتھا جمیع ذرات الکون )
''امام کو وہ مقام اور بلند درجہ اور ایسی تکوینی حکومت حاصل ہوتی ہے کہ کائنات کا ذرہ ذرہ اس کے حکم واقتدار کے آگے سرنگوں اور تابع فرمان ہوتا ہے '' (الحکومۃ الاسلامیہ ،آیت اﷲخمینی :52 )
اثنا عشری مذہب کی روسے شیعہ حضرات کے ائمہ کو انبیاء﷩ کے تمام خصائص اور کمالات ومعجزات تک حاصل تھے اور ان کا درجہ ا نبیاء سابقین ،یہاں تک کہ اولوالعزم انبیاء نوح ،ابراہیم ،موسیٰ اور عیسیٰ﷩ سے بھی بلند وبرتر ہے ۔شیعہ حضرات کی مستند ترین کتاب ''الجامع الکافی ''جو ابوجعفر یعقوب کلینی راوزی (المتوفیٰ 328ھ )کی تصنیف ہے ،صحت واستناد کے لحاظ سے اہل تشیع کے نزدیک اس کا وہی درجہ ہے جو امت مسلمہ کے نزدیک صحیح بخاری کا ہے ،بلکہ اس سے بھی زیادہ کیونکہ ان کے عقیدے کے مطابق ''الجامع الکافی''بارہویں غائب امام کی تصدیق شدہ شیعہ مذہب کا سارا دارومدار اسی کتاب پر ہے ''اصول کافی ''میں کتاب الحجہ باب (ان الارض کلھا للامام )کے تحت ابوبصیر سے روایت ہے کہ ان کے ایک سوال کے جواب میں امام جعفرصادق نے فرمایا :
(اما علمت انّ الد ینا والاخرۃ للامام یضعھا حیث یشاء ویدفعھا الی من یشاء)
''کیا تم کو یہ بات معلوم نہیں کہ دنیا اور آخرت سب امام کی ملکیت ہے ۔وہ جس کو چاہیں دے دیں اور جو چاہیں کریں ''(اصول کافی :ص259 )
شیعوں کے کثیر التصانیف بزرگ اورمجتہد مُلّا باقر مجلسی اپنی تصنیف ''حیاۃ القلوب''میں تحریر فرماتے ہیں:
''امامت بالاتر از رتبہ پیغمبری ''امامت کا درجہ نبوت و پیغمبری سے بالا تر ہے ''۔(حیات القلوب :ملا باقر مجلسی ج3 ص10 )
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
اہل اسلام کا عقیدہ ہے کہ ازل سے ابد تک ساری باتوں کا علم )ما کان وما یکون کا علم(اﷲتعالیٰ کے سوا کسی کو حاصل نہیں اور اس کا علم ساری کائنات کو محیط ہے: وَّ اَنَّ اﷲَ قَدْ اَحَاطَ بِکُلِّ شَیْئٍ عِلْمًا (الطلاق:12 ) یہودی ذہن وفکر نے اپنی افتاد طبع کے مطابق ''غلو عقیدت ''کے نظریہ کو فروغ دینے کے لیے پہلے رسول اﷲ ﷺ کے لیے (ماکان وما یکون)کے علم کا پروپیگنڈا کیا اور پھر آپ ﷺ کے بعد شیعہ حضرات کے خود ساختہ ''ائمہ معصومین ''اس علم کے وارث اور امین ٹہرائے گئے ،شدہ شدہ یہ مشرکانہ نظریہ عقیدت رسول کے بھیس میں عامۃ المسلمین کے ایک خاص طبقہ یعنی ''اہل بدعت ''کا بھی اوڑھنا بچھونا بن گیا۔
ملاحظہ کیجئے شیعی روایت :امام جعفر صادق نے اپنے خاص رازداروں کی ایک محفل میں ارشاد فرمایا :
( لو کنت بین موسی والخضر لأخبرتھما انی اعلم منھما ولانباتھما ما لیس فی اید یھما لأن موسیٰ والخضر علیھما السلام اعطیا علم ما کان ولم یعطیا علم ما یکون وما ھو کائن حتی تقوم الساعۃ وقد ورثناہ من رسول اﷲﷺ وآلہ وراثۃ )
''اگر میں موسیٰ اور خضر کے درمیان ہوتا تو ان کو بتا تا کہ ان دونوں سے زیادہ علم رکھتا ہوں ،اور ان کو اس سے باخبر کرتا ہوں جو ان کے علم میں نہیں تھا ۔کیونکہ موسیٰ وخضر ﷧ کو صر ف ''ماکان''کا علم حاصل ہوا تھا اور ''ما یکون ''اور جو کچھ قیامت تک ہونے والا ہے اس کا علم ان کو نہیں دیا گیا تھا ۔اور ہم کو وہ علم رسول اﷲ ﷺاور آپ کی آل سے وراثت میں حاصل ہوا ہے '' (اصول کافی :ص: 160)
اہل تشیع کا یہ عقیدہ ہے کہ دنیا کبھی امام سے خالی نہیں رہ سکتی ،
اصول کافی میں ابوحمزہ سے روایت ہے کہ انہوں نے چھٹا امام جعفر صادق سے دریافت کیا کہ یہ زمین بغیر امام کے باقی اور قائم رہ سکتی ہے ؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ اگر زمین پر امام کا وجود باقی نہ رہے تو وہ دھنس جائے گی باقی نہیں رہے سکے گی۔ (اصول کافی ،ص: 104)
اسی طرح اما م باقر سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ اگر امام کو ایک گھڑی کے لئے بھی زمین سے اٹھالیا جائے تو وہ اپنی آبادی کے ساتھ ایسے ڈولے گی جیسے سمندرمیں موجیں آتی ہیں۔
اہل کتاب (یہود ونصاریٰ) کا دعویٰ ہے کہ یہود ونصاریٰ کے علاوہ کوئی دوسراگروہ جنت میں داخل نہیں ہوپائے گا ۔اہل تشیع کے یہاں بھی یہ دعویٰ اسی کروفر کے ساتھ پایا جاتا ہے ان کے نزدیک ائمہ معصومین کو ماننے والے (یعنی شیعہ حضرات)اگر ظالم اور فاسق بھی ہیں تب بھی جنت ہی میں جائیں گے اور ان کے علاوہ مسلمان اگرچہ متقی اور پرہیز گار بھی ہوں اس کے باوجود دوزخ میں ڈالیں جائیں گے ۔اصول کافی میں امام باقر سے روایت کی گئی ہے آپ نے فرمایا:
( ان اﷲ لا یستحي ان یعذب امۃ وانت بامام لیس من اﷲ ، وان کانت في اعمالھا برۃ تقیۃ وانّ اﷲ لیستحی ان یعذب امۃ وانت بامام من اﷲ وان کانت فی اعمالھا ظالمۃ مسیئۃ) (اصول کافی: ص238 )
اﷲتعالیٰ ایسی امت کو عذاب دینے سے نہیں شرمائے گا جو ایسے امام کو مانتی ہو جو اﷲ تعالیٰ کی طرف سے نامزد نہیں کیا گیا ہے ،اگرچہ یہ امت اپنے اعمال کے لحاظ سے نیکو کار اور متقی وپرہیز گار ہو،اور ایسے لوگوں کو عذاب دینے اﷲتعالیٰ احتراز فرمائے گا جو اﷲتعالیٰ کی طرف سے نامزد اماموں کو مانتے ہوں ۔اگرچہ یہ لوگ اپنی عملی زندگی میں ظالم و بدکردار ہوں''
واضح رہے کہ اسی قسم کی شیعی ذہنیت یا دوسرے لفظوں میں ''یہودی اندازِ فکر ''بعد کے دور میں رفتہ رفتہ مسلمانوں میں بھی رچ بس گیا اور نوبت بہ ایں جارسید کہ چند فقہی یا فروعی اختلافات کی بنیاد پر امت مسلمہ میں موجود بدعت پسند گروہ کے ''شیخ الشیوخ'' (احمد رضا خاں بریلوی من فرقۃ البریلویہ)نے جو برصغیر میں مشہور ومعروف ہیں اپنے مخالف توحید مسلم افراد جماعتوں کے خلاف یہ بھپتی تصنیف کرڈالی کہ :
تجھ سے اور جنت سے کیا نسبت وہابی دور ہو ہم رسول اﷲ کے ،جنت رسول ا ﷲ کی ! ( ص:1 )
 
Top