• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

یہودیت اور شیعیت کے مشترکہ عقائد از ڈاکٹر ابو عدنان سہیل

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
سیاسی میدان میں ان یہودیوں کا کردار دیکھئے ،انہوں نے کبھی تو براہ راست اور زیادہ تر ''شیعوں ''کے بھیس میں ،مسلمانوں کو ہر دور میں زک پہنچانے اور فنا کے گھاٹ اتارنے کی کوشش کی ہے ۔بطور ثبوت چند مثالیں پیش خدمت ہیں:
بغداد کی ساڑھے پانچ سو سالہ عباسی خلافت 656ھ میں آخری خلیفہ معتصم باﷲکے شیعہ وزیر اعظم بن علقمی کی غداری اور ریشہ دوانیوں کے نتیجہ میں ختم ہوئی اور چنگیز خان کے پوتے ہلاکو خان نے دارالخلافہ بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجادی تین چار دن میں کئی لاکھ مسلمان قتل ہوئے جن کے خون سے دریائے دجلہ کا پانی سرخ ہوگیا خلیفہ معتصم باﷲاپنے تین سو ساتھیوں کے ہمراہ غیر مشروط طور پر بغداد چھوڑنے کے لیے نکلا مگر ہلاکو نے اس کو پکڑ کر قتل کرڈالا اس طرح ان شیعوں کے طفیل عباسی خلافت کا وجود مٹ گیا !
سسلی جسے 212 ھ میں اسدبن فرات کی سرکردگی میں مسلمانوں نے فتح کیا تھا اور تقریباًٍ دوصدیوں تک بڑے رعب ودبدبہ سے وہاں حکومت کی تھی ۔بالآخر ''قصریانہ ''کے شیعہ حاکم ابن ِ حمود کی غداری کے نتیجہ میں مسلمانوں کے ہاتھوں سے ہمیشہ کے لئے نکل گیا ۔سسلی کے سقوط کے بعد مصر کے فاطمی خلیفہ نے نصرانیوں کے فاتح جرنیل ''روجر''کے پاس مبارک بادی کا مکتوب بھیجا تھا ،جس میں روجر کے اس اقدام کی تعریف کرتے ہوئے جزیرہ سسلی کے مسلمانوں کو شکست کا مستحق قرار دیا تھا !
فاطمی حکومت جو 298 ھ میں مراکش کے اندر قائم ہوئی تھی اور 362 ھ میں اس کی قیادت منتقل ہوکر مصر آگئی تھی۔اس شیعہ حکومت کو کھلے طور پر یہود ونصاریٰ پر اعتماد تھا ،انہیں میں سے زیادہ تر وزراء ،ٹیکس اور زکوۃ کے محصلین ،سیاسی ،اقتصادی اور علمی امور کے مشیر ،اطباء اور حکام کے معتمدین ہوتے تھے ۔اور بڑے بڑے کام انہیں کے سپرد کئے جاتے تھے ،ان لوگوں کے ظلم وستم سے لوگ پناہ مانگتے تھے ۔ان کی کہیں بھی داد رسی نہ ہوتی تھی ،عزیز فاطمی نے اپنے وزیر یعقوب بن کلس یہودی کی محبت میں فاطمی مذہب کے لیے دعوت کا کام اس کے حوالہ کردیا تھا ۔یہ وزیر خود بیٹھ کر اسمٰعیلی فقہ کا درس دیتا تھا ،اس طرح اس شیعہ حکومت کے طفیل یہودیوں کے ہاتھوں مصر کے عوام کو ناقابل تلافی دینی اور دنیاوی نقصانات پہنچتے رہے ،بالآخر 567ھ میں سلطان صلاح الدین ایوبی رحمہ اﷲکے ہاتھوں یہ شیعہ حکومت ختم ہوئی اور مسلمانوں نے اطمینان کا سانس لیا!
ہندوستا ن میں مغلیہ حکومت جو اورنگ زیب عالمگیر کے دور میں کابل سے لے کر رنگون تک وسیع ہوگئی تھی ان کی وفات کے بعد شیعی عناصر کی ریشہ دوانیوں کے نتیجہ میں زوال پذیر ہوگئی ۔تاریخ کا مطالعہ کرنے والوں سے ''سادات بارہہ''کے نام سے دومشہور بھائیوں ،عبداﷲاور علی بن حسین کے کردار وحرکات مخفی نہیں ۔یہ دونوں مذہب شیعہ کے پیروکار اور ''بادشاہ گر''کے نام سے مشہور ہوگئے تھے ان کا عروج مغلوں کے زوال کا سبب بن گیا اور پچاس سے سال کے مختصر سے عرصے میں صدیوں سے قائم مغل سلطنت انحطاط وخاتمہ کے نزدیک پہنچ گئی ،بالآخر 1857ھ میں انگریزوں نے جو شیعوں کے طفیل ہی ہندوستان کی سرزمین میں قدم جمانے میں کامیاب ہوئے تھے ،آخری مغل تاجدار بہادر شاہ ظفر کو گرفتار کرکے رنگون میں قید کردیا وہاں ا س کی موت ہوگئی ،اس طرح ہندوستان میں بھی مسلم حکومت کا خاتم ہوگیا تھا!
پلاسی کی جنگ میں جب سراج الدولہ بنگال میں انگریزوں کے دانت کھٹے کررہا تھا تو عین وقت پر اس کے شیعہ وزیر ''میر جعفر''کی غداری سے پانسہ پلٹ گیا ،اور سراج الدولہ کو شکست ہوگئی اس طرح ان شیعوں کے طفیل مشرقی ہندوستا ن میں انگریزوں کو پیر جمانے اور سیاسی طور پر مستحکم ہونے کا موقع ملا ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
سلطان ٹیپو شہید﷫ جنوبی ہند میں انگریزوں کے لئے بلائے بے درماں بنے ہوئے تھے ۔مگر یہود صفت شیعوں نے ان سے غداری کی حیدرآباد کا حکمراں نظام جو کہ خود شیعہ تھا انگریزوں کے شانہ بشانہ ٹیپو کے خلاف لڑ رہا تھا اور سرنگا پٹم کے محاصرے کے دوران ٹیپو سلطان کے وزیر میر صادق نے جوشیعہ تھا عین لڑائی کے دوران غداری کی اور فتح شکست میں تبدیل ہوگئی ۔
آخری اسلامی خلافت یعنی ترکوں کی حکومت کے زوال کے اسباب اگرچہ اور بھی تھے جیسے بعض ترکی سلاطین کی کمزوری وعیش کوشی ،سیاسی امور میں حاشیہ نشینوں کی مداخلت ،حکومتی شعبوں کا بگاڑ اور رشوت کی گرم بازاری ،سیاسی اعتقادی اور فکر زندگی کے بگاڑ کے دوسرے بہت سے محرکات ،مگر صلیبی اور صہیونی طاقتوںکی ریشہ دوانیاں اور دشمنانِ اسلام یہود کی سازشیں ، عثمانی خلافت کے خاتمہ کے لئے سرفہرست اور بنیادی اہمیت رکھتی ہیں !
1897ء میں جب سلطان عبدالحمید برسراقتدار تھے ،سوئزر لینڈ کے شہر پال میں ہرتزل یہودی کی سربراہی میں صہیونی کانفرنس منعقد ہوئی ،جو پال کانفرس کے نام سے مشہور ہے۔اسی کانفرنس میں فلسطین کے اندر یہودی حکومت قائم کرنے کا منصوبہ تیار ہوا ،صہیونیوں نے عرب قوم پرستوں کے دشمن سلطان عبدالحمید کو اس بات پر راضی کرنے کی کوشش کی کہ یہودیوں کو فلسطین ہجرت کرنے کی اجازت دی جائے ،سلطان نے اس تجویز کو قطعیت کے ساتھ صرف رد ہی نہیں کیا بلکہ فوراً یہ قانون نافذ کردیا کہ یہودی ہجرت سختی سے روک دی جائے اور فلسطین میں یہودی نو آبادی کسی قیمت پر قائم نہ ہونے دی جائیں !
فلسطین میں یہودی وطن کے قیام کی مخالفت سلطان عبدالحمید کی طرف سے یہودیوں کے منہ پر ایک طمانچہ تھا ،جس کا انہوں نے بھرپور بدلہ لیا ،سلطان کو اس کا تصور بھی نہ تھا ۔یہودیوں نے ایک طرف حکومت دشمن تحریکوں کو ابھارا اور اسلام کے جھنڈے تلے جمع ہونے کے بجائے نسل وقوم کے نظریوں کو فروغ دینے کی کوشش کی ،دوسری طرف ان یہودیوں نے عثمانی حکومت پر اندر سے حملے شروع کردئیے ،نسل ،تہذیب ،آزادی،بھائی چارہ اور مساوات کا زبردست پروپیگنڈہ کرکے ترکوں کو اسلام سے منحرف کرنے میں مصروف ہوگئے تاکہ ان فریب خوردہ افراد کو مسخر کرکے امت مسلمہ کے شیرازے کو منتشر کردیں ۔
اس مقصد کے لئے سب سے زیادہ کام انہوں نے دوپارٹیوں سے لیا ،ایک جماعت ''ترکیا الفتاہ''اور دوسری اتحاد وترقی''ترکی کی ادیبہ خالدہ خانم نے ادبی وفکری سطح پر ''تورانی قومیت ''کے نظریہ کو دوسروں کے ساتھ مل کر رواج دیا ''ترکیا الفتاۃ''کے لیڈروں نے انقلاب کے لیے راہ ہموار کی اور ترکی کو اسلام کے تشخص اور اس کے پیغام سے بے نیاز کردیا ،ان لوگوں نے ترکی کو پہلی جنگ عظیم میں بلا کسی معقول عذر کے ڈھکیل دیا ،پھر جب ترکی کے حلیف جرمن قوم کو شکست ہوگئی تو ترکی نے بھی اپنی شکست تسلیم کرلیا اور 1918ھ کے معاہدہ روڈس (RHODES PACT)میں سرکاری طورپر عثمانی حکومت اور اسلامی عزت ووقار کا آفتاب غروب ہوگیاتھا!
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
پہلی جنگ عظیم میں ترکی کی شکست تسلیم کرلینے کے بعد یورپی ممالک نے اس ''مر دبیمار''کی املاک کو آپس میں تقسیم کرلیا ۔اس کے بعد انہوں نے ''جدید ترکی''کی تعمیر کرنے کے لیے ایک ایسے شخص کو منتخب کیاجو یہودی تھا اور قوم پرستی کے جذبات کے سہارے اس یہودی شخص نے جس کا نام مصطفی کمال تھا ،آخری عثمانی خلیفہ عبدالمجید بن عبدالعزیز کو،جو انہی انقلابیوں کے ہاتھوں ہی تخت نشین ہوا تھا ،ملک میں جمہوری حکومت کے قیام کا اعلان کرنے پر مجبور کردیا ۔اس کے بعد نام نہاد ''قومی جمعیۃ ''کی طرف سے مصطفی کمال پاشا یہودی کو سربراہ مملکت منتخب کرلیا گیا اور اسے اتاترک کا خطاب دے دیا گیا جس کا معنی ہوتے ہیں ''قوم ترک کا باپ''اقتدار حاصل کرنے کے صرف چھ ماہ بعد مصطفی کمال یہودی نے اسلامی حکومت کے خاتمہ کا اعلان کردیا تھا اور پھر3/ مارچ 1924ء کو مسلمانوں کے آخری خلیفہ کو ملک سے باہر نکال دیا گیا ۔
عثمانی خلافت کے خاتمہ کا مطلب یہ تھا کہ خلافت کا رمزی اور شکلی وجو د بھی اس شخص کے صہیونی منصوبوں کے نفاذ کی راہ میں رکاوٹ یا خطرہ بن سکتا تھا ۔اس کے علاوہ مشہور مشتشرق ''کارل بروکلمن ''کے الفاظ کے مطابق ''خلافت کے خاتمہ کے بعد ''غازی''اتاترک کو وہ تمام اقدامات کرنے آسان ہوگئے جن کے ذریعہ ترکی قدامت پرستی کے غار سے نکل کر ''جدید تہذیب وتمدن ''کا علم بردار بن گیا ''۔
مصطفی کمال اتاترک یہودی نے ترکی کو جدید بنانے کے لئے جو اقدامات کئے ان کی تفصیل یہ ہے کہ اقتدار پر بلا شرکت غیرے قابض ہوتے ہی اس نے سب سے پہلے عربی زبان اور اس کے رسم الخط پر پابندی لگادی اس طرح قرآن مجید بھی اپنے پاس رکھنا وہاں جرم ہوگیا تھا ،اوقاف کو ختم کیا،مساجد میں تالے ڈالے ،پورے ملک میں اسلامی قوانین کو معطل کردیا ،ایا صوفیہ کی مشہور مسجد کو میوزیم اور سلطان محمد فاتح کی مسجد کو ''مخزن''بنادیا ترکی ٹوپی کی جگہ ہیٹ کو رواج دیا ،زبردستی انگریزی لباس جاری کیا نصاب تعلیم سے عربی وفارسی زبانوں کو بالکل نکال دیا ،عربی کی کتابوں اور مخطوطات کو معمولی قیمت پر فروخت کردیا۔یورپ کی ''سیکولر تعلیم ''کو پورے ترکی میں رائج کیا اور یہ تعلیم ٹیکنالوجی کے میدان میں اختیار نہیں جس سے مسلمان سائنسی میدان میں ترقی کرسکتے ،بلکہ محض لسانی ،ادبی اور دینی میدان میں یورپ کی تعلیم کو فروغ دیا ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
اسی طرح یہود کی کوشش او رریشہ دوانیوں کے نتیجہ میں ترکی کو زوال ہوا اور پھر اس کے بعد سے ترکی آج تک نہ سنبھل سکا ،ترکی کے بعد پورا عالم اسلام یکے بعد دیگرے زوال کا شکار ہوتا چلا گیا ،اتحاد اور وحدت اسلامی کے رشتے کمزور پڑتے گئے اس زوال اور ادبار سے عرب بھی محفوظ نہ رہ سکے۔
انقلاب فرانس ،جس کے اصولوں کے پس پردہ یہودی ذہن کا رفرما تھا ،اس کے پروردہ نپولین بونا پارٹ نے 1789ء میں مصر پر چڑھائی کی ،ازہر یونیورسٹی کو گھوڑوں کا اصطبل بنادیا ،قاہرہ سے اسکندریہ تک راستہ میں جو بستیاں اور شہر تھے ،انہیں تباہ کردیا ،فرانسیسی استعمار نے اپنے قدم مصر کی سرزمین پر جمالینے کے بعد وہاں شراب ،جوا ،فحاشی اور اخلاقی بے راہ روی کو رواج دینے کے لیے اپنے تمام وسائل جھونک دئیے تھے ۔مصر وشام میں عرب وغیر عرب مسلمانوں کو آپس میں لڑانے کے لیے انہوں نے ''مائیکل افلق ''اور'' لارنس ''جیسے یہودیوں کی خدمات حاصل کیں اور انہوں نے عربی عوام میں عربی تفاخر اور ''عرب قومیت''کے نظریہ کو رواج دیا اور ان کی کوششوں سے عربوں کے قومی جذبات وعصبیت ابھر کر رفتہ رفتہ اس سطح پر پہنچ گئی کہ وہ ''ابوجہل''اور''ابولہب ''جیسے دشمنان اسلام کو اپنا ''قومی ہیرو''تصور کرنے لگے اور مصر میں ان کے نام سے کلب قائم کیے جانے گلے ۔یہ صورت حال مصر اور پورے عالم عرب کے لئے قومی عصبیت اور مغربی تہذیب وتمدن کی طرف پیش قدمی کرنے اور انقلاب فرانس کے ''اصول ثلاثہ''پر آنکھ بند کرکے ایمان لانے میں بڑی معاون ثابت ہوئی ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
عربوں کو خلافت عثمانی ترکی سے برگشتہ کرنے کے لیے یہودی النسل لارنس نے ان کے اندر عرب قومیت کا جنون پیدا کرکے انہیں ''ملت اسلامیہ''سے ذہنی طور پر علیحدہ کرنے اور مغربی افکار ونظریات کادلدادہ بنانے میں اہم کردار ادا کیا ۔اس کے پیرو کار ساطع حضرمی جیسے شخص نے جس کی عجمیت کا حال یہ تھا کہ وہ فصیح عربی بولنے پر بھی قادر نہ تھا اور صہیونی تربیت کے نتیجہ میں اسلام سے سخت عداوت رکھتا تھا اس نے ''عرب قومیت ''کے نظریہ کی اشاعت کا بیڑا اٹھایا اور یہودی عناصر کی امداد وتعاون کے سہارے اسے اس مہم میں بڑی حدتک کامیابی حاصل ہوئی ۔
''عرب قومیت''کا نظریہ جس کا سیکولر مفہوم اسلام دشمنی تھا ،یہودی ذہن کی پیدا وار تھا ،اور یہ نظریہ ان صہیونیوں نے ایک سازش کے تحت سیدھے سادے عربوں کو عثمانی خلافت سے برگزشتہ کرنے اور ملت اسلامیہ سے انہیں ذہنی طور پر علیحدہ کرنے کے لیے تراشا تھا ۔اس کا مقصد عربوں کو اس جامع عقیدہ ﴿انما المؤمنون اخوۃ﴾سے دور کرنا تھا جس کی بناپر عرب متفقہ طور پر صہیونیت کا مقابلہ کرسکتے تھے اور تمام دنیا کے مسلمانوں کے ساتھ یہود اور دشمنان اسلام کے دانت کھٹے کرسکتے تھے ۔
عرب قومیت کا نظریہ عربوں کے دائمی انتشار کی ضمانت تھا ،کیونکہ یہ ایسے قوم پرست اور انقلاب پسند نوجوانوں سے عبارت تھا جس کے پاس نہ تو کوئی عقیدہ تھا اور نہ اصلیت اور تاریخی بیدار مغزی اس طرح انہیں بڑی آسانی سے چند نعرے سمجھائے جاسکتے تھے جنہیں وہ برابر دہراتے رہیں اور اپنی اپنی قوم کی عقلوں کو اسی میں الجھائے رہیں ۔عرب قومیت نے عربوں کو ذہنی طور پر انتہائی نیچی سطح پر پہنچا دیا ہے اور وہ عالم اسلام کی ذہنی قیادت کے منصب عظمیٰ کو چھوڑ کر محدود گروہی سیاست اور قومی وعلاقائی عصبیتوں کے دام وفریب میں اسیر ہوکر رہ گئے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
اسلام پر یہودی فکر کی یلغار

دشمنان اسلام یہود نے شروع ہی سے اسلام اورمسلمانوں کے خلاف مختلف مورچے بنارکھے ہیں اور ہر سمت سے اسلام اور امت مسلمہ کو مغلوب کرنے کے لئے اور انہیں منتشر کرنے کی ہمہ وقت جدوجہد میں لگے ہوئے ہیں اگر ایک طرف انہوں نے امت مسلمہ میں تفریق ڈال کر خوارج،شیعہ اور دوسرے گمراہ فرقے بنانے کی کوشش کی ہے تو دوسری طرف سیاسی محاذ پر یہ لوگ مسلمانوں کو قدم قدم پر زک دینے اور ان کے قصر واقتدار کو متزلزل ومنہدم کرنے کی مسلسل کاروائیاں کرتے رہے ہیں ۔تیسرا محاذانہوں نے مسلمانوں کے دینی اور فکری سرمائے کو غتر بود کرنے کے لیے انہوں ذخیرہ احادیث اور قرآن مجید کی مجمل آیات کی تفاسیر کو اپنا ہدف بنایا ،اور مختلف عوامل اور حالات کے تحت جھوٹی روایتیں وضع کرنے والے جعل سازوں اور مکذوبات وموضوعات کو سکہ رائج الوقت بنانے والے فتنہ پردازوں کا ایک عظیم گروہ اس امت مسلمہ میں پیدا ہوگیا جو یہودیوں کی اپنے اسلاف کے ذریعہ گھڑی ہوئی رُسوا کن جھوٹی کہانیوں کو ایک سازش کے تحت احادیث وتفاسیر کے ذخیرہ میں شامل کرنے لگا جو خلافِ عقل اور خلافِ تجربہ ومشاہدہ باتوں پر ایمان رکھتی ہے ۔
ان کی یہ سازش بھی بے انتہاء دورس ثابت ہوئی اور تفسیر واحادیث کے حوالہ سے ان کے یہ بے سروپا افسانے تمام دنیائے اسلام میں پھیل گئے کم پڑھے لکھے عوام واعظوں کی زبان سے سن کر یا چھوٹے چھوٹے رسالوں میں ان بے سروپا قصوں اور حکایتوں کو پڑھ کر انہیں ایک سچی حقیقت ماننے لگے اور ان کی صداقت پر ایمان ویقین رکھنے لگے ،کتنی حیرت ناک بات ہے کہ شام ویمن اور عرب کے یہودیوں کے تراشے ہوئے افسانے اور فاسد عقیدے ،آج ہندوستان(اور پاکستان)جیسے دوردراز ملک کے گاؤں گاؤں میں عوام الناس کے دل ودماغ پر چھائے ہوئے ہیں اور ان کے زہریلے اثرات ان کے ایمان وعمل پر حاوی نظر آتے ہیں ،اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان ''اسرائیلی روایات''کی جڑیں اسلامی معاشرے میں کتنی پھیلی ہوئی ہیں؟؟
اسرائیلی روایات کی اشاعت کی ایک وجہ یہ ہوئی کہ جب قرآن میں انبیائے کرام کے بارے میں کوئی مجمل واقع بیان کیا جاتا تو مسلمانوں کو شوق ہوتا تھا کہ اس واقعہ کی مزید تفصیل معلوم ہو ۔اس لئے وہ ان مسلمانوں سے جاکر پوچھتے جو کبھی اہل کتاب کے مستند علماء میں شمار ہوتے تھے جیسے کعب احبار﷜ اور عبداﷲ بن سلام﷜ وغیرہ ،یہ لوگ ان کی تشفی کے لئے اپنی معلومات کی حد تک یہودی مذہب کی روایات بیان کردیا کرتے تھے لیکن نہ تو دریافت کرنے والوں کو ان قصوں کی صداقت پر یقین ہوتا تھا اور نہ ہی سنانے والوں کا ایمان ان لغویات پر اسلام لانے کے بعد رہ گیا تھاصحابہ کرام ﷢ نے بعد میں آنے والوں کے سامنے ان قصوں کو بطور تذکرہ بیان کردیا پھر ان لوگوں نے اپنے بعد والوں کے سامنے اسی نیت سے بیان کردیا اس طرح یہ روایت چل پڑی ۔پھر دوسری اور تیسری صدی ہجری میں فن تفسیر کی تدوین ہوجانے پر یہی قصے صحابہ کرام﷢ ،تابعین اور تبع تابعین کی روایتوں کے نام سے کتابوں میں جمع کردئیے گئے ۔اس کے بعد جن لوگوں کو عجائب وغرائب اور محیرالعقول قصوں سے دلچسپی تھی انہوں نے تلاش کرکے ایسے قصوں اور روایات کو اپنی کتابوں میں درج کردیا قرآن مجید کی قدیم ترین تفسیروں میں مقاتل بن سلیمان یا کلبی کی تفسیریں سرفہرست ہیں ،جن میں اسرائیلی روایات کا بڑاذخیرہ نظر آتا ہے ۔ان اسرائیلی روایات نے واقعات وقصص سے تجاوز کرکے بحث ومناظر ہ اور علم الکلام پر بھی اثر ڈالا اور اس کے نتیجہ میں بہت سے ایسے غلط عقیدے مسلمانوں میں پیدا ہوگئے جن کا اصل سرچشمہ یہودی رہے ہیں ،مثال کے طور پر خلق قرآن کا عقیدہ جس نے ایک زمانے میں اسلامی دنیا میں تہلکہ مچارکھا تھا انہوں یہودیوں کے ذریعہ مسلمانوں کے ایک طبقہ میں آیا ۔ابن اثیر نے اپنی تاریخ میں احمد بن ابی داؤد کے متعلق لکھا ہے کہ وہ خلق قرآن کا داعی تھا ۔اس نے یہ عقیدہ بشر المریسی سے لیا ،بشر نے جہم بن صفوان اور جہم نے جعد بن درہم سے لیا جعد نے ابان میں سمعان سے اور ابان نے لبید بن اعصم کے بھانجے اور داماد طالوت سے لیا طالوت نے یہ عقیدہ خود لبید بن اعصم سے لیا تھا یہی لبید بن اعصم وہ یہودی ہے جس نے رسول اکرمﷺ پر سحر کیا تھا اور ایک عرصے تک آپ ﷺ پر اس سحر کا اثر دنیاوی امور میں رہا ۔یہ لبید بن اعصم خلق قرآن کا دعویدار تھا۔ (تاریخ ابن اثیر کامل ج7ص 26 )یہود کو قرآن او رصاحب قرآن محمد رسول اﷲﷺ سے شدید دشمنی تھی اس لئے انہوں نے قرآن کی بے لوث صداقت کو داغدار بنانے کے لئے اپنی مذموم کوششیں شروع کردیں انہوں نے زبردست سازش کی کہ قرآن میں جن واقعات کو مختصر بیان کیا گیا ہے ان کی تفصیلات میں جھوٹے قصے ،مہمل باتیں ،گندے اور ناپاک واقعات ،خلافِ عقل ومشاہدہ اور محیر العقول کہانیاں گھڑ کر مسلمانوں میں مختلف طریقوں سے پھیلادیں تاکہ قرآن میں بیان کردہ مجمل واقعات کے ذکر کے وقت یہ تفصیلات بھی قرآن سے جوڑ ی جائیں اس طرح قرآن کی صداقت بڑی آسانی سے داغدار ہوسکتی ہے۔

-------------------
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
آپ کا گلا بجا ہے۔۔۔
بجااوردرست کہنے کا شکریہ
مگر کیا کرسکتے ہیں۔۔۔ نبیﷺ نے خود اس فرق کو نمایاں کیا ہے۔۔۔
نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان اس قدر ہے کہ میری امت بنی اسرائیل کی طرح ٹکروں میں تقسیم ہوگی اوران کے نقش قدم پر چلے گی لیکن یہ کہاں فرمایاکہ یہ مسلمانوں کی ذًہ داری ہے کہ وہ مختلف فرقوں کو یہودیوں سے مشابہ اورمماثل ثابت کرتے رہیں۔اگرنہیں توپھر نیٹ پر موجود ایسی تحریریں یہاں کیوں نہ شیئر کی جائیں جس میں غیرمقلدیت اوریہودیت میں مماثلت تلاش کی گئی ہے۔ یاپھر غیرمقلدیت اوررافضیت میں تشابہ کی جھلکیاں دکھائی گئی ہیں۔
اب آنجناب کا کیاخیال ہے؟اب اس کے جواب میں نعرے مت لگانے شروع کردیجئے جوآپ حضرات کی پرانی اورپختہ عادت ہے۔ کچھ ٹودی پوائنٹ بات کیجئے گا۔
شاید آپ کی طبعیت پر یہ تحریر اس لئے گراں گذری کے حنفی مذہب کے عقائد میں شیعی آمیزش یا امام صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا کوفی ہونا ہو۔۔۔
امام ابوحنیفہ اگرکوفی ہیں تو بخاری کے سینکڑوں راوی کوفی ہیں۔ ان کا کیا؟کچھ ان کے بارے میں بھی ارشاد ہو۔ کتنے محدثین ناصبی ہیں کتنے محدثین شیعہ ہیں اورنہ جانے کتنے محدثین غلوآمیز عقائد رکھتے ہیں۔لہذا امام ابوحنیفہ کا کوفی ہوناان کیلئے باعث طعن کیسے ہوسکتاہے ؟اگریہ ان کیلئے باعث طعن ہے تومحدثین کرام کیلئے باعث فخر کیسے ہوسکتاہے اب لینے اوردینے کے اگر باٹ الگ الگ ہوں تواس پر قران میں سخت وعید آئی ہے۔ ویل للمطففین ۔
حنفی مذہب کے عقائد
حنفی مذہب میں شیعی عقائد کی کیاکیاآمیزش ہے؟اس کو تفصیلااورترتیب وار بیان کردیں تاکہ پھر ہمیں یہ شکایت نہ رہے کہ آپ حضرات دعوے توبہت کرتے ہیں لیکن دلیل سے خالی اورعاری۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن تفصیل پیش کرتے وقت اس کاخیال رکھاجائے کہ کہیں ویسی ہی مشابہت آپ کے مسلک اور رافضیت میں نہ ہوجائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اورمومن خان مومن کا یہ مصرعہ صادق آجائے
لوآپ اپنے دام میں صیاد آگیا
والسلام
 
Top