- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,585
- ری ایکشن اسکور
- 6,762
- پوائنٹ
- 1,207
سیاسی میدان میں ان یہودیوں کا کردار دیکھئے ،انہوں نے کبھی تو براہ راست اور زیادہ تر ''شیعوں ''کے بھیس میں ،مسلمانوں کو ہر دور میں زک پہنچانے اور فنا کے گھاٹ اتارنے کی کوشش کی ہے ۔بطور ثبوت چند مثالیں پیش خدمت ہیں:
بغداد کی ساڑھے پانچ سو سالہ عباسی خلافت 656ھ میں آخری خلیفہ معتصم باﷲکے شیعہ وزیر اعظم بن علقمی کی غداری اور ریشہ دوانیوں کے نتیجہ میں ختم ہوئی اور چنگیز خان کے پوتے ہلاکو خان نے دارالخلافہ بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجادی تین چار دن میں کئی لاکھ مسلمان قتل ہوئے جن کے خون سے دریائے دجلہ کا پانی سرخ ہوگیا خلیفہ معتصم باﷲاپنے تین سو ساتھیوں کے ہمراہ غیر مشروط طور پر بغداد چھوڑنے کے لیے نکلا مگر ہلاکو نے اس کو پکڑ کر قتل کرڈالا اس طرح ان شیعوں کے طفیل عباسی خلافت کا وجود مٹ گیا !
سسلی جسے 212 ھ میں اسدبن فرات کی سرکردگی میں مسلمانوں نے فتح کیا تھا اور تقریباًٍ دوصدیوں تک بڑے رعب ودبدبہ سے وہاں حکومت کی تھی ۔بالآخر ''قصریانہ ''کے شیعہ حاکم ابن ِ حمود کی غداری کے نتیجہ میں مسلمانوں کے ہاتھوں سے ہمیشہ کے لئے نکل گیا ۔سسلی کے سقوط کے بعد مصر کے فاطمی خلیفہ نے نصرانیوں کے فاتح جرنیل ''روجر''کے پاس مبارک بادی کا مکتوب بھیجا تھا ،جس میں روجر کے اس اقدام کی تعریف کرتے ہوئے جزیرہ سسلی کے مسلمانوں کو شکست کا مستحق قرار دیا تھا !
فاطمی حکومت جو 298 ھ میں مراکش کے اندر قائم ہوئی تھی اور 362 ھ میں اس کی قیادت منتقل ہوکر مصر آگئی تھی۔اس شیعہ حکومت کو کھلے طور پر یہود ونصاریٰ پر اعتماد تھا ،انہیں میں سے زیادہ تر وزراء ،ٹیکس اور زکوۃ کے محصلین ،سیاسی ،اقتصادی اور علمی امور کے مشیر ،اطباء اور حکام کے معتمدین ہوتے تھے ۔اور بڑے بڑے کام انہیں کے سپرد کئے جاتے تھے ،ان لوگوں کے ظلم وستم سے لوگ پناہ مانگتے تھے ۔ان کی کہیں بھی داد رسی نہ ہوتی تھی ،عزیز فاطمی نے اپنے وزیر یعقوب بن کلس یہودی کی محبت میں فاطمی مذہب کے لیے دعوت کا کام اس کے حوالہ کردیا تھا ۔یہ وزیر خود بیٹھ کر اسمٰعیلی فقہ کا درس دیتا تھا ،اس طرح اس شیعہ حکومت کے طفیل یہودیوں کے ہاتھوں مصر کے عوام کو ناقابل تلافی دینی اور دنیاوی نقصانات پہنچتے رہے ،بالآخر 567ھ میں سلطان صلاح الدین ایوبی رحمہ اﷲکے ہاتھوں یہ شیعہ حکومت ختم ہوئی اور مسلمانوں نے اطمینان کا سانس لیا!
ہندوستا ن میں مغلیہ حکومت جو اورنگ زیب عالمگیر کے دور میں کابل سے لے کر رنگون تک وسیع ہوگئی تھی ان کی وفات کے بعد شیعی عناصر کی ریشہ دوانیوں کے نتیجہ میں زوال پذیر ہوگئی ۔تاریخ کا مطالعہ کرنے والوں سے ''سادات بارہہ''کے نام سے دومشہور بھائیوں ،عبداﷲاور علی بن حسین کے کردار وحرکات مخفی نہیں ۔یہ دونوں مذہب شیعہ کے پیروکار اور ''بادشاہ گر''کے نام سے مشہور ہوگئے تھے ان کا عروج مغلوں کے زوال کا سبب بن گیا اور پچاس سے سال کے مختصر سے عرصے میں صدیوں سے قائم مغل سلطنت انحطاط وخاتمہ کے نزدیک پہنچ گئی ،بالآخر 1857ھ میں انگریزوں نے جو شیعوں کے طفیل ہی ہندوستان کی سرزمین میں قدم جمانے میں کامیاب ہوئے تھے ،آخری مغل تاجدار بہادر شاہ ظفر کو گرفتار کرکے رنگون میں قید کردیا وہاں ا س کی موت ہوگئی ،اس طرح ہندوستان میں بھی مسلم حکومت کا خاتم ہوگیا تھا!
پلاسی کی جنگ میں جب سراج الدولہ بنگال میں انگریزوں کے دانت کھٹے کررہا تھا تو عین وقت پر اس کے شیعہ وزیر ''میر جعفر''کی غداری سے پانسہ پلٹ گیا ،اور سراج الدولہ کو شکست ہوگئی اس طرح ان شیعوں کے طفیل مشرقی ہندوستا ن میں انگریزوں کو پیر جمانے اور سیاسی طور پر مستحکم ہونے کا موقع ملا ۔
بغداد کی ساڑھے پانچ سو سالہ عباسی خلافت 656ھ میں آخری خلیفہ معتصم باﷲکے شیعہ وزیر اعظم بن علقمی کی غداری اور ریشہ دوانیوں کے نتیجہ میں ختم ہوئی اور چنگیز خان کے پوتے ہلاکو خان نے دارالخلافہ بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجادی تین چار دن میں کئی لاکھ مسلمان قتل ہوئے جن کے خون سے دریائے دجلہ کا پانی سرخ ہوگیا خلیفہ معتصم باﷲاپنے تین سو ساتھیوں کے ہمراہ غیر مشروط طور پر بغداد چھوڑنے کے لیے نکلا مگر ہلاکو نے اس کو پکڑ کر قتل کرڈالا اس طرح ان شیعوں کے طفیل عباسی خلافت کا وجود مٹ گیا !
سسلی جسے 212 ھ میں اسدبن فرات کی سرکردگی میں مسلمانوں نے فتح کیا تھا اور تقریباًٍ دوصدیوں تک بڑے رعب ودبدبہ سے وہاں حکومت کی تھی ۔بالآخر ''قصریانہ ''کے شیعہ حاکم ابن ِ حمود کی غداری کے نتیجہ میں مسلمانوں کے ہاتھوں سے ہمیشہ کے لئے نکل گیا ۔سسلی کے سقوط کے بعد مصر کے فاطمی خلیفہ نے نصرانیوں کے فاتح جرنیل ''روجر''کے پاس مبارک بادی کا مکتوب بھیجا تھا ،جس میں روجر کے اس اقدام کی تعریف کرتے ہوئے جزیرہ سسلی کے مسلمانوں کو شکست کا مستحق قرار دیا تھا !
فاطمی حکومت جو 298 ھ میں مراکش کے اندر قائم ہوئی تھی اور 362 ھ میں اس کی قیادت منتقل ہوکر مصر آگئی تھی۔اس شیعہ حکومت کو کھلے طور پر یہود ونصاریٰ پر اعتماد تھا ،انہیں میں سے زیادہ تر وزراء ،ٹیکس اور زکوۃ کے محصلین ،سیاسی ،اقتصادی اور علمی امور کے مشیر ،اطباء اور حکام کے معتمدین ہوتے تھے ۔اور بڑے بڑے کام انہیں کے سپرد کئے جاتے تھے ،ان لوگوں کے ظلم وستم سے لوگ پناہ مانگتے تھے ۔ان کی کہیں بھی داد رسی نہ ہوتی تھی ،عزیز فاطمی نے اپنے وزیر یعقوب بن کلس یہودی کی محبت میں فاطمی مذہب کے لیے دعوت کا کام اس کے حوالہ کردیا تھا ۔یہ وزیر خود بیٹھ کر اسمٰعیلی فقہ کا درس دیتا تھا ،اس طرح اس شیعہ حکومت کے طفیل یہودیوں کے ہاتھوں مصر کے عوام کو ناقابل تلافی دینی اور دنیاوی نقصانات پہنچتے رہے ،بالآخر 567ھ میں سلطان صلاح الدین ایوبی رحمہ اﷲکے ہاتھوں یہ شیعہ حکومت ختم ہوئی اور مسلمانوں نے اطمینان کا سانس لیا!
ہندوستا ن میں مغلیہ حکومت جو اورنگ زیب عالمگیر کے دور میں کابل سے لے کر رنگون تک وسیع ہوگئی تھی ان کی وفات کے بعد شیعی عناصر کی ریشہ دوانیوں کے نتیجہ میں زوال پذیر ہوگئی ۔تاریخ کا مطالعہ کرنے والوں سے ''سادات بارہہ''کے نام سے دومشہور بھائیوں ،عبداﷲاور علی بن حسین کے کردار وحرکات مخفی نہیں ۔یہ دونوں مذہب شیعہ کے پیروکار اور ''بادشاہ گر''کے نام سے مشہور ہوگئے تھے ان کا عروج مغلوں کے زوال کا سبب بن گیا اور پچاس سے سال کے مختصر سے عرصے میں صدیوں سے قائم مغل سلطنت انحطاط وخاتمہ کے نزدیک پہنچ گئی ،بالآخر 1857ھ میں انگریزوں نے جو شیعوں کے طفیل ہی ہندوستان کی سرزمین میں قدم جمانے میں کامیاب ہوئے تھے ،آخری مغل تاجدار بہادر شاہ ظفر کو گرفتار کرکے رنگون میں قید کردیا وہاں ا س کی موت ہوگئی ،اس طرح ہندوستان میں بھی مسلم حکومت کا خاتم ہوگیا تھا!
پلاسی کی جنگ میں جب سراج الدولہ بنگال میں انگریزوں کے دانت کھٹے کررہا تھا تو عین وقت پر اس کے شیعہ وزیر ''میر جعفر''کی غداری سے پانسہ پلٹ گیا ،اور سراج الدولہ کو شکست ہوگئی اس طرح ان شیعوں کے طفیل مشرقی ہندوستا ن میں انگریزوں کو پیر جمانے اور سیاسی طور پر مستحکم ہونے کا موقع ملا ۔