• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

یہودیت اور شیعیت کے مشترکہ عقائد از ڈاکٹر ابو عدنان سہیل

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
قطع نظر اس کے کے ان کے اپنے گروہ کے افراد کی اکثریت دین وشریعت کی کتنی پیروکار اور نماز ،روزہ ،زکاۃ ،حج وغیرہ ارکانِ اسلام پر کس حد تک عمل پیرا ہے ؟؟ صریح مشرکانہ اعمال اور بدعتی رسوم میں دان رات مبتلا ہونے اور اسلام کے صاف وشفاف اور پاکیزہ دامن میں فسق وفجور اور ہر طرح کی معصیت کے داغ ودھبے لگاتے رہنے کے باوجود یہ لوگ خود کو جنت کا ٹھیکیدار سمجھ بیٹھے ہیں ۔
اہل کتاب (یہود ونصاریٰ )کی دوسری صفت جو قرآن مجید میں بیان کی گئی ہے وہ ان کا اپنے دینی پیشواؤں ،اور راہبوں اور درویشوں کو اﷲکے صفات سے متصف کرنا ہے ۔یہ مذموم اور مشرکانہ نظریہ بھی ’’شیعی مذہب‘‘میں پورے آب وتاب کے ساتھ جلودہ گر ہے ان کی کتابوں سے چند اقتباسات ملاحظہ ہوں:
اصول کافی کتاب الحجہ باب مولد النبیﷺ میں محمد بن سنان سے روایت ہے کہ انہوں نے ابوجعفر ثانی (محمد بن علی نقی سے )جو نویں امام ہیں حرام وحلال کے بارے میں دریافت کیا تو آپ نے فرمایا :
(یا محمد! ان اﷲ تبارک وتعالیٰ لم یزل منفرداً بواحدنیتہ ثم خلق محمد اً وعلیاً وفاطمۃ فمکثوا الف دھرٍ ثم خلق جمیع الأشیاء فأشھد ھم خلقا واجری طاعتھم علیھا وفوّض امورھا الیھم فھم یحلون مایشاؤن ویحرمون ما یشاؤن ولن یشاؤا الا ان یشاء اﷲ تبارک وتعالیٰ)(اصول کافی :ص:278)
اے محمد!اﷲتعالیٰ ازل سے اپنی وحدانیت کے منفرد رہا ،پھر اس نے محمد،علی ،اور فاطمہ کو پیدا کیا ،پھر یہ لوگ ہزاروں قرن ٹھہرے رہے ۔اس کے بعد اﷲنے دنیا کی تمام چیزوں کو پیدا کیا ،پھر ان مخلوقات کی تخلیق پر ان کو شاہد بنایا اور ان کی اطاعت وفرمانبرداری ان تمام مخلوقات پر فرض کی اور ان کے تمام معاملات ان کے سپرد کئے ۔یہ تو حضرات جس چیز کو چاہتے ہیں حلال کردیتے ہیں اور جس چیز کو چاہتے ہیں حرام کردیتے ہیں۔اور یہ نہیں چاہتے مگر جو اﷲ تبارک تعالیٰ چاہے ‘‘۔
علامہ قزوینی نے اس ’’روایت‘‘کی شرح میں یہ تصریح کردی ہے کہ
یہاں محمد ،علی اور فاطمہ سے مراد یہ تینوں حضرات اور ان کی نسل سے پیدا ہونے والے تمام ائمہ ہیں ۔(الصافی شرح اصول کافی جزء :3 جلد 2 ص: 149)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
اصول کافی ہی میں امام جعفر صادق سے روایت ہے :
( قال ولا یتنا ولایۃ اﷲ التی لم ےُبعث نبي قط الا بھا) (اصول کافی: ص 276)
''ہماری ولایت (یعنی بندوں اور تمام مخلوقات پر ہماری حاکمیت) بعینہٰ اﷲتعالیٰ کی ولایت وحاکمیت جیسی ہے جو نبی بھی اﷲکی طرف سے بھیجا گیا وہ اس کی تبلیغ کا حکم لے کر بھیجا گیا''۔

شیعی لٹریچر کے مطابق ان کے ائمہ تمام الوہی صفات کے حامل ہیں ۔ان کی شان یہ ہے کہ عالم ماکان وما یکون میں کوئی چیز ان سے مخفی اور غیب نہیں ،انسانوں کے نامۂ اعمال روزانہ ان کے سامنے پیش کئے جاتے ہیں ،ان کے بارے میں غفلت سہو اور نسیان کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا اورکائنات کے ذرہ ذرہ پر اُن کی تکوینی حکومت ہے ،وہ دنیا وآخرت کے مالک ہیں ،جس کو چاہیں دیں اور جسے چاہیں محروم رکھیں وغیرہ وغیرہ۔

قرآن مجید کے مطالعہ سے اہل کتاب یعنی یہود ونصاریٰ کی ایک اور کمینہ صفت اور ذلیل حرکت جو ہمیں معلوم ہوتی ہے وہ ان کی حق کو چھپانے اور دین کی اصلیت پر نفاق اور جھوٹ کا پردہ ڈالنے کی مجرمانہ عادت اور ذلیل فطرت ہے۔جب ہم شیعہ لٹریچر کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں التباس اور کتمان حق کی یہ دونوں قبیح عادتیں تقیہ او ر''کتمان''کے عنوان کے تحت اس میں نمایاں نظر آتی ہیں ۔اگر فرق ہے تو صرف اس قدر کہ یہود دُنیوی مفاد کے لئے حق کے بیان سے گریز کرنے اور اﷲکی تعلیمات کو پوشیدہ رکھنے کے مجرم تھے ،مگر ان کے یہ معنوی سپوت شیعہ حضرات اﷲکی مخلوق کو گمراہ کرنے کے لئے اپنے باطل نظریات وفکار کو حق کے لبادے میں چھپا کر پیش کرنے میں مہارت رکھتے ہیں:
''کتمان'' اور ''تقیہ''شیعہ مذہب کی اصولی تعلیمات میں سے ہے۔''کتمان''کا مطلب ہے اپنے اصل عقیدہ اور مذہب ومسلک کو چھپانا اور دوسروں پر ظاہر نہ ہونے دینا ،اسی طرح ''تقیہ''کہتے ہیں اپنے قول یا عمل سے نفس واقعہ یا حقیقت کے خلاف یا اپنے عقیدہ وضمیر اورمذہب ومسلک کے برعکس ظاہر کرنا اور اس طریقہ سے دوسروں کو دھوکہ اور فریب میں مبتلا کرنا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
شیعہ مذہب کی معتبر ترین کتاب''اصول کافی''میں امام جعفر صادق کا یہ ارشاد نقل کیا گیا ہے:
( انکم علی د ین من کتمہ اعزّہ اﷲ ومن اذ اعہ اذ لہ اﷲ) (اصول کافی: ص: 485)
''تم ایسے دین پر ہو ،جو اس کو چھپائے گا اﷲتعالیٰ اسے عزت عطافرمائے گا اور جو کوئی اسے شائع وظاہر کرے گا ۔اﷲاس کو ذلیل اور رسوا کردے گا '' ۔
''تقیہ''کے ایک مستقل باب کے تحت اصول کافی میں روایت ہے :
(عن ابی عمیر الأعجمی قال قال لہ ابو عبد اﷲ علیہ السلام یا ابا عمیر تسعۃ اعشار الد ین فی التقیۃ ولا دین لمن لا تقیۃ لہ )
''ابو عمیر اعجمی روایت کرتے ہیں کہ امام جعفر صادق نے مجھ سے فرمایا کہ اے ابوعمیر !دین کے دس حصوں میں سے نو حصے تقیہ میں ہیں جو تقیہ نہیں کرتا وہ بے دین ہے ''۔(اصول کافی ،ص:482)
امام باقر سے بھی تقیہ کے سلسلے میں ایک روایت اسی ''اصول کافی''میں درج ہے :
( قال ابوجعفر علیہ السلام: التقیۃ من دینی ود ین آباء ی ولا ایمان لمن لا تقیۃ لہ) (اصول کافی ،ص: 484)
''امام باقر نے فرمایا تقیہ میرا دین ہے اور میرے آباء اجداد کا دین ہے ،جو شخص تقیہ نہیں کرتا اس میں ایمان ہی نہیں''۔
''من لا یحضرہ الفقیہ'' نامی کتاب میں جو شیعہ حضرات کے اصولِ اربعہ میں سے ہے ،
تقیہ کے بارے میں ایک روایت درج کی گئی ہے :
( لو قلت ان تارک التقیۃ کتارک الصلاۃ لکنت صادقاًً ، وقال علیہ السلام: لا د ین لمن لا تقیۃ لہ )
( من لایحضرہ الفقیہ بحوالہ باقیات الصالحات ص: 216 )
امام جعفر نے فرمایا اگر میں کہوں کہ تقیہ ترک کرنے والا ایسا ہی گناہ گار ہے جیسا کہ نماز ترک کرنے والاتو میری بات صحیح اور سچ ہوگی ۔اور آپ نے یہ بھی فرمایا کہ جو تقیہ نہیں کرتا وہ بے دین ہے''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
حقیقت یہ ہے کہ تقیہ اورکتمان کے اس خطرناک عقیدے کے ذریعے یہودی عناصر کو امت مسلمہ میں نفوذ کرنے اور ان میں نفاق وتفرقہ ڈالنے میں جس قدر کامیابی ہوئی ہے وہ کسی اور طریقے سے ممکن نہ تھی ۔اس طرح یہ لوگ عامۃ المسلمین میں گھل مل گئے اور اندر ہی اندر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ،ان کے عقائد میں فساد اور انہیں دین اسلام سے برگشتہ کرنے کی کوششوں میں مصروف ہوگئے ۔ظاہر ہے کہ یہودیت براہ راست اور کھل کر تو مسلمانوں کے قلوب واذہان پر اثر انداز ہو نہ سکتی تھی ۔اس نے شیعیت کے روپ میں جن لوگوں کو اپنے دام فریب میں گرفتار کرلیا تھا وہ بھی بہرحال ایک محدود طبقہ تھا جس کے بل بوتے پر یہودیت کے خطرناک عزائم کی تکمیل ممکن نہ تھی ،اس لئے عام مسلمانوں میں اثر ونفوذ کے لئے ''کتمان''اور ''تقیہ''سے بہتر کوئی اور تدبیر ممکن نہ تھی ۔
اس غیر محسوس طریقہ پر یہ لوگ مسلمانوں میں گھل مل گئے اور ان کا اعتماد حاصل کرنے کے بعد فلسفہ اور علم کلام کی مدد سے انہوں نے مسلمانوں کے مختلف عقائد اور دین کے مسلمات میں شکوک وشبہات پیدا کرنے شروع کردئیے ۔رفتہ رفتہ مسلمان ان شاطر اور گھاک یہودیوں کے ہاتھوں کھلونا بن کر رہ گئے ،کچھ عرصے بعد چشم فلک نے یہ عبرت منظر بھی دیکھ لیا کہ ہمارے یہ عیار دشمن ''یہودی ''دنیا کے مختلف مقامات پر خاص طور سے برصغیر ہندوپاک میں اسی تقیہ اور کتمان کے پرفریب ہتھکنڈوں کے سہارے صوفیوں کے بھیس میں مسلمانوں کے مذہبی پیشوا اور مقتدی بن بیٹھے ہیں اور کھلے عام اپنے معتقدین پر ''شیعیت ''یا دوسرے لفظوں میں ''یہودیت ''کی تعلیم وتبلیغ کرنے میں مصروف ہیں ،حالانکہ ان کی شیعیت وضلالت ان کے خیالات وافکار کتابوں سے عیاں اور صاف ظاہر تھی ،مگر بھولے بھالے مسلمان عقیدت کے نشہ میں چُور انہیں اپنا ''روحانی پیشوا''ہی نہیں بلکہ مطاع اور ''حاجت روا ''تک سمجھے بیٹھے ہیں۔
جہاں تک مسلمانوں سے نفرت وعداوت رکھنے کا سوال ہے تو قرآن مجید اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ ''یہودی''مسلمانوں کے شدید دشمن ہیں اور ان کی دشمنی ودلی عداوت اس بات کی متقاضی ہے کہ وہ اس کی تمنا اور تگ ودو کرتے رہیں کہ مسلمانوں کا وجود صفحہ ہستی سے مٹ جائے ،اس مقصد کے لیے انہوں نے پہلا کام یہ کیا کہ شیعیت کے روپ میں مسلمانوں کے خلاف نفرت وعداوت اور تبّرا کا محاذ کھول دیا ،اور صحابہ کرام ﷢ وخیرالقرون کے مسلمانوں سے لوگوں کو بدظن کرنے کے لیے ہر وہ ہتھکنڈہ استعمال کیا جو ان کے امکان میں تھا ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
رسول اﷲﷺ کی وفات کے بعد اسلام کے عروج وترقی کا سنہرا دور خلفاء ثلاثہ یعنی ابوبکر ، عمرفاروق ،اور عثمان غنی﷢کی خلافت کا عہد زریں تھا ،جس میں مسلمانوں نے مختصر عرصے کے اندر قیصر وکسریٰ کی حکومتوں کو روند ڈالا اور اسلام کا پیغام سرزمین عرب سے نکل کر مصر وشام ،ایران وعراق ،ماوراء النہر ،آزربائیجان اور افغانستان تک جا پہنچا ،ظاہر ہے کہ اسلام کی یہ ترقی اور کامیابی کمینہ فطرت قوم یہود آسانی سے کس طرح برداشت کرسکتی تھی ؟اسلام کا یہ سیل عظیم روکنا ان بدبختوں کے بس کا روگ تو نہ تھا مگر انہوں نے اپنے دلی بغض وعداوت سے جوانہیں اسلام اور مسلمانوں سے تھی ،اس بات کی کوشش کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی کہ امت مسلمہ کو خلفاء ثلاثہ اور تقریبا تمام صحابہ کرام سے بدظن کردیاجائے ۔
یہ حقیقت ہے کہ مسلمانوں کی تاریخ کا قابل فخر سرمایہ رسول اﷲﷺکے بعد دور خلفاء راشدین اور صحابہ کرام کا اُسوہ ہی ہے ۔دین اور اس کی تمام جزئیات ہم تک صحابہ کرام﷢کے ذریعہ ہی پہنچی ہیں ۔یہ لوگ اسلام کا مرکز عقیدت ہی نہیں ،منبع رشد وہدایت اور مسلمانوں کے لیے سرمایہ افتخار ہیں ۔دین وملت کے پاسبان ہیں ۔ان سے ذہنی رشتہ ٹوٹ جانے کے بعد اسلام کا کوئی تصور ہی باقی نہیں رہ سکتا۔کیونکہ قرآن مجید جو دین کی اساس ہے اور ذخیرہ احادیث جو ہمارے اعمال کی بنیاد ہے ۔دونوں ہی ناقابل اعتبار اور بے وقعت ہوجاتے ہیں اگر حاملین قرآن وحدیث گروہ صحابہ کرام﷢،خاص طور پر خلفاء ثلاثہ کو کافر ومرتد سمجھنے اور اسلام سے پھر جانے کا تصور عام ہوجائے ۔
کیونکہ قرآن کے جامع ابوبکر وعثمان ﷢ اور احادیث کے حافظ اجل صحابہ﷢ہی جب رسول اﷲﷺ کی وفات کے فوراً بعد اسلام سے پھر جائیں ،تو ان کے جمع کئے ہوئے قرآن اور ذخیرہ احادیث کا کیا اعتبار رہے گا ؟اور جب قرآن وحدیث سے ہی اعتبار اٹھ گیا تواسلام کہاں باقی رہ جائے گا؟یہی وجہ ہے کہ شیعہ حضرات ظاہر دعویٰ ایمان کے باوجود نہ صرف موجودہ قرآن کو تحریف شدہ اور ناقابل اعتبار کہتے ہیں بلکہ ان کا عقیدہ ہے کہ اصل قرآن جو علی﷜ نے جمع کیا تھا ،مسلمانوں کے قرآن سے تقریباً ڈھائی گناہ زیادہ ضخیم تھا ،وہ ان سے حسن وحسین ﷢ اور دیگر ائمہ معصومین کے ہاتھوں منتقل ہوتا ہوا دسویں غائب امام تک پہنچا اور وہ اسے اور دیگر انبیاء کی نشانیوں کو لے کر ''سرمن رای''کی غار میں روپوش ہوگئے اور قرب قیامت میں اس قرآن کو لے کر ظاہر ہوں گے ۔(اصول کافی ،ص:139،671)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
مسلمانوں کی بدقسمتی کہ قرون اولیٰ میں مختلف سیاسی عوامل اور ناگزیر حالات کے تحت امت مسلمہ میں ''یہودی لابی''کے قیام،اثر ونفوذ اور اسلام میں انہیں اندر سے نقصان پہنچانے اور تارپیڈو کرنے کا موقع مل گیا اور مسلمان اپنی سادہ لوحی کی بنا پر ان دشمنانِ اسلام کی سازشوں سے باخبر نہ ہوسکے ۔یا پھر کچھ طالع آزما حکمرانوں کی چشم پوشی اور سیاسی مفاد کے لیے ان خطرناک عناصر کی درپردہ ہمت افزائی سے یہودیت کے جراثیم اسلام کے جسد صالح میں تیزی سے سرایت کرگئے !وجہ کچھ بھی ہو ،ان خبیث دشمنوں کی جراء ت کی داد دینی پڑے گی جنہوں نے عین اسلامی حکومتوں کے زیر سایہ اور ''سرپرستی میں ''اسلام کی بنیاد کھودنے اور ملت اسلامیہ کو فنا کے گھاٹ اتارنے کی خطرناک سازشیں کیں اورکامیاب ہوئے ۔آج بھی وہ علی الاعلان اسلام کے مشاہیر اور صحابہ کرام﷢کی توہین کرنے اور غلوئے عقیدت کے بھیس میں مسلمانوں کی برگزیدہ شخصیات کو ''ارباباً من دون اﷲ''بناکر توحید کے قلعہ کو زمین بوس کرنے میں مصروف عمل ہیں ۔اور مسلمان آنکھ بند کرکے ان یہود کی پیروی کررہے ہیں اور یہود صفت دشمنان اسلام کو اپنا مقتدیٰ وپیشوا بنائے ہوئے ہیں۔فاعتبروا یا اولی الابصار!!
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
لیجئے ملاحظہ کیجئے شیعی کتب کی روشنی میں یہود کی مسلمانوں سے عداوت اور دشمنی کی جھلکیاں :

سب سے پہلے ام المومنین عائشہ اور حفصہ﷠کے بارے میں شیعوں کے خیالات دیکھئے ،قرآن مجید میں رسول اﷲﷺ کی ازواج مطہرات کو ''امہات المومنین ''یعنی تمام مسلمانوں کی مائیں کہا گیا ہے ۔ظاہر ہے اس کا مطلب یہی ہے کہ اہل ایمان کے دلوں میں رسول اﷲﷺ کے تعلق اور رشتہ سے آپ کی ازواج مطہرات کی وہی عظمت ہونی چاہیے جو اپنی حقیقی ماؤں کی ہوتی ہے بلکہ اس سے بھی کہیں بڑھ کر کیونکہ ایمان کا رشتہ خون کے رشتوں سے زیادہ محترم ہوتا ہے ۔اور اسی کے مطابق ان کے لیے ادب واحترام کا رویہ ہونا چاہیے ،لیکن رسول اﷲﷺ کی ازواج مطہرات میں سے عائشہ صدیقہ ﷝اور حضرت حفصہ﷝ چونکہ ابوبکر صدیق اور عمر فاروق﷠ کی صاحبزادیاں ہیں ،اس لئے ان کے ساتھ شیعہ حضرات کو وہی عداوت ہے جو حضرت شیخین ﷠کے ساتھ ہے ۔
شیعوں کے مستند عالم ملّا باقر مجلسی نے اپنی کتاب ''حیات القلوب''میں ایک مستقل باب قائم کیا ہے
جس کا عنوان اس طرح ہے :
( باب پنجاہ وپنجم دراحوال شقاوت مآل عائشہ وحفصہ)
''باب :55 عائشہ وحفصہ کے بدبختانہ حالات کے بیان میں ''
(حیات القلوب :ملا باقر مجلسی ،ج2،ص، )265
اسی باب میں اور کتاب کے دیگر ابواب میں بھی اس ظالم نے ان دونوں امہات المومنین کو بار بار ''منافقہ''لکھا ہے ،پھر اسی جلد دوم میں رسول اﷲﷺ کی وفات کے بیان میں لکھتا ہے :
''وعیاشی بسند معتبر از حضرت صادق روایت کردہ است کہ عائشہ وحفصہ آنحضرت رابز ہر شہید کردند۔''
''اور عیاشی نے معتبر سند سے امام جعفر صادق سے روایت کیا ہے کہ عائشہ وحفصہ نے رسول اکرمﷺ کو زہر دے کر شہید کیا تھا ''۔
(حیات القلوب ،ملا باقر مجلسی ج:2ص870)
ابوبکر وعمر ﷠کے دورِ خلافت میں اسلام کو شاندار ترقی ہوئی ہے اور اطراف عالم میں مسلمانوں کو جس تیزی سے فتوحات حاصل ہوئیں ،وہ تاریخ اسلام کا ایک درخشاں باب اور قابل فخر سرمایہ ہے ،ان کے مبارک دور اور طریق حکمرانی کا اعتراف غیر مسلم مشاہیر تک کرتے ہیں ،یہودی ذہن وفکر کو ان سے عداوت ہونا یقینی تھی ۔چنانچہ ملاحظہ ہوں شیخین ﷠ کے بارے میں اہل تشیع کے خیالات ،واضح رہے کہ شیعی روایات میں جہاں فلاں فلاں کے الفاظ آتے ہیں اس وقت اس سے مراد ابوبکر صدیق اور فاروق اعظم ﷠ ہوتے ہیں ،اور جہاں یہ لفظ تین مرتبہ آتا ہے وہاں تیسرے فلاں سے مراد عثمان غنی﷜ مراد ہوتے ہیں ۔یہ طرز بیان انہوں نے اسلامی حکومت اور مسلمانوں کے عتاب سے بچنے کے لیے اختیار کیا تھا:
( فلان فلان فلان ارتد وا عن الایمان فی ترک ولایۃ امیر المومنین علیہ السلام)
(اصول کافی ،ص: 265)
''(یعنی ابوبکر،عمر ،عثمان﷢ ) یہ تینوں امیر المومنین علیکی امامت ترک کردینے کی وجہ سے ایمان واسلام سے مرتد ہوگئے''۔
ابوجعفر یعقوب کلینی کی ''الجامع الکافی''کے آخری حصہ ''کتاب الروضہ ''میں روایت ہے کہ امام باقر کے مخلص مرید نے حضرت ابوبکر وعمر ﷠کے بارے میں ان سے سوال کیا تو انہوں نے فرمایا :
( انھما ظلمانا حقنا وکانا اول من رکب اعناقا واﷲ ما اسست من بلیۃ ولا قضیۃ تجری علینا اھل البیت الا ھما اسسا اولھما فعلیھما لعنۃ اﷲ والملائکۃ والناس اجمعین)(کتاب الروضہ ابوجعفر کلینی: ص: 115)
''ان دونوں نے ظالمانہ طور پر ہمارا حق مارا یہ دونوں سب سے پہلے ہم اہل بیت کی گردنوں پر سوار ہوئے ہم اہل بیت پر جو بھی مصیبت اور آفت آئی ا س کی بنیاد انہی دونوں نے ڈالی ہے ،لہٰذا ان دونوں پر اﷲکی لعنت ہو ،اس کے فرشتوں کی اور تمام بنی آدم کی''۔
اسی ''کتاب الروضہ ''میں پانچویں امام باقر کا یہ ارشاد نقل کیا گیا ہے :
( کان الناس اھل ردّۃ بعد النبي ﷺ الا ثلاثۃ فقلت ومن ثلاثۃ فقال المقداد بن الاسود وابوذر الغفاری وسلمان الفارسی رحمۃ اﷲ علیھم وبرکاتہ)
( کتاب الروضہ ،ابوجعفر یعقوب کلینی ،ص:115)
رسول اﷲﷺ کی وفات کے بعد سب لوگ مرتد ہوگئے ،سوائے تین کے (راوی کا کہنا ہے کہ)میں نے عرض کیا وہ تین کون تھے ؟تو انہوں نے جواب دیا مقداد بن الاسود،ابوذرغفاری،اور سلمان فارسی ،ان پر اﷲ کی رحمت وبرکت ہو''۔
شیعوں کے علامہ باقر مجلسی نے اپنی کتاب ''حق الیقین ''میں ایک روایت لکھی ہے :
''وقتیکہ قائم  ظاہری شود پیش از کفار ابتداء بہ سنیان خواہد باعلماء ایشاں وایشاں راخواہد کشت''
(حق الیقین ،ملا باقر مجلسی ص:138)
''جس وقت مہدی ظاہر ہوں گے تو کافروں سے پہلے وہ سنیوں اور خاص کر ان کے عالموں سے کاروائی شروع کریں گے اور ان سب کو قتل کرکے نیست ونابود کردیں گے ''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
اسی کتاب کے اگلے صفحہ پر وہ یہ پیش گوئی کرتے ہیں۔
''چون قائم ما ظاہر شود ،عائشہ راز ندہ کند تابر اوحد بزندوانتقام فاطمہ ما ازوبکشد''
''جب ہمارے قائم (یعنی مہدی)ظاہر ہوں گے ،تو عائشہ کو زندہ کرکے ان پر حد جاری کریں گے اور فاطمہ کا انتقام ان سے لیں گے ''۔
حق الیقین ،ملا باقر مجلسی،ص: 139
اسی کتاب ''حق الیقین''میں امام جعفر صادق کے خاص مریدمفصل بن عمر سے ایک طویل روایت نقل کی گئی ہے ،جس میں امام جعفر صادق کی زبان سے امام غائب مہدی کے ظہور کا بہت تفصیل سے ذکر کیا گیا ہے ۔اس روایت میں بیان کیا گیا ہے کہ
جب صاحب الامر (امام غائب)ظاہر ہوں گے تو سب سے پہلے مکہ مکرمہ آئیں گے اور وہاں سے کوچ کرکے مدینہ جائیں گے اور جب وہ اپنے نانا رسول اﷲکی قبر کے پاس پہنچیں گے تو وہاں کے لوگوں سے دریافت کریں گے کہ کیا یہ ہمارے نانا رسول اﷲکی قبر ہے ؟لوگ کہیں گے ہاں یہ انہی کی قبر ہے ۔پھر امام پوچھیں گے یہ اوریہ کون لوگ ہیں جو ہمارے نانا کے پاس دفن کئے گئے ہیں ؟لوگ بتلائیں گے یہ آپ کے خاص مصاحب ابوبکر اور عمر﷠ ،حضرت صاحب الامر اپنی سوچی سمجھی پالیسی کے مطابق سب کچھ جاننے کے بعد ان لوگوں سے دریافت کریں گے ابوبکر کون تھا؟اور عمر کون تھا ؟لوگ جواب دیں گے کہ یہ دونوں آپ کے خلیفہ اور آپ کی بیویوں عائشہ وحفصہ کے باپ تھے ۔اس کے بعد جناب صاحب الامر فرمائیں گے کہ کوئی ایسا آدمی بھی ہے جس کے بارے میں شک ہو کہ یہی دونوں یہاں مدفون ہیں ؟لوگ کہیں گے کہ کوئی ایسا آدمی نہیں ہے جو اس بارے میں شک رکھتا ہو۔
پھر تین دن کے بعد صاحب الامر حکم فرمائیں گے کہ دیوار توڑدی جائے۔چنانچہ دونوں کو قبر سے نکالا جائے گا ،ان کا جسم تروتازہ ہوگا اور صوف کا وہی کفن پہنے ہوں گے جن میں یہ دفن کئے گئے تھے پھر آپ حکم دیں گے کہ ان کا کفن علیحدہ کردیا جائے (یعنی ان کی لاشو ں کو برہنہ کردیا جائے )اور ایک سوکھے درخت پر لٹکادیا جائے ۔اس وقت مخلوق کے امتحان وآزمائش کے لیے یہ عجیب واقعہ ظہور میں آئے گا کہ وہ سوکھا درخت جس پر لاشیں لٹکی ہوں گی ایک دم سرسبز شاداب ہوجائے گا ،تازہ ہری پتیاں نکل آئیں گی اور شاخیں بڑھ جائیں گی ۔پس وہ لوگ جوان سے محبت رکھتے تھے(یعنی تمام مسلمان)کہیں گے کہ اﷲکی قسم !یہ ان دونوں کی عنداﷲمقبولیت اور عظمت کی دلیل ہے اور ان کی محبت کی وجہ سے ہم نجات کے مستحق ہوں گے ۔اور جب اس سوکھے درخت کے سرسبز ہونے کی خبر مشہور ہوگی تو لوگ اس کو دیکھنے دور دور سے مدینہ آئیں گے ۔تو جناب صاحب الامر کی طرف سے ایک منادی ندا دے گا اور اعلان کرے گا کہ جو لوگ ان دونوں (ابوبکر اور عمر﷠ )سے محبت رکھتے ہیں وہ ایک طرف الگ کھڑے ہوجائیں ۔
اس اعلا ن کے بعد لوگ دوحصوں میں بٹ جائیں گے ،ایک گروہ ان دونوں سے محبت وعقیدت رکھنے والوں کا ہوگا اور دوسرا ان پر لعنت کرنے والوں کا ،اس کے بعد صاحب الامر سنیوں سے مخاطب ہوکر فرمائیں گے کہ ان دونوں سے بیزاری کا اظہارکرو نہیں تو تم پر عذاب آئے گا ،وہ لوگ انکار کریں گے تو امام مہدی کالی آندھی کو حکم دیں گے کہ وہ ان لوگوں پر چلے اور ان سب کو موت کے گھاٹ اتاردے ،پھر امام مہدی حکم دیں گے کہ ابوبکر وعمر﷠کی لاشوں کو درخت سے اتارا جائے ،پھر ان دونوں کو قدرت الٰہی سے زندہ کردیں گے اور حکم دیں گے کہ تمام مخلوق جمع ہو ،پھر یہ ہوگا کہ دنیا کے آغاز سے اس کے ختم تک جو بھی ظلم اور کفر ہوا ہوگا ان سب کا گناہ ان دونوں پر لازم کیا جائے گا اور انہیں کو اس کا ذمہ دار قرار دیا جائے گا (خاص طور پر )سلمان فارسی کو پیٹنا اور امیر المومنین اور فاطمہ زہرا اور حسن وحسین کو جلادینے کے لیے ان کے گھر کے دروازے میں آگ لگانا اور امام حسن کو زہر دینا اور حسین اور ان کے بچوں اور چچا زاد بھائیوں اور ان کے ساتھیوں اور مدد گاروں کو کربلا میں قتل کرنا اور رسول اﷲ کی اولاد کو قید کرنا اور ہر زمانے میں آل محمد کا خون بہانا اور ان کے علاوہ جو بھی خون ناحق کیاگیا ہوگا یا کسی عورت کے ساتھ کہین بھی زنا کیاگیا ہوگا یا سود وحرام کا مال کھایا ہوگا ،غرض ان سارے گناہوں کو جو دنیا میں امام مہدی کے ظہور سے قبل ہوئے ہوں گے ،ان کے سامنے گنایا جائے گا اور پوچھا جائے گا کہ یہ سب کچھ تم سے اور تمہاری وجہ سے ہوا ہے؟وہ دونوں اقرار کریں گے ،کیونکہ وہ رسول اﷲکی وفات کے بعد پہلے ہی دن خلیفہ برحق )علی(کا حق دونوں مل کر غضب نہ کرتے تو ان گناہوں میں سے کوئی بھی نہ ہوتا ،اس کے بعد صاحب الامر کے حکم سے ان دونوں سے قصاص لیا جائے گا اور انہیں درخت پر لٹکا کر امام مہدی آگ کو حکم دیں گے کہ ان دونوں کو مع درخت کے جا کر راکھ کردے ۔اور ہواؤں کو حکم دیں گے کہ ان کی راکھ کو دریاؤں پر چھڑک دے ۔مفصل نے عرض کیا اے میرے آقا!کیا یہ ان لوگوں کو آخری عذاب ہوگا ؟امام جعفر نے فرمایا کہ اے مفصل !ہرگز نہیں اﷲکی قسم سید اکبر محمد رسول اﷲﷺ اورصدیق اکبر امیر المومنین علی اور سیدہ فاطمہ زہرا اور حسن مجتبی اور حسین شہید کربلا اور تمام ائمہ معصومین زندہ ہوں گے اور تمام مخلص مومن اور خالص کافر بھی زندہ کئے جائیں گے اور تمام ائمہ اور تمام مومنین کے حساب میں ان دونوں کو عذاب دیا جائے گا ۔یہا ں تک کہ دن رات میں ان کو ہزار مرتبہ مارڈالا جائے گا اور زندہ کیا جائے گا ،اس کے بعد اﷲجہاں چاہے گا ان کو لے جائے گااور عذاب دیتا رہے گا۔''
حق الیقین ،ملا باقر مجلسی :145،دربیان رجعت
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
یہودی سازش کے خدوخال

اس بات میں کوئی شک وشبہ نہیں کہ ہمارے دشمن نمبر ۱ ''یہود''نے جہاں ''شیعیت ''کے روپ میں ملت اسلامیہ کے اندربغض وعداوت اور نفاق وتفریق کے بیج بوئے ہیں ،وہاں یہودی آئیڈیالوجی کو بالواسطہ طور پر بھی عامۃ المسلمین کے مختلف طبقات وعناصر میں پوری قوت کے ساتھ پیوست کرنے کی اپنی شیطانی کوشش میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا ۔
تاریخ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ ہمارے شدید ترین دشمن یہودی دور رساسلت سے لے کر آج تک ایک دن کے لیے بھی چین سے نہیں بیٹھے اور چودہ سو سال سے مسلمانوں کو زک پہنچانے اور صفحہ ہستی سے مٹانے کی مسلسل کوششیں کرتے رہے ہیں ،عسکری اعتبار سے وہ اتنے طاقتور کبھی نہیں رہے کہ مسلمانوں سے ٹکر لے سکتے یا انہیں زیر کرنے کی کوشش کرتے ۔مگر ذہنی لڑائی میں انہوں نے امت مسلمہ کو ضرورشہ مات دے دی ہے ۔مسلمانوں کی تاریخ کا کوئی دور اور ان کی دینی اور دنیاوی زندگی کا کوئی گوشہ ایسا نہیں ہے جس پر ان دشمنان اسلام ''یہود''کا سایہ نہ پڑا ہو ،تہذیب ،تمدن ،معیشت ،سیاست ،معاشرت ،عبادات،تفسیر ،احادیث ،اسلامی علوم و فنون غرض ہر شعبۂ زندگی میں انہوں نے اپنا اثر ڈالا ہے اورمسلمانوں کے دین اور دنیا کو تباہ کرنے کی کوششیں کی ہیں ۔
علامہ ابن جوزی﷫کا بیان ہے کہ یہودیوں نے اسلام کا تاروپور بکھیرنے کے لئے پہلی صدی ہجری میں ہی یہ سازش کی تھی کہ ایران کے مجوسیوں ،مزدکیہ ،ثنویہ اورملاحدہ فلاسفہ سے مل بیٹھے اور انہیں یہ مشورہ دیا کہ وہ ایسی کوئی تدبیر نکالیں جو ان کو اس پریشانی سے نجات دلا سکے جو کہ اہل اسلام کے غلبہ واستیلاء سے ان لوگوں پر طاری ہوگئی ہے ۔مجوسی چونکہ اسلام کے ہاتھوں زک اُٹھانے اور اپنی ہزاروں سالہ پرانی ساسانی سلطنت وتہذیب اور روایات سے محروم ہوجانے کی وجہ سے دل گرفتہ تھے ۔بہت سے ان میں سے ہوا کا رخ دیکھ کر بظاہر اسلام بھی قبول کرچکے تھے ،مگر دل ہی دل میں اسلام کے عروج وترقی سے کڑھتے اور حسد کرتے تھے ۔یہ لوگ بڑی آسانی سے یہود کے دام فریب میں آگئے انہوں نے دشمنانِ اسلام یہود کی اس تجویزسے اتفاق کرلیا کہ اسلام کے نام لیوا فرقوں میں سے کسی ایسے گمراہ کن فرقے کو منتخب کیا جائے جو عقل سے کورا ،رائے میں بودا ،اور محال باتوں پر آنکھ بند کرکے یقین کرنے والا ہو ،ساتھ ہی بغیر سند کے جھوٹی باتوں کو قبول کرنے میں مشہور ہو ۔چنانچہ ایسا فرقہ انہیں ''روافض''کی شکل میں مل گیا جو حقیقت میں یہود ہی کا پروردہ اور ان کا دوسرا روپ تھا ،مجوسیوں نے فیصلہ کیا کہ وہ بھی یہودیوں کی طرح شیعیت کی نقاب اوڑ ھ کر اسلام کے قلعے میں شامل ہوجائیں تاکہ اپنے تخریبی اعمال کی پاداش میں اسلامی حکومتوں کے عتاب اور قتال عام سے محفوظ رہ سکیں ۔انہوں نے روافض کے عقیدے اختیار کرنے کے بعد ان میں اپنا اثر ورسوخ بڑھانا شروع کیا اور رفتہ رفتہ ان میں اہم دینی مناصب حاصل کرلیے ۔اس طرح انہوں نے سانحہ کربلا کو بنیاد بنا کر غم وگریہ اور ماتم حسین کو شیعیت کا معیار بنا دیا۔حالانکہ اس سے قبل یہ مذہب صرف علی﷜ اور ان کے استحقاق خلافت کے گرد ہی گھومتا تھا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
علامہ ابن جوزی﷫اپنی کتاب ''تلبیس ابلیس ''میں لکھتے ہیں کہ ایران کے مجوسیوں نے یہود کے مشورہ پر اسلام کی عمارت کو منہدم کرنے کے اور اپنی حسد کی آگ کو ٹھنڈا کرنے کے لیے یہ تدبیر نکالی کہ ظاہر میں روافض یعنی شیعوں کے عقیدے میں شامل ہوں اور اس فرقے سے دوستی وچاپلوسی ظاہرکرکے ان کا اعتماد حاصل کریں اور پھر غم وگریہ اور ماتم ان واقعات مصیبت پر ظاہر کریں جو آل محمد پر ظالموں کے ہاتھوں پیش آئے ،اس حیلہ سے ہمیں اسلام کے مشاہیر اور مقتدر ہستیوں ،خصوصاً صحابہ کرام﷢ خلفاء راشدین ،تابعین اور بزرگان سلف کو لعن طعن کرنے کا پورا موقع ہاتھ آئے گا جن سے شریعت نقل ہوکر بعد کے مسلمانوں تک پہنچتی ہے ۔اس طرح جب ان روافض کے دلوں میں جماعت صحابہ﷢ ،تابعین اور عام مسلمانوں کی طرف سے نفرت وعداوت بیٹھ جائے گی ،تو جو کچھ امر شریعت و قرآن ان بزرگوں سے منقول ہے اس کی قدروقیمت بھی اس احمق فرقے کے دل سے ختم ہوجائے گی ۔تب بہت آسانی سے یہ موقوقع ملے گا کہ انہیں اسلام کے دائرے سے نکال باہر کیا جائے ،اگر اس کے باوجود بھی کوئی شخص قرآن کی اتباع پر مصر ہو تو اس پر یہ جال ڈال کر بہکایا جائے کہ ان کے ظواہر کے کچھ اسرار ورموز اور ''باطنی ''امور بھی ہیں ۔اس لئے فقط ظاہر پر فریفتہ ہونا حماقت ہے ،اور دانائی یہ ہے کہ حکمت وفلسفہ کے مطابق ان کے اسرار پر اعتقاد ہو ،جب یہ لوگ ظاہر وباطن کے فلسفے کو مان لیں گے تو رفتہ رفتہ اپنے مخصوص عقائد ان میں داخل کردیں گے اور انہیں سمجھائیں گے کہ باطن سے مراد یہی اسرار ہیں اور اس طریقے سے باقی قرآن سے منحرف کردینا انہیں آسان ہوگا ،اس طرح سے فرقہ ''باطنیہ اسماعیلیہ ''کا وجود ہوا جو مجوسیوں کے مسلمانوں کے جذبۂ انتقام سے عبارت تھا۔
اس باطنیہ اسماعیلیہ فرقے نے کچھ عرصے کے بعد ملت اسلامیہ کی سیاسی اتھل پتھل سے فائدہ اٹھاکر حسن بن صباح کی سربراہی میں قلعہ الموت میں اپنی الگ حکومت قائم کرلی تھی اور پھر اپنے ''فدائین ''کے ذریعہ مسلم ممالک کے رہنماؤں اور عام مسلمانوں کے خلاف انتقام اور قتل وگارت گری کا بازار گرم کردیا ،اور ایک دور ایسا بھی آیا جب یہ ظالم طاہر قرمطی کی قیادت میں مکہ معظمہ پر چڑھ دوڑے اور حج کے دوران کعبۃ اﷲمیں گھس کر حاجیوں کا قتل عام کیا اور ان کی لاشوں سے چاہ زمزم کوپاٹ دیا ،اس کے بعد کعبہ کی دیوار سے ''حجر اسود''اکھاڑ کر توڑ ڈالا اور پھر اسے اپنے ساتھ لے گئے جو تقریبا بیس سال تک ان ظالموں کے قبضہ میں رہا ،طاہر قرمطی نے حجر اسود کو لے جاکر اپنے گھر کی دہلیز پر دفن کردیا تھا تاکہ لوگ اس پر پاؤں رکھ کر گذرتے رہیں اور اس کی بے حرمتی ہو!
بالآخر عباسی خلیفہ مطیع لِلّٰہ کی کوششوں سے یہ پتھر ان سے حاصل کرکے دوبارہ کعبہ کی دیوار میں نصب کیا گیا ،غرض اس دورمیں ان ظالموں نے مسلمانوں پر ظلم وستم کے وہ پہاڑ توڑے تھے جس کی مثال نہیں ملتی ،انجام کار تاتاریوں کے ہاتھوں یہ ظالم اپنے کیفر کردار کو پہنچے ۔
ہم دیکھتے ہیں کہ شیعیت کوایران میں جو عروج وترقی حاصل ہوئی کسی دوسرے ملک میں نہیں مل سکی ،اس کی وجہ یہی ہے کہ ایران کے مجوسی النسل باشندے اپنی ہزاروں سالہ حکومت کے چھن جانے اور اسلام ومسلمانوں کے سیاسی غلبہ واستیلاء سے حسد وانتقام کی آگ میں جل رہے تھے ۔شیعیت کے پلیٹ فارم سے انہیں اسلام کے خلاف کاروائی کرنے اور مسلمانوں سے انتقام لینے کے بہترین مواقع ہاتھ آئے ۔اس لئے انہوں نے تیزی کے ساتھ شیعہ مذہب کو قبول کرنا شروع کردیا اور آج حالت یہ ہے کہ ایران جو صحابی رسول سلمان فارسی﷜کا وطن ہے جس کی تحسین آپ ﷺ نے ان الفاظ میں کی تھی ''اگر ایمان ثریا ستارے پر بھی ہوگا تو سلمانt کے اہل وطن اسے حاصل کرلیں گے '' (بخاری ومسلم)آج اسی ایران کی آبادی کا بیشتر حصہ شیعہ مذہب پر عامل ہے اور جو سنی مسلمان ہیں ان پر ان لوگوں نے عرصہ حیات تنگ کررکھا ہے۔
 
Top