- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,585
- ری ایکشن اسکور
- 6,762
- پوائنٹ
- 1,207
سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((وَالَّذِيْ نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہِ! لَا یَسْمَعُ بِيْ أَحَدٌ مِنْ ھٰذِہِ الْأُمَّۃِ، یَھُوْدِيٌ وَلَا نَصْرَانِيٌ، ثُمَّ یَمُوْتُ وَلَمْ یُؤْمِنْ بِالَّذِيْ أُرْسِلْتُ بِہِ، إِلَّا کَانَ مِنْ أَصْحَابِ النَّارِ۔))1
''اُس ذات اقدس (اللہ رب العالمین) کی قسم جس کے ہاتھ میں مجھ محمد (بن عبد اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) کی جان ہے! اس زمانے (یعنی میری بعثت سے لے کر قیامت تک) کا کوئی یہودی اور نہ ہی کوئی نصرانی (اور نہ ہی کوئی تیسرا کافر) ایسا نہ ہوگا کہ وہ میرے بارے میں سن لے (کہ میں اللہ تعالیٰ آخری نبی ہوں) اور اس دین کے بارے میں جان لے کہ جسے میں دے کر بھیجا گیا ہوں (قرآن و سنت والا دین حنیف) اور وہ ایمان نہ لایا تو وہ ضرور جہنم میں جائے گا۔''
اس حدیث مبارک سے معلوم ہوا کہ: پچھلی تمام شریعتیں منسوخ ہوگئی ہیں اور نبی مکرم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت آپ کی بعثت کے بعد اب دنیا کی آخری شریعت ہے۔ اس لیے ہر وہ شخص کہ جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ میں موجود تھا یا قیامت تک کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی بھی دور میں موجود ہو، اُس پر نبی آخر الزمان محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت و فرمانبرداری میں آنا واجب ہے۔
انہی یہودیوں کے ایک باطنی حسد و بغض کی خبر دیتے ہوئے ہمارے محبوب نبی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اور آپ کا کوئی بھی فرمان وحی الٰہی کے بغیر نہیں ہوتا تھا۔
((مَا حَسَدَتْکُمُ الْیَھُوْدُ عَلٰی شَيْئٍ مَّا حَسَدَتْکُمْ عَلٰی السَّلَامِ وَالتَّأْمِیْنِ))2
''فرمایا: مسلمانو! یہودی تمہارے ''اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ اور آمِیْن'' کہنے سے جتنا جلتے ہیں اتنی کسی اور بات سے ان کو جلن نہیں ہوتی۔''
(ان باتوں کی وجہ سے وہ لوگ تم سے بہت حسد کرتے ہیں) نماز میں آمین کہنے سے یہودی اس لیے جلتے ہیں کہ: اللہ عزوجل کی سکھلائی ہوئی دعا کے مطابق امام جب سارے مسلمانوں کی نمائندگی کرتے ہوئے کہتا ہے: غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَا الضَّالِیْنَ ''اے اللہ! ان لوگوں کا راستہ اور دین ہمیں نہیں چاہیے کہ جن پر تیرا غضب نازل ہوا ہے اور نہ ہی گمراہوں کا۔'' اور پھر مقتدی بلند آواز سے کہتے ہیں ''آمین'' اے اللہ! ہم سب کی یہ دعا قبول کرلے... تو ان یہودیوں کو اس لیے جلن ہوتی ہے کہ مغضوب علیہم سے مراد یہودی ہیں۔ اور مسلمانوں کے ایک دوسرے کو السلام علیکم کہنے سے یہودیوں کو اس لیے تکلیف پہنچتی ہے کہ وہ سمجھتے ہیں: ہم تو مسلمانوں کو باہم لڑانے میں رات دن ایک کیے پھرتے ہیں مگر یہ ہیں کہ جب بھی آپس میں ملتے ہیں ایک دوسرے کو سلامتی کا پیغام دیتے ہیں۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 أخرجہ مسلم، في کتاب الإیمان، باب: وجوب الإیمان برسالۃ نبینا محمد صلی اللہ علیہ وسلم ، إلی جمیع الناس ، ونسخ الملل بملتہ، حدیث: ۳۸۶۔
2 صحیح سنن ابن ماجہ، رقم : ۶۹۷۔
((وَالَّذِيْ نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہِ! لَا یَسْمَعُ بِيْ أَحَدٌ مِنْ ھٰذِہِ الْأُمَّۃِ، یَھُوْدِيٌ وَلَا نَصْرَانِيٌ، ثُمَّ یَمُوْتُ وَلَمْ یُؤْمِنْ بِالَّذِيْ أُرْسِلْتُ بِہِ، إِلَّا کَانَ مِنْ أَصْحَابِ النَّارِ۔))1
''اُس ذات اقدس (اللہ رب العالمین) کی قسم جس کے ہاتھ میں مجھ محمد (بن عبد اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) کی جان ہے! اس زمانے (یعنی میری بعثت سے لے کر قیامت تک) کا کوئی یہودی اور نہ ہی کوئی نصرانی (اور نہ ہی کوئی تیسرا کافر) ایسا نہ ہوگا کہ وہ میرے بارے میں سن لے (کہ میں اللہ تعالیٰ آخری نبی ہوں) اور اس دین کے بارے میں جان لے کہ جسے میں دے کر بھیجا گیا ہوں (قرآن و سنت والا دین حنیف) اور وہ ایمان نہ لایا تو وہ ضرور جہنم میں جائے گا۔''
اس حدیث مبارک سے معلوم ہوا کہ: پچھلی تمام شریعتیں منسوخ ہوگئی ہیں اور نبی مکرم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت آپ کی بعثت کے بعد اب دنیا کی آخری شریعت ہے۔ اس لیے ہر وہ شخص کہ جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ میں موجود تھا یا قیامت تک کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی بھی دور میں موجود ہو، اُس پر نبی آخر الزمان محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت و فرمانبرداری میں آنا واجب ہے۔
انہی یہودیوں کے ایک باطنی حسد و بغض کی خبر دیتے ہوئے ہمارے محبوب نبی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اور آپ کا کوئی بھی فرمان وحی الٰہی کے بغیر نہیں ہوتا تھا۔
((مَا حَسَدَتْکُمُ الْیَھُوْدُ عَلٰی شَيْئٍ مَّا حَسَدَتْکُمْ عَلٰی السَّلَامِ وَالتَّأْمِیْنِ))2
''فرمایا: مسلمانو! یہودی تمہارے ''اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ اور آمِیْن'' کہنے سے جتنا جلتے ہیں اتنی کسی اور بات سے ان کو جلن نہیں ہوتی۔''
(ان باتوں کی وجہ سے وہ لوگ تم سے بہت حسد کرتے ہیں) نماز میں آمین کہنے سے یہودی اس لیے جلتے ہیں کہ: اللہ عزوجل کی سکھلائی ہوئی دعا کے مطابق امام جب سارے مسلمانوں کی نمائندگی کرتے ہوئے کہتا ہے: غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَا الضَّالِیْنَ ''اے اللہ! ان لوگوں کا راستہ اور دین ہمیں نہیں چاہیے کہ جن پر تیرا غضب نازل ہوا ہے اور نہ ہی گمراہوں کا۔'' اور پھر مقتدی بلند آواز سے کہتے ہیں ''آمین'' اے اللہ! ہم سب کی یہ دعا قبول کرلے... تو ان یہودیوں کو اس لیے جلن ہوتی ہے کہ مغضوب علیہم سے مراد یہودی ہیں۔ اور مسلمانوں کے ایک دوسرے کو السلام علیکم کہنے سے یہودیوں کو اس لیے تکلیف پہنچتی ہے کہ وہ سمجھتے ہیں: ہم تو مسلمانوں کو باہم لڑانے میں رات دن ایک کیے پھرتے ہیں مگر یہ ہیں کہ جب بھی آپس میں ملتے ہیں ایک دوسرے کو سلامتی کا پیغام دیتے ہیں۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 أخرجہ مسلم، في کتاب الإیمان، باب: وجوب الإیمان برسالۃ نبینا محمد صلی اللہ علیہ وسلم ، إلی جمیع الناس ، ونسخ الملل بملتہ، حدیث: ۳۸۶۔
2 صحیح سنن ابن ماجہ، رقم : ۶۹۷۔