• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

یہ جشن بخاری کس حدیث سے ثابت ہے ؟

khalil rana

رکن
شمولیت
دسمبر 05، 2015
پیغامات
218
ری ایکشن اسکور
33
پوائنٹ
52
محمد طارق عبداللہ صاحب کا جواب بہت اچھا ہے، پُرانے اہل حدیث علمائ کا ایسا ہی رویہ ہوتا تھا۔
 

makki pakistani

سینئر رکن
شمولیت
مئی 25، 2011
پیغامات
1,323
ری ایکشن اسکور
3,040
پوائنٹ
282
رانا صاحب۔

آپ لباس کونسا پہنتے ہیں؟

کیا یہ کوئی فقھی پچیدگی کا سوال ھے۔
 

khalil rana

رکن
شمولیت
دسمبر 05، 2015
پیغامات
218
ری ایکشن اسکور
33
پوائنٹ
52
مکی پاکستانی صاحب !
میرا سوال آپ پراُدھار ہے ، آپ کا سوال موضوع سے غیر متعلق ہے۔
 
شمولیت
اپریل 17، 2014
پیغامات
23
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
27
اگر اشتہار میں ترمیم کر لی جائے اور جشن کا لفظ تقریب اختتام صحیح بخاری کر دیا جائے تو سارا مسئلہ حل ہو جائے گا البتہ جشن عید میلاد النبیﷺ کی بدعت اپنی جگہ پر ہے۔۔۔۔ البتہ یہ بات سمجھنے کی ہے کہ صحیح بخاری کو امام بخاری نے نبیﷺ کی وفات کے بہت عرصے بعد نبیﷺ کی صحیح حدیثیں جمع کر کے مرتب کیا ۔۔۔۔ جبکہ نبی ﷺ کا یوم ولادت خود نبی ﷺ کی زندگی میں بھی آیا ، خلفائے راشدین ،صحابہ کرام(رضی اللہ عنھم اجمعین) ، تابعین و تبع تابعین(رحہمھم اللہ) کی زندگیوں میں کئی بار آیا ، فقہی مذاہب کے آئمہ کرام اور محدثین عظام کی زندگیوں میں کئی مرتبہ آیا ۔۔۔ اس کے باوجود انہوں نے جشن عید میلاد النبیﷺ نہیں منایا ،،،،،،، اصل مسئلہ یہ ہے ۔۔۔۔۔ کہ انکو جشن منانے سے کیا امر مانع تھا ؟؟؟؟؟
 
Last edited:
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
760
پوائنٹ
290
کئی بار کہا گیا ۔ سمجهایا گیا ۔ دراصل محسوس یوں هوتا هے رانا صاحب معاملہ فهم هیں ۔ اتی آسان سی بات انکی سمجهی سمجهائی هے ۔ هوسکتا هے وه کهلیں ذرا اور جو نہ کہا هے کهیں ۔ عنوان کی مناسبت سے احباب نے کسر نہ رکهی ۔ معاملہ اللہ کے سپرد کردیں کہ توفیق منجانب اللہ هے ۔
وللہ الحمد
 

khalil rana

رکن
شمولیت
دسمبر 05، 2015
پیغامات
218
ری ایکشن اسکور
33
پوائنٹ
52
عبداللہ مجاہد صاحب نے کہا کہ اگر اس کا نام تقریب اختتام صحیح بخاری رکھ دیا جائے تو سارا مسئلہ حل ہوجائے گا، عرض ہے کہ نام بدلنے سے تقریب اختتام صحیح بخاری کے ہر سال اہتمام کا ثبوت حدیث سے دیں یا اسے بعد کی ایجاد کردہ بدعت کہیں،پھر مسئلہ حل ہوگا۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
عبداللہ مجاہد صاحب نے کہا کہ اگر اس کا نام تقریب اختتام صحیح بخاری رکھ دیا جائے تو سارا مسئلہ حل ہوجائے گا، عرض ہے کہ نام بدلنے سے تقریب اختتام صحیح بخاری کے ہر سال اہتمام کا ثبوت حدیث سے دیں یا اسے بعد کی ایجاد کردہ بدعت کہیں،پھر مسئلہ حل ہوگا۔
میرے خیال سے بہت سارے دھاگوں میں ایک ہی بات مختلف انداز سے بیان ہو رہی ہے ۔ ممکن ہو تو یہ اعتراضات یکجا ایک ہی دھاگے میں بیان کر دیجئے۔ کیونکہ یہاں اصل مسئلہ سنت و بدعت کی تعریف اور اصول کا ہے۔ آپ مسئلہ کی بنیاد سمجھے بغیر فقط الزامات لگا رہے ہیں اور جو جوابات دئے جا رہے ہیں انہیں خاطر میں نہیں لاتے۔
 

Usman Ali

مبتدی
شمولیت
جنوری 01، 2016
پیغامات
41
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
10
سب باتوں کا خلاصہ یہی نکلتا ہے۔۔۔ جو وہابی کرے وہ سہی، چاہے دین میں نئی ایجاد ہی کیو نہ ہو۔۔۔۔ جو اہلسنت کرے وہ بدعت۔۔۔
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
میرے خیال سے بہت سارے دھاگوں میں ایک ہی بات مختلف انداز سے بیان ہو رہی ہے ۔ ممکن ہو تو یہ اعتراضات یکجا ایک ہی دھاگے میں بیان کر دیجئے۔ کیونکہ یہاں اصل مسئلہ سنت و بدعت کی تعریف اور اصول کا ہے۔ آپ مسئلہ کی بنیاد سمجھے بغیر فقط الزامات لگا رہے ہیں اور جو جوابات دئے جا رہے ہیں انہیں خاطر میں نہیں لاتے۔
جی بھائی ایک دو اور جگہ بھی یہی بات چل رہی ہے اسکی کچھ وضاحت میں نے مندرجہ ذیل دھاگہ میں کی ہوئی ہے
بدعت کی تعریف اور مدلول

کچھ تفصیل یہاں بھی پیسٹ کر دیتا ہوں

ہر وہ عبادت مشروع ہے جسکو شریعت نے کرنے کا حکم فرض واجب یا مندوب وغیرہ کے طور پر دیا ہو اور بغیر مشروع عبادت بدعت ہے لیکن یہاں تھوڑی سی پیچیدگی ہے کہ مشروع خالی نفس عبادت ہی نہیں ہوتی بلکہ اسکا طریقہ اور وقت کا تعلق بھی مشروع ہونے یا نہ ہونے سے ہے اسی تناظر میں ہم مشروع عبادات کی مزید قسمیں کرتے ہیں
1- ایسی مشروع عبادت جس میں واضح طریقہ اور وقت بھی بتایا ہوتا ہے مثلا فرض نماز
2-ایسی مشروع عبادات جس میں طریقہ یا وقت میں سے کوئی ایک چیز بتائی ہوتی ہے مثلا (نفل نماز)
3-بعض دفعہ مشروع عبادت کی دونوں چیزیں یعنی طریقہ اور وقت ہمارے اوپر چھوڑا گیا ہوتا ہے مثلا اللہ کا ذکر کرنا یا دعا مانگنا وغیرہ

اب اس تقسیم کو ذہن میں رکھتے ہوئے میں ان شاءاللہ اپنی رائے سے اوپر تعریف کے مطابق مشروع لفظ کی وضاحت کرتا ہوں اہل علم اصلاح کر دیں جزاکم اللہ خیرا

1۔جب نفس عبادت ہی شریعت میں نہ پائی جاتی ہو تو وہ عبادت غیر مشروع ہو گی اور بدعت کہلائے گی چاہے اسکا وقت اور طریقہ جو بھی ہو مثلا دھمال وغیرہ

2- جب نفس عبادت مشروع ہو اور ساتھ طریقہ اور وقت بھی بتا دیا گیا ہے تو وہ طریقہ اور وقت بھی مشروع ہو گیا پس اس عبادت میں اس طریقہ یا وقت کے خلاف نہیں کیا جا سکتا ورنہ وہ اوپر شیخ عثیمین رحمہ اللہ کی تعریف کے مطابق بدعت ہو گی مثلا فرض نماز کا طریقہ اور وقت دونوں مشروع ہیں پس اسکے خلاف کرنا بدعت ہو گا

3-جس مشروع عبادت کا طریقہ تو بتا دیا گیا ہے مگر وقت نہیں بتایا گیا تو وہ طریقہ مشروع ہو گیا مگر وقت مشروع نہیں بلکہ اختیار دیا گیا ہے پس ایسی صورت میں مشروع طریقے کے خلاف کرنا تو بدعت ہو گا لیکن ساتھ ساتھ اگر وقت کو فکس کر دیا گیا تو سمجھو کہ وقت کو بھی مشروع بنانے کی کوشش کی گئی جو شریعت نے نہیں کیا پس وہ بھی بدعت ہو گا کیونکہ اس میں شریعت نے جب کوئی قید نہیں رکھی تو قید کرنا بھی شریعت بنانا ہے مثلا عمومی نوافل کا طریقہ تو مشروع ہے مگر وقت مشروع نہیں یعنی کسی بھی وقت پڑھی جا سکتی ہے البتہ کچھ خاص راتوں کے نوافل کا معاملہ اور تہجد کا معاملہ اور ہے جس میں وقت بھی شریعت نے ہی مشروع کیا ہوا ہے

4-جس مشروع عبادت کا طریقہ اور وقت دونوں ہی نہیں بتائے گئے البتہ وہ نفس عبادت مشروع ہے یعنی اس کے کرنے کا حکم ملتا ہے تو پھر اسکا مطلب ہے کہ وہ عبادت تو مشروع ہے مگر اسکا وقت اور طریقہ مشروع نہیں بلکہ اس میں اختیار دیا گیا ہے پس اگر کوئی اس کے طریقہ یا وقت کو فکس کر دیتا ہے تو سمجھو کہ اس نے اس طریقہ یا وقت کو مشروع کر دیا پس ایسا کرنا بھی نئی ایجاد یعنی بدعت ہو گی مثلا مسنون اذکار کے علاوہ عمومی اذکار وغیرہ- اسی میں عمومی درود پڑھنا بھی آ جاتا ہے جو بذات خود تو درود پڑھنا مشروع عبادت ہی ہے مگر اسکا طریقہ اور وقت غیر مشروع ہے پس کوئی مسلمان کسی بھی وقت اس کو پڑھ سکتا ہے البتہ اگر وہ وقت یا طریقہ فکس کر دیتا ہے کہ ہر اذان سے پہلے لازمی پڑھنا ہے تو یہ بدعت ہو گا

غیر مشروع طریقہ یا وقت کو مشروع کرنے کا مفہوم:
یہاں ایک اور اہم بات سمجھنا ضروری ہے کہ ہم کیسے کہ سکتے ہیں کہ کسی نے ایک مشروع عبادت میں غیر مشروع طریقہ یا وقت کو مشروع کر دیا ہے مثلا جیسا کہ اوپر بتایا گیا ہے کہ کوئی کسی بھی وقت درود پڑھنا جائز ہے مگر اگر کوئی اذان سے پہلے فکس کر دے تو وہ بدعت میں آئے گا اس پر کہا جاتا ہے کہ ہم اسکو فکس تو نہیں کر رہے کیونکہ کسی دوسرے کو لازمی پڑھنے کا نہیں کہتے پس اگر کوئی خؤد ہی اپنی مرضی سے پڑھنا چاہے تو اس میں کیا حرج ہے کیونکہ اہل حدیث حضرات بھی تو درس دینے کا وقت ہر تراویح کے بعد فکس کر دیتے ہیں یا تراویح کے بعد اسکا ترجمہ بتاتے ہیں وغیرہ جسکو تراویح کے بعد فکس کرنا شریعت سے ثابت نہیں ہے یہی سوال بھائی زاہد مغل صاحب نے کیا ہے
اس کا جواب یہ ہے کہ جب کوئی انسان کسی خاص وقت کو متعین کرتا ہے تو اسکے پیچھے کوئی نہ کوئی نیت ہوتی ہے اور وہی نیت ہی اسکے بارے بتاتی ہے کہ وہی وقت فکس کیوں کیا جا رہا ہے پس بغیر کسی وجہ کے غیر ارادی طور پر تو یہ ہو نہیں سکتا کہ کوئی ایک وقت ہمیشہ کے لئے فکس کر لے مثلا اگر کوئی ہر اذان سے پہلے درود پڑھنا چاہتا ہے تو اسکے پیچھے کوئی وجہ لازمی ہو گی اور اگر کوئی تراویح کے فورا بعد درس دینا چاہتا ہے تو اسکے پیچھے بھی کوئی وجہ ہو گی اس وجہ کے ہونے کا انکار کوئی مائی کا لال نہیں کر سکتا
اب بدعت ہونے یا نہ ہونے کا معاملہ اس وجہ پر ہو گا اب اگر وہ وجہ زیادہ ثواب کا حصول ہو تو درست نہیں ہو گا البتہ دوسری وجوہات درست ہو سکتی ہیں اس وجہ کو سمجھنے کے لئے میں ایک دو اسی قسم کی عبادت کی مثالیں لکھتا ہوں اور ان میں وقت فکس کرنے کی وجوہات بتاتا ہوں تاکہ سب کچھ واضح ہو جائے کہ کون سی وجہ سے ایسا کرنا درست ہے اور کون سی وجہ سے غلط ہے
1۔قرآن پڑھنا مشروع ہے اب کوئی شام کے وقت ہی فکس کر لے اور وجہ اپنی فرصت بتائے تو یہ فکس کرنا بدعت نہیں ہو گا کیونکہ فکس کرنے کا مقصد زیادہ ثواب کا حصول نہیں
2۔تراویح کے بعد درس دینا اسکی وجہ یہ ہو کہ اس وقت موقع ہے لوگوں کو دعوت دینے کا- کیونکہ رمضان میں ویسے بھی لوگ دین کی طرف مائل ہوتے ہیں اور تازہ قرآن سنا ہوتا ہے تو اسکی تفسیر بھی سن لیں تو یہ وجہ معقول ہے البتہ اگر کوئی یہی کام زیادہ ثواب کی نیت سے کرتا ہے کہ باقی وقت کی بجائے اس وقت زیادہ ثواب ہو گا تو درست نہیں ہو گا بلکہ بدعت ہو گی
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
بدعت نفس عبادت میں بھی ہو سکتی ہے طریقہ عبادت میں بھی ہو سکتی ہے اور تعین وقت عبادت میں بھی ہو سکتی ہے
اور یہ تب بدعت ہوں گی جب تعین کرنے کا مقصد ثواب ہو

دوبارہ وضاحت سے سمجھ لیں کہ
1-اگر نفس عبادت حدیث میں نہیں ہے تو یہ بدعت ہو گی
2- اگر نفس عبادت حدیث میں ہے مگر طریقہ کوئی فکس نہیں تو طریقہ فکس کرنا بدعت ہو گی مثلا تلاوت قرآن کا حکم موجود ہے مگر ختم قرآن کا ایک خاص طریقہ موجود نہیں تو یہ بدعت ہو گا
3-اگر وقت عبادت حدیث میں کوئی متعین نہیں تو اگر یہ وقت کا تعین کرنا اس نیت سے ہو کہ اس وقت زیادہ ثواب ہو گا تو یہ بھی بدعت ہو گی البتہ اگر وقت کا تعین کسی اور مجبوری یا وجہ سے ہو اس خاص وقت میں ثواب کی نیت نہ ہو تو وہ بدعت نہ ہو گی مثلا قرآن ہر وقت پڑھ سکتے ہیں مگر کوئی اگر ظہر کو وقت نکال سکتا ہے تو اسی وقت جا کر حفظ کرتا ہے تو اسکی نیت یہ نہیں کہ اس وقت ثواب زیادہ ہے تو یہ بدعت نہیں
اسی طرح اگر کوئی سمجھتا ہے کہ مسجد میں عصر کے وقت نمازی زیادہ ہوتے ہیں یا انکے پاس وقت زیادہ ہوتا ہے تو وہ عصر کے بعد درس فکس کر لیتا ہے تو درس دینا تو چونکہ ثابت ہے مگر وقت فکس کرنا ثابت نہیں مگر مدرس وقت اس وجہ سے نہیں فکس کر رہا کہ اس وقت ثواب زیادہ ہے بلکہ اس وجہ سے کہ اس وقت درس کا فائدہ زیادہ ہے تو یہ بدعت نہیں کیونکہ بدعت وہ عمل ہوتا ہے جو زیادہ ثواب کی نیت سے ہو

یہی حال تقریب بخاری کا ہے جس میں یہ نیت بالکل نہیں ہوتی کہ اس سے ثواب زیادہ ملے گا
 
Top