خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں
باقی باتیں تو چلتی رہیں گی لیکن ساتھ ساتھ مفسر قرآن جناب مسلم صاحب کےتفسیری نکات بھی ملاحظہ کرتے جائیں جن کو اپنی قرآن فہمی پر اتنا گھمنڈ ہے کہ حدیث رسول کی بھی ضرورت نہیں سمجھتے ۔
رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ ۚ إِنَّكَ أَنتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ﴿١٢٩-٢﴾
اے رب ہمارے اور بھیج ان میں ایک رسول انہیں میں سے کہ ان پر تیری آیتیں تلاوت فرمائے اور انہیں تیری کتاب اور حکمت سکھائے اور انہیں خوب ستھرا فرمادے بیشک تو ہی ہے غالب حکمت والا-
ایک اور جگہ ملاحظہ فرمائیں :
لَقَدْ مَنَّ اللَّـهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْ أَنفُسِهِمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ ﴿١٦٤-٣﴾
بیشک اللہ کا بڑا احسان ہوا مومنین پر کہ ان میں انہیں کے نفوس میں ایک رسول بھیجا جو ان پر اس کی آیتیں پڑھتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت سکھاتا ہے اور وہ ضرور اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے ۔
حالانکہ جس طرح حدیث قرآن کی تفسیر ہے قرآن کی آیات بھی ایک دوسری کی تفسیر ہیں ۔
لیکن انہوں نے پہلی آیت کا معنی تو صحیح کیا ہے البتہ دوسری میں ڈنڈی مار گئے ہیں
پہلی آیت کے ترجمہ کےمطابق مفہوم یہ ہے کہ اللہ نے رسول بھی انہیں انسانوں کی جنس سے بھیجا کسی فرشتہ کو نہیں بھیجا ۔
جبکہ دوسری آیت کے ترجمہ کے مطابق مفہوم یہ ہے کہ اللہ نے ان کے نفوس میں رسول کو بھیجا ۔
حالانکہ یہاں الفاظ من أنفسہم ہیں نہ کہ فی أنفسہم لیکن انہوں نے جرأت یہاں تک کی ہے کہ معنوی تحریف تک جا ٹھہر ہے ہیں ۔
یہ سارا کچھ کرنے کا مقصد کیا تھا یہ بھی ذرا ملاحظہ فرمائیں :
قرآن، اللہ کے رسول محّمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا۔ اور ان ہی کے زریعہ لوگوں تک پہنچا ھے۔
آج بھی، اللہ کی کتاب میں، اللہ کے رسول حضرت محّمد صلی اللہ علیہ وسلم اور دیگر انبیاء اور رسل، اللہ کا پیغام لوگوں تک پہنچا رہے
ہیں۔
جب تک اللہ تعٰالی اپنے رسول کو مومنین کے نفوس میں مبعوث نہیں کرے گا، وہ کھی گمراہی میں رہیں گے۔
اللہ ہمارے نفوس میں اپنا رسول مبعوث فرمائے۔ آمین۔
ان دونوں اقتباسات کو ملائیں تو مسلم صاحب کا ایک نیا نقطہ نظر نکلتا ہے وہ یہ کہ :
اللہ نے قرآن محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کیا اور ہم ( ساری امت ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے حاصل کرتے ہیں ۔
اجمالا یہ بات بالکل درست ہے لیکن مسلم صاحب اس مجمل جملہ کے ذریعے رواۃ الکتاب عن النبی صلی اللہ سے جان چھڑانا چاہتے ہیں تاکہ نتیجتا رواۃ الحدیث کا اعتراف نہ کرنا پڑے ۔
پہلے ہم مسلم صاحب سے سوال کچھ یوں کیا کرتے تھے کہ کیا قرآن آپ نے اللہ سے براہ راست حاصل کیا ہے ؟ یا کسی واسطہ کے ساتھ اور جو واسطہ ہے وہ کونسا واسطہ ہے ؟ اور اس واسطہ پر اعتماد کرنے کی قرآن سے دلیل دیں ۔
اب انہوں نے اپنا موقف بدل لیا ہے اور اتنا مان گئےہیں کہ قرآن ہم نے اللہ سے براہ راست حاصل نہیں کیا بلکہ نبی صلی اللہ کے واسطے سے حاصل کیا ہے ۔
لہذا ہم اگلا سوال جاری رکھتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ قرآن براہ راست حاصل کرتے ہیں ؟ یا بالواسطہ ؟ اگر بالواسطہ تو وہ واسطہ کونسا ہے اور اس کی قرآن سے دلیل دیں ؟
ہم جو ان کی عبارات سے سمجھےہیں اس کے مطابق یہ قرآن حضور صلی اللہ سے براہ راست حاصل کرنے کے دعوی دار ہیں ۔ لہذا ہم ان سے گزارش کرتےہیں کہ حضور صلی اللہ سے اپنی ملاقات کا ثبوت عنایت فرمائیں ۔
اور اگر ان کا موقف ہمارے اس فہم کے مطابق نہیں تو پھر کیے گئے سوال کی وضاحت کریں ۔
سابقہ مشارکات میں بہت سارے سوالات گزر چکے ہیں جن کا جواب مسلم صاحب کے ذمہ قرض ہے لیکن میں ان کی حالیہ اور گذشتہ مشارکات کے حوالے سے سوالات کے جوابات کا مطالبہ کرنا چاہتا ہوں
قرآن کی آیت میں موجود الفاظ من أنفسہم کا ترجمہ آپ نے( ان کے نفوس میں)) کیا ہے ۔ گزارش یہ ہےکہ (من ) کا معنی ( سے ) ہے جبکہ (میں ) ( فی ) کا معنی ہے یہاں آپ (من ) سے ہٹ کر ( فی ) کی طرف کس دلیل سے گئے ہیں ؟ اسی طرح قرآن میں ایک آیت ہے ((و من آيته أن خلق لكم من أنفسكم أزواجا)) اس کا معنی کیا ہے ؟
ایک سوال یہ بھی ہےکہ :
حدیث رسول ماننے سے خالق مخلوق کا محتاج ہوتا ہے ( نعوذ باللہ ) لیکن اگر ہم کہیں کہ خالق نے قرآن ہمیں مخلوق ( محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) کے ذریعے پہنچایا ہےتو پھر یہ بات کیوں لازم نہیں آتی ؟
اور مذکورہ سوال یہ تھے :
چلو بفرض محال آپ براہ راست قرآن حضور سے حاصل کرتے ہیں تو پھر ہمیں بتائیں کہ ہم
لفظ ضعف پر زبر پڑھیں کہ پیش ؟
لفظ یبصط میں سین پڑھیں یا ص ؟
مجرہا ارو مرسہا دونوں کو ایک ہی طرح پڑھیں یا مختلف طریقوں سے ؟
قرآن، اللہ کے رسول محّمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا۔ اور ان ہی کے زریعہ لوگوں تک پہنچا ھے۔
آج بھی، اللہ کی کتاب میں، اللہ کے رسول حضرت محّمد صلی اللہ علیہ وسلم اور دیگر انبیاء اور رسل، اللہ کا پیغام لوگوں تک پہنچا رہے
ہیں۔
قرآن کی آیات سے آپ نے جو خانہ ساز معنی و مفہو اخذ کیا ہے دلائل کی رو سے تو باطل ہے ہی ۔ امر واقع بھی اس کی تردید کرتا ہے ۔ مثال کے طور پر اگر اللہ کے رسول آج بھی موجود اور تبلیغ دین میں مصروف ہیں تو پھر مسلمانوں میں اختلاف کیوں ہے ؟
بقول آپ کے لوگوں نے اپنی طرف احادیث گھڑ کے حضور کی طرف منسوب کردیں ہیں ۔ تو پھر حضور نے موجود ہوتے ہوئے اس کی تردید کیوں نہیں کر رہے ؟ کیا وہ حق بات کو چھپا رہے ہیں ؟
آپ کے اس باطل نظریے کے مطابق بہت سارے الزامی سوالات آپ سے کیے جا سکتے ہیں لیکن اسی پر اکتفا کرتا ہوں ۔
مجھے اس تھریڈ میں اور کچھ نہیں کہنا ھے۔
اگر تو آپ کے نہ کہنے سے مراد قرآنی آیات کی خانہ ساز تفسیر ہے تو ہم آپ کے شکرگزار ہیں ۔
ایک بات میں آپ سے ضرور کہوں گا کہ اس موضوع میں شروع سے لے کر اب تک آپ سے جو سوالات یا اعتراضات کیے گئے ہیں ہمیں اس کے جوابات چاہے نہ دیں لیکن ان پر انفرادی طور پر یا اپنی فکر کے لوگوں کے ساتھ اجتماعی طور پر خالی الذہن ہو کر غور و فکر ضرور کیجیے گا ۔
اعتذار :انسان خطا کا پتلا ہے ۔ یقینا بعض دفعہ آپ کو ہماری باتوں سے تکلیف پہنچی ہوگی اس کے لیے آپ سے معذرت خواہ ہیں ۔ اور اللہ سے آپ کے لیے اور اپنے لیے ہدایت کی دعا کرتےہیں ۔