• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

یہ قرآن کہاں سے آیا؟ کس نے کہا کہ یہ قرآن ہے؟

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
مسلم صاحب !
معذرت کے ساتھ ۔
اب آپ کبھی کسی سے وضاحت پوچھ رہے ہیں کبھی کسی سے ۔ اور خود بھی تکے لگا رہے ہیں ۔ اب آپ کو چأہیے کہ قرآن کی کوئی آیت پیش کریں جس میں وضاحت ہو کہ
لفظ ضعف کو دونوں طرح یا صرف زبر یا پیش کے ساتھ پڑھنا ٹھیک ہے ۔
ا ب کریں اللہ سے خود رابطہ تاکہ اس مسئلے کا حل نکل آئے کیونکہ اللہ کی کتاب کسی کی محتاج نہیں ۔
احادیث ماننے سے خالق کی کتاب مخلوق کی محتاج ہو جاتی ہے لیکن جب آپ مخلوق میں سے کسی سے وضاحت پوچھیں تو اس وقت احتیاج لازم نہیں آتی ؟
مالکم کیف تحکمون ؟
اور اب آپ نے جو اور نئی منطق پیش کرنی شروع کردی ہے کہ چونکہ قرآن میں اختلاف تضاد کا نہیں بلکہ تنوع کا ہے لہذا کوئی اختلاف نہیں کیونکہ اس سے معنی میں فرق نہیں پڑتا ۔ تو کیا ہم کسی بھی جگہ ( معاذ اللہ ) قرآن میں اپنی مرضی سے ایسی تبدیلیاں کر سکتے ہیں جن سے قرآن کے معنی میں کوئی فرق نہ پڑے ۔؟
آپ سے گزارش ہے کہ اصول پکے پکے بنائیں اور ان کو یہاں پیش کر نے سے پہلے خود آپس میں سب منکرین حدیث مشق کر کے آیا کریں تاکہ اس طرح شرمندگی نہ ہو اور دوسروں سے وضاحتیں نہ کروانی پڑیں ۔
اور یاد رکھیں ابھی تو ایک دو مثالیں ہی آپ پر بھاری پڑ گئی ہیں ابھی تو ہم نے آپ سے اور بھی بہت کچھ پوچھنا ہے ۔ مثلا آپ سورہ ہودکی آیت بسم اللہ مجرها و مرسها كو كيسے پڑھتے ہیں اور کیوں پڑھتے ہیں ۔
 

muslim

رکن
شمولیت
ستمبر 29، 2011
پیغامات
467
ری ایکشن اسکور
567
پوائنٹ
86
مسلم صاحب !
معذرت کے ساتھ ۔
اب آپ کبھی کسی سے وضاحت پوچھ رہے ہیں کبھی کسی سے ۔ اور خود بھی تکے لگا رہے ہیں ۔ اب آپ کو چأہیے کہ قرآن کی کوئی آیت پیش کریں جس میں وضاحت ہو کہ
لفظ ضعف کو دونوں طرح یا صرف زبر یا پیش کے ساتھ پڑھنا ٹھیک ہے ۔
ا ب کریں اللہ سے خود رابطہ تاکہ اس مسئلے کا حل نکل آئے کیونکہ اللہ کی کتاب کسی کی محتاج نہیں ۔
احادیث ماننے سے خالق کی کتاب مخلوق کی محتاج ہو جاتی ہے لیکن جب آپ مخلوق میں سے کسی سے وضاحت پوچھیں تو اس وقت احتیاج لازم نہیں آتی ؟
مالکم کیف تحکمون ؟
اور اب آپ نے جو اور نئی منطق پیش کرنی شروع کردی ہے کہ چونکہ قرآن میں اختلاف تضاد کا نہیں بلکہ تنوع کا ہے لہذا کوئی اختلاف نہیں کیونکہ اس سے معنی میں فرق نہیں پڑتا ۔ تو کیا ہم کسی بھی جگہ ( معاذ اللہ ) قرآن میں اپنی مرضی سے ایسی تبدیلیاں کر سکتے ہیں جن سے قرآن کے معنی میں کوئی فرق نہ پڑے ۔؟

آپ سے گزارش ہے کہ اصول پکے پکے بنائیں اور ان کو یہاں پیش کر نے سے پہلے خود آپس میں سب منکرین حدیث مشق کر کے آیا کریں تاکہ اس طرح شرمندگی نہ ہو اور دوسروں سے وضاحتیں نہ کروانی پڑیں ۔
اور یاد رکھیں ابھی تو ایک دو مثالیں ہی آپ پر بھاری پڑ گئی ہیں ابھی تو ہم نے آپ سے اور بھی بہت کچھ پوچھنا ہے ۔ مثلا آپ سورہ ہودکی آیت بسم اللہ مجرها و مرسها كو كيسے پڑھتے ہیں اور کیوں پڑھتے ہیں ۔

السلام علیکم۔



کتب احادیث اور اللہ کی کتاب، دونوں میں کون قدیم ھے؟
اگر یہ نکتہ آپ سمجھ لیں تو ساری بحث ختم ہو جائے گی۔
بالفرض اگر آج اللہ کے رسول محمّد صلی اللہ علیہ وسلم، ہمارے درمیان تشریف لے آئیں اور اللہ کی آیات تلاوت کریں
اور آپ ان سے یہ سوال کریں، کہ ہم کیوں مانیں کہ یہ قرآن ھے؟ تو کیا رسول اللہ ، آپ کو قرآن کے علاوہ دلائل دیتے
یا اللہ کی آیات سے حق واضح فرماتے؟
آج بھی اللہ کے رسول، اللہ کی کتاب میں لوگوں پر اللہ کی آیات تلاوت فرمارہے ہیں۔ وہ ہر زمانے کے رسول ہیں۔
عالمین کے لیئے رحمت ہیں۔

رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ ۚ إِنَّكَ أَنتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ﴿١٢٩-٢﴾
اے رب ہمارے اور بھیج ان میں ایک رسول انہیں میں سے کہ ان پر تیری آیتیں تلاوت فرمائے اور انہیں تیری کتاب اور حکمت سکھائے اور انہیں خوب ستھرا فرمادے بیشک تو ہی ہے غالب حکمت والا-

اللہ کے رسول اللہ کی کتاب میں فرما رہے ہیں کہ ان پر قرآن وحی کیا گیا ھے۔ اب خارجی دلائل کی کوئی ضرورت نہیں ھے۔

قُلْ أَيُّ شَيْءٍ أَكْبَرُ شَهَادَةً ۖ قُلِ اللَّـهُ ۖ شَهِيدٌ بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ ۚ وَأُوحِيَ إِلَيَّ هَـٰذَا الْقُرْآنُ لِأُنذِرَكُم بِهِ وَمَن بَلَغَ ۚ أَئِنَّكُمْ لَتَشْهَدُونَ أَنَّ مَعَ اللَّـهِ آلِهَةً أُخْرَىٰ ۚ قُل لَّا أَشْهَدُ ۚ قُلْ إِنَّمَا هُوَ إِلَـٰهٌ وَاحِدٌ وَإِنَّنِي بَرِيءٌ مِّمَّا تُشْرِكُونَ ﴿١٩-٦﴾

ان سے پوچھو، کس کی گواہی سب سے بڑھ کر ہے؟کہو، میرے اور تمہارے درمیان اللہ گواہ ہے، اور یہ قرآن میری طرف بذریعہ وحی بھیجا گیا ہے تاکہ تمہیں اور جس جس کو یہ پہنچے، سب کو متنبہ کر دوں کیا واقعی تم لوگ یہ شہادت دے سکتے ہو کہ اللہ کے ساتھ دوسرے آلِهَةً بھی ہیں؟ کہو، میں تو اس کی شہادت ہرگز نہیں دے سکتا کہو، إِلَـٰهٌ تو وہی ایک ہے اور میں اس شرک سے قطعی بیزار ہوں جس میں تم مبتلا ہو۔

اب اللہ سے بڑھ کر آپ کس کی شہادت لائیں گے، جو آپ کو یہ بتائے کہ یہ قرآن کہاں سے آیا اور کس نے بتایا کہ یہ قرآن ھے؟
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
يضل من يشاء و يهدي من يشاء

السلام علیکم۔
کتب احادیث اور اللہ کی کتاب، دونوں میں کون قدیم ھے؟
اگر یہ نکتہ آپ سمجھ لیں تو ساری بحث ختم ہو جائے گی۔
(١)بالفرض اگر آج اللہ کے رسول محمّد صلی اللہ علیہ وسلم، ہمارے درمیان تشریف لے آئیں اور اللہ کی آیات تلاوت کریں
اور آپ ان سے یہ سوال کریں، کہ ہم کیوں مانیں کہ یہ قرآن ھے؟ تو کیا رسول اللہ ، آپ کو قرآن کے علاوہ دلائل دیتے
یا اللہ کی آیات سے حق واضح فرماتے؟

آج بھی اللہ کے رسول، اللہ کی کتاب میں لوگوں پر اللہ کی آیات تلاوت فرمارہے ہیں۔ وہ ہر زمانے کے رسول ہیں۔
عالمین کے لیئے رحمت ہیں۔
رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ ۚ إِنَّكَ أَنتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ﴿١٢٩-٢﴾
اے رب ہمارے اور بھیج ان میں ایک رسول انہیں میں سے کہ ان پر تیری آیتیں تلاوت فرمائے اور انہیں تیری کتاب اور حکمت سکھائے اور انہیں خوب ستھرا فرمادے بیشک تو ہی ہے غالب حکمت والا-
اللہ کے رسول اللہ کی کتاب میں فرما رہے ہیں کہ ان پر قرآن وحی کیا گیا ھے۔ اب خارجی دلائل کی کوئی ضرورت نہیں ھے۔

قُلْ أَيُّ شَيْءٍ أَكْبَرُ شَهَادَةً ۖ قُلِ اللَّـهُ ۖ شَهِيدٌ بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ ۚ وَأُوحِيَ إِلَيَّ هَـٰذَا الْقُرْآنُ لِأُنذِرَكُم بِهِ وَمَن بَلَغَ ۚ أَئِنَّكُمْ لَتَشْهَدُونَ أَنَّ مَعَ اللَّـهِ آلِهَةً أُخْرَىٰ ۚ قُل لَّا أَشْهَدُ ۚ قُلْ إِنَّمَا هُوَ إِلَـٰهٌ وَاحِدٌ وَإِنَّنِي بَرِيءٌ مِّمَّا تُشْرِكُونَ ﴿١٩-٦﴾

ان سے پوچھو، کس کی گواہی سب سے بڑھ کر ہے؟کہو، میرے اور تمہارے درمیان اللہ گواہ ہے، اور یہ قرآن میری طرف بذریعہ وحی بھیجا گیا ہے تاکہ تمہیں اور جس جس کو یہ پہنچے، سب کو متنبہ کر دوں کیا واقعی تم لوگ یہ شہادت دے سکتے ہو کہ اللہ کے ساتھ دوسرے آلِهَةً بھی ہیں؟ کہو، میں تو اس کی شہادت ہرگز نہیں دے سکتا کہو، إِلَـٰهٌ تو وہی ایک ہے اور میں اس شرک سے قطعی بیزار ہوں جس میں تم مبتلا ہو۔

(٢)اب اللہ سے بڑھ کر آپ کس کی شہادت لائیں گے، جو آپ کو یہ بتائے کہ یہ قرآن کہاں سے آیا اور کس نے بتایا کہ یہ قرآن ھے؟
آپ کی ان حرکات پر عربی کا ایک محاورہ یاد آگیا ہے عادت حلیمة إلى عادتها القديمة -
(١) آپ اپنے آپ کو اللہ کا رسول سمجھ کر ایسا کر رہے ہیں ؟ شرم تم کو مگر نہیں آتی ۔
(٢)ہم اللہ سے بڑھ کر کوئی شہادت نہیں لا سکتے ۔ اس کی ہم بار بار وضاحت کر چکے ہیں ۔ لیکن ہمیں بتائیں کہ اللہ کی جو شہادت آپ پیش کرتے ہیں وہ براہ راست اللہ نےآپ پر نازل کی ہے ؟
چلو بفرض محال آپ پر براہ راست قرآن نازل ہوتا ہے ( نعوذ باللہ ) تو پھر ہمیں بتائیں کہ ہم
لفظ ضعف پر زبر پڑھیں کہ پیش ؟
لفظ یبصط میں سین پڑھیں یا ص ؟
مجرہا ارو مرسہا دونوں کو ایک ہی طرح پڑھیں یا مختلف طریقوں سے ؟

ہر دفعہ کوئی نیا سوال داغ دیتے ہیں ۔ پہلےجو باتیں ہوچکی ہیں ان کی تو وضاحت کرلیں ۔ ویسے آپ کو چاہیے تھاکہ آپ ہم سے سوال کرنے کی بجائے براہ راست اللہ تعالی سے پوچھ لیتے ۔ بلکہ ہمارے کیےہوئے سوالات کا جواب بھی بغیر کسی تأخیر کے فورا پوچھ کر بتادیتے تاکہ خواہ مخواہ فریقین کا وقت ضائع نہ ہوتا ۔
لیکن آپ دعوی کچھ اور کرتے ہیں اور عملا کچھ اور !
اللہ ہم سب کو ہدایت نصیب فرمائے ۔
 

muslim

رکن
شمولیت
ستمبر 29، 2011
پیغامات
467
ری ایکشن اسکور
567
پوائنٹ
86
(١) آپ اپنے آپ کو اللہ کا رسول سمجھ کر ایسا کر رہے ہیں ؟ شرم تم کو مگر نہیں آتی ۔
(٢)ہم اللہ سے بڑھ کر کوئی شہادت نہیں لا سکتے ۔ اس کی ہم بار بار وضاحت کر چکے ہیں ۔ لیکن ہمیں بتائیں کہ اللہ کی جو شہادت آپ پیش کرتے ہیں وہ براہ راست اللہ نےآپ پر نازل کی ہے ؟
آپ بات کو بہت غلط انداز میں دیکھ رہے ہیں۔
١- ہر ایمان والا، اطاعت رسول اور سنّت رسول میں لوگوں پر آیات تلاوت کرے گا۔ یہ عین سنّت رسول ھے۔ لہٰذا آپ کا بہتان بہت شرمناک
اور افسوسناک اور جاہلانہ ھے۔

٢- قرآن، اللہ کے رسول محّمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا۔ اور ان ہی کے زریعہ لوگوں تک پہنچا ھے۔
آج بھی، اللہ کی کتاب میں، اللہ کے رسول حضرت محّمد صلی اللہ علیہ وسلم اور دیگر انبیاء اور رسل، اللہ کا پیغام لوگوں تک پہنچا رہے
ہیں۔

وَكَيْفَ تَكْفُرُونَ وَأَنتُمْ تُتْلَىٰ عَلَيْكُمْ آيَاتُ اللَّـهِ وَفِيكُمْ رَسُولُهُ ۗ وَمَن يَعْتَصِم بِاللَّـهِ فَقَدْ هُدِيَ إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ ﴿١٠١-٣﴾

تمہارے لیے کفر کی طرف جانے کا اب کیا موقع باقی ہے جب کہ تم کو اللہ کی آیات سنائی جا رہی ہیں اور تمہارے درمیان اس کا رسولؐ موجود ہے؟ جو اللہ کا دامن مضبوطی کے ساتھ تھامے گا وہ ضرور راہ راست پالے گا


لَقَدْ مَنَّ اللَّـهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْ أَنفُسِهِمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ ﴿١٦٤-٣﴾

بیشک اللہ کا بڑا احسان ہوا مومنین پر کہ ان میں انہیں کے نفوس میں ایک رسول بھیجا جو ان پر اس کی آیتیں پڑھتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت سکھاتا ہے اور وہ ضرور اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے ۔


جب تک اللہ تعٰالی اپنے رسول کو مومنین کے نفوس میں مبعوث نہیں کرے گا، وہ کھی گمراہی میں رہیں گے۔
اللہ ہمارے نفوس میں اپنا رسول مبعوث فرمائے۔ آمین۔
مجھے اس تھریڈ میں اور کچھ نہیں کہنا ھے۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں
باقی باتیں تو چلتی رہیں گی لیکن ساتھ ساتھ مفسر قرآن جناب مسلم صاحب کےتفسیری نکات بھی ملاحظہ کرتے جائیں جن کو اپنی قرآن فہمی پر اتنا گھمنڈ ہے کہ حدیث رسول کی بھی ضرورت نہیں سمجھتے ۔
رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ ۚ إِنَّكَ أَنتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ﴿١٢٩-٢﴾
اے رب ہمارے اور بھیج ان میں ایک رسول انہیں میں سے کہ ان پر تیری آیتیں تلاوت فرمائے اور انہیں تیری کتاب اور حکمت سکھائے اور انہیں خوب ستھرا فرمادے بیشک تو ہی ہے غالب حکمت والا-
ایک اور جگہ ملاحظہ فرمائیں :
لَقَدْ مَنَّ اللَّـهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْ أَنفُسِهِمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ ﴿١٦٤-٣﴾
بیشک اللہ کا بڑا احسان ہوا مومنین پر کہ ان میں انہیں کے نفوس میں ایک رسول بھیجا جو ان پر اس کی آیتیں پڑھتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت سکھاتا ہے اور وہ ضرور اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے ۔
حالانکہ جس طرح حدیث قرآن کی تفسیر ہے قرآن کی آیات بھی ایک دوسری کی تفسیر ہیں ۔
لیکن انہوں نے پہلی آیت کا معنی تو صحیح کیا ہے البتہ دوسری میں ڈنڈی مار گئے ہیں
پہلی آیت کے ترجمہ کےمطابق مفہوم یہ ہے کہ اللہ نے رسول بھی انہیں انسانوں کی جنس سے بھیجا کسی فرشتہ کو نہیں بھیجا ۔
جبکہ دوسری آیت کے ترجمہ کے مطابق مفہوم یہ ہے کہ اللہ نے ان کے نفوس میں رسول کو بھیجا ۔
حالانکہ یہاں الفاظ من أنفسہم ہیں نہ کہ فی أنفسہم لیکن انہوں نے جرأت یہاں تک کی ہے کہ معنوی تحریف تک جا ٹھہر ہے ہیں ۔
یہ سارا کچھ کرنے کا مقصد کیا تھا یہ بھی ذرا ملاحظہ فرمائیں :
قرآن، اللہ کے رسول محّمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا۔ اور ان ہی کے زریعہ لوگوں تک پہنچا ھے۔
آج بھی، اللہ کی کتاب میں، اللہ کے رسول حضرت محّمد صلی اللہ علیہ وسلم اور دیگر انبیاء اور رسل، اللہ کا پیغام لوگوں تک پہنچا رہے
ہیں۔
جب تک اللہ تعٰالی اپنے رسول کو مومنین کے نفوس میں مبعوث نہیں کرے گا، وہ کھی گمراہی میں رہیں گے۔
اللہ ہمارے نفوس میں اپنا رسول مبعوث فرمائے۔ آمین۔
ان دونوں اقتباسات کو ملائیں تو مسلم صاحب کا ایک نیا نقطہ نظر نکلتا ہے وہ یہ کہ :
اللہ نے قرآن محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کیا اور ہم ( ساری امت ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے حاصل کرتے ہیں ۔
اجمالا یہ بات بالکل درست ہے لیکن مسلم صاحب اس مجمل جملہ کے ذریعے رواۃ الکتاب عن النبی صلی اللہ سے جان چھڑانا چاہتے ہیں تاکہ نتیجتا رواۃ الحدیث کا اعتراف نہ کرنا پڑے ۔
پہلے ہم مسلم صاحب سے سوال کچھ یوں کیا کرتے تھے کہ کیا قرآن آپ نے اللہ سے براہ راست حاصل کیا ہے ؟ یا کسی واسطہ کے ساتھ اور جو واسطہ ہے وہ کونسا واسطہ ہے ؟ اور اس واسطہ پر اعتماد کرنے کی قرآن سے دلیل دیں ۔
اب انہوں نے اپنا موقف بدل لیا ہے اور اتنا مان گئےہیں کہ قرآن ہم نے اللہ سے براہ راست حاصل نہیں کیا بلکہ نبی صلی اللہ کے واسطے سے حاصل کیا ہے ۔
لہذا ہم اگلا سوال جاری رکھتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ قرآن براہ راست حاصل کرتے ہیں ؟ یا بالواسطہ ؟ اگر بالواسطہ تو وہ واسطہ کونسا ہے اور اس کی قرآن سے دلیل دیں ؟
ہم جو ان کی عبارات سے سمجھےہیں اس کے مطابق یہ قرآن حضور صلی اللہ سے براہ راست حاصل کرنے کے دعوی دار ہیں ۔ لہذا ہم ان سے گزارش کرتےہیں کہ حضور صلی اللہ سے اپنی ملاقات کا ثبوت عنایت فرمائیں ۔
اور اگر ان کا موقف ہمارے اس فہم کے مطابق نہیں تو پھر کیے گئے سوال کی وضاحت کریں ۔
سابقہ مشارکات میں بہت سارے سوالات گزر چکے ہیں جن کا جواب مسلم صاحب کے ذمہ قرض ہے لیکن میں ان کی حالیہ اور گذشتہ مشارکات کے حوالے سے سوالات کے جوابات کا مطالبہ کرنا چاہتا ہوں
قرآن کی آیت میں موجود الفاظ من أنفسہم کا ترجمہ آپ نے( ان کے نفوس میں)) کیا ہے ۔ گزارش یہ ہےکہ (من ) کا معنی ( سے ) ہے جبکہ (میں ) ( فی ) کا معنی ہے یہاں آپ (من ) سے ہٹ کر ( فی ) کی طرف کس دلیل سے گئے ہیں ؟ اسی طرح قرآن میں ایک آیت ہے ((و من آيته أن خلق لكم من أنفسكم أزواجا)) اس کا معنی کیا ہے ؟
ایک سوال یہ بھی ہےکہ : حدیث رسول ماننے سے خالق مخلوق کا محتاج ہوتا ہے ( نعوذ باللہ ) لیکن اگر ہم کہیں کہ خالق نے قرآن ہمیں مخلوق ( محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) کے ذریعے پہنچایا ہےتو پھر یہ بات کیوں لازم نہیں آتی ؟
اور مذکورہ سوال یہ تھے :
چلو بفرض محال آپ براہ راست قرآن حضور سے حاصل کرتے ہیں تو پھر ہمیں بتائیں کہ ہم
لفظ ضعف پر زبر پڑھیں کہ پیش ؟
لفظ یبصط میں سین پڑھیں یا ص ؟
مجرہا ارو مرسہا دونوں کو ایک ہی طرح پڑھیں یا مختلف طریقوں سے ؟

قرآن، اللہ کے رسول محّمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا۔ اور ان ہی کے زریعہ لوگوں تک پہنچا ھے۔
آج بھی،
اللہ کی کتاب میں، اللہ کے رسول حضرت محّمد صلی اللہ علیہ وسلم اور دیگر انبیاء اور رسل، اللہ کا پیغام لوگوں تک پہنچا رہے
ہیں۔
قرآن کی آیات سے آپ نے جو خانہ ساز معنی و مفہو اخذ کیا ہے دلائل کی رو سے تو باطل ہے ہی ۔ امر واقع بھی اس کی تردید کرتا ہے ۔ مثال کے طور پر اگر اللہ کے رسول آج بھی موجود اور تبلیغ دین میں مصروف ہیں تو پھر مسلمانوں میں اختلاف کیوں ہے ؟
بقول آپ کے لوگوں نے اپنی طرف احادیث گھڑ کے حضور کی طرف منسوب کردیں ہیں ۔ تو پھر حضور نے موجود ہوتے ہوئے اس کی تردید کیوں نہیں کر رہے ؟ کیا وہ حق بات کو چھپا رہے ہیں ؟
آپ کے اس باطل نظریے کے مطابق بہت سارے الزامی سوالات آپ سے کیے جا سکتے ہیں لیکن اسی پر اکتفا کرتا ہوں ۔

مجھے اس تھریڈ میں اور کچھ نہیں کہنا ھے۔
اگر تو آپ کے نہ کہنے سے مراد قرآنی آیات کی خانہ ساز تفسیر ہے تو ہم آپ کے شکرگزار ہیں ۔
ایک بات میں آپ سے ضرور کہوں گا کہ اس موضوع میں شروع سے لے کر اب تک آپ سے جو سوالات یا اعتراضات کیے گئے ہیں ہمیں اس کے جوابات چاہے نہ دیں لیکن ان پر انفرادی طور پر یا اپنی فکر کے لوگوں کے ساتھ اجتماعی طور پر خالی الذہن ہو کر غور و فکر ضرور کیجیے گا ۔
اعتذار :انسان خطا کا پتلا ہے ۔ یقینا بعض دفعہ آپ کو ہماری باتوں سے تکلیف پہنچی ہوگی اس کے لیے آپ سے معذرت خواہ ہیں ۔ اور اللہ سے آپ کے لیے اور اپنے لیے ہدایت کی دعا کرتےہیں ۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
مجھے اس تھریڈ میں اور کچھ نہیں کہنا ھے۔
ابتسامہ!

آج سے تقریباً دس دن قبل پوسٹ نمبر 83 میں، میں نے پہلے ہی عرض کر دیا تھا:

مسلم صاحب کبھی دو ٹوک جواب نہیں دیں گے۔ لہٰذا ان سے گفتگو کرنا عبث ہے۔

انہیں ایک مصحف (جس میں سورۃ الفاتحۃ سے لے کر سورۃ الناس تک قرآن موجود تھا) کا لنک دے کر پوچھا گیا کہ کیا وہ اسے قرآن مانتے ہیں یا نہیں
اگر مانتے ہیں تو کیوں؟
نہیں تو کیوں؟
جواب ندارد

اب راجا کے سوال کہ
ضعف
کو ضاد کے زبر کے ساتھ پڑھا جائے گا یا پیش کے ساتھ!

اس کا دو ٹوک جواب مسلم صاحب نے کبھی دینا ہی نہیں۔
علماء بالکل صحیح کہتے ہیں کہ منکرین حدیث سب سے بڑے منکر قرآن ہیں۔

یہ لوگ کبھی ی ی ی ی بھی ی ی ی ی قرآن کو اللہ کی کتاب ثابت نہیں کر سکتے ۔۔۔

قرآن تو کیا، قرآن پاک کے ایک لفظ کو بھی ثابت نہیں کر سکتے۔

مثال آپ سب حضرات کے سامنے ہے کہ مسلم صاحب سورۃ الروم میں موجود تین الفاظ ضعف، ضعف اور ضعفا میں ضاد کے زبر یا پیش کو منکرین حدیث کے اصولوں سے مر کر دوبارہ پیدا ہونے تک ثابت نہیں کر سکتے۔

منکرین حدیث کا مسئلہ یہ ہے کہ یہ لوگ کم علمی کی بناء پر احادیث مبارکہ کا انکار کرتے ہیں۔ اور کسی شے کو مکمل جاننے کے بعد تکبّر کی بناء پر انکار یا لا علمی کی بناء پر جہالت سے انکار دونوں کفر ہیں۔ یہودی کا انکار پہلی نوعیت کا ہے، اسی لئے انہیں مغضوب علیہم کہا گیا جبکہ عیسائیوں کا انکار دوسری نوعیت کا، اس لئے انہیں الضالین کہا گیا۔ ہیں دونوں کافر

فرمانِ باری ہے:
﴿ بَلْ كَذَّبُوا بِمَا لَمْ يُحِيطُوا بِعِلْمِهِ وَلَمَّا يَأْتِهِمْ تَأْوِيلُهُ ۚ كَذَٰلِكَ كَذَّبَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ ۖ فَانظُرْ‌ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الظَّالِمِينَ ٣٩ وَمِنْهُم مَّن يُؤْمِنُ بِهِ وَمِنْهُم مَّن لَّا يُؤْمِنُ بِهِ ۚ وَرَ‌بُّكَ أَعْلَمُ بِالْمُفْسِدِينَ ٤٠ وَإِن كَذَّبُوكَ فَقُل لِّي عَمَلِي وَلَكُمْ عَمَلُكُمْ ۖ أَنتُم بَرِ‌يئُونَ مِمَّا أَعْمَلُ وَأَنَا بَرِ‌يءٌ مِّمَّا تَعْمَلُونَ ٤١ وَمِنْهُم مَّن يَسْتَمِعُونَ إِلَيْكَ ۚ أَفَأَنتَ تُسْمِعُ الصُّمَّ وَلَوْ كَانُوا لَا يَعْقِلُونَ ٤٢ وَمِنْهُم مَّن يَنظُرُ‌ إِلَيْكَ ۚ أَفَأَنتَ تَهْدِي الْعُمْيَ وَلَوْ كَانُوا لَا يُبْصِرُ‌ونَ ٤٣ إِنَّ اللَّـهَ لَا يَظْلِمُ النَّاسَ شَيْئًا وَلَـٰكِنَّ النَّاسَ أَنفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ ٤٤ ﴾ ۔۔۔ سورة يونس
بلکہ ایسی چیز کی تکذیب کرنے لگے جس کو اپنے احاطہٴ علمی میں نہیں لائے اور ہنوز ان کو اس کا اخیر نتیجہ نہیں ملا۔ جو لوگ ان سے پہلے ہوئے ہیں اسی طرح انہوں نے بھی جھٹلایا تھا، سو دیکھ لیجئے ان ظالموں کا انجام کیسا ہوا؟ (39) اور ان میں سے بعض ایسے ہیں جو اس پر ایمان لے آئیں گے اور بعض ایسے ہیں کہ اس پر ایمان نہ لائیں گے۔ اور آپ کا رب مفسدوں کو خوب جانتا ہے (40) اور اگر آپ کو جھٹلاتے رہیں تو یہ کہہ دیجئے کہ میرے لیے میرا عمل اور تمہارے لیے تمہارا عمل، تم میرے عمل سے بری ہو اور میں تمہارے عمل سے بری ہوں (41) اور ان میں بعض ایسے ہیں جو آپ کی طرف کان لگائے بیٹھے ہیں۔ کیا آپ بہروں کو سناتے ہیں گو ان کو سمجھ بھی نہ ہو؟ (42) اور ان میں بعض ایسے ہیں کہ آپ کو تک رہے ہیں۔ پھر کیا آپ اندھوں کو راستہ دکھلانا چاہتے ہیں گو ان کو بصیرت بھی نہ ہو؟ (43) یہ یقینی بات ہے کہ اللہ لوگوں پر کچھ ظلم نہیں کرتا لیکن لوگ خود ہی اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں (44)

اللهم أرنا الحق حقا وارزقنا اتباعه وأرنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابه ولا تجعله ملتبسا علينا فنضل واجعلنا للمتقين إماما
 
Top