• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

یہ قرآن کہاں سے آیا؟ کس نے کہا کہ یہ قرآن ہے؟

راجا

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 19، 2011
پیغامات
733
ری ایکشن اسکور
2,574
پوائنٹ
211
محترم مسلم بھائی،
میں مشکور ہوں کہ آپ نے معاملے کی سنگینی کو محسوس کیا اور سلجھے ہوئے انداز میں بات کی۔ اللہ تعالیٰ آپ کے اور میرے دل کو ایمان کے نور سے منور فرمائیں۔ آمین۔ فیصل ناصر بھائی سے بھی توجہ کی درخواست ہے۔

محترم، جیسا کہ آپ نے خود ملاحظہ کر لیا ہے کہ سورہ روم آیت 54 میں ضعف پر پیش بھی ہے اور زبر بھی ہے۔ اب ازراہ کرم اس دھاگے کی پہلی پوسٹ میں باذوق بھائی کے مراسلہ کا مطالعہ کر لیجئے اور اسی طرح محترم خضر حیات کا مراسلہ ۷۰، محترم انس نضر کا مراسلہ ۶۱ کا دوبارہ مطالعہ کیجئے تو آپ پر واضح ہوگا کہ یہ احباب کیا بات سمجھانے کی کوشش کر رہے تھے۔

ابھی قرآن کے تعلق سے کئی انکشافات باقی ہیں۔ آپ کے علم میں اضافے کے لئے بتا دوں کہ جن احادیث کو آپ کی فکر سے تعلق رکھنے والے احباب ’روایات‘ کہہ کر ان پر انگلیاں اٹھاتے ہیں۔ اسی قسم کی روایات قرآن کے تعلق سے بھی موجود ہیں۔ قرآن کے جو نسخے آپ اور ہم برصغیر میں تلاوت کرتے ہیں، یہ روایت حفص والا قرآن کہلاتا ہے۔ اسی طرح دنیا کے مختلف علاقوں میں مختلف روایات پر مبنی قرآنی مصاحف تلاوت کئے جاتے ہیں۔ ان میں روایت ورش، روایت دوری، روایت قالون والے قرآنی مصاحف مشہور ہیں۔ اور ان مصاحف میں آپس میں لہجات کے اختلافات بھی پائے جاتے ہیں۔ جن میں آیات کی نمبرنگ مختلف انداز میں کی جاتی ہے۔ جس سے مثلاً ایک روایت میں سورہ فاتحہ میں سات آیات ہیں اور دوسری روایت میں پانچ ہیں۔ الفاظ وہی ہیں لیکن نمبرنگ کا فرق ہے۔ اسی طرح ان مصاحف میں درج ذیل قسم کے اختلافات موجود ہیں:


۱. اسماء کاا ختلاف جس میں افراد، تثنیہ وجمع اور تذکیر وتانیث دونوں کا اختلاف داخل ہے جیسے’تمت کلمۃ ربک‘ اور’تمت کلمات ربک‘۔
2. افعال کا اختلاف کہ کسی قراء ت میں صیغہ ماضی ہو کسی قراء ت میں مضارع اور کسی میں امرمثلاً ’ربنا باعد بین أسفارنا‘ اور’ربنا بعد بین أسفارنا‘۔
3. وجو ہ اعراب کا اختلاف یعنی حرکتیں مختلف ہوںمثلاً ’لایضار کاتب‘اور’ذوالعرش المجیدُ ‘ اور ’ذوالعرش المجیدِ‘۔
4. الفاظ کی کمی وبیشی کا اختلاف کہ ایک قراء ت میں کوئی لفظ کم اور دوسری قراء ت میں زیادہ ہومثلاً’وما خلق الذکر والانثی‘اور ’ماخلق‘کے بغیر صرف ’والذکر والانثی‘۔
5. تقدیم وتاخیر کا اختلاف کہ ایک قراء ت میں ہے ’وجاء ت سکرۃ الموت بالحق‘ اور دوسری قراء ت میں حق کا لفظ مقدم ہے ’وجاء ت سکرۃ الحق بالموت‘۔
6. بدلیت کا اختلاف کہ ایک قراء ت میں ایک لفظ ہے اور دوسری قرا ء ت میں اس کی جگہ دوسر ا لفظ ہے مثلاً ’ننشرھا‘اور ’ننشزھا‘ اور ’طلح‘اور’طلع‘۔
7. لہجے کااختلاف جس میں تفخیم،ترقیق،امالہ،قصر،اخف ائ،اظہاراور ادغام وغیرہ کے اختلاف شامل ہیں مثلاً ’موسی‘امالہ کے ساتھ اور امالہ کے بغیر۔

اب وکی پیڈیا پر درج ذیل آرٹیکل ملاحظہ کریں، خصوصاً اس آرٹیکل میں ایک چارٹ دیا گیا ہے کہ اس وقت دنیا بھر میں کون کون سی قراءات کن کن ممالک میں رائج ہیں:

وکی پیڈیا: چارٹ

ابن داود بھائی کا درج ذیل دھاگہ ملاحظہ کیجئے۔ یہاں سے آپ مختلف قراءات میں قرآنی مصاحف ڈاؤن لوڈ کر سکتے ہیں:

قرآن کریم کے مختلف مصاحف مختلف قراءات کے مطابق


اب یہ وہ موڑ ہے کہ جہاں ہم آپ سے پلٹ کر سوال کر سکتے ہیں کہ آپ بتائیے قرآن کی کون سی قراءت درست ہے؟ اب آپ یہ جواب تو دے نہیں سکتے کہ دنیا بھر میں حفاظ کرام سے پوچھ لو۔ کیونکہ سوڈان اور جنوبی افریقہ کے حفاظ کرام آپ کو روایت دوری میں قرآن کی تلاوت سنائیں گے اور لیبیا کے حفاظ کرام آپ کو روایت ورش اور روایت قالون میں قرآن کی قراءت کرتے سنائی دیں گے۔ حتیٰ کہ خود ائمہ حرمین کی آواز میں بھی مختلف روایات میں قراءات کی تلاوت سنی جا سکتی ہے۔ مثلاً مسجد نبوی کے امام شیخ علی بن عبدالرحمٰن الحذیفی حفظہ اللہ کی آواز میں قرآن کی تلاوت روایت قالون میں مکمل سماعت کرنے کے لئے درج ذیل لنک ملاحظہ کریں:

صفحة القارئ علي الحذيفي - صوتيات إسلام ويب
یاد رہے یہ شیخ‌کی تلاوت کردہ روایت قالون کی قراءت سعودی عرب کے مجمع الملک فھد نے وزارۃ‌ الشوؤن الاوقاف الاسلامیہ کی تصدیق و اجازت سے شائع کی ہے۔ والحمدللہ۔ ثبوت کے لئے یہاں‌کلک کیجئے۔ ۔ لہٰذا آپ یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ حرمین میں جو تلاوت کی جاتی ہے وہی درست ہے۔

محترم بھائی، یاد رہے کہ قرآن کی یہ سب قراءات رسول اللہ ﷺ سے منقول ہیں۔ اور خود رسول اللہ ﷺ نے قرآن کو سبعہ احرف پر پڑھنے کی اجازت مرحمت فرمائی ہے۔ آج بھی دنیا بھر کے قرائے کرام کے پاس رسول اللہ ﷺ تک باقاعدہ اسناد موجود ہیں جو ان مختلف روایات میں قراءات کے ثبوت کے طور پر پیش کی جا سکتی ہیں۔ بالکل ویسے ہی جیسے احادیث اسناد کے ساتھ پیش کی جاتی ہیں۔

عرض کرنے کا مقصد اتنا ہے کہ احادیث کے تعلق سے جتنے اعتراضات آپ اور آپ جیسے دیگر ناپختہ ذہنوں میں بٹھائے گئے ہیں۔ اس طرح کے اعتراضات خود قرآن پر بھی وارد کئے جا سکتے ہیں۔ اب دیکھئے آپ نے بھی کہا تھا کہ حدیث ماننے کا مطلب راویوں پر ایمان لانا پڑے گا۔ اگر آپ ہی کی طرز پر ہم بھی کہہ دیں کہ قرآن کے ثبوت کے لئے بھی راویوں پر ایمان لانا ہوگا؟ تو آپ کا کیا رد عمل ہوگا؟ ورنہ آپ درست کو غلط سے کیسے ممیز کریں گے؟ یا یہ کیسے ثابت کر سکیں گے کہ یہ سب قراءات جو دنیا بھر میں تلاوت ہو رہی ہیں، جن میں اختلافات کی ٹائپس کی فہرست بھی اوپر دے دی گئی ہے، یہ سب کی سب درست ہیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں؟

لہٰذا میرے بھائی، آپ سے گزارش ہے کہ آپ ایک مرتبہ اپنے نظریات و عقائد پر نظر ثانی کر لیجئے۔ اگر آپ صرف اللہ کی کتاب ہی سے دین سمجھنا چاہیں تب بھی میں آپ سے فقط ایک پی ایچ ڈی کے مقالہ کو پڑھنے کی درخواست کروں گا۔ آپ علم حاصل کرنے کی نیت سے فقط اس مقالہ کو پڑھ لیں جو صرف قرآن کی روشنی میں تحریر کیا گیا ہے تو ان شاءاللہ آپ کے ذہن میں موجود اکثر اشکالات، جو حدیث کے تعلق سے پیدا ہو چکے ہیں، ان پر سے گرد صاف ہو جائے گی۔ اگر آپ خواہشمند ہوں تو میں آپ کو اگلی پوسٹ میں اس مقالہ کا لنک دے دوں گا۔ امید ہے کہ آپ کسی بات کا برا نہ مناتے ہوئے اچھے انداز میں سلسلہ گفتگو کو آگے بڑھائیں گے تاکہ ہم دین کے متعلق اس اہم اصولی بحث کو کسی نتیجہ تک پہنچا سکیں، ان شاءاللہ۔
 

muslim

رکن
شمولیت
ستمبر 29، 2011
پیغامات
467
ری ایکشن اسکور
567
پوائنٹ
86
۱. اسماء کاا ختلاف جس میں افراد، تثنیہ وجمع اور تذکیر وتانیث دونوں کا اختلاف داخل ہے جیسے’تمت کلمۃ ربک‘ اور’تمت کلمات ربک‘۔
2. افعال کا اختلاف کہ کسی قراء ت میں صیغہ ماضی ہو کسی قراء ت میں مضارع اور کسی میں امرمثلاً ’ربنا باعد بین أسفارنا‘ اور’ربنا بعد بین أسفارنا‘۔
3. وجو ہ اعراب کا اختلاف یعنی حرکتیں مختلف ہوںمثلاً ’لایضار کاتب‘اور’ذوالعرش المجیدُ ‘ اور ’ذوالعرش المجیدِ‘۔
4. الفاظ کی کمی وبیشی کا اختلاف کہ ایک قراء ت میں کوئی لفظ کم اور دوسری قراء ت میں زیادہ ہومثلاً’وما خلق الذکر والانثی‘اور ’ماخلق‘کے بغیر صرف ’والذکر والانثی‘۔
5. تقدیم وتاخیر کا اختلاف کہ ایک قراء ت میں ہے ’وجاء ت سکرۃ الموت بالحق‘ اور دوسری قراء ت میں حق کا لفظ مقدم ہے ’وجاء ت سکرۃ الحق بالموت‘۔
6. بدلیت کا اختلاف کہ ایک قراء ت میں ایک لفظ ہے اور دوسری قرا ء ت میں اس کی جگہ دوسر ا لفظ ہے مثلاً ’ننشرھا‘اور ’ننشزھا‘ اور ’طلح‘اور’طلع‘۔
7. لہجے کااختلاف جس میں تفخیم،ترقیق،امالہ،قصر،اخف ائ،اظہاراور ادغام وغیرہ کے اختلاف شامل ہیں مثلاً ’موسی‘امالہ کے ساتھ اور امالہ کے بغیر۔
راجا صاحب۔ السلام علیکم۔

کیا ان اختلافات سے آیت کے معنٰی اور اس کی روح تبدیل ہوجاتی ھے؟ یا صرف الفاظ کی ادائیگی کا فرق آتا ھے؟
برائے مہربانی وضاحت کردیں۔


لہٰذا میرے بھائی، آپ سے گزارش ہے کہ آپ ایک مرتبہ اپنے نظریات و عقائد پر نظر ثانی کر لیجئے۔ اگر آپ صرف اللہ کی کتاب ہی سے دین سمجھنا چاہیں تب بھی میں آپ سے فقط ایک پی ایچ ڈی کے مقالہ کو پڑھنے کی درخواست کروں گا۔ آپ علم حاصل کرنے کی نیت سے فقط اس مقالہ کو پڑھ لیں جو صرف قرآن کی روشنی میں تحریر کیا گیا ہے تو ان شاءاللہ آپ کے ذہن میں موجود اکثر اشکالات، جو حدیث کے تعلق سے پیدا ہو چکے ہیں، ان پر سے گرد صاف ہو جائے گی۔ اگر آپ خواہشمند ہوں تو میں آپ کو اگلی پوسٹ میں اس مقالہ کا لنک دے دوں گا۔ امید ہے کہ آپ کسی بات کا برا نہ مناتے ہوئے اچھے انداز میں سلسلہ گفتگو کو آگے بڑھائیں گے تاکہ ہم دین کے متعلق اس اہم اصولی بحث کو کسی نتیجہ تک پہنچا سکیں، ان شاءاللہ۔

مقالہ کا لنک دے دیں۔
جزاک اللہ خیرا۔
 

راجا

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 19، 2011
پیغامات
733
ری ایکشن اسکور
2,574
پوائنٹ
211
کیا ان اختلافات سے آیت کے معنٰی اور اس کی روح تبدیل ہوجاتی ھے؟ یا صرف الفاظ کی ادائیگی کا فرق آتا ھے؟
جی محترم،
ان اختلافات میں بعض ایسے ہیں جن سے آیت کے معنی تبدیل ہو جاتے ہیں۔ چونکہ آپ اہل سنت اور اہل تشیع کی احادیث میں فرق والی بات کئی بار دہرا چکے ہیں، لہٰذا بطور فائدہ عرض ہے کہ آیت وضو میں لفظ ارجلکم کی دو متواتر قراء تیں منقول ہوئی ہیں ۔نافع، عبداللہ بن عامر، حفص، کسائی اور یعقوب رحمہم اللہ کی قراء ت اَرْجُلَکُمْ ہے جس سے پاؤں دھونے کاحکم ثابت ہوتاہے اور عبداللہ بن کثیر، حمزہ بن حبیب، ابوعمرو بن العلاء اور عاصم رحمہم اللہ کی قراء ت اَرْجُلِکُمْ ہے جس سے پاؤں پرمسح کرنے کاحکم نکلتا ہے۔ اور اہل سنت اور اہل تشیع میں اس اختلاف کی بنیاد یہی مختلف قراءت ہیں۔ لیکن جیسے ہم اس اختلاف کی وجہ سے قرآن کو نعوذباللہ مورد الزام نہیں ٹھہرا سکتے، بعینہٖ اسی طرح احادیث کے معاملے میں بھی اختلاف لوگوں کا پیدا کردہ ہے، اس کا ذمہ دار احادیث کو ٹھہرانا درست نہیں۔

یہ بھی یاد رہے کہ علمائے کرام ہر دور میں قرآن کی مختلف قراءات کو قرآن فہمی میں اہم ذریعہ کے طور پر استعمال کرتے آئے ہیں۔

مقالہ کا لنک دے دیں۔
جزاکم اللہ خیرا۔ پی ایچ ڈی کا یہ مقالہ محترم پروفیسر ڈاکٹر حافظ محمد دین قاسمی صاحب کی تصنیف ہے۔ جو انہوں نے آپ کے مکتب فکر کی مشہور شخصیت علامہ غلام احمد پرویز صاحب کی تفسیر مطالب الفرقان کے جواب میں تحریر کیا تھا۔ روایتی مذہبی اسلوب سے ہٹ کر لکھی گئی اس تحریر میں دلائل فقط قرآن سے دئے گئے ہیں یا پھر الزامی جوابات پرویز صاحب کی کتابوں سے دئے گئے ہیں۔ اور یہی اس مقالے کی اہم ترین خوبی ہے کہ اگر کوئی شخص فقط قرآن کو معیار جان کر بھی ان مسائل کی تحقیق کرنا چاہے جن میں عموماً یہ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ یہ خلاف قرآن مسائل ہیں جو احادیث کی محبت میں غلو کرتے ہوئے صدیوں سے تقلیداً اختیار کر لئے گئے ہیں، تو وہ بآسانی جان سکتا ہے کہ یہ فقط غلط فہمی ہے جو قرآن کی من مانی تشریحات کر کے ، کتاب اللہ سے محبت رکھنے والے مسلمانوں میں بڑے پر اثر طریقے سے مسلسل پھیلائی جا رہی ہیں۔

پی ایچ ڈی مقالہ: تفسیر مطالب الفرقان کا علمی و تحقیقی جائزہ ۔۔ جلد اول

پی ایچ ڈی مقالہ: تفسیر مطالب الفرقان کا علمی و تحقیقی جائزہ ۔۔ جلد دوم

یہ مقالہ ضخیم ہے۔ اسے سمجھ کر پڑھنے کے لئے کچھ وقت درکار ہوگا۔ ممکن ہو تو آپ اسے اردو بازار، کراچی یا اردو بازار، لاہور سے خرید سکتے ہیں۔ امید ہے کہ آپ ضرور کچھ وقت نکال پائیں گے۔شکریہ!
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
قرآن کے جو نسخے آپ اور ہم برصغیر میں تلاوت کرتے ہیں، یہ روایت حفص والا قرآن کہلاتا ہے۔ اسی طرح دنیا کے مختلف علاقوں میں مختلف روایات پر مبنی قرآنی مصاحف تلاوت کئے جاتے ہیں۔ ان میں روایت ورش، روایت دوری، روایت قالون والے قرآنی مصاحف مشہور ہیں۔ اور ان مصاحف میں آپس میں لہجات کے اختلافات بھی پائے جاتے ہیں۔ جن میں آیات کی نمبرنگ مختلف انداز میں کی جاتی ہے۔ جس سے مثلاً ایک روایت میں سورہ فاتحہ میں سات آیات ہیں اور دوسری روایت میں پانچ ہیں۔ الفاظ وہی ہیں لیکن نمبرنگ کا فرق ہے۔
کسی قراءت کے مطابق بھی سورۃ الفاتحہ کی پانچ آیات نہیں۔

سورۃ الفاتحہ کی آیات کے متعلق دو قراءات ہیں دونوں کے مطابق اس کی آیات سات ہیں، صرف نمبرنگ کا فرق ہے، کیونکہ سورۃ الفاتحہ کے آیات کی تعداد کے متعلق قرآن کریم میں ہی نص موجود ہے:
﴿ وَلَقَدْ آتَيْنَاكَ سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِي وَالْقُرْ‌آنَ الْعَظِيمَ ٨٧ ﴾ ۔۔۔ سورة الحجر
یقیناً ہم نے آپ کو سات آیتیں دے رکھی ہیں کہ دہرائی جاتی ہیں اور عظیم قرآن بھی دے رکھا ہے (87)

پہلی قراءت (ہماری قراءت) کے مطابق سات آیات اس طرح ہیں:
  1. بِسْمِ اللَّـهِ الرَّ‌حْمَـٰنِ الرَّ‌حِيمِ
  2. الْحَمْدُ لِلَّـهِ رَ‌بِّ الْعَالَمِينَ
  3. الرَّ‌حْمَـٰنِ الرَّ‌حِيمِ
  4. مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ
  5. إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ
  6. اهْدِنَا الصِّرَ‌اطَ الْمُسْتَقِيمَ
  7. صِرَ‌اطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ‌ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ

یعنی بسملہ سورۃ الفاتحۃ کی پہلی آیت ہے۔

جبکہ دوسری قراءت کے مطابق بِسْمِ اللَّـهِ الرَّ‌حْمَـٰنِ الرَّ‌حِيمِ الگ قرآنی آیت تو ہے، لیکن سورۃ فاتحہ کا حصہ نہیں۔
سورۃ الفاتحہ کی سات آیات کی ترتیب اس طرح ہے:
  1. الْحَمْدُ لِلَّـهِ رَ‌بِّ الْعَالَمِينَ
  2. الرَّ‌حْمَـٰنِ الرَّ‌حِيمِ
  3. مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ
  4. إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ
  5. اهْدِنَا الصِّرَ‌اطَ الْمُسْتَقِيمَ
  6. صِرَ‌اطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ
  7. غَيْرِ‌ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
کیا ان اختلافات سے آیت کے معنٰی اور اس کی روح تبدیل ہوجاتی ھے؟ یا صرف الفاظ کی ادائیگی کا فرق آتا ھے؟
برائے مہربانی وضاحت کردیں۔
کسی قراءت سے بھی آیت کی روح تبدیل نہیں ہوتی اور نہ ہو سکتی ہے۔ یعنی کبھی کبھی دو قراءات کا معنیٰ آپس میں متضاد نہیں ہو سکتا۔
کیونکہ تمام قراءات وحی اور من عند اللہ ہیں۔
اور جو شے من عند اللہ ہو اس میں کبھی اختلاف نہیں ہوسکتا، فرمانِ باری ہے:
﴿ أَفَلَا يَتَدَبَّرُ‌ونَ الْقُرْ‌آنَ ۚ وَلَوْ كَانَ مِنْ عِندِ غَيْرِ‌ اللَّـهِ لَوَجَدُوا فِيهِ اخْتِلَافًا كَثِيرً‌ا ٨٢ ﴾ ۔۔۔ سورة النساء
کیا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے؟ اگر یہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو یقیناً اس میں بہت کچھ اختلاف پاتے (82)

قراءات میں اکثر اختلاف صرف اور صرف لہجہ کا ہے، البتہ شاذ ونادر طور پر قراءت سے معنیٰ کا ظاہری فرق بھی پڑ جاتا ہے، لیکن اس سے معنیٰ میں مزید وضاحت ہی ہوتی ہے، کبھی ٹکراؤ نہیں ہوتا۔
جیسے راجا بھائی نے اوپر وأرجلكم کی مثال پیش کی ہے:
﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ إِلَى الْمَرَ‌افِقِ وَامْسَحُوا بِرُ‌ءُوسِكُمْ وَأَرْ‌جُلَكُمْ إِلَى الْكَعْبَيْنِ ۔۔۔ ٦ ﴾ ۔۔۔ المائدة
اس میں دو قراءات ہیں:
زبر والی قراءت میں اس كا عطف وجوهكم پر ہوگا جس سے پاؤوں کا دھونا (اگر موزے نہ پہنے ہوں) ثابت ہوتا ہے۔
جبکہ زیر والی قراءت میں جر یا تو ہمسائیگی کی وجہ سے آئی ہے جسے نحویوں کی اصطلاح میں جر بالجوار کہا جاتا ہے تب اس سے بھی پاؤوں کا دھونا ہی مراد ہوگا۔ (گویا معنیٰ میں کوئی فرق نہیں)
یا
پھر اس کا عطف برءوسكم پر ہوگا، جس سے (موزوں اور جرابوں کی صورت میں) پاؤوں کا مسح مراد ہوگا۔

واللہ اعلم!

میری طرف سے تمام احباب فورم کو پیش کش ہے کہ جن صاحب کو بھی دو صحیح اور متواتر قراءات میں اختلافِ تضاد نظر آتا ہے، سامنے لائیں، میں ان شاء اللہ کتبِ تفسیر سے اس کی وضاحت پیش کر دوں گا۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
راجا صاحب۔
السلام علیکم۔
سعودی عرب میں طباعت شدہ قرآن مجید میں ضاد پر زبر ھے، جبکہ پاکستان میں طباعت شدہ میں ضاد پر پیش ھے۔ (جو نسخے میں نے
دیکھے)
مجھے اس کا علم نہیں ھے۔ آپ یا انس نضر صاحب یا دیگر صاحب علم حضرات اس نکتہ کی وضاحت فرمایئں۔
اللہ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔
محترم! ہمارے (یعنی پوری امتِ مسلمہ کے) نقطۂ نظر کے مطابق تو اس کی توجیہ سورج کی طرح واضح ہے، مسئلہ تو آپ کے خانہ ساز نقطۂ نظر کا ہے کہ جو کچھ ہمارے مصاحف میں ہے وہی قرآن ہے، اب یہ آپ نے بتانا ہے کہ موجودہ مصاحف کے اختلاف کو آپ کیسے حل کریں گے؟؟؟
علاوہ ازیں موجودہ مصاحف کو کسی کی مدد کے بغیر پڑھنا کم از کم آپ جیسے شخص کیلئے ممکن نہیں، اگر آپ کہیں گے تو میں ایسے کلمات پیش کر دوں گا، کہ آپ کسی قاری صاحب کی مدد کے بغیر کبھی ان الفاظ کو پڑھ نہیں پائیں گے، اب آپ نے اپنے نقطۂ نظر کے مطابق اس کا دفاع کرنا ہے نہ کہ ہم نے۔
 

muslim

رکن
شمولیت
ستمبر 29، 2011
پیغامات
467
ری ایکشن اسکور
567
پوائنٹ
86
کسی قراءت سے بھی آیت کی روح تبدیل نہیں ہوتی اور نہ ہو سکتی ہے۔ یعنی کبھی کبھی دو قراءات کا معنیٰ آپس میں متضاد نہیں ہو سکتا۔
کیونکہ تمام قراءات وحی اور من عند اللہ ہیں۔
اور جو شے من عند اللہ ہو اس میں کبھی اختلاف نہیں ہوسکتا، فرمانِ باری ہے:
﴿ أَفَلَا يَتَدَبَّرُ‌ونَ الْقُرْ‌آنَ ۚ وَلَوْ كَانَ مِنْ عِندِ غَيْرِ‌ اللَّـهِ لَوَجَدُوا فِيهِ اخْتِلَافًا كَثِيرً‌ا ٨٢ ﴾ ۔۔۔ سورة النساء
کیا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے؟ اگر یہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو یقیناً اس میں بہت کچھ اختلاف پاتے (82)

قراءات میں اکثر اختلاف صرف اور صرف لہجہ کا ہے، البتہ شاذ ونادر طور پر قراءت سے معنیٰ کا ظاہری فرق بھی پڑ جاتا ہے، لیکن اس سے معنیٰ میں مزید وضاحت ہی ہوتی ہے، کبھی ٹکراؤ نہیں ہوتا۔
جیسے راجا بھائی نے اوپر وأرجلكم کی مثال پیش کی ہے:
﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ إِلَى الْمَرَ‌افِقِ وَامْسَحُوا بِرُ‌ءُوسِكُمْ وَأَرْ‌جُلَكُمْ إِلَى الْكَعْبَيْنِ ۔۔۔ ٦ ﴾ ۔۔۔ المائدة
اس میں دو قراءات ہیں:
زبر والی قراءت میں اس كا عطف وجوهكم پر ہوگا جس سے پاؤوں کا دھونا (اگر موزے نہ پہنے ہوں) ثابت ہوتا ہے۔
جبکہ زیر والی قراءت میں جر یا تو ہمسائیگی کی وجہ سے آئی ہے جسے نحویوں کی اصطلاح میں جر بالجوار کہا جاتا ہے تب اس سے بھی پاؤوں کا دھونا ہی مراد ہوگا۔ (گویا معنیٰ میں کوئی فرق نہیں)
یا
پھر اس کا عطف برءوسكم پر ہوگا، جس سے (موزوں اور جرابوں کی صورت میں) پاؤوں کا مسح مراد ہوگا۔

واللہ اعلم!

میری طرف سے تمام احباب فورم کو پیش کش ہے کہ جن صاحب کو بھی دو صحیح اور متواتر قراءات میں اختلافِ تضاد نظر آتا ہے، سامنے لائیں، میں ان شاء اللہ کتبِ تفسیر سے اس کی وضاحت پیش کر دوں گا۔

السلام علیکم۔

ریکارڈ کی درستگی کے لیئے بتا دوں کہ غلام احمد پرویز صاحب سے میرا کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں ھے۔


ماشاء اللہ قرآن میں کوئی اختلاف نہیں ھے۔ صرف قراءت کا فرق ھے۔
آیت کے معنٰی اور اس کی روح میں کوئی اختلاف نہیں ھے۔
لہٰزا " یہ قرآن کہاں سے آیا اور کس نے کہا کہ یہ قرآن ھے"
اس کے لیئے کسی خارجی (قرآن سے باہر) کی دلیل کی ضرورت نہیں ھے۔
قرآنی آیات ہی اسکی دلیل ہیں ، اور اس سے زیادہ بہتر کوئی دلیل نہیں ھو سکتی۔


﴿ أَفَلَا يَتَدَبَّرُ‌ونَ الْقُرْ‌آنَ ۚ وَلَوْ كَانَ مِنْ عِندِ غَيْرِ‌ اللَّـهِ لَوَجَدُوا فِيهِ اخْتِلَافًا كَثِيرً‌ا ٨٢ ﴾ ۔۔۔ سورة النساء
کیا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے؟ اگر یہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو یقیناً اس میں بہت کچھ اختلاف پاتے (82)
 

muslim

رکن
شمولیت
ستمبر 29، 2011
پیغامات
467
ری ایکشن اسکور
567
پوائنٹ
86
اب یہ آپ نے بتانا ہے کہ موجودہ مصاحف کے اختلاف کو آپ کیسے حل کریں گے؟؟؟
کسی قراءت سے بھی آیت کی روح تبدیل نہیں ہوتی اور نہ ہو سکتی ہے۔ یعنی کبھی کبھی دو قراءات کا معنیٰ آپس میں متضاد نہیں ہو سکتا۔
کیونکہ تمام قراءات وحی اور من عند اللہ ہیں۔
اور جو شے من عند اللہ ہو اس میں کبھی اختلاف نہیں ہوسکتا
انس نضر صاحب آپ کی تحریر کا حوالہ اوپر لکھا ہوا ھے۔


جب معنٰی اور روح میں کوئی اختلاف ہی نہیں ھے تو حل کرنے کا کیا سوال ھے؟
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
انس نضر صاحب آپ کی تحریر کا حوالہ اوپر لکھا ہوا ھے۔
جب معنٰی اور روح میں کوئی اختلاف ہی نہیں ھے تو حل کرنے کا کیا سوال ھے؟
آپ کا موقف ہے کہ جو کچھ مصاحف میں ہے، بس وہی قرآن ہے (گویا وہ سیدھا آپ لوگوں پر اللہ کی طرف سے نازل ہوا ہے، ابتسامہ)

تو ضعف میں زبر اور پیش کے اختلاف کو آپ کیسے حل کریں گے؟؟؟
کہ یہ دونوں زبر اور پیش موجودہ مصاحف میں موجود ہیں۔
اسی طرح واللہ یقبض ویبصط ۔۔۔ سورۃ البقرۃ اور وزادكم في الخلق بصطة ۔۔۔ سورة الأعراف
دونوں الفاظ سین کے ساتھ بھی ہیں اور صاد کے ساتھ بھی؟
کیا آپ کے نزدیک دونوں صحیح اور منزل من اللہ ہیں؟؟؟
 

muslim

رکن
شمولیت
ستمبر 29، 2011
پیغامات
467
ری ایکشن اسکور
567
پوائنٹ
86
آپ کا موقف ہے کہ جو کچھ مصاحف میں ہے، بس وہی قرآن ہے (گویا وہ سیدھا آپ لوگوں پر اللہ کی طرف سے نازل ہوا ہے، ابتسامہ)
أَفَغَيْرَ اللَّـهِ أَبْتَغِي حَكَمًا وَهُوَ الَّذِي أَنزَلَ إِلَيْكُمُ الْكِتَابَ مُفَصَّلًا ۚ وَالَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَعْلَمُونَ أَنَّهُ مُنَزَّلٌ مِّن رَّبِّكَ بِالْحَقِّ ۖ فَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِينَ ﴿١١٤-٦﴾
پھر جب حال یہ ہے تو کیا میں اللہ کے سوا کوئی اور فیصلہ کرنے والا تلاش کروں، حالانکہ اس نے پوری تفصیل کے ساتھ تمہاری طرف کتاب نازل کر دی ہے؟ اور جن لوگوں کو ہم نے (تم سے پہلے) کتاب دی تھی وہ جانتے ہیں کہ یہ کتاب تمہارے رب ہی کی طرف سے حق کے ساتھ نازل ہوئی ہے لہٰذا تم شک کرنے والوں میں شامل نہ ہو (114)





تو ضعف میں زبر اور پیش کے اختلاف کو آپ کیسے حل کریں گے؟؟؟
کہ یہ دونوں زبر اور پیش موجودہ مصاحف میں موجود ہیں۔
اسی طرح واللہ یقبض ویبصط ۔۔۔ سورۃ البقرۃ اور وزادكم في الخلق بصطة ۔۔۔ سورة الأعراف
دونوں الفاظ سین کے ساتھ بھی ہیں اور صاد کے ساتھ بھی؟
کیا آپ کے نزدیک دونوں صحیح اور منزل من اللہ ہیں؟؟؟

اس کا جواب آپ خود پوسٹ نمبر ٩٥ میں دے چکے ہیں۔

قراءات میں اکثر اختلاف صرف اور صرف لہجہ کا ہے، البتہ شاذ ونادر طور پر قراءت سے معنیٰ کا ظاہری فرق بھی پڑ جاتا ہے، لیکن اس سے معنیٰ میں مزید وضاحت ہی ہوتی ہے، کبھی ٹکراؤ نہیں ہوتا۔


لہٰزا کسی شک کی گنجائش ہی نہیں ھے، کیونکہ کوئی اختلاف ہی نہیں ھے۔
 
Top