محترم مسلم بھائی،
میں مشکور ہوں کہ آپ نے معاملے کی سنگینی کو محسوس کیا اور سلجھے ہوئے انداز میں بات کی۔ اللہ تعالیٰ آپ کے اور میرے دل کو ایمان کے نور سے منور فرمائیں۔ آمین۔ فیصل ناصر بھائی سے بھی توجہ کی درخواست ہے۔
محترم، جیسا کہ آپ نے خود ملاحظہ کر لیا ہے کہ سورہ روم آیت 54 میں ضعف پر پیش بھی ہے اور زبر بھی ہے۔ اب ازراہ کرم اس دھاگے کی پہلی پوسٹ میں باذوق بھائی کے مراسلہ کا مطالعہ کر لیجئے اور اسی طرح محترم خضر حیات کا مراسلہ ۷۰، محترم انس نضر کا مراسلہ ۶۱ کا دوبارہ مطالعہ کیجئے تو آپ پر واضح ہوگا کہ یہ احباب کیا بات سمجھانے کی کوشش کر رہے تھے۔
ابھی قرآن کے تعلق سے کئی انکشافات باقی ہیں۔ آپ کے علم میں اضافے کے لئے بتا دوں کہ جن احادیث کو آپ کی فکر سے تعلق رکھنے والے احباب ’روایات‘ کہہ کر ان پر انگلیاں اٹھاتے ہیں۔ اسی قسم کی روایات قرآن کے تعلق سے بھی موجود ہیں۔ قرآن کے جو نسخے آپ اور ہم برصغیر میں تلاوت کرتے ہیں، یہ روایت حفص والا قرآن کہلاتا ہے۔ اسی طرح دنیا کے مختلف علاقوں میں مختلف روایات پر مبنی قرآنی مصاحف تلاوت کئے جاتے ہیں۔ ان میں روایت ورش، روایت دوری، روایت قالون والے قرآنی مصاحف مشہور ہیں۔ اور ان مصاحف میں آپس میں لہجات کے اختلافات بھی پائے جاتے ہیں۔ جن میں آیات کی نمبرنگ مختلف انداز میں کی جاتی ہے۔ جس سے مثلاً ایک روایت میں سورہ فاتحہ میں سات آیات ہیں اور دوسری روایت میں پانچ ہیں۔ الفاظ وہی ہیں لیکن نمبرنگ کا فرق ہے۔ اسی طرح ان مصاحف میں درج ذیل قسم کے اختلافات موجود ہیں:
۱. اسماء کاا ختلاف جس میں افراد، تثنیہ وجمع اور تذکیر وتانیث دونوں کا اختلاف داخل ہے جیسے’تمت کلمۃ ربک‘ اور’تمت کلمات ربک‘۔
2. افعال کا اختلاف کہ کسی قراء ت میں صیغہ ماضی ہو کسی قراء ت میں مضارع اور کسی میں امرمثلاً ’ربنا باعد بین أسفارنا‘ اور’ربنا بعد بین أسفارنا‘۔
3. وجو ہ اعراب کا اختلاف یعنی حرکتیں مختلف ہوںمثلاً ’لایضار کاتب‘اور’ذوالعرش المجیدُ ‘ اور ’ذوالعرش المجیدِ‘۔
4. الفاظ کی کمی وبیشی کا اختلاف کہ ایک قراء ت میں کوئی لفظ کم اور دوسری قراء ت میں زیادہ ہومثلاً’وما خلق الذکر والانثی‘اور ’ماخلق‘کے بغیر صرف ’والذکر والانثی‘۔
5. تقدیم وتاخیر کا اختلاف کہ ایک قراء ت میں ہے ’وجاء ت سکرۃ الموت بالحق‘ اور دوسری قراء ت میں حق کا لفظ مقدم ہے ’وجاء ت سکرۃ الحق بالموت‘۔
6. بدلیت کا اختلاف کہ ایک قراء ت میں ایک لفظ ہے اور دوسری قرا ء ت میں اس کی جگہ دوسر ا لفظ ہے مثلاً ’ننشرھا‘اور ’ننشزھا‘ اور ’طلح‘اور’طلع‘۔
7. لہجے کااختلاف جس میں تفخیم،ترقیق،امالہ،قصر،اخف ائ،اظہاراور ادغام وغیرہ کے اختلاف شامل ہیں مثلاً ’موسی‘امالہ کے ساتھ اور امالہ کے بغیر۔
اب وکی پیڈیا پر درج ذیل آرٹیکل ملاحظہ کریں، خصوصاً اس آرٹیکل میں ایک چارٹ دیا گیا ہے کہ اس وقت دنیا بھر میں کون کون سی قراءات کن کن ممالک میں رائج ہیں:
وکی پیڈیا: چارٹ
ابن داود بھائی کا درج ذیل دھاگہ ملاحظہ کیجئے۔ یہاں سے آپ مختلف قراءات میں قرآنی مصاحف ڈاؤن لوڈ کر سکتے ہیں:
قرآن کریم کے مختلف مصاحف مختلف قراءات کے مطابق
اب یہ وہ موڑ ہے کہ جہاں ہم آپ سے پلٹ کر سوال کر سکتے ہیں کہ آپ بتائیے قرآن کی کون سی قراءت درست ہے؟ اب آپ یہ جواب تو دے نہیں سکتے کہ دنیا بھر میں حفاظ کرام سے پوچھ لو۔ کیونکہ سوڈان اور جنوبی افریقہ کے حفاظ کرام آپ کو روایت دوری میں قرآن کی تلاوت سنائیں گے اور لیبیا کے حفاظ کرام آپ کو روایت ورش اور روایت قالون میں قرآن کی قراءت کرتے سنائی دیں گے۔ حتیٰ کہ خود ائمہ حرمین کی آواز میں بھی مختلف روایات میں قراءات کی تلاوت سنی جا سکتی ہے۔ مثلاً مسجد نبوی کے امام شیخ علی بن عبدالرحمٰن الحذیفی حفظہ اللہ کی آواز میں قرآن کی تلاوت روایت قالون میں مکمل سماعت کرنے کے لئے درج ذیل لنک ملاحظہ کریں:
صفحة القارئ علي الحذيفي - صوتيات إسلام ويب
یاد رہے یہ شیخکی تلاوت کردہ روایت قالون کی قراءت سعودی عرب کے مجمع الملک فھد نے وزارۃ الشوؤن الاوقاف الاسلامیہ کی تصدیق و اجازت سے شائع کی ہے۔ والحمدللہ۔ ثبوت کے لئے یہاںکلک کیجئے۔ ۔ لہٰذا آپ یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ حرمین میں جو تلاوت کی جاتی ہے وہی درست ہے۔
محترم بھائی، یاد رہے کہ قرآن کی یہ سب قراءات رسول اللہ ﷺ سے منقول ہیں۔ اور خود رسول اللہ ﷺ نے قرآن کو سبعہ احرف پر پڑھنے کی اجازت مرحمت فرمائی ہے۔ آج بھی دنیا بھر کے قرائے کرام کے پاس رسول اللہ ﷺ تک باقاعدہ اسناد موجود ہیں جو ان مختلف روایات میں قراءات کے ثبوت کے طور پر پیش کی جا سکتی ہیں۔ بالکل ویسے ہی جیسے احادیث اسناد کے ساتھ پیش کی جاتی ہیں۔
عرض کرنے کا مقصد اتنا ہے کہ احادیث کے تعلق سے جتنے اعتراضات آپ اور آپ جیسے دیگر ناپختہ ذہنوں میں بٹھائے گئے ہیں۔ اس طرح کے اعتراضات خود قرآن پر بھی وارد کئے جا سکتے ہیں۔ اب دیکھئے آپ نے بھی کہا تھا کہ حدیث ماننے کا مطلب راویوں پر ایمان لانا پڑے گا۔ اگر آپ ہی کی طرز پر ہم بھی کہہ دیں کہ قرآن کے ثبوت کے لئے بھی راویوں پر ایمان لانا ہوگا؟ تو آپ کا کیا رد عمل ہوگا؟ ورنہ آپ درست کو غلط سے کیسے ممیز کریں گے؟ یا یہ کیسے ثابت کر سکیں گے کہ یہ سب قراءات جو دنیا بھر میں تلاوت ہو رہی ہیں، جن میں اختلافات کی ٹائپس کی فہرست بھی اوپر دے دی گئی ہے، یہ سب کی سب درست ہیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں؟
لہٰذا میرے بھائی، آپ سے گزارش ہے کہ آپ ایک مرتبہ اپنے نظریات و عقائد پر نظر ثانی کر لیجئے۔ اگر آپ صرف اللہ کی کتاب ہی سے دین سمجھنا چاہیں تب بھی میں آپ سے فقط ایک پی ایچ ڈی کے مقالہ کو پڑھنے کی درخواست کروں گا۔ آپ علم حاصل کرنے کی نیت سے فقط اس مقالہ کو پڑھ لیں جو صرف قرآن کی روشنی میں تحریر کیا گیا ہے تو ان شاءاللہ آپ کے ذہن میں موجود اکثر اشکالات، جو حدیث کے تعلق سے پیدا ہو چکے ہیں، ان پر سے گرد صاف ہو جائے گی۔ اگر آپ خواہشمند ہوں تو میں آپ کو اگلی پوسٹ میں اس مقالہ کا لنک دے دوں گا۔ امید ہے کہ آپ کسی بات کا برا نہ مناتے ہوئے اچھے انداز میں سلسلہ گفتگو کو آگے بڑھائیں گے تاکہ ہم دین کے متعلق اس اہم اصولی بحث کو کسی نتیجہ تک پہنچا سکیں، ان شاءاللہ۔
میں مشکور ہوں کہ آپ نے معاملے کی سنگینی کو محسوس کیا اور سلجھے ہوئے انداز میں بات کی۔ اللہ تعالیٰ آپ کے اور میرے دل کو ایمان کے نور سے منور فرمائیں۔ آمین۔ فیصل ناصر بھائی سے بھی توجہ کی درخواست ہے۔
محترم، جیسا کہ آپ نے خود ملاحظہ کر لیا ہے کہ سورہ روم آیت 54 میں ضعف پر پیش بھی ہے اور زبر بھی ہے۔ اب ازراہ کرم اس دھاگے کی پہلی پوسٹ میں باذوق بھائی کے مراسلہ کا مطالعہ کر لیجئے اور اسی طرح محترم خضر حیات کا مراسلہ ۷۰، محترم انس نضر کا مراسلہ ۶۱ کا دوبارہ مطالعہ کیجئے تو آپ پر واضح ہوگا کہ یہ احباب کیا بات سمجھانے کی کوشش کر رہے تھے۔
ابھی قرآن کے تعلق سے کئی انکشافات باقی ہیں۔ آپ کے علم میں اضافے کے لئے بتا دوں کہ جن احادیث کو آپ کی فکر سے تعلق رکھنے والے احباب ’روایات‘ کہہ کر ان پر انگلیاں اٹھاتے ہیں۔ اسی قسم کی روایات قرآن کے تعلق سے بھی موجود ہیں۔ قرآن کے جو نسخے آپ اور ہم برصغیر میں تلاوت کرتے ہیں، یہ روایت حفص والا قرآن کہلاتا ہے۔ اسی طرح دنیا کے مختلف علاقوں میں مختلف روایات پر مبنی قرآنی مصاحف تلاوت کئے جاتے ہیں۔ ان میں روایت ورش، روایت دوری، روایت قالون والے قرآنی مصاحف مشہور ہیں۔ اور ان مصاحف میں آپس میں لہجات کے اختلافات بھی پائے جاتے ہیں۔ جن میں آیات کی نمبرنگ مختلف انداز میں کی جاتی ہے۔ جس سے مثلاً ایک روایت میں سورہ فاتحہ میں سات آیات ہیں اور دوسری روایت میں پانچ ہیں۔ الفاظ وہی ہیں لیکن نمبرنگ کا فرق ہے۔ اسی طرح ان مصاحف میں درج ذیل قسم کے اختلافات موجود ہیں:
۱. اسماء کاا ختلاف جس میں افراد، تثنیہ وجمع اور تذکیر وتانیث دونوں کا اختلاف داخل ہے جیسے’تمت کلمۃ ربک‘ اور’تمت کلمات ربک‘۔
2. افعال کا اختلاف کہ کسی قراء ت میں صیغہ ماضی ہو کسی قراء ت میں مضارع اور کسی میں امرمثلاً ’ربنا باعد بین أسفارنا‘ اور’ربنا بعد بین أسفارنا‘۔
3. وجو ہ اعراب کا اختلاف یعنی حرکتیں مختلف ہوںمثلاً ’لایضار کاتب‘اور’ذوالعرش المجیدُ ‘ اور ’ذوالعرش المجیدِ‘۔
4. الفاظ کی کمی وبیشی کا اختلاف کہ ایک قراء ت میں کوئی لفظ کم اور دوسری قراء ت میں زیادہ ہومثلاً’وما خلق الذکر والانثی‘اور ’ماخلق‘کے بغیر صرف ’والذکر والانثی‘۔
5. تقدیم وتاخیر کا اختلاف کہ ایک قراء ت میں ہے ’وجاء ت سکرۃ الموت بالحق‘ اور دوسری قراء ت میں حق کا لفظ مقدم ہے ’وجاء ت سکرۃ الحق بالموت‘۔
6. بدلیت کا اختلاف کہ ایک قراء ت میں ایک لفظ ہے اور دوسری قرا ء ت میں اس کی جگہ دوسر ا لفظ ہے مثلاً ’ننشرھا‘اور ’ننشزھا‘ اور ’طلح‘اور’طلع‘۔
7. لہجے کااختلاف جس میں تفخیم،ترقیق،امالہ،قصر،اخف ائ،اظہاراور ادغام وغیرہ کے اختلاف شامل ہیں مثلاً ’موسی‘امالہ کے ساتھ اور امالہ کے بغیر۔
اب وکی پیڈیا پر درج ذیل آرٹیکل ملاحظہ کریں، خصوصاً اس آرٹیکل میں ایک چارٹ دیا گیا ہے کہ اس وقت دنیا بھر میں کون کون سی قراءات کن کن ممالک میں رائج ہیں:
وکی پیڈیا: چارٹ
ابن داود بھائی کا درج ذیل دھاگہ ملاحظہ کیجئے۔ یہاں سے آپ مختلف قراءات میں قرآنی مصاحف ڈاؤن لوڈ کر سکتے ہیں:
قرآن کریم کے مختلف مصاحف مختلف قراءات کے مطابق
اب یہ وہ موڑ ہے کہ جہاں ہم آپ سے پلٹ کر سوال کر سکتے ہیں کہ آپ بتائیے قرآن کی کون سی قراءت درست ہے؟ اب آپ یہ جواب تو دے نہیں سکتے کہ دنیا بھر میں حفاظ کرام سے پوچھ لو۔ کیونکہ سوڈان اور جنوبی افریقہ کے حفاظ کرام آپ کو روایت دوری میں قرآن کی تلاوت سنائیں گے اور لیبیا کے حفاظ کرام آپ کو روایت ورش اور روایت قالون میں قرآن کی قراءت کرتے سنائی دیں گے۔ حتیٰ کہ خود ائمہ حرمین کی آواز میں بھی مختلف روایات میں قراءات کی تلاوت سنی جا سکتی ہے۔ مثلاً مسجد نبوی کے امام شیخ علی بن عبدالرحمٰن الحذیفی حفظہ اللہ کی آواز میں قرآن کی تلاوت روایت قالون میں مکمل سماعت کرنے کے لئے درج ذیل لنک ملاحظہ کریں:
صفحة القارئ علي الحذيفي - صوتيات إسلام ويب
یاد رہے یہ شیخکی تلاوت کردہ روایت قالون کی قراءت سعودی عرب کے مجمع الملک فھد نے وزارۃ الشوؤن الاوقاف الاسلامیہ کی تصدیق و اجازت سے شائع کی ہے۔ والحمدللہ۔ ثبوت کے لئے یہاںکلک کیجئے۔ ۔ لہٰذا آپ یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ حرمین میں جو تلاوت کی جاتی ہے وہی درست ہے۔
محترم بھائی، یاد رہے کہ قرآن کی یہ سب قراءات رسول اللہ ﷺ سے منقول ہیں۔ اور خود رسول اللہ ﷺ نے قرآن کو سبعہ احرف پر پڑھنے کی اجازت مرحمت فرمائی ہے۔ آج بھی دنیا بھر کے قرائے کرام کے پاس رسول اللہ ﷺ تک باقاعدہ اسناد موجود ہیں جو ان مختلف روایات میں قراءات کے ثبوت کے طور پر پیش کی جا سکتی ہیں۔ بالکل ویسے ہی جیسے احادیث اسناد کے ساتھ پیش کی جاتی ہیں۔
عرض کرنے کا مقصد اتنا ہے کہ احادیث کے تعلق سے جتنے اعتراضات آپ اور آپ جیسے دیگر ناپختہ ذہنوں میں بٹھائے گئے ہیں۔ اس طرح کے اعتراضات خود قرآن پر بھی وارد کئے جا سکتے ہیں۔ اب دیکھئے آپ نے بھی کہا تھا کہ حدیث ماننے کا مطلب راویوں پر ایمان لانا پڑے گا۔ اگر آپ ہی کی طرز پر ہم بھی کہہ دیں کہ قرآن کے ثبوت کے لئے بھی راویوں پر ایمان لانا ہوگا؟ تو آپ کا کیا رد عمل ہوگا؟ ورنہ آپ درست کو غلط سے کیسے ممیز کریں گے؟ یا یہ کیسے ثابت کر سکیں گے کہ یہ سب قراءات جو دنیا بھر میں تلاوت ہو رہی ہیں، جن میں اختلافات کی ٹائپس کی فہرست بھی اوپر دے دی گئی ہے، یہ سب کی سب درست ہیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں؟
لہٰذا میرے بھائی، آپ سے گزارش ہے کہ آپ ایک مرتبہ اپنے نظریات و عقائد پر نظر ثانی کر لیجئے۔ اگر آپ صرف اللہ کی کتاب ہی سے دین سمجھنا چاہیں تب بھی میں آپ سے فقط ایک پی ایچ ڈی کے مقالہ کو پڑھنے کی درخواست کروں گا۔ آپ علم حاصل کرنے کی نیت سے فقط اس مقالہ کو پڑھ لیں جو صرف قرآن کی روشنی میں تحریر کیا گیا ہے تو ان شاءاللہ آپ کے ذہن میں موجود اکثر اشکالات، جو حدیث کے تعلق سے پیدا ہو چکے ہیں، ان پر سے گرد صاف ہو جائے گی۔ اگر آپ خواہشمند ہوں تو میں آپ کو اگلی پوسٹ میں اس مقالہ کا لنک دے دوں گا۔ امید ہے کہ آپ کسی بات کا برا نہ مناتے ہوئے اچھے انداز میں سلسلہ گفتگو کو آگے بڑھائیں گے تاکہ ہم دین کے متعلق اس اہم اصولی بحث کو کسی نتیجہ تک پہنچا سکیں، ان شاءاللہ۔