باذوق
رکن
- شمولیت
- فروری 16، 2011
- پیغامات
- 888
- ری ایکشن اسکور
- 4,011
- پوائنٹ
- 289
شاہد نذیر بھائی ، دراصل زبان و ادب کا اسلوب ایک جامد چیز نہیں بلکہ ہر دور میں بدلتا رہتا ہے۔ سوائے کلام الٰہی کے ، کہ یہ مخلوق کا نہیں بلکہ اللہ کا کلام ہے جو قیامت تک ایک ہی رہے گا۔آپ نے بہت بہترین بات کہی میں اس کے لئے تیار تھا۔
برادر جب میں براہ راست کسی فرقے یا فرقہ پرست مولوی کا نام لیتا ہوں تو میری تردید صرف اسی تک محدود رہتی ہے جو کہ عام طور پر لوگوں کو اس مولوی یا فرقے سے بچانے کی غرض سے کی جاتی ہے۔
اس کے برعکس اگر مطلقا کسی اصطلاح یا ایسے لفظ کے ساتھ رد پیش کیا جائے جس کا اطلاق تمام یا اکثر پر ہوتا ہو تو وہ رد غلط فہمی کا باعث بنتا ہے۔خاص طور پر ان لوگوں کے لئے جو ادب اور شاعری سے ناواقف ہوں بشمول راقم الحروف۔ واللہ اعلم
میں آپ کو ایک مثال دیتا ہوں۔ ایک ہی چیز ایک زمانے میں احمد رضا خان صاحب نے پیش کی تھی اور آج ڈاکٹر طاہر القادری صاحب پیش کر رہے ہیں۔ بات ایک ہی ہے لیکن دونوں کے اسلوب تحریر کا موازنہ کیا جائے تو ہم میں سے بیشتر کو ڈاکٹر قادری کا انداز و اسلوب زیادہ مہذب ، موجودہ زمانے کے لب و لہجے کے مطابق قابل قبول اور پر اثر محسوس ہوگا ۔۔۔ جبکہ خان صاحب کا انداز دقیانوسی اور غیرضروری طور پر جارحانہ نظر آئے گا ۔۔۔۔ حالانکہ یہ عین ممکن ہے کہ خان صاحب کے زمانے میں یہی اسلوب زیادہ معروف و مقبول رہا ہو۔
اسلوب کی تبدیلی کی ایک اور مثال قرآنی تراجم سے بھی دی جا سکتی ہے۔ آپ عبدالرحمٰن کیلانی اور جوناگڑھی ترجمے کو زیرمطالعہ رکھیں تو کیلانی صاحب کے ترجمے کو اپنی سمجھ اور سہولت کے مطابق زیادہ آسان اور مفید پائیں گے کیونکہ یہ ترجمہ ہمارے دور کے اسلوب اور ذہن کو سامنے رکھ کر تحریر کیا گیا ہے۔
بات صرف اتنی ہے کہ زمانے کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ انسانی شعور بھی ترقی کرتا ہے اور یہی سبب ہے کہ وہ لطائف جس میں جنسی اشارے ہوتے ہیں ، ہم اپنے بچپن میں اول تو سمجھتے نہیں تھے یا اگر سمجھتے تھے بھی تو نہایت معیوب بات مانی جاتی تھی ۔۔۔ جبکہ آج چوتھی پانچویں جماعت کا بچہ بھی مزے لے کر ایسے واہیات لطیفے سناتا نظر آئے گا۔ وجہ ظاہر ہے کہ انفارمیشن تکنالوجی اور ڈش چینلوں کی "ثقافت" نے تمام پردے ہٹا دئے ہیں۔ پھر آج لوگوں میں قوت برداشت کا بھی وہ مادہ نہیں رہا۔ آج آدمی اپنے مذہبی پیشوا کے خلاف چند تنقیدی الفاظ (چاہے وہ کتنے ہی حقائق بر مبنی ہوں) برداشت کرنے کے قابل نہیں تو وہ کہاں ہماری آپ کی جارحانہ تحریروں کو مکمل پڑھے گا یا ان سے فیض اٹھائے گا؟
لہذا زمانے کے لحاظ سے اسلوب کی تبدیلی لازمی امر ہے بصورت دیگر ہر تحریر کا جو بھی مقصد ہوتا ہے وہ ناقابل حصول بن کر رہ جائے گا۔