باذوق
رکن
- شمولیت
- فروری 16، 2011
- پیغامات
- 888
- ری ایکشن اسکور
- 4,011
- پوائنٹ
- 289
ٹھیک کہا آپ نے ۔۔۔ لیکن میرا جہاں تک خیال ہے کہ ان دو باتوں میں فرق ہے :شاید آپ نے الولاء والبراء کا موضوع پڑھا ہو جو ایک صحیح العقیدہ مسلمان کو کافروں اور فاسقوں سے متاثر ہونے اور ان کی تعریف کرنے سے روکتا ہے۔
- کافر-فاسق سے متاثر ہونا /یا/ کافر-فاسق کی تعریف کرنا
- کافر-فاسق کا قول نقل کرنا
صحیح بخاری کی روایت کے مطابق جب شیطان "آیت الکرسی" کے ورد کا مشورہ دیتا ہے تو بعد میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کے جھوٹا ہونے کی تصدیق کرتے ہوئے یہ بھی کہتے ہیں کہ "آیت الکرسی پڑھ کر سونے والی بات اس نے سچ کہی"۔ یعنی ۔۔۔ جب شیطان تک کبھی "سچی / معقول" بات کہہ سکتا ہے تو کافر-فاسق کیوں نہیں کہہ سکتا؟
یہ میرا ذاتی خیال ہے کہ ۔۔۔ ہمارے عہد کے چند نامور اور مقبول علماء و فضلاء نے "الولاء والبراء" کے موضوع کو غیرضروری تشدد کے ساتھ پیش کیا ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ یہاں سعودی عرب میں ایسی چند کتب پر حکومت کی طرف سے پابندی بھی لگائی گئی ہے۔ اسی وجہ سے میں نے اپنے اس مراسلے میں یوں لکھا تھا :
اگر کوئی اسلامی شخصیات کو چھوڑ کر غیر مسلموں کے اقوال کو پیش کرتا ہو تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہوتا کہ ایسا فعل ناقل کی اس غیرمسلم سے محبت اور عقیدت کی علامت ہے یا وہ جان بوجھ کر اسلامی شخصیات کو نظرانداز کر رہا ہے۔
اقوال کی پیشکشی کی بہت ساری وجوہات ممکن ہوتی ہیں۔ کبھی یوں ہوتا ہے کہ طالب علم کے اپنے میدانِ مطالعہ میں کثرت سے ایسے ہی اقوال چلے آتے ہیں اور کبھی یوں کہ طلبا و اساتذہ ، شرعی نظریات سے غیرمتصادم ایسے اقوال کی پیشکشی کے ذریعے دانستہ یا نادانستہ یہ جتانا چاہتے ہیں کہ ایسے پند و نصائح تو اسلام برسوں قبل پیش کر چکا ہے۔
ونیز اگر کسی غیرمسلم کا ناصحانہ قول اسلامی عقائد و عبادات سے متصادم نہ ہو تو کیا اسے "قولِ زریں" نہیں کہا جائے گا؟
۔۔۔۔ اور حکمت یہ ہے کہ علم و ادب کی انسانی سطح پر مساوایانہ سلوک روا رکھا جائے۔ جب اچھی بات کی تائید کرنے کے بجائے غیر مسلم دانشوران کو یکسر نظرانداز کیا جائے گا یا انہیں نچلے درجے کے انسان باور کرایا جائے گا تو ایسے ہی غلط رویہ پر مخالفین یا روشن خیال و تجدد نواز ، اسلام نوازوں اور مبلغین کرام کو سخت مزاج اور تنگ نظر متشدد کا طعنہ دیتے نظر آتے ہیں۔
جبکہ اللہ تعالیٰ نے امت مسلمہ کو "امت وسط" یعنی درمیانی امت قرار دیا ہے اور یوں دو کمتر رویوں کے بیچ فضیلت و برتری والا رویہ اعتدال یا میانہ روی کہلاتا ہے۔