• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

۔ قرآن مجید میں تحریف نہیں ہوئی ہے

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
مال تو ایک ہی ہے صرف بانٹ الگ الگ ہیں
مال ہی الگ ہے، دیکھ لیں آپ نے خود اس بات کااقرارکردیا کہ حکم باقی اور تلاوت منسوخ کے اپ قائل نہیں!!یہ ہے مال ميں فرق ہونے کا ایک ثبوت!!
یہ تخیلاتی سوال بھی امی عائشہ کے تخیل سے پیدا ہوا ہے آپ فرماتی ہیں کہ

عن عائشةَ أمِّ المؤمنينَ قالَتْ :لقد نزلَتْ آيةُ الرجمِ والرضاعةُ فكانَتا في صحيفةٍ تحتَ سريرٍ فلمَّا ماتَ رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليْهِ وسلَّمَ تشاغلْنا بموتِهِ فدخلَ داجنٌ فأكلَها
الراوي : القاسم بن محمد و عمرة |المحدث : ابن حزم | المصدر : المحلى
الصفحة أو الرقم: 11/235 |خلاصة حكم المحدث : صحيح
اور
الراوي : عائشة أم المؤمنين | المحدث :الألباني | المصدر : صحيح ابن ماجه
الصفحة أو الرقم: 1593 | خلاصة حكم المحدث : حسن

یعنی اس صحیح روایت میں امی عائشہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال سے پہلے تک تو آیت رجم اور بڑے آدمی کو دودھ پلانے کی آیات پلنگ کے نیچے ایک صحیفے پر لکھی ہوئی پڑی تھیں لیکن جب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تجھیز و تکفین میں مصروف تھے تو یہ آیات ایک بکری کھا گئی
اورجہاں تک بات ہے ناسخ و منسوخ کی تو اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ایک قاعدہ بیان فرمایا ہے
ہم کسی آیت کو منسوخ کرتے ہیں یا بھلا دیتے ہیں تو اس سے بہتر یا اس جیسی لاتے ہیں۔
سورہ بقر : 106
یعنی کسی آیت کے منسوخ ہونے کے تین قاعدے اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائے ہیں
1۔ منسوخ کی گئی آیت کو اللہ بھلادیتا
2۔ منسوخ کی گئی آیت سے بہترآیت قرآن میں نازل کی جاتی ہے
3۔ یا ایسی جیسی آیت قرآن میں نازل کی جاتی ہے

آئیں ان قواعد کا جائزہ لیتے ہیں
1۔ کیا آیت رجم بھلادی گئی تھی
نہیں آیت رجم حضرت عمر کو یاد تھی اور اس کی تلاوت اس طرح کیا کرتے تھے

الشيخوالشيخة إذا زنيا فارجموهما ألبتة نكالا من الله والله عزيز حكيم


یعنی قرآن کی آیت کے پہلے قاعدے کے مطابق آیت رجم بھلائی نہیں گئی تھی
ایسی لئے حضرت عمر کا قول صحیح بخاری میں ہے جس کا مفہوم یہ کہ
"اگر مجھے لوگوں کا ڈر نہیں ہوتا تو میں آیت رجم کو اپنے ہاتھ سے قرآن میں لکھ دیتا "
قاعدہ

2۔ منسوخ کی گئی آیت سے بہترآیت قرآن میں نازل کی جاتی ہے
اب کوئی مجھے یہ بتادے کہ آیت رجم سے بہتر کون سی آیت قرآن مجید میں نازل کی گئی لیکن ظاہر ہے اگر آیت رجم سے بہترکوئی آیت قرآن میں ہوتی تو حضرت عمر کے تخیل میں جو آیت رجم تھی ایسے قرآن میں اپنے ہاتھ سے لکھنے کی بات نہیں کرتے

قاعدہ

3۔ یا ایسی جیسی آیت قرآن میں نازل کی جاتی ہے
اب کوئی مجھے یہ بتادے کہ آیت رجم جیسی کون سی آیت قرآن مجید میں نازل کی گئی لیکن ظاہر ہے اگر آیت رجم جیسی کوئی آیت قرآن میں ہوتی تو حضرت عمر کے تخیل میں جو آیت رجم تھی ایسے قرآن میں اپنے ہاتھ سے لکھنے کی بات نہیں کرتے
یہ آپ کا تخیل مذکورہ روایت کو کی فہم باطل کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے! اس روایت میں یہ کہاں لکھا ہے کہ جس اس وقوع سے قبل یہ آیات منسوخ نہ تھی؟
لہذا آپ کا یہ تخیل تو تخیل ہی رہا یہ روایت تو اس کی دلیل نہیں بن سکی!!
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
مال ہی الگ ہے، دیکھ لیں آپ نے خود اس بات کااقرارکردیا کہ حکم باقی اور تلاوت منسوخ کے اپ قائل نہیں!!یہ ہے مال ميں فرق ہونے کا ایک ثبوت!!
مال تو ایک ہی یعنی قرآن لیکن بانٹ الگ الگ ہیں
میں نے کہاں اقرار کیا حکم باقی اور تلاوت منسوخ کا میں قائل نہیں میں نے تو اب تک صرف اس پر دلیل کا مطالبہ ہی کیا لیکن میرا خیال دلیل کوئی نہیں اگر ہے تو ارشاد فرمائیں

یہ آپ کا تخیل مذکورہ روایت کو کی فہم باطل کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے! اس روایت میں یہ کہاں لکھا ہے کہ جس اس وقوع سے قبل یہ آیات منسوخ نہ تھی؟
لہذا آپ کا یہ تخیل تو تخیل ہی رہا یہ روایت تو اس کی دلیل نہیں بن سکی!!
اگر امی عائشہ کے اس تخیل میں یہ کہیں ذکر نہیں کہ اس وقوع سے پہلے یہ آیات منسوخ نہیں تھی تو معاف کیجئے گا اس تخیل میں یہ بھی کہیں ذکر نہیں اس وقوع سے قبل یہ آیات منسوخ ہوچکی تھیں یا شاید میری ضعف نظر کی وجہ سے مجھے نظر نہیں آئی اس لئے میں آپ سے درخواست کرتا ہوں اس وقوع سے قبل یہ آیات منسوخ ہونے کی بات آپ نے اس روایت کے کن الفاظ سے اخذ فرمائی ہے نشاندہی فرمادیں شکریہ
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
مال تو ایک ہی یعنی قرآن لیکن بانٹ الگ الگ ہیں
جناب نے بانٹ کو مال اور اور مال کو بانٹ قرار دے دیا!
جناب من! بانٹ پیمانہ ہوا کرتا ہے!! آپ تو قرآن کو بھی پیمانہ ماننے کو تیار نہيں!! اور پیمانوں یعنی بانٹ سے کسی نظریات و افکار یعنی مال کو تولا جاتا ہے!!

میں نے کہاں اقرار کیا حکم باقی اور تلاوت منسوخ کا میں قائل نہیں میں نے تو اب تک صرف اس پر دلیل کا مطالبہ ہی کیا لیکن میرا خیال دلیل کوئی نہیں اگر ہے تو ارشاد فرمائیں
چليں خیر سے آپ قائل ہیں! مگر شعیہ روافضہ قائل نہیں ہین!! اور اگر یاد ہو تو میں نے یہی عرض کیا تھا!!
اس زمرے کی مراسلہ نمبر 05 ملاحضہ فرمائیں!

اگر امی عائشہ کے اس تخیل میں یہ کہیں ذکر نہیں کہ اس وقوع سے پہلے یہ آیات منسوخ نہیں تھی تو معاف کیجئے گا اس تخیل میں یہ بھی کہیں ذکر نہیں اس وقوع سے قبل یہ آیات منسوخ ہوچکی تھیں یا شاید میری ضعف نظر کی وجہ سے مجھے نظر نہیں آئی اس لئے میں آپ سے درخواست کرتا ہوں اس وقوع سے قبل یہ آیات منسوخ ہونے کی بات آپ نے اس روایت کے کن الفاظ سے اخذ فرمائی ہے نشاندہی فرمادیں شکریہ
ہم نے کب یہ کہا ہے کہ اس حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آیت رجم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں منسوخ ہوئی!!
یہ حدیث تو آپ نے اپنے دعوی میں پیش کی تھی کہ اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ آیت رجم وفات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد منسوخ ہوئی!!
مگر آپ کا دعوی اس حدیث سے ثابت نہیں ہوا!!
جناب من! اس حدیث سے تو آیت رجم کے منسوخ ہونے کا بھی اثبات نہیں ہوتا!! اور آیت رجم کے منسوخ میں ہونے میں بھی یہ ہماری دلیل نہیں!! فتدبر!!
 
Last edited:

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
میں نے کہاں اقرار کیا حکم باقی اور تلاوت منسوخ کا میں قائل نہیں میں نے تو اب تک صرف اس پر دلیل کا مطالبہ ہی کیا لیکن میرا خیال دلیل کوئی نہیں اگر ہے تو ارشاد فرمائیں
چليں خیر سے آپ قائل ہیں! مگر شعیہ روافضہ قائل نہیں ہین!! اور اگر یاد ہو تو میں نے یہی عرض کیا تھا!!
اور میرے خیال میں آپ تو نہیں مگر وہابیہ بھی قرآن و حدیث سے کم دلیل پر ماننے والے نہیں اس لئے میں نے اپنے لئے نہیں بلکہ وہابیہ نجدیا کے لئے " حکم باقی اور تلاوت منسوخ " والے فلسفے کی دلیل مانگی تھی مگر لگتا ہے دلیل آپ کے پاس بھی نہیں خیر کوئی بات نہیں کسی کے پاس تو ہوگی وہی آکر پیش کردے گا


ہم نے کب یہ کہا ہے کہ اس حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آیت رجم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں منسوخ ہوئی!!
یہ حدیث تو آپ نے اپنے دعوی میں پیش کی تھی کہ اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ آیت رجم وفات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد منسوخ ہوئی!!
مگر آپ کا دعوی اس حدیث سے ثابت نہیں ہوا!!
جناب من! اس حدیث سے تو آیت رجم کے منسوخ ہونے کا بھی اثبات نہیں ہوتا!! اور آیت رجم کے منسوخ میں ہونے میں بھی یہ ہماری دلیل نہیں!! فتدبر!!
یہ تو میں پہلے ہی ثابت کرچکا کہ قرآن میں بیان ہوئے آیات کے ناسخ و منسوخ کے قاعدہ پر آیت رجم پوری نہیں اترتی اس زمرے کی مراسلہ نمبر 28 ملاحظہ فرمائیں!
پھر کس بناء پر ایسے منسوخ مانا جاتا ہے ؟؟
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اور میرے خیال میں آپ تو نہیں مگر وہابیہ بھی قرآن و حدیث سے کم دلیل پر ماننے والے نہیں اس لئے میں نے اپنے لئے نہیں بلکہ وہابیہ نجدیا کے لئے " حکم باقی اور تلاوت منسوخ " والے فلسفے کی دلیل مانگی تھی مگر لگتا ہے دلیل آپ کے پاس بھی نہیں خیر کوئی بات نہیں کسی کے پاس تو ہوگی وہی آکر پیش کردے گا
آپ حکم باقی اور تلاوات منسوخ کے قائل ہیں یا نہیں؟؟
یہ تو میں پہلے ہی ثابت کرچکا کہ قرآن میں بیان ہوئے آیات کے ناسخ و منسوخ کے قاعدہ پر آیت رجم پوری نہیں اترتی اس زمرے کی مراسلہ نمبر 28 ملاحظہ فرمائیں!
پھر کس بناء پر ایسے منسوخ مانا جاتا ہے ؟؟
آپ نے جو قاعدہ وہاں بیان کیا ہے وہ مکمل نہیں!! ایک بات!
دوسری بات کہ موضوع یہاں تحریف القرآن ہے، ناسخ و منسوخ نہیں!!
ناسخ منسوخ پر ہمارا مؤقف واضح ہے کہ ، کہ نسخ کی ایک قسم حکم باقی تلاوت منسوخ کی بھی ہے!! لہذا اگر اس پر اعتراض ہے تو دوسرے زمرے میں اس پر بحث کی جا سکتی ہے!!
ویسے اب تک باقر مجلسی کی عبارت پر آپ کا کوئی تبصرہ نہیں آیا!!
 
Last edited:

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
طلحہ خان بھائی! اس طرح کی تحریر کا مخزن ضرور بیان کیا کریں
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
آپ حکم باقی اور تلاوات منسوخ کے قائل ہیں یا نہیں؟؟
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
میں نے تو پہلے ہی مان لیا ہے حکم باقی تلاوت منسوخ کی آپ کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے لہذا اس بات کو یہی پر رہنے دیں اور جب کوئی صاحب اس کی دلیل عنایت فرمادیں تو پھر اس پر بات کر لیتے ہیں
آپ نے جو قاعدہ وہاں بیان کیا ہے وہ مکمل نہیں!! ایک بات!
دوسری بات کہ موضوع یہاں تحریف القرآن ہے، ناسخ و منسوخ نہیں!!
اگر یہ قاعدہ مکمل نہیں تو آپ سے گذارش ہے کہ مکمل قاعدہ ناسخ و منسوخ کا بیان فرمادیں
اور جہاں تک بات ہے ناسخ و منسوخ اور تحریف القرآن کی تو عرض ہے کہ اگر تحریف القرآن سنی کتب حدیث سے ثابت ہو تو ایسے ناسخ و منسوخ کہہ دیا جائے اور اگر ناسخ و منسوخ شیعہ کتب حدیث سے ثابت ہو تو اس کو تحریف القرآن کہا جائے جہاں اس طرح کے قاعدے رائج ہوں وہاں صحیح بات تک کون پہنچ سکتا ہے
جیسے کہا جاتا ہے کہ
حضرت عبد اللہ بن مسعود سے متعدد روایتوں میں یہ بات منقول ہوئی ہے کہ وہ معوذتین یعنی سورہ الفلق اور سورہ الناس کو قرآن کی سورتیں نہیں مانتے تھے اور اپنے مُصُحف سے اُنہوں نے اِن کو ساقط کردیا تھا لیکن فی زمانہ یہ قرآن میں شامل ہیں جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد پاک کا مفہوم ہے کہ "قرآن سیکھنا ہے تو عبد اللہ بن مسعود سے سیکھو " لیکن عبداللہ بن مسعود معوذتین کو قرآن نہیں مانتے!!!
لیکن اب اس کو کیا کہا جائے گا تحریف القرآن یا ناسخ و منسوخ ؟؟؟
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
میں نے تو پہلے ہی مان لیا ہے حکم باقی تلاوت منسوخ کی آپ کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے لہذا اس بات کو یہی پر رہنے دیں اور جب کوئی صاحب اس کی دلیل عنایت فرمادیں تو پھر اس پر بات کر لیتے ہیں
جناب! کیوں رہنے دیں، قائل میں بھی قائل آپ بھی، میری دلیل تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی آیت رجم والی حدیث، آپ متفق ہوں یا نہ ہوں!! آپ کی دلیل کیا ہے؟ اپنی دلیل بیان کریں!
اگر یہ قاعدہ مکمل نہیں تو آپ سے گذارش ہے کہ مکمل قاعدہ ناسخ و منسوخ کا بیان فرمادیں
اور جہاں تک بات ہے ناسخ و منسوخ اور تحریف القرآن کی تو عرض ہے کہ اگر تحریف القرآن سنی کتب حدیث سے ثابت ہو تو ایسے ناسخ و منسوخ کہہ دیا جائے اور اگر ناسخ و منسوخ شیعہ کتب حدیث سے ثابت ہو تو اس کو تحریف القرآن کہا جائے جہاں اس طرح کے قاعدے رائج ہوں وہاں صحیح بات تک کون پہنچ سکتا ہے
جناب شعیہ کتب سے جو بات ہم پیش کرتے ہیں وہ شعیہ رافضی علماء کیسے باقر مجلسی خمینی، ان کی صراحت کے ساتھ پیش کرتے ہیں کہ یہ ناسخ منسوخ نہیں بلکہ تحریف القرآن کا معاملہ ہے، جیسے باقر مجلسی کی کا کلام پیش کیا تھا، ایک بار پھر پیش خدمت ہے، اور اس پر جواب ہنوز نہ دارد!
مرآة العقول »» ملا باقر المجلسي (1111 ھ)
(الحديث الثامن و العشرون)

موثق. و في بعض النسخ عن هشام بن سالم موضع هارون بن مسلم، فالخبر صحيح و لا يخفى أن هذا الخبر و كثير من الأخبار الصحيحة صريحة في نقص القرآن و تغييره، و عندي أن الأخبار في هذا الباب متواترة معنى، و طرح جميعها يوجب رفع الاعتماد عن الأخبار رأسا بل ظني أن الأخبار في هذا الباب لا يقصر عن أخبار الإمامة فكيف يثبتونها بالخبر.

مرآة العقول في شرح أخبار آل الرسول - العلامة محمد باقر المجلسي –مجلد 12 صفحه525



قابل اعتماد ہے اصول کافی کے بعض نسخوں میں ہشام بن سالم کی جگہ ہارون بن مسلم کا نام ہے۔ پس یہ حدیث صحیح ہے اور بات واضح رہے کہ بلا شبہ یہ حدیث اور بہت سی دوسری احادیث جو صراحتا قرآن میں کمی اور تبدیلی پر دلالت کرتی ہیں میرے نزدیک یہ تحریف کے باب میں معنا متواتر ہیں ۔ اور ان سب کا انکار کرنے سے ذخیرہ احادیث سے اعتماد ختم ہوگا۔ بلا شبہ اس باب (یعنی تحریف القرآن) کی روایات امامت کی روایات سے کم نہیں ہیں (ان روایات تحریف القرآن کا انکار کردیا جائے ) تو عقیدہ امامت حدیث سے کس طرح ثابت ہوگا۔
فإن قيل: إنه يوجب رفع الاعتماد على القرآن لأنه إذا ثبت تحريفه ففي كل آية يحتمل ذلك و تجويزهم عليهم السلام على قراءة هذا القرآن و العمل به متواتر معلوم إذ لم ينقل من أحد من الأصحاب أن أحدا من أئمتنا أعطاه قرانا أو علمه قراءة، و هذا ظاهر لمن تتبع الأخبار،
اگر یہ کہا جائے کہ اس سے لازم آتا ہے کہ قرآن سے اعتماد ختم ہو جائے، کیونکہ جب قرآن میں تحریف ثابت ہے تو اس کی ہر ہر آیت میں تحریف کا احتمال ہے، اور ائمہ علیہ السلام نے اس قرآن کی قراءت کو تجويز کیا ہے، اور اسی قرآن پر متواتر عمل ہے معلوم ہے، ہمارے کسی ایک امام کے بھی کسی بھی صاحب نے یہ نقل نہیں کیا کہ انہیں امام نے قران دیا ہو ، یا قراءت سکھلائی ہو، اور ہم اسی ظاہر اخبار کی اتباع کرتے ہیں۔
جیسے کہا جاتا ہے کہ
حضرت عبد اللہ بن مسعود سے متعدد روایتوں میں یہ بات منقول ہوئی ہے کہ وہ معوذتین یعنی سورہ الفلق اور سورہ الناس کو قرآن کی سورتیں نہیں مانتے تھے اور اپنے مُصُحف سے اُنہوں نے اِن کو ساقط کردیا تھا لیکن فی زمانہ یہ قرآن میں شامل ہیں جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد پاک کا مفہوم ہے کہ "قرآن سیکھنا ہے تو عبد اللہ بن مسعود سے سیکھو " لیکن عبداللہ بن مسعود معوذتین کو قرآن نہیں مانتے!!!
لیکن اب اس کو کیا کہا جائے گا تحریف القرآن یا ناسخ و منسوخ ؟؟؟
کہا جانے کا کیا ہے! کوئی کچھ بھی کہتا رہے، بات دلیل کی ہے، عبد اللہ بن مسعود سے کے متعلق یہ کہنا کہ کہ وہ معوذتین کو قرآن نہیں مانتے تھے ثابت ہی نہیں!!
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اگر یہ قاعدہ مکمل نہیں تو آپ سے گذارش ہے کہ مکمل قاعدہ ناسخ و منسوخ کا بیان فرمادیں
علیحدہ تھریڈ میں سوال کر لیں!
 
Top