• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

۲... واسطوں پر بھروسا۔ نواقض اسلام۔ ڈاکٹر شفیق الرحمن

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
اگر صحیح مسلم کی حدیث سے یہ مطلب نکلتا ہے کہ نبی کی ہر دعا قبول نہیں ہوتی تو پھر الجامع الصغير اور مجمع الزوائد کی احادیث کو جعلی مانا پڑے گا
اسی لئے تو عرض کیا ہے کہ كل نبي مجاب والی حدیث ضعیف ہے۔

آپ اسے صحیح کہتے ہیں تو قرآن کریم کی آیات کریمہ جن کی طرف محمد علی جواد بھائی نے اشارہ کیا ہے جن میں انبیاء کرام میں بعض دعاؤں کو قبول نہیں کیا گیا اور اسی طرح صحیح مسلم کی حدیث مبارکہ کا جواب آپ کو دینا ہوگا۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
اس سوال کا جواب دیا جاچکا ہے لیکن ایک بار پھر آپ کی خدمت میں عرض کئے دیتا ہوں
اس دھاگہ کا عنوان ہے
واسطوں پر بھروسا۔ نواقض اسلام
اس مضمون میں ہر قسم کے واسطوں اور وسیلوں کو ناجائز کہا گیا ہے لیکن پھر درج ذیل واسطے یا وسیلے جائز ہونے کا اقرار کرکے خود ہی اس مضمون کا رد کردیا گیا
1۔ اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ اور صفات کاملہ کے ذریعے سے دعا کرنا۔
2۔ اپنے اعمال صالحہ کے وسیلے سے اللہ تعالیٰ سے دعا کرنا ۔
3۔ کسی زندہ و نیک انسان سے دعا کروانا
تین وسیلے یا واسطوں کو بلا چوں وچرا تسلیم کرکے خود ہی اس دھاگہ کا رد کردیا گیا اور یہ تسلیم کرلیا گیا کہ ہر قسم کے واسطے نقائص اسلام نہیں آئیں اب ان تیں صورتوں کا جائزہ لیتے ہیں جو کہ جائز ہیں اور ان کا موازنہ ان وسیلہ کی ان صورتوں سے کرتے ہیں جو کہ صرف کچھ سلفیوں کے نزدیک ناجائز ہے اور ان سے اسلام میں نقص آجاتا ہے ؎
اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ اور صفات کاملہ کے ذریعے سے دعا کرنا۔
یہ ایک ایسا نکتہ ہے جس میں کسی بھی مسلمان کو اعترض نہیں مگر کمال کی بات یہ کہ اس مضمون میں اس کا بھی ذکر نہیں کیا گیا کہ اس اس واسطے سے دعا کرنے سے اسلام میں نقص پیدا نہیں ہوتا​
اپنے اعمال صالحہ کے وسیلے سے اللہ تعالیٰ سے دعا کرنا ۔
یعنی یہ کہ اپنے جن اعمال کے بارے میں یہ گمان رکھتا ہوں کہ یہ میرا نیک عمل ہے ان کا واسطہ دے کر اللہ سے دعا کرسکتا ہوں جبکہ مجھے نہیں معلوم کہ اپنے جن اعمال کو میں صالح گمان کررہا ہوں وہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں مقبول ہیں یا پھر یہ اعمال اللہ تعالیٰ میرے منہ پر مار دے گا اب ایک غیر یقنی بات کس طرح اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں مقبول ہوسکتی ہے ؟
کسی زندہ و نیک انسان سے دعا کروانا
اس عقیدے میں بھی یہی بات کہ جس زندہ نیک انسان کو میں اپنے گمان میں نیک سمجھ رہا ہوں کیا واقع میں وہ نیک ہے یہ بھی کوئی یقینی بات نہیں کیونکہ مجھے نہیں معلوم کہ میں جس کو نیک سمجھ رہا ہوں اس کا خاتمہ ایمان پر ہوگا یا نہیں ؟​
آئیں اب میں آپ کو ایک ایسے وسیلے کی طرف دعوت دیتا ہوں جو آپ کے عقائد کے مطابق بھی یقینی امر ہے وہ ہے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات گرامی قدر جن کے بارے میں ہر مسلمان کا ایمان کی حد تک یقین ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات گرامی قدر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں سب سے ذیادہ مقبول ہے
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے حبیب کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صدقے ہمیں دین کی سمجھ عطاء کرے آمین​
اب میرے سوال کا جواب جو کہ آپ لوگوں پر ادھار ہے اس کا بھی جواب عنایت فرمادیں​

پیچھے عرض کر چکا ہوں کہ یہ آیت منسوخ نہیں ہے، اسی لئے سیدنا عمر﷜ نے سیدنا عباس﷜ سے دُعا کرائی اور کسی نے بھی بشمول سیدنا علی﷜ کے اس کا انکار نہیں کیا۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
اور اگر جب وہ اپنی جانوں پر ظلم کریں تو اے محبوب تمہارے حضور حاضر ہوں اور پھر اللہ سے معافی چاہیں اور رسول ان کی شفاعت فرمائے تو ضرور اللہ کو بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں
اگر آپ کی مراد اس آیت کریمہ سے جس کا ترجمہ اوپر پیش کیا گیا تو اس آیت کو تو خود اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کے لئے خاص کردیا ہے یہ فرما کر کہ " رسول ان کی شفاعت فرمائے تو ضرور اللہ کو بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں گے"
جس طرح آپ نے اس آیت کو تمام نیک بزرگوں کے لئے عام کردیا اس سے تو یہی معلوم ہوتا ہے آپ ختم نبوت کے قائل نہیں کیونکہ اس آیت میں اللہ کا فرمان ہے کہ جو لوگ اپنی جانوں پر ظلم کریں تو رسول کی بارگاہ میں حاضر ہوں اور پھر اللہ سے معافی چاہیں اور رسول ان کی شفاعت فرمائے تو ضرور اللہ کو بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں
اس آیت کو تمام نیک بزرگوں کے لئے مان کر کہیں آپ نے ان نیک بزرگوں کو رسول تو نہیں مان لیا ؟؟؟؟؟؟؟
سبحان اللہ! قرآن کریم کے اکثر خطابات نبی کریمﷺ سے ہی ہیں کیا وہ دیگر امت کیلئے نہیں؟؟؟
مثلاً
﴿ يـٰأَيُّهَا النَّبِىُّ إِذا طَلَّقتُمُ النِّساءَ فَطَلِّقوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ وَأَحصُوا العِدَّةَ ۖ وَاتَّقُوا اللَّـهَ رَ‌بَّكُم ۖ لا تُخرِ‌جوهُنَّ مِن بُيوتِهِنَّ وَلا يَخرُ‌جنَ إِلّا أَن يَأتينَ بِفـٰحِشَةٍ مُبَيِّنَةٍ ۚ وَتِلكَ حُدودُ اللَّـهِ ۚ وَمَن يَتَعَدَّ حُدودَ اللَّـهِ فَقَد ظَلَمَ نَفسَهُ ۚ لا تَدر‌ى لَعَلَّ اللَّـهَ يُحدِثُ بَعدَ ذٰلِكَ أَمرً‌ا ١ ﴾ ... سورة الطلاق ... وغيرها من الآيات

کسی بھی آیت وحدیث یا حکم کو نبی کریمﷺ سے مخصوص کرنے کیلئے الگ سے دلیل کی ضرورت ہوتی ہے۔ آپ دلائل سے ثابت کریں کہ یہ آیت کریمہ نبی کریمﷺ کے ساتھ خاص ہے؟!

یہ آیت کریمہ منسوخ نہیں ہے ، نہ ہی نبی کریمﷺ کے ساتھ خاص ہے۔ تمام صحابہ کرام﷢ کا موقف یہی ہے کہ بقید حیات بزرگ کے پاس جا کر اس سے دعا کرائی جا سکتی ہے۔ اسی لئے تو اسی آیت کریمہ کے پیش نظر سیدنا عمر﷜ نے سیدنا عباس﷜ کے پاس جا کر ان سے دُعا کرائی تھی اور کسی ایک صحابی نے بھی ان کی تردید نہیں کی۔
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
اگر یہ الہام صحابہ پر ہوا کہ یہ آیت منسوخ ہوچکی ہے تو پھر اس کی دلیل بھی قول صحابہ سے عنایت فرمادیجئے جس میں یہ الفاظ بھی ہوں کہ مجھے یہ الہام ہوا
کیونکہ آیت قرانی کی ناسخ و منسوخ کا قاعدہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں کچھ اس طرح ذکر کیا ہے
ہم اپنی جس آیت کو منسوخ کردیتے ہیں یا بھلا دیتے ہیں، اس کی جگہ اس سے بہتر لاتے ہیں یا کم از کم ویسی ہی۔ کیا تم جانتے نہیں ہو کہ اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے
سورہ البقرہ 106
اب آپ یہ بتائیں کہ اگر یہ آیت منسوخ ہے تو اس کو نسخ کرنے والی آیت کون سے صحابی پر نازل ہوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد

کیونکہ میرے علم میں ہے کہ علامہ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ پورے قرآن میں کل انیس آیتیں منسوخ ہیں۔
(الاتقان ،علامہ سیوطی:۲،۲۲)
اور حضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی صرف پانچ آیتوں میں منسوخ تسلیم کیا ہے
(علوم القرآن:۱۷۲)
اب نہ علامہ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ کی انیس منسوخ آیات میں یہ آیت ہے نہ شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی کی منسوخ پانچ آیات میں یہ آیت ہے
دوسری بات یہ کہ قرآن میں تبدیلی کا اختیار جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی نہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد قرآنی آیت کی منسوخی کا اختیار صحابہ کو کس طرح حاصل ہوگیا
کیا یہ غلو کی بدترین مثال نہیں

مولانا نعیم الدین مرادآبادی اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ

اس سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں گستاخی کرنا قبیلہ بنی تمیم کی بہت پرانی عادت ہے !!!!
اگر تو یہ آیت اب قابل عمل نہیں تو پھر صحابہ نے اس آیت کو قرآن سے خارج کیوں نہیں کردیا جس کا کے آپ کے عقیدے کے مطابق ان کو اختیار تھا !!!!!
اگر یہ آیت اب قابل عمل نہیں تو قرآن و حدیث کی دلیل سے پہلے ثابت کیجئے ۔
اس کی منسوخی کے لئے یہی بات کافی ہے کہ کسی صحابی بشمول اہل بیت نے نبی کریم صل الله علیہ وسلم کی وفات کے بعد نا تو آپ کے وسیلے سے دعا کی اور نا آپ کے روضہ مبارک پر آکر مغفرت کی درخواست کی - اس آیت پر منسوخی کا عمل نبی کرم صل الله علیہ وسلم کی وفات کے ساتھ ہی ثابت ہو گیا - جس کا ثبوت یہ ہے کہ اصحاب رسول صل الله علیہ وسلم کے روضہ مبارک پرحاضری چاہے وہ مغفرت کے لئے ہو یا استعانت کے لئے - ثابت نہیں -

اگر آپ اس کو منسوخ نہیں سمجھتے تو تاریخی اعتبار سے اصحاب رسول صل الله علیہ وسلم کی روضہ پر حاضری ثابت کردیں -سوره البقرہ آیت ١٠٦ میں آیت کی منسوخی کا ذکر ان احکامات سے متعلق ہے جو نبی کرم صل الله علیہ وسلم کی زندگی میں بدریج نازل ہوتے رہے -

اور میرا یہ سوال کہ پھر سوره الحجرات کی آیت ٤ کے حکم کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟؟؟ دور حاضر میں اس کا حکم کس طرح مسلمانوں پر لگایا جا سکتا ہے ؟؟؟

تو آپ نے اسے قبیلہ بنی تمیم کی حرکت سے منسوب کردیا. جب کہ سوره الحجرات کی گلی آیت میں ٥ میں الله کا فرمان ہے -


وَلَوْ أَنَّهُمْ صَبَرُوا حَتَّىٰ تَخْرُجَ إِلَيْهِمْ لَكَانَ خَيْرًا لَهُمْ ۚ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ سوره الحجرات ٥
اور اگر وہ صبر کرتے یہاں تک کہ آپ ان کے پاس سے نکل کر آتے تو ان کے لیے بہتر ہوتا اور الله بخشنے والا نہایت رحم والا ہے

اب اس آیت "وَلَو أَنَّهُم إِذ ظَلَموا أَنفُسَهُم جاءوكَ فَاستَغفَرُ‌وا اللَّـهَ وَاستَغفَرَ‌ لَهُمُ الرَّ‌سولُ لَوَجَدُوا اللَّـهَ تَوّابًا رَ‌حيمًا ٦٤ ﴾ ... سورة النساء
اور اگر یہ لوگ جب انہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا تھا، تیرے پاس آ جاتے اور اللہ تعالیٰ سے استغفار کرتے اور رسول بھی ان کے لئے استغفار کرتے، تو یقیناً یہ لوگ اللہ تعالیٰ کو معاف کرنے والا مہربان پاتے (64)



کے اصول کا تحت تو سوره الحجرات کی آیت ٥ کا دور حاضر میں اس بات کا امکان بھی ہونا چاہیے کہ نبی کریم صل الله علیہ وسلم دوبارہ اس دنیا میں بذات خود تشریف لا سکتے ہیں- آیت کے الفاظ حَتَّىٰ تَخْرُجَ إِلَيْهِمْ ترجمہ: آپ ان کے پاس سے نکل کر آتے-

کیا اس آیت کے تحت نبی کریم صل الله علیہ وسلم کبھی دوبارہ تشریف لاے یا لا سکتے ہیں ؟؟ یعنی پھر تو یہ آیت بھی منسوخ نہیں -

کیاکہتے ہیں آپ ؟؟
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
اس دھاگہ میں مزید بات جاری رکھنا اب مناسب نہیں کیونکہ اس دھاگہ میں تمام واسطوں اور وسیلہ کو نواقض اسلام کہا گیا ہے بغیر کیسی اشتثناء کے لیکن پھر ثار قسم کے واسطوں کو جائز بھی مان لیا گیا اور خود ہی اس اس مضمون کا رد کردیا گیا
ان چار واسطوں اور وسیلوں میں سے تین واسطوں کو میں غیر یقینی ثابت کرچکا
مثلا
اپنے نیک اعمال کا واسطہ جو کہ ایک غیر یقینی امر ہے کیونکہ مجھے نہیں معلوم کہ میرے نیک اعمال اللہ کی بارگاہ میں مقبول ہیں یا مردود جب غیر یقینی امر کا واسطہ جائز ہوسکتا ہے تو پھر ایک یقینی امر کہ جس پر ایمان کی حد تک یقین ہے وہ کس بناء پر ناجائز ہوسکتا ہے
سلام
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
اس دھاگہ میں مزید بات جاری رکھنا اب مناسب نہیں کیونکہ اس دھاگہ میں تمام واسطوں اور وسیلہ کو نواقض اسلام کہا گیا ہے بغیر کیسی اشتثناء کے لیکن پھر ثار قسم کے واسطوں کو جائز بھی مان لیا گیا اور خود ہی اس اس مضمون کجب ا رد کردیا گیا
ان چار واسطوں اور وسیلوں میں سے تین واسطوں کو میں غیر یقینی ثابت کرچکا
مثلا
اپنے نیک اعمال کا واسطہ جو کہ ایک غیر یقینی امر ہے کیونکہ مجھے نہیں معلوم کہ میرے نیک اعمال اللہ کی بارگاہ میں مقبول ہیں یا مردود جب غیر یقینی امر کا واسطہ جائز ہوسکتا ہے تو پھر ایک یقینی امر کہ جس پر ایمان کی حد تک یقین ہے وہ کس بناء پر ناجائز ہوسکتا ہے
سلام
وسیلے کی تین صورتیں جائز ہیں:
1 . اللہ سے دُعا مانگتے ہوئے انہیں ان کی صفات کا واسطہ دینا۔
اس کے سينکڑوں دلائل ہیں۔ کوئی اس کاانکار نہیں کر سکتا۔ فرمانِ باری ہے:
﴿ وَقُل رَ‌بِّ اغفِر‌ وَار‌حَم وَأَنتَ خَيرُ‌ الرّٰ‌حِمينَ ١١٨ ﴾ ... سور ة المؤمنون
اور کہو کہ اے میرے رب! تو بخش اور رحم کر اور تو سب مہربانوں سے بہتر مہربانی کرنے والا ہے۔ (118)

2. اللہ سے دُعا مانگتے ہوئے اپنے نیک اعمال کا وسیلہ پیش کرنا۔ اس کے بہت سارے دلائل ہیں، مثلاً فرمانِ باری ہے:
﴿ رَ‌بَّنا إِنَّنا ءامَنّا فَاغفِر‌ لَنا ذُنوبَنا وَقِنا عَذابَ النّارِ‌ ١٦ ﴾... سورة آل عمران
اے ہمارے رب! ہم ایمان لاچکے اس لئے ہمارے گناه معاف فرما اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا (16)

3. کسی نیک زندہ بزرگ کے پاس جا کر ان سے دُعا کرانا۔ فرمانِ باری ہے:
﴿ وَلَو أَنَّهُم إِذ ظَلَموا أَنفُسَهُم جاءوكَ فَاستَغفَرُ‌وا اللَّـهَ وَاستَغفَرَ‌ لَهُمُ الرَّ‌سولُ لَوَجَدُوا اللَّـهَ تَوّابًا رَ‌حيمًا ٦٤ ﴾ ... سورة النساء
﴿ قالوا يـٰأَبانَا استَغفِر‌ لَنا ذُنوبَنا إِنّا كُنّا خـٰطِـٔينَ ٩٧ ﴾ ... سورة يوسف

جہاں تک اللہ سے دُعا میں دور ہی سے یا کسی بزرگ کی قبر کے پاس جاکر ان کا وسیلہ وواسطہ پیش کرنے کی بات ہے تو وہ بالکل جائز نہیں ہے خواہ نبی کریمﷺ کا وسیلہ وواسطہ ہی کیوں نہ ڈالا جائے۔ سیدنا عمر﷜ کی استسقاء والی حدیث سے یہی ثابت ہوتا ہے۔ جس کا جواب بہرام کے پاس نہیں۔

بہرام کے نزدیک ان میں کوئی ایک وسیلہ کی صورت بھی جائز ۔نہیں ناجانے ان تمام آیات قرآنیہ کا کیا جواب ہے؟

بہرام کے نزدیک وسیلہ کی صرف ایک صورت ہے وہ ہے اہل بیت کی ذات کا وسیلہ ڈالنا۔ کئی دفعہ پوچھنے کے باوجود بہرام نے اس کی کوئی دلیل پیش نہیں کی۔ اس کے نزدیک اس کی دلیل سورۃ النساء کی آیت نمبر 64 اور سیدنا عمر﷜ کا سیدنا عباس﷜ سے دعائے استسقاء کرانا ہے حالانکہ ہم پیچھے دلائل سے واضح کر آئے ہیں کہ یہ دونوں دلیلیں وسیلے کی تیسری جائز صورت کی ہیں وگرنہ اگر نبی کریمﷺ کی ذات کا وسیلہ جائز ہوتا تو سیدنا عمر﷜ سیدنا عباس﷜ سے دُعا کا کیوں کہتے؟ وہ نبی کریم کی ذات کا وسیلہ دیتے؟ اگر عباس﷜ کی ذات کا واسطہ دینا ہوتا تو سیدنا عمر﷜ کو سیدنا عباس﷜ کی موجودگی میں ان سے دُعا کرانے کی ضرورت ہی کیا تھی؟؟ بہرام کے پاس ان باتوں کا کوئی جواب نہیں۔

اللهم أرنا الحق حقا وارزقنا اتباعه وأرنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابه ولا تجعله ملتبسا علينا فنضل واجعلنا للمتقين إماما
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
اسی لئے تو عرض کیا ہے کہ كل نبي مجاب والی حدیث ضعیف ہے۔

آپ اسے صحیح کہتے ہیں تو قرآن کریم کی آیات کریمہ جن کی طرف محمد علی جواد بھائی نے اشارہ کیا ہے جن میں انبیاء کرام میں بعض دعاؤں کو قبول نہیں کیا گیا اور اسی طرح صحیح مسلم کی حدیث مبارکہ کا جواب آپ کو دینا ہوگا۔

ستةٌ لَعَنْتُهم ولعنَهمْ اللهُ وكلُّ نبيٍّ مُجابٌ : الزائدُ في كتابِ اللهِ، والمُكَذِّبُ بقدَرِ اللهِ، والمُتسلطُ بالجبروتِ فيُعِزُّ بذلكِ منَ أَذَلَّ اللهُ ويذلُّ منْ أعزَّ اللهُ، والمستَحِلُّ لحَرِمِ اللهِ، والمستحلُّ منْ عِتْرَتِي ما حَرَّمَ اللهُ، والتاركُ لسنتِي
الراوي: عائشة وعبدالله بن عمر المحدث:السيوطي - المصدر: الجامع الصغير - الصفحة أو الرقم: 4660
خلاصة حكم المحدث: صحيح


امام جلال الدین سیوطی اہل سنت کے ایک بڑے امام ہیں وہ اپنی کتاب الجامع الصغير میں وكلُّ نبيٍّ مُجابٌ والی حدیث بیان کرنے کے بعد کہتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح ہے اب اتنے بڑے امام کے مقابلے پر میں آپ کا قول کس بناء پر قبول کرسکتا ہوں ؟
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
2. اللہ سے دُعا مانگتے ہوئے اپنے نیک اعمال کا وسیلہ پیش کرنا۔ اس کے بہت سارے دلائل ہیں، مثلاً فرمانِ باری ہے:
﴿ رَ‌بَّنا إِنَّنا ءامَنّا فَاغفِر‌ لَنا ذُنوبَنا وَقِنا عَذابَ النّارِ‌ ١٦ ﴾... سورة آل عمران
اے ہمارے رب! ہم ایمان لاچکے اس لئے ہمارے گناه معاف فرما اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا (16)


بہرام کے نزدیک ان میں کوئی ایک وسیلہ کی صورت بھی جائز ۔نہیں ناجانے ان تمام آیات قرآنیہ کا کیا جواب ہے؟
اللہ تعالیٰ سورۃ الحجرات میں فرماتا ہے
دیہاتی لوگ کہتے ہیں کہ ہم ایمان ﻻئے۔ آپ کہہ دیجئے کہ درحقیقت تم ایمان نہیں ﻻئے لیکن تم یوں کہو کہ ہم اسلام ﻻئے (مخالفت چھوڑ کر مطیع ہوگئے) حاﻻنکہ ابھی تک تمہارے دلوں میں ایمان داخل ہی نہیں ہوا۔

اب اگر آپ اپنے ایمان کے وسیلے سے دعا کریں اور جواب میں اللہ تعالیٰ یہ ارشاد فرمادے جو اس آیت میں ارشاد فرمایا تو پھر کیا اب بھی آپ اپنے ایمان لانے کا احسان جتا کر اس کے وسلیے سے اللہ سے دعا کریں گے
اور دوسری بات یہ کہ آپ اللہ سے دُعا مانگتے ہوئے اپنے نیک اعمال کا وسیلہ پیش کرنے کی دلیل ایمان لانے سے کس بناء پر دے رہیں ہیں جبکہ میرے ناقص علم کے مطابق ایمان الگ چیز ہے اور نیک اعمال الگ شہ
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
اللہ تعالیٰ سورۃ الحجرات میں فرماتا ہے
دیہاتی لوگ کہتے ہیں کہ ہم ایمان ﻻئے۔ آپ کہہ دیجئے کہ درحقیقت تم ایمان نہیں ﻻئے لیکن تم یوں کہو کہ ہم اسلام ﻻئے (مخالفت چھوڑ کر مطیع ہوگئے) حاﻻنکہ ابھی تک تمہارے دلوں میں ایمان داخل ہی نہیں ہوا۔

اب اگر آپ اپنے ایمان کے وسیلے سے دعا کریں اور جواب میں اللہ تعالیٰ یہ ارشاد فرمادے جو اس آیت میں ارشاد فرمایا تو پھر کیا اب بھی آپ اپنے ایمان لانے کا احسان جتا کر اس کے وسلیے سے اللہ سے دعا کریں گے
اور دوسری بات یہ کہ آپ اللہ سے دُعا مانگتے ہوئے اپنے نیک اعمال کا وسیلہ پیش کرنے کی دلیل ایمان لانے سے کس بناء پر دے رہیں ہیں جبکہ میرے ناقص علم کے مطابق ایمان الگ چیز ہے اور نیک اعمال الگ شہ
میں نے سورۃ آل عمران کی آیت نمبر 16 کی دُعا ذکر کی ہے۔ یہ دُعا کسی ایرے غیرے کی نہیں ہے۔ یہ اللہ کے نیک بندوں کی دُعا ہے جسے اللہ تعالیٰ نے پسند فرما کر اللہ تعالیٰ نے اپنے مبارک کلام میں ذکر کیا اور مؤمنوں کو توجہ دلائی ہے کہ انہیں اسی طرح دعا کرنی چاہئے اور اس دعا میں ایمان (نیک عمل) کا واسطہ دیا گیا ہے۔

حق واضح ہے۔

جس نے ماننا مان لے، جس نے نہیں ماننا نہ مانے اس پر اپنی ناقص عقل کے مطابق الٹے سیدھے اعتراض کرتا پھرے یہ اس کی مرضی ہے۔ ا س کے متعلق قیامت کے اللہ کو جواب دینا ہوگا۔

سورۃ الفاتحۃ دُعا ہے کہ اس میں بھی ہمیں سکھایا گیا ہے کہ ہم صرف ایک اللہ کی عبادت اور صرف ایک اللہ سے استعانت (جیسے اپنے نیک اعمال ) کو اللہ سے دعا کرتے ہوئے وسیلہ وواسطہ بنائیں:
﴿ إِيّاكَ نَعبُدُ وَإِيّاكَ نَستَعينُ ٥ ﴾

اسی طرح صحیح بخاری میں غار کے تین لوگوں کا تذکرہ ہے جنہوں نے اللہ سے غار سے نکلنے کی دُعا کرتے ہوئے اللہ کو اپنے اپنے نیک اعمال کا واسطہ دیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کی دُعا قبول کرتے ہوئے غار سے پتھر ہٹا دیا۔
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
میں نے سورۃ آل عمران کی آیت نمبر 16 کی دُعا ذکر کی ہے۔ یہ دُعا کسی ایرے غیرے کی نہیں ہے۔ یہ اللہ کے نیک بندوں کی دُعا ہے جسے اللہ تعالیٰ نے پسند فرما کر اللہ تعالیٰ نے اپنے مبارک کلام میں ذکر کیا اور مؤمنوں کو توجہ دلائی ہے کہ انہیں اسی طرح دعا کرنی چاہئے اور اس دعا میں ایمان (نیک عمل) کا واسطہ دیا گیا ہے۔

حق واضح ہے۔

جس نے ماننا مان لے، جس نے نہیں ماننا نہ مانے اس پر اپنی ناقص عقل کے مطابق الٹے سیدھے اعتراض کرتا پھرے یہ اس کی مرضی ہے۔ ا س کے متعلق قیامت کے اللہ کو جواب دینا ہوگا۔

سورۃ الفاتحۃ دُعا ہے کہ اس میں بھی ہمیں سکھایا گیا ہے کہ ہم صرف ایک اللہ کی عبادت اور صرف ایک اللہ سے استعانت (جیسے اپنے نیک اعمال ) کو اللہ سے دعا کرتے ہوئے وسیلہ وواسطہ بنائیں:
﴿ إِيّاكَ نَعبُدُ وَإِيّاكَ نَستَعينُ ٥ ﴾

اسی طرح صحیح بخاری میں غار کے تین لوگوں کا تذکرہ ہے جنہوں نے اللہ سے غار سے نکلنے کی دُعا کرتے ہوئے اللہ کو اپنے اپنے نیک اعمال کا واسطہ دیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کی دُعا قبول کرتے ہوئے غار سے پتھر ہٹا دیا۔
بات یہ نہیں کہ میں ان تمام واسطوں کو نہیں مان رہا بلکہ بات یہ ہے کہ اس دھاگہ میں جو مضمون شیئر کیا گیا ہے اس میں کیسی بھی قسم کے واسطوں چاہے و جائز ہوں یا ناجائز ان کے لئے کہا گیا ہے کہ ان واسطوں کو مانے سے اسلام میں نقص پیدا ہوجاتا ہے پھر اگر واسطوں کے جائز ہونے پر دلائل دے رہیں ہیں تو آپ تو خود بھی اس مضمون کا رد ہی فرمارہیں
میں تو صرف اتنا کہتا ہوں کہ اپنے نیک اعمال اور جس کو میں نیک بندہ گمان کرتا ہوں ان کے وسیلے یا واسطے یا دعا کے واسطے سے اللہ سے دعا کرنا اگر جائز ہے جبکہ اپنے نیک اعمال جن کے بارے مجھ قطعی علم نہیں کہ وہ اللہ کی بارگاہ میں مقبول ہیں یا نہیں اور ایسی طرح جس کو میں نیک بندہ گمان کرتا اس کے بارے بھی مجھے علم نہیں کہ وہ اللہ کی بارگاہ میں مقبول ہے یا نہیں اب جب کہ ان غیر قطعی امور کے واسطے سے اللہ سے دعا کرنا جائز ہے تو پھر ایک ایسے قطعی امر یعنی محمد مصطفٰے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات بابرکات کے بارے میں مجھے ایمان کی حد تک قطعی علم ہے کہ ان کی ذات گرامی اللہ تعالٰی کی بارگاہ میں تمام لوگوں سے ذیادہ مقبول ہیں اس وجہ سے محمد مصطفٰے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات بابرکات کے وسیلے یا واسطے سے اللہ سے دعا کرنا بدرجہ اولیٰ جائز ہوا
والسلام
 
Top