جناب جو نکتہ میں آپ کو سمجھانے کی کوشش کر رہا ہوں آپ اس سے مسلسل نظر انداز کر رہے ہیں۔ غور کیجئے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اِن الفاظوں پر
کیا یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد کا معاملہ ہے یا زندگی کا؟ آپ نے یہ بیان نہیں کیا کہ یہاں وسیلے سے مراد کیا ہے؟
یہاں وسیلے سے مراد اِن سے دعا کروانا ہے، ناکہ صدقے یا طفیل مانگنا۔ اسی طرح حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے دعا کروائی یا اُن کے طفیل یا اُن کے صدقے مانگا؟ بتائیے
دراصل روایت ایک ہی ہے ، اُس سے ہمارا فہم حاصل کرنا مختلف ہے، آپ جو فہم حاصل کر رہے ہیں نا تو آپ کے پاس اُس کی کوئی دلیل ہے اور نہ ہی وہ پختہ ہے، نا ہی صحابہ کرام و اہل بیت رضی اللہ عنھم کا یہ فہم تھا نہ ہی سلف صالحین کا۔ کیونکہ اس فہم سے شرک لازم آتا ہے، اور وہ شرک سے بیزار تھے۔
اور جو فہم میں حاصل کر رہا ہوں کہ یہاں "وسیلے" سے مراد "دعا کروانا ہے" وہی درست ہے۔ ابھی میرے اس فہم کے خلاف آپ کوئی دلیل دینے سے قاصر ہیں۔ الحمدللہ
زندہ نیک بندے کے وسلیہ سے دعا کرنا
یہ وہ نکتہ ہے جس سے آپ متفق نہیں اور جس کے لئے میں نے آپ کے مطالبے پر صحیح بخاری روایت کو مکمل کوڈ کیا
اس روایت میں خلیفہ دوئم کا قول بہت واضح ہے کہ
اب ہم اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا کو وسیلہ بناتے ہیں
یہاں خلیفہ دوئم نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا کی ذاتکو وسیلہ بنارہیں ہیں اور اس دھاگہ میں
واسطوں پر بھروسا
کو رد کرنے کی ناکام کوشش کی گئی ہے لیکن صیح بخاری کی اس روایت سے خود اس بات کی تائید ہورہی ہے کہ واسطوں پر بھروسہ کرنا خلیفہ دوئم کی سنت ہے اور اہل سنت کے عقائد کے مطابق خلیفہ دوئم کی سنت کو پکڑنا، اسے مضبوطی سے تھامنا اور دانتوں کے ذریعہ سختی سے پکڑ نا لازمی ہے
اگر خلیفہ دوئم کا واسطوں پر بھروسہ نہ ہوتا تو وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا کا وسلیہ نہ پکڑتے اور خود ہی بغیر واسطے کے اللہ تعالیٰ سے بارش کے لئے دعا کرتے
صحیح بخاری میں عبداللہ بن عمر کی روایت میں نعت کے کچھ اشعار ذکر ہوئے ہیں جو کہ عبداللہ بن عمر اکثر پڑھا کرتے تھے
وأبيض يستسقى الغمام بوجهه
ثمال اليتامى عصمۃ للأرامل
صحیح بخاری حدیث نمبر 1009
ترجمہ
''وہ گورے (مکھڑے والے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) جن کے چہرے کے توسل سے بارش مانگی جاتی ہے، یتیموں کے والی، بیواؤں کے سہارا ہیں۔''
عبداللہ بن عمر کا بھی عقیدہ تو یہ تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گورے مکھڑے کے واسطے سے بارش کی دعا کی جائے
اور دوسری بات یہ کہ خود اہل سنت والجماعت کے اکثر علماء باشمول اہل حدیث (نواب صدیق خان بھوپالی القنوجی )اس بات کے قائل ہیں اللہ کے نیک بندوں کے وسیلہ سے اللہ سے دعا کی جاسکتی ہے
؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟مجھے آپ کےپوسٹ کو "غیر متعلق" ریٹ کرنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا، میں صرف آپ کو بتا رہا تھا کہ جب معاملہ ہمارا ہو تو آپ جھٹ سے غیر متعلق کر دیتے ہیں اور موضوع پر رہنے کی بات کرتے ہیں لیکن متعلقہ موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے جب آپ کوئی نیا ٹاپک شروع کر دیتے ہیں تو اس بات کی پرواہ نہیں کرتے کہ آپ موضوع سے ہٹ رہے ہیں۔
ایسی لئے عرض کیا تھا کہ پہلے اپنے عقائد کے علم میں طاق ہوجائیں پھر اس طرح کی بحث میں حصہ لیںخلافت کی ترتیب عقائد میں شمار ہوتی ہے یا نہیں؟ یہ تو میں نہیں جانتا۔۔ ہاں البتہ ہم اہل سنت والجماعت اہلحدیث کے نزدیک خلافت بالترتیب خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ،خلیفہ دوم حضرت عمر رضی اللہ عنہ،خلیفہ سوم حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور خلیفہ چہارم حضرت علی رضی اللہ عنہ ہیں۔اچھی طرح جان لیں کہ ہم اس ترتیب سے خلافت کو تسلیم کرتے ہیں، لیکن چونکہ ہمارا یہاں یہ موضوع نہیں لہذا اوپر جو بات وسیلے کے حوالے سے میں نے پوچھی تھی، اس کا مدلل جواب دیں۔
دوسری بات یہ کہ بات خلافت کی ترتیب کی نہیں ہورہی بلکہ خلیفہ دوئم کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا سے افضل مانے کی ہورہی ہے اس کے لئے آپ پہلے ہی فرماچکے ہیں کہ
اس لئے میں آپکے اس فرمان پر ہی اعتماد کرتا ہوں کہ آپ خلیفہ دوئم کی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا پر فضیلت کے قائل نہیں ۔ اللہ آپ کو جزاء خیر عطاء فرمائےاور دوسری بات کہ کس کا درجہ کس سے زیادہ ہے یہ اللہ بہتر جانتا ہے، ہمارا یہ ماننا ہے کہ تمام صحابہ کرام واہل بیت رضی اللہ عنھم اجمعین جنتی ہیں۔
وسلیے سے متعلق جواب اوپر دیا چکاہے