محمد علی جواد
سینئر رکن
- شمولیت
- جولائی 18، 2012
- پیغامات
- 1,986
- ری ایکشن اسکور
- 1,553
- پوائنٹ
- 304
ہر نبی کی د عا قبول ضرور ہوتی ہے -لیکن یہ ضروری نہیں کہ ان کی ہر ہر دعا ہی قبول ہو - الله قادر المطلق ہے جب چاہے جس کی چاہے قبول کر لے اور جس کی چاہے رد کردے - دیکھیے قرآن و حدیث سے ثبوت -یہی نکتہ تو میں بھی سمجھنا چارہا ہوں کہ جو کہ آپ نے ارشاد فرمایا کہ
"دوسرے زندہ مسلمان سے د عا کروانا یا اس زندہ انسان کی وساطت سے د عا کرنا شریعت میں ایک مستحسن عمل ہے "
آپ نے مان لیا اللہ آپ کو جزاء خیر عطاء کرے
دیکھنا آپ کی ہائی لائٹ کردہ بات کہیں ان ارشادات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے متصادم تو نہیں
ستةٌ لَعَنْتُهم ولعنَهمْ اللهُ وكلُّ نبيٍّ مُجابٌ : الزائدُ في كتابِ اللهِ، والمُكَذِّبُ بقدَرِ اللهِ، والمُتسلطُ بالجبروتِ فيُعِزُّ بذلكِ منَ أَذَلَّ اللهُ ويذلُّ منْ أعزَّ اللهُ، والمستَحِلُّ لحَرِمِ اللهِ، والمستحلُّ منْ عِتْرَتِي ما حَرَّمَ اللهُ، والتاركُ لسنتِي
الراوي: عائشة وعبدالله بن عمر المحدث:السيوطي - المصدر: الجامع الصغير - الصفحة أو الرقم: 4660
خلاصة حكم المحدث: صحيح
سبعَةٌ لعَنتُهُم وَكلُّ نبيٍ مُجابٌ الزَّائدُ في كتابِ اللَّهِ والمُكذِّبُ بقدرِ اللَّهِ والمستحلُّ حُرمةَ اللَّهِ والمستحلُّ مِن عِترتي ما حرَّمَ اللَّهُ والتَّارِكُ لِسُنَّتي والمستأثِرُ بالفَيءِ والمتجبِّرُ بسلطانِه لِيُعِزَّ مَن أذَلَّ اللَّهُ ويُذِلَّ مَن أعزَّ اللَّهُ
الراوي: عمرو بن سعواء اليافعي المحدث:السيوطي - المصدر: الجامع الصغير - الصفحة أو الرقم: 4648
خلاصة حكم المحدث: حسن
ستَّةٌ لعَنتُهُمْ وكلُّ نَبِيٍّ مجابٌ الزائدُ في كتابِ اللهِ والمكذبُ بقدرِ اللهِ والمستحِلُّ لمحارمِ اللهِ والمستحِلُّ من عِتْرَتِي ما حرَّمَ اللهُ وتارِكُ السنَّةِ
الراوي: عائشة أم المؤمنين المحدث:الهيثمي - المصدر: مجمع الزوائد - الصفحة أو الرقم: 7/208
خلاصة حكم المحدث: رجاله ثقات
ستَّةٌ لعنتُهُم ولعنَهُمُ اللَّهُ وَكُلُّ نبيٍّ مُجابٌ الزَّائدُ في كتابِ اللَّهِ عزَّ وجلَّ والمُكَذِّبُ بقدرِ اللَّهِ والمتسلِّطُ على أمَّتي بالجبَروتِ ليُذِلَّ مَن أعزَّ اللَّهُ ويُعزَّ من أذلَّ اللَّهُ والمستَحلُّ حُرمةَ اللَّهِ والمستَحلُّ مِن عِترتي ما حرَّمَ اللَّهُ والتَّارِكُ السُّنَّةَ
الراوي: عائشة أم المؤمنين المحدث:المنذري - المصدر: الترغيب والترهيب - الصفحة أو الرقم: 1/65
خلاصة حكم المحدث: [إسناده صحيح أو حسن أو ما قاربهما]
ہر نبی کی دعا قبول ہوا کرتی ہے
وَنَادَىٰ نُوحٌ رَبَّهُ فَقَالَ رَبِّ إِنَّ ابْنِي مِنْ أَهْلِي وَإِنَّ وَعْدَكَ الْحَقُّ وَأَنْتَ أَحْكَمُ الْحَاكِمِينَ سوره ھود ٤٥
اور نوح نے اپنے رب کو پکارا اے رب میرا بیٹا میرے گھر والو ں میں سے ہے اوربے شک تیار وعدہ سچا ہے اور تو سب سے بڑا حاکم ہے
قَالَ يَا نُوحُ إِنَّهُ لَيْسَ مِنْ أَهْلِكَ ۖ إِنَّهُ عَمَلٌ غَيْرُ صَالِحٍ ۖ فَلَا تَسْأَلْنِ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ ۖ إِنِّي أَعِظُكَ أَنْ تَكُونَ مِنَ الْجَاهِلِينَ سوره ھود ٤٦
فرمایا اے نوح وہ تیرے گھر والو ں میں سے نہیں ہے کیوں کہ اس کے عمل اچھے نہیں ہیں سو مجھ سے مت پوچھ جس کا تجھے علم نہیں میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ کہیں جاہلوں میں نہ ہو جاؤ-
اسْتَغْفِرْ لَهُمْ أَوْ لَا تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ إِنْ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ سَبْعِينَ مَرَّةً فَلَنْ يَغْفِرَ اللَّهُ لَهُمْ ۚ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ كَفَرُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ ۗ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ سوره التوبہ ٨٠
(ا ے نبی ) تو ان کے لیے بخشش مانگ یا نہ مانگ اگر تو ان کے لیے ستر دفعہ بھی بخشش مانگے گا تو بھی الله انہیں ہر گز نہیں بخشے گا یہ اس لیے کہ انہوں نے الله اور اس کے رسول سےکفر کیا اور الله نافرمانوں کو راستہ نہیں دکھاتا
-
صحیح بخاری کی ایک روایت میں ہے -کہ آپ صل الله علیہ وسلم نے اپنو امّت کے لئے الله سے تین دعا ئیں مانگیں -
بخاری وغیرہ کی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ جب یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی:
ترجمہ:․․․"تو کہہ اس کو قدرت ہے اس پر کہ بھیجے تم پر عذاب اوپر سے (جیسے پتھر برسنا یا' طوفانی ہوا اور بارش' یا تمہارے پاؤں کے نیچے سے (جیسے زلزلہ اور سیلاب وغیرہ) یا بھڑا دے تم کو مختلف فرقے کرکے اور چکھادے ایک کو لڑائی ایک کی "۔(ترجمہ شیخ الہند') جس میں تین قسم کے عذاب سے ڈرایاگیا ہے: آسمانی عذاب' زمین کا عذاب اور باہمی اختلاف کا عذاب' تو رسول اللہ ا نے پہلی قسم کے عذاب سے نجات کی دعا فرمائی اور وہ قبول ہوئی' پھر دوسری قسم کے عذاب سے نجات کی دعا کی اور وہ بھی قبول ہوئی'جب تیسری قسم کے عذاب سے نجات کی دعا فرمائی تو قبول نہیں ہوئی' جس سے معلوم ہوا کہ اس امت کا عذاب آپس کا اختلاف ونزاع ہوگا۔
صحیح مسلم کی ہی ایک صحیح روایت میں سیدنا ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ:
زار النبي صلى الله عليه وسلم قبر أمه فبكى وأبكى من حوله ثم قال: " استأذنت ربي في زيارة قبر أمي فأذن لي، واستأذنته في الاستغفار لها فلم يأذن لي، فزوروا القبور تذكركم بالموت" (صحيح مسلم ، 10 - كِتَابُ الْكُسُوفِ ، 36 - بَابُ اسْتِئْذَانِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَبَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فِي زِيَارَةِ قَبْرِ أُمِّهِ ، 108 - (976)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی والدہ کی قبر کی زیارت فرمائی ،آپ خود بھی روئے اور ارد گرد کے تمام لوگوں کو بھی رلا دیا ،پھر فرمایا:میں نے اپنے رب سے اپنی ماں کی قبر کی زیارت کی اجازت طلب کی جو اللہ نے دے دی، پھر میں نے اس کے لئے استغفار کی اجازت مانگی جو اللہ نے نہیں دی۔ تم قبروں کی زیارت کیا کرو،اس سے تمہیں موت یاد آئے گی۔