• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

۲... واسطوں پر بھروسا۔ نواقض اسلام۔ ڈاکٹر شفیق الرحمن

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
یہی نکتہ تو میں بھی سمجھنا چارہا ہوں کہ جو کہ آپ نے ارشاد فرمایا کہ

"دوسرے زندہ مسلمان سے د عا کروانا یا اس زندہ انسان کی وساطت سے د عا کرنا شریعت میں ایک مستحسن عمل ہے "
آپ نے مان لیا اللہ آپ کو جزاء خیر عطاء کرے


دیکھنا آپ کی ہائی لائٹ کردہ بات کہیں ان ارشادات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے متصادم تو نہیں

ستةٌ لَعَنْتُهم ولعنَهمْ اللهُ وكلُّ نبيٍّ مُجابٌ : الزائدُ في كتابِ اللهِ، والمُكَذِّبُ بقدَرِ اللهِ، والمُتسلطُ بالجبروتِ فيُعِزُّ بذلكِ منَ أَذَلَّ اللهُ ويذلُّ منْ أعزَّ اللهُ، والمستَحِلُّ لحَرِمِ اللهِ، والمستحلُّ منْ عِتْرَتِي ما حَرَّمَ اللهُ، والتاركُ لسنتِي
الراوي: عائشة وعبدالله بن عمر المحدث:السيوطي - المصدر: الجامع الصغير - الصفحة أو الرقم: 4660
خلاصة حكم المحدث: صحيح


سبعَةٌ لعَنتُهُم وَكلُّ نبيٍ مُجابٌ الزَّائدُ في كتابِ اللَّهِ والمُكذِّبُ بقدرِ اللَّهِ والمستحلُّ حُرمةَ اللَّهِ والمستحلُّ مِن عِترتي ما حرَّمَ اللَّهُ والتَّارِكُ لِسُنَّتي والمستأثِرُ بالفَيءِ والمتجبِّرُ بسلطانِه لِيُعِزَّ مَن أذَلَّ اللَّهُ ويُذِلَّ مَن أعزَّ اللَّهُ
الراوي: عمرو بن سعواء اليافعي المحدث:السيوطي - المصدر: الجامع الصغير - الصفحة أو الرقم: 4648
خلاصة حكم المحدث: حسن


ستَّةٌ لعَنتُهُمْ وكلُّ نَبِيٍّ مجابٌ الزائدُ في كتابِ اللهِ والمكذبُ بقدرِ اللهِ والمستحِلُّ لمحارمِ اللهِ والمستحِلُّ من عِتْرَتِي ما حرَّمَ اللهُ وتارِكُ السنَّةِ
الراوي: عائشة أم المؤمنين المحدث:الهيثمي - المصدر: مجمع الزوائد - الصفحة أو الرقم: 7/208
خلاصة حكم المحدث: رجاله ثقات




ستَّةٌ لعنتُهُم ولعنَهُمُ اللَّهُ وَكُلُّ نبيٍّ مُجابٌ الزَّائدُ في كتابِ اللَّهِ عزَّ وجلَّ والمُكَذِّبُ بقدرِ اللَّهِ والمتسلِّطُ على أمَّتي بالجبَروتِ ليُذِلَّ مَن أعزَّ اللَّهُ ويُعزَّ من أذلَّ اللَّهُ والمستَحلُّ حُرمةَ اللَّهِ والمستَحلُّ مِن عِترتي ما حرَّمَ اللَّهُ والتَّارِكُ السُّنَّةَ
الراوي: عائشة أم المؤمنين المحدث:المنذري - المصدر: الترغيب والترهيب - الصفحة أو الرقم: 1/65
خلاصة حكم المحدث: [إسناده صحيح أو حسن أو ما قاربهما]


ہر نبی کی دعا قبول ہوا کرتی ہے
ہر نبی کی د عا قبول ضرور ہوتی ہے -لیکن یہ ضروری نہیں کہ ان کی ہر ہر دعا ہی قبول ہو - الله قادر المطلق ہے جب چاہے جس کی چاہے قبول کر لے اور جس کی چاہے رد کردے - دیکھیے قرآن و حدیث سے ثبوت -


وَنَادَىٰ نُوحٌ رَبَّهُ فَقَالَ رَبِّ إِنَّ ابْنِي مِنْ أَهْلِي وَإِنَّ وَعْدَكَ الْحَقُّ وَأَنْتَ أَحْكَمُ الْحَاكِمِينَ سوره ھود ٤٥
اور نوح نے اپنے رب کو پکارا اے رب میرا بیٹا میرے گھر والو ں میں سے ہے اوربے شک تیار وعدہ سچا ہے اور تو سب سے بڑا حاکم ہے

قَالَ يَا نُوحُ إِنَّهُ لَيْسَ مِنْ أَهْلِكَ ۖ إِنَّهُ عَمَلٌ غَيْرُ صَالِحٍ ۖ فَلَا تَسْأَلْنِ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ ۖ إِنِّي أَعِظُكَ أَنْ تَكُونَ مِنَ الْجَاهِلِينَ سوره ھود ٤٦
فرمایا اے نوح وہ تیرے گھر والو ں میں سے نہیں ہے کیوں کہ اس کے عمل اچھے نہیں ہیں سو مجھ سے مت پوچھ جس کا تجھے علم نہیں میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ کہیں جاہلوں میں نہ ہو جاؤ-
اسْتَغْفِرْ لَهُمْ أَوْ لَا تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ إِنْ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ سَبْعِينَ مَرَّةً فَلَنْ يَغْفِرَ اللَّهُ لَهُمْ ۚ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ كَفَرُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ ۗ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ سوره التوبہ ٨٠
(ا ے نبی ) تو ان کے لیے بخشش مانگ یا نہ مانگ اگر تو ان کے لیے ستر دفعہ بھی بخشش مانگے گا تو بھی الله انہیں ہر گز نہیں بخشے گا یہ اس لیے کہ انہوں نے الله اور اس کے رسول سےکفر کیا اور الله نافرمانوں کو راستہ نہیں دکھاتا

-
صحیح بخاری کی ایک روایت میں ہے -کہ آپ صل الله علیہ وسلم نے اپنو امّت کے لئے الله سے تین دعا ئیں مانگیں -
بخاری وغیرہ کی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ جب یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی:

ترجمہ:․․․"تو کہہ اس کو قدرت ہے اس پر کہ بھیجے تم پر عذاب اوپر سے (جیسے پتھر برسنا یا' طوفانی ہوا اور بارش' یا تمہارے پاؤں کے نیچے سے (جیسے زلزلہ اور سیلاب وغیرہ) یا بھڑا دے تم کو مختلف فرقے کرکے اور چکھادے ایک کو لڑائی ایک کی "۔(ترجمہ شیخ الہند') جس میں تین قسم کے عذاب سے ڈرایاگیا ہے: آسمانی عذاب' زمین کا عذاب اور باہمی اختلاف کا عذاب' تو رسول اللہ ا نے پہلی قسم کے عذاب سے نجات کی دعا فرمائی اور وہ قبول ہوئی' پھر دوسری قسم کے عذاب سے نجات کی دعا کی اور وہ بھی قبول ہوئی'جب تیسری قسم کے عذاب سے نجات کی دعا فرمائی تو قبول نہیں ہوئی' جس سے معلوم ہوا کہ اس امت کا عذاب آپس کا اختلاف ونزاع ہوگا۔
صحیح مسلم کی ہی ایک صحیح روایت میں سیدنا ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ:

زار النبي صلى الله عليه وسلم قبر أمه فبكى وأبكى من حوله ثم قال: " استأذنت ربي في زيارة قبر أمي فأذن لي، واستأذنته في الاستغفار لها فلم يأذن لي، فزوروا القبور تذكركم بالموت" (صحيح مسلم ، 10 - كِتَابُ الْكُسُوفِ ، 36 - بَابُ اسْتِئْذَانِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَبَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فِي زِيَارَةِ قَبْرِ أُمِّهِ ، 108 - (976)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی والدہ کی قبر کی زیارت فرمائی ،آپ خود بھی روئے اور ارد گرد کے تمام لوگوں کو بھی رلا دیا ،پھر فرمایا:میں نے اپنے رب سے اپنی ماں کی قبر کی زیارت کی اجازت طلب کی جو اللہ نے دے دی، پھر میں نے اس کے لئے استغفار کی اجازت مانگی جو اللہ نے نہیں دی۔ تم قبروں کی زیارت کیا کرو،اس سے تمہیں موت یاد آئے گی۔
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
لیکن مذکورہ حدیث میں کہیں بھی اس بات کا ذکر نہیں کہ خلیفہ دوئم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا سے دعا کروائی ہو بلکہ نہایت واضح الفاظ میں خود خلیفہ دوئم خود ہی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا کے وسیلہ سے دعا مانگ رہے ہیں
جہاں تک اس واقعہ کی دیگر روایات کا سوال ہے کہ ان میں خلیفہ دوئم نے دعا کرنے کا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا کو کہا تو اس کے لئے عرض ہے کہ میں نے جو روایت پیش کی اس کے الفاظ ہیں کہ
" جب کبھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں قحط پڑتا تو عمر رضی اللہ عنہ حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کے وسیلہ سے دعا کرتے "
ان الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ خلیفہ دوئم کے زمانے میں ایک سے زائد مرتبہ قحط پڑا کبھی وہ خود حضرت عباس کے وسیلے دعا کرتے اور کبھی دعا کرنے کے لئے حضرت عباس سے کہتے اس طرح سے تو دونوں صورتیں خلیفہ دوئم کی سنت ہوئی ۔

اس نکتہ پر بات بعد میں کی جائے گی ابھی تو صرف میں اس ایک نکتہ پر آپ حضرات کو متفق کرنا چاہتا ہوں کہ
" کسی زندہ اللہ کے نیک بندے کے وسلیہ سے دعا کرنا جائز ہے "


اللہ آپ کو جزاء عطاء فرمائے اچھا ہوا آپ نے ہی یہ آیت مبارکہ پیش فرمادی
اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ

اور ہم نے کوئی رسول نہ بھیجا مگر اس لئے کہ اللہ کے حکم سے اُس کی اطاعت کی جائے اور اگر جب وہ اپنی جانوں پر ظلم کریں تو اے محبوب تمہارے حضور حاضر ہوں اور پھر اللہ سے معافی چاہیں اور رسول ان کی شفاعت فرمائے تو ضرور اللہ کو بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں
( مترجم : امام احمد رضا بریلوی )

اس فرمان باری تعالیٰ میں تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سواء کسی اور بزرگ کی بارگاہ میں حاضر ہونے کا حکم تو نہیں دیا جارہا پھر آپ کس بنیاد پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت میں بزرگوں کو شریک کر رہیں ہیں کیا یہ غلو نہیں

دوسری بات یہ کہ اگر آپ کے عقائد کے مطابق تو یہ آیت منسوخ سمجھی جائے گی کیونکہ فی زمانہ اگر کوئی اپنی جانوں پر ظلم کریں تو ان کے لئے ممکن ہی نہیں کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوسکےاب سوال یہ ہے کہ اس آیت کی منسوخی کا الہام کن پر ہوا اور جو آپ نے اس آیت سے نبی اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہکے سواء اور بزروگوں کی بارگاہوں کو جو رسالت میں شریک کیا وہ الہام کن پر ہوا؟؟؟




اس آیت کی منسوخی کا الہام صحابہ کرام رضوان الله اجمعین پر ہوا -اور جس کے آج صحیح القیعدہ مسلمان پیروی کرتے ہیں- کیوں کہ اگر اس آیت کا حکم جس میں نبی کریم کی بارگاہ میں حاضر ہو کر معافی طلب کرنے کا حکم دیا گیا ہے ان کی وفات کے بعد بھی جاری رہا ہوتا تو صحابہ کرام رضوان الله اجمعین اس حکم کا فائدہ آپ صل الله علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ کے روضہ مبارک پر حاضری دے کر ضرور حاصل کرتے-

اگر آپ کے عقیدے کے مطابق ہر آیت کا حکم آج بھی جاری ہے تو اب ذرا اس آیت کے بارے میں بھی بتائیں کہ دور حاضر میں اس کا حکم کس طرح مسلمانوں پر لگایا جا سکتا ہے ؟؟؟


إِنَّ الَّذِينَ يُنَادُونَكَ مِنْ وَرَاءِ الْحُجُرَاتِ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْقِلُونَ سوره الحجرات ٤
بے شک جو لوگ آپ کو حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں اکثر ان میں سے عقل نہیں رکھتے-
وَلَوْ أَنَّهُمْ صَبَرُوا حَتَّىٰ تَخْرُجَ إِلَيْهِمْ لَكَانَ خَيْرًا لَهُمْ ۚ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ سوره الحجرات ٥
اور اگر وہ صبر کرتے یہاں تک کہ آپ ان کے پاس سے نکل کر آتے تو ان کے لیے بہتر ہوتا اور الله بخشنے والا نہایت رحم والا ہے
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
یہی نکتہ تو میں بھی سمجھنا چارہا ہوں کہ جو کہ آپ نے ارشاد فرمایا کہ

"دوسرے زندہ مسلمان سے د عا کروانا یا اس زندہ انسان کی وساطت سے د عا کرنا شریعت میں ایک مستحسن عمل ہے "
آپ نے مان لیا اللہ آپ کو جزاء خیر عطاء کرے


دیکھنا آپ کی ہائی لائٹ کردہ بات کہیں ان ارشادات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے متصادم تو نہیں

ستةٌ لَعَنْتُهم ولعنَهمْ اللهُ وكلُّ نبيٍّ مُجابٌ : الزائدُ في كتابِ اللهِ، والمُكَذِّبُ بقدَرِ اللهِ، والمُتسلطُ بالجبروتِ فيُعِزُّ بذلكِ منَ أَذَلَّ اللهُ ويذلُّ منْ أعزَّ اللهُ، والمستَحِلُّ لحَرِمِ اللهِ، والمستحلُّ منْ عِتْرَتِي ما حَرَّمَ اللهُ، والتاركُ لسنتِي
الراوي: عائشة وعبدالله بن عمر المحدث:السيوطي - المصدر: الجامع الصغير - الصفحة أو الرقم: 4660
خلاصة حكم المحدث: صحيح


سبعَةٌ لعَنتُهُم وَكلُّ نبيٍ مُجابٌ الزَّائدُ في كتابِ اللَّهِ والمُكذِّبُ بقدرِ اللَّهِ والمستحلُّ حُرمةَ اللَّهِ والمستحلُّ مِن عِترتي ما حرَّمَ اللَّهُ والتَّارِكُ لِسُنَّتي والمستأثِرُ بالفَيءِ والمتجبِّرُ بسلطانِه لِيُعِزَّ مَن أذَلَّ اللَّهُ ويُذِلَّ مَن أعزَّ اللَّهُ
الراوي: عمرو بن سعواء اليافعي المحدث:السيوطي - المصدر: الجامع الصغير - الصفحة أو الرقم: 4648
خلاصة حكم المحدث: حسن


ستَّةٌ لعَنتُهُمْ وكلُّ نَبِيٍّ مجابٌ الزائدُ في كتابِ اللهِ والمكذبُ بقدرِ اللهِ والمستحِلُّ لمحارمِ اللهِ والمستحِلُّ من عِتْرَتِي ما حرَّمَ اللهُ وتارِكُ السنَّةِ
الراوي: عائشة أم المؤمنين المحدث:الهيثمي - المصدر: مجمع الزوائد - الصفحة أو الرقم: 7/208
خلاصة حكم المحدث: رجاله ثقات




ستَّةٌ لعنتُهُم ولعنَهُمُ اللَّهُ وَكُلُّ نبيٍّ مُجابٌ الزَّائدُ في كتابِ اللَّهِ عزَّ وجلَّ والمُكَذِّبُ بقدرِ اللَّهِ والمتسلِّطُ على أمَّتي بالجبَروتِ ليُذِلَّ مَن أعزَّ اللَّهُ ويُعزَّ من أذلَّ اللَّهُ والمستَحلُّ حُرمةَ اللَّهِ والمستَحلُّ مِن عِترتي ما حرَّمَ اللَّهُ والتَّارِكُ السُّنَّةَ
الراوي: عائشة أم المؤمنين المحدث:المنذري - المصدر: الترغيب والترهيب - الصفحة أو الرقم: 1/65
خلاصة حكم المحدث: [إسناده صحيح أو حسن أو ما قاربهما]


ہر نبی کی دعا قبول ہوا کرتی ہے



 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132

اس آیت کی منسوخی کا الہام صحابہ کرام رضوان الله اجمعین پر ہوا -اور جس کے آج صحیح القیعدہ مسلمان پیروی کرتے ہیں- کیوں کہ اگر اس آیت کا حکم جس میں نبی کریم کی بارگاہ میں حاضر ہو کر معافی طلب کرنے کا حکم دیا گیا ہے ان کی وفات کے بعد بھی جاری رہا ہوتا تو صحابہ کرام رضوان الله اجمعین اس حکم کا فائدہ آپ صل الله علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ کے روضہ مبارک پر حاضری دے کر ضرور حاصل کرتے-


اگر یہ الہام صحابہ پر ہوا کہ یہ آیت منسوخ ہوچکی ہے تو پھر اس کی دلیل بھی قول صحابہ سے عنایت فرمادیجئے جس میں یہ الفاظ بھی ہوں کہ مجھے یہ الہام ہوا
کیونکہ آیت قرانی کی ناسخ و منسوخ کا قاعدہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں کچھ اس طرح ذکر کیا ہے
ہم اپنی جس آیت کو منسوخ کردیتے ہیں یا بھلا دیتے ہیں، اس کی جگہ اس سے بہتر لاتے ہیں یا کم از کم ویسی ہی۔ کیا تم جانتے نہیں ہو کہ اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے
سورہ البقرہ 106
اب آپ یہ بتائیں کہ اگر یہ آیت منسوخ ہے تو اس کو نسخ کرنے والی آیت کون سے صحابی پر نازل ہوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد

کیونکہ میرے علم میں ہے کہ علامہ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ پورے قرآن میں کل انیس آیتیں منسوخ ہیں۔
(الاتقان ،علامہ سیوطی:۲،۲۲)
اور حضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی صرف پانچ آیتوں میں منسوخ تسلیم کیا ہے
(علوم القرآن:۱۷۲)
اب نہ علامہ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ کی انیس منسوخ آیات میں یہ آیت ہے نہ شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی کی منسوخ پانچ آیات میں یہ آیت ہے
دوسری بات یہ کہ قرآن میں تبدیلی کا اختیار جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی نہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد قرآنی آیت کی منسوخی کا اختیار صحابہ کو کس طرح حاصل ہوگیا
کیا یہ غلو کی بدترین مثال نہیں

اگر آپ کے عقیدے کے مطابق ہر آیت کا حکم آج بھی جاری ہے تو اب ذرا اس آیت کے بارے میں بھی بتائیں کہ دور حاضر میں اس کا حکم کس طرح مسلمانوں پر لگایا جا سکتا ہے ؟؟؟


إِنَّ الَّذِينَ يُنَادُونَكَ مِنْ وَرَاءِ الْحُجُرَاتِ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْقِلُونَ سوره الحجرات ٤
بے شک جو لوگ آپ کو حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں اکثر ان میں سے عقل نہیں رکھتے-
وَلَوْ أَنَّهُمْ صَبَرُوا حَتَّىٰ تَخْرُجَ إِلَيْهِمْ لَكَانَ خَيْرًا لَهُمْ ۚ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ سوره الحجرات ٥
اور اگر وہ صبر کرتے یہاں تک کہ آپ ان کے پاس سے نکل کر آتے تو ان کے لیے بہتر ہوتا اور الله بخشنے والا نہایت رحم والا ہے

مولانا نعیم الدین مرادآبادی اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ
شانِ نزول : یہ آیت وفدِ بنی تمیم کے حق میں نازل ہوئی کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی خدمت میں دوپہر کے وقت پہنچے جب کہ حضور آرام فرما رہے تھے ان لوگوں نے حجروں کے باہر سے حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو پکارنا شروع کیا ، حضور تشریف لے آئے ، ان لوگوں کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی اور اجلالِ شانِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا بیان فرمایا گیا کہ بارگاہِ اقدس میں اس طرح پکارنا جہل و بے عقلی ہے اور ان لوگوں کو ادب کی تلقین کی گئی ۔
اس سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں گستاخی کرنا قبیلہ بنی تمیم کی بہت پرانی عادت ہے !!!!
اگر تو یہ آیت اب قابل عمل نہیں تو پھر صحابہ نے اس آیت کو قرآن سے خارج کیوں نہیں کردیا جس کا کے آپ کے عقیدے کے مطابق ان کو اختیار تھا !!!!!
اگر یہ آیت اب قابل عمل نہیں تو قرآن و حدیث کی دلیل سے پہلے ثابت کیجئے ۔
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
ہر نبی کی د عا قبول ضرور ہوتی ہے -لیکن یہ ضروری نہیں کہ ان کی ہر ہر دعا ہی قبول ہو - الله قادر المطلق ہے جب چاہے جس کی چاہے قبول کر لے اور جس کی چاہے رد کردے - دیکھیے قرآن و حدیث سے ثبوت -
وكلُّ نبيٍّ مُجابٌ
ہر نبی کی دعا قبول ہوتی ہے
اور آپ بھی یہ تسلیم کرتے ہیں کہ
ہر نبی کی د عا قبول ضرور ہوتی ہے
لیکن پھر پٹری سے اس طرح اتر بھی جاتے ہیں
لیکن یہ ضروری نہیں کہ ان کی ہر ہر دعا ہی قبول ہو
اگر آپ کے اقوال کو مانا جائے تو پھر اس اہل سنت کی اس صحیح حدیث کو جعلی مانا پڑے گا
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
وكلُّ نبيٍّ مُجابٌ
ہر نبی کی دعا قبول ہوتی ہے
اور آپ بھی یہ تسلیم کرتے ہیں کہ
ہر نبی کی د عا قبول ضرور ہوتی ہے
لیکن پھر پٹری سے اس طرح اتر بھی جاتے ہیں
لیکن یہ ضروری نہیں کہ ان کی ہر ہر دعا ہی قبول ہو
اگر آپ کے اقوال کو مانا جائے تو پھر اس اہل سنت کی اس صحیح حدیث کو جعلی مانا پڑے گا
سبعَةٌ لعَنَهم اللهُ تعالى و كلُّ نبيٍّ مجابٌ: الزَّائدُ في كتابِ اللهِ و المكذِّبُ بقَدَرِ اللهِ، والمتسَلِّطُ على أمَّتي بالجبَروتِ ليُذِلَّ مَن أعزَّ اللهُ و يُعزَّ مَن أذَلَّ اللهُ عزَّ وجلَّ، والمستَحلُّ محارمِ اللهِ تعالى، و التَّاركُ لسنَّتي و المستحلُّ مِن عِترتي ما حرَّمَ اللهُ عزَّ وجلَّ
الراوي: عائشة أم المؤمنين المحدث:الألباني - المصدر: تخريج كتاب السنة - الصفحة أو الرقم: 337
خلاصة حكم المحدث: إسناده ضعيف


بہرام صاحب سے سوال ہے کہ درج ذیل حدیث مبارکہ میں نبی کریم کی تیسری دُعا قبول نہیں کی گئی، کیوں؟
أنَّ رسولَ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ أقبلَ ذاتَ يومٍ من العاليةِ . حتى إذا مر بمسجدِ بني معاويةَ ، دخل فركع فيه ركعتَين . وصلَّينا معه . ودعا ربه طويلًا . ثم انصرف إلينا . فقال صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ " سألتُ ربي ثلاثًا . فأعطاني ثنتَين ومنعني واحدةً . سألتُ ربي أن لا يُهلِك أمتي بالسَّنةِ فأعطانيها . وسألتُه أن لا يهلِك أمتي بالغرقِ فأعطانيها . وسألتُه أن لا يجعلَ بأسَهم بينهم فمنَعَنيها " . وفي رواية : أنه أقبل مع رسولِ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ في طائفةٍ من أصحابِه . فمرَّ بمسجدِ بني معاويةَ .
الراوي: سعد بن أبي وقاص المحدث:مسلم - المصدر: صحيح مسلم - الصفحة أو الرقم: 2890
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
لیکن مذکورہ حدیث میں کہیں بھی اس بات کا ذکر نہیں کہ خلیفہ دوئم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا سے دعا کروائی ہو بلکہ نہایت واضح الفاظ میں خود خلیفہ دوئم خود ہی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا کے وسیلہ سے دعا مانگ رہے ہیں
جہاں تک اس واقعہ کی دیگر روایات کا سوال ہے کہ ان میں خلیفہ دوئم نے دعا کرنے کا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا کو کہا تو اس کے لئے عرض ہے کہ میں نے جو روایت پیش کی اس کے الفاظ ہیں کہ
" جب کبھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں قحط پڑتا تو عمر رضی اللہ عنہ حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کے وسیلہ سے دعا کرتے "
ان الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ خلیفہ دوئم کے زمانے میں ایک سے زائد مرتبہ قحط پڑا کبھی وہ خود حضرت عباس کے وسیلے دعا کرتے اور کبھی دعا کرنے کے لئے حضرت عباس سے کہتے اس طرح سے تو دونوں صورتیں خلیفہ دوئم کی سنت ہوئی ۔
اسی سوال کا جواب کافی دیر سے آپ پر ادھار ہے کہ سیدنا عمر﷜ نے سیدنا عباس﷜ کی بجائے ڈائریکٹ نبی کریمﷺ کا واسطہ کیوں نہیں دیا؟؟؟
اسی طرح سیدنا عمر﷜ نے گھر بیٹھے بیٹھے سیدنا عباس﷜ کو واسطہ کیوں نہیں بنایا؟
سیدنا علی﷜ نے کیا کبھی اللہ سے دُعا کرتے ہوئے نبی کریمﷺ کے واسطے سے مانگا؟؟؟
ظاہر وباہر بات ہے کہ تمام صحابہ کرام﷢ بشمول سیدنا علی﷜ کا موقف اس بارے میں آپ کے موقف کے بالکل خلاف ہے۔

اللہ آپ کو جزاء عطاء فرمائے اچھا ہوا آپ نے ہی یہ آیت مبارکہ پیش فرمادی
اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ

اور ہم نے کوئی رسول نہ بھیجا مگر اس لئے کہ اللہ کے حکم سے اُس کی اطاعت کی جائے اور اگر جب وہ اپنی جانوں پر ظلم کریں تو اے محبوب تمہارے حضور حاضر ہوں اور پھر اللہ سے معافی چاہیں اور رسول ان کی شفاعت فرمائے تو ضرور اللہ کو بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں
( مترجم : امام احمد رضا بریلوی )

اس فرمان باری تعالیٰ میں تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سواء کسی اور بزرگ کی بارگاہ میں حاضر ہونے کا حکم تو نہیں دیا جارہا پھر آپ کس بنیاد پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت میں بزرگوں کو شریک کر رہیں ہیں کیا یہ غلو نہیں

دوسری بات یہ کہ اگر آپ کے عقائد کے مطابق تو یہ آیت منسوخ سمجھی جائے گی کیونکہ فی زمانہ اگر کوئی اپنی جانوں پر ظلم کریں تو ان کے لئے ممکن ہی نہیں کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوسکےاب سوال یہ ہے کہ اس آیت کی منسوخی کا الہام کن پر ہوا اور جو آپ نے اس آیت سے نبی اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہکے سواء اور بزروگوں کی بارگاہوں کو جو رسالت میں شریک کیا وہ الہام کن پر ہوا؟؟؟
سبحان اللہ! قرآن کریم کے اکثر خطابات نبی کریمﷺ سے ہی ہیں کیا وہ دیگر امت کیلئے نہیں؟؟؟

مثلاً
﴿ يـٰأَيُّهَا النَّبِىُّ إِذا طَلَّقتُمُ النِّساءَ فَطَلِّقوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ وَأَحصُوا العِدَّةَ ۖ وَاتَّقُوا اللَّـهَ رَ‌بَّكُم ۖ لا تُخرِ‌جوهُنَّ مِن بُيوتِهِنَّ وَلا يَخرُ‌جنَ إِلّا أَن يَأتينَ بِفـٰحِشَةٍ مُبَيِّنَةٍ ۚ وَتِلكَ حُدودُ اللَّـهِ ۚ وَمَن يَتَعَدَّ حُدودَ اللَّـهِ فَقَد ظَلَمَ نَفسَهُ ۚ لا تَدر‌ى لَعَلَّ اللَّـهَ يُحدِثُ بَعدَ ذٰلِكَ أَمرً‌ا ١ ﴾ ... سورة الطلاق ... وغيرها من الآيات

کسی بھی آیت وحدیث یا حکم کو نبی کریمﷺ سے مخصوص کرنے کیلئے الگ سے دلیل کی ضرورت ہوتی ہے۔ آپ دلائل سے ثابت کریں کہ یہ آیت کریمہ نبی کریمﷺ کے ساتھ خاص ہے؟!

یہ آیت کریمہ منسوخ نہیں ہے ، نہ ہی نبی کریمﷺ کے ساتھ خاص ہے۔ تمام صحابہ کرام﷢ کا موقف یہی ہے کہ بقید حیات بزرگ کے پاس جا کر اس سے دعا کرائی جا سکتی ہے۔ اسی لئے تو اسی آیت کریمہ کے پیش نظر سیدنا عمر﷜ نے سیدنا عباس﷜ کے پاس جا کر ان سے دُعا کرائی تھی اور کسی ایک صحابی نے بھی ان کی تردید نہیں کی۔
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
سبعَةٌ لعَنَهم اللهُ تعالى و كلُّ نبيٍّ مجابٌ: الزَّائدُ في كتابِ اللهِ و المكذِّبُ بقَدَرِ اللهِ، والمتسَلِّطُ على أمَّتي بالجبَروتِ ليُذِلَّ مَن أعزَّ اللهُ و يُعزَّ مَن أذَلَّ اللهُ عزَّ وجلَّ، والمستَحلُّ محارمِ اللهِ تعالى، و التَّاركُ لسنَّتي و المستحلُّ مِن عِترتي ما حرَّمَ اللهُ عزَّ وجلَّ
الراوي: عائشة أم المؤمنين المحدث:الألباني - المصدر: تخريج كتاب السنة - الصفحة أو الرقم: 337
خلاصة حكم المحدث: إسناده ضعيف
[/arb]
کتاب السنتہ میں درج اس حدیث کی سند کو علامہ البانی صاحب ضعیف بتاتے ہیں لیکن علامہ جلال الدین سیوطی الجامع الصغير میں درج اس حدیث کی سند کو صحیح بتاتے ہیں اور نور الدين الهيثمي مجمع الزوائد

ستةٌ لَعَنْتُهم ولعنَهمْ اللهُ وكلُّ نبيٍّ مُجابٌ : الزائدُ في كتابِ اللهِ، والمُكَذِّبُ بقدَرِ اللهِ، والمُتسلطُ بالجبروتِ فيُعِزُّ بذلكِ منَ أَذَلَّ اللهُ ويذلُّ منْ أعزَّ اللهُ، والمستَحِلُّ لحَرِمِ اللهِ، والمستحلُّ منْ عِتْرَتِي ما حَرَّمَ اللهُ، والتاركُ لسنتِي
الراوي: عائشة وعبدالله بن عمر المحدث:السيوطي - المصدر: الجامع الصغير - الصفحة أو الرقم: 4660
خلاصة حكم المحدث: صحيح
سبعَةٌ لعَنتُهُم وَكلُّ نبيٍ مُجابٌ الزَّائدُ في كتابِ اللَّهِ والمُكذِّبُ بقدرِ اللَّهِ والمستحلُّ حُرمةَ اللَّهِ والمستحلُّ مِن عِترتي ما حرَّمَ اللَّهُ والتَّارِكُ لِسُنَّتي والمستأثِرُ بالفَيءِ والمتجبِّرُ بسلطانِه لِيُعِزَّ مَن أذَلَّ اللَّهُ ويُذِلَّ مَن أعزَّ اللَّهُ
الراوي: عمرو بن سعواء اليافعي المحدث:السيوطي - المصدر: الجامع الصغير - الصفحة أو الرقم: 4648
خلاصة حكم المحدث: حسن
ستَّةٌ لعَنتُهُمْ وكلُّ نَبِيٍّ مجابٌ الزائدُ في كتابِ اللهِ والمكذبُ بقدرِ اللهِ والمستحِلُّ لمحارمِ اللهِ والمستحِلُّ من عِتْرَتِي ما حرَّمَ اللهُ وتارِكُ السنَّةِ
الراوي: عائشة أم المؤمنين المحدث:الهيثمي - المصدر: مجمع الزوائد - الصفحة أو الرقم: 7/208
خلاصة حكم المحدث: رجاله ثقات
ستَّةٌ لعنتُهُم ولعنَهُمُ اللَّهُ وَكُلُّ نبيٍّ مُجابٌ الزَّائدُ في كتابِ اللَّهِ عزَّ وجلَّ والمُكَذِّبُ بقدرِ اللَّهِ والمتسلِّطُ على أمَّتي بالجبَروتِ ليُذِلَّ مَن أعزَّ اللَّهُ ويُعزَّ من أذلَّ اللَّهُ والمستَحلُّ حُرمةَ اللَّهِ والمستَحلُّ مِن عِترتي ما حرَّمَ اللَّهُ والتَّارِكُ السُّنَّةَ
الراوي: عائشة أم المؤمنين المحدث:المنذري - المصدر: الترغيب والترهيب - الصفحة أو الرقم: 1/65
خلاصة حكم المحدث: [إسناده صحيح أو حسن أو ما قاربهما]



بہرام صاحب سے سوال ہے کہ درج ذیل حدیث مبارکہ میں نبی کریم کی تیسری دُعا قبول نہیں کی گئی، کیوں؟
أنَّ رسولَ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ أقبلَ ذاتَ يومٍ من العاليةِ . حتى إذا مر بمسجدِ بني معاويةَ ، دخل فركع فيه ركعتَين . وصلَّينا معه . ودعا ربه طويلًا . ثم انصرف إلينا . فقال صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ " سألتُ ربي ثلاثًا . فأعطاني ثنتَين ومنعني واحدةً . سألتُ ربي أن لا يُهلِك أمتي بالسَّنةِ فأعطانيها . وسألتُه أن لا يهلِك أمتي بالغرقِ فأعطانيها . وسألتُه أن لا يجعلَ بأسَهم بينهم فمنَعَنيها " . وفي رواية : أنه أقبل مع رسولِ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ في طائفةٍ من أصحابِه . فمرَّ بمسجدِ بني معاويةَ .
الراوي: سعد بن أبي وقاص المحدث:مسلم - المصدر: صحيح مسلم - الصفحة أو الرقم: 2890


اس کے لئے میں پہلے ہی عرض کرچکا کہ
اگر آپ کے اقوال کو مانا جائے تو پھر اس اہل سنت کی اس صحیح حدیث کو جعلی مانا پڑے گا
اگر صحیح مسلم کی حدیث سے یہ مطلب نکلتا ہے کہ نبی کی ہر دعا قبول نہیں ہوتی تو پھر الجامع الصغير اور مجمع الزوائد کی احادیث کو جعلی مانا پڑے گا
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
اسی سوال کا جواب کافی دیر سے آپ پر ادھار ہے کہ سیدنا عمر﷜ نے سیدنا عباس﷜ کی بجائے ڈائریکٹ نبی کریمﷺ کا واسطہ کیوں نہیں دیا؟؟؟
اسی طرح سیدنا عمر﷜ نے گھر بیٹھے بیٹھے سیدنا عباس﷜ کو واسطہ کیوں نہیں بنایا؟
سیدنا علی﷜ نے کیا کبھی اللہ سے دُعا کرتے ہوئے نبی کریمﷺ کے واسطے سے مانگا؟؟؟
ظاہر وباہر بات ہے کہ تمام صحابہ کرام﷢ بشمول سیدنا علی﷜ کا موقف اس بارے میں آپ کے موقف کے بالکل خلاف ہے۔
اس سوال کا جواب دیا جاچکا ہے لیکن ایک بار پھر آپ کی خدمت میں عرض کئے دیتا ہوں
اس دھاگہ کا عنوان ہے
واسطوں پر بھروسا۔ نواقض اسلام
اس مضمون میں ہر قسم کے واسطوں اور وسیلوں کو ناجائز کہا گیا ہے لیکن پھر درج ذیل واسطے یا وسیلے جائز ہونے کا اقرار کرکے خود ہی اس مضمون کا رد کردیا گیا
1۔ اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ اور صفات کاملہ کے ذریعے سے دعا کرنا۔
2۔ اپنے اعمال صالحہ کے وسیلے سے اللہ تعالیٰ سے دعا کرنا ۔
3۔ کسی زندہ و نیک انسان سے دعا کروانا
تین وسیلے یا واسطوں کو بلا چوں وچرا تسلیم کرکے خود ہی اس دھاگہ کا رد کردیا گیا اور یہ تسلیم کرلیا گیا کہ ہر قسم کے واسطے نقائص اسلام نہیں آئیں اب ان تیں صورتوں کا جائزہ لیتے ہیں جو کہ جائز ہیں اور ان کا موازنہ ان وسیلہ کی ان صورتوں سے کرتے ہیں جو کہ صرف کچھ سلفیوں کے نزدیک ناجائز ہے اور ان سے اسلام میں نقص آجاتا ہے ؎
اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ اور صفات کاملہ کے ذریعے سے دعا کرنا۔
یہ ایک ایسا نکتہ ہے جس میں کسی بھی مسلمان کو اعترض نہیں مگر کمال کی بات یہ کہ اس مضمون میں اس کا بھی ذکر نہیں کیا گیا کہ اس اس واسطے سے دعا کرنے سے اسلام میں نقص پیدا نہیں ہوتا​
اپنے اعمال صالحہ کے وسیلے سے اللہ تعالیٰ سے دعا کرنا ۔
یعنی یہ کہ اپنے جن اعمال کے بارے میں یہ گمان رکھتا ہوں کہ یہ میرا نیک عمل ہے ان کا واسطہ دے کر اللہ سے دعا کرسکتا ہوں جبکہ مجھے نہیں معلوم کہ اپنے جن اعمال کو میں صالح گمان کررہا ہوں وہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں مقبول ہیں یا پھر یہ اعمال اللہ تعالیٰ میرے منہ پر مار دے گا اب ایک غیر یقنی بات کس طرح اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں مقبول ہوسکتی ہے ؟
کسی زندہ و نیک انسان سے دعا کروانا
اس عقیدے میں بھی یہی بات کہ جس زندہ نیک انسان کو میں اپنے گمان میں نیک سمجھ رہا ہوں کیا واقع میں وہ نیک ہے یہ بھی کوئی یقینی بات نہیں کیونکہ مجھے نہیں معلوم کہ میں جس کو نیک سمجھ رہا ہوں اس کا خاتمہ ایمان پر ہوگا یا نہیں ؟​
آئیں اب میں آپ کو ایک ایسے وسیلے کی طرف دعوت دیتا ہوں جو آپ کے عقائد کے مطابق بھی یقینی امر ہے وہ ہے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات گرامی قدر جن کے بارے میں ہر مسلمان کا ایمان کی حد تک یقین ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات گرامی قدر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں سب سے ذیادہ مقبول ہے
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے حبیب کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صدقے ہمیں دین کی سمجھ عطاء کرے آمین​
اب میرے سوال کا جواب جو کہ آپ لوگوں پر ادھار ہے اس کا بھی جواب عنایت فرمادیں​
اگر یہ الہام صحابہ پر ہوا کہ یہ آیت منسوخ ہوچکی ہے تو پھر اس کی دلیل بھی قول صحابہ سے عنایت فرمادیجئے جس میں یہ الفاظ بھی ہوں کہ مجھے یہ الہام ہوا
کیونکہ آیت قرانی کی ناسخ و منسوخ کا قاعدہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں کچھ اس طرح ذکر کیا ہے
ہم اپنی جس آیت کو منسوخ کردیتے ہیں یا بھلا دیتے ہیں، اس کی جگہ اس سے بہتر لاتے ہیں یا کم از کم ویسی ہی۔ کیا تم جانتے نہیں ہو کہ اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے
سورہ البقرہ 106
اب آپ یہ بتائیں کہ اگر یہ آیت منسوخ ہے تو اس کو نسخ کرنے والی آیت کون سے صحابی پر نازل ہوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
سبحان اللہ! قرآن کریم کے اکثر خطابات نبی کریمﷺ سے ہی ہیں کیا وہ دیگر امت کیلئے نہیں؟؟؟
کسی بھی آیت وحدیث یا حکم کو نبی کریمﷺ سے مخصوص کرنے کیلئے الگ سے دلیل کی ضرورت ہوتی ہے۔ آپ دلائل سے ثابت کریں کہ یہ آیت کریمہ نبی کریمﷺ کے ساتھ خاص ہے؟!
اور اگر جب وہ اپنی جانوں پر ظلم کریں تو اے محبوب تمہارے حضور حاضر ہوں اور پھر اللہ سے معافی چاہیں اور رسول ان کی شفاعت فرمائے تو ضرور اللہ کو بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں
اگر آپ کی مراد اس آیت کریمہ سے جس کا ترجمہ اوپر پیش کیا گیا تو اس آیت کو تو خود اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کے لئے خاص کردیا ہے یہ فرما کر کہ " رسول ان کی شفاعت فرمائے تو ضرور اللہ کو بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں گے"
جس طرح آپ نے اس آیت کو تمام نیک بزرگوں کے لئے عام کردیا اس سے تو یہی معلوم ہوتا ہے آپ ختم نبوت کے قائل نہیں کیونکہ اس آیت میں اللہ کا فرمان ہے کہ جو لوگ اپنی جانوں پر ظلم کریں تو رسول کی بارگاہ میں حاضر ہوں اور پھر اللہ سے معافی چاہیں اور رسول ان کی شفاعت فرمائے تو ضرور اللہ کو بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں
اس آیت کو تمام نیک بزرگوں کے لئے مان کر کہیں آپ نے ان نیک بزرگوں کو رسول تو نہیں مان لیا ؟؟؟؟؟؟؟
 
Top