• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

’مدینہ طیبہ‘ سے ’پاکستان‘ کا سفر

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
مرکز البیت العتیق میں حاضری:
البیت العتیق جامعہ رحمانیہ کی ہی ایک شاخ ہے، یہ مرکز تو کافی پرانا ہے، پہلے کسی اور کے پاس تھا، بعد میں اس کے مہتمم خواجہ عتیق صاحب نے اس کی ذمہ داری مدنی خاندان کو سونپ دی۔ مجھے یہاں پڑھنے کا اتفاق نہیں ہوا، البتہ ہمارے کئی ہم جماعت یا سینئر جونیئر ساتھی اور اساتذہ کرام اس ادارے سے منسلک ہیں، اس لیے ہم جامعہ رحمانیہ سمجھ کر ہی یہاں حاضری دیتے ہیں۔
یہاں اساتذہ کرام میں قاری خالد فاروق صاحب، قاری فیاض صاحب، شیخ زید صاحب، شیخ احسان اللہ فاروقی صاحب، قاری عارف بشیر صاحب سے شرف ملاقات حاصل ہوا، اس کے علاوہ قاری عاشب ، قاری ظہیر نام سے دو شخصیات، علامہ عاشق ، قاری اللہ دتہ، عبد الماجد ساقی، قاری یحیی طالب ، قاری اکمل ، ابو سفیان میر محمدی ، قاری محمد ، قاری فیاض منیر وغیرہم سے ملنے کا موقعہ ملا، ہماری نازک مزاجی کا خیال رکھتے ہوئے رات کو جہاں سونے کا انتظام کیا گیا، وہاں اے سی بھی چلوا دیا گیا، قاری ظہیر خان صاحب جو ہم سے سینئر ہیں، انہوں نے ہمیشہ کی طرح خصوصی محبت کا اظہار کیا، اور ایک دوسرے قاری ظہیر صاحب جو ہم سے جونیئر ہیں، اس وقت شعبہ حفظ کے انچارج ہیں، انہوں نے بھی اہتما م کے ساتھ مہمان نوازی کی، شہری بچوں پر مشتمل حفظ کلاسوں کا وزٹ کروایا، اور ادارے کے پراسپکٹس کا ایک نسخہ عنایت فرمایا، جو اس وقت میرے سامنے موجود ہے۔
جہاں بھی جائیں، اساتذہ ہوں یا دیگر احباب، عموما حوصلہ افزائی کرتے ہیں، توجہ سے ملتے ہیں، بعض ایسے بھی ہوں گے، جنہیں اس ’ مدنی چھوکرے‘ میں تکبر وغرور کے جراثیم نظر آتے ہیں، وہ بھی حسب توفیق اسی قسم کا رویہ اختیار کر لیتے ہیں، چوٹ مارنے کی آزمائش میں ہم کسی سے کم مبتلا نہیں، لیکن سہنے کا تجربہ بھی بعض دفعہ اچھا رہتا ہے ۔
ہمارے محسن و مربی شیخ شفیع طاہر صاحب ، کبھی اسی ادارے میں ملا کرتے تھے، لیکن اب کی بار وہ لاہور ایک اور مدرسے میں تھے، فون کے ذریعے ملنے کی اجازت چاہی، انہوں نے خوش آمدید کہتے ہوئے ، ایڈریس بھی میسیج کردیا۔ حاضر ہوا، خندہ پیشانی سے ملے، دونوں طرف سے خیر و عافیت دریافت کی گئی، استاد جی نے بطور ضیافت آم ، آلو بخارا وغیرہ منگوائے، ہم نے ملکر خوب کھائے، جب میں آخری دفعہ لسی گلاس میں ڈالنے لگا، تو تھوڑی ان کے گلاس میں بھی ڈال دی، لمحہ بھر سوچ کر کہنے لگے، اللہ بھلا کرے ! میرا تو آج روزہ تھا۔۔۔۔ میں نے ہنستے ہوئے عرض کیا استاد جی ، خوش ہوئیے ، إنما أطعمک اللہ و سقاک ۔
جہاں انسان کا تعلق اور لگاؤ ہو، وہاں شکوے بھی ہوتے ہیں، فرمانے لگے، جب پہلے ادارے سے میں بالکل نا امید ہوگیا، تو میں نے لاہور میں کئی جگہ پر پتہ کیا ملازمت دینا تو دور کی بات، کوئی میری کتابیں اپنی لائبریری میں رکھنے کے لیے تیار نہیں تھا، شیخ صاحب کے پاس کتابوں کا ٹھیک ٹھاک ذخیر ہ ہے، میں ان کے سامنے سر جھکائے بیٹھا تھا، کیونکہ ہمارے جیسی پود جب آگے آتی ہے، تو پرانے اساتذہ و ملازمین کے لیے جگہ تنگ ہوجاتی ہے۔ اللہ سے دعا ہے ، اللہ ہمیں اس قسم کی ہر آزمائش سے بچائے کہ جب ہماری ترقی ہمارے اساتذہ و بزرگوں کی ’ چھٹی‘ کا ذریعہ بن جائے۔
دنیاوی لالچ ،مجبوریاں اور سہولتیں انسان کو اس قدر جکڑ لیتی ہیں کہ انسان چاہتے ہوئے بھی ان ہستیوں کےلیے کچھ نہیں کر پاتا، جنہوں نے انہیں انگلی پکڑ کے چلنا سکھایا ہوتا ہے، وہ مہربان جو ہمیں ہیرے کی طرح تراشتے ہیں، ایک وقت آتا ہے، کہ وہ انہیں ہیروں کی تیز دھار کا نشانہ بن جاتے ہیں۔
تعلیم و تعلم دینی ہو یا دنیاوی، اس میں استاد ایک ایسا کردار ہے، جس کا استحصال ہمارے معاشرے کی پیشانی پر بدنماں داغ ہے، جو پڑھے لکھے دماغوں میں موجود جہل کا پتہ دیتا ہے۔ ہم دینی مدارس کو روتے رہتے ہیں، کبھی دنیاوی تعلیم دینے والے پرائیوٹ سکولوں میں جاکر دیکھیے، چار پانچ ہزار دے کر لوگوں کو خرید لیا جاتا ہے۔ اگر ٹیچر خاتون ہے ، تو اس کی عزت و عفت کو الگ چیلنج در پیش ہوگا۔
معمارانِ ملت کی یوں ناقدری، شاید ہماری قوم کے زوال کے اسباب میں یہ جاہلانہ رویے بھی ہیں۔
رضوان مرحوم کے بھائی سے ملاقات:
شیخ رضوان رفیق رحمہ اللہ، جو دو سال قبل اپنے اہل خانہ سمیت ایک حادثے کا شکار ہوگئے تھے، ان کے دو بچے الحمد للہ خیر و عافیت سے اپنے چچا اور دادا کے پاس موجود ہیں، ان بچوں کی ایک امانت میرے پاس تھی، جو ان تک پہنچانا ضروری تھی، ویسے بھی رضوان صاحب کے بھائی شفیق صاحب نے کئی مرتبہ گھر آنے کی دعوت تھی، لاہور کماہاں رہائش پذیر ہیں، میں دو تین دن لاہور رہ کر گیا، لیکن اساتذہ کرام کے ساتھ مصروفیت کچھ اس قسم کی تھی کہ چاہتے ہوئے بھی شفیق صاحب سے ملاقات نہیں ہوسکی ۔ ایک دن لاہور جمعہ کی ذمہ داری تھی، میں دو گھنٹے پہلے ہی گھر سے روانہ ہوگیا، شفیق صاحب سے رابطہ ہوا، انہوں نے خوش آمدید کہا، اور بڑی محبت سے میٹرو سٹاپ پر لینے کے لیے بھی آ گئے، نہ صرف یہ، بلکہ پر تکلف ناشتہ بھی پیش کیا، شیخ رضوان کے صاحبزادوں محمد اور احمد سے مل کر بہت خوشی اور اطمینان ہوا، ماشاء اللہ ، بچوں میں گھل مل گئے ہیں، چھوٹا احمد تو حادثے کے وقت سال سے بھی کم عمر کا تھا، پاکستان آکر چچا چچی کا رضاعی بیٹا بن گیا، اور اب انہیں ہی امی ابو پکارتا ہے، بڑے محمد کو امی ابو یاد آتے ہوں گے، لیکن بہرصورت دیکھنے سے محسوس ہوتا ہے کہ اللہ نے اسے صبر و اطمینان سے نواز دیا ہے۔ اللہ ان بچوں کی عمر میں برکت دے، انہیں والدین کے لیے بہترین صدقہ جاریہ بنائے، اور بڑوں کی جو کمیاں کوتاہیاں اور نادانیاں ان ننھے پھولوں کے مرجھانے کا سبب بن سکتی ہیں، اللہ ان سب مصیبتوں سے ان کو محفوظ رکھے۔
رضوان مرحوم والا حادثہ ایسا ہے، شاید زندگی بھر کبھی نہ بھول سکے، اس حادثے نے ہمیں بہت کچھ سکھایا، بہت کچھ آشکار کیا، یہ ایک حادثہ ہی نہیں، عبرتوں اور نصیحتوں کا ایک پورا باب ہے، ایک ایسی کہانی جس میں معاشرے میں پائے جانے والے کئی کردار بہت نمایاں ہو کر نظر آتے ہیں۔
 
Last edited:

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
وہابیوں کا مرکز گوجرانوالہ:
ہوش سنبھالتے ہی جس شہر کا ہم نے نام بہت زیادہ سنا، وہ گوجرانوالہ ہے، گوجرانوالہ سے تھوڑا پہلے چن دا قلعہ کے پاس ایک گاؤں اٹاوہ میں بڑی خالہ رہتی ہیں، نانی جان نے بھی حیات مستعار کے آخری برس وہیں گزارے، ہم شروع میں اسی جگہ کو ننھیال سمجھتے تھے، بعد میں ہمشیرہ کی شادی بھی خالہ زاد سے یہیں ہوئی۔
اٹاوے آنا ہوا، تو آگے شہر میں بھی جانے کا پروگرام بن گیا، کچھ عرصہ پہلے نوید ضیا کے ایڈیٹر محمد ابرار ظہیر صاحب نے بڑے خلوص سے آنے کی دعوت دی تھی، ظہیر صاحب سے فون کے ذریعے رابطہ ہوا، انہوں نے اپنے دفتر کا ایڈریس بتادیا، خالہ زاد بڑے بھائی حافظ فریاد صاحب نے کہا، رکشہ وغیرہ پر جانے کی بجائے، میں آپ کو وہاں تک چھوڑ آتا ہوں، یہ مغرب سے تقریبا ایک گھنٹہ پہلے کی بات ہے، ہم شہر کی جانب روانہ ہوئے، صاف ستھری سڑکوں پر چلتے ہوئے شہر کی سب سے پہلی جو چیز اپنی طرف متوجہ کرتی ہے، وہ ایک خوبصورت و وسیع مسجد ہے، مسجد کا نام پتہ نہیں، لیکن اس کے باہر اشتہارات و اعلانات سے پتہ چلا کہ یہ جماعۃ الدعوۃ کے زیر انتظام ہوگی، متناسب حجم کے یہ مینار دور سے ہی نمازیوں کا استقبال کرتے نظر آتے ہیں، گویا مسجد بانہیں پھیلائے کھڑی ہے، اور شہر میں داخل ہونے والوں کو کامیابی و کامرانی کی طرف خاموشی و مستقل مزاجی سے دعوت دینے میں مصروف ہے۔
تھوڑا آگے جاکر اسی سمت جامعہ محمدیہ گوجرانوالہ کی شانداربلڈنگ بھی آتی ہے، دور سے ہی دیکھ سکا،گیٹ سے اندر اور باہر کچھ لوگ چلتے پھرتے نظر آرہے تھے۔ بلاشبہ یہ ادارہ یاد گار اسلاف ہے، اللہ اس کو مزید ترقی عطا فرمائے۔
گوجرانوالہ کھانے پینے کے حوالے سے مشہور ہے، لیکن یہ شہر علم و ثقافت کا بھی مرکز ہے، بالخصوص اہل حدیث ، شاید اتنی زیادہ تعداد میں کسی اور شہر میں نہیں ہوں گے، اہل حدیث کی بے شمار مساجد بھی یہاں موجود ہیں، حافظ گوندلوی، مولانا حنیف ندوی، مولانا اسماعیل سلفی، حافظ عبد المنان نور پوری، مولانا اسحاق بھٹی جیسی کئی ایسی شخصیات ہیں، جن پر اس شہر کی تاریخ ہمیشہ فخر کرتی رہے گی۔
تھوڑا آگے جاکر میں سٹرک ایک فلائی اوور کی شکل میں اوپر کی جانب چلی جاتی ہے، جبکہ اس کے بائیں جانب ایک چوک میں بڑی مہارت کے ساتھ تانگہ گھوڑا کا ماڈل رکھا ہوا ہے، جس پر پگڑی اور دھوتی کرتے میں ملبوس ایک کوچوان بھی بٹھایا گیا ہے، ابرار ظہیر صاحب نے مجھے یہی نشانی بتائی ، یہاں آکر ابرار صاحب سے رابطہ ہوا، انہوں نے کہا، میں چند منٹ تک آتا ہوں، میں نے بھائی صاحب سے کہا، آپ واپس جا سکتے ہیں، ابرار ظہیر صاحب موٹر سائیکل کے ذریعے کچھ ہی منٹ میں پہنچ گئے، موٹر سائیکل سے اتر کر گرمجوشی سے بغلگیر ہوئے، اور ہم ان کے دفتر کی جانب روانہ ہوگئے، رستے میں انہوں نے فلائی اوور کے پلرز گن کر بتایا کہ اتنے نمبر پلر کے بالکل سامنے والی گلی میں ہمارا دفتر ہے۔
نوید ضیا کے دفتر میں پہلے سے کافی سارے اہل علم و دانش موجود تھے، جن میں سے ایک بزرگ مولانا صادق عتیق صاحب کا نام مجھے یاد ہے، تقریبا بیس منٹ آدھا گھنٹہ باہمی تعارف اور مختلف موضوعات پر گفتگو جاری رہی،مغرب کی اذان ہوئی، دفتر کے باہر ہی ایک ہال میں نماز باجماعت ادا کی گئی، دفتر کے اندر اورباہر اس ہال میں نوید ضیا کے تعارف، ابتدا، اہداف و مقاصد کے متعلق مختلف خوبصورت پوسٹرز اور بینزز آویزاں تھے۔ دفتر میں اسے سی اور انٹرنیٹ کی سہولت بھی موجود تھی، اور ایک پرانی شکل و شباہت کا کمپیوٹر بھی موجود تھا، جس میں ہفت روزہ نوید ضیا کا سارا کام ہوتا ہے، پہلے ایک ڈیزائنر موجود تھے، اب یہ سب کام خود ابرار ظہیر صاحب ہی سرانجام دیتے ہیں، نوید ضیا کا مکمل ریکارڈ اس کمپیوٹر میں محفوظ ہے، یہاں سعودی عرب اور کئی اہم شخصیات پر نوید ضیا کے اہم شمارہ جات دیکھنے کا موقعہ ملا۔
ابرار صاحب نے بتایا کہ وہ ان دنوں رانا شفیق پسروری صاحب کے متعلق شمارہ تیار کر رہے ہیں۔ ( جو اب چھپ چکا ہے۔) میں نے ان سے عرض کیا، آپ نوید ضیاکے مضامین کو یونیکوڈ میں بھی نشر کیا کریں، ایک تو پڑھنا آسان ہوتا ہے، دوسرا سرچ انجن میں آجاتے ہیں، فی الوقت نویدضیا کا جو فارمیٹ ہے، اس سے آن لائن استفادہ بہت ہی محدود نظر آتا ہے۔
آپ نے سوشل میڈیا پر کبار علمائے اہل حدیث کی تصاویر پر مشتمل ایک اشتہار دیکھا ہوگا، وہ بھی دراصل ابرار ظہیر صاحب کی ہی کاوش ہے،ان تصاویر کو اکٹھا کرنے میں بقول ان کے انہوں نے بہت محنت اور اسفار کیے تھے، اللہ تعالی ان کی یہ محنت قبول فرمائے۔
اجازت چاہی تو کہنے لگے، گوجرانوالہ آئے ہیں، کھانا کھانے کے بغیر اجازت کا کوئی تصور نہیں، موٹر سائیکل پر سوار ہو کر تنگ اور رش زدہ گلیوں سے ہوتے ہوئے ہم ایک کھابا پوائنٹ کی جانب بڑھ رہے تھے، رستے میں انہوں نے اہل حدیث کی ایک قدیم مسجد بھی دکھائی، جس کا صحیح تعارف اب مجھے یاد نہیں، البتہ یہ کہہ رہے تھے کہ جامعہ محمدیہ کی ابتدا اسی مسجد سے ہوئی تھی۔
ہوٹل پر ایک قاری صاحب پہلے سے موجود تھے، جو کھابا اسپیشلسٹ تھے، انہوں نے چکن اور مٹن کباب وغیرہ کا آرڈر دیا ہوا تھا، کھانے کے دورا ن مختلف موضوعات پر بات ہوتی رہی، ان دنوں یہ موضوع بھی شدت سے زیر بحث تھا کہ ووٹ کس کو دینا ہے؟ جواب یہی تھا کہ جماعتی پالیسی کے مطابق نون لیگ کی حمایت کی جائے۔
ابرار صاحب نے ایک بات کی وضاحت کی کہ ایوان میں ہمیں جو ایک دو سیٹیں مل جاتی ہیں، یہ ہماری جماعتی حکمت عملی کا نتیجہ ہے، ورنہ خود ہماری اہل حدیث کی سیاسی قوت اتنی ہے کہ ایک بھی سیٹ نہیں لے سکتے، بزبان شکوہ فرمانے لگے، ہمارے نوجوان حالات کی نزاکت کو سمجھنے کی بجائے، گریبان پھاڑنے کو دوڑتے ہیں، بد تمیزی پر اترآتے ہیں، حسن ظن نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہی۔ اس پر میں نے غور سے سننے کی ایکٹنگ کی بجائے اور کوئی رد عمل نہیں دیا۔
کھانے سے فارغ ہونے کے بعد میں نے دونوں میزبانوں کا شکریہ ادا کیا، اور ابرار صاحب مجھے میں روڈ پر ایک جگہ پر چن دا قلعہ والے رکشہ میں بٹھا گئے، وہاں سے شیخوپورہ کی گاڑی نہ مل سکی، مجبورا کھیالی بائی پاس جانا پڑا، وہاں بھی گاڑی آنے میں کچھ تاخیر ہوگئی، جب میں شیخوپورہ گھر پہنچا تو رات کے تقریبا 12 بج رہے تھے۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
پاکستان میں ٹرانسپورٹ کے متعلق کچھ تجربات و مشاہدات:
بچپن میں ہماری داستان سفر رائیونڈ، گوجرانوالہ ، شیخوپورہ اور فیصل آباد تک محدود رہی ، مدرسہ میں داخلہ ہوا، تو لاہور آنا جانا بھی بہ کثرت ہوگیا، ان سب میں سفر کی نوعیت تقریبا ملتی جلتی ہے،عموما لوکل ٹرانسپورٹ پر ہی سفر کیا، مجھے نہیں یاد کہ ہم نے کبھی آنے جانے کےلیے ٹیکسی وغیرہ کا سہارا لیا ہو۔
اکثر کوسٹر، بڑی بس، ہائی ایس اور کافی دفعہ ٹرین کے ذریعے ہم گوجرانوالہ یا فیصل آباد جایا کرتے تھے۔
اس میں مزیدار سفر ٹرین والا ہی کہا جاسکتا ہے، باقی میں تو ہر دفعہ منتظر ہوتے کہ کب سٹاپ آئے اور جان چھوٹے ۔ بہت دفعہ بس یا ہائی ایس کے سفری ماحول کی وجہ سے خوب ابکائیاں بھی کیا کرتے تھے۔ امی ابو کا یہ احسان تھا کہ گاڑی میں بچہ کہہ کر ادھر ادھر دھکیلنے کی بجائے مستقل سیٹ لے دیتے تھے، بلکہ بیٹھنے سے پہلے ہی بس والے سے بات کرتے کہ ہمیں شیشے کی طرف سیٹ ملی تو بیٹھیں گے، ورنہ نہیں۔
اب اے سی بس کا سفر آرام دہ لگتا ہے، لیکن اس وقت ہمیں زہر لگتا تھا، کیونکہ اے سی بس کے شیشے نہیں کھلتے، مجھے یاد ہے، ایک بار ہم گوجرانوالہ جانے کے لیے لاہور سے اسے سی کوسٹر میں بیٹھ گئے، وہاں پہنچتے پہنچتے ڈیڑھ دو گھنٹے میں جو کچھ پیٹ میں تھا، منہ کے ذریعے اپنی اور امی ابو کی جھولیوں میں پچھا دیا گیا تھا۔
خیر یہ سب باتیں بالکل بچپن کی ہیں، جب میں ذرا بڑا ہوا، مدرسہ کے لیے لاہور بہ کثرت آنا جانا شروع کردیا، تو سفر کی عادت سی ہوگئ ، اس لیے طبیعت خراب نہیں ہوتی تھی۔
لاہور یا گوجرنوالہ سے فیصل آباد ، جھنگ ، لیہ جانے والی بڑی بڑی نان اے سی گاڑیوں میں سفر بھی ایک مکمل ’ فن‘ ہے، ایک تو ان کا کرایہ کم ہوتا ہے، دوسرا یہ کوسٹر اور ہائی ایس وغیرہ کے مقابلے میں کشادہ ہوتی ہیں۔ تیسرا اگر کوئی اچھا ٹائم مل جائے تو پہنچا بھی جلدی دیتے ہیں، میں اکیلا ہوں، اور سفر سو ڈیڑھ سو کلو میٹر کی حدود میں ہو انہیں پر جانے کو ترجیح دیتا ہوں۔
ٹویوٹا وغیرہ کا سفر تو اب اس قسم کا ہوگیا ہے کہ نری قید با مشقت ہے،جو آپ کرایہ دے کر اپنے لیے خریدتے ہیں، جہاں بارہ چودہ سواریاں بھی تنگ ہو کر بیٹھتی ہوں، وہاں آپ بیس بائیس بٹھانے کا انتظام کرلیں، تو اندازہ کیجیے، کیا حال ہوگا۔
فیصل آباد سے آگے جھنگ روڈ پر نواں لاہور ایک سٹاپ ہے، چھوٹی خالہ کو ملنے جانا تھا، ابو جی کہنے لگے، ٹویوٹا میں بیٹھ جاؤ، جلدی پہنچا دیتے ہیں، سب سے پیچھے بیٹھ گیا، مجھ سے پہلے ایک اور پتلے سے صاحب بیٹھے تھے، تھوڑی دیر بعد ایک میاں بیوی آئے، جو مجھ سے بھی تھوڑے وسیع تھے، بیٹھنا چاہ رہے تھے ، بیٹھا نہیں جارہا تھا، ضرب تقسیم لگا کر بیٹھ تو گئے، لیکن سارا سفر ایسا محسوس ہوا، یہ مرضی سے بیٹھنے والے انسان نہیں، بلکہ جمادات ہیں، جنہیں مہارت کے ساتھ گاڑی پر لوڈ کردیا گیا ہے۔ بس ادھر ادھر دیکھنے اور نیچے سے تھوڑا بہت پاؤں آگے پیچھے کرنے کا آپشن موجود تھا۔
فیصل آباد سے آگے جھنگ کے لیے بیٹھے، تو وہاں سیٹوں کی ٹیکیں خراب تھیں، ایک بار پھنس کے بیٹھ گئے، جب آگے والوں نے ٹیگ لگائی تو ٹانگیں ہلانے کا آپشن بھی ختم ہوا،ساتھ ایک کالج کا جوان بیٹھا ہوا تھا، جب ہم کرایہ کے لیے پیسے نکالنے لگے، تو ہلنے جلنے میں اس قدر مشقت ہوئی کہ میرے منہ سے بے ساختہ نکلا،’ قید بامشقت‘ مطلب جسے گاڑی سمجھ کر بیٹھے تھے، حقیقت میں قید بامشقت ثابت ہوئی۔
واپسی پر فیصل آباد جی ٹی ایکس اڈے پر اتارا گیا، وہاں سے رکشہ کے ذریعے لاری اڈے آیا، تاکہ ہائی ایسے کا شکار ہونے کی بجائے بڑی بس کے ذریعے شیخوپورہ جاسکوں۔
لاری اڈوں کا کلچر تقریبا ایک جیسا ہی ہے، وہ گاڑی جو اسٹارٹ ہوتی ہے، بلکہ بعض دفعہ یوں محسوس ہورہا ہوتا ہے، ابھی چلنے والی ہے، حقیقت میں ا س نے گھنٹے بعد جانا ہوتا ہے، اور جو اس کے ڈرائیور اور کنڈیکٹر نظر آرہے ہوتے ہیں، وہ حقیقت میں سواریاں پھانسنے والے مزدور ہوتے ہیں، جو ہر گاڑی کو سیٹر کرنے کی مزدوری لیتے ہیں، یہ بعض دفعہ اتنا الحاح و اصرار کرتے ہیں کہ انسان کا خود کو ان سے چھڑانا مشکل ہوجاتا ہے، میں اس صورت حال سے بچنے کے لیے لاری اڈے میں اندر جانے کی بجائے،اس کے دروازے پر ہی کھڑا ہوگیا، تاکہ جو کوئی گاڑی باہر کی طرف آئے گی، اس میں بیٹھ جاؤں گا۔ ابھی یہ سوچ ہی رہاتھا، ایک بندہ آیا کہتا، کہاں جانا ہے، میں نے کہا، شیخوپورہ، ساتھ ہی ایک اور بھی سن رہا تھا، دونوں نے میرا ایک ایک ہاتھ پکڑ لیا، وہ کہے میری گاڑی میں، دوسرا کہے ، نہیں ہم نے پہلے جانا ہے، میں نے کہا، ایسے کرو آپ مجھے آدھا آدھا کرلو، تاکہ دونوں طرف سوار ہوسکوں، ایک جس کی گاڑی ذرا دور تھی، نے تھوڑا شرمندہ ہو کر چھوڑ دیا۔
یہ ’شبیر بردارز‘ کی بس تھی، جس نے لاہور براستہ شیخوپورہ جانا تھا، صبح صبح کا وقت تھا، نعتیں لگی ہوئی تھیں، تھوڑی دیر بعد قوالی شروع ہوئی، جب ہم فیصل آباد سے باہر نکلے ، سورج کی حرارت نے ڈرائیور کو اشارہ دیا کہ اب صبح سویرا ختم ہوچکاہے، اور ’ گانے بجانے‘ کا ٹائم ہوا چاہتا ہے۔ یہ ان کی سادگی سمجھیے یا نادانی، کہ یہ قوالی کے نام پر ڈھول ڈھمکے کو گانا بجانا ہی نہیں سمجھتے۔
دنیا جہان کی تمام بیماریوں کا علاج لے کر آنے والے حکیم، اللہ رسول اور مدرسے کے نام پر مانگنے والے سفیر اور بیوائیں ، یہ بھی اس بس کلچر کا بنیادی حصہ ہیں، ان لوگوں کا بس والوں کے ساتھ اتنا ’ منہ ویار‘ ہوتا ہے کہ انہیں نہ صرف بس میں تقریر کا موقعہ دیا جاتا ہے، بلکہ ان کی گزارش پر بس میں چلنے والا ’کنجر خانہ ‘بھی بند کردیا جاتا ہے۔
وہ کنجر خانہ، جو کسی ماں بہن کی عزت، یا کسی مولوی یا بزرگ کی شرافت کا خیال بھی نہیں کرتا۔ واللہ بہت حیرانی ہوتی ہے، بسوں میں عزیز و رشتہ دار ، مائیں بہنیں بیٹیاں، ہر قسم کے مرد و عورت سفر کر رہے ہوتے ہیں، اور سب ایک دوسرے کے پاس پاس اور بعض دفعہ جڑ جڑ کر بیٹھے ہوتے ہیں، اور سامنے ٹی وی سکرین پر مجرا یا کوئی حیاباختہ فلم چل رہی ہوتی ہے۔ جس میں مرد و عورت عجیب قسم کی حرکات کر رہے ہوتے ہیں، گانوں میں شرم و حیا سے عاری جملے بولے جارہے ہوتے ہیں، لیکن سب مست ہو کر بیٹھے ہوتے ہیں۔
کئی دفعہ بس میں جگہ کی تنگی کے سبب مرد و زن کا فحش قسم کا اختلاط بھی پیدا ہورہا ہوتا ہے۔ پردہ اور حجاب میں ملبوس خواتین پھر بھی کسی حد تک حشمت و وقار سے ہوتی ہیں، ننگے منہ نکال کر، گھٹیا قسم کے فیشن کرکے آنے والی خواتین پتہ نہیں کس کے لیے یہ سب کچھ کرکے آئی ہوتی ہیں؟!
ویسے ڈائیو اور ا س سے ملتی جلتی بس سروسز میں کم از کم اس قسم کی ہلڑ بازی نہیں ہوتی ، بلکہ اب ان بسوں میں سب کو ایک اسکرین دکھانے کی بجائے، ہر سیٹ میں الگ الگ اسکرین لگادی گئی ہے، تاکہ جس نے جو گند مارنا ہے، اپنی حد تک ہی رہے، دوسرے اس سے متاثر نہ ہوں۔ لیکن ان بسوں میں سفر کرنے والے پڑھے لکھے جاہل بھی بہت ہوتے ہیں، عجیب و غریب قسم کے نمونے دیکھنے کو ملتے ہیں، میں نے ایک دفعہ بیگم کے ساتھ اسلام آباد کا سفر کیا، اسی بس میں یہ برگر پارٹی بھی سوار ہوگئی، رمضان کا مہینہ تھا، سارے راہ چرتے رہے، شکل و صورت اور ہیئت و حرکات بتارہی تھیں، غلطی سے ’ اسلامی جمہوریہ پاکستان‘ جیسے ایک مشرقی ملک میں پیدا ہوگئے ہیں۔
اس قسم کی صورت حال دیکھ کر سب سے زیادہ محفوظ ذریعہ یہی محسوس ہوتا ہے کہ کم ازکم فیملی سفر کے لیے اپنی ذاتی گاڑی ہونی چاہیے، ہمارے ہاں کا ٹرانسپورٹ کلچر اس لائق نہیں کہ اپنی بیوی، بہن یا بیٹی کے ساتھ اس میں سفر کیا جاسکے۔
خیر اب آپ فیصل آباد سے چلنے والی ’ شبیر بردارز‘ کی بس کی طرف آجائیے، ایسی بسوں کی کج رفتاری پر یہ شعر صادق آتا ہے:
جو ٹھہرے تو کوہ گراں تھے ہم
جو چلے تو جہاں بھی پار کر گئے
انہوں نے نہ چلنا ہو تو لمبے لمبے سٹاپ اور حرکت مثل چیونٹی، اور جب پیچھے سے کوئی بس آنے کا کاشن مل جائے تو یوں گویا ہوائی جہاز ہے، جو غلطی سے فضا سے سڑک پر آگیا، اور اب دوبارہ تیز رفتار ہو کر اڑنے کی کوشش کر رہا ہے ۔
مظفر آباد کی پہاڑیوں پر جیپوں کے ڈرائیور نہ دیکھے ہوتے ، تو میں ان بس ڈرائیوز کو دنیا کا نمبر ون ڈرائیور کہتا، اللہ کی مرضی ہے کہ انسان چاہے ڈرائیور ہو یا کوئی اور، ہاتھ اس کے دو ہی ہوتے ہیں، لیکن ان ڈرائیورز نے ان دو ہاتھوں کے ساتھ بیک وقت چار چار کام کرنے ہوتے ہیں، سٹیرنگ سنبھالنا، ہارن بجانا، گیئر تبدیل کرنا، سگریٹ نوشی یا کھانے پینے کا کوئی شغل ، اور ساتھ وقت فوقتا موبائل بھی دیکھنا، یہ سب کام انہوں نے صرف دو ہاتھوں سے ہی لینے ہوتے ہیں۔ پاؤں، کلچ بریک اور ریس میں مصروف ہوتے ہیں، جبکہ منہ اسی تیز رفتاری سے یا تو کنڈیکٹر کو گالیاں دینے، یا پھر رستہ نہ دینے والی گاڑیوں کو کوسنے میں مصروف ہوتا ہے، ساتھ ساتھ اگر کوئی سواری بالخصوص اترنے میں دیر کرے، تو اسے دو چار مغلظات سے نوازنا بھی یہ اپنا حق سمجھتے ہیں۔
اوور ٹیکنگ اور کٹ ایسی مارتے ہیں ، کہ ہلکے دل والوں کا ’تراہ‘ اور ہلکے جوڑوں والوں کا کچھ بھی نکل سکتا ہے۔
بالخصوص کاریں وغیرہ رستہ نہ دے رہی ہوں، تو ہارن اتنا تیز مارتے ہیں، گاڑی اتنی اوپڑ چڑھاتے ہیں کہ کمزور اعصاب کا ڈرائیور ہواس باختہ ہوسکتا ہے ۔
اپنے جیسی کسی بس کے ساتھ ان کا ٹاکرا لگ جائے، تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ بس ایکسیڈنٹ اب ہوا کہ اب ہوا۔ بعض ڈرائیور زچ ہو کر پچھلی بس کو رستہ نہیں دیتے، اب پچھلے کا جی چاہ رہا ہوتا ہے، یا تو میں فٹ پاتھ پر چڑھ جاؤں ، یا پھر سٹرک سے نیچے اتار کر اس سے آگے نکل جاؤں۔ ہیلی کاپٹرز وغیرہ گشت پر ہوں تو وہ آپس میں وائرلیس سسٹم کے ذریعے گپ شپ کر رہے ہوتے ہیں، لیکن یہ بس ڈرائیورز اس سب کے بغیر ایک دوسرے تک اپنا پیغام کامیابی سے نقل کرتے ہیں۔
میں شیخوپورہ سے گوجرانوالہ کے لیے راجہ بس سروس پر سوا ر ہوا، ڈرائیور مولوی صاحب تھے، بڑے آرام اور تحمل سے گاڑی چلاتے رہے، ساتھ انہوں نے غالبا مولوی شفیع اوکاڑوی یا ان کے بیٹے کی مسئلہ علم غیب پر تقریر لگائی تھی۔ مرید کے پہنچے، سواریاں اترنا شروع ہوئیں، چڑھنے والی انتظار کر رہی تھیں، تحمل اور آرام کا یہ سماں اس وجہ سے تھا کہ پیچھے سے مزید گاڑی آنے کے کوئی آثار نہیں تھے۔ لیکن پیچھے والے بھی کھلاڑی تھے، اچانک پتہ نہیں کہاں سے آ دھمکے، ڈرائیور کا اس گاڑی کو دیکھنا تھا کہ نکلنے کی کوشش کی، لیکن وہ پہلے ہی نکل چکے تھے، اب ڈرائیور صاحب مسلسل گالی گلوچ اور ہارن پر ہارن بجا رہے تھے، ایک بیچاری خاتون کے دو چار بچے ساتھ تھے، ظاہر ہے وہ کوئی شاپر یا بوری نہیں تھی ، جنہیں دور سے ہی باہر اچھال دیا جاتا، اسے بچوں کے فکر کی وجہ سے اترنے میں دیر ہوئی، نتیجتا ڈرائیور صاحب نے مذکورہ عورت کو خاندانی منصوبہ بندی پر ایک مختصر مگر جامع لیکچر ’نکال‘ دیا۔
گوجرانوالہ کھیالی بائی پاس سے شیخوپورہ کو ایک سنگل سڑک جاتی ہے، جس میں صحیح سلامت سڑک کی بجائے ٹوٹی ہوئی زیادہ ہے، یعنی بقول بعض کھڈوں میں کہیں کہیں سڑک بھی نظر آجاتی ہے۔
سیالکوٹ ڈسکہ سے براستہ شیخوپورہ فیصل آباد جانے والی بسیں رات کو اس سڑک سے جاتی ہیں، میں اس کے انتظار میں کھڑا تھا، کافی دیر بعد بس آئی ، لوگ ٹوٹ کر اس کی طرف دوڑے، انہوں نے صاف اعلان کردیا، جنہوں نے شیخوپورہ یا اس سے پہلے کہیں رستے میں اترنا ہے، وہ گاڑی کے اندر آنے کا تکلف نہ کریں، جانا چاہتے ہوں، تو چھت پر چڑھ جائیں، میں نے سوچا، چلو آج جہاز کی چھت کے سفر کا بھی مزہ لے لیتے ہیں، لیکن تھوڑا اوپر ہو کر دیکھا ، پوری چھت سامان سے لدھی ہوئی تھی، لوگ درمیان میں چارپائیاں ، سائیکل ادھر ادھر کرکے بیٹھنے کی جگہ بنا رہے تھے۔ سوچا یہ واقعتا جہاز کی چھت ہے، جس پر سفر خود کشی کے مترادف ہے۔ میں نیچے اتر آیا، تھوڑی دیر بعد دیکھا ایک پانچ سات سال کا بچہ اوپر چڑھ رہا تھا، نیچے سے کوئی اسے سہارا دے رہا تھا، میں بے چین ہو کر بولا، کیوں بچے پر ظلم کر رہے ہو، اوپر سے گر جائے گا، کہنے لگا، اوپر اس کا والد ہے، اس کے کہنے پر ہی اسے اوپر چڑھا رہا ہوں!
خیر وہاں سیٹیں لینے دینے پر ایک عورت کنڈیکٹر کے ساتھ جگڑنا شروع ہوگئی، حالات کا جائزہ لیتے ہوئے، میں بھی بس میں گھس گیا ، سوچا، اگر اس نے پوچھا تو کہوں گا کہ فیصل آباد کا کرایہ لے لینا، لیکن اتار شیخوپورہ دینا۔
سفر کا تیسرا حصہ تقریبا کھڑے ہو کر طے کیا، جبکہ بقیہ دو تہائی ابھی رہتا تھا کہ سیٹ مل گئی، اس قدر بے احتیاطی اور تیز رفتاری، مجھے نیچے بیٹھے فکر لاحق ہورہی تھی کہ اوپر چھت والا سامان کیسے ٹکا ہوگا ، اور اس کے درمیان موجود لوگوں پر کیا گزر رہی ہو گی۔
سنا ہے عموما اس قسم کی بسوں کے ڈرائیو نشہ کرکے سٹیرنگ سنبھالتے ہیں، جنہیں صرف بس دوڑانے کا بھوت سوار ہوتا ہے، کوئی نیچے آگیا، پیچھے رہ گیا، گر گیا ، چڑھ گیا، اتر گیا، اس سے انہیں کوئی غرض نہیں۔ بہرصورت پنجابی زبان کے مخصوص گیت ، جو ان بسوں میں لگائے گئے ہوتے ہیں، اس میں محبوب اور محبوبہ ایک دوسرے کے بارے میں جس قسم کے جذبات کا ظہار کر رہے ہوتے ہیں، وہ بذاتہ خود ایک نشہ ہے، اس لیے خال خال ہی کوئی ڈرائیور نظر آئے گا، جو گانے بجانے کا شوقین نہ ہو۔
ایک گزارش:
اس بس کلچر میں دعوت و تبلیغ کے نقطہ نظر سے دو باتیں میرے ذہن میں آرہی ہیں، بڑے بڑے اور مشہور اڈوں پر جانا چاہیے، جہاں بس سروسز کے مالکان اور ڈائیور حضرات بیٹھتے ہیں، وہاں سفر کے متعلق دینی رہنمائی دینے کی کوشش کی جائے، کیسٹیں، سی ڈی یز اور یو ایس بی ڈیوائسز فری میں تقسیم کی جائیں، جن میں قرآن کریم کی تلاوت اور دیگر اسلامی مواد ہو، انہیں ترغیب دلائی جائے کہ ان آڈیوز کو جتنا ہوسکے، اپنی بس میں چلائیں۔ ڈائیو، فیصل مورز، بلال ٹریولز، سکائی ویز وغیرہ، بس سروسز کو بھی ان کے سسٹم کے مطابق اسلامی مواد مہیا کیا جائے۔ قرآن کریم کی تلاوت، ارکان ایمان و اسلام، غسل و طہارت ، نماز کا طریقہ، سفر کے متعلق اسلامی تعلیمات پر مشتمل آڈیوز ویڈیوز ان بس سروسز میں کم از کم موجود ہونی چاہییں، تاکہ تلاش کرتے ہوئے مسافر کے سامنے یہ چیزیں بھی آئیں، یقینا سب نہیں تو کئی لوگ اس سے رہنمائی لیں گے۔
لاہور میں دوران سفر جن چیزوں سے متاثر ہوا، وہ بعض جگہوں پر کشادہ اور صاف ستھری سڑکیں ہیں، فلائی اوورز، پلوں وغیرہ کی تعمیر سے ٹریفک میں بہت بہتری آگئی ہے، ہمارے ہاں رائیونڈ میں جب ریلوے پھاٹک بند ہوتا، تو گھنٹوں ٹریفک جام رہتی تھی، اب وہاں بہترین فلائی اوور بن گیاہے،
رائیونڈ سے لاہور بتی چوک کا سفر براستہ ٹھوکر کم از کم دو گھنٹے کا ہوتا تھا، اب ٹھوکر سے بھی پہلے ایک سڑک کے ذریعے رائیونڈ روڈ کو موٹروے سے ملادیا گیاہے، جس سے سفر کافی مختصر ہوگیا ہے۔
اسی طرح اوبر ، کریم وغیرہ ٹیکسی سروس کا عام ہونا بھی ایک بہترین سہولت ہے، جس سے سفر آرام دہ بھی ہوا ہے، اور پرامن بھی، البتہ اس کے مفاسد و نقصانات کم سے کم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
میٹرو بس سروس کئی سالوں سے جاری ہے، لیکن مجھے اس بار پہلی مرتبہ اس کے ذریعے سفر کا اتفاق ہوا، بہترین سہولت ہے، ٹائم اور کرایہ دونوں بچ جاتے ہیں، ٹکٹ لینے میں تھوڑی پرابلم ہوتی ہے، اگر مستقل سفر کرنا ہو تو کارڈ بنوا لینے سے یہ بھی مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
’پاکستان سے ’مدینہ طیبہ ‘ کا سفر:
تقریبا دو ماہ پاکستان گزارے، چھٹیاں ابھی باقی تھیں، لیکن ’غم روزگار‘ کے ہاتھوں مجبور ہو کر واپس لوٹنا پڑا، اپنوں کی جدائی کا سفر کسی نہ کسی طرح طے ہو ہی جاتا ہے، لیکن الوداعی لمحات کافی مشکل ہوتے ہیں، بچے سوئے ہوئے تھے ، سب نے احتیاط کی کہ اٹھ گئے تو بہت تنگ کریں گے، بچوں کی امی کو فیصلہ کن لہجے میں کہا کہ اب جاتا ہوں کہ آخر جانا ہی ہے، نیچے آکر امی ابو سے ملا، ان کی سسکیاں سن کر میں بھی ڈگمگایا، لیکن جلدی جلدی گاڑی میں بیٹھ گیا، ایئر پورٹ چھوڑنے پھوپھو زاد دو بھائی آئے تھے، خدشہ تھا، رش کے سبب کہیں لیٹ نہ ہوجاؤں، لیکن ایک گھنٹے سے بھی کم وقت میں ہم ایئر پورٹ پہنچ گئے، تقریبا ایک گھنٹے بعد بورڈنگ شروع ہوئی، سامان جمع کروانے،اور چیکنگ وغیرہ کے مراحل سے گزرنے میں تقریبا آدھا گھنٹہ صرف ہوا، ایئر پورٹ پر ہر دفعہ کوئی نہ کوئی ٹیکس برآمد ہو ہی جاتا ہے، اب کی بار بھی بورڈنگ کرنے والے نے کہا کہ آپ کو اتنے پیسے سول ایوی ایشن والوں کے نام سے دینے پڑیں گے، یاد نہیں کتنے پیسے مانگے، لیکن بہرصورت تھوڑے ہی تھے، خوشی خوشی ادا کردیے، کہ اگر زیادہ مانگ لیتا تو بھی ادا کیے بغیر گزارہ نہیں تھا۔ ایک لڑکی یورپ کسی کنٹری میں جارہی تھی، بالکل اکیلی تھی، پاسپورٹ والوں کو اس پر پتہ نہیں کیا شک گزرا، اسے کلیئر نہیں کر رہے تھے، ایک ادھیڑ عمر خاتون آفیسر آئی، اس کا پاسپورٹ پکڑ کر اسے تیکھے سوال کرنے شروع کردیے، اکیلی یورپ کیوں جارہی ہو؟ ساتھ پروفیشنل انداز میں اس کے پاسپورٹ کے اوراق کو تیزی سے پلٹنا شروع کردیا، اس عورت کا کیا بنا، علم نہیں، لیکن پوچھ گچھ کا یہ انداز اچھا لگا، اگر تو واقعتا کسی ممکنہ غلط کاری کو روکنے کےلیے یہ تفتیش ہورہی تھی، اور اگر صرف رشوت خوری کے لالچ سے یہ کاروائی ہوتی ہے تو پھر انتہائی گھٹیا حرکت ہے کہ ایک مسئلے کو آپ ملک کی عزت و کرامت قرار دیں، اور پھر چند ٹکوں کے عوض معاملہ رفع دفع کرنے کو بھی تیار ہو جائیں۔
واقعتا انسان بعض دفعہ بظاہر کسی چیز کو دین، قانون کے حوالے سے بہت اہمیت دے رہا ہوتا ہے، لیکن بعد میں پتہ چلتا ہے، یہاں دین، قانون، وطن نام کی کوئی چیز نہیں تھی، حقیقت میں خود غرضی یا گروہی مصلحت تھی۔ جناب طاہر القادری ، مولانا خادم رضوی کے دھرنے اور جمہوریت کی حلت و حرمت کے ساتھ کھیلنے والی جماعتوں کے اقدامات سے اسی قسم کا تاثر ابھرتا ہے، ایک دن پہلے مرنے مارنے کے عہد، حسین و یزید کی جنگ کا بیان، جنت جہنم اور کفر و شرک کے فیصلے، اور اگلے دن زمین آسمان گلے مل رہے ہوتے ہیں، آگ پانی سے غسل فرما رہی ہوتی ہے، جمہوری نظاموں کو توڑنے والے ان میں پناہ تلاش کر رہے ہوتے ہیں۔
نماز دل کا سکو ن اور راحت ہے، کچھ نفل ادا کیے، اور وہیں مسجد میں آرام کرنے کے لیے دراز ہوگیا، کیونکہ ابھی فلائٹ میں اڑھائی تین گھنٹے باقی تھے۔
جہاز میں جانے کا اعلان ہوا، سعودی ایئر لائن والے حسب معمول پھر چیکنگ کر رہے تھے، میرے پاس لیپ ٹاپ بیگ تھا، اور اسی میں کڑھی پکوڑے کے ساتھ دو تین پراٹھے رکھے ہوئے تھے، وہاں موجود پاکستانی ملازمین کہنے لگے، کسی کے پاس کھانے پینے کی کوئی چیز ہے تو باہر نکال دیں، آگے جہاز میں نہیں جانے دیتے، میں نے کہا میرے پاس روٹی ہے، جو میں نے جہاز میں کھانی ہے، بولے: جہاز میں کھانا ملتا ہے، میں نے کہا، وہ مجھے پسند نہیں۔ خیر کہنے لگے، جہاز کا عملہ جانے دے تو لے جاؤ۔ جو چیکنگ کر رہا تھا، اس نے مکمل کھلوا کر دیکھا، اور پھر جانے دیا۔ حج کی فلائٹیں شروع ہونے میں ابھی دو دن باقی تھے، اس لیے جہاز کی کافی سیٹیں خالی تھیں، کچھ سفر بیٹھ کر گزرا ،بقیہ لیٹ کر۔ سامنے لگے ہوئے ویڈیو پلیئر میں مسجد حرام کے تعارف پر ایک اچھی ویڈیو تھی، وہ دیکھی، اسی طرح کچھ عربی مشایخ کے دروس سنے، جن میں ایک شیخ خالد المصلح کا پروگرام یاد ہے’ عباد الرحمن‘ کے نا م سے۔
ایک اہم بات ذکر کردینا ضروری سمجھتا ہوں، عموما جہاز وغیرہ کے سفر میں لوگوں کا رش، اور گہما گہمی دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ عورت کے بغیر محرم سفر کرنے میں جو متوقع مفاسد ہیں، وہ دور ہوچکے ہیں۔ لیکن امر واقع یہ ہے کہ اس دور میں بھی اکیلی خواتین کے ساتھ حادثے پیش آ سکتے ہیں، اس طرح کا ایک واقعہ تو حافظ شریف صاحب کی ایک آڈیو میں سنا، جو انہوں نے شیخ البانی کے حوالے سے سنایا تھا، کہ مصر سے آنے والی ایک خاتون کو وہاں سے اس کے ماں باپ ایئر پورٹ چھوڑ گئے، اگلے ملک میں اسکے خاوند نے وصول کرنا تھا، لیکن حالات اس طرح کے بنے کہ جب وہ خاتون اپنے خاوند کے پاس پہنچی تو جہاز کے عملہ کی طرف سے زیادتی کا شکار ہوچکی تھی۔
میں جہاں بیٹھا تھا، مجھ سے اگلی والی سیٹ پر تھوڑی دیر بعد ایک ماڈرن خاتون آکے بیٹھی، بلکہ ایک ملازم جسے میں نے ایئرپورٹ پر بورڈنگ کرتے ہوئے دیکھا تھا، وہ اسے چھوڑنے کے لیے جہاز میں اس کے ساتھ آیا تھا۔ آدھی بات اردو میں، آدھی انگلش میں، کہہ رہا تھا، آپ کو کوئی پریشانی نہیں ہوگی۔ جاتے ہوئے جہاز عملے کو بھی خیال رکھنے کا کہہ کر گیا۔
جب جدہ میں جہاز اترنے والا تھا، عملے کا حصہ دو سعودی لڑکے، آکر بالکل اس کے پاس بیٹھ گئے، اسے طنز و مزاح اور گھورنا شروع کردیا۔۔۔ میں نے وہاں ہیروبننے کی کوشش بالکل نہیں کی، لیکن یہ واقعہ اس نقطہ نظر سے نوٹ کیا کہ، جہاز اس سے بھی زیادہ خالی ہوسکتا ہے، اور شیطان کسی کو اس سے بھی بڑی برائی پر آمادہ کرسکتا ہے، لہذا اہتمام کرنا چاہیے، خواتین بغیر محرم ، یا پھر اپنی جان پہچان والی خواتین کی ایک جماعت کے علاوہ بالکل سفر نہ کرے۔
یہاں آنکھوں دیکھا، ایک اور واقعہ بھی سن لیں، کافی سال پہلے کی بات ہے، میں رائیونڈ سے لاہور ٹھوکر کے لیے کوسٹر میں بیٹھا، فرنٹ سیٹ پر ایک خاتون اور اس کے ساتھ ایک چھوٹی بچی تھی، ڈرائیور نے اس کے ساتھ چھیڑ خانی شروع کردی، پچھلی طرف ساتھ ہی ایک پروقار نوجوان تھا، اس سے رہا نہ گیا، اس نے روکا، تو ڈرائیور نے اسے گالیاں دینا شروع کردیں، کہ یہ تیری باجی ہے وغیرہ۔ نوجوان نے آگے بڑھ کر اس ڈرائیور کو دبوچ لیا، ہاتھا پائی کے سبب شیطانی رک گئی، لیکن ڈرائیور نے فون کرکے آگے کسی اور کو بھی بلا لیا، کوسٹر روک لی گئی، بھری کوسٹر میں کوئی نوجوان کے حق میں نہیں بولا، قصہ مختصر برائی کو روکنے والے اس نوجوان نے غلط کاری کو روکنے کی پاداش میں ہاتھ جوڑ کر اپنی جان بخشی کروائی۔
اسی طرح ایک واقعہ لاہور سے شیخوپورہ ہائی ایس میں بھی رونما ہوا، لیکن اس میں خوش آئند پہلو یہ ہے کہ شیطان ڈرائیور کو دو تین لوگوں نے مل کر خوب دھویا، اس نے اڈے پر فون کرکے بندوقوں والے بلوا لیے، لیکن یہ نوجوان اس کی درگت بنا کر پہلے ہی رفو چکر ہوچکے تھے، ورنہ ہماری معاشرتی بے حسی کی بے شمار مثالوں میں ایک اور کا اضافہ ہونے والا تھا کہ برائی کرنا جرم نہیں، اسے روکنا جرم ہے۔
معذرت کہ ہم جدہ ایئر پورٹ پر اترنے کی بجائے واپس پاکستان آگئے، آئیے جدہ ایئرپورٹ کا منظر دیکھ لیجیے، ان دنوں سعودیہ میں بھی چونکہ چھٹیاں تھیں، اس لیے سعودی حضرات و خواتین کا ایئرپورٹس پر تانتا لگا ہوا تھا، داخلی فلائٹس کے لیے بنے وسیع و عریض ویٹنگ ہال میں تل دھرنے کو جگہ تو تھی، لیکن بیٹھنے کے لیے ہزاروں کرسیوں میں شاید ہی کوئی خالی ہو۔ بھرے ہال میں سرخ رومال اور سیاہ برقعوں میں ملبوس سر جھکے ہوئے تھے، سر اٹھا وہی رہا تھا، جس نے فلائٹ کی ٹائمنگ دیکھنی تھی، یا پھر اس کے موبائل میں نیٹ پیکیج ختم، اور وہاں موجود وائی فائی کنیکٹ نہیں ہورہا ہوگا، یا پھر ہمارے جیسے کوئی اکا دکا اجنبی مسافر تھے، جو شیشے سے پار ون وے پر جہازوں کو اور کبھی اندر حال میں موجود ’ جہازوں‘ (موبائلز وغیرہ) میں مصروف قوم کو ایک احساس مرعوبیت سے دیکھ رہے تھے۔ سعودیہ کو اللہ نے بہت نعمتوں سے نوازا ہے، رفاہیت اور فارغ البالی کے مظاہر یہاں جگہ جگہ دیکھنے کو ملتے ہیں ، دوسروں کے مقابلے میں احساس تفاخر’عوام ‘میں رچا بسا ہوا ہے، اس قسم کی صورت حال میں ہمار ے کئی اجنبی دوست تنگ آکر لباس و پوشاک، چال ڈھال اور گفتگو کا لہجہ تک ان جیسا اختیار کرنے کی کوشش کرتے ہیں، تاکہ دور سے ہی ’ اجنبی‘ اور ’ صدیق‘ سمجھ کر اعراض کی بجائے، تھوڑی بہت عزت مل جائے، جس میں کئی کامیاب ہوجاتے ہیں، اور کئی بری طرح ناکام۔ کچھ اس لیے عزت دیتے ہیں کہ چلو ہماری تہذیب و ثقافت کو اپنانے کی کوشش کی، اور کچھ خار کھاتے ہیں کہ یہ اجنبی لوگ ہمارے لباس اور وضع قطع پر قبضہ جما رہے ہیں۔
سہولیات کا تقابل اور ملکوں کا آپس میں موازنہ:
ہمارے ہاں یہ عام رِیت ہے کہ ہم اپنے ملک کا موازنہ دوسرے ملکوں سے کرتے ہیں، یہاں کی ٹرانسپورٹ، سڑکوں، ٹیکنالوجی، رویوں اور قوانین کو دوسروں کے مقابلے میں دیکھتے ہیں۔
مجھے یہ احساس ہوا کہ بہت دفعہ ہمارا یہ تقابل اور موازنہ حقیقت پسند اور عادلانہ نہیں ہوتا، مثلا میں مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ، جدہ ، ریاض ، لندن، نیویارک وغیرہ کا موازنہ اپنے گاؤں، قصبے یا چھوٹے شہر سے کروں، تو ظاہر ہے، میں خود کو زیرو ہی تصور کروں گا۔ بالکل اسی طرح اگر ان ملکوں کے کسی دیہات یا قصبے یا چھوٹے شہر سے اٹھ کر آنے والا ، اسلام آباد، لاہور و کراچی وغیرہ کے معروف مقامات میں موجود سہولیات و صفائی ستھرائی اور نظم و ضبط کا موازنہ اپنے ماحول کے ساتھ کرے تو اسے پاکستان ترقی یافتہ محسوس ہوگا۔
جس طرح باہر سے آکر رہنے والے ہمارے دیہاتوں اور قصبوں میں نہیں رہتے، اسی طرح جب ہم باہر جاتے ہیں تو وہاں پر اس درجے کا کاروبار زندگی ہماری نظروں سے اوجھل رہتا ہے۔
پاکستان میں ٹریفک کا نظام جیسے بھی ہے،لیکن موٹر وے پر ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کتنے فیصد ہے؟
باقی جو کچھ آپ کو ایک عام دیہی علاقے کے اندر پاکستان میں نظر آرہا ہے، یہی قوانین کی مخالفت آپ کسی ترقی یافتہ ملک کے دیہی علاقے میں چلے جائیں، تو شاید اس قسم کے رویے آپ کو وہاں بھی مل جائیں۔
لہذا موازنہ اور تقابل کرتے ہوئے دونوں طرف سے سیمپل اور نمونے لیتے ہوئے حقیقت پسندی اور دیانتداری کا مظاہرہ کرنا چاہیے، اس سے ہمارے اندر احساس کمتری کی کمی ہوگی۔ ان شاءاللہ۔
سفرنامہ ختم ہوا، مجھے اندازہ ہے کہ اس طویل سفرمیں ساتھ چلنے والے بہت کم رہے ہوں گے، لیکن میں پھر بھی لکھتا ہوں، اس لیے کہ روداد اور سفرنامے کے ذریعے اپنے تاثرات و نظریات کے اظہار کا بہانہ مل جاتاہے، اپنا جائزہ لینے کا موقعہ ملتا ہے، کسی اور کی توجہ حاصل ہو نہ ہو ، وقت گزرنے کے ساتھ یہ ’آپ بیتیاں‘ انسان کے لیے حسین و تلخ یادوں کی ایک ڈائری کی حیثیت اختیار کرجاتی ہیں۔
بہرصورت انسان کچھ اور پڑھے نہ پڑھے، اللہ کی کتاب قرآن کریم کا مطالعہ اور اپنی کتاب زندگی کا جائزہ، حیات مستعار کا یومیہ نصاب ہونا چاہیے۔
(ختم شد)
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
پاکستان میں ٹرانسپورٹ کے متعلق کچھ تجربات و مشاہدات:
بچپن میں ہماری داستان سفر رائیونڈ، گوجرانوالہ ، شیخوپورہ اور فیصل آباد تک محدود رہی ، مدرسہ میں داخلہ ہوا، تو لاہور آنا جانا بھی بہ کثرت ہوگیا، ان سب میں سفر کی نوعیت تقریبا ملتی جلتی ہے،عموما لوکل ٹرانسپورٹ پر ہی سفر کیا، مجھے نہیں یاد کہ ہم نے کبھی آنے جانے کےلیے ٹیکسی وغیرہ کا سہارا لیا ہو۔
اکثر کوسٹر، بڑی بس، ہائی ایس اور کافی دفعہ ٹرین کے ذریعے ہم گوجرانوالہ یا فیصل آباد جایا کرتے تھے۔
اس میں مزیدار سفر ٹرین والا ہی کہا جاسکتا ہے، باقی میں تو ہر دفعہ منتظر ہوتے کہ کب سٹاپ آئے اور جان چھوٹے ۔ بہت دفعہ بس یا ہائی ایس کے سفری ماحول کی وجہ سے خوب ابکائیاں بھی کیا کرتے تھے۔ امی ابو کا یہ احسان تھا کہ گاڑی میں بچہ کہہ کر ادھر ادھر دھکیلنے کی بجائے مستقل سیٹ لے دیتے تھے، بلکہ بیٹھنے سے پہلے ہی بس والے سے بات کرتے کہ ہمیں شیشے کی طرف سیٹ ملی تو بیٹھیں گے، ورنہ نہیں۔
اب اے سی بس کا سفر آرام دہ لگتا ہے، لیکن اس وقت ہمیں زہر لگتا تھا، کیونکہ اے سی بس کے شیشے نہیں کھلتے، مجھے یاد ہے، ایک بار ہم گوجرانوالہ جانے کے لیے لاہور سے اسے سی کوسٹر میں بیٹھ گئے، وہاں پہنچتے پہنچتے ڈیڑھ دو گھنٹے میں جو کچھ پیٹ میں تھا، منہ کے ذریعے اپنی اور امی ابو کی جھولیوں میں پچھا دیا گیا تھا۔
خیر یہ سب باتیں بالکل بچپن کی ہیں، جب میں ذرا بڑا ہوا، مدرسہ کے لیے لاہور بہ کثرت آنا جانا شروع کردیا، تو سفر کی عادت سی ہوگئ ، اس لیے طبیعت خراب نہیں ہوتی تھی۔
لاہور یا گوجرنوالہ سے فیصل آباد ، جھنگ ، لیہ جانے والی بڑی بڑی نان اے سی گاڑیوں میں سفر بھی ایک مکمل ’ فن‘ ہے، ایک تو ان کا کرایہ کم ہوتا ہے، دوسرا یہ کوسٹر اور ہائی ایس وغیرہ کے مقابلے میں کشادہ ہوتی ہیں۔ تیسرا اگر کوئی اچھا ٹائم مل جائے تو پہنچا بھی جلدی دیتے ہیں، میں اکیلا ہوں، اور سفر سو ڈیڑھ سو کلو میٹر کی حدود میں ہو انہیں پر جانے کو ترجیح دیتا ہوں۔
ٹویوٹا وغیرہ کا سفر تو اب اس قسم کا ہوگیا ہے کہ نری قید با مشقت ہے،جو آپ کرایہ دے کر اپنے لیے خریدتے ہیں، جہاں بارہ چودہ سواریاں بھی تنگ ہو کر بیٹھتی ہوں، وہاں آپ بیس بائیس بٹھانے کا انتظام کرلیں، تو اندازہ کیجیے، کیا حال ہوگا۔
فیصل آباد سے آگے جھنگ روڈ پر نواں لاہور ایک سٹاپ ہے، چھوٹی خالہ کو ملنے جانا تھا، ابو جی کہنے لگے، ٹویوٹا میں بیٹھ جاؤ، جلدی پہنچا دیتے ہیں، سب سے پیچھے بیٹھ گیا، مجھ سے پہلے ایک اور پتلے سے صاحب بیٹھے تھے، تھوڑی دیر بعد ایک میاں بیوی آئے، جو مجھ سے بھی تھوڑے وسیع تھے، بیٹھنا چاہ رہے تھے ، بیٹھا نہیں جارہا تھا، ضرب تقسیم لگا کر بیٹھ تو گئے، لیکن سارا سفر ایسا محسوس ہوا، یہ مرضی سے بیٹھنے والے انسان نہیں، بلکہ جمادات ہیں، جنہیں مہارت کے ساتھ گاڑی پر لوڈ کردیا گیا ہے۔ بس ادھر ادھر دیکھنے اور نیچے سے تھوڑا بہت پاؤں آگے پیچھے کرنے کا آپشن موجود تھا۔
فیصل آباد سے آگے جھنگ کے لیے بیٹھے، تو وہاں سیٹوں کی ٹیکیں خراب تھیں، ایک بار پھنس کے بیٹھ گئے، جب آگے والوں نے ٹیگ لگائی تو ٹانگیں ہلانے کا آپشن بھی ختم ہوا،ساتھ ایک کالج کا جوان بیٹھا ہوا تھا، جب ہم کرایہ کے لیے پیسے نکالنے لگے، تو ہلنے جلنے میں اس قدر مشقت ہوئی کہ میرے منہ سے بے ساختہ نکلا،’ قید بامشقت‘ مطلب جسے گاڑی سمجھ کر بیٹھے تھے، حقیقت میں قید بامشقت ثابت ہوئی۔
واپسی پر فیصل آباد جی ٹی ایکس اڈے پر اتارا گیا، وہاں سے رکشہ کے ذریعے لاری اڈے آیا، تاکہ ہائی ایسے کا شکار ہونے کی بجائے بڑی بس کے ذریعے شیخوپورہ جاسکوں۔
لاری اڈوں کا کلچر تقریبا ایک جیسا ہی ہے، وہ گاڑی جو اسٹارٹ ہوتی ہے، بلکہ بعض دفعہ یوں محسوس ہورہا ہوتا ہے، ابھی چلنے والی ہے، حقیقت میں ا س نے گھنٹے بعد جانا ہوتا ہے، اور جو اس کے ڈرائیور اور کنڈیکٹر نظر آرہے ہوتے ہیں، وہ حقیقت میں سواریاں پھانسنے والے مزدور ہوتے ہیں، جو ہر گاڑی کو سیٹر کرنے کی مزدوری لیتے ہیں، یہ بعض دفعہ اتنا الحاح و اصرار کرتے ہیں کہ انسان کا خود کو ان سے چھڑانا مشکل ہوجاتا ہے، میں اس صورت حال سے بچنے کے لیے لاری اڈے میں اندر جانے کی بجائے،اس کے دروازے پر ہی کھڑا ہوگیا، تاکہ جو کوئی گاڑی باہر کی طرف آئے گی، اس میں بیٹھ جاؤں گا۔ ابھی یہ سوچ ہی رہاتھا، ایک بندہ آیا کہتا، کہاں جانا ہے، میں نے کہا، شیخوپورہ، ساتھ ہی ایک اور بھی سن رہا تھا، دونوں نے میرا ایک ایک ہاتھ پکڑ لیا، وہ کہے میری گاڑی میں، دوسرا کہے ، نہیں ہم نے پہلے جانا ہے، میں نے کہا، ایسے کرو آپ مجھے آدھا آدھا کرلو، تاکہ دونوں طرف سوار ہوسکوں، ایک جس کی گاڑی ذرا دور تھی، نے تھوڑا شرمندہ ہو کر چھوڑ دیا۔
یہ ’شبیر بردارز‘ کی بس تھی، جس نے لاہور براستہ شیخوپورہ جانا تھا، صبح صبح کا وقت تھا، نعتیں لگی ہوئی تھیں، تھوڑی دیر بعد قوالی شروع ہوئی، جب ہم فیصل آباد سے باہر نکلے ، سورج کی حرارت نے ڈرائیور کو اشارہ دیا کہ اب صبح سویرا ختم ہوچکاہے، اور ’ گانے بجانے‘ کا ٹائم ہوا چاہتا ہے۔ یہ ان کی سادگی سمجھیے یا نادانی، کہ یہ قوالی کے نام پر ڈھول ڈھمکے کو گانا بجانا ہی نہیں سمجھتے۔
دنیا جہان کی تمام بیماریوں کا علاج لے کر آنے والے حکیم، اللہ رسول اور مدرسے کے نام پر مانگنے والے سفیر اور بیوائیں ، یہ بھی اس بس کلچر کا بنیادی حصہ ہیں، ان لوگوں کا بس والوں کے ساتھ اتنا ’ منہ ویار‘ ہوتا ہے کہ انہیں نہ صرف بس میں تقریر کا موقعہ دیا جاتا ہے، بلکہ ان کی گزارش پر بس میں چلنے والا ’کنجر خانہ ‘بھی بند کردیا جاتا ہے۔
وہ کنجر خانہ، جو کسی ماں بہن کی عزت، یا کسی مولوی یا بزرگ کی شرافت کا خیال بھی نہیں کرتا۔ واللہ بہت حیرانی ہوتی ہے، بسوں میں عزیز و رشتہ دار ، مائیں بہنیں بیٹیاں، ہر قسم کے مرد و عورت سفر کر رہے ہوتے ہیں، اور سب ایک دوسرے کے پاس پاس اور بعض دفعہ جڑ جڑ کر بیٹھے ہوتے ہیں، اور سامنے ٹی وی سکرین پر مجرا یا کوئی حیاباختہ فلم چل رہی ہوتی ہے۔ جس میں مرد و عورت عجیب قسم کی حرکات کر رہے ہوتے ہیں، گانوں میں شرم و حیا سے عاری جملے بولے جارہے ہوتے ہیں، لیکن سب مست ہو کر بیٹھے ہوتے ہیں۔
کئی دفعہ بس میں جگہ کی تنگی کے سبب مرد و زن کا فحش قسم کا اختلاط بھی پیدا ہورہا ہوتا ہے۔ پردہ اور حجاب میں ملبوس خواتین پھر بھی کسی حد تک حشمت و وقار سے ہوتی ہیں، ننگے منہ نکال کر، گھٹیا قسم کے فیشن کرکے آنے والی خواتین پتہ نہیں کس کے لیے یہ سب کچھ کرکے آئی ہوتی ہیں؟!
ویسے ڈائیو اور ا س سے ملتی جلتی بس سروسز میں کم از کم اس قسم کی ہلڑ بازی نہیں ہوتی ، بلکہ اب ان بسوں میں سب کو ایک اسکرین دکھانے کی بجائے، ہر سیٹ میں الگ الگ اسکرین لگادی گئی ہے، تاکہ جس نے جو گند مارنا ہے، اپنی حد تک ہی رہے، دوسرے اس سے متاثر نہ ہوں۔ لیکن ان بسوں میں سفر کرنے والے پڑھے لکھے جاہل بھی بہت ہوتے ہیں، عجیب و غریب قسم کے نمونے دیکھنے کو ملتے ہیں، میں نے ایک دفعہ بیگم کے ساتھ اسلام آباد کا سفر کیا، اسی بس میں یہ برگر پارٹی بھی سوار ہوگئی، رمضان کا مہینہ تھا، سارے راہ چرتے رہے، شکل و صورت اور ہیئت و حرکات بتارہی تھیں، غلطی سے ’ اسلامی جمہوریہ پاکستان‘ جیسے ایک مشرقی ملک میں پیدا ہوگئے ہیں۔
اس قسم کی صورت حال دیکھ کر سب سے زیادہ محفوظ ذریعہ یہی محسوس ہوتا ہے کہ کم ازکم فیملی سفر کے لیے اپنی ذاتی گاڑی ہونی چاہیے، ہمارے ہاں کا ٹرانسپورٹ کلچر اس لائق نہیں کہ اپنی بیوی، بہن یا بیٹی کے ساتھ اس میں سفر کیا جاسکے۔
خیر اب آپ فیصل آباد سے چلنے والی ’ شبیر بردارز‘ کی بس کی طرف آجائیے، ایسی بسوں کی کج رفتاری پر یہ شعر صادق آتا ہے:
جو ٹھہرے تو کوہ گراں تھے ہم
جو چلے تو جہاں بھی پار کر گئے
انہوں نے نہ چلنا ہو تو لمبے لمبے سٹاپ اور حرکت مثل چیونٹی، اور جب پیچھے سے کوئی بس آنے کا کاشن مل جائے تو یوں گویا ہوائی جہاز ہے، جو غلطی سے فضا سے سڑک پر آگیا، اور اب دوبارہ تیز رفتار ہو کر اڑنے کی کوشش کر رہا ہے ۔
مظفر آباد کی پہاڑیوں پر جیپوں کے ڈرائیور نہ دیکھے ہوتے ، تو میں ان بس ڈرائیوز کو دنیا کا نمبر ون ڈرائیور کہتا، اللہ کی مرضی ہے کہ انسان چاہے ڈرائیور ہو یا کوئی اور، ہاتھ اس کے دو ہی ہوتے ہیں، لیکن ان ڈرائیورز نے ان دو ہاتھوں کے ساتھ بیک وقت چار چار کام کرنے ہوتے ہیں، سٹیرنگ سنبھالنا، ہارن بجانا، گیئر تبدیل کرنا، سگریٹ نوشی یا کھانے پینے کا کوئی شغل ، اور ساتھ وقت فوقتا موبائل بھی دیکھنا، یہ سب کام انہوں نے صرف دو ہاتھوں سے ہی لینے ہوتے ہیں۔ پاؤں، کلچ بریک اور ریس میں مصروف ہوتے ہیں، جبکہ منہ اسی تیز رفتاری سے یا تو کنڈیکٹر کو گالیاں دینے، یا پھر رستہ نہ دینے والی گاڑیوں کو کوسنے میں مصروف ہوتا ہے، ساتھ ساتھ اگر کوئی سواری بالخصوص اترنے میں دیر کرے، تو اسے دو چار مغلظات سے نوازنا بھی یہ اپنا حق سمجھتے ہیں۔
اوور ٹیکنگ اور کٹ ایسی مارتے ہیں ، کہ ہلکے دل والوں کا ’تراہ‘ اور ہلکے جوڑوں والوں کا کچھ بھی نکل سکتا ہے۔
بالخصوص کاریں وغیرہ رستہ نہ دے رہی ہوں، تو ہارن اتنا تیز مارتے ہیں، گاڑی اتنی اوپڑ چڑھاتے ہیں کہ کمزور اعصاب کا ڈرائیور ہواس باختہ ہوسکتا ہے ۔
اپنے جیسی کسی بس کے ساتھ ان کا ٹاکرا لگ جائے، تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ بس ایکسیڈنٹ اب ہوا کہ اب ہوا۔ بعض ڈرائیور زچ ہو کر پچھلی بس کو رستہ نہیں دیتے، اب پچھلے کا جی چاہ رہا ہوتا ہے، یا تو میں فٹ پاتھ پر چڑھ جاؤں ، یا پھر سٹرک سے نیچے اتار کر اس سے آگے نکل جاؤں۔ ہیلی کاپٹرز وغیرہ گشت پر ہوں تو وہ آپس میں وائرلیس سسٹم کے ذریعے گپ شپ کر رہے ہوتے ہیں، لیکن یہ بس ڈرائیورز اس سب کے بغیر ایک دوسرے تک اپنا پیغام کامیابی سے نقل کرتے ہیں۔
میں شیخوپورہ سے گوجرانوالہ کے لیے راجہ بس سروس پر سوا ر ہوا، ڈرائیور مولوی صاحب تھے، بڑے آرام اور تحمل سے گاڑی چلاتے رہے، ساتھ انہوں نے غالبا مولوی شفیع اوکاڑوی یا ان کے بیٹے کی مسئلہ علم غیب پر تقریر لگائی تھی۔ مرید کے پہنچے، سواریاں اترنا شروع ہوئیں، چڑھنے والی انتظار کر رہی تھیں، تحمل اور آرام کا یہ سماں اس وجہ سے تھا کہ پیچھے سے مزید گاڑی آنے کے کوئی آثار نہیں تھے۔ لیکن پیچھے والے بھی کھلاڑی تھے، اچانک پتہ نہیں کہاں سے آ دھمکے، ڈرائیور کا اس گاڑی کو دیکھنا تھا کہ نکلنے کی کوشش کی، لیکن وہ پہلے ہی نکل چکے تھے، اب ڈرائیور صاحب مسلسل گالی گلوچ اور ہارن پر ہارن بجا رہے تھے، ایک بیچاری خاتون کے دو چار بچے ساتھ تھے، ظاہر ہے وہ کوئی شاپر یا بوری نہیں تھی ، جنہیں دور سے ہی باہر اچھال دیا جاتا، اسے بچوں کے فکر کی وجہ سے اترنے میں دیر ہوئی، نتیجتا ڈرائیور صاحب نے مذکورہ عورت کو خاندانی منصوبہ بندی پر ایک مختصر مگر جامع لیکچر ’نکال‘ دیا۔
گوجرانوالہ کھیالی بائی پاس سے شیخوپورہ کو ایک سنگل سڑک جاتی ہے، جس میں صحیح سلامت سڑک کی بجائے ٹوٹی ہوئی زیادہ ہے، یعنی بقول بعض کھڈوں میں کہیں کہیں سڑک بھی نظر آجاتی ہے۔
سیالکوٹ ڈسکہ سے براستہ شیخوپورہ فیصل آباد جانے والی بسیں رات کو اس سڑک سے جاتی ہیں، میں اس کے انتظار میں کھڑا تھا، کافی دیر بعد بس آئی ، لوگ ٹوٹ کر اس کی طرف دوڑے، انہوں نے صاف اعلان کردیا، جنہوں نے شیخوپورہ یا اس سے پہلے کہیں رستے میں اترنا ہے، وہ گاڑی کے اندر آنے کا تکلف نہ کریں، جانا چاہتے ہوں، تو چھت پر چڑھ جائیں، میں نے سوچا، چلو آج جہاز کی چھت کے سفر کا بھی مزہ لے لیتے ہیں، لیکن تھوڑا اوپر ہو کر دیکھا ، پوری چھت سامان سے لدھی ہوئی تھی، لوگ درمیان میں چارپائیاں ، سائیکل ادھر ادھر کرکے بیٹھنے کی جگہ بنا رہے تھے۔ سوچا یہ واقعتا جہاز کی چھت ہے، جس پر سفر خود کشی کے مترادف ہے۔ میں نیچے اتر آیا، تھوڑی دیر بعد دیکھا ایک پانچ سات سال کا بچہ اوپر چڑھ رہا تھا، نیچے سے کوئی اسے سہارا دے رہا تھا، میں بے چین ہو کر بولا، کیوں بچے پر ظلم کر رہے ہو، اوپر سے گر جائے گا، کہنے لگا، اوپر اس کا والد ہے، اس کے کہنے پر ہی اسے اوپر چڑھا رہا ہوں!
خیر وہاں سیٹیں لینے دینے پر ایک عورت کنڈیکٹر کے ساتھ جگڑنا شروع ہوگئی، حالات کا جائزہ لیتے ہوئے، میں بھی بس میں گھس گیا ، سوچا، اگر اس نے پوچھا تو کہوں گا کہ فیصل آباد کا کرایہ لے لینا، لیکن اتار شیخوپورہ دینا۔
سفر کا تیسرا حصہ تقریبا کھڑے ہو کر طے کیا، جبکہ بقیہ دو تہائی ابھی رہتا تھا کہ سیٹ مل گئی، اس قدر بے احتیاطی اور تیز رفتاری، مجھے نیچے بیٹھے فکر لاحق ہورہی تھی کہ اوپر چھت والا سامان کیسے ٹکا ہوگا ، اور اس کے درمیان موجود لوگوں پر کیا گزر رہی ہو گی۔
سنا ہے عموما اس قسم کی بسوں کے ڈرائیو نشہ کرکے سٹیرنگ سنبھالتے ہیں، جنہیں صرف بس دوڑانے کا بھوت سوار ہوتا ہے، کوئی نیچے آگیا، پیچھے رہ گیا، گر گیا ، چڑھ گیا، اتر گیا، اس سے انہیں کوئی غرض نہیں۔ بہرصورت پنجابی زبان کے مخصوص گیت ، جو ان بسوں میں لگائے گئے ہوتے ہیں، اس میں محبوب اور محبوبہ ایک دوسرے کے بارے میں جس قسم کے جذبات کا ظہار کر رہے ہوتے ہیں، وہ بذاتہ خود ایک نشہ ہے، اس لیے خال خال ہی کوئی ڈرائیور نظر آئے گا، جو گانے بجانے کا شوقین نہ ہو۔
ایک گزارش:
اس بس کلچر میں دعوت و تبلیغ کے نقطہ نظر سے دو باتیں میرے ذہن میں آرہی ہیں، بڑے بڑے اور مشہور اڈوں پر جانا چاہیے، جہاں بس سروسز کے مالکان اور ڈائیور حضرات بیٹھتے ہیں، وہاں سفر کے متعلق دینی رہنمائی دینے کی کوشش کی جائے، کیسٹیں، سی ڈی یز اور یو ایس بی ڈیوائسز فری میں تقسیم کی جائیں، جن میں قرآن کریم کی تلاوت اور دیگر اسلامی مواد ہو، انہیں ترغیب دلائی جائے کہ ان آڈیوز کو جتنا ہوسکے، اپنی بس میں چلائیں۔ ڈائیو، فیصل مورز، بلال ٹریولز، سکائی ویز وغیرہ، بس سروسز کو بھی ان کے سسٹم کے مطابق اسلامی مواد مہیا کیا جائے۔ قرآن کریم کی تلاوت، ارکان ایمان و اسلام، غسل و طہارت ، نماز کا طریقہ، سفر کے متعلق اسلامی تعلیمات پر مشتمل آڈیوز ویڈیوز ان بس سروسز میں کم از کم موجود ہونی چاہییں، تاکہ تلاش کرتے ہوئے مسافر کے سامنے یہ چیزیں بھی آئیں، یقینا سب نہیں تو کئی لوگ اس سے رہنمائی لیں گے۔
لاہور میں دوران سفر جن چیزوں سے متاثر ہوا، وہ بعض جگہوں پر کشادہ اور صاف ستھری سڑکیں ہیں، فلائی اوورز، پلوں وغیرہ کی تعمیر سے ٹریفک میں بہت بہتری آگئی ہے، ہمارے ہاں رائیونڈ میں جب ریلوے پھاٹک بند ہوتا، تو گھنٹوں ٹریفک جام رہتی تھی، اب وہاں بہترین فلائی اوور بن گیاہے،
رائیونڈ سے لاہور بتی چوک کا سفر براستہ ٹھوکر کم از کم دو گھنٹے کا ہوتا تھا، اب ٹھوکر سے بھی پہلے ایک سڑک کے ذریعے رائیونڈ روڈ کو موٹروے سے ملادیا گیاہے، جس سے سفر کافی مختصر ہوگیا ہے۔
اسی طرح اوبر ، کریم وغیرہ ٹیکسی سروس کا عام ہونا بھی ایک بہترین سہولت ہے، جس سے سفر آرام دہ بھی ہوا ہے، اور پرامن بھی، البتہ اس کے مفاسد و نقصانات کم سے کم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
میٹرو بس سروس کئی سالوں سے جاری ہے، لیکن مجھے اس بار پہلی مرتبہ اس کے ذریعے سفر کا اتفاق ہوا، بہترین سہولت ہے، ٹائم اور کرایہ دونوں بچ جاتے ہیں، ٹکٹ لینے میں تھوڑی پرابلم ہوتی ہے، اگر مستقل سفر کرنا ہو تو کارڈ بنوا لینے سے یہ بھی مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔
آپ نے خوب یاد دلایا کسی زمانے میں تقریبا دو سال ساہیوال سے مریدکے کا سفر ہفتہ وار بنیادوں پر کرتا رہا ہوں وہ وقت یاد آ گیا کتنی صعوبتوں اور مشقتوں کا سفر ہوا کرتا تھا
مریدکے دعوہ سائنس کالج میں گزارا ہوا وقت زندگی کے خوبصورت ترین زمانوں میں سے ایک ہے
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
خطبہ جمعہ سمن آباد مسجد ابراہیم میں پڑھا کر
اچھرہ میں ہی جامعہ فتحیہ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
مذکورہ دونوں مقامات میرے دیکھے بھالے ہیں! اس پر اپنا تازہ کلام عرض کیا ہے:
آہ! ہوتی جو خبر تیرے اس سفر کی
ہم بھی تیری گفتگو میں مذکور ہوتے
ابتسامہ!
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
مذکورہ دونوں مقامات میرے دیکھے بھالے ہیں! اس پر اپنا تازہ کلام عرض کیا ہے:
آہ! ہوتی جو خبر تیرے اس سفر کی
ہم بھی تیری گفتگو میں مذکور ہوتے
ابتسامہ!
و علیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اگر آپ کے باخبر ہونے سے میں بے خبر نہ ہوتا ، تو آپ کو کال ہی کر لیتا۔
میں ملتان چونگی منصورہ کے قریب آیا تھا، ارادہ تھا آپ کو اور ارشد بھائی کو سلام کرتا جاؤں، شیخ مبشر ربانی صاحب کے مرکز بھی جانا تھا، لیکن سب کچھ رہ گیا۔
 
Top