دو ہزار دس سے میں جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں زیر تعلیم ہوں، سال بعد پاکستان کا چکر لگ جاتا تھا، لیکن پچھلے تین سال سے اہل و عیال سمیت مدنی اقامت اختیار کی تو پاکستان آنے کا موقعہ نہ مل سکا، ایک عرصے بعد کا یہ سفر پہلے تجربات سے ذرا مختلف رہا۔
تین بچے ساتھ تھے، چوتھا مہمان آنے کی امید تھی، سامان ساتھ کافی زیادہ تھا، لیکن احتیاط یہ کی کہ ہینڈ کیری اٹھانے کا طمع نہیں کیا، جو کچھ آسکتا تھا، سب جمع کروادیا، میرے پاس ایک لیپ ٹاپ، اور ساتھ ایک سکول بیگ تھا، جس میں ضروری ڈاکو منٹس تھے، اور ساتھ چھوٹی بیٹی حوریہ کو اٹھانے کی ذمہ داری تھی۔
باقی دو بچوں خولہ اور عبد المنان نے خود اپنی مدد آپ کے تحت چلنا تھا، جو کردار انھوں نے خوب نبھایا۔
ہم سب میں سیریس مسئلہ ام خولہ کا تھا، کیونکہ جہاز میں بعض دفعہ اچھے بھلے آدمی کی طبیعت خراب ہوجاتی ہے، جبکہ سانس کے مریضوں یا حاملہ خواتین کے لیے زیادہ پریشانی ہونے کا امکان ہوتا ہے۔
مدینہ سے جدہ والی فلائٹ چھوٹا جہاز تھا، جس میں واقعتا سانس لینے کی الجھن ہورہی تھی، بڑی مشکل سے خدا خدا کرکے جدہ ایئر پورٹ پہنچے، وہاں کسی وجہ سے جہاز بروقت اتر نہ سکا، بیگم تو پریشان تھی ہی، ساتھ مجھے بھی کافی بے چینی ہوئی کہ اگر زیادہ دیر جہاز میں رکنا پڑا تو سانس کی مشکل مزید نہ بڑھ جائے۔ لیکن الحمد للہ بیگم ذکر اذکار کرتی رہیں، میں نے بھی اللہ سے دعا کی ، اور یہ ڈیڑھ گھنٹے کا سفر بغیر کسی بڑی پریشانی سے مکمل ہوا۔
اب اس سے آگے جدہ سے لاہور چار پانچ گھنٹے کا سفر پہاڑ نظر آرہا تھا، سمجھ نہیں آرہی تھی ، کیا کیا جائے، خیر ایئر پورٹ پر اتر کر جلدی جلدی جوازات سے فارغ ہو کر ویٹنگ روم کی طرف بڑھے، فلائٹ میں وقت بہت کم تھا، لیکن پھر بھی ہم نے مغرب اور عشا کی نماز ادا کی، اللہ سے دعا کی یا اللہ سفر میں آسانی رکھنا، خدشات کے برعکس جب بورڈنگ ہوئی، ہم جاکر جہاز میں بیٹھے تو وہاں کا ماحول پہلے جہاز سے بہت بہتر تھا، کولنگ بھی اچھی تھی، سانس لینے میں بھی کوئی پرابلم نہ تھی، اور دوران سفر موسم میں بھی کوئی ایسا اتار چڑھاؤ نہیں آیا کہ جس سے جہاز کا توازن برہم ہوا ہو، یوں یہ طویل سفر الحمد للہ ، بہت ہی اچھی طرح سے گزر گیا۔
مدینہ ایئر پورٹ پر ہمارے جامعہ کا ایک نمائندہ آیا، جنہوں نے ہمیں جامعہ کے مونوگرام والی چھوٹی چھوٹی تھیلیاں دیں، میں نے سب پاسپورٹ اور بورڈنگ کارڈ اس میں رکھ لیے، جدہ میں جب جوازات والے کے پاس پہنچے، اس نے پاسپورٹ مانگا، میں نے ایک ایک نکال کر دینے کی بجائے ، وہ تھیلی آگے کردی (میں نے یہ اس لیے کیا تاکہ مجھے بچی اور بیگ وغیرہ اتارنا نہ پڑے ، یہ بات حاشیہ خیال میں بھی نہیں تھی کہ میں جامعہ کا نام استعمال کرکے یہاں سے کوئی رعایت لینا چاہتا ہوں )لیکن جوابا اس نے حقارت کے ساتھ میری طرف تھیلی اور اس کے ساتھ ایک جملہ اچھالا، جس کا مطلب تھا کہ تم سے پاسپورٹ مانگا ہے، اور تم ساتھ یہ بتارہے ہو کہ میں جامعہ اسلامیہ کا سٹوڈنٹ ہوں، خیر یہ رویہ ہمارے لیے کوئی نیا نہیں، اس ملک کے بڑوں کے ہمارے اوپر جتنے احسانات ہے، ان سب سے جلن کا اظہار اس قسم کےبد تمیز ملازمین موقعہ بہ موقعہ کرتے رہتے ہیں۔ دفتروں ،ایئر پورٹس حتی کہ خود جامعہ کے اندر کئی جگہوں پر(جہاں علما و مشایخ کی ذمہ داریاں نہیں) اس قسم کے جاہلی رویے گاہے بہ گاہے دیکھنے کو مل جاتے ہیں۔
پاکستان ایئر پورٹ پر سعودی ایئر لائن سے اترتے ہی ، یوں محسوس ہوتا ہے، گویا ہماری ’عزت نفس‘ محفوظ ہوگئی ہے، گو دیگر بہت ساری چیزوں کے لالے پڑ جاتے ہیں، سعودیہ میں آپ جو سامان جہاں مرضی رکھ دیں، اطمینان رہتا ہے کہ چوری بالکل نہ ہوگی، اور گم ہونے کا بھی امکان بہت کم ہے، جبکہ پاکستان میں آتے ہی یہ دونوں خطرے منڈلانے لگتے ہیں۔
پاکستان اور سعودیہ کے ایئر پورٹ ملازمین کا ایک اور فرق ہے، سعودیہ میں سیکڑوں لوگوں کی لائن لگ جائے گی، لیکن آگے بیٹھے ملازمین اپنی مرضی اور عیش سے کام کریں گے، موبائل دیکھیں گے، گپیں ہانکیں گے، جب جی چاہے گا، کاؤنٹر بند کرکے لائن دوسری طرف موڑ دیں گے، جبکہ پاکستان میں اس سردرد سے بھی آپ کی جان چھوٹ جاتی ہے، وہی مراحل جو سعودی ایئر پورٹ پر گھنٹوں میں طے ہوتے ہیں، وہ پاک ملازمین منٹوں میں نپٹا دیتے ہیں۔
ایئر پورٹ پر جس جہاز سے ہم اترے ، اسی جہاز سے کئی ایک مزدور بھی اترے، آتے ہی جب سب انٹری کی مہر لگوا نے والی لائن میں لگ رہے تھے ، یہ سب ایک جگہ پر اکٹھے ہو کر کسی کو فون ملانے کی بات کررہے تھے، برا بھلا بھی کہہ رہے تھے، ایک شخص میرے پاس بھی آیا، کہتا میں نے فون کرناہے، جبکہ خود میرے پاس نہ پاکستانی روپے تھے، اور نہ ہی سم میں بیلنس تھا، محسوس ہوتا تھا، یہ لوگ ’باہر ملک‘ پیسے کمانے کے خواب لے کرگئے تھے، لیکن ایجنٹ نے دو نمبری کی، اور سب ارمانوں سمیت وہیں سے واپسی کی فلائٹ پر چڑھا دیے گئے۔
سامان کافی زیادہ تھا، مدینہ ایئر پورٹ پر توجو ساتھی چھوڑنے آئے تھے، وہ جمع کروا گئے، جبکہ اب یہاں سے وصول کرکے باہر پہنچنا، میرے اکیلے کے بس کی بات نہ تھی، اس لیے وہاں سے سول ایوی ایشن والوں سے مدد لی ، اور دو قلی ریڑیاں لے کر پہنچ گئے،میں نے پوچھا ، اجرت کتنی ہوگی ؟ بولے جو مرضی دے دینا، اس قسم کے جملے کا مطلب ہوتا ہے کہ باہر جاکر ہم جتنا مرضی مطالبہ کریں، آپ دے دینا۔ خیر ایسے ہی ہوا، باہر آکر دونوں کوہزار ہزار روپیہ دینا پڑا، لیکن فائدہ یہ ہوا کہ انہوں نے خود ہی سامان ڈھونڈ لیا، بلکہ ہمارے زمزم کی چار بوتلوں میں سے دو انہوں نے خود ہی ڈھونڈیں، اگر یہ معاملہ میرے اوپر ہوتا، تو سمجھیے کہ گم ہوچکی تھیں۔
لینے کے لیے میرے خالہ زاد بھائی ( جو میرے بہنوئی بھی ہیں) آئے تھے، اپنی کار کی بجائے وہ احتیاطا کیری ڈبہ لائے تھے، ساتھ بھی کوئی نہیں تھا، لیکن پھر بھی سامان رکھا تو بچوں کو آگے بٹھانے کے بعد میرے بیٹھنے کی کوئی جگہ نہیں تھی، تھوڑا سائڈ پر کرکے انہوں نے سامان ادھر ادھر کیا، میں سامان کے درمیان ایک جگہ دبک گیا ، انہوں نے دروازہ باہر سے بند کردیا، اور ہم لاہور ایئر پورٹ سے شیخوپورہ کی جانب روانہ ہوئے۔
ایئر پورٹ سے شاہدرے کا رستہ نہیں مل رہا تھا، ایک جگہ پر جاکر بھائی نے اپنے ایک ہم پیشہ یعنی پولیس والے سے رستہ پوچھا، اس نے کہا، کہ آپ تھوڑا آگے نکل آئے ہیں، تین چار سو میٹر پہلے جو سڑک اوپر کی جانب مڑ رہی ہے، یہ شاہ محمود بوٹی روڈ آپ کو منزل مقصود تک لے جائے گی، میں نےسوچا، آگے کہیں جاکر یوٹرن لے کرواپس آئیں گے، لیکن انہوں نے وہیں سے گاڑی بیک گیئر میں پیچھے کو بڑھا دی، پاکستان میں یہ میرے لیے پہلا شاک تھا،کیونکہ خود پولیس والا جس نے رستہ بتایا تھا، اس نے بھی یہی مشورہ دیا تھا۔
اس کے بعد شیخوپورہ تک ٹریفک قوانین کی دھجیاں اڑاتے کئی ایک مناظر دیکھے تو یہ پہلی حیرت جاتی رہی ، کیونکہ آگے تو لوگ ریورس کا تکلف کرنے کی بجائے سیدھا سیدھا الٹی سائڈ پر جا رہے تھے، گویا ٹریفک سلوگن یہ تھا، خود بچ سکتے ہیں، تو بچ جائیں، ہم سے کوئی حسن ظن نہ رکھے۔ جو شخص سعودیہ میں ڈرائیونگ سیکھتا ہے، اس کے لیے پاکستان آکر گاڑی چلانا شروع شروع میں کسی چیلنج سے کم نہیں، کیونکہ یہاں رکشہ ، چنگ چی، موٹر سائکل، اور اچانک سڑک پر آجانے والے جانور وہ مشکلات ہیں، جو سعودیہ میں عموما نہیں ہوتیں۔ پبلک ٹرانسپورٹ کے طور پر سڑکوں پر ’اڑنے‘ والے ’ بلوچ، گجر، خان، جٹ، ڈھلوں ، کھوکر، وڑائچ ‘ طیارے بھی کسی بھی وقت آپ کو یا آپ کی گاڑی کو اڑا سکتے ہیں۔(اس خلائی مخلوق کے حوالے سے مزید کچھ تاثرات آگے ذکر کرتا ہوں)۔
(جاری ہے)