• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

’مسئلہ توہین رسالت‘ پرمتجدّدانہ موقف کا جائزہ حنفیت کے نام پر غامدیّت کا پرچار

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
تحقیق وتنقید​
ڈاکٹر حافظ حسن مدنی​

’مسئلہ توہین رسالت‘ پرمتجدّدانہ موقف کا جائزہ
حنفیت کے نام پر غامدیّت کا پرچار​

ماہ نامہ ’الشریعہ‘کے شمارہ جون 2011ء میں قانون توہین رسالت کے بارے میں بعض ترامیم تجویز کی گئی ہیں۔ ان ترامیم کی اشاعت سے قبل، اسی مجلّہ کے متعدد مضامین میں فقہ حنفی کے بارے میں جدید تحقیق بھی شائع ہوئی ہے۔ جبکہ مجلّہ ہذا کے مدیر محترم بھی ’توہین رسالت کا مسئلہ‘کے نام سے ایک مستقل کتابچےمیں اس معاملے پر فقہ حنفی کی تفصیلی تحقیق پیش کرچکے ہیں۔
اس مضمون میں یہ جائزہ لیا جائے گا کہ فقہ حنفی کی نئی تحقیق کی اساس جن نظریات کو بنایا گیا ہے، کیا وہ فقہ حنفی کا مقصد ومدعا ہیں بھی یا نہیں؟ اور اپنی تحقیق میں اُنہوں نے اس موضوع کے حوالے سے جو بعض دعوے کئے ہیں، کیا وہ دعوے تحقیقی طور پر درست ہیں؟ مزید برآں آخر میں اس امر کا بھی جائزہ لیا گیا ہے کہ اگر یہ ترامیم فقہ حنفی سے ماخوذ نہیں تو پھر پیش کی جانے والی ان ترامیم کا اصل مصدر وماخذ کیاہے اور اس کے مجوّز محترم کے پیش نظر وہ کونسے رجحانات ہیں جنہوں نے اُنہیں یہ موقف شائع کرنے پر مجبور کیا۔دوسرے لفظوں میں مضمون نگار کے اپنے موقف کی اساس کیا ہے اور وہ کس نقطہ نظر کے حامی ہیں جس کی بنا پر وہ ایسی ترامیم متعارف کرا رہے ہیں۔
یادر ہے کہ ان ترامیم کی اشاعت سے قبل اُنہوں نے حنفی موقف میں اضطراب کی اشاعت کی اور اسے اپنے مخصوص نقطہ نظر سے دیکھنے کی کوشش کی ۔ حالانکہ مضمون نگار کا اصل موقف جو اُنہوں نے اپنے کتابچہ میں صراحت سے لکھا ہے، احناف کی موجودہ تعبیر وتوجیہ سے بہر حال مختلف ہے۔ان ترامیم میں وہ احناف کے نمائندہ ہونے کی بجائے اس گروہ کی نمائندگی کرتے ہیں جو رجم کو بھی حدِ شرعی ماننے سے منکر ہے۔حد رجم کی شرعی حیثیت سے انکار پرمبنی منکرین حدیث کے اس موقف کی ماضی میں بھی علماے احناف سمیت جمیع اہل علم قوی دلائل سے تردید کرچکے ہیں اور اس پر کئی کتب منظر عام پر آچکی ہیں۔
مضمون نگار کا موقف، اُن کے الفاظ میں

مضمون نگار کا موقف یہ ہے کہ توہین رسالت کی شریعت ِاسلامیہ میں کوئی مقررہ سزا نہیں بلکہ اسے بھی حد حرابہ کے ضمن میں لایا جائے ۔ اپنے رسالہ میں وہ لکھتے ہیں:
’’اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کو جو اپنے قول وفعل سے آپ کی حیثیت ِرسالت کو چیلنج کریں اور اس کے مقابلے میں سرکشی اور بغاوت کا مظاہرہ کرنے کی کوشش کریں ، سورۃ المائدۃ کی آیت نمبر 33 میں سخت اور سنگین سزاؤں کا مستحق قرار دیا ہے۔
قرآنِ کریم کی اس آیت کی رو سے نبی ﷺ کو ہر اس شخص یا گروہ کے خلاف اقدام کا حق حاصل تھا، جو اسلام کے بارے میں محاربہ اور معاندت کا رویہ اختیار کرے اور جسے سزا دینا آپ موقع ومحل کی رو سے مناسب سمجھیں ۔ ظاہر ہے کہ جن افراد نے اسلام اور پیغمبر اسلامﷺ کے بارے میں اپنے خبثِ باطن کا اظہار کرنے کے لئے آپ کی توہین وتنقیص، ہجوگوئی اور سبّ وشتم کا رویہ اختیار کیا اور اسے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اپنی معاندانہ مہم میں ایک ذریعے کے طورپر استعمال کیا، وہ بدیہی طورپر محاربہ کے مرتکب تھے۔ چنانچہ آپﷺ نے اسی اختیار کے تحت ایسے بہت سے افراد پر موت کی سزا نافذ فرما دی۔‘‘
ایک اور مقام پر احادیث ِنبویؐہ میں سے توہین رسالت کے بہت سے واقعات ذکر کرنے کے بعد نتیجہ کے طورپر لکھتے ہیں:
’’مذکورہ تمام مجرموں کو دی جانے والی سزا دراصل اللہ اور اس کے رسول کے خلاف محاربہ کی سزا تھی، اور نبی کریمﷺ کے حین حیات میں اس جرم کا ارتکاب کرنے والے بدیہی طور پر اس سزا کے زیادہ مستحق تھے، اس لئے ان واقعات میں عقل ومنطق کے سادہ اُصول کے مطابق یہ استدلال نہیں کیا جاسکتا کہ محض سبّ وشتم کے مجرم کو ہرحال میں قتل کرنا لازمی ہے۔ ‘‘
یہ ہے مقالہ نگار موصوف کا وہ موقف جو اُنہوں نے ’توہین رسالت کا مسئلہ‘ نامی اپنے کتابچہ میں تفصیل سے لکھا ہے، جسے مکتبہ امام اہل سنت، گوجرانوالہ نے شائع کیا ہے۔اُن کی اس موقف کی جھلک ان کے ترمیمی مطالبوں میں بھی دیکھی جاسکتی ہے، جس میں وہ ایسے مجرم کوحتیٰ الامکان معاف کرنے کے رجحان پر گامزن ہیں، اور توہین رسالت کے مرتکب کے لئے سزائے موت کو صرف ایسی انتہائی سزا کے طورپر اجازت دینے کے روا دار ہیں جب اس کے سوا کوئی چارہ نہ ہو۔ ظاہر ہے کہ یہ موقف فقہاے احناف کا نہیں جواہانت ِرسول کو ایسا جرم سمجھتے ہیں جس کی سزا شریعت ِاسلامیہ میں مقرر شدہ ہے۔
موصوف کا اس جرم کو سرکشی اور عناد کی انتہائی حد کے ساتھ نتھی کردینا یہ ثابت کرتا ہے کہ وہ اکیلی توہین رسالت کو مستقل بالذات جرم نہیں سمجھتے۔ یہ ویسا ہی موقف ہے جیسے متجددین کا یہ موقف ہے کہ رجم شادی شدہ زانی کی مستقل بالذات سزا نہیں ہے ،تاہم وہ رجم کو زنا کے بدترین اور عادی مجرم کی انتہائی سزا کے طورپر گوارا کرتے ہیں۔ ان کے موقف کی مزید وضاحت رسالہ کے صفحہ نمبر 36 پر ملاحظہ ہو جسے اُنہوں نے فقہ حنفی کے حوالے سے لکھا ہے:
’’جہاں تک توہین رسالت کے جرم پر سزاے موت کے حد یا تعزیر ہونے کا تعلق ہے تو اس حوالے سے فقہاے احناف کے موقف اور صحابہ وتابعین اور ائمہ مجتہدین کے مابین کوئی اختلاف نہیں [کہ یہ حد نہیں ہے] ۔ یہ تما م اہل علم اسے ایک تعزیری سزا ہی سمجھتے ہیں، البتہ جمہور کے نزدیک اس جرم پر ترجیحاً یہی [موت کی] سزا دی جانی چاہئے جبکہ احناف کا زاویۂ نگاہ یہ ہے کہ عمومی قانون کے طورپر سزاے موت کے بجائے کم ترسزاؤں کا نفاذ زیادہ قرین قیاس ومصلحت ہے۔‘‘
ایک او رمقام پر لکھتے ہیں کہ
’’فقہاے احناف اور جمہور فقہا کے مذکورہ اختلاف کی تعبیر عام طورپر یوں کردی جاتی ہے کہ جمہور اہل علم توہین رسالت پر سزا کو ’حد‘ یعنی شریعت کی مقرر کردہ لازمی سزا سمجھتے ہیں جبکہ احناف کے نزدیک یہ سزا ایک تعزیری اور صوابدیدی سزا ہے۔ ہماری رائے میں یہ تعبیر بالکل غلط اور اختلاف کی نوعیت پر بالکل غور نہ کرنے یا شدید قسم کے سوءِ فہم کا نتیجہ ہے۔ فقہا کے مابین اختلاف اس کے حد ہونے یا نہ ہونے میں نہیں اور احناف کی طرح جمہور صحابہ وتابعین ، جمہور ائمہ مجتہدین اور جمہور محدثین بھی اس کو ’تعزیر‘ ہی سمجھتے ہیں۔‘‘
آگے چل کر لکھتے ہیں کہ
’’ہماری تحقیق کے مطابق سب سے پہلے جس عالم نے توہین رسالت پرسزا ے موت کو شریعت کی مقرر کردہ حد قرار دینے پر اصرار کرکے تعبیر کی اس غلطی کو بنیاد فراہم کی ، وہ آٹھویں صدی کے عظیم مجدد امام ابن تیمیہ اور ان کے شاگرد امام ابن قیم رحمہما اللہ ہیں۔ممکن ہے بعد کے دور کے بعض فقہا نے اس اختلاف کو کسی جگہ محض تجوزًا اور توسّعًا حد ماننے یا نہ ماننے کے اختلاف سے تعبیر کردیا ہو لیکن جہاں تک صحابہ وتابعین ، جمہور محدثین اور ائمہ مجتہدین میں سے بالخصوص امام مالک، امام شافعی اور امام احمدکا تعلق ہے تو یہ بات پورے اطمینان سے کہی جاسکتی ہے کہ اُنہوں نے اس سزا کو ہرگز شرعی حد کے طورپر بیان نہیں کیا اور نہ فقہی مذاہب کی اُمہاتِ کتب میں اس سزا کو اس حیثیت سے پیش کیا گیا ہے۔‘‘
اپنی بحث کے اختتام میں خلاصہ کے طورپر لکھتے ہیں :
’’اس جرم کے ارتکاب پر سزاے موت کو حد قرار دینے کے لئے قرآن یاحدیث میں کوئی قطعی یا صریح دلیل موجود نہیں۔ اس کا ماخذ عام طورپر ایسے واقعات کو بنایا گیا ہے جن میں ایسے افراد کو قتل کیا گیا جنہوں نے صرف سبّ وشتم کا نہیں، بلکہ اس کے علاوہ دیگر سنگین جرائم کا بھی ارتکاب کیا تھا یا سبّ وشتم کومستقل روش کے طورپر اختیار کیا تھا۔‘‘
اب اُن کی زبانی فقہ حنفی کا موقف بھی ملاحظہ فرمائیے:
’’ جمہور فقہاے احناف کی رائے یہ ہے کہ اگر کوئی شخص وقتی کیفیت کے تحت اس جرم کا ارتکاب کرے، اور پھر اس پر اصرار کے بجائے معذرت کا رویہ اختیار کرے تو اس سے درگزر کرنا یا ہلکی پھلکی سزا پر اکتفا کرنا مناسب ہے۔البتہ اگر دیدہ دانستہ کیا جائے یا معمول کی صورت اختیار کرلے تو عدالت کو قتل کی سزا دینے کا اختیار بھی حاصل ہے۔‘‘
موصوف کے بیان کردہ موقف کا خلاصہ یہ ہے کہ
1 توہین رسالت کی سزا کتاب وسنت میں مقررہ طور پرکہیں بیان نہیں ہوئی۔
2 صحابہ وتابعین اور ائمہ مجتہدین کے مابین اس امر میں کوئی اختلاف نہیں کہ یہ تما م اہل علم اسے ایک تعزیری سزا ہی سمجھتے ہیں۔
3 اُن کے خیال میں توہین رسالت کی سزا کو اُمت ِمسلمہ میں سے کوئی بھی حد تسلیم نہیں کرتا اور سب سے پہلے اسے حد قرار دینے کی غلطی امام ابن تیمیہ سے سرزد ہوئی۔
4 احناف کا زاویۂ نگاہ یہ ہے کہ عمومی قانون کے طورپر سزاے موت کے بجائے کم ترسزاؤں کا نفاذ زیادہ قرین قیاس ومصلحت ہے۔فقہاے احناف کے نزدیک پہلے پہل مجرم سے درگزر کرنا اور اس کو ہلکی پھلکی سزا دینے پر اکتفا کرنا مناسب ہے۔
5 توہین رسالت کی سزا جرم کی شدت کے پیش نظر ہوگی، اور یہ سزا نبی کریمﷺ نے معاشرے میں فساد یعنی محاربہ کے نقطہ نظر سے دی ہے۔
مضمون نگار کے ان اقتباسات کے فوری بعد اگر جاوید احمد غامدی کے مسئلہ توہین رسالت کے بارے میں موقف کا مطالعہ کیا جائے تو اس سے دونوں کے مابین گہرے اتفاق واشتراک کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے، بلکہ ہمیں یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ جاوید غامدی کا موقف اس مسئلہ پر زیادہ صریح وواضح ہے جبکہ مضمون نگار کا موقف قدرے پیچیدہ اور اُلجھا ہوا نظر آتا ہے، کیونکہ وہ بہت سی باتیں واضح الفاظ میں نہیں کہہ سکتے جبکہ دونوں کا مقصد ونتیجہ ایک ہی ہے۔ یہاں دونوں موقفوں کے تقابلی مطالعے کی بجائے ذیل میں ہم شریعتِ اسلامیہ اور فقہ حنفی سے ان دعووں کا جائزہ لینے کے بعد جاوید غامدی کے موقف کا تذکرہ کریں گے۔
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
توہین رسالت کی شرعی سزا

موصوف کے یہ دعوے سراسر غلط ہیں۔ کیونکہ احادیث ِنبویؐہ کے نہ صرف درجنوں واقعات بلکہ صریح احادیث میں اُصولی طورپر شتم رسول کی سزا کو قتل ہی قرار دیا گیا ہے۔ راقم الحروف نے احادیث میں توہین رسالت کے حوالے سے آنے والے ڈیڑھ درجن واقعات پر مشتمل ایک تفصیلی مضمون کچھ عرصہ قبل تحریر کیا تھا، تفصیل کے شائقین اس کی طرف رجوع کریں۔ ان احادیث کی رو سے شاتمانِ رسول: کعب بن اشرف، عبد اللہ بن خطل،اس کی لونڈیاں،مقیس بن صبابہ ،عبد اللہ بن سرح اورابو رافع یہودی وغیرہ کی طرف آپﷺ نے خود مہمات روانہ کیں اور اپنی دعاؤں اور نگرانی میں اُنہیں بھیجا۔ سیدنا خالد بن ولید، سیدنا زبیر اور سیدنا حسان بن ثابت وغیرہ کو رسولِ کریمﷺ نے باقاعدہ یہ کہہ کر شاتمان رسول کو قتل کرنے کی دعوت دی کہ میرے دشمن سے کون مجھے بچائے گا؟ نابیناصحابی، عمیر بن اُمیہ، عمرفاروق، عمیر بن عدی خطمی اور ابن قانع وغیرہ کے معاملات آپ کے سامنے آئے اور شتم رسول کی بنا پر آپ نے ان واقعات میں مقتولین کے خون کو نہ صرف رائیگاں قرار دیابلکہ صحابہ کی تعریف بھی کی۔پیچھے ذکر کردہ شبہات کے تناظرمیں مسئلہ شتم رسول کی شرعی حیثیت بالاختصار ملاحظہ فرمائیے:
1 سیدنا ابوبکر کی حدیث اس باب میں بالکل صریح اور اُصولی ہے۔امام نسائی نے اپنی سنن نسائی کی کتاب تحریم الدم کے باب حکم في من سبّ النبي ﷺ میں سيدنا ابو برزہ اسلمی سے اس واقعہ کو روایت کیا ہے:
قَالَ غَضِبَ أَبُو بَكْرٍ عَلىٰ رَجُلٍ غَضَبًا شَدِيدًا حَتَّى تَغَيَّرَ لَوْنُهُ قُلْتُ: يَا خَلِيفَةَ رَسُولِ اللهِ! وَاللَّهِ لَئِنْ أَمَرْتَنِي لَأَضْرِبَنَّ عُنُقَهُ فَكَأَنَّمَا صُبَّ عَلَيْهِ مَاءٌ بَارِدٌ فَذَهَبَ غَضَبُهُ عَنْ الرَّجُلِ قَالَ: ثَكِلَتْكَ أُمُّكَ أَبَا بَرْزَةَ وَإِنَّهَا لَمْ تَكُنْ لِأَحَدٍ بَعْدَ رَسُولِ اللهِ ﷺ
’’ایک بار سیدنا ابوبکر ایک شخص پر انتہائی ناراض ہوئے، حتیٰ کہ آپ کے چہرے کا رنگ متغیر ہوگیا۔ میں نے کہا : اے رسول اللہ کے خلیفہ! واللہ اگر آپ مجھے حکم دیں تو میں اس کی گردن مار دوں۔ [یہ بات سن کر] گویا ان [ابوبکر صدیق] پر ٹھنڈا پانی بہا دیا گیا ہو اور اس شخص سے آپ کا غصہ جاتا رہا اور فرمانے لگے: ابوبرزہ! تیری ماں تجھے گم پائے، رسول ﷺکے بعد کسی کی گستاخی پر اس کو قتل کرنے کی سزا نہیں ۔‘‘
دوسر ی روایت میں یہ بھی آتاہے کہ یہ بات کہہ کر ابوبرزہ گھر کو چلے گئے۔ سیدنا ابوبکر نے ان کو گھر سے بلایا او رپوچھا کہ اگر میں تمہیں حکم دیتا تو تم اس کو قتل کردیتے؟
فَقَالَ: لَوْ أَمَرْتَنِي لَفَعَلْتُ قَالَ أَمَا وَاللهِ مَا كَانَتْ لِبَشَرٍ بَعْدَ مُحَمَّدٍ
تو ابو برزہ نے جواب دیا : بالکل، تب ابو بکر صدیق نے فرمایا: ہرگز نہیں! بخدا محمدﷺ کے بعد کسی شخص کيلئے یہ سزا جائز نہیں ( کہ اس کی گستاخی پر قتل کردیا جائے)
2 یوں تو اس موضوع پر بہت سے اُصولی فیصلے موجود ہیں، جن میں صحیح بخاری میں کعب بن اشرف یہودی اورابو رافع یہودی کے واقعات قابل ذکر ہیں، تاہم مذکورہ بالا حدیث میں ایک بار رسول کریم ﷺ کی گستاخی کرنے والے كے لئے بھی یہ سزا اُصولی طورپر بیان ہوئی ہے، اِس لئے ہم نے اس کو یہاں ذکر کردیاہے۔کعب بن اشرف کو قتل کرنے کی وجہ زبانِ رسالت سے یہ بیان ہوئی ہے:
«من لكعب بن الأشرف؟ فإنه قدآذى الله ورسوله»
’’کعب بن اشرف کو کون قتل کرے گا؟ اس نے اللہ اوراس کے رسول کو تکلیف واذیت سے دوچار کیا ہے۔‘‘
3 اس مسئلہ پر صحابہ کرام کا اجماع ہے کہ شاتم رسول کی سزا قتل ہے۔ جیسا کہ علامہ ابن قیم الجوزیہ نے اس موضوع پر بڑا مختصر لیکن جامع موقف پیش کیا ہے:
فهٰذا قضاؤه ﷺ وقضاء خلفائه من بعده ولا مخالف لهم من الصحابة وقد أعاذهم الله من مخالفة هذا الحكم.
وفي ذلك بضعة عشر حديثًا ما بين صحاح وحسان ومشاهير وهو إجماع الصحابة... والآثار عن الصحابة بذٰلك كثيرة وحكي غير واحد من الأئمة: الإجماع على قتله. قال شيخنا: وهو محمول علىٰ إجماع الصدر الأول من الصحابة والتابعين والمقصود: إنما هو ذكر حكم النبي ﷺ وقضائه فيمن سبه.
وأما تركه ﷺ قتل من قدح في عدله ﷺ بقوله: "اعدل فإنك لم تعدل" وفي حكمه ﷺ بقول: "أن كان ابن عمتك." وفي قصده ﷺ بقوله: "إن هذه قسمة ما أريد بها وجه الله" أو في حكومته ﷺ بقوله: "يقولون إنك تنهٰى عن الغي وتستحلي به فذلك أن الحق له فله أن يستوفيه وله أن يتركه وليس لأمته ترك استيفاء حقه ﷺ.
وأيضًا فإن كان هذا في أول الأمر حيث كان ﷺ مامورًا بالعفو والصفح وأيضًا فإنه كان يعفو عن حقه لمصلحة التاليف وجمع الكلمة ولئلا ينفِّر الناس عنه ولئلا يتحدثوا أنه يقتل أصحابه وكل هذا يختص بحياته ﷺ

’’ نبی کریم ﷺاور آپ کے بعد خلفائے راشدین کا یہی فیصلہ ہے جس کا صحابہ کرام میں سے کوئی بھی مخالف نہیں اور اللہ تعالیٰ نے اُنہیں اس حکم کی مخالفت سے بچاے رکھا۔ اس ضمن میں دس سے اوپر احادیث ِمبارکہ وارد ہوئی ہیں جن میں صحیح، حسن اور مشہور احادیث شامل ہیں اور اس مسئلہ پر اجماعِ صحابہ کرام ہے۔ اس باب میں صحابہ کرام سے مروی آثار تو بہت زیادہ ہیں اور ایک سے زائد ائمہ اسلاف سے شاتم کے سزائے قتل پر اجماع کی صراحت بھی منقول ہے۔ ہمارے استاد شیخ ابن تیمیہ کہتے ہیں کہ یہ سب اُمور صدرِ اوّل میں صحابہ کرام اور تابعین کے اجماع پر دلالت کرتے ہیں۔
ہمارا یہاں آپ کو سبّ وشتم کرنے والے بدبخت کے لئے آپ ﷺ کا حکم اور فیصلہ کو بیان کرنا ہی مقصود ہے۔جہاں تک آپﷺ کا اس بدبخت کو چھوڑ دینا ہے جس نے آپ کے وصف ِعدل میں یہ کہہ کر الزام تراشی کی تھی کہ’’آپ ﷺانصاف فرمائیے، آپ نے انصاف نہیں کیا۔‘‘ اور جس نے آپ کے فیصلہ میں یہ کہہ کر بداعتمادی ظاہر کی تھی کہ ’’یہ اس لئے آپ نے کیا ہے کہ وہ آپ کی پھوپھی کا بیٹا ہے، [اس لئے آپ کا فیصلہ اس کے حق میں ہے]‘‘ اور جس نے آپ کے ارادہ میں یہ کہہ کر عیب جوئی کی تھی کہ ’’آپﷺ نے اس تقسیم کے ذریعے اللہ کی رضا پوری نہیں کی۔‘‘ اور جس نے آپ کی خلوت پر یوں طعنہ طرازی کی تھی کہ ’’آپ تو گمراہی سے روکتے ہیں لیکن خود اس کو گوارا کرتے ہیں۔‘‘ تو ان گستاخیوں کو نظرانداز کرنے کاسبب یہ تھا کہ اپنی توہین کو معاف کردینا آپ کا ہی حق تھا،آپ چاہتے تو اس کا پورا بدلہ لیتے اور چاہتے تو اسے چھوڑ دیتے، تاہم آپ کی اُمت کے لئے آپ کے حق کی تکمیل چھوڑنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔مزید برآں اس جیسے واقعات اوّلین دور کے ہیں جب آپ ﷺ معافی اور درگزر کرنے کا حکم دیے گئے تھے۔ اس وقت آپ تالیف ِ قلب، کلمہ اسلام کو مجتمع رکھنے اور لوگوں کے متنفر ہوجانے کے ڈر سے معافی کا راستہ اختیار کیا کرتے اور اس لئے بھی کہ دشمن یہ نہ کہتے پھریں کہ آپ تو اپنے ساتھیوں کو قتل کردیتے ہیں۔ الغرض شتم رسول پر تمام قسم کی معافیاں آپ کی حیاتِ طیبہ سے ہی مخصوص ہیں۔‘‘
اس بنا پر شاتم رسول کے لئے قرآن وحدیث میں سزاے موت ایک مقرر سزا کے طورپر بیان ہوئی ہے۔ اس مسئلہ پر صحابہ سے لے کر آج تک اجماع اُمت چلا آتا ہے، اور واضح ہے کہ اجماع کی ان عبارتوں میں کہیں اس سزا کے لئے تکرار وغیرہ کی شرط کا کوئی تذکرہ نہیں اور نہ ہی کوئی ہلکی پھلکی سزائیں پیش کی گئی ہیں۔
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
کیا اس کو سب سے پہلے امام ابن تیمیہ نے حدّ قرار دیا !

مضمون نگار کا دعویٰ ہے کہ آٹھویں صدی میں علامہ ابن تیمیہ نے سب سے پہلے شتم رسول کو حد قرار دے کر تعبیر کی غلطی کو بنیاد فراہم کی۔ مزيد برآں وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ شاتم رسول کی مقررہ سزا نہ ہونے پر اُمت ِاسلامیہ میں اتفاق ہے۔ ان کے یہ دونوں دعوے سراسر غلط ہیں۔کیونکہ
1 خیر القرون میں صحابہ کرام اور تابعین عظام کا اس جرم کی سزا کے قتل ہونے پر اجماع ہوچکا تھا، جیسا کہ حافظ ابن قیم اور حنفی عالم مولانا یوسف لدھیانوی کے ذریعے اس کی صراحت پیچھے گزر چکی ہے۔ اجماعِ صحابہ کی یہ صراحت امام ابن تیمیہ، قاضی ابن عابدین شامی اور قاضی عیاض نے بھی کی ہے۔قاضی عیاض (متوفیٰ: 544ھ) لکھتے ہیں:
اعلم - وفقنا الله وإياك - أن جميع من سب النبي ﷺ، أو عابه، أو ألحق به نقصًا في نفسه، أو نسبه، أو دينه، أو خصلة من خصائله، أو عرض به، أو شبهه بشيء على طريق السب له، أو الإزراء عليه، أو التصغير لشأنه، أو الغض منه، والعيب له، فهو ساب له، والحكم فيه حكم الساب، وكذلك من لعنه، أو دعا عليه، أو تمنى مضرة له، أو نسب إليه ما لا يليق على طريق الذم، أو عبث في جهته العزيزة بسخف من الكلام وهجر، ومنكر من القول وزور، أو عيره بشيء مما جرى من البلاء والمحنة عليه، أو غمصه ببعض العوارض البشرية الجائزة والمعهودة لديه، وهذا كله إجماع من الصحابة وأئمة الفتوى من لدن الصحابة رضوان الله عليهم إلى هلم جرًا.... ولا نعلم خلافاً في استباحة دمه - يعني ساب الرسول ﷺ - بين علماء الأمصار وسلف الأمة، وقد ذكر غير واحد الإجماع على قتله وتكفيره
’’جان لیجئے ، اللہ مجھے اور آپ کو توفیق دے کہ ہر وہ بدبخت جو نبی کریم ﷺ کو گالی دے، عیب جوئی کرے، آپ کی ذاتِ مبارکہ سے کوئی نقص منسلک کرے، یا آپ کے نسب شریف میں، یا آپ کے دین میں یا آپ کی کسی عادت مبارکہ میں، یا ان چیزوں کو پیش کرے، یا آپ کو ان میں سے کسی سے ازراہِ گستاخی تشبیہ دے یا آپ كی تحقیر کرے، یا آپ کے مقام کو کم کرے یا گرائے، یا ان میں کوئی عیب لگائے تو وہ آپ کا گستاخ ہے۔ اس کی سزا گستاخ کی سزا ہے۔ اس میں وہ بدبخت بھی شامل ہے جو آپﷺ پر لعنت کرے، آپ کو بددعا دے یا آپ کو نقصان پہنچنے کی دعا کرے، یا ازراہ مذمت شانِ مبارکہ کی طرف غیرمناسب چیز منسوب کرے یا مقام مقدس کی طرف ہلکی بات یا غلط اور جھوٹی بات منسوب کرے۔ یا دعوت دین کے سلسلے میں جو مشقتیں آپ کو برداشت کرنا پڑیں ان سے آپ کی شرمندگی کا سامان پیدا کرے، یا بعض بشری ممکنہ عوارض کی بنا پر آپ شان میں کمی کرے۔ ایسے شاتم کے خون کے مباح ہونے میں ہمارے علم کے مطابق کوئی اختلاف نہیں پایا جاتا۔ جملہ صحابہ اور فتویٰ کے ائمہ کا اِن کے کفر اور قتل پر آج تک اجماع چلا آرہا ہے۔‘‘
آگے لکھتے ہیں: ’’ایسے بدبخت یعنی شاتم رسول کے خون حلال ہونے میں دورحاضر کے علما اور اسلاف امت میں کوئی اختلاف نہیں پایا جاتا۔ اور ایک سے زائد ائمہ نے اس شاتم کے قتل اور کافر ہوجانے پر اجماع کا تذکرہ کیا ہے۔‘‘
2 مزید برآں علامہ ابن المنذر(متوفی319 ھ) نے تیسری صدی ہجری میں اس کے حد ہونے پر اُمت ِاسلامیہ کا اجماع نقل کیا ہے:
أجمع عوام أهل العلم علىٰ أن حدّ من سبّ النبي ﷺ القتل وممن قاله مالك والليث وأحمد وإسحٰق وهو مذهب الشافعي
’’اہل علم کا اجماع ہے کہ جو آدمی نبی ﷺ کو گالی دیتاہے ، اس کی حد قتل کرنا ہے ۔ اور اسی بات کو امام مالک ، امام لیث ، امام احمد ، امام اسحٰق نے بھی اختیار فرمایا ہے اور امام شافعی کا بھی یہی مذہب ہے۔‘‘
3 بلادِمغرب کے نامور فقیہ محمد بن سحنون مالکی (متوفیٰ: 265 ھ) لکھتے ہیں:
أجمع العلماء على أن شاتم النبي ﷺ والمنتقص له کافر والوعید جاء علیه بعذاب الله له وحکمه عند الأمة القتل ومن شكّ في کفره وعذابه کفر
’’علما کا اس پر اجماع ہے کہ نبی کریمﷺ کا شاتم او رنقص گوئی کرنے والا کافر ہے۔ اور اس پر اللہ کے عذاب کی وعید آئی ہے۔ اُمت کے ہاں اس کی سزا قتل ہے۔ جوشخص بھی اس کے کفر وعذاب میں شک کرے، وہ کافر ہوجاتا ہے۔‘‘
4 امام اسحٰق بن راہویہ (متوفی:238ھ)نے بھی اسی پر اجماع نقل کیا ہے:
أجمع المسلمون على أن من سبّ الله أو سبّ رسوله ﷺ أو دفع شیئًا مما أنزل الله عزوجل أو قتل نبیا من أنبیاء الله عزوجل أنه کافر بذلك
’’مسلمانوں کا اس پر اجماع ہے کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا گستاخ، یا اللہ کی نازل کردہ شے کو رد کرنے والا، یا انبیاء اللہ سے کسی نبی کو قتل کا ارتکاب کرنے والا اس فعل پر کافر ہوجاتا ہے۔‘‘
5 قاضی حسین شافعی نے امام ابو بکر فارسی سے نقل کیا ہے :
أجمعت الأمة على أن من سب النبي يقتل حدًا
’’اس پر اجماع امت ہے کہ نبی ﷺکا شاتم وگستاخ حد کے طورپرقتل کردیا جائے‘‘
اسی بات کو صحیح بخاری کی شرح فتح الباري میں حافظ ابن حجر نے یوں لکھا ہے:
ونقل أبو بكر الفارسی أحد أئمة الشافعية في كتاب الإجماع: أن من سب النبي ﷺ مما هو قذف صريح كفر باتفاق العلماء، فلو تاب لم يَسقط عنه القتل؛ لأن حدَّ قذفه القتل، وحد القذف لايسقط بالتوبة ... فقال الخطابي لا أعلم خلافًا في وجوب قتله إذا كان مسلمًا
’’ائمہ شافعیہ میں سے امام ابوبکر نے کتاب الاجماع میں نقل کیا ہے کہ جس نے نبی ﷺ کو گالی دی جس سے صریح تہمت ظاہرہوتی تھی تو ایسا شخص اجماعِ علماء کی رو سے کافر قرار پائے گا ۔ اگر توبہ بھی کرلے تو اس سے قتل ساقط نہیں ہوگا۔ کیونکہ اس کی اس تہمت کی حد قتل ہے ۔ اور تہمت یعنی قذف کی حد توبہ سے ساقط نہیں ہوتی ۔ خطابی  فرماتے ہیں : اگر وہ مسلم ہے تو اس کے واجب القتل ہونے میں مجھے کوئی مخالف نظر نہیں آیا ۔ ‘‘
6 امام خطابی (متوفی:388ھ)کے حوالےسے اجماع کا دعویٰ صاحب ِفتح الباری نے بھی کیا ہے، جب کہ امام خطابی کے اپنے الفاظ یہ ہیں:
ان السب منه الرسول الله ﷺ ارتداد عن الدین ولا أعلم أحدًا من المسلمین اختلفوا في وجوب قتله
’’ نبی کریم ﷺ کو دشنام طرازی کرنا دین سے ارتداد ہے۔ اور میں مسلمانوں میں سے کسی کو نہیں جانتا جس نے اس کے واجب القتل ہونے پر اختلاف کیا ہو۔‘‘
7 امام ابن حزم اندلسی (م 456ھ) لکھتے ہیں:
ومن أوجب شيئًا من النكال على رسول الله ﷺ أو وصفه، وقطع عليه بالفسق، أو بجرحه في شهادته فهو كافر مشرك مرتد كاليهود والنصارى حلال الدم والمال، بلا خلاف من أحد من المسلمين
’’جس بدبخت نے نبی کریم ﷺ کی رسوائی کا ارتکاب کیا یا آپ کو اس سے منسوب کیا اور آپ پر فسق کا الزام لگایا یا آپ کی شہادت رسالت میں زیادتی کی تو یہود ونصاریٰ کی طرح وہ کافر ومشرک مرتد ہے، اس کا مال وخون حلال ہے۔ اس بارے میں مسلمانوں میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔‘‘
8 قاضی عیاض (متوفیٰ: 544ھ) بھی اس پر اجماع کا تذکرہ کرتے ہیں:
أجمعت الأمة علىٰ قتل منتقصه من المسلمین وسابه
’’اُمت کا نبی کریم کی تنقیص کرنے والے اور شاتم کو قتل کرنے پر اجماع ہے۔‘‘
9 امام تقی الدین علی سبکی شافعی (م 756ھ) لکھتے ہیں:
وقد ذكرت في كتابي المسمى بالسيف المسلول أن الضابط أن ما قصد به أذى النبي ﷺ فهو موجب للقتل كعبد الله بن أبي وما لم يقصد به أذى النبي ﷺ لا يوجب القتل كمسطح وحمنة. أما سب النبي ﷺ فالإجماع منعقد على أنه كفر والاستهزاء به كفر
’’میں نے اپنی کتاب ’السیف المسلول‘ میں یہ اُصول پیش کیا ہے کہ جو شخص کسی فعل سے نبی کریمﷺ کو اذیت دینا چاہتا ہو تو ایسا بدبخت واجب القتل ہے، جیسا کہ عبد اللہ بن اُبی تھا اور جس شخص کا یہ ارادہ نہ ہو تو اس صورت میں اس کی سزا قتل نہیں ہوگی جیسا کہ مسطح اور حمنہ کا معاملہ ہے[جنہوں نے سیدہ عائشہ پر افک میں شرکت کی تھی] جہاں تک شتم رسول کی بات ہے تو اس فعل کے کفر ہونے پر اجماع منعقدہوچکا ہے اور آپﷺ کا تمسخر اُڑانا بھی کفر ہی ہے۔‘‘
اس عبارت میں امام موصوف نے بیانِ اجماع کے ساتھ ساتھ نیت و ارادۂ گستاخی پر ایک اُصول بھی پیش کیا ہے جو قابل توجہ ہے، اسکی مزید تفصیل آگے علامہ ابن تیمیہ کے قول میں
10 قاضی ابن عابدین شامی حنفی لکھتے ہیں:
فعُلم أن المراد من نقل الإجماع على قتله قبل التوبة ثم قال وبمثله قال أبو حنيفة وأصحابه
’’اگر کسی نے نبی کریمﷺ کو گالی دی تو توبہ سے پہلے اس کو قتل کرنے پر اجماع ہے۔یہی نظریہ امام ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب کا ہے۔‘‘
ایک اور مقام پر صحابہ کے اجماع کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
وهذه نقول معتضدة بدليلها وهو الإجماع، ولا عبرة بما أشار إليه ابن حزم الظاهري من الخلاف في تكفير المستخف به فإنه شيء لا يعرف لأحد من العلماء، ومن استقرأ سير الصحابة تحقق إجماعهم على ذلك، فإنه نقل عنهم في قضايا مختلفة منتشرة يستفيض نقلها ولم ينكره أحد، وما حكي عن بعض الفقهاء من أنه إذا لم يستحل لا يكفر زلة عظيمة، وخطأ عظيم لا يثبت عن أحد من العلماء المعتبرين، ولا يقوم عليه دليل صحيح، فأما الدليل على كفره فالكتاب والسنة والإجماع والقياس
’’جو ہم کہہ رہے ہیں ، اس کا اعتماد وانحصار اجماع پر ہے۔ اور اس اجماع کو ابن حزم ظاہری کا یہ کہنا متاثر نہیں کرتا جہاں اُنہوں نے آپﷺ کا استخفاف کرنے والے کی تکفیر پر اختلاف کا تذکرہ کیا ہے۔یہ وہ شے ہے جس کو علما میں سے کوئی بھی نہیں جانتا۔ اور جس نے صحابہ کے حالات کا مطالعہ کیا ہے ، اس پر ان کا اجماع واضح ہے۔
یہ چیز ان کے مختلف فیصلوں میں منقول ومشہور ہے جس کا کسی نے انکار نہیں کیا۔ اور بعض فقہا سے جو یہ نقل کیا گیا ہے کہ جب وہ یہ کام حلال سمجھ کر نہ کرے تو کافر نہیں ہوگا، یہ بہت بڑی لغزش اور غلطی ہے جو معتبر علما میں سے کسی سے ثابت نہیں ہے۔اور اس پر کوئی صحیح دلیل بھی قائم نہیں ہے۔ ایسے بدبخت کے کفر پر کتاب وسنت اور اجماع وقیاس واضح دلیل ہیں۔‘‘
11 فقہ حنفی کی ممتاز شخصیت امام سرخسی نے بھی شاتم رسول کے قتل پر اجماع نقل کیا ہے اور لکھا ہے کہ وہ کہیں بھی ہو، اسے قتل کردیا جائے اور اس کی توبہ قبول نہ کی جائے۔
12 مضمون نگار کا یہ دعویٰ کہ کسی محدث نے توہین رسالت کو حد قرار نہیں دیا، بھی درست نہیں ۔ اس سلسلے میں بطورِ مثال امام نسائی (متوفیٰ 303ھ)کی سنن نسائی کو پیش کیا جاسکتا ہے جہاں انہوں نے تحریم الدم کے نام سے کتاب کا عنوان قائم کرکے ، اس میں ان جرائم کا تذکرہ کیا ہے جن سے خون کی حرمت ختم ہو کر، متعلقہ مجرم کا خون مباح ہوجاتا ہے۔اس کتاب کے تحت اُنہوں نے باب حکم من سب رسول الله کی احادیث بیان کیں۔ اسی کتاب کے تحت آپ سبّ وشتم سے قبل محاربہ کی احادیث بھی لائے ہیں اور بعد میں ساحر وجادوگر کے قتل کی احادیث کا تذکرہ کیا ہے۔
13 شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ(م728ھ) لکھتے ہیں:
وأما إجماع الصحابة فلأن ذلك نقل عنهم في قضايا متعددة ينتشر مثلها ويستفيض، ولم ينكرها أحد منهم فصارت إجماعًا
’’جہاں تک اجماعِ صحابہ کی بات ہے تو وہ یوں کہ صحابہ سے اس مسئلہ میں بہت سے فیصلے منقول ہیں جو مشہور ومعروف ہیں۔ صحابہ میں سے کسی نے اس کے خلاف فیصلہ نہیں کیا، اس بنا پر اس مسئلہ میں اجماعِ صحابہ ہے۔‘‘
قد اتفقت نصوص العلماء من جميع الطوائف على أن التنقص له كفر مبيح للدم … ولا فرق في ذلك بين أن يقصد عيبه لكن المقصود شيء آخر حصل السب تبعًا له، أو لا يقصد شيئًا من ذلك، بل يهزل ويمزج، أو يفعل غير ذلك
’’تمام گروہوں کے علما کی عبارات کی مراد اس پر متفق ہے کہ نبی کریم کی تنقیص کفر اور خون کو حلال کرنے والی ہے۔اس میں اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ آپ کی عیب جوئی کا ارادہ کرے لیکن مراد دوسری چیز لے، او راس سے تبعاً گستاخی لازم آجائے یا وہ ایسا ارادہ نہ کرے بلکہ مذاق میں ایسا کرے یا اس کے علاوہ مقصد کچھ او رہو۔‘‘
مضمون نگار کا علامہ ابن تیمیہ کو اس ضمن میں پہلا شخص قرار دینا سراسر غلط ہے کیونکہ اوّل تو شتم رسول کی سزاے موت ہونے پر صحابہ کرام کا اجماع ہے۔ ثانیاً، امام ابن تیمیہ (متوفی 728ھ) سے کئی سو برس قبل علامہ ابن المنذر (متوفی 319ھ) توہین رسالت کی مقررہ سزا پر نہ صرف اجماع کا دعویٰ کرچکے ہیں بلکہ اسی موقف کو اُنہوں نے امام مالک، احمد،لیث ، اسحٰق، اور امام شافعی کے حوالے سے بھی بیان کیا ہے۔ اوپر جتنے بھی علما نے اس موضوع پر اجماع کا دعویٰ کیا ہے، وہ سب ہی امام ابن تیمیہ سے پہلے گزر چکے ہیں۔ جبکہ امام ابن تیمیہ کے بعد اس مسئلہ پر اجماع کا دعویٰ کرنے والے امام سبکی اورحنفی علماے کرام میں سے قاضی ابن عابدین شامی،امام سرخسی، علامہ انورشاہ کشمیری، مولانا عبد المالک کاندھلوی، مولانا یوسف لدھیانوی اور مولانا رفیع عثمانی قابل ذکر ہیں جن میں بعض کے حوالے آگے آرہے ہیں۔
14 علامہ ابوبکر احمد بن علی رازی لکھتے ہیں :
ولا خلاف بین المسلمین أن من قصد النبي ﷺ بذلك فهو ممن ینتحل الإسلام أنه مرتد فهو یستحق القتل
’’تمام مسلمان اس پر متفق ہیں کہ جس شخص نےنبی کریم ﷺ کی اہانت اور ایذا رسانی کا قصد کیا ،وہ مسلمان کہلاتا ہو تو بھی وہ مرتد اورمستحق قتل ہے۔‘‘
مذكوره ائمہ کرام نے مختلف کتب میں توہین رسالت کی سزاے قتل ہونے پراجماعِ اُمت کی صراحت کی ہے اور یہ بھی واضح ہے کہ اس میں تکرار یا عدم تکرار وغیرہ کی کوئی تفصیل نہیں ہے اور یہی اُمت ِاسلامیہ کا اجماعی موقف ہے۔ پھر یہ کہنا کہ مسلمانوں میں سے کوئی اس کی مقررہ سزا بیان نہیں کرتا اور یہ آٹھویں صدی میں امام ابن تیمیہ کی غلطی کا نتیجہ ہے، سراسر بے اصل اور غلط دعویٰ ہے۔
توہین رسالت پر اجماع کے اس بیان میں دو باتیں قابل تو جہ ہیں:
اوّل، تو ان میں کسی مقام پر کمتر سزا کا تذکرہ موجود نہیں اوران میں بعض فقہا نے مباح الدم یعنی اس کے خون حلال ہونے کا جواُسلوبِ بیان اختیار کیا ہے، وہ اس کے واجب قتل ہونے کی سزا کو ہی بیان کرتا ہے، جیسا کہ اس کی صراحت بعض دیگر فقہا نے واجب القتل کے الفاظ سے بھی کی ہے، دیکھئے نمبر9،8،6،5،3 اور 10 اور بعض عبارتوں میں اس پر ’حد‘ کا لفظ بھی بولا گیا ہے جیسے نمبر2 اور 3 اور آگے آنے والے بہت سے اقوال۔
اس صراحت سے واضح ہوجاتا ہے کہ ایسے مجرم کی سزا یہ ہے کہ اس کوقتل کی سزا دینا واجب ہے۔ اجماع کی یہ عبارات بتاتی ہیں کہ توہین رسالت کی شریعت ِاسلامیہ میں مقررہ سزا یعنی حد ہونے پر اُمت ِمسلمہ میں اتفاق پایا جاتا ہے۔
دوم،متعدد مستند علما کی زبانی اُمت کے اجماع کے دعوے سے پتہ چلاکہ فقہاے احناف بھی اس اجماع میں شامل ہیں اورتوہین رسالت کی مقررہ سزا ہونا ہی ان کے ہاں اصل اور قدیمی موقف ہے، وگرنہ اجماع کا تقاضا ہی پورا نہیں ہوتا؟ بالخصوص کسی مسلمان شاتم پر سزاے قتل واجب ہونے کے بارے میں اجماع کی یہ عبارات احناف کے موقف پر صریح دلیل ہیں۔ یہی اصل مسئلہ ہے اور اس باب میں دیگر حنفی جزئیات استنثا ئی حیثیت رکھتی ہیں۔
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
فقہ حنفی میں توہین رسالت کی سزا ے قتل

جہاں تک علماے احناف کے موقف کی بات ہے تو اُن میں بھی اس بات میں کوئی اختلاف نہیں کہ توہین رسالت کی سزا قتل ہی ہے۔ ان میں یہ اختلاف تو ہے کہ شاتم رسول کی سزا بطورِ حد قتل ہے یا یہ جرم حد ارتداد کو مستلزم ہونے کی بنا پر مستوجب ِقتل ہے۔ یعنی جرم کی تعبیر وتوجیہ میں اختلاف موجود ہے لیکن جرم کی سزا میں کوئی اختلاف نہیں۔ اس بنا پر یہ کہنا کہ علماے احناف کے ہاں اس کی سزا موت نہیں بلکہ تعزیری ہے، درست نہیں۔ ’حد‘ کی تعریف فقہ حنفی کی مستند کتاب کنزالدقائق کی شرح البحرالرائق میں یوں ہے کہ
الْحَدُّ عُقُوبَةٌ مُقَدَّرَةٌ لِلهِ تَعَالىٰ بَيَانٌ لِمَعْنَاهُ شَرْعًا فَخَرَجَ التَّعْزِيرُ لِعَدَمِ التَّقْدِيرِ
’’حد وہ سزا ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر کردہ ہے۔ یہ اس کے شرعی معنیٰ کی وضاحت ہے۔ طے شدہ سزا نہ ہونے کی بنا پرتعزیر اس سے نکل گئی ۔‘‘
اب دیکھئے کہ کیا معتمد حنفی علما نے توہین رسالت کی مقرر سزا کو بیان کیا ہے؟ یا اس کو مسلمان حاکم کی صوابدید پر چھوڑ دیا ہے، خط کشیدہ الفاظ ملاحظہ فرمائیے:
1 نامور حنفی عالم علامہ انور شاہ کشمیری لکھتے ہیں:
أجمع المسلمون على أن شاتمه ﷺ كافر ومن شكّ في عذابه وكفره كفر... أجمع عوام أهل العلم على أن من سبّ النبي ﷺ يقتل...
’’ملت ِاسلامیہ کا اس امر پر اجماع ہے کہ نبی کریمﷺ کاگستاخ کافر ہے۔ اور جو اس کی سزا یا کافر ہونے میں شک کرے ، وہ بھی کافر ہے۔ اور اہل علم کا اس پر بھی اجماع ہے کہ نبی کریم کو سبّ وشتم کرنے والے کو قتل کیا جائے گا۔‘‘
2 پاکستان کے مشہور حنفی عالم مولانا رفیع عثمانی احناف کا موقف یوں بیان کرتے ہیں:
’’یہ مسئلہ تو اتفاقی ہے کہ اگر کوئی مسلمان شخص آں حضرت ﷺ کی شان میں گستاخی کرے اور توہین رسالت کا مرتکب ہوجائے تو اس سے وہ کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہوجائے گا، اور جرم ثابت ہونے پر اس کو قتل کیا جائے گا۔یہ شق اجماعی ہے اور اس کے دلائل نہایت واضح ہیں۔اور خود یہ عمل آں حضرتﷺ کے عمل سے ثابت ہے کہ آپ نے اپنی حیاتِ مبارکہ میں کئی ایسے بدبختوں کو موت کی سزا دی جن کے قصّے کتب ِحدیث اورسیرت میں مشہور ہیں۔‘‘
شتم رسول کی سزا کے قتل ہونے پر مولانا عبد المالک کاندھلوی اور مولانا محمد یوسف لدھیانوی کے اقتباسات بھی انہی صفحات میں ملاحظہ کئے جاسکتے ہیں جن میں مولانا کاندھلوی نے اس کی سزا موت بیان کرتے ہوئے اسے اجماع امت اوراجماع ائمہ قرار دیا ہے۔پھر مولانا محمد یوسف لدھیانوی نے توہین رسالت کی سزا کے قتل ہونے پر صحابہ کرام کا اجماع بھی نقل کیا ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ احناف کے ہاں نہ تو اس جرم کی سزا کے قتل ہونے میں اختلاف ہے اور نہ ہی جرم کی تکرار یا کمی بیشی کے لحاظ سے ان کے ہاں اس کی سزا میں کوئی فرق پیش نظر رکھا گیا ہے۔ یہ بات احناف پر ایک الزام ہے کہ وہ اسے ایک تعزیر سمجھتے ہیں یا چھوٹی موٹی سزاؤں سے شاتم کی تادیب کا رجحان رکھتے ہیں۔
3 سنن نسائی کے شارح علامہ ابو طیب سندھی حنفی لکھتے ہیں:
وحكم الساب يقتل
’’نبی ﷺ کو دشنام طرازی کرنیوالے کی سزا یہ ہے کہ اس کو قتل کردیا جائے۔‘‘
4 اس باب میں فقہ حنفی کی مستند ترین عبارت درج ذیل ہے:
قال أبو يوسف: وأيما رجل مسلم سبّ رسول الله ﷺ أو كذبه أو عابه أو تنقصه فقد كفر بالله تعالىٰ وبانت منه امرأته فإن تاب وإلا قتل وكذلك المرأة إلا أن أبا حنيفة قال: لا تقتل المرأة وتجبر علىٰ الإسلام
’’قاضی ابویوسف کہتے ہیں کہ کوئی بھی مسلمان جو رسول اللہﷺ كی شان میں گستاخی کرے، یا ان کی تکذیب وتنقیص کرے، یا اُن کی عیب جوئی کرےتو اس نے اللہ تعالیٰ سے کفر کیا اور اس کی بیوی طلاق یافتہ ہوگئی۔ اگر وہ توبہ کرے تو درست وگرنہ اس کو قتل کردیا جائے۔ یہی حکم عورت کا ہے ، تاہم امام ابوحنیفہ کا کہنا ہے کہ عورت کو قتل نہیں کیا جائے گا اور اسے اسلام کی طرف آنے پر مجبور کیا جائے گا۔‘‘
5 علماے احناف میں خاتمة المحَقّقینکے لقب سے یاد کئے جانے والے علامہ ابن ہمام حنفی (متوفیٰ 861ھ)لکھتے ہیں:
کل من أبغض رسول ﷺ بقلبه کان مرتدًا، فالسِّباب بطریق أولىٰ ثم یقتل حدًّا عندنا فلا تعمل توبته في إسقاط القتل. قالوا هٰذا مذهب أهل الكوفة ومالك ونقل عن أبي بكر الصديق رضي الله عنه ولا فرق بين أن يجيء تائبًا من نفسه أو شهد عليه بذلك بخلاف غيره من المكفرات فإن الإنكار فيها توبة فلا تعمل الشهادة معه حتى قالوا يقتل وإن سب سكران ولا يعفى عنه
’’جس شخص نے بھی رسول اللہ ﷺ سے دلی طور پر بغض رکھا، وہ مرتد ہوجاتا ہے تو گالی دینےوالا تو بالاولیٰ مرتد ہوگا ۔ اور پھر ایسا شخص ہمارے نزدیک بطورِ حد قتل کیا جائے گا اور سزائے قتل کے بارے میں اس کی کوئی توبہ قبول نہیں ہوگی ۔ اُنہوں نے کہا کہ اہل کوفہ اور امام مالك کا یہی مذہب ہے اور سیدنا ابو بکر صدیق والی حدیث سے یہی پتہ چلتا ہے ۔ اور اس امرمیں کوئی فرق نہیں کہ وہ خود توبہ کرکے آئے یا اس کے خلاف کسی دوسرے نے گواہی دی ہو برخلاف دیگر کفریہ اعمال کے کیونکہ ان کا انکار کردینا ہی توبہ ہے، اس میں دوبارہ گواہی کا بھی کوئی اعتبار نہیں حتیٰ کہ انہوں نے یہاں تک کہا ہے کہ اسے قتل کردیا جائے گا، اگرچہ نشہ کی حالت میں گالی دی ہو، اسے معاف نہیں کیا جائے گا۔ ‘‘
6 قاضی ابن عابدین شامی فرماتے ہیں کہ
’’اس بات پر فقہا کا اجماع ہے کہ اگر مسلمان کہلانے والا شخص رسول ﷺ کی شان میں گستاخی کرے اور اس فعل سے توبہ نہ کرے تو اس کی سزا بطورِ حد موت ہے۔‘‘
7 اسی طرح نامورحنفی فقہا میں سے امام کردری عرف ابن بزاز، امام خیر الدین رملی اورمولیٰ خسرو وغیرہ نے بھی توہین رسالت کی سزا ے قتل کو حدّ قرار دیا ہے، جیساکہ اس کے تفصیلی حوالے مجلہ ہذا کے صفحہ نمبر 81،82 میں ملاحظہ کئے جاسکتےہیں۔
8 غیرحنفی فقہا میں محمد بن سحنون مالکی (متوفی۲۶۵ھ)نے بھی توہین رسالت کی سزا ے قتل ہونے کو حد قرار دیا ہے اور قاضی عیاض (متوفی544ھ)نے جمہورفقہا، ائمہ اسلاف، امام مالک اور ان کے متبعین کا یہ موقف بتایا ہے :
مذهب مالك وأصحابه وقول السلف وجمهور العلماء قتله حدّا
مذکورہ بالا اقتباسات میں سے پہلے چار میں علی ٰ الاطلاق شاتم رسول کی سزا قتل قرار دی گئی ہے اور اس کی کوئی فقہی توجیہ نہیں کی گئی جبکہ آخری چار اقتباسات میں اس جرم کو براہ ِ راست حد(مقررہ سزاوالا جرم ) بتایا گیا ہے۔دراصل اس جرم کو براہ ِ راست حد بنانے یا حد ارتداد کو لازم ہونے سے اگلے مسائل مثلاً ذمّی کے لئے سزا کے تعین اور توبہ کی قبولیت وغیرہ کے بارے میں فرق پیدا ہوتا ہے، اس بنا پر فقہا کے مابین جرم ہذا کی تعلیل وتوجیہ میں تو اختلاف ہے، تاہم اس فرق کی بنا پر مسلمان شاتم کے لئے اس کی سزا ے قتل میں کوئی فرق واقع نہیں ہوتا۔جبکہ علماے احناف میں ایسے فقہا بھی ہیں جنہوں نے اس جرم کو ارتداد ہونے کی بنا پر سزاے موت کے قابل بتایا ہے :
9 قاضی عیاض مالکی(متوفی 544ھ) نے امام ابو حنیفہ کایہ موقف بیان کیا ہے :
وَهُوَ مُقْتَضٰى قَولِ أَبي بَكْر الصِّدِّيْق رَضِىَ اللهُ عَنْهُ، وَلَا تُقْبَلُ تَوْبَتُهُ عِنْدَ هَؤُلَاءِ وَبِمِثْلِهِ قَالَ أَبُو حَنِيفَةَ وَأَصْحَابُهُ وَالثَّوْرِيُّ وَأَهْلُ الْكُوفَةِ وَالْأَوْزَاعِيُّ فِي الْمُسْلِمِ، لَكِنَّهُمْ قَالُوا هِيَ رِدَّةٌ. وَرَوَى مِثْلَهُ الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ عَنْ مَالِكٍ رَحِمَهُ اللَّهُ وَحَكَى الطَّبَرِيُّ مِثْلَهُ عَنْ أَبِي حَنِيفَةَ وَأَصْحَابِهِ فِيمَنْ يُنْقِصُهُ ﷺ أَوْ بَرِئَ مِنْهُ أَوْ كَذَّبَهُ
’’[امام ابن المنذر کے بیان کردہ دعوائے اجماع کے بعد قاضی عیاض فرماتے ہیں:] اور یہی سیدنا ابوبکر صدیق کے فرمان کا تقاضا ہے ۔ مذکورہ بالا تمام ائمہ کے نزدیک شاتم رسول کی توبہ قبول نہیں کی جائے گی، یہی موقف مسلمان کے بارے میں امام ابو حنیفہ، ان کے متبعین، ثوری، اہل کوفہ اور امام اوزاعی کا ہے، تاہم اُنہوں نے اس جرم کو اِرتداد قرار دیا ہے۔ ولید بن مسلم نے امام مالک کا بھی یہی موقف بیان کیا ہے جبکہ طبری نے امام ابو حنیفہ اور ان کے متبعین کا اس بدبخت کے بارے میں بھی جو آپﷺ کی تنقیص کرے، آپ سے براءت کا اظہار کرے یا آپ کی تکذیب کرے، یہی موقف بیان کیا ہے ۔‘‘
امام ابو حنیفہ کے بارےمیں یہی بات علامہ ابن نجیم حنفی (م 970ھ)نے بھی لکھی ہے :
فَعُلِمَ أَنَّ قَوْلَهُ "وَبِمِثْلِهِ قَالَ أَبُو حَنِيفَةَ" أَيْ قَالَ: أَنَّهُ يُقْتَلُ لٰكِنْ قَالُوا: أَنَّهُ رِدَّةٌ
’’ان کے قول: وَبِمِثْلِهِ قَالَ أَبُو حَنِيفَةَ سے معلوم ہوا کہ امام ابو حنیفہ کے نزدیک اسے قتل توکیا جائے گا لیکن وہ ارتداد کی بنا قتل ہوگا۔‘‘
10 شتم رسول کے حد ارتداد کو مستلزم قرار دینے والے حنفی فقہا یہ بھی ہیں:
وَقَدْ نَقَلَ ابْنُ أَفْلَاطُونَ زَادَه فِي كِتَابِهِ الْمُسَمَّى بِمُعِينِ الْحُكَّامِ أَنَّهَا رِدَّةٌ حَيْثُ قَالَ مَعْزِيًّا إلَى شَرْحِ الطَّحَاوِيِّ مَا صُورَتُهُ مَنْ سَبَّ النَّبِيَّ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ أَوْ بَغَضَهُ كَانَ ذَلِكَ مِنْهُ رِدَّةً وَحُكْمُهُ حُكْمُ الْمُرْتَدِّينَ. وَفِي النَّتْفِ مَنْ سَبَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ فَإِنَّهُ مُرْتَدٌّ وَحُكْمُهُ حُكْمُ الْمُرْتَدِّ وَيُفْعَلُ بِهِ مَا يُفْعَلُ بِالْمُرْتَدِّ
اوپر کے اقتباسات میں پہلے آٹھ حنفی فقہاکے موقف شاتم رسول کی سزا ے قتل ہونے پر گزرے ہیں جبکہ سزاے قتل کی کوئی توجیہ اُنہوں نے نہیں کی، جبکہ پانچ مزید حنفی علما (ابن ہمام،قاضی ابن عابدین، ابن بزاز، رملی اور مولیٰ خسرو)نے اس جرم کی سزا بطور مستقل حد ، سزاے موت ذکر کی ہے اور آخری تین اقتباسات میں امام ابو حنیفہ کے بارے قاضی عیاض نے او ر امام طحاوی حنفی کے بارے ابن افلاطون زادہ نے اور النتف میں کسی نسبت کے بغیر، شاتم رسول کی سزا کو بطورِ ارتداد قتل قراردیا گیا ہے۔اس طرح 16حنفی فقہا کے موقف،مسلمان شاتم رسول کی سزاے موت پر یہاں ملاحظہ کئے جاسکتے ہیں۔
مذکورہ بالا فقہاے احناف میں، حالیہ دور کے نامور حنفی علما کے اقوال کا انتخاب اس بنا پر کیا گیا ہے کہ فقہ حنفی کے دور ِاوّل کے امام ابوحنیفہ اورقاضی ابو یوسف سے لے کر، اس زمانہ کے نامور حنفی فقہا تک، سب کواحناف کے اس موقف میں کوئی تردّد یا اضطراب نظر نہیں آیا اور ان کا موقف بالکل واضح ہے کہ مسلمان شاتم کی سزا قتل ہی ہے ، چاہے مستقل بالذات جرم گستاخی کی بنا پر ہو یا حد ارتداد کے لزوم کی بنا پر۔ تو اب اس میں تحقیق کے نام پر یہ نیا موقف کیوں کر پیش کرنے کی گنجائش ہوسکتی ہے کہ ’’علماے احناف کے ہاں اس جرم کی سزا یا حد مقرر ہونے میں کوئی اختلاف نہیں اور یہ محض ایک تعزیری جرم ہے۔‘‘ یا ’’احناف کا زاویہ نگاہ یہ ہے کہ عمومی قانون کے طورپر سزاے موت کی بجائے کمتر سزاؤں کا نفاذ زیادہ قرین قیاس ومصلحت ہے۔‘‘ ظاہر ہے کہ فقہاے احناف کے موقف کی تعبیر کرنے کا اصل حق انہی معتمد حنفی علماے کرام کو ہی حاصل ہے۔
مذکورہ بالا عبارتوں میں خط کشیدہ الفاظ ملاحظہ کریں کہ کیا ان میں توہین رسالت کی مقررہ سزا کو بیان کیا گیا ہے یا اسے حاکم کی صوابدید پر چھوڑدیاگیا ہے۔ اگر اس کی سزا کو مقرر طورپر پیش کیا گیا ہے جیسا کہ اوپر ثابت ہوچکا ہے توپھر توہین رسالت کی سزا کو محض اس بنا پر حد قرار دینے سے رک جانا کہ بعض فقہا نے حدود کی لسٹ میں اُس کو درج نہیں کیا، ایک کوتاہی سے زیادہ نہیں۔ بعض فقہا کا اس کو حدود کی لسٹ میں درج کرنا یا نہ کرنا، ایک فنی اور تدوینی امر ہے، تاہم فقہی موقف اس باب میں بالکل واضح ہے۔ اور اس امر میں تو کوئی شبہ نہیں کہ حنفی فقہا کا اس کے مقررہ حد نہ ہونے پراتفاق کا دعویٰ کرنا سراسر باطل ہے ۔
ïبعض فقہا نے شتم رسول کو حدود کی فہرست میں بھی درج کیا ہے ، جیسے امام خلال نے اپنی کتاب أهل الملل والردة والزنادقة میں کتاب الحدود میں ’باب فیمن شتم النبی ﷺ‘ کا تذکرہ کرکے اس کو حدود میں شمار کیا ہے۔
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
احناف کے ہاں ذمّی شاتم رسول کی سزاے قتل

حنفیہ کے ہاں شاتم رسول کا واجب القتل ہونا مسلمان مجرم کی حد تک تو اتفاقی ہے جس کی صراحت مذکورہ بالا عبارتوں کے علاوہ اجماعِ امت کی درجنوں تصریحات سے بھی ہورہی ہے جن میں احناف کی حد تک اجماع کا محل مسلم شاتم کی سزاے قتل تک تصریح شدہ ہے۔
تاہم اُن میں یہ اختلاف موجود ہے کہ بعض احناف کے نزدیک قتل کی یہ سزا ذمّیوں (دارالاسلام میں امان یافتہ غیرمسلم)کو شرعاً نہیں دی جائے گی، بلکہ سیاستاً( مصلحتاً) دی جائے گی۔ لیکن اس سلسلے میں بھی اس جرم کی اساس حنفیہ میں محاربہ وغیرہ کو قرار نہیں دیا گیا۔
1 اس مسئلہ کی وضاحت مولانا مفتی رفیع عثمانی کے قلم سے ملاحظہ فرمائیے:
’’ [جہاں تک ذمّی کا تعلق ہے تو] امام مالک ، اہل مدینہ، امام احمد بن حنبل، فقہاے حدیث، خود امام شافعی کے نزدیک ذمّی کو بھی مسلمان کی طرح توہین رسالت کی وجہ سے قتل کیا جائے گا۔ امام شافعی کے اصحاب کے اس میں مختلف اقوال ہیں۔ جہاں تک امام ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب کا مذہب ہے تو وہ یہ کہ توہین رسالت کا مرتکب اگر ذمّی ہے تو پہلی دفعہ اس کو قتل نہیں کیا جائے گا، بلکہ امام اس پر مناسب تعزیر جاری کرے گا،البتہ اگر وہ جرم کا ارتکاب مکرّر کرے، تو اس صورت میں اس کو قتل کیا جائے گا۔‘‘
2 ذمی کے بارے احناف کا موقف ، امام طحاوی کی زبانی ،علامہ ابن تیمیہ نے یوں بیان کیا ہے، جسے نامور حنفی فقیہ قاضی ابن عابدین شامی نے بھی ذکر کیا ہے :
وأما أبو حنيفة وأصحابه فقالوا: لا ينتقض العهد بالسبّ، ولا يقتل الذمي بذلك، لكن يعزر على إظهار ذلك... وحكاه الطحاوي عن الثوري
’’امام ابو حنیفہ اور ان کے شاگردوں کا کہنا ہے کہ ذمی کا عہد نبی ﷺکو گالی دینے سے نہیں ٹوٹتا اور اس بنا پر ذمی کو قتل نہیں کیا جائے گا۔ تاہم اس کی سزااس کو دی جائے گی ....اور یہی موقف طحاوی نے ثوری سے بھی نقل کیا ہے۔‘‘
قاضی ابن عابدین شامی ذمّی کو قتل کرنے کا جواز پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
وهو يدلّ علىٰ جواز قتله زجرًا لغيره إذ يجوز الترقي في التعزير إلىٰ القتل
’’اور یہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ دوسروں کو ڈرانے کے لئے اس کو قتل کرنا جائز ہے ، اس لئے کہ تعزیر قتل تک ہوسکتی ہے۔‘‘
3 علماے احناف کا ذمی کے بارے میں موقف یہ ہوا کہ اس کو شرعاً قتل نہیں کیا جائے گا، بلکہ سیاستاً(مصلحت ِعامہ یا حاکم کے اختیار) کے طور پر اس کو قتل کیا جائے گا۔یہ موقف اختیار کرنے کی وجہ یہ ہے کہ بعض حنفی علما کے نزدیک توہین رسالت کا جرم،ذمی کا معاہدۂ امان نہیں توڑتا، لیکن یاد رہے کہ اوّل تو متعدد حنفی علما کے نزدیک ذمّی کا معاہدہ امان اس سے ٹوٹ جاتا ہے، ثانیاً معاہدہ امان نہ ٹوٹنے کا لازمہ یہ نہیں کہ اُس کو قتل نہ کیا جائے، بلکہ معاہدۂ امان ٹوٹ جانےسے ان بعض احناف کی مراد یہ ہے کہ حربی شخص کی طرح اس ذمی کا مال ، مالِ غنیمت اور ذمی خواتین ، لونڈیاں نہیں بن جاتیں، بلکہ ذمی کے جرمِ سرقہ کی طرح اس کی سزا اکیلے مجرم ذمی کو ہی دی جائے گی، اس کے اموال و خاندان کو نہیں،اس بنا پر اس جرم کو ذمی کے مال وکنبہ کے معاہدہ امان ٹوٹنے کے مترادف نہ سمجھا جائے۔ جیساکہ خیر الدین رملی حنفی لکھتے ہیں:
لا یلزم من عدم النقض عدم القتل
’’عہدامان نہ ٹوٹنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس ذمّی کو سزا قتل نہیں دی جائیگی۔‘‘
4علامہ ابن سبکی فرماتے ہیں:
لا ينبغي أن يفهم من عدم الانتقاض أنه لا يقتل فإن ذلك لايلزم
’’معاہدہ نہ ٹوٹنے سے اس کا قابل قتل نہ ہونے کا مفہوم لینا درست نہیں، نقض عہد کا یہ لازمہ نہیں ۔‘‘
5 علامہ ظفر احمد عثمانی تھانوی، دورِنبوی میں بعض شاتم ذمیوں کے قتل سے استدلال کرتے ہوئے، معاہدہ امان نہ ٹوٹنے کے نکتہ کی مزید وضاحت کرتے ہیں:
فإن النبي لم يجعل أموال هؤلاء فيئًا للمسلمين
’’نبی کریم نے [ذمّی]شاتمان کے اموال کو مسلمانوں کے لئے مالِ غنیمت نہیں بنایا۔‘‘
غرض جس شخص نے حنفیہ کے اس موقف سے یہ سمجھا ہے کہ احناف کے ہاں ذمّی شاتم رسول کی سزا قتل نہیں، اس نے بڑی غلطی کی ہے، جیساکہ اس کی پرزور تردید علامہ ظفر احمد عثمانی نے اپنی کتاب ’اعلاء السنن‘میں امام ابن حزم کا جواب دیتے ہوئے کی ہے۔ یاد رہے کہ علامہ عثمانی تھانوی کی کتاب ’اعلاء السنن‘ پاکستان میں علماے دیوبند کے انتہائی معتمد عالم مولانا اشرف علی تھانوی کے افادات سے ماخوذ ہے۔علامہ عثمانی کا یہ موقف بلاتبصره حسب ِذیل ہے:
وممن فهم من عدم الانتقاض عدم القتل محدث الأندلس – العلامة ابن حزم الظاهري – فنسب إلى الحنفية القول بعدم القتل من سبّ الله ورسوله وجعل يطعنهم ويرميهم بكل سوء. ولم يدر أن الآفة في ذلك من عنده لا من عندهم، وهذا هو اللائق بظاهريته حيث قال: "وقال سفيان وأبو حنيفة وأصحابه: إن سب الذمي الله تعالىٰ أو رسوله ﷺ بأي شيء سبه فإنه لا يقتل لكن ينهى عن ذلك وقال بعضهم: يعزر(11/415)"
فقوله: "إنه لا يقتل" كذب عليهم، وإنما قالوا: لا ينتقض العهد به ولا يلزم منه عدم القتل وكذا قوله: "وقال بعضهم: يعزر" خطأ فإنهم صرحوا قاطبة بأنه يعزر على ذلك ويؤدب كما مرّ. والتعزير عندنا يعمّ الضرب والقتل جميعًا وهو مفوّض إلى رأي الإمام، ويسمّي القتل سياسةً وإن سلمنا أنهم قالوا: لا ينتقض العهد بذلك ولا يقتل به فليس معناه أن يتركهم الأمام وهم يسبون الله والرسول ويطعنون في ديننا، في دارنا. كما فهمه ابن حزم وغيره من أهل الظاهر من قلة فهمهم وعدم تدبرهم في كلام علمائنا. بل معناه: أن العهد لا ينتقض بذلك وعلىٰ الإمام أن ينبذ إليهم علىٰ سواء إذا آذونا في الله وفي الرسول وطعنوا في ديننا فإن الجهاد ماض إلىٰ يوم القيامة، صرح به الشامي نقلا عن أئمتنا (3/430)

’’محدثِ اندلس علامہ ابن حزم ظاہری نے جو ذمی کے معاہدۂ امن نہ ٹوٹنے سے اس کی سزاے قتل کا نہ ہونا مراد لیا ہے اوراس موقف کو حنفیہ کی طرف منسوب کردیا ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کے شاتم کو قتل کی سزا نہیں دیتے اور اس بنا پر اُنہوں نے حنفیہ کو مطعون کیا اور برا بھلا کہا ہے۔ حالانکہ وہ حنفی موقف کو سمجھے ہی نہیں، یہ موقف اُن کے سوءِ فہم کا نتیجہ ہے نہ کہ حنفیہ کی غلطی کا۔اور ان کی ظاہریت کو یہی لائق ہے جب اُنہوں نے یہ بات کہی کہ ’’سفیان، ابو حنیفہ اور ان کے متبعین کا کہنا ہے کہ ذمی کا اللہ او راس کے رسول کو گالی دینا، جس چیز سے بھی وہ دشنام طرازی کرے، تو اسے قتل نہیں کیا جائے گا، بلکہ اس کو اس فعل بد سے روکا جائے گا، اور بعض نے کہا کہ اس جرم کی اس کو سزا دی جائے گی۔‘‘
امام ابن حزم کا یہ کہنا کہ ذمی کو قتل نہیں کیا جائے گا، حنفیہ پر تہمت ہے۔ حنفیہ نے تو یہ کہا کہ اس سے ذمی کا عہدٹوٹتا نہیں ہے اور نہ ہی اس سے عدمِ قتل لازم آتا ہے۔ اسی طرح ابن حزم کا یہ کہنا کہ بعض حنفیہ نے کہا کہ اس کو سزا دی جائے گی، بھی غلط ہے کیونکہ ان تمام نے یہ صراحت کی ہےکہ اس کو تعزیر بھی دی جائے گی اور اس کی تادیب بھی ہوگی جیسا کہ پیچھے گزرا ہے۔ یاد رہے کہ تعزیر حنفیہ کے ہاں ضرب اور قتل دونوں کو شامل ہے۔ البتہ یہ حاکم کی رائے پر موقوف ہے۔اور اسے سیاستاً قتل کرنا کہتے ہیں۔ اور بالفرض ہم مان لیں کہ ہم (حنفیہ) نے کہا ہے کہ اس سے عہد امان نہیں ٹوٹے گا اور نہ ہی اسے قتل کیا جائے گا تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ حاکم اُنہیں آزاد چھوڑ دے گا کہ وہ اللہ ، اس کے رسول اور ہمارے دین میں طعنہ زنی کرتے پھریں جیسا کہ ابن حزم اور دیگر علماے ظاہر نے قلتِ فہم اورہمارے علما کی رائے پر عدمِ تدبر کی بنا پرہمارا یہ موقف سمجھ لیا ہے۔ بلکہ اس کا معنیٰ یہ ہے کہ اس بنا پران کا عہدنہیں ٹوٹے گا، اور حاکم اسلام کو چاہئے کہ جب وہ مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ، اس کے رسول اور ان کے دین کے بارے میں طعنہ زنی کریں تو حاکم ان سے پوری طرح نمٹے [یعنی جنگ کرے] کیونکہ جہاد قیامت تک جاری رہے گا۔ یہ ہے وہ موقف جس کی صراحت امام ابن عابدین شامی نے ہمارے ائمہ حنفیہ سے کی ہے۔‘‘
4 شتم رسول کو نقض عہدنہ ماننے والے احناف کا موقف یہ بھی ہے کہ اگر کوئی ذمی علانیہ شتم رسول کا ارتکاب کرے تو اس کو سزاے قتل دی جائے۔ابن کمال باشا لکھتے ہیں :
والحق أنه يقتل عندنا إذا أعلن بشتمه ﷺ صرح به في سير الذخيرة حيث قال: واستدل محمد لبيان قتل المرأة إذا أعلنت بشتم الرسول ﷺ بما روي أن عمير بن عدي ... مدحه على ذلك
’’حق بات یہ ہے کہ ہمارے نزدیک ذمی کو قتل کیا جائے گا، جبکہ وہ نبی کریمﷺ کو علانیہ گالی دے، اور’سیر الذخیر ہ‘ میں اس کی صراحت مصنف نے يوں کی ہے کہ امام محمّد نے علانیہ شتم رسول کی مرتکب عورت کو قتل کرنے میں عمیر بن عدی کے عصما بنتِ مروان کو رات کے وقت قتل کرنے سے استدلال کیا ہے ۔‘‘
5 امام ابو حنیفہ کے شاگرد امام محمد بن حسن شیبانی (متوفی: 189ھ)فرماتے ہیں:
قال محمّد في السير الكبير وكذلك إن كانت تعلن بشتم رسول الله ﷺ فلا بأس بقتلها
’’امام محمد نے السیر الکبیر میں فرمایا ہے کہ اور اسی طرح عورت رسول اللہ کو علانیہ گالی دے تو اس کے قتل میں کوئی حرج نہیں۔‘‘
6 علامہ شہاب الدین شلپی لکھتے ہیں: إذا أظهره يقتل
’’جب ذمی علانیہ گستاخی کا ارتکاب کرے تو اس کو قتل کیا جائے گا۔‘‘
éعلامہ ظفر احمد عثمانی تھانوی لکھتے ہیں:
وبالجملة فلا خلاف بین العلماء في قتل الذمي أو الذمية إذا أعلن بشتم الرسول أو طعن في الإسلام طعنًا ظاهرًا
’’مذکورہ بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ ذمی مرد یا ذمیہ عورت جب نبی کریمﷺ کو علانیہ گالی دے یا دین اسلام میں طعن کرے تو فقہاے احناف میں اس كی سزاے قتل میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔‘‘
گویا شتم رسول کو ذمی کے لئے نقض عہد نہ ماننے والے سزاے قتل کو رفع نہیں کرتے ، جبکہ شتم رسول کا اظہار کرنے والے ذمی کی سزاے قتل پر جملہ فقہاے احناف کا اتفاق ہے۔ اوریہ بات واضح ہے کہ شتم رسول جب تک دو مسلمان گواہوں کے سامنے نہ ہو اور کمرے کے اندرخاموشی سے ہو تو شتم رسول کا جرم ہی ثابت نہیں ہوا، جب یہ جرم ظاہر ہوکر دو مسلمانوں کےعلم میں آجائے اور مسلم عدالت میں پہنچ جائے تو یہ شتم رسول کا اظہار ہے ۔ اور اس ثبوت ِ جرم کے بغیر کوئی بھی شتم رسول کے مبینہ ملزم کو سزا دینے کا قائل نہیں ہے۔
اوپر کی بحث سے واضح ہوا کہ ذمی کے بارے میں ان احناف کا موقف جو اسے نقض عہد نہیں مانتے، تعبیر کی حد تک ہی مختلف ہے، اگر اسے ان دونوں نکات (سزاے قتل کا عدم رفع اور اظہار سے مشروط) کو مانا جائے تو پھر ذمی کے باب میں ان کا موقف پوری اُمت کے ساتھ ہی ہے۔مزید یہ بھی پتہ چلا کہ مسلمان شاتم کے واجب القتل ہونے کی حد تک تو ویسے ہی احناف اجماعِ امت میں داخل ہیں۔ اور ذمی کے بارے میں ، اگر پاکستان کے غیرمسلموں کو بالفرض ذمی مان بھی لیا جائے تو ان کو سزاے قتل نہ دینا فقہ حنفی کے خلاف ہرگز نہیں ہے کیونکہ فقہ حنفی میں ذمی کے لئے بھی سزاے قتل موجود ہے جیسا کہ مذکورہ اقوال اور مولانا ظفر احمد عثمانی کی علامہ ابن حزم پر تنقید سے بالکل واضح ہے۔
5 ابھی تک ان احناف کا موقف گزرا ہے جو ذمی کے لئے سبِّ رسول کو نقض عہد نہیں مانتے، لیکن احناف میں اکثریت اُن کی ہے جو اُسے نقض عہد تسلیم کرتے ہیں، چنانچہ ایسے حنفیّہ کے موقف میں اساس کے لحاظ سے ہی جمہور علما کے ساتھ کوئی فرق باقی نہیں رہتا۔ یہ اکثر و نامور حنفی فقہا جمہوراہل علم کی طرح اسی بات کے قائل ہیں کہ ذمّی کو بھی تعزیر کی بجائے قتل کی سزا ہی دی جائے اور اس فعل بد سے اُس کا عہد ِامان ٹوٹ جائے گا جیسا کہ امام ابو بکر جصاص حنفی (م 370ھ)لکھتے ہیں:
وقال الليث في المسلم يسب النبي ﷺ إنه لا يُناظر ولايُستتاب ويُقتل مكانه... وظاهر الآية يدل على أن من أظهر سبّ النبي ﷺ من أهل العهد فقد نقض عهده
’’لیث بن سعد نے آپ ﷺ کو گالی دینے والے مسلمان کے بارے میں فرمایا کہ اس سے مناظرہ ومباحثہ نہیں کیا جائے گا اور نہ ہی توبہ کا مطالبہ کیا جائے گا بلکہ اسے اسی جگہ قتل کردیا جائے گا ۔ ... آیتِ مذکو ر﴿وَاِنْ نَّكَثُوْا اَیْمَانَہُمْ ...﴾ کا ظاہر اس امر پر دلالت کرتاہے کہ معاہدین میں جس شخص نے نبی کریمﷺ کی گستاخی کو ظاہر کیا، گویا اس نے اپنا عہد توڑ دیا۔‘‘
6 ذمّی کے بارے یہی موقف علامہ عینی نے بھی اختیا ر کیا ہے کہ اس کو بھی قتل کیا جائے:
ولٰکنّ أنا معه في جواز قتل الساب مطلقًا
’’تاہم میں مطلقاً ہر شاتم رسول کو قتل کرنے کے حق میں ہوں۔‘‘
واختياري في السب أن يقتل وتبعه ابن الهمام
’’میرے نزدیک راجح یہی ہے کہ حضورﷺ کو گالی دینے والے کو قتل کیا جائے۔ اور اس موقف میں ان کی پیروی ابن ہمام نے بھی کی ہے۔‘‘
امام ابو بکر جصاص اور علامہ بدرالدین عینی کے دیگر اقوال اسی شمارے کے صفحہ نمبر79،83 پر بھی ملاحظہ کئے جاسکتے ہیں۔
7 علامہ شہاب الدین آلوسی بعض احناف کے اِس موقف پر تنقید کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
والقول بأن أهل الذمة يقرون على كفرهم الأصلي بالجزية وذا ليس بأعظم منه فيقرون عليه بذلك أيضًا وليس هو من الطعن المذكور في شيء ليس من الانصاف في شيء. ويلزم عليه أن لا يعزّروا أيضًا كما لايعزرون بعد الجزية علي الكفر الأصلي ولعمري بيع يتيمة الوجود ﷺ بثمن بخس
’’یہ کہنا کہ چونکہ جزیہ کی ادائیگی کے بعد اہل ذمہ کو ان کے کفر اصلی پر قائم رہنے کی اجازت دی جاتی ہے اور سبّ وشتم اس کفر سے بڑا نہیں ہے، اس لئے انہیں اس پر بھی قائم رہنے دیا جائے گا، انصاف سے بالکل بعید بات ہے۔ اس صورت میں تو یہ لازم آئے گا کہ جیسے انہیں جزیہ ادا کرنے کے بعد انکے کفر اصلی پر کوئی تعزیر نہیں کی جاتی، اسی طرح سبّ وشتم پر بھی کوئی تعزیر نہ کی جائے۔ واللہ ! یہ تو کائنات کے درّ یتیمﷺ کو نہایت حقیر قیمت کے عوض فروخت کردینے کے مترادف ہے۔‘‘
8 امام محقق ابن ہمام حنفی (م 861ھ)لکھتے ہیں:
وَاَلَّذِي عِنْدِي أَنَّ سَبَّهُ ﷺ أَوْ نِسْبَةَ مَا لَا يَنْبَغِي إلَى اللَّهِ تَعَالَى إنْ كَانَ مِمَّا لَا يَعْتَقِدُونَهُ كَنِسْبَةِ الْوَلَدِ إلَى اللهِ تَعَالَى وَتَقَدَّسَ عَنْ ذَلِكَ إذَا أَظْهَرَهُ يُقْتَلُ بِهِ وَيُنْتَقَضُ عَهْدُهُ
’’میرے نزدیک مختار یہ ہے كہ ذمی نے اگر حضورﷺ کی اہانت کی یا اللہ تعالی جل جلالہ کی طرف غیر مناسب چیز منسوب کی جو ان کے اعتقادات سے خارج ہے۔ جب وہ ان چیزوں کا اظہار کرے تو اس کا عہد ٹوٹ جائے گا اور اسے قتل کردیا جائے گا۔ ‘‘
علامہ ابن ہمام کا ایک قول پیچھے نمبر5 کے تحت بھی گزر چکا ہے، وہاں اُنہوں نے ا س جرم کو مستقل حد قرار دیتے ہوئے واجب القتل قرار دیا اور اس کی توبہ کی عدم قبولیت کا موقف پیش کیاتھا، اسی بنا پر وہ یہاں ذمّی کے لئے اس جرم کو نقض عہد اور وجوبِِ قتل کی بنیاد قرار دے رہے ہیں۔ اظہار کا مفہوم یہاں وہی ہے جو ثبوتِ جرم کا تقاضا ہے۔
9 فتاویٰ بزازیہ کے مؤلف شیخ محمد بن شہاب ابن البزاز حنفی (متوفیٰ 827ھ) لکھتے ہیں:
إذا سبّ الرسول ﷺ أو واحدًا من الأنبیاء فإنه یقتل حدًا فلا توبة له أصلًا سواءً بعد القدرة علیه والشهادة أو جاء تائبًا من قبل نفسه کالزندیق لأنه حدّ وجب فلا یسقط بالتوبة کسائر حقوق الآدمیین کحد القذف لا یسقط بالتوبة بخلاف ما إذا سب الله تعالىٰ ثم تاب لأنه حق الله تعالىٰ ولأن النبي عليه السلام بشر والبشر جنس يلحقهم المعرة إلا من أكرمهم الله تعالىٰ والباري منزه عن جميع المعايب وبخلاف الارتداد لأنه معنى يتفرد المرتد لا حق فيه لغيره من الآدميين ولكنه قلنا إذا شتمه عليه الصلوة والسلام لا يعفى ويقتل أيضا حدًّا وهذا مذهب أبي بكر الصديق رضي الله عنه والأمام الأعظم والثوري وأهل الكوفة والمشهور من مذهب مالك وأصحابه
’’جب کوئی بدبخت رسول کریمﷺ یا کسی نبی کی گستاخی کرے، تو اس کو بطورِ حد قتل کردینا واجب ہے۔ اس کی اصلاً کوئی توبہ قابل قبول نہیں، چاہے اس کوپکڑ کرلایا جائے، یا اس کے خلاف گواہی دی جائے یا وہ خود توبہ کرکے آپہنچے، مثل زندیق کے۔ کیونکہ اس پر حد واجب ہوگئی جو انسانوں کے دیگر حقوق کی طرح محض توبہ سے ختم نہیں ہوجاتی۔جیسا کہ تہمت طرازی کی حد ہے جو توبہ سے ساقط نہیں ہوتی۔ برخلاف اللہ کی گستاخی کے، کیونکہ وہ صرف اللہ تعالیٰ کا ہی حق ہے۔ جبکہ نبی
بشر ہیں اور بشر کو شرم وعار لاحق ہوسکتی ہے مگر جسے اللہ تعالیٰ عزت دے اور باری تعالی خود تو ہر قسم کے عیوب ونقائص سے بالاترہیں۔ اور برخلاف ارتداد کے بھی کیونکہ ارتداد میں انسان کسی دوسرے انسان کا حق متاثر نہیں کرتا۔ اسی بنا پر ہم کہتے ہیں کہ جب کوئی نبی کریمﷺ کو سبّ وشتم کرے گا، اس کو معاف نہیں کیا جائے گا اور اس کو حد کے طورپر قتل کردیا جائے گا۔ یہی سیدنا ابوبکر صدیق ، امام اعظم، ثوری، اہل کوفہ کا موقف ہے اور امام مالک اور ان کے شاگردوں سے مشہور موقف بھی یہی ہے۔‘‘
10 امام خیر الدین رملی حنفی (م 993ھ)کا قول شمارہ ہذا کے صفحہ نمبر 81 پر ملاحظہ فرمائیں۔
11 امام ابو عباس احمد ناطفی حنفی(م446ھ)نے اپنی کتاب ’الاجناس فی الفروع ‘میں لکھاہے :
أما إذا سبّ رسول الله ﷺ أو واحدًا من الأنبياء عليهم السلام يقتل حدًّا ولا توبة له أصلا سواء بعد القدرة والشهادة أو جاء تائبًا من قبل نفسه كالزنديق لأنه حد وجب فلا يسقط بالتوبة كسائر حقوق الآدميين وكحد القذف لا يزول بالتوبة بخلاف من
سبّ الله تعالىٰ ثم تاب لأنه حق الله تعاليٰ والباري تعالىٰ منزه عن جميع المعايب وبخلاف الارتداد لأنه يتفرد به المرتد لا حق فيه لغيره من الآدميين ولهٰذا قلنا إذا شتمه ﷺ لا يُعفٰى ويُقتل أيضًا حدًا وهذا مذهب أبي بكر الصديق رضي الله عنه والإمام الأعظم والثوري وأهل الكوفة رضوان الله عليهم والمشهور من مذهب المالك وأصحابه رحمهم الله

’’جو شخص بھی رسول اللہ یا کسی نبی کو دشنام طرازی کرے، تو اس کو حد کے طورپر قتل کیا جائے گا اور اس کی کوئی توبہ نہیں ، چاہے پکڑے جانے کے بعد ہو یا گواہیوں کے بعد یا وہ ازخود توبہ تائب ہوکر پیش ہوجائے ، زندیق کی طرح ۔ کیونکہ اس پر حد واجب ہوگئی جو اکیلی توبہ سے ساقط نہیں ہوگی، جس طرح انسانوں کے دیگر حقوق کا معاملہ ہے او رجس طرح تہمت کی حد کا مسئلہ ہے جو توبہ سے ختم نہیں ہوجاتی۔ برخلاف اس شخص کے جس نے اللہ تعالیٰ کی شان میں گستاخی کی تو اللہ سے توبہ کرکے وہ اللہ کے حق کو ادا کردیتا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ درحقیقت تمام عیوب سے مبرا ومنزہ ذات باری ہے(یعنی اللہ کی گستاخی کرنے والا توبہ کرکے اپنے آپ سے دنیوی حدّ کو ساقط کراسکتا ہے)۔اور برخلاف اس شخص کے بھی جو مرتد ہوگیا [تو وہ توبہ کرکے اپنے آپ سے سزا کو ساقط کرسکتا ہے] کیونکہ ارتداد میں انسانوں کا کوئی حق مجروح نہیں ہوا۔ اسی بنا پر ہم کہتے ہیں کہ جس نے نبی کریم کی گستاخی کی اسے معاف نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اب آپ کا حق معاف نہیں ہوسکتا۔ سیدنا ابوبکر صدیق ، امام اعظم ابوحنیفہ، امام ثوری، اہل کوفہ کا یہی موقف ہے اور امام مالک اور ان کے متبعین کا بھی یہی موقف مشہور ہے۔‘‘
12 تفسیر قرطبی کے مصنّف امام ابوعبداللہ محمد بن احمد قرطبی مالکی رقم طراز ہیں:
أکثر العلماء علىٰ أن من سب النبي ﷺ من أهل الذمة أو عرض واستخف بقدره أو وصفه بغیر الوجه الذي کفر به فإنه یقتل
’’اکثر علما کا کہنا ہے کہ اہل ذمّہ میں سے جو شخص نبی ﷺ کو گالی دے یا تعریض کرے یا آپ کی قدر ہلکی جانے یا اپنے کفر کے علاوہ کسی چیز سے آپ کو موصوف کرے تو اسے قتل کیا جائے گا۔ ہم اسے ذمّہ یا عہد و پیمان نہیں دے سکتے۔‘‘
اوپر کے چار اقوال نمبر5 تا 8میں نہ صرف یہ کہ ذمّی کے لئے شتم رسول کے بعد نقض عہد کے موقف اختیا رکیا گیا ہے بلکہ بعد میں 9 تا 11؍اقوال میں اس جرم کو براہِ راست حد قرار دیتے ہوئے، اُس کے ناقابل معافی ہونے کی شرعی توجیہات بھی پیش کی گئی ہیں۔ یاد رہے کہ یہ آخری موقف جس حنفی فقیہ نے اختیار کیا ہے اور اسے امام ابو حنیفہ سے بھی منسوب قراردیا ہے، ان کا زمانہ پانچویں صدی ہجری کا وسط ہے۔ اور بعد میں خیرالدین رملی اور ابن بزاز نے جن الفاظ میں اسے اختیار کیاہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے استدلال ورجحان کا محور یہی موقف ہے جو پانچویں صدی ہجری سے فقہ حنفی میں مشہور ہے۔
دراصل شتم رسول کے بارے میں یہ نکتہ اساسی حیثیت رکھتا ہے کہ یہ جرم ارتداد وعقوقِ والدین وغیرہ کی طرح محض گناہ نہیں بلکہ زنا ،سرقہ اورتہمت جیسے جرائم کی طرح ایک قابل سزا جرم بھی ہے۔ کیونکہ اس میں ذاتِ نبوتﷺ پر اتہام طرازی کی گئی ہے جو ان پر جنایت(زیادتی) کے مترادف ہے۔ ذاتِ نبوت پر جنایت کے ذریعے پوری اُمتِ اسلامیہ کے دل بھی چھلنی کئے گئے ہیں ۔ اس لحاظ سے شتم رسول کے جرم میں اللہ کا حق، رسول اللہ کا حق اور اُمت کا حق ، متاثر ہوتے ہیں۔
آخری اقوال میں نہ صرف اس کی قانونی علت پیش کی گئی بلکہ اس جرم کے براہِ راست ارتداد نہ ہونے اور اس کے کلّی مماثل نہ ہونے کی نفی بھی کی گئی ہے اور یہی شرعِ اسلامی کا اصل وحقیقی موقف ہے۔یعنی یہ سنگین جرم پہلے حق نبوت میں ڈاکہ زنی کی بنا پر قابل سزا شرعی حد ہے۔ اس کے بعد اس کی شناعت وشدت کا یہ عالم ہے کہ شاتم کو ارتداد کی طرف لے جاتاہے۔ جن علما نے اس کو سیدنا ابو بکر صدیق کے موقف کی طرح براہِ راست حد اور قابل سزا بتایا ، ان کا موقف کھرا ہے اور جنہوں نے اس کو ارتداد قرار دیا ہے، ان کے موقف میں قدرے گنجائش پائی جاتی ہے۔ پھر وہ اسے محض ارتداد بنا کر، مرتد کی توبہ کا مسئلہ لے آتے یا ذمّی کا معاملہ کھول لیتے ہیں کیونکہ مرتد کی سزا مسلمان کے لئے ہی ہوتی ہے اورذمی پر لاگو نہیں ہوتی۔
واضح رہے کہ شتم رسول کے مسئلہ میں ارتداد سے انکار نہیں بلکہ یہ ارتداد کی بدترین صورت ہے کیونکہ اس میں ارتداد سے قبل ذاتِ گرامیﷺ پر زیادتی بھی ہے۔اس بنا پر ایسے مجرم کا کفر عام ارتداد سے زیادہ بڑا، زیادہ قبیح اور زیادہ شدید ہے، جیساکہ علامہ ابن تیمیہ نے السبّ أعظم من جرم المرتد ، قاضی ابن عابدین نے إن كفره أشنع،علامہ ابن نجیم حنفی نے ’ارتدادِ مغلظ‘اورقاضی عیاض السبّ أقبح الثلاثةکے الفاظ استعمال کرکے اس کی نشاندہی کی ہے اور اسی کو ’ردہ عامہ ‘یا ’ردہ خاصہ‘ سے بھی تعبیر کیا جا رہا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ شتم رسول کو مستقل حد قرار دینا یا بعض احناف کے اسے ارتداد قرار دینے میں باہم مطابقت نکل آتی ہے اوربعد کے فقہاے احناف کی اس صراحت کے ذریعے حنفیہ کے ہاں اس سزا کی توجیہ وتعلیل میں موجودد ظاہری اختلاف بھی رفع ہوجاتا ہے۔
13 ’حسب المفتین‘ کے مصنّف، دسویں صدی کے حنفی عالم قاضی عبد المعالی لکھتے ہیں :
في شفاء القاضي عن أصحابنا وغيرهم من المذاهب الحق أن توبته لم تقبل وقتل بالإجماع
’’قاضی عیاض کی’الشفا‘میں ہمارےحنفی ساتھیوں اور دیگرفقہی مذاہب کا یہ موقف حق بیان ہوا ہے کہ اجماعی طورپر شاتم کی توبہ قبول نہیں کی جائے گی، اور اس کو قتل کیا جائے گا۔‘‘
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
شاتم کی قبولیتِ توبہ کا مسئلہ

یہاں تک ہونےوالی بحث میں ذمی کے لئے نقض عہد کا مسئلہ پیش کیا گیا کہ جو حنفی فقہا اس کو نقض عہد قرار نہیں دیتے ، وہ بھی ثبوتِ جرم کے بعد سزائے قتل کے رفع کے قائل نہیں ہیں اور جو اسے نقض عہد سمجھتے ہیں وہ تو بالا ولیٰ شاتم ذمی کو واجب القتل قرار دیتے ہیں۔ اس کے بعد دوسرا مسئلہ توبہ کی قبولیت وعدم قبولیت کا پیدا ہوتا ہے، اس بارے میں حنفی علما : بزازی، رملی، ابن نجیم اور ابن ہمام ﷭ کا موقف شاتم کی عدمِ قبول توبہ کا ہےجس کی فقہی اساسات بھی گزر چکی ہیں۔
قاضی ابن عابدین شامی نے کہا ہے کہ احناف میں فتاویٰ بزازیہ کے مؤلف شیخ محمد بن شہاب المعروف ابن البزاز(متوفیٰ 827ھ)نے شاتم رسول کی توبہ کے مسئلے میں غلطی کھائی ہے اور اُنہوں نے حنفیوں کا موقف غلط ذکر کردیا ہے، اور اس کے بعد اُن کی اس غلطی پر بعد میں آنے والے علماے احناف نے اسی غلط موقف کو اختیار کرلیا، حالانکہ قاضی شامی کی یہ بات درست نہیں کیونکہ
i. اوّل تو یہ موقف امام ابو حنیفہ کے شاگرد محمد بن حسن شیبانی نے بھی امام صاحب سے روایت کیا ہے،گویا امام محمد سے ہی یہ موقف احناف میں چلا آرہا ہے۔ اور صدرِ اوّل سے ہی احناف میں دو موقف موجود ہیں جیساکہ اس بات کا تذکرہ قاضی شامی نے اپنی کتاب ’العقود الدریہ‘ میں بھی کیا ہے:
أَنَّ مَنْ سَبَّ النَّبِيَّ ﷺ يَكْفُرُ فَإِنْ تَابَ تُقْبَلُ تَوْبَتُهُ وَلَا يُقْتَلُ عِنْدَهُ وَعِنْدَ أَبِي حَنِيفَةَ، خِلَافًا لِمُحَمَّدٍ رَحِمَهُ الله
’’جو بھی نبی کریم کو سبّ وشتم کرے گا، وہ کافر ہوجائے گا ، تاہم اگروہ توبہ کرلے تو امام ابو حنیفہ او رقاضی ابو یوسف کے ہاں اس کی توبہ قابل قبول ہوگی اور اس کو قتل نہیں کیا جائے گا، جبکہ امام محمد بن حسن نے اس موقف سے اختلاف کیا ہے۔‘‘
عدم قبولیت توبہ پر امام محمد کے اس قول سے معلوم ہوتاہے کہ حنفیہ میں یہ اختلاف روزِ اوّل سے چلا آرہا ہے، نہ کہ یہ امام ابن بزاز کی روایت پر ہی موقوف ہے۔
ii. اگر قاضی ابن عابدین کے بقول اس موقف کو ابن بزاز کی غلطی ہی مانا جائے یا اَحناف میں اس موقف کا خالق ابن بزاز(م827ھ) کو ہی سمجھا جائے تو پھرسوال پیدا ہوتا ہے کہ ان سے پانچ صدیاں قبل ابو بکر جصاص حنفی (م370ھ) نے ذمی کے نقض عہد کا موقف کہاں سے اختیار کیا؟ان سے چار صدیاں قبل امام ناطفی (م446ھ)حنفی نے کیسے کہہ دیا کہ توبہ قبول نہیں کی جائے گی۔ایسے ہی ابن بزاز سے کہیں زیادہ معروف ان کے معاصرین امام عینی (م 855ھ) اور ابن ہمام (م 861ھ) کو بھی کیا ضرورت پڑی تھی کہ حنفی موقف خود دیکھنے کی بجائے وہ اپنے ایک معاصر کی رائے پر اکتفا کریں، جبکہ ابن ہما م کا تو لقب ہی احناف کے ہاں ’خاتمہ المحققین‘ ہے ۔ اسی طرح ابن نجیم جنہیں احناف میں ’ابو حنیفہ ثانی‘ کا لقب دیا گیا ہے، اُنہیں کیوں کر یہ عظیم غلطی لگی؟ ظاہر ہے کہ یہ ان کے فہم اور تفقہ دین کی صلاحیت اور علمی مقام پر طعن طرازی ہے جس کا کوئی جواز نہیں ۔
iii. جن حنفی فقہا کے بارے غلطی کا دعویٰ کیا گیا ہے، اُن کی اصل تحریروں کو دیکھا جائے تو اس سے بھی اس الزام کی تائید نہیں ہوتی، کیونکہ اُنہوں نے اس موقف کو یا تو براہِ راست استدلال کی بنا پر اختیار کیا ہے یا صدرِ اول سے چلے آنے والے اختلاف کی بنا پر ... نامور حنفی فقہا مثلاً امام ابن ہمام(م 861ھ)، ابن نجیم (م 970ھ)، علامہ خسرو (م 885ھ)، علامہ تمرتاشی اور شیخ خیر الدین الرملی وغیرہ نے اس موقف کو امام محمد سے لیا ہے۔ اور امام خیر الدین رملی اور امام آلوسی نے زبردست شرعی دلائل کی بنا پراس فقہی موقف کو اختیار کیا ہے اور امام ابن ہمام نے بھی توبہ کی عدم قبولیت کی واضح صراحت کی ہے۔یہ فقہا اس موقف کو امام ابو حنیفہ اور سیدنا ابوبکر کے فرمان کے حوالے سے بیان کرتے ہیں۔الغرض اس باب میں حنفی فقہا کی عظیم اکثریت جمہور علماء اُمت کے ہی ساتھ ہے۔
iv. حنفیہ کے بارے میں ہمارے اس موقف کو یہ بات بھی تقویت دیتی ہے کہ امام ابو حنیفہ کسی صحابی کے قول کے خلاف رائے دینے کے قائل نہیں ۔ جبکہ اس معاملہ میں صحابہ کا اجماع ہے، بالخصوص سیدنا ابوبکر صدیق اور متعدد صحابہ کاشتم رسول پر ذمی کے نقض عہد کے بارے میں صریح فرمان موجود ہے۔
v. احناف کا موقف سیدنا ابوبکر وعمرکی گستاخی کے بارے میں یہ ہے کہ اس کے مرتکب کی توبہ قبول نہیں، جب احناف کا موقف شیخین کے بارےمیں اس قدر واضح ہے تو سید المرسلینﷺ کے بارے میں بھی احناف کا موقف اس قدر پختہ ہی ہونا چاہئے۔ امام ابن نجیم حنفی کتاب السیر کے ’باب الردۃ ‘میں لکھتے ہیں:
كل كافر تاب فتوبته مقبولة في الدنيا والآخرة إلا جماعة: الكافر بسب نبي وبسب الشيخين أو أحدهما
’’ہرکافر کی توبہ دنیا اور آخرت میں قبول ہوسکتی ہے ، مگر ایسا کافر جو نبی کریم ﷺیا شیخین کی گستاخی کرکے کافر ہو تو اس کی توبہ قابل قبول نہیں۔‘‘
ïیہاں یہ واضح رہنا چاہئے کہ ممدوح مضمون نگار حنفیہ کے موقف کی تعبیر کرتے ہوئے ذمّیوں کی بجائے اگر غیرمسلموں کا لفظ استعمال کریں تو اس کو بھی حنفی موقف کی درست ترجمانی نہیں کہا جاسکتا کیونکہ بعض احناف کےموقف میں ذمّیوں کے لئے تو فرق پایا جاتا ہے غیرمسلموں کے لئے نہیں ۔ غیرمسلم یعنی کفار کے لئے فقہائے احناف کا موقف بڑا واضح ہے جو اِن الفاظ میں صاحب ِ’درمختار‘ علامہ حصکفی حنفی نے بیان کیا ہے:
و (الكافر بسب نبي) من الأنبياء فإنه يقتل حدًّا ولا تقبل توبته مطلقًا ولو سبّ الله تعالى قبلت لأنه حق الله تعالى والأول حق عبد لا يزول بالتوبة ومن شك في عذابه وكفره كفر
’’جہاں تک شاتم نبوت یا کسی اور نبی کے گستاخ کافر کا تعلق ہے تو اس کو بطور حد قتل کیا جائے گا، اور مطلقاً اس کی توبہ قبول نہیں کی جائے گی۔ تاہم اگر وہ اللہ تعالیٰ کی شان میں گستاخی کرے تو اس کی توبہ مقبول ہوسکتی ہے کیونکہ یہ صرف اللہ تعالیٰ کا حق ہے جبکہ پہلے جرم میں بندے کا حق بھی شامل ہے جو توبہ سے زائل نہیں ہوتا ۔ جو شخص کافر کی اس سزا اور اسکے کفر میں شک کرے تو وہ بھی کافر ہوجاتا ہے۔‘‘
قاضی ابن عابدین شامی بھی اس کی شرح میں لکھتے ہیں:
والْكَافِرُ بِسَبِّ نَبِيٍّ مِنْ الْأَنْبِيَاءِ فَإِنَّهُ يُقْتَلُ حَدًّاوَلَاتُقْبَلُ تَوْبَتُهُ مُطْلَقًا
’’جہاں تک کسی کافر شاتم رسول کا معاملہ ہے تو اس کو حد کے طورپر قتل کیا جائے گا اور اس کی توبہ مطلقاً قبول نہیں کی جائے گی۔‘‘
ïیہاں یہ بھی یاد رہنا چاہئے کہ اگر بعض حنفی علما کے ذمیوں کے بارے میں موقف کو اختیار کیا جائے تو اس سے مسلم ممالک کی موجودہ صورتحال میں فقہی طورپر کوئی فرق واقع نہیں ہوتا کیونکہ فی زمانہ پاکستان میں غیر مسلم حضرات اپنے آپ کو ذمّی نہیں مانتے، وہ اس حیثیت کو قبول کرنے کی بجائے مساوی مقام کے دعویدار ہیں، اس بنا پر ان میں سے کوئی ایک بھی ذمہ ادا کرنے کے سوال سے ہی بھڑک اٹھتا ہے ، جیسا کہ یہ بات واضح ہے۔ ان پرشرعاً کافر کے احکامات کا ہی اطلاق ہوگا جس کی سزا آپ اوپر ملاحظہ کرچکے ہیں۔
نوٹ: مذکورہ بالا فقہی اقوال میں استدلال کے لئے جب بعض عبارتوں کو پیش کیا گیاتو ان میں بعض دوسرے جزوی رجحانات بھی نظر آتے ہیں جس سے قاری کو تشویش پیدا ہوتی ہے۔ دراصل کتاب وسنت ، جو کلام ومراد الٰہی ہیں، میں یہ جزوی تعارض اس بنا پر آخرکار رفع ہوجاتے ہیں کہ وہ اصل شریعت ہیں اور وحی الٰہی پر مبنی ہیں، جبکہ فاضل اہل علم کی آرا کو کسی ایک مسئلہ پر بالکل یکجان کرکے پیش کرنا بعض اوقات ممکن نہیں ہوتا کیونکہ مختلف اشخاص سے صادر ہونے کی بنا پر اُن کے رجحانات اور توجیہات میں حقیقی فرق موجود ہوتا ہے۔ ہرفقیہ اپنے طور پر کسی مسئلہ کی توجیہ کرتا اور اس میں ترجیح قائم کرتا ہے، اس لئے کتاب وسنت کے متون ومعانی جیسا کلّی فکری اتحادفقہی عبارتوں میں تلاش کرنا مشکل ہے۔
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
کیا توہین رسالت کی سزا کی اساس محاربہ ہے؟

جملہ محدثین کرام،فقہاے عظام اور مضمون نگار کے موقف میں جو بنیادی فرق ہے، وہ یہ ہے کہ اُمت ِمسلمہ کے ہاں مسلمان شاتم رسول کی سزا کے قتل ہونے میں کوئی اختلاف نہیں ہے اور اس کی یہ سزا بالاجماع ہے، اس میں کمی بیشی اور تکرار واظہار کا کوئی فرق نہیں ہے۔ تاہم ذمی کے بارے میں بعض حنفی فقہا نے یہ تفصیل ضرور پیش کی ہے کہ تکرار واظہار کی بنا پر سیاستاً ومصلحتاً اس کی سزا قتل ہوگی ، لیکن اس موقف میں آگے بڑی تفصیل ہے۔
جبکہ دوسری طرف مضمون نگار سرے سے اس جرم کی مقررہ سزا ہی نہیں مانتے بلکہ وہ موقف جو ذمی حضرات کے بارے میں بعض حنفی فقہا کی طرف منسوب ہے، اس کو اس مسئلہ میں اصل قرار دیتے ہوئے، اسی مسئلہ کو مسلمان وغیر مسلم تمام کے لئے یکساں سمجھتے ہیں۔ اس بنا پر مضمون نگار کا یہ موقف اُمت ِمسلمہ کے اجماع سے صریح انکار کے مترادف ہے۔اس موقف کو اختیار کرنے کی وجہ احادیث ِرسول اور اجماع صحابہ کی دلالت کو نظرانداز کرتے ہوئے، ان کی یہ تاویل کرنا ہے کہ احادیث میں یہ سزائیں تکرار جرم یا توہین رسالت کے ساتھ مزید جرائم مل جانے کی بنا پر یا جنگی سیاق میں دی گئی ہیں ، ظاہر ہے کہ احادیث کے بارے میں ان کی یہ تاویل قطعاً درست نہیں ۔
الغرض بعض حنفی علما نے ذمّیوں کے لئے علیحدہ مسئلہ بیان کیا ہے لیکن موصوف نے اس فرق کو ذمیوں کے لئے مخصوص رہنے کی بجائے اس کو اصل مسئلہ کے تعین میں اساس کی حیثیت دے لی ہے اور ذمیوں کا موقف مسلمانوں کے ساتھ خلط ملط کرکے،اضطراب وانتشار دکھا کر پورے مسئلہ کو ہی تبدیل کردینے کی کوشش کی ہے۔
جب ان کے ہاں ایک استنثائی موقف، اصل مرکزی مسئلہ کی حیثیت رکھتا ہے تو اس نتیجہ تک پہنچنے کے لئے احادیث کی دلالت ختم کرنا اور ان کی توجیہ وتاویل کئے بنا کوئی چارہ نہیں تھا۔چنانچہ ان کے نزدیک شتم رسول بذاتِ خود کوئی جرم نہیں بلکہ اس جرم کی سزا معاشرے میں انتشار وافتراق اور سماجی مصلحت کے پیش نظر ہی دی جائے ۔ اس لئے اُنہو ں نے اس کو محاربہ کی قبیل سے قرار دیا ہے جو دراصل فساد فی الارض کی روک تھام کے لئے ہوتا ہے۔
اس کو محاربہ قرار دینے کا ایک فائدہ تو یہ ہوا کہ اس طرح یہ جرم حدود سے نکل گیا کیونکہ محاربہ میں جرم کی نوعیت وکیفیت کے پیش نظر ایک سے زائدسزائیں موجود ہیں اور ایک مقررہ سزا نہ ہونے کی بنا پر بعض فقہا کے نزدیک محاربہ حد کے ذیل میں نہیں آتا۔ دوسرا فائدہ یہ ہوا کہ محاربہ کی سزا کے ضمن میں محض جلاوطنی جیسی بے ضرر سزا بھی شامل ہے، جسے ان کے الفاظ میں ’شہری حقوق سے محرومی‘ بھی قرار دیا جاسکتا ہے۔ چنانچہ محاربہ کی صورت میں آسان سزائیں بھی ممکن ہیں ۔ تیسرا فائدہ یہ ہوا کہ محاربہ کے تحت آنے کی بنا پر اس میں قرآنِ کریم سے توبہ کی گنجائش میسر آگئی۔ حالانکہ یاد رہنا چاہئے کہ محاربہ میں توبہ کی گنجائش قرآنی الفاظ کی رو سے مجرم کے عدالتی گرفت میں آنے سے پہلے پہل ہے، تاہم اس کے باوجود وہ اہانت ِرسول کو محاربہ قرار دے کر، بعد از گرفت بھی اس کو توبہ کا موقع دینے کی تجویز دے رہے ہیں جس کا کوئی جواز نہیں بنتا۔
1 آغاز میں مذکور احادیث ِرسول ، اجماعِ صحابہ اور علماے امت کی متعدد تصریحات میں کہیں بھی اس جرم کی سزا کے لئے اُصولی طورتکرار وفساد کی شرط (ماسوائے ذمی) عائد نہیں کی گئی اور یہی بات سیدنا ابوبکر کے مذکورہ اُصولی واقعہ سے ثابت ہوتی ہے۔
2 احادیث ِرسول میں توہین رسالت کے ضمن میں آنے والے واقعات میں ، سزا دیتے وقت کبھی کسی حدیث میں محاربہ کا حوالہ نہیں دیا گیا۔ نہ ہی پیچھے مذکور اقوال میں اسے محاربہ قرار دیا گیا ہے۔ محاربہ کی سزائیں تو ٹکڑے کردیا جانا یا سولی دیا جانا، یا مخالف سمت سے ہاتھ پاؤں کاٹ دینا یا جلاوطن کرنا ہیں۔ ظاہر ہے کہ توہین رسالت کے درجن سے زائد واقعات میں کہیں بھی ان میں سے کوئی سزا نہیں دی گئی بلکہ اُن کو موت کے گھاٹ اُتارا گیا ہے۔ اس لئے اس کو فساد فی الارض میں شامل کرکے محاربہ کا دعوٰی کرنا بالکل فضول سی بات ہے۔
3 اس ضمن میں ایک مشہور واقعہ سیدنا عمر کا بھی ہے جس میں اُنہوں نے نبی ﷺ کے فیصلہ کو تسلیم نہ کرنے والے منافق کی گستاخی کی سزا ، اس کو قتل کرکے دی تھی:
لا تعجلا حتى أخرج إليكما فدخل فاشتمل على السيف وخرج فقتل المنافق ثم قال: هٰكذا أقضي بين من لم يرض بقضاء رسول الله. فأتى جبريل رسول الله ﷺ فقال: إن عمر قد قتل الرجل وفرق الله بين الحق والباطل على لسان عمر. فسُمِّي الفاروق
’’میرے آنے سے قبل نکل مت جانا۔ پھر حضرت عمر تلوار لے کر اور منافق کو قتل کردیا، پھر فرمایا: اس کے بارے میرا فیصلہ یہ ہے جو رسول اللہ کے فیصلے کو تسلیم نہیں کرتا۔ پھر حضرت جبریل نبی کریم ﷺکے پاس آئے اور انہیں بتایا کہ عمر نے اس کو قتل کردیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے عمر کی زبان سےحق اور باطل کا فیصلہ کردیا ہے۔ اس بنا پر عمر کا نام ’فاروق‘ رکھ دیا گیا۔‘‘
یہ واقعہ ابن لہیعہ کے ضعیف طریق کے علاوہ ابو مغیرہ اور شعیب بن شعیب کے صحیح طریق سے بھی مروی ہے ، اس بنا پر حافظ ابن کثیر اور امام احمد بن حنبل وغیرہ نے اسے قابل اعتبار قرار دیا ہے، علامہ ابن تیمیہ  اپنی کتاب میں اس واقعہ کے تذکرہ کے بعد لکھتے ہیں:
و هٰذا المرسل له شاهد من وجه آخر يصلح للاعتبار
’’دیگر شواہد کی بنا پر اس مرسل روایت پر اعتبار کرنا درست ہے۔‘‘
دیکھئے کہ اس واقعہ میں بھی شان نبوت میں گستاخی کی سزا کے لئے تکرار کی کوئی شرط پیش نہیں کی گئی اور اس سے مزعومہ موقف کی بخوبی تردید ہوتی ہے۔
4 پیچھے سیدنا ابو بکر وعمر کی احادیث گزر چکی ہیں، اس طرح صحابہ کرام کے بہت سے اُصولی فرامین بھی موجود ہیں، جن کی استنادی حیثیت معیاری نہیں، تاہم ان سے شریعت کے رجحان کا علم ضرور ہوتا ہے:
i. حضرت عمر نے فرمایا:
أُتي عمر برجل سبّ النبي ﷺ فقتله، ثم قال عمر: من سبّ الله أو سبّ أحدًا من الأنبياء فاقتلوه
’’حضرت عمر بن خطاب کے پاس ایک شخص کو لایا گیا جس نے شانِ رسالتﷺ میں گستاخی کی تھی۔ تو حضرت عمر نے فرمایا کہ جو شخص اللہ تعالیٰ اور کسی بھی نبی کی شان میں گستاخی کرے تو اس کو قتل کردیا جائے۔‘‘
ii. سیدنا علی بن ابی طالب سے مروی ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا:
«من سبّ نبيا قُتل ومن سبّ أصحابه جُلِد»
’’جس نے کسی نبی کو گالی دی تو اسے قتل کیا جائے گا اور جس نے آپ کے صحابہ کو گالی دی تو اسے کوڑے لگائے جائیں گے۔‘‘
iii. سیدنا علی بن ابی طالب کا فرما ن ہے :
’’جس نے رسول اللہﷺ کی توہین کی ، اس کی گردن مار دی جائے۔‘‘
iv. دورِ عمر کا ایک ایمان افروز واقعہ یوں ہے :
أن غلمانا من أهل البحرين خرجوا يلعبون بالصوالجة، وأسقف البحرين قاعد فوقعت الكرة على صدره فأخذها، فجعلوا يطلبونها منه فأبى، فقال غلامهم: سألتك بحق محمد ﷺ إلا رددتها علينا، فأبى -لعنه الله- وسب رسول الله، فأقبلوا عليه بصواليجهم، فما زالوا يخبطونه حتى مات، فرفع ذلك إلى عمر بن الخطاب، فوالله ما فرح بفتح ولا غنيمة كفرحه بقتل الغلمان لذلك الأسقف، وقال: الآن عز الإسلام، إن أطفالا صغارًا شُتم نبيهم، فغضبوا له وانتصروا
’’اہالیانِ بحرین کے بچے باہر نکل کر صوالجہ (ہاکی جیسا ) کھیل رہے تھے اور بحرین کا بڑا پادری وہاں بیٹھا ہواتھا۔ اچانک گینداس کے سینے پر جالگا تو اس نے اسےپکڑ لیا، بچے اس سے گیند مانگنے لگے، اس نے دینے سے انکار کردیا اور نبی کریم کو بھی گالی دی۔ سارے بچے مل کر اپنی کھیل کی لاٹھیوں کے ساتھ اس پر پل پڑے اور اس کو اس وقت زدو کوب کرتے رہے حتیٰ کہ وہ مر گیا۔ یہ قضیہ عمر بن خطاب کی طرف بھیجا گیا تو بخدا آپ فتح یا مال غنیمت سے اس قدر خوش نہیں ہوئے جتنے بچوں کے اس بشپ کو قتل کرنے پر مسرور ہوئے۔ اور آپ نے کہا کہ آج اللہ نے اسلام کو عزت دے دی ہے کہ بچوں نے اپنے نبی کی گستاخی پرغیض وغضب کا مظاہرہ کیا اور اُنہوں نے انتقام لے لیا۔‘‘
v. ایسے ہی اُصولی فرامین سیدنا ابن عباس، سیدنا ابن عمر اور عمر بن عبد العزیز وغیرہ سے بھی مروی ہیں، جن کا تذکرہ باعث ِطوالت ہوگا۔
e یہاں یہ واضح رہنا چاہئے کہ شتم رسول یا دیگر جرائم کے ساتھ محاربہ کی سزا بھی بعض اوقات شامل ہوسکتی ہے جبکہ جرم میں سنگینی اور شدت وتکرار اس قدر زیادہ ہو کہ فساد فی الارض واقع ہو لیکن شتم رسول کی ہرصورت کو محاربہ قرار دینا یا محاربہ سے کمتر صورتوں میں شتم رسول کی سزا ہی رفع کردینا بہرحال غلطی ہے۔
مذکورہ بالا واضح دلائل اور جلیل القدر فقہا وعلما کے صریح فرامین کو نظرانداز کرتے ہوئے مضمون نگار لکھتے ہیں کہ
’’یہ بات تو سبھی فقہی مکاتب ِفکر کے ہاں متفق علیہ ہے کہ شتم رسول کی سزا کا مسئلہ بنیادی طورپر ایک اجتہادی مسئلہ ہے اور قرآن وسنت میں اس جرم پر ’حد‘ کے طریقے پر کوئی مخصوص سزا مقرر نہیں کی گئی۔ ‘‘
یہاں یہ بھی یاد رہنا چاہئے کہ مضمون نگار اپنے موقف کی تائید کے لئے حنفی فقہ کو پیش کرتے ہیں، جبکہ نامور حنفی فقہا کا موقف تو ایک طرف رہا، موصوف تو امتِ اسلامیہ کے اجماعی موقف کے بھی قائل نہیں،جیسا کہ اس قبل حدود قوانین کے موضوع پر اپنی تصنیف کے ردّ میں جامعہ مدنیہ لاہور کے مفتی ڈاکٹر عبد الواحد ﷾ کا جواب الجوب دیتے ہوئے آپ صراحت کے ساتھ لکھ چکے ہیں :
’’یہ حقیقت اپنی جگہ بالکل واضح ہے کہ علمی وفقہی تعبیرات کے دائرے میں اجماع کا تصور ایک علمی افسانہ ہے جس کا حقیقت کے ساتھ دور کا بھی کوئی تعلق نہیں۔‘‘
اجماع جیسی مسلّمہ دلیل شرعی کے بارے میں اس موقف کے بعد اُنہیں فقہ حنفی کا حوالہ دے کر، اس کی بنا پر اپنے موقف کو قائم کرنے کا تاثر دینے سے اخلاقًا گریز کرنا چاہئے۔
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
مضمون نگار کی غامدیّت نوازی

اس بنا پر حنفی موقف کی حقیقت جو کچھ بھی ہو، اسے صرف مطلب براری کے لئے ہی پیش کرنا مقصود ہے۔مضمون نگار کا موقف اس ضمن میں وہی ہے جو جاوید احمد غامدی نے اپنے متعدد مضامین میں بڑی صراحت کے ساتھ بیان کردیا ہے۔ جاوید غامدی کے یہ مضامین ماہنامہ اشراق کے مئی ،جون اور جولائی 2011ء کے تین شماروں میں شائع ہو چکے ہیں۔ جو صاحب ِعلم بھی ان مضامین کو پڑھیں گے تو وہ ممدوح مضمون نگار کی تحقیق اور ان مضامین میں پائی جانے والی مماثلت پر حیران ہوجائیں گے ۔
1 اختصار کے پیش نظر ہم صرف ان کے ایک دو اقتباسات پر اکتفا کرتے ہیں :
’’توہین رسالت کی سزا کا جو قانون ریاستِ پاکستان میں نافذ ہے، اس کا کوئی ماخذ قرآن وحدیث میں تلاش نہیں کیا جاسکتا...
آیت میں یحاربون کا لفظ تقاضا کرتا ہے کہ آیت میں جو سزائیں بیان ہوئی ہیں، وہ اسی صورت میں دی جائیں جب مجرم سرکشی کے ساتھ توہین پر اصرار کرے؛ فساد انگیزی پر اُتر آئے؛ دعوت وتبلیغ ،تلقین ونصیحت اور بار بار کی تنبیہ کے باوجود باز نہ آئے بلکہ مقابلے کے لئے کھڑا ہوجائے۔ آدمی الزام سے انکار کرے یا اپنی بات کی وضاحت کردے اور اس پر اصرار نہ کرے تو لفظ کے کسی مفہوم میں بھی اسے محاربہ یا فساد قرار نہیں دیا جاسکتا۔
ریاست پاکستان میں احناف کی اکثریت ہے لیکن باعث ِتعجب ہے کہ قانون سازی کے موقع پر ان کی رائے یکسر نظر انداز کر دی گئی ہے۔چنانچہ یہ حقیقت ہے کہ موجودہ قانون قرآن کے بھی خلاف ہے، حدیث کے بھی خلاف ہے اور فقہاے احناف کی رائے کے بھی خلاف ہے، اسے لازما ًتبدیل ہونا چاہئے۔یہ پوری دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کی بدنامی کا سبب بن رہا ہے۔‘‘
2 غامدی صاحب کے موقف کی نزاکتیں ان کی زیر نظر تحریر میں ملاحظہ فرمائیں:
’’فقہا یہ کہتے ہیں کہ مسلمان اگر توہین رسالت کا ارتکاب کرے گا تو مرتد ہوجائے گا، اور مرتد کی سزا قتل ہے... فقہا کے نزدیک سزا کی بنیاد یہی ہے لیکن قرآن وحدیث پر تدبر سے واضح ہوجاتا ہے کہ دورِ صحابہ کے بعد یہ بنیاد ہمیشہ کے لئے ختم ہوچکی ہے۔ ہم نے اپنی کتابوں میزان او ربرہان میں پوری طرح مبرہن کردیا کہ ارتداد کی سزا انہی لوگوں کے ساتھ خاص تھی جن پر رسول اللہﷺ نے براہِ راست اتمام حجت کیا اور آپ پر ایمان لانےکے بعد وہ کفر کی طرف پلٹ گئے... منکرین حق کے خلاف جنگ اور اس کے نتیجے میں مفتوحین پر جزیہ عائد کرکے انہیں محکوم اور زیر دست بنا کر رکھنے کا حق بھی ہمیشہ کے لئے ختم ہوگیا۔ قیامت تک کوئی شخص اب نہ دنیا کی کسی قوم پر اس مقصد سے حملہ کرسکتا ہے او رنہ کسی مفتوح کو محکوم بنا کر اس پر جزیہ عائد کرنے کی جسارت کرسکتا ہے۔مسلمان ریاستوں کے غیرمسلم شہری نہ اصلاً مباح الدم ہیں ، نہ ذمی ہیں اور نہ کسی امان کے تحت رہ رہے ہیں جس کے اُٹھ جانے کی صورت میں ان کے بارے میں قتل کا حکم دیا جائے۔ یہ سب چیزیں قصہ ماضی ہیں۔‘‘
جاوید غامدی کی ان تحریروں میں کیا کیا گوہر افشانیاں کی گئی ہیں اور دونوں موقفوں میں کیا کیا مماثلتیں نکلتی ہیں، اس کا جائزہ ہم ذی بصیرت قارئین کی ذہانت کے سپرد کرتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں۔
3 مضمون نگار نے شتم رسول کے مسئلے میں سزاے موت سے انکار کیا ہے، کیوں؟ اس کی اساس غامدیت کے اُصولوں میں یوں بیان ہوئی ہے :
’’موت کی سزا قرآن کی رو سے قتل اور فساد فی الارض کے سوا کسی جرم میں نہیں دی جاسکتی۔‘‘
4 ایک اور مقام پر ارتداد کی سزا کا انکار کرتے ہوئے جناب غامدی لکھتے ہیں:
’’ہمارے فقہا کی غلطی یہ ہے کہ انہوں نے قرآن وسنت کے باہمی ربط سے اس حدیث کا مدعا سمجھنے کی بجائے اسے عام ٹھہرا کرہر مرتد کی سزا موت قرار دی اور اس طرح اسلام کے حدود وتعزیرات میں ایک ایسی سزا کا اضافہ کردیا جس کا وجود ہی شریعت اسلامیہ میں ثابت نہیں ہے۔‘‘
5 جہاں تک مضمون نگار کی تجویز کردہ اس سزا کا تعلق ہے کہ ’’شاتم رسول کو شہری حقوق سے محروم کردیا جائے۔‘‘ تو یہ سزا بھی فرقہ غامدیہ کے استاذ امام مولانا امین احسن اصلاحی کی ہی تجویز کردہ ہے۔ اس سے بھی موصوف کے فکری ماخذوں کا پتہ چلتا ہے، مولانا اپنی تفسیر میں آیت ﴿وَمَنْ يَّرْتَدِدْ مِنْكُمْ عَنْ دِيْنِه﴾ کی تشریح میں لکھتے ہیں :
’’ہمارے نزدیک اس کا جواب یہ ہے کہ جو شخص مرتد ہوجاتا ہے، وہ اسلامی ریاست میں جملہ شہری حقوق سے محروم ہوجاتا ہے۔‘‘
6 ماضی میں بھی مضمون نگار کے اکثر مضامین مجلّہ اشراق کی زینت بنتے رہے ہیں، بعد ازاں وہ مجلہ الشریعہ میں شائع ہوئے ہیں اور توہین رسالت کا حالیہ مسئلہ بھی مئی جون جولائی کے جن تین مہینوں میں ماہنامہ اشراق میں بحث مباحثہ کا موضوع بنایا گیا ہے، عین مارچ ، اپریل اور جون 2011ء کے مہینوں میں مجلہ الشریعہ نے بھی اس پر چھ عدد مضامین شائع کئے ہیں۔ دونوں مجلات میں ایام کی یہ مناسبت بھی مشترکہ اہداف کی غمازی کررہی ہے، بالخصوص جاوید غامدی نے اپنی تحریر کے آخر میں علماے احناف کو غیرت دلانے کی جو کوشش کی ہے، اس کے تناظر میں الشریعہ کے جون کے شمارے میں ان مضامین کی معنویت بالکل واضح ہے۔دلچسپ امر یہ ہے کہ فقہ حنفی میں تو ذمی کے حوالے سے اُمت ِمسلمہ سے معمولی اختلاف پایا جاتا ہے جبکہ غامدی حلقہ نہ تو ذمی کا قائل ہے اور نہ ارتداد کا، نہ اجماع کا او رنہ ہی رجم کا،اس کے باوجود حنفی موقف میں ذمی کے بحث کو اُچھالنا صرف اضطراب کو پیدا کرنے کے لئے ہے تاکہ اس کے بعد تاویل وتوجیہ کا راستہ کھولا جاسکے۔
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
ان فکری رجحانات کی تصدیق

1 مضمون نگار کے یہ فکری رجحانات چھپے ہوئے نہیں بلکہ مجلہ ’اجتہاد‘ اسلام آباد کے شمارہ نمبر5 میں شائع شدہ ان کے مضمون پر جامعہ ابوہریرہ کے مہتمم اور مدیر ماہنامہ القاسم مولانا عبد القیوم حقانی نے اپنی فکر مندی کا اظہار ان الفاظ میں کیا ہے:
’’اب کے بار جو مقالہ پڑھا تو رونگٹے کھڑے ہوگئے اور یقین نہیں آرہا تھا کہ کیا واقعتاً بھی عمار خاں ناصر جیسے ذی علم ، ذی استعداد اور صاحب ِفضل وکمال ایسی بات لکھ سکتے ہیں۔ اگر یہ بات کسی پرویزی،کسی غامدی، کسی قادیانی ، کسی بے دین کالم نویس نے لکھی ہوتی تو کبھی کڑھن نہ ہوتی اور نہ اس سلسلہ میں کچھ لکھنے کی ہمت ہوتی کہ برتن سے وہی ٹپکتا ہے جو اس کے اندرہوتا ہے۔ میرے خیال میں آں عزیز کی تحریری کاوشوں سے ملحدوں، دہریوں اور نفاذ اسلام کی جدوجہد کے خلاف کام کرنے والے دین دشمنوں بالخصوص قادیانیوں کی مذموم تحریکات کو تقویت ملتی بلکہ ان کی ترجمانی ہوتی ہے۔‘‘
2 واضح رہے کہ جناب مضمون نگار کا ایسا ہی تعارف ان کےوالد ِگرامی مولانا زاہد الراشدی اس سے قبل ان الفاظ میں کرا چکے ہیں کہ
’’جاوید احمد غامدی سے ان کا شاگردی کا تعلق ہے ، اُن کے ادارے سے ان کی جزوی وابستگی ہے اور ان کے بعض افکار سے وہ متاثر بھی ہے۔‘‘
ان کے اس تعارف پر حنفی؍ دیوبندی حلقے میں بہت لے دی ہوچکی ہے اور موصوف نے ابھی تک کوئی تشفی بخش جواب یا پیش قدمی نہیں کی۔ جو صاحب اس سلسلہ مضامین سے مزید واقفیت حاصل کرنے کے متمنی ہوں، وہ نوشہر ہ کے ماہنامہ القاسم کے شمارہ جون، جولائی اور اگست 2009ء میں چھپنے والی مراسلت کا مطالعہ کریں۔
3 نیز اس سلسلے میں وفاق المدارس العربیہ کے باضابطہ ترجمان ماہنامہ ’وفاق المدارس‘ ملتان 2009ء میں ان کے رجحانات پر شائع ہونے والا مضمون بھی بصیرت افروز ہے۔
4 توہین رسالت کے امتناع کے قانون پر مضمون نگار کا یہ موقف نیا نہیں بلکہ وہ ماضی میں بھی اس قانون پر اپنے بے اعتمادی کا اظہار ان الفاظ میں کرچکے ہیں:
’’اس کےعلاوہ عملاً جن قوانین مثلاً قادیانیوں کے خلاف امتناعی قوانین یا توہین رسالت ﷺ کی سزا پر عمل درآمد پر اصرار کیا گیا، ان کے پس منظر میں زیادہ ترعوامی سطح پر پائے جانے والے جذبات کارفرماتھے جبکہ حقیقی معاشرتی اصلاح کا پہلو اُن میں نمایاں نہ تھا۔‘‘
مذکورہ بالا معروضات سے یہ بات ظاہر ہوجاتی ہے کہ مجلہ الشریعہ میں حنفی موقف کی تحقیق کے نام پر جو مضامین شائع کئے گئے ہیں اور اس کے بعد مدیر مجلہ نے جو ترامیم تجویز کی ہیں، ان کا تعلق فقہ حنفی کی بجائے جناب جاوید احمد غامدی کےافکار سے ہے۔ فقہاے حنفیہ کا موقف اس باب میں بالکل واضح ہے کہ وہ توہین رسالت کی سزاے قتل ہونے کے قائل وداعی ہیں اور شریعت ِاسلامیہ میں اس کی مقررہ سزا کے معترف ہیں۔ حنفی علما نے بھی اس مسئلہ کے بارے میں اُمت کے اجماعی موقف کو ہی اختیار کیا ہے۔ اُنہوں نے سزاے موت کا انکار کرتے ہوئے اس جرم کو محاربہ کے تحت لانے کا موقف بالکل نہیں اپنایا۔ جبکہ مضمون نگار فقہاے اُمت کے برعکس اس کو اس بنا پر حد قرار نہیں دیتے کیونکہ وہ غامدی صاحب کی طرح حد ارتداد کے اس دور میں ناقابل عمل ہونے کے قائل ہیں، اسی بناپر اُنہیں کتاب وسنت میں اس کی کوئی اساس نظر نہیں آتی اور اس کی کوئی حد دکھائی دینے کی بجائے محض محاربہ کی سزا ہی نظر آتی ہے۔ حنفیت کے نام پر جاوید احمد غامدی کی یہ ہم نوائی اور ان کے ملحدانہ افکار کے لئے حنفیت سے دلائل نکال کر کے پیش کرنا انتہائی افسوس ناک ہے۔ اگر علماے احناف میں سے بعض کا موقف قدرے مختلف بھی ہے تو اس کی توجیہ وتحلیل اور مقصد وہدف اس سے بالکل مختلف ہے جو غامدی پیش نظر رکھے ہوئے ہے۔ ہمیں اُمید ِواثق ہے کہ بعض ظاہر ی یا جزوی اشتراکات سے بالغ نظر علماے احناف قطعاً مغالطہ نہیں کھائیں گے بلکہ مقصد ونتیجہ پر ہی نظر رکھیں گے۔
آخر میں مضمون نگار سے ہمارا سوال ہے کہ
1 اگر توہین رسالت کی سزا ے قتل شریعت ِاسلامیہ میں مشہور و مقرر ہے
2 اگر قرآن وحدیث، آثارِ صحابہ ، اجماع وقیاس اور فقہاے عظام کی تصریحات سے یہی بات ثابت ہوتی ہے
3 اگر فقہ حنفی میں پایا جانے والا اختلاف بھی ذمی کے بارے میں ہی ہے، جبکہ ذمیوں کا پاکستان میں کوئی وجود نہیں ہے
4 اگر صدرِ اوّل سے آج تک اُمت اس سزا کے بارے میں متحد ومتفق چلی آرہی ہے
5 محاربہ کو کبھی کسی نے اس کی جرم کی اساس کے طورپر پیش نہیں کیا اور کسی نے سزاے موت کو آپ کی طرح اس جرم کی آخری حد کے طورپر ’گوارا ‘نہیں کیا
6 اُمت ِاسلامیہ ارتداد کی سزا کو بھی مانتی ہے اور اجماع کی حجیت کو بھی
توپھر اس امت ِمحمدیہ کے سامنے وہ کس بنا پر اِن ترامیم کو تجویز کررہے ہیں جس سے مذکورہ بالا سب باتوں کی نفی ہوتی ہے۔ کیا اس طرح وہ اپنے آپ کو مغالطہ دے رہے ہیں ، یا اُمت کے باشعور ، صاحب ِایمان اور مسند علم کے حاملین ووارثین کو!؟
علماے اسلام کو چاہئے کہ پیش کی جانے والی ترامیم کی نوعیت اور رجحان کو پیش نظر رکھتے ہوئے اُمت ِاسلامیہ کے اجماعی موقف کے بارے میں کسی غلط فہمی کا شکار نہ ہوں۔جو قانون 25 برس قبل پاکستان کے تمام علماے کرام کے اتفاق واتحاد کے ساتھ توہین رسالت کے امتناع کے لئے بنایا گیا تھا، وہ کتاب وسنت اور فقہاے اُمت کی موقف کی عین ترجمانی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی حفاظت اور اس پر عمل درآمد کرانے کی توفیق مرحمت فرمائے اور ناموسِ رسالت کے تحفظ کے لئے اپنی خدمات پیش کرنے کی ہمت دے ۔آمین!
 
Top