احناف کے ہاں ذمّی شاتم رسول کی سزاے قتل
حنفیہ کے ہاں شاتم رسول کا واجب القتل ہونا مسلمان مجرم کی حد تک تو اتفاقی ہے جس کی صراحت مذکورہ بالا عبارتوں کے علاوہ اجماعِ امت کی درجنوں تصریحات سے بھی ہورہی ہے جن میں احناف کی حد تک اجماع کا محل مسلم شاتم کی سزاے قتل تک تصریح شدہ ہے۔
تاہم اُن میں یہ اختلاف موجود ہے کہ بعض احناف کے نزدیک قتل کی یہ سزا ذمّیوں (دارالاسلام میں امان یافتہ غیرمسلم)کو شرعاً نہیں دی جائے گی، بلکہ سیاستاً( مصلحتاً) دی جائے گی۔ لیکن اس سلسلے میں بھی اس جرم کی اساس حنفیہ میں محاربہ وغیرہ کو قرار نہیں دیا گیا۔
1 اس مسئلہ کی وضاحت مولانا مفتی رفیع عثمانی کے قلم سے ملاحظہ فرمائیے:
’’ [جہاں تک ذمّی کا تعلق ہے تو] امام مالک ، اہل مدینہ، امام احمد بن حنبل، فقہاے حدیث، خود امام شافعی کے نزدیک ذمّی کو بھی مسلمان کی طرح توہین رسالت کی وجہ سے قتل کیا جائے گا۔ امام شافعی کے اصحاب کے اس میں مختلف اقوال ہیں۔ جہاں تک امام ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب کا مذہب ہے تو وہ یہ کہ توہین رسالت کا مرتکب اگر ذمّی ہے تو پہلی دفعہ اس کو قتل نہیں کیا جائے گا، بلکہ امام اس پر مناسب تعزیر جاری کرے گا،البتہ اگر وہ جرم کا ارتکاب مکرّر کرے، تو اس صورت میں اس کو قتل کیا جائے گا۔‘‘
2 ذمی کے بارے احناف کا موقف ، امام طحاوی کی زبانی ،علامہ ابن تیمیہ نے یوں بیان کیا ہے، جسے نامور حنفی فقیہ قاضی ابن عابدین شامی نے بھی ذکر کیا ہے :
وأما أبو حنيفة وأصحابه فقالوا: لا ينتقض العهد بالسبّ، ولا يقتل الذمي بذلك، لكن يعزر على إظهار ذلك... وحكاه الطحاوي عن الثوري
’’امام ابو حنیفہ اور ان کے شاگردوں کا کہنا ہے کہ ذمی کا عہد نبی ﷺکو گالی دینے سے نہیں ٹوٹتا اور اس بنا پر ذمی کو قتل نہیں کیا جائے گا۔ تاہم اس کی سزااس کو دی جائے گی ....اور یہی موقف طحاوی نے ثوری سے بھی نقل کیا ہے۔‘‘
قاضی ابن عابدین شامی ذمّی کو قتل کرنے کا جواز پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
وهو يدلّ علىٰ جواز قتله زجرًا لغيره إذ يجوز الترقي في التعزير إلىٰ القتل
’’اور یہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ دوسروں کو ڈرانے کے لئے اس کو قتل کرنا جائز ہے ، اس لئے کہ تعزیر قتل تک ہوسکتی ہے۔‘‘
3 علماے احناف کا ذمی کے بارے میں موقف یہ ہوا کہ اس کو شرعاً قتل نہیں کیا جائے گا، بلکہ سیاستاً(مصلحت ِعامہ یا حاکم کے اختیار) کے طور پر اس کو قتل کیا جائے گا۔یہ موقف اختیار کرنے کی وجہ یہ ہے کہ بعض حنفی علما کے نزدیک توہین رسالت کا جرم،ذمی کا معاہدۂ امان نہیں توڑتا، لیکن یاد رہے کہ اوّل تو متعدد حنفی علما کے نزدیک ذمّی کا معاہدہ امان اس سے ٹوٹ جاتا ہے، ثانیاً معاہدہ امان نہ ٹوٹنے کا لازمہ یہ نہیں کہ اُس کو قتل نہ کیا جائے، بلکہ معاہدۂ امان ٹوٹ جانےسے ان بعض احناف کی مراد یہ ہے کہ حربی شخص کی طرح اس ذمی کا مال ، مالِ غنیمت اور ذمی خواتین ، لونڈیاں نہیں بن جاتیں، بلکہ ذمی کے جرمِ سرقہ کی طرح اس کی سزا اکیلے مجرم ذمی کو ہی دی جائے گی، اس کے اموال و خاندان کو نہیں،اس بنا پر اس جرم کو ذمی کے مال وکنبہ کے معاہدہ امان ٹوٹنے کے مترادف نہ سمجھا جائے۔ جیساکہ خیر الدین رملی حنفی لکھتے ہیں:
لا یلزم من عدم النقض عدم القتل
’’عہدامان نہ ٹوٹنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس ذمّی کو سزا قتل نہیں دی جائیگی۔‘‘
4علامہ ابن سبکی فرماتے ہیں:
لا ينبغي أن يفهم من عدم الانتقاض أنه لا يقتل فإن ذلك لايلزم
’’معاہدہ نہ ٹوٹنے سے اس کا قابل قتل نہ ہونے کا مفہوم لینا درست نہیں، نقض عہد کا یہ لازمہ نہیں ۔‘‘
5 علامہ ظفر احمد عثمانی تھانوی، دورِنبوی میں بعض شاتم ذمیوں کے قتل سے استدلال کرتے ہوئے، معاہدہ امان نہ ٹوٹنے کے نکتہ کی مزید وضاحت کرتے ہیں:
فإن النبي لم يجعل أموال هؤلاء فيئًا للمسلمين
’’نبی کریم نے [ذمّی]شاتمان کے اموال کو مسلمانوں کے لئے مالِ غنیمت نہیں بنایا۔‘‘
غرض جس شخص نے حنفیہ کے اس موقف سے یہ سمجھا ہے کہ احناف کے ہاں ذمّی شاتم رسول کی سزا قتل نہیں، اس نے بڑی غلطی کی ہے، جیساکہ اس کی پرزور تردید علامہ ظفر احمد عثمانی نے اپنی کتاب ’اعلاء السنن‘میں امام ابن حزم کا جواب دیتے ہوئے کی ہے۔ یاد رہے کہ علامہ عثمانی تھانوی کی کتاب ’اعلاء السنن‘ پاکستان میں علماے دیوبند کے انتہائی معتمد عالم مولانا اشرف علی تھانوی کے افادات سے ماخوذ ہے۔علامہ عثمانی کا یہ موقف بلاتبصره حسب ِذیل ہے:
وممن فهم من عدم الانتقاض عدم القتل محدث الأندلس – العلامة ابن حزم الظاهري – فنسب إلى الحنفية القول بعدم القتل من سبّ الله ورسوله وجعل يطعنهم ويرميهم بكل سوء. ولم يدر أن الآفة في ذلك من عنده لا من عندهم، وهذا هو اللائق بظاهريته حيث قال: "وقال سفيان وأبو حنيفة وأصحابه: إن سب الذمي الله تعالىٰ أو رسوله ﷺ بأي شيء سبه فإنه لا يقتل لكن ينهى عن ذلك وقال بعضهم: يعزر(11/415)"
فقوله: "إنه لا يقتل" كذب عليهم، وإنما قالوا: لا ينتقض العهد به ولا يلزم منه عدم القتل وكذا قوله: "وقال بعضهم: يعزر" خطأ فإنهم صرحوا قاطبة بأنه يعزر على ذلك ويؤدب كما مرّ. والتعزير عندنا يعمّ الضرب والقتل جميعًا وهو مفوّض إلى رأي الإمام، ويسمّي القتل سياسةً وإن سلمنا أنهم قالوا: لا ينتقض العهد بذلك ولا يقتل به فليس معناه أن يتركهم الأمام وهم يسبون الله والرسول ويطعنون في ديننا، في دارنا. كما فهمه ابن حزم وغيره من أهل الظاهر من قلة فهمهم وعدم تدبرهم في كلام علمائنا. بل معناه: أن العهد لا ينتقض بذلك وعلىٰ الإمام أن ينبذ إليهم علىٰ سواء إذا آذونا في الله وفي الرسول وطعنوا في ديننا فإن الجهاد ماض إلىٰ يوم القيامة، صرح به الشامي نقلا عن أئمتنا (3/430)
’’محدثِ اندلس علامہ ابن حزم ظاہری نے جو ذمی کے معاہدۂ امن نہ ٹوٹنے سے اس کی سزاے قتل کا نہ ہونا مراد لیا ہے اوراس موقف کو حنفیہ کی طرف منسوب کردیا ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کے شاتم کو قتل کی سزا نہیں دیتے اور اس بنا پر اُنہوں نے حنفیہ کو مطعون کیا اور برا بھلا کہا ہے۔ حالانکہ وہ حنفی موقف کو سمجھے ہی نہیں، یہ موقف اُن کے سوءِ فہم کا نتیجہ ہے نہ کہ حنفیہ کی غلطی کا۔اور ان کی ظاہریت کو یہی لائق ہے جب اُنہوں نے یہ بات کہی کہ ’’سفیان، ابو حنیفہ اور ان کے متبعین کا کہنا ہے کہ ذمی کا اللہ او راس کے رسول کو گالی دینا، جس چیز سے بھی وہ دشنام طرازی کرے، تو اسے قتل نہیں کیا جائے گا، بلکہ اس کو اس فعل بد سے روکا جائے گا، اور بعض نے کہا کہ اس جرم کی اس کو سزا دی جائے گی۔‘‘
امام ابن حزم کا یہ کہنا کہ ذمی کو قتل نہیں کیا جائے گا، حنفیہ پر تہمت ہے۔ حنفیہ نے تو یہ کہا کہ اس سے ذمی کا عہدٹوٹتا نہیں ہے اور نہ ہی اس سے عدمِ قتل لازم آتا ہے۔ اسی طرح ابن حزم کا یہ کہنا کہ بعض حنفیہ نے کہا کہ اس کو سزا دی جائے گی، بھی غلط ہے کیونکہ ان تمام نے یہ صراحت کی ہےکہ اس کو تعزیر بھی دی جائے گی اور اس کی تادیب بھی ہوگی جیسا کہ پیچھے گزرا ہے۔ یاد رہے کہ تعزیر حنفیہ کے ہاں ضرب اور قتل دونوں کو شامل ہے۔ البتہ یہ حاکم کی رائے پر موقوف ہے۔اور اسے سیاستاً قتل کرنا کہتے ہیں۔ اور بالفرض ہم مان لیں کہ ہم (حنفیہ) نے کہا ہے کہ اس سے عہد امان نہیں ٹوٹے گا اور نہ ہی اسے قتل کیا جائے گا تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ حاکم اُنہیں آزاد چھوڑ دے گا کہ وہ اللہ ، اس کے رسول اور ہمارے دین میں طعنہ زنی کرتے پھریں جیسا کہ ابن حزم اور دیگر علماے ظاہر نے قلتِ فہم اورہمارے علما کی رائے پر عدمِ تدبر کی بنا پرہمارا یہ موقف سمجھ لیا ہے۔ بلکہ اس کا معنیٰ یہ ہے کہ اس بنا پران کا عہدنہیں ٹوٹے گا، اور حاکم اسلام کو چاہئے کہ جب وہ مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ، اس کے رسول اور ان کے دین کے بارے میں طعنہ زنی کریں تو حاکم ان سے پوری طرح نمٹے [یعنی جنگ کرے] کیونکہ جہاد قیامت تک جاری رہے گا۔ یہ ہے وہ موقف جس کی صراحت امام ابن عابدین شامی نے ہمارے ائمہ حنفیہ سے کی ہے۔‘‘
4 شتم رسول کو نقض عہدنہ ماننے والے احناف کا موقف یہ بھی ہے کہ اگر کوئی ذمی علانیہ شتم رسول کا ارتکاب کرے تو اس کو سزاے قتل دی جائے۔ابن کمال باشا لکھتے ہیں :
والحق أنه يقتل عندنا إذا أعلن بشتمه ﷺ صرح به في سير الذخيرة حيث قال: واستدل محمد لبيان قتل المرأة إذا أعلنت بشتم الرسول ﷺ بما روي أن عمير بن عدي ... مدحه على ذلك
’’حق بات یہ ہے کہ ہمارے نزدیک ذمی کو قتل کیا جائے گا، جبکہ وہ نبی کریمﷺ کو علانیہ گالی دے، اور’سیر الذخیر ہ‘ میں اس کی صراحت مصنف نے يوں کی ہے کہ امام محمّد نے علانیہ شتم رسول کی مرتکب عورت کو قتل کرنے میں عمیر بن عدی کے عصما بنتِ مروان کو رات کے وقت قتل کرنے سے استدلال کیا ہے ۔‘‘
5 امام ابو حنیفہ کے شاگرد امام محمد بن حسن شیبانی (متوفی: 189ھ)فرماتے ہیں:
قال محمّد في السير الكبير وكذلك إن كانت تعلن بشتم رسول الله ﷺ فلا بأس بقتلها
’’امام محمد نے السیر الکبیر میں فرمایا ہے کہ اور اسی طرح عورت رسول اللہ کو علانیہ گالی دے تو اس کے قتل میں کوئی حرج نہیں۔‘‘
6 علامہ شہاب الدین شلپی لکھتے ہیں:
إذا أظهره يقتل
’’جب ذمی علانیہ گستاخی کا ارتکاب کرے تو اس کو قتل کیا جائے گا۔‘‘
éعلامہ ظفر احمد عثمانی تھانوی لکھتے ہیں:
وبالجملة فلا خلاف بین العلماء في قتل الذمي أو الذمية إذا أعلن بشتم الرسول أو طعن في الإسلام طعنًا ظاهرًا
’’مذکورہ بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ ذمی مرد یا ذمیہ عورت جب نبی کریمﷺ کو علانیہ گالی دے یا دین اسلام میں طعن کرے تو فقہاے احناف میں اس كی سزاے قتل میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔‘‘
گویا شتم رسول کو ذمی کے لئے نقض عہد نہ ماننے والے سزاے قتل کو رفع نہیں کرتے ، جبکہ شتم رسول کا اظہار کرنے والے ذمی کی سزاے قتل پر جملہ فقہاے احناف کا اتفاق ہے۔ اوریہ بات واضح ہے کہ شتم رسول جب تک دو مسلمان گواہوں کے سامنے نہ ہو اور کمرے کے اندرخاموشی سے ہو تو شتم رسول کا جرم ہی ثابت نہیں ہوا، جب یہ جرم ظاہر ہوکر دو مسلمانوں کےعلم میں آجائے اور مسلم عدالت میں پہنچ جائے تو یہ شتم رسول کا اظہار ہے ۔ اور اس ثبوت ِ جرم کے بغیر کوئی بھی شتم رسول کے مبینہ ملزم کو سزا دینے کا قائل نہیں ہے۔
اوپر کی بحث سے واضح ہوا کہ ذمی کے بارے میں ان احناف کا موقف جو اسے نقض عہد نہیں مانتے، تعبیر کی حد تک ہی مختلف ہے، اگر اسے ان دونوں نکات (سزاے قتل کا عدم رفع اور اظہار سے مشروط) کو مانا جائے تو پھر ذمی کے باب میں ان کا موقف پوری اُمت کے ساتھ ہی ہے۔مزید یہ بھی پتہ چلا کہ مسلمان شاتم کے واجب القتل ہونے کی حد تک تو ویسے ہی احناف اجماعِ امت میں داخل ہیں۔ اور ذمی کے بارے میں ، اگر پاکستان کے غیرمسلموں کو بالفرض ذمی مان بھی لیا جائے تو ان کو سزاے قتل نہ دینا فقہ حنفی کے خلاف ہرگز نہیں ہے کیونکہ فقہ حنفی میں ذمی کے لئے بھی سزاے قتل موجود ہے جیسا کہ مذکورہ اقوال اور مولانا ظفر احمد عثمانی کی علامہ ابن حزم پر تنقید سے بالکل واضح ہے۔
5 ابھی تک ان احناف کا موقف گزرا ہے جو ذمی کے لئے سبِّ رسول کو نقض عہد نہیں مانتے، لیکن احناف میں اکثریت اُن کی ہے جو اُسے نقض عہد تسلیم کرتے ہیں، چنانچہ ایسے حنفیّہ کے موقف میں اساس کے لحاظ سے ہی جمہور علما کے ساتھ کوئی فرق باقی نہیں رہتا۔ یہ اکثر و نامور حنفی فقہا جمہوراہل علم کی طرح اسی بات کے قائل ہیں کہ ذمّی کو بھی تعزیر کی بجائے قتل کی سزا ہی دی جائے اور اس فعل بد سے اُس کا عہد ِامان ٹوٹ جائے گا جیسا کہ امام ابو بکر جصاص حنفی (م 370ھ)لکھتے ہیں:
وقال الليث في المسلم يسب النبي ﷺ إنه لا يُناظر ولايُستتاب ويُقتل مكانه... وظاهر الآية يدل على أن من أظهر سبّ النبي ﷺ من أهل العهد فقد نقض عهده
’’لیث بن سعد نے آپ ﷺ کو گالی دینے والے مسلمان کے بارے میں فرمایا کہ اس سے مناظرہ ومباحثہ نہیں کیا جائے گا اور نہ ہی توبہ کا مطالبہ کیا جائے گا بلکہ اسے اسی جگہ قتل کردیا جائے گا ۔ ... آیتِ مذکو ر﴿وَاِنْ نَّكَثُوْا اَیْمَانَہُمْ ...﴾ کا ظاہر اس امر پر دلالت کرتاہے کہ معاہدین میں جس شخص نے نبی کریمﷺ کی گستاخی کو ظاہر کیا، گویا اس نے اپنا عہد توڑ دیا۔‘‘
6 ذمّی کے بارے یہی موقف علامہ عینی نے بھی اختیا ر کیا ہے کہ اس کو بھی قتل کیا جائے:
ولٰکنّ أنا معه في جواز قتل الساب مطلقًا
’’تاہم میں مطلقاً ہر شاتم رسول کو قتل کرنے کے حق میں ہوں۔‘‘
واختياري في السب أن يقتل وتبعه ابن الهمام
’’میرے نزدیک راجح یہی ہے کہ حضورﷺ کو گالی دینے والے کو قتل کیا جائے۔ اور اس موقف میں ان کی پیروی ابن ہمام نے بھی کی ہے۔‘‘
امام ابو بکر جصاص اور علامہ بدرالدین عینی کے دیگر اقوال اسی شمارے کے صفحہ نمبر79،83 پر بھی ملاحظہ کئے جاسکتے ہیں۔
7 علامہ شہاب الدین آلوسی بعض احناف کے اِس موقف پر تنقید کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
والقول بأن أهل الذمة يقرون على كفرهم الأصلي بالجزية وذا ليس بأعظم منه فيقرون عليه بذلك أيضًا وليس هو من الطعن المذكور في شيء ليس من الانصاف في شيء. ويلزم عليه أن لا يعزّروا أيضًا كما لايعزرون بعد الجزية علي الكفر الأصلي ولعمري بيع يتيمة الوجود ﷺ بثمن بخس
’’یہ کہنا کہ چونکہ جزیہ کی ادائیگی کے بعد اہل ذمہ کو ان کے کفر اصلی پر قائم رہنے کی اجازت دی جاتی ہے اور سبّ وشتم اس کفر سے بڑا نہیں ہے، اس لئے انہیں اس پر بھی قائم رہنے دیا جائے گا، انصاف سے بالکل بعید بات ہے۔ اس صورت میں تو یہ لازم آئے گا کہ جیسے انہیں جزیہ ادا کرنے کے بعد انکے کفر اصلی پر کوئی تعزیر نہیں کی جاتی، اسی طرح سبّ وشتم پر بھی کوئی تعزیر نہ کی جائے۔ واللہ ! یہ تو کائنات کے درّ یتیمﷺ کو نہایت حقیر قیمت کے عوض فروخت کردینے کے مترادف ہے۔‘‘
8 امام محقق ابن ہمام حنفی (م 861ھ)لکھتے ہیں:
وَاَلَّذِي عِنْدِي أَنَّ سَبَّهُ ﷺ أَوْ نِسْبَةَ مَا لَا يَنْبَغِي إلَى اللَّهِ تَعَالَى إنْ كَانَ مِمَّا لَا يَعْتَقِدُونَهُ كَنِسْبَةِ الْوَلَدِ إلَى اللهِ تَعَالَى وَتَقَدَّسَ عَنْ ذَلِكَ إذَا أَظْهَرَهُ يُقْتَلُ بِهِ وَيُنْتَقَضُ عَهْدُهُ
’’میرے نزدیک مختار یہ ہے كہ ذمی نے اگر حضورﷺ کی اہانت کی یا اللہ تعالی جل جلالہ کی طرف غیر مناسب چیز منسوب کی جو ان کے اعتقادات سے خارج ہے۔ جب وہ ان چیزوں کا اظہار کرے تو اس کا عہد ٹوٹ جائے گا اور اسے قتل کردیا جائے گا۔ ‘‘
علامہ ابن ہمام کا ایک قول پیچھے نمبر5 کے تحت بھی گزر چکا ہے، وہاں اُنہوں نے ا س جرم کو مستقل حد قرار دیتے ہوئے واجب القتل قرار دیا اور اس کی توبہ کی عدم قبولیت کا موقف پیش کیاتھا، اسی بنا پر وہ یہاں ذمّی کے لئے اس جرم کو نقض عہد اور وجوبِِ قتل کی بنیاد قرار دے رہے ہیں۔ اظہار کا مفہوم یہاں وہی ہے جو ثبوتِ جرم کا تقاضا ہے۔
9 فتاویٰ بزازیہ کے مؤلف شیخ محمد بن شہاب ابن البزاز حنفی (متوفیٰ 827ھ) لکھتے ہیں:
إذا سبّ الرسول ﷺ أو واحدًا من الأنبیاء فإنه یقتل حدًا فلا توبة له أصلًا سواءً بعد القدرة علیه والشهادة أو جاء تائبًا من قبل نفسه کالزندیق لأنه حدّ وجب فلا یسقط بالتوبة کسائر حقوق الآدمیین کحد القذف لا یسقط بالتوبة بخلاف ما إذا سب الله تعالىٰ ثم تاب لأنه حق الله تعالىٰ ولأن النبي عليه السلام بشر والبشر جنس يلحقهم المعرة إلا من أكرمهم الله تعالىٰ والباري منزه عن جميع المعايب وبخلاف الارتداد لأنه معنى يتفرد المرتد لا حق فيه لغيره من الآدميين ولكنه قلنا إذا شتمه عليه الصلوة والسلام لا يعفى ويقتل أيضا حدًّا وهذا مذهب أبي بكر الصديق رضي الله عنه والأمام الأعظم والثوري وأهل الكوفة والمشهور من مذهب مالك وأصحابه
’’جب کوئی بدبخت رسول کریمﷺ یا کسی نبی کی گستاخی کرے، تو اس کو بطورِ حد قتل کردینا واجب ہے۔ اس کی اصلاً کوئی توبہ قابل قبول نہیں، چاہے اس کوپکڑ کرلایا جائے، یا اس کے خلاف گواہی دی جائے یا وہ خود توبہ کرکے آپہنچے، مثل زندیق کے۔ کیونکہ اس پر حد واجب ہوگئی جو انسانوں کے دیگر حقوق کی طرح محض توبہ سے ختم نہیں ہوجاتی۔جیسا کہ تہمت طرازی کی حد ہے جو توبہ سے ساقط نہیں ہوتی۔ برخلاف اللہ کی گستاخی کے، کیونکہ وہ صرف اللہ تعالیٰ کا ہی حق ہے۔ جبکہ نبی
بشر ہیں اور بشر کو شرم وعار لاحق ہوسکتی ہے مگر جسے اللہ تعالیٰ عزت دے اور باری تعالی خود تو ہر قسم کے عیوب ونقائص سے بالاترہیں۔ اور برخلاف ارتداد کے بھی کیونکہ ارتداد میں انسان کسی دوسرے انسان کا حق متاثر نہیں کرتا۔ اسی بنا پر ہم کہتے ہیں کہ جب کوئی نبی کریمﷺ کو سبّ وشتم کرے گا، اس کو معاف نہیں کیا جائے گا اور اس کو حد کے طورپر قتل کردیا جائے گا۔ یہی سیدنا ابوبکر صدیق ، امام اعظم، ثوری، اہل کوفہ کا موقف ہے اور امام مالک اور ان کے شاگردوں سے مشہور موقف بھی یہی ہے۔‘‘
10 امام خیر الدین رملی حنفی (م 993ھ)کا قول شمارہ ہذا کے صفحہ نمبر 81 پر ملاحظہ فرمائیں۔
11 امام ابو عباس احمد ناطفی حنفی(م446ھ)نے اپنی کتاب ’الاجناس فی الفروع ‘میں لکھاہے :
أما إذا سبّ رسول الله ﷺ أو واحدًا من الأنبياء عليهم السلام يقتل حدًّا ولا توبة له أصلا سواء بعد القدرة والشهادة أو جاء تائبًا من قبل نفسه كالزنديق لأنه حد وجب فلا يسقط بالتوبة كسائر حقوق الآدميين وكحد القذف لا يزول بالتوبة بخلاف من
سبّ الله تعالىٰ ثم تاب لأنه حق الله تعاليٰ والباري تعالىٰ منزه عن جميع المعايب وبخلاف الارتداد لأنه يتفرد به المرتد لا حق فيه لغيره من الآدميين ولهٰذا قلنا إذا شتمه ﷺ لا يُعفٰى ويُقتل أيضًا حدًا وهذا مذهب أبي بكر الصديق رضي الله عنه والإمام الأعظم والثوري وأهل الكوفة رضوان الله عليهم والمشهور من مذهب المالك وأصحابه رحمهم الله
’’جو شخص بھی رسول اللہ یا کسی نبی کو دشنام طرازی کرے، تو اس کو حد کے طورپر قتل کیا جائے گا اور اس کی کوئی توبہ نہیں ، چاہے پکڑے جانے کے بعد ہو یا گواہیوں کے بعد یا وہ ازخود توبہ تائب ہوکر پیش ہوجائے ، زندیق کی طرح ۔ کیونکہ اس پر حد واجب ہوگئی جو اکیلی توبہ سے ساقط نہیں ہوگی، جس طرح انسانوں کے دیگر حقوق کا معاملہ ہے او رجس طرح تہمت کی حد کا مسئلہ ہے جو توبہ سے ختم نہیں ہوجاتی۔ برخلاف اس شخص کے جس نے اللہ تعالیٰ کی شان میں گستاخی کی تو اللہ سے توبہ کرکے وہ اللہ کے حق کو ادا کردیتا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ درحقیقت تمام عیوب سے مبرا ومنزہ ذات باری ہے(یعنی اللہ کی گستاخی کرنے والا توبہ کرکے اپنے آپ سے دنیوی حدّ کو ساقط کراسکتا ہے)۔اور برخلاف اس شخص کے بھی جو مرتد ہوگیا [تو وہ توبہ کرکے اپنے آپ سے سزا کو ساقط کرسکتا ہے] کیونکہ ارتداد میں انسانوں کا کوئی حق مجروح نہیں ہوا۔ اسی بنا پر ہم کہتے ہیں کہ جس نے نبی کریم کی گستاخی کی اسے معاف نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اب آپ کا حق معاف نہیں ہوسکتا۔ سیدنا ابوبکر صدیق ، امام اعظم ابوحنیفہ، امام ثوری، اہل کوفہ کا یہی موقف ہے اور امام مالک اور ان کے متبعین کا بھی یہی موقف مشہور ہے۔‘‘
12 تفسیر قرطبی کے مصنّف امام ابوعبداللہ محمد بن احمد قرطبی مالکی رقم طراز ہیں:
أکثر العلماء علىٰ أن من سب النبي ﷺ من أهل الذمة أو عرض واستخف بقدره أو وصفه بغیر الوجه الذي کفر به فإنه یقتل
’’اکثر علما کا کہنا ہے کہ اہل ذمّہ میں سے جو شخص نبی ﷺ کو گالی دے یا تعریض کرے یا آپ کی قدر ہلکی جانے یا اپنے کفر کے علاوہ کسی چیز سے آپ کو موصوف کرے تو اسے قتل کیا جائے گا۔ ہم اسے ذمّہ یا عہد و پیمان نہیں دے سکتے۔‘‘
اوپر کے چار اقوال نمبر5 تا 8میں نہ صرف یہ کہ ذمّی کے لئے شتم رسول کے بعد نقض عہد کے موقف اختیا رکیا گیا ہے بلکہ بعد میں 9 تا 11؍اقوال میں اس جرم کو براہِ راست حد قرار دیتے ہوئے، اُس کے ناقابل معافی ہونے کی شرعی توجیہات بھی پیش کی گئی ہیں۔ یاد رہے کہ یہ آخری موقف جس حنفی فقیہ نے اختیار کیا ہے اور اسے امام ابو حنیفہ سے بھی منسوب قراردیا ہے، ان کا زمانہ پانچویں صدی ہجری کا وسط ہے۔ اور بعد میں خیرالدین رملی اور ابن بزاز نے جن الفاظ میں اسے اختیار کیاہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے استدلال ورجحان کا محور یہی موقف ہے جو پانچویں صدی ہجری سے فقہ حنفی میں مشہور ہے۔
دراصل شتم رسول کے بارے میں یہ نکتہ اساسی حیثیت رکھتا ہے کہ یہ جرم ارتداد وعقوقِ والدین وغیرہ کی طرح محض گناہ نہیں بلکہ زنا ،سرقہ اورتہمت جیسے جرائم کی طرح ایک قابل سزا جرم بھی ہے۔ کیونکہ اس میں ذاتِ نبوتﷺ پر اتہام طرازی کی گئی ہے جو ان پر جنایت(زیادتی) کے مترادف ہے۔ ذاتِ نبوت پر جنایت کے ذریعے پوری اُمتِ اسلامیہ کے دل بھی چھلنی کئے گئے ہیں ۔ اس لحاظ سے شتم رسول کے جرم میں اللہ کا حق، رسول اللہ کا حق اور اُمت کا حق ، متاثر ہوتے ہیں۔
آخری اقوال میں نہ صرف اس کی قانونی علت پیش کی گئی بلکہ اس جرم کے براہِ راست ارتداد نہ ہونے اور اس کے کلّی مماثل نہ ہونے کی نفی بھی کی گئی ہے اور یہی شرعِ اسلامی کا اصل وحقیقی موقف ہے۔یعنی یہ سنگین جرم پہلے حق نبوت میں ڈاکہ زنی کی بنا پر قابل سزا شرعی حد ہے۔ اس کے بعد اس کی شناعت وشدت کا یہ عالم ہے کہ شاتم کو ارتداد کی طرف لے جاتاہے۔ جن علما نے اس کو سیدنا ابو بکر صدیق کے موقف کی طرح براہِ راست حد اور قابل سزا بتایا ، ان کا موقف کھرا ہے اور جنہوں نے اس کو ارتداد قرار دیا ہے، ان کے موقف میں قدرے گنجائش پائی جاتی ہے۔ پھر وہ اسے محض ارتداد بنا کر، مرتد کی توبہ کا مسئلہ لے آتے یا ذمّی کا معاملہ کھول لیتے ہیں کیونکہ مرتد کی سزا مسلمان کے لئے ہی ہوتی ہے اورذمی پر لاگو نہیں ہوتی۔
واضح رہے کہ شتم رسول کے مسئلہ میں ارتداد سے انکار نہیں بلکہ یہ ارتداد کی بدترین صورت ہے کیونکہ اس میں ارتداد سے قبل ذاتِ گرامیﷺ پر زیادتی بھی ہے۔اس بنا پر ایسے مجرم کا کفر عام ارتداد سے زیادہ بڑا، زیادہ قبیح اور زیادہ شدید ہے، جیساکہ علامہ ابن تیمیہ نے السبّ أعظم من جرم المرتد ، قاضی ابن عابدین نے إن كفره أشنع،علامہ ابن نجیم حنفی نے ’ارتدادِ مغلظ‘اورقاضی عیاض السبّ أقبح الثلاثةکے الفاظ استعمال کرکے اس کی نشاندہی کی ہے اور اسی کو ’ردہ عامہ ‘یا ’ردہ خاصہ‘ سے بھی تعبیر کیا جا رہا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ شتم رسول کو مستقل حد قرار دینا یا بعض احناف کے اسے ارتداد قرار دینے میں باہم مطابقت نکل آتی ہے اوربعد کے فقہاے احناف کی اس صراحت کے ذریعے حنفیہ کے ہاں اس سزا کی توجیہ وتعلیل میں موجودد ظاہری اختلاف بھی رفع ہوجاتا ہے۔
13 ’حسب المفتین‘ کے مصنّف، دسویں صدی کے حنفی عالم قاضی عبد المعالی لکھتے ہیں :
في شفاء القاضي عن أصحابنا وغيرهم من المذاهب الحق أن توبته لم تقبل وقتل بالإجماع
’’قاضی عیاض کی’الشفا‘میں ہمارےحنفی ساتھیوں اور دیگرفقہی مذاہب کا یہ موقف حق بیان ہوا ہے کہ اجماعی طورپر شاتم کی توبہ قبول نہیں کی جائے گی، اور اس کو قتل کیا جائے گا۔‘‘