• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

’’تقلید کی حقیقت اور اہمیت ایک علمی جائزہ‘‘

شمولیت
جولائی 06، 2011
پیغامات
126
ری ایکشن اسکور
462
پوائنٹ
81
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
حقیقت تقلید
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
تقلید کےاصطلاحی معنی
اصولین کے نزدیک تقلید کے اصطلاحی معنی : (قول مجتہد کو بغیر دلیل قطعی ومعرفت تامہ کے بعینہ قبول کرلینا (بوجہ اعتماد کلی کے)
اور التقلید: ھول العمل الغیر من غیر حجۃ ملزمۃ ( بغیر کسی لازمی حجت کے دوسرے کوے عمل کو قبول کرنا)
اور جناب قاضی محمدعلی صاحب فرماتے ہیں:
"التقلید اتباع الانسان غیرہ فیما یقول او یفعل معتقدا للحقیقة من غیر نظر الی الدلیل"۔ (کشف اصطلاحات الفنون:۱۱۷۸)
ترجمہ: تقلید کے معنی ہیں کسی آدمی کا کسی دوسرے کے قول و فعل میں دلیل طلب کئے بغیر اس کو حق سمجھتے ہوئے اتباع کرے۔
جائز و ناجائز اتباع و تقلید
تقلید کی بھی دو قسمیں ہیں۔ اگرحق کی مخالفت کے لئے کسی کی تقلید کرے تو یہ مذموم ہے جیسا کہ کفار و مشرکین، خدا اور رسول صلی الله علیہ وسلم کی مخالفت کے لئے اپنےآباء واجداداور پیشواؤںکی تقلید کرتے تھے۔ اگر حق پر عمل کرنے کے لئےوہ اس وجہ سے تقلید کرتا ہےکہ وہ مسائل کا براہ راست استنباط نہیں کرسکتا اور مجتہد کیونکہ کتاب و سنت کواسسے زیادہ سمجھتا ہے ۔ اسلئے اگر اسکو اللہ ا و رسول صلی الله علیہ وسلم کی بات سمجھ کر عمل کرے تویہ تقلید جائز اور واجب ہے ۔
علامہ خطیب بغدادی شافعی (٣٩٢-٤٦٢ھ) فرماتے ہیں:
احکام کی دو قسمیں ہیں: عقلی اور شرعی۔
عقلی احکام (ایمانیات یا عقائد)میں تقلید جائز نہیں، جیسے ایمان باللہ ،صانع عالم (جہاں کا بنانےوالا) اور اس کی جملہ صفات (خوبیوں) کی معرفت (پہچان)اس کے ساتھ کسی کوشریک نہ ٹھرانا، اللہ کو عالم الغیب جاننا، حیات ممات میں اللہ کی قدرت کاملہ کا اقرارکرنا اقرا ربالسان اور تصدیق بالقلب کے ساتھ، اسی طرح رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی تصدیق اور آپ کے برحق ہونےکی معرفت وغیرہ
عبید الله بن حسن عنبری سے منقول ہے کہ وہ اصول دین میں بھی تقلید کو جائز کہتے ہیں، لیکن یہ غلط ہے اس لئے کہ الله تعالیٰ فرماتے ہیں کہ "تمہارے رب کی طرف سے جو وحی آئی اسی پر عمل کرو، اس کے علاوہ دوسرے اولیاء کی اتباع نہ کرو، کس قدر کم تم لوگ نصیحت حاصل کرتے ہو" (٧:٣)۔
اسی طرح الله تعالیٰ فرماتے ہیں کہ "جب ان سے کہا جاتا ہے کہ الله کی اتاری ہوئی کتاب کی اتباع کرو تو وہ لوگ کہتے ہیں کہ نہیں، ہم اس چیز کی اتباع کرینگے جس پر ہم نے اپنے باپ دادہ کو پایا، چاہے ان کے باپ دادا بے عقل اور بے ہدایت ہوں" (٢:١٧٠)
اسی طرح الله تعالیٰ فرماتے ہیں کہ"ٹھہرالیا اپنے عالموں اور درویشوں کو خدا (یعنی الله کے واضح احکام حلال و حرام کے خلاف ان کو حاکم (حکم دینے والا) اللہ کو چھوڑ کر)... "(٩:٣١)
دوسری قسم: احکام شرعیہ کی ہے، اور ان کی دو قسمیں ہیں:
(۱) دین کے وہ احکام جو وضاحت و صراحت سے معلوم ہوں، جیسے زنا و شراب کی حرمت ہونا وغیرہ تو ان میں تقلید جائز نہیں ہے کیونکہ ان کے جاننے میں سارے لوگ برابر ہیں،
(۲)دین کے وہ احکام جن کو نظر و استدلال کے بغیر نہیں جانا جاسکتا، جیسے: عبادات، معاملات، نکاح وغیرہ کے "فروعی" مسائل، تو ان میں تقلید کرنی ہے۔
وہ لوگ جن کو تقلید کرنی ہے (یہ) وہ حضرات ہیں جن کو احکام شرعیہ کے استنباط کے طریقے معلوم نہیں ہیں، تو ان کے لئے "کسی" عالم کی تقلید اور اس کے قول پر عمل کے بغیر چارہ کارنہیں ہے
الله تعالیٰ کا ارشاد ہے: " فَسـَٔلوا أَهلَ الذِّكرِ إِن كُنتُم لا تَعلَمونَ (النحل:۴۳والانبیا:۷) پس تم سوال کرو اہل علم (علماء) سے، اگر تم نہیں علم رکھتے"۔
یہ آیت شریفہ گو اہل کتاب کے بارے میں نازل ہوئی مگر قاعدہ ہے
العبرۃ بعموم اللفظ لا بخصوص السبب (لفظ کے عموم کا اعتبار ہوگا نہ کہ شان نزول کا سبب) اسلئے یہاں ’’ اہل الذکر‘‘ بوجہ عموم مسلمان بھی شامل ہیں،وہ کیسے،لیجئے
وانزلنا الیک الذکر لتبین للناس ما نزل الیہم ولعلہم یتفکرون (نحل :۴۴) یہ ذکر(کتاب) ہم نے آپ کی طرف اتارا ہے ،لوگوں کی جانب نازل فرمایا ہے ،آپ اسے کھول کھول کر بیان کردیں ،شاید کہ لوگ غور و فکر کریں۔
یہاں ذکر سے مراد قرآن شریف ہے ۔اس لئے اہل ذکر میں مسلمان آتے ہیں۔
فقط واللہ اعلم بالصواب
دعا کا طالب
عابد الرحمٰن بجنوری
انڈیا
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ
حضرت محترم میں آپ کا مشکور ہوں کہ آپ نے اپنی علمی کاوش سے ہمیں بھی مستفید ہونے کا موقع فراہم کیا۔ اللہ عزوجل آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔
حضرت جی آپ کی تحریر سے متعق کچھ سوالات ہیں براہ کرم وضاحت فرمائے گا:
۱۔ تقلید کی جو اصطلاحی تعریف آپ نے کی ہے وہ مجھے احناف کی اصول فقہ کی کسی کتاب میں نہیں ملی، خود آپ نے اس کے بعد جو تعریف عربی میں حوالے کیساتھ پیش کی ہے وہ آپ کی پہلے والی اصطلاحی تعریف سے مختلف ہے۔ یہ تعریف ہمیں کہاں ملے گی، ذرا حوالہ دے دیجئے۔۔۔
۲۔ آپ نے فرمایا کہ احکام عقلی یعنی عقائد و ایمانیات میں تقلید جائز نہیں گویا آپ کے نزدیک ان حضرات کا عمل غلط ہوا جو عقائد میں ماتریدیہ اور اشعریہ کی تقلید کرتے ہیں؟
۳۔ آپ نے فرمایا کہ فروعی مسائل میں جن حضرات کو احکام شرعیہ کے استنباط کے طریقے معلوم نہیں ہیں تو ان کے لئے "کسی" عالم کی تقلید اور اس کے قول پر عمل کے بغیر چارہ کارنہیں ہے۔ گویا آپ عامی کا عالم کی تقلید کرنے کو تو صحیح سمجھتے ہیں (ہمیں بھی اس پر کوئی اعتراض نہیں) لیکن یہ فرمائے گا کہ عالم کا کسی مذہب یا امام کی تقلید کرنا آپ کے نزدیک کیسا ہے؟
 

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ
حضرت محترم میں آپ کا مشکور ہوں کہ آپ نے اپنی علمی کاوش سے ہمیں بھی مستفید ہونے کا موقع فراہم کیا۔ اللہ عزوجل آپ کو جزائے کیر عطا فرمائے۔
حضرت جی آپ کی تحریر سے متعق کچھ سوالات ہیں براہ کرم وضاحت فرمائے گا:
۱۔ تقلید کی جو اصطلاحی تعریف آپ نے کی ہے وہ مجھے احناف کی اصول فقہ کی کسی کتاب میں نہیں ملی، خود آپ نے اس کے بعد جو تعریف عربی میں حوالے کیساتھ پیش کی ہے وہ آپ کی پہلے والی اصطلاحی تعریف سے مختلف ہے۔ یہ تعریف ہمیں کہاں ملے گی، ذرا حوالہ دے دیجئے۔۔۔
۲۔ آپ نے فرمایا کہ احکام عقلی یعنی عقائد و ایمانیات میں تقلید جائز نہیں گویا آپ کے نزدیک ان حضرات کا عمل غلط ہوا جو عقائد میں ماتریدیہ اور اشعریہ کی تقلید کرتے ہیں؟
۳۔ آپ نے فرمایا کہ فروعی مسائل میں جن حضرات کو احکام شرعیہ کے استنباط کے طریقے معلوم نہیں ہیں تو ان کے لئے "کسی" عالم کی تقلید اور اس کے قول پر عمل کے بغیر چارہ کارنہیں ہے۔ گویا آپ عامی کا عالم کی تقلید کرنے کو تو صحیح سمجھتے ہیں (ہمیں بھی اس پر کوئی اعتراض نہیں) لیکن یہ فرمائے گا کہ عالم کا کسی مذہب یا امام کی تقلید کرنا آپ کے نزدیک کیسا ہے؟
جمعہ کی نماز کے بعد جوب دوں گا
 
شمولیت
جولائی 06، 2011
پیغامات
126
ری ایکشن اسکور
462
پوائنٹ
81
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
حقیقت تقلید
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اس کی چند مثالیں یہ ہیں:
(۱) علامہ ابن ہمام رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وعلی ھذا ما ذکر بعض المتأخرین منع تقلید غیر الأربعة لانضباط مذاھبھم وتقلید مسائلھم وتخصیص عمومہا ولم یدر مثلہ في غیرھم الآن لانقراض اتباعھم وہو صحیح۔
ترجمہ: اور اسی بنیاد پر ائمہ اربعہ ہی کی تقلید متعین ہے نہ کہ دوسرے ائمہ کی، اس لیے کہ ائمہ اربعہ کے مذاہب مکمل منضبط ہوگئے ہیں اور ان مذاہب میں مسائل تحریر میں آچکے ہیں اور دوسرے ائمہ کے مذاہب میں یہ چیز نہیں ہے اور ان کے متبعین بھی ختم ہوچکے ہیں اور تقلید کا ان یہ چار اماموں میں منحصر ہوجانا صحیح ہے۔ (التحریر في اصول الفقہ: ۵۵۲)
(۲) علامہ ابن نجیم مصری لکھتے ہیں:
وما خالف الأئمة الأربعة فھومخالف للإجماع
یعنی ائمہ اربعہ کے خلاف فیصلہ اجماع کے خلاف فیصلہ ہے۔ (الأشباہ: ۱۳۱)
(۳) محدث ابن حجر مکی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
أما في زماننا فقال أئمتنا لا یجوز تقلید غیر الأئمة الأربعة: الشافعي ومالک وأبي حنیفة وأحمد رضوان اللہ علیھم أجمعین
یعنی ہمارے زمانے میں مشائخ کا یہی قول ہے کہ ائمہ اربعہ یعنی امام شافعی، مالک، ابوحنیفة اور احمد ہی کی تقلید جائز ہے اور ان کے علاوہ کسی اور امام کی جائز نہیں (فتح المبین ۱۶۶)
(۴) امام ابراہیم سرخسی مالکی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
و أما في ما بعد ذلک فلا یجوز تقلید غیر الأئمة الأربعة
یعنی دورِ اول کے بعد ائمہ اربعہ کے سوا کسی کی تقلید جائز نہیں۔ (الفتوحات الوہبیہ: ۱۹۹)
(۵) مشہو رمحدث ومفسر قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
فإن أھل السنة والجماعة قد افترق بعد القرن الثلثة أو الأربعة علی أربعة المذاھب، ولم یبق في فروع المسائل سوی ھذہ المذھب الأربعة فقد انعقد الإجماع المرکب علی بطلان قول من یخالف کلھم․ یعنی تیسری یا چوتھی صدی کے فروعی مسائل میں اہل سنت والجماعت کے مذاہب رہ گئے، کوئی پانچواں مذہب باقی نہیں رہا، پس گویا اس امر پر اجماع ہوگیا کہ جو قول ان چاروں کے خلاف ہے وہ باطل ہے (تفسیر مظہری:۲/۶۴)
(۶) حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وھذہ المذاھب الأربعة المدونة المحررة قد اجتمعت الأمة أو من یعتد بھا منھا علی جواز تقلیدھا إلی یومنا ھذا یعنی یہ مذاہب اربعہ جو مدون ومرتب ہوگئے ہیں، پوری امت نے یا امت کے معتمد حضرات نے ان مذاہب اربعہ مشہورہ کی تقلید کے جواز پر اجماع کرلیا ہے۔ (اور یہ اجماع) آج تک باقی ہے۔ (حجة اللہ البالغہ: ۱/۳۶۱)
(۷)شارح مسلم شریف علامہ نووی فرماتے ہیں:
أما الاجتہاد المطلق فقالوا اختتم بالأئمة الأربعة الخ یعنی اجتہاد مطلق کے متعلق علماء فرماتے ہیں کہ ائمہ اربعہ پر ختم ہوگیا حتی کہ ان تمام مقتدر محققین علماء نے ان چار اماموں میں سے ایک ہی امام کی تقلید کو امت پر واجب فرمایا ہے اور امام الحرمین نے اس پر اجماع نقل کیا ہے۔ (نور الہدایہ: ۱/۱۰)
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں
ولا تقف ما لیس لک بہ علم ان السمع والبصر والفواد کل اولئک کان عنہ مسؤلا (القرآن۔ ۱۷:۶)
جس بات کا تجھے علم نہ ہو اس کی پیروی مت کر ،کیونکہ کان آنکھ اور دل ان میں سے ہر ایک کی پوجھ گچھ کی جانے والی ہے۔
اصل تو یہی ہے کہ ہر ایمان والا خود نصوص قرآنیہ اور احادیث جو کہ قرآن کی شرح ہیں سمجھنے کی کوشش کرے ،اور اس سے استنباط کرے ،مگر چونکہ آیت مذکورہ میں خطاب عام ہے کسی شخصے خاص یا جماعت سےخطاب نہیں ہے ،اس لئے جس نے بھی اس خطاب کو سنا اس پر لازم ہوگیا کہ وہ اس پر ایمان لائے ،اب چونکہ اس خطاب کو سمجھنے کی ہر ایک میں صلاحیت نہیں ہوتی ہے، اسلئے تقلید عاجزی اور مجبوری کی وجہ سے نا گزیر ہوجاتی ہے ،جب یہ معلوم ہوگیا کہ تقلید نام مجبوری کا ہے ، تو یہ بھی معلوم رہے کہ مقلد کے لئے لازم ہے کہ وہ کسی ایک مجتہد کی تقلید کرے ،ایسا نہیں کہ جہاں سے بھی اپنا مطلب نکلے اسی کی بات مان لی ،یہ جائزہے اس وجہ سے کہ ایسا کرنا اجماع کے خلاف ہے ،ہوائے نفسانی ہے، اور نفس کی پیروی کرنا حرام ہے ،اس وجہ سے کہ اسنے احکام الٰہی کی پیروی نہ کرکے اپنی خواہشات کی پیروی کی ،اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں
’فلا تتبعو الھویٰ ( پس اپنے خواہشات کی پیوری مت کر)
فقط واللہ اعلم بالصواب
دعا کا طالب
عابد الرحمٰن بجنوری
انڈیا
حضرت جی آئمہ اربعہ میں سے کسی ایک کی تقلید پر جس اجماع کا آپ نے دعوی کیا اس کا ذکر تو ان میں سے کسی بھی قول میں نہیں ہے۔ یہ تمام حضرات تو صرف یہی فرما رہے ہیں آئمہ اربعہ کے مذاہب سے باہر نہ جایا جائے صرف آئمہ اربعہ ہی کی تقلید کی جائے گویا چاروں آئمہ کی تقلید کی جائے نہ کہ کسی ایک کی۔ اگرچہ یہ بات بھی محل نظر ہے کہ فقہ کو آئمہ اربعہ ہی تک محدود رکھا جائے لیکن فی الحال ان اقوال سے محض یہی معلوم ہو رہا ہے کہ ائمہ اربعہ تک ہی محدود رہا جائے نہ کہ ان میں سے کسی ایک تک۔ آئمہ اربعہ تک محدود رہنے والی بات کسی عامی و جاہل کیلئے تو ہوسکتی ہے لیکن ایک عالم و مفتی کتاب و سنت میں تحقیق کرتا ہے اور یہی اس پر لازم ہے کہ تحقیق و اجتہاد کرے اور پھر فتوی دے خواہ اس کی نسبت مذاہب اربعہ میں سے کسی کی بھی طرف ہو مگر اصلا وہ دلیل کی معرفت حاصل کرنے کے بعد فتوی دے۔
 
شمولیت
جولائی 06، 2011
پیغامات
126
ری ایکشن اسکور
462
پوائنٹ
81
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
حقیقت تقلید
(۶) حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وھذہ المذاھب الأربعة المدونة المحررة قد اجتمعت الأمة أو من یعتد بھا منھا علی جواز تقلیدھا إلی یومنا ھذا یعنی یہ مذاہب اربعہ جو مدون ومرتب ہوگئے ہیں، پوری امت نے یا امت کے معتمد حضرات نے ان مذاہب اربعہ مشہورہ کی تقلید کے جواز پر اجماع کرلیا ہے۔ (اور یہ اجماع) آج تک باقی ہے۔ (حجة اللہ البالغہ: ۱/۳۶۱)
حضرت شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ فرما رہے ہیں کہ آئمہ اربعہ کی تقلید کے محض جواز پر اجماع ہوا ہے یہ کہاں فرمایا کہ آئمہ اربعہ میں سے کسی ایک کی تقلید (شخصی) کے وجوب پر اجماع ہوگیا ہے؟
 

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
حضرت شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ فرما رہے ہیں کہ آئمہ اربعہ کی تقلید کے محض جواز پر اجماع ہوا ہے یہ کہاں فرمایا کہ آئمہ اربعہ میں سے کسی ایک کی تقلید (شخصی) کے وجوب پر اجماع ہوگیا ہے؟
یہ تو آپ تسلیم کرہی رہے ہیں کہ شاہ صاحبؒ کے یہاں ائمہ اربعہ کی تقلید کا جواز ہے(تقلید جائز) اب یہ ہماری پسند ہے کہ کس کی کریں ہم سب کی نہیں کرتے ایک کی ہی کرتے ہیں آپ کو تکلیف؟جانوروں کی طرح سے منہ نہیں مارتے پھرتے جو اچھا لگا کھا لیا ،دلیل ملاحظہ فرمائیں
(۷)شارح مسلم شریف علامہ نووی فرماتے ہیں:
أما الاجتہاد المطلق فقالوا اختتم بالائمۃ الاربعۃ الخ یعنی اجتہاد مطلق کے متعلق علماء فرماتے ہیں کہ ائمہ اربعہ پر ختم ہوگیا حتی کہ ان تمام مقتدر محققین علماء نے ان چار اماموں میں سے ایک ہی امام کی تقلید کو امت پر واجب فرمایا ہے اور امام الحرمین نے اس پر اجماع نقل کیا ہے۔ (نور الہدایہ: ۱/۱۰)
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں
ولا تقف ما لیس لک بہ علم ان السمع والبصر والفواد کل اولئک کان عنہ مسؤلا (القرآن۔ ۱۷:۶)
جس بات کا تجھے علم نہ ہو اس کی پیروی مت کر ،کیونکہ کان آنکھ اور دل ان میں سے ہر ایک کی پوجھ گچھ کی جانے والی ہے۔
اور یہی مذکورہ دلیل آپ کے اس سوال کی ہے۔
حضرت جی آئمہ اربعہ میں سے کسی ایک کی تقلید پر جس اجماع کا آپ نے دعوی کیا اس کا ذکر تو ان میں سے کسی بھی قول میں نہیں ہے۔ یہ تمام حضرات تو صرف یہی فرما رہے ہیں آئمہ اربعہ کے مذاہب سے باہر نہ جایا جائے صرف آئمہ اربعہ ہی کی تقلید کی جائے گویا چاروں آئمہ کی تقلید کی جائے نہ کہ کسی ایک کی
اور آپ کا یہ سوال
۱۔ تقلید کی جو اصطلاحی تعریف آپ نے کی ہے وہ مجھے احناف کی اصول فقہ کی کسی کتاب میں نہیں ملی، خود آپ نے اس کے بعد جو تعریف عربی میں حوالے کیساتھ پیش کی ہے وہ آپ کی پہلے والی اصطلاحی تعریف سے مختلف ہے۔ یہ تعریف ہمیں کہاں ملے گی، ذرا حوالہ دے دیجئے
اصولین کے نزدیک تقلید کے اصطلاحی معنی :(۱) (قول مجتہد کو بغیر دلیل قطعی ومعرفت تامہ کے بعینہ قبول کرلینا (بوجہ اعتماد کلی کے)
اور التقلید: ھول العمل الغیر من غیر حجۃ ملزمۃ ( بغیر کسی لازمی حجت کے دوسرے کوے عمل کو قبول کرنا)
اور جناب قاضی محمدعلی صاحب فرماتے ہیں:
(۲)"التقلید اتباع الانسان غیرہ فیما یقول او یفعل معتقدا للحقیقة من غیر نظر الی الدلیل"۔ (کشف اصطلاحات الفنون:۱۱۷۸)
ترجمہ: تقلید کے معنی ہیں کسی آدمی کا کسی دوسرے کے قول و فعل میں دلیل طلب کئے بغیر اس کو حق سمجھتے ہوئے اتباع کرے۔
پہلی تعریف کو دوسری تعریف سے منطبق کر لیجئے
۲۔ آپ نے فرمایا کہ احکام عقلی یعنی عقائد و ایمانیات میں تقلید جائز نہیں گویا آپ کے نزدیک ان حضرات کا عمل غلط ہوا جو عقائد میں ماتریدیہ اور اشعریہ کی تقلید کرتے ہیں؟
بھائی جان عقائد کا تعلق عقل سےہے اس وقت ہماری عقل کمزور ہے ذرا گھی شکر کھالیں اور سر میں تیل لگا لیں ہمیں تو اکیلے پہ دماغ لگانا پڑتا ہے جشید صاحب وغیرہ تماشہ دیکھ رہے ہیں آپ حضرات تو رفیق طاہر صاحب سے ذور لگوا لیتے ہیں ۔ذرا ہمیں بھی اغل بغل جھانکنے دو(ابتسامہ) فقط
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,395
پوائنٹ
891
یہ تو آپ تسلیم کرہی رہے ہیں کہ شاہ صاحبؒ کے یہاں ائمہ اربعہ کی تقلید کا جواز ہے(تقلید جائز) اب یہ ہماری پسند ہے کہ کس کی کریں ہم سب کی نہیں کرتے ایک کی ہی کرتے ہیں آپ کو تکلیف؟جانوروں کی طرح سے منہ نہیں مارتے پھرتے جو اچھا لگا کھا لیا ،دلیل ملاحظہ فرمائیں
محترم بھائی، آپ نے یہ ہائی لائٹ کردہ الفاظ درست استعمال نہیں کئے۔
 

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
محترم بھائی، آپ نے یہ ہائی لائٹ کردہ الفاظ درست استعمال نہیں کئے۔
بھائی جان شکریہ میں نے جان بوجھ کر کسی کو ہدف تنقید نہیں بنا یا یہ میرے نقظہ نظر کے بھی خلاف ہے بھر کسی کو تکلیف پہونچی ہو تو معافی چاہوں گا
 
شمولیت
جولائی 06، 2011
پیغامات
126
ری ایکشن اسکور
462
پوائنٹ
81
یہ تو آپ تسلیم کرہی رہے ہیں کہ شاہ صاحبؒ کے یہاں ائمہ اربعہ کی تقلید کا جواز ہے(تقلید جائز) اب یہ ہماری پسند ہے کہ کس کی کریں ہم سب کی نہیں کرتے ایک کی ہی کرتے ہیں آپ کو تکلیف؟جانوروں کی طرح سے منہ نہیں مارتے پھرتے جو اچھا لگا کھا لیا ،دلیل ملاحظہ فرمائیں

اور یہی مذکورہ دلیل آپ کے اس سوال کی ہے۔

اور آپ کا یہ سوال


پہلی تعریف کو دوسری تعریف سے منطبق کر لیجئے

بھائی جان عقائد کا تعلق عقل سےہے اس وقت ہماری عقل کمزور ہے ذرا گھی شکر کھالیں اور سر میں تیل لگا لیں ہمیں تو اکیلے پہ دماغ لگانا پڑتا ہے جشید صاحب وغیرہ تماشہ دیکھ رہے ہیں آپ حضرات تو رفیق طاہر صاحب سے ذور لگوا لیتے ہیں ۔ذرا ہمیں بھی اغل بغل جھانکنے دو(ابتسامہ) فقط
دلیل ہو یا نہ ہو البتہ آپ کو گفتگو کرنے کا ڈھنگ خوب آتا ہے!!! قارئین کرام جان چکے ہونگے کہ آپ کہ ہاں دلیل یہی ہے کہ "ہم کرتے ہیں، آپ کو کوئی تکلیف" اور آپ گھی شکر کھائیں یا سر میں تیل لگاَئیں بلکہ میری طرف سے تو دماغ کا آپریشن کروائیں ان سب کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ آپ کی عقلوں پر تالے اور دلوں پر مہریں لگی ہوئی ہیں۔
 

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
دلیل ہو یا نہ ہو البتہ آپ کو گفتگو کرنے کا ڈھنگ خوب آتا ہے!!! قارئین کرام جان چکے ہونگے کہ آپ کہ ہاں دلیل یہی ہے کہ "ہم کرتے ہیں، آپ کو کوئی تکلیف" اور آپ گھی شکر کھائیں یا سر میں تیل لگاَئیں بلکہ میری طرف سے تو دماغ کا آپریشن کروائیں ان سب کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ آپ کی آپ کی عقلوں پر تالے اور دلوں پر مہریں لگی ہوئی ہیں۔
السلام علیکم
بھائی عبدالرحمٰن میرے اور آپ کے نام میں صرف الف کا فرق ہے معنیٰ کے اعتبار سے ہم نام ہیں ،اسی طرح تقلید اور اتباع میں صرف حروف کا فرق ہے مفہوم کے اعتبار سے ایک ہی ہے،دیگر بھائی عبدالرحمٰن آپ ناراض نہ ہوں کم از میرے اور اپنے نام کی تو لاج رکھ لیں ،میری غلطی کی طرف شاکر بھائی نے اشارہ فرمادیا تھا میں نے بلا تاخیر اظہار معذرت بھی کرلیا تھا ،بس بات ختم
اور بھائی عبدالرحمٰن صاحب واضح رہے آپریشن دماغ کا نہیں ہوتا ’’سر‘‘کا ہوتاہے اور عقل پر تالے پڑے نہ ہوتے تو شیطان کبھی کا گھس جاتا اور دل پر اسلام کی مہر نہ ہوتی تو میرا اور آپ کا نام کچھ اور ہی ہوتا ۔ماشاءاللہ اچھی تعبیر کی اللہ آپ کو جزائے خیر عظا فرمائے دارین کی فلاح عطا فرمائے۔ لیجئے گھی شکر نے تھوڑا سا اثر دکھایا ہے ملاحظہ فرمائیں۔(ابتسامہ)
اصول دین یعنی عقائد میں تقلید جائز نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اصول دین میں ظن اور گمان پر اکتفا نہیں کیا جا سکتا هے، اس لئے کہ اعتقاد، دلیل و یقین محکم کا نام ہے اس کے برعکس احکام اور فروع دین میں تقلید کافی هے،
قابل ذکر بات هے کہ اسلامی عقائد اور اعتقادات کے دو حصے ہیں- اس کا ایک حصہ اصول دین ہے اور اس کا اعتقاد رکھنا ضروری ہے، اسلام کے محقق ہونے اور ایک انسان کے مسلمان ہونے کے لیے اس کی ضرورت ہوتی ہے ،مثلاًتوحید ورسالت کا اقرار-اللہ تعالیٰ کے وجود کا اعتقاد یا انبیاء علیهم السلام کی نبوت اور حضرت محمد صلی الله علیه وآلہ وسلم کی رسالت کا اعتقاد ، معاد و قیامت کا اعتقاد کہ انسان مرنے کے بعد دوباره زنده ہوں گے، تاکہ اپنے اعمال کی جزا پا سکیں، جیسے اصولوں پر اعتقاد رکھنا علم و یقین پر مبنی ہونا ہے، اس سلسلہ میں گمان اور دوسروں کی تقلید کرنا کافی نہیں ہے-
عقائد کا دوسرا حصہ، اصول دین کی تفصیل اور جزئیات ہیں، مثال کے طور پر کہ کیا اللہ تعالیٰ کی صفات اس کی عین ذات ہیں؟ اللہ تعالیٰ کی صفات کی کتنی قسمیں ہیں، صفات فعلی کے کیا معنی ہیں؟ اشیاء کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے علم کی
کیفیت کیا ہے کیا نبوت میں عصمت ضروری ہے یا نہیں؟ عصمت کے حدود کیا ہیں؟ کیا معاد جسمانی ہے یا روحانی؟ بہشت کی کیفیت کیا ہے؟ کیا اهل دوزخ ہمیشہ دوزخ میں ہوں گے یا نہیں؟ مشرکانہ باتیں کیا ہیں ،کفریہ اعمال کیا ہیں -
اگرچہ یہ بھی عقائد و اعتقادات میں شمار ہوتے ہیں، جن کو ہم اعتقاد کے فروعی مسائل کہہ سکتے ہیں ان فروعی مسائل میں ہم باعتبار تعلیم ہم کسی مستند اور معتبر عالم کی اقتدا کرسکتے ہیں۔
۔ واضح هے کہ انسان ، اصول دین کے بارے میں اعتقاد اور یقین حاصل کرنے کے لیے ۔۔۔ تعبدی و نقلی دلیل کے عنوان سے ۔۔۔ آیات و روایات کی طرف رجوع نهیں کر سکتا ہے، کیونکہ اس صورت میں تسلسل لازم آتا ہے- اس کے برخلاف احکام اور فروع دین کو آیات و روایات کی طرف رجوع کیئے بغیر حاصل کرنا ممکن نہیں ہے- اس بنا پر، عقائد کا احکام سے موازنہ کرنا ایک بے جا موازنہ ہے- جس چیز کو احکام اور فروعات سے موازنہ کیا جا سکتا ہے، وہ عقائد کی تفصیلات اور جزئیات ہیں کہ ان میں تقلید کرنا جائز ہے، اگرچہ ان میں سےبہت سی چیزوں میں تقلید کرنا واجب اور ضروری نہیں ہے-
مجتہد کی طرف رجوع کرنے اور مرجع تقلید کو پہچاننے کے سلسلہ میں دَور اور تسلسل لازم نهیں آتا هے، کیونکہ مجتہد اور اعلم کو پہچاننے کے لیے علم و فقہ میں مہارت اور اس مجتہدکے ساتھ معاشرت کی ضرورت نهیں هے، بلکہ معاشره میں شائع ہونے اور مشہور ہونے یا چند قابل اعتماد افراد کے بیان جیسی راہوں سے بھی مجتہد و اعلم کوپہچانا جا سکتا هے- فقط والسلام
 
Top