عبدالرحمن لاہوری
رکن
- شمولیت
- جولائی 06، 2011
- پیغامات
- 126
- ری ایکشن اسکور
- 462
- پوائنٹ
- 81
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہبسم اللہ الرحمٰن الرحیمالسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
حقیقت تقلید
تقلید کےاصطلاحی معنی
اصولین کے نزدیک تقلید کے اصطلاحی معنی : (قول مجتہد کو بغیر دلیل قطعی ومعرفت تامہ کے بعینہ قبول کرلینا (بوجہ اعتماد کلی کے)
اور التقلید: ھول العمل الغیر من غیر حجۃ ملزمۃ ( بغیر کسی لازمی حجت کے دوسرے کوے عمل کو قبول کرنا)
اور جناب قاضی محمدعلی صاحب فرماتے ہیں:
"التقلید اتباع الانسان غیرہ فیما یقول او یفعل معتقدا للحقیقة من غیر نظر الی الدلیل"۔ (کشف اصطلاحات الفنون:۱۱۷۸)
ترجمہ: تقلید کے معنی ہیں کسی آدمی کا کسی دوسرے کے قول و فعل میں دلیل طلب کئے بغیر اس کو حق سمجھتے ہوئے اتباع کرے۔
جائز و ناجائز اتباع و تقلید
تقلید کی بھی دو قسمیں ہیں۔ اگرحق کی مخالفت کے لئے کسی کی تقلید کرے تو یہ مذموم ہے جیسا کہ کفار و مشرکین، خدا اور رسول صلی الله علیہ وسلم کی مخالفت کے لئے اپنےآباء واجداداور پیشواؤںکی تقلید کرتے تھے۔ اگر حق پر عمل کرنے کے لئےوہ اس وجہ سے تقلید کرتا ہےکہ وہ مسائل کا براہ راست استنباط نہیں کرسکتا اور مجتہد کیونکہ کتاب و سنت کواسسے زیادہ سمجھتا ہے ۔ اسلئے اگر اسکو اللہ ا و رسول صلی الله علیہ وسلم کی بات سمجھ کر عمل کرے تویہ تقلید جائز اور واجب ہے ۔
علامہ خطیب بغدادی شافعی (٣٩٢-٤٦٢ھ) فرماتے ہیں:
احکام کی دو قسمیں ہیں: عقلی اور شرعی۔
عقلی احکام (ایمانیات یا عقائد)میں تقلید جائز نہیں، جیسے ایمان باللہ ،صانع عالم (جہاں کا بنانےوالا) اور اس کی جملہ صفات (خوبیوں) کی معرفت (پہچان)اس کے ساتھ کسی کوشریک نہ ٹھرانا، اللہ کو عالم الغیب جاننا، حیات ممات میں اللہ کی قدرت کاملہ کا اقرارکرنا اقرا ربالسان اور تصدیق بالقلب کے ساتھ، اسی طرح رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی تصدیق اور آپ کے برحق ہونےکی معرفت وغیرہ
عبید الله بن حسن عنبری سے منقول ہے کہ وہ اصول دین میں بھی تقلید کو جائز کہتے ہیں، لیکن یہ غلط ہے اس لئے کہ الله تعالیٰ فرماتے ہیں کہ "تمہارے رب کی طرف سے جو وحی آئی اسی پر عمل کرو، اس کے علاوہ دوسرے اولیاء کی اتباع نہ کرو، کس قدر کم تم لوگ نصیحت حاصل کرتے ہو" (٧:٣)۔
اسی طرح الله تعالیٰ فرماتے ہیں کہ "جب ان سے کہا جاتا ہے کہ الله کی اتاری ہوئی کتاب کی اتباع کرو تو وہ لوگ کہتے ہیں کہ نہیں، ہم اس چیز کی اتباع کرینگے جس پر ہم نے اپنے باپ دادہ کو پایا، چاہے ان کے باپ دادا بے عقل اور بے ہدایت ہوں" (٢:١٧٠)
اسی طرح الله تعالیٰ فرماتے ہیں کہ"ٹھہرالیا اپنے عالموں اور درویشوں کو خدا (یعنی الله کے واضح احکام حلال و حرام کے خلاف ان کو حاکم (حکم دینے والا) اللہ کو چھوڑ کر)... "(٩:٣١)
دوسری قسم: احکام شرعیہ کی ہے، اور ان کی دو قسمیں ہیں:
(۱) دین کے وہ احکام جو وضاحت و صراحت سے معلوم ہوں، جیسے زنا و شراب کی حرمت ہونا وغیرہ تو ان میں تقلید جائز نہیں ہے کیونکہ ان کے جاننے میں سارے لوگ برابر ہیں،
(۲)دین کے وہ احکام جن کو نظر و استدلال کے بغیر نہیں جانا جاسکتا، جیسے: عبادات، معاملات، نکاح وغیرہ کے "فروعی" مسائل، تو ان میں تقلید کرنی ہے۔
وہ لوگ جن کو تقلید کرنی ہے (یہ) وہ حضرات ہیں جن کو احکام شرعیہ کے استنباط کے طریقے معلوم نہیں ہیں، تو ان کے لئے "کسی" عالم کی تقلید اور اس کے قول پر عمل کے بغیر چارہ کارنہیں ہے
الله تعالیٰ کا ارشاد ہے: " فَسـَٔلوا أَهلَ الذِّكرِ إِن كُنتُم لا تَعلَمونَ (النحل:۴۳والانبیا:۷) پس تم سوال کرو اہل علم (علماء) سے، اگر تم نہیں علم رکھتے"۔
یہ آیت شریفہ گو اہل کتاب کے بارے میں نازل ہوئی مگر قاعدہ ہے
العبرۃ بعموم اللفظ لا بخصوص السبب (لفظ کے عموم کا اعتبار ہوگا نہ کہ شان نزول کا سبب) اسلئے یہاں ’’ اہل الذکر‘‘ بوجہ عموم مسلمان بھی شامل ہیں،وہ کیسے،لیجئے
وانزلنا الیک الذکر لتبین للناس ما نزل الیہم ولعلہم یتفکرون (نحل :۴۴) یہ ذکر(کتاب) ہم نے آپ کی طرف اتارا ہے ،لوگوں کی جانب نازل فرمایا ہے ،آپ اسے کھول کھول کر بیان کردیں ،شاید کہ لوگ غور و فکر کریں۔
یہاں ذکر سے مراد قرآن شریف ہے ۔اس لئے اہل ذکر میں مسلمان آتے ہیں۔
فقط واللہ اعلم بالصواب
دعا کا طالب
عابد الرحمٰن بجنوری
انڈیا
حضرت محترم میں آپ کا مشکور ہوں کہ آپ نے اپنی علمی کاوش سے ہمیں بھی مستفید ہونے کا موقع فراہم کیا۔ اللہ عزوجل آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔
حضرت جی آپ کی تحریر سے متعق کچھ سوالات ہیں براہ کرم وضاحت فرمائے گا:
۱۔ تقلید کی جو اصطلاحی تعریف آپ نے کی ہے وہ مجھے احناف کی اصول فقہ کی کسی کتاب میں نہیں ملی، خود آپ نے اس کے بعد جو تعریف عربی میں حوالے کیساتھ پیش کی ہے وہ آپ کی پہلے والی اصطلاحی تعریف سے مختلف ہے۔ یہ تعریف ہمیں کہاں ملے گی، ذرا حوالہ دے دیجئے۔۔۔
۲۔ آپ نے فرمایا کہ احکام عقلی یعنی عقائد و ایمانیات میں تقلید جائز نہیں گویا آپ کے نزدیک ان حضرات کا عمل غلط ہوا جو عقائد میں ماتریدیہ اور اشعریہ کی تقلید کرتے ہیں؟
۳۔ آپ نے فرمایا کہ فروعی مسائل میں جن حضرات کو احکام شرعیہ کے استنباط کے طریقے معلوم نہیں ہیں تو ان کے لئے "کسی" عالم کی تقلید اور اس کے قول پر عمل کے بغیر چارہ کارنہیں ہے۔ گویا آپ عامی کا عالم کی تقلید کرنے کو تو صحیح سمجھتے ہیں (ہمیں بھی اس پر کوئی اعتراض نہیں) لیکن یہ فرمائے گا کہ عالم کا کسی مذہب یا امام کی تقلید کرنا آپ کے نزدیک کیسا ہے؟