• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

’’ربنا لک الحمد۔۔۔‘‘ آہستہ پڑھیں یا بآواز بلند؟

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,805
پوائنٹ
773
جہرکی پانچویں دلیل اوراس کا جائزہ:

امام بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

أَخْبَرَنَا أَبُو الْقَاسِمِ التَّاجِرُ، بِالرِّيِّ أنبأ أَبُو حَاتِمٍ مُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى، أنبأ إِسْحَاقُ، عَنْ عَبْدِ الرَّزَّاقِ، عَنِ ابْنِ جُرَيجٍ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أُمَيَّةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ، وَهُوَ إِمَامُ النَّاسِ فِي الصَّلَاةِ يَقُولُ: " سَمِعَ اللهُ لِمَنْ حَمِدَهُ اللهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ اللهُ أَكْبَرُ يَرْفَعُ بِذَلِكَ صَوْتَهُ وَنُتَابِعُهُ مَعًا "
(السنن الكبرى للبيهقي 2/ 138 :کتاب الحیض(ابواب الصلوٰة):باب الامام یجمع بین قولہ سمع اللہ لمن حمدہ ربنالک الحمد وکذا المأموم،رقم(2615)۔نشاط العبدص٤٨ )۔
سعید بن ابی سعید فرماتے ہیں کہ انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو نماز میں لوگوں کی امامت کراتے ہوئے یہ کہتے ہوئے سنا : سمع اللہ لمن حمدہ اللہم ربنا لک الحمد اللہ أکبر، ابوہریرہ رضی اللہ عنہ یہ کلمات بلند آواز سے پڑھتے اور ہم بھی ان کے ساتھ یہ کلمات کہتے ۔


جواب:
أولا:
یہ روایت سخت ضعیف ہے اس کے کئی اسباب ہیں :
(الف) :ـ
ابن جریج نے عن سے روایت کیا ہے ، اور یہ خطرناک قسم کے مدلس ہیں۔

امام دارقطنی فرماتے ہیں:
'' یتجنب تدلیسہ فانہ وحش التدلیس،لا یدلس الافیماسمعہ من مجروح مثلا ابراھیم بن أبی یحیی،وموسی بن عبیدہ وغیرھما ''(سؤالات الحاکم النیسابوری للدارقطنی:١٧٤١رقم٢٦٥)۔

امام احمد فرماتے ہیں:
''بعض ھذہ الاحادیث التی کان یرسلھا ابن جریج أحادیث موضوعة ، کان ابن جریج لا یبالی من أین أخذھا یعنی قولہ أخبرت،وحدثت عن فلان''(العلل و معرفةالرجال: ٢ ٥٥١ )۔

(ب) :ـ

ابن جریج سے نقل کرنے والے ''عبد الرزاق بن ہمام'' ہیں ۔

اول: تو انہوں نے عن سے روایت کیا ہے اوریہ مدلس ہیں ،دیکھیں : طبقات المدلسین = تعریف أہل التقدیس بمراتب الموصوفین بالتدلیس ص 34 نیز ملاحظہ ہو :الضعفاء للعقیلی :ج ٣ص ١١٠۔ ذہبی عصر علامہ معلمی رحمہ اللہ نے بھی ان کے تدلیس کی وجہ سے بعض روایات پرکلام کیا ہے، دیکھئے: (الفوائد المجموعة ص: 347)

دوم:یہ آخری عمر میں مختلط ہو گئے تھے اور یہ روایت ان سے اختلاط کے بعد نقل کی گئی ہے کیونکہ اس کے ناقل ''اسحاق''ہیں اوریہ اسحاق بن ابراہیم الدبری '' ہیں جیساکہ محلی ابن حزم (١٥٦٣)میں ''الدبری'' کے ساتھ ان کی تعین موجودہے، ،اور ان کے بارے میں ائمہ جرح و تعدیل کا فیصلہ ہے کہ انہوں نے عبدالرزاق سے جو بھی روایت لی ہے وہ اختلاط کے بعدکی ہے ۔
امام ابو حاتم فرماتے ہیں:
''یکتب حدیثہ ولا یحتج بہ'' (الجرح والتعدیل:٣٨٦رقم ٢٠٤)۔
حافظ ابن حجر لکھتے ہیں :
''ثقة حافظ مصنف شھیرعمی فی آخرعمرہ فتغیر وکان یتشیع'' (تقریب :٣٥٤٢ رقم ٤٠٦٤)۔
امام نسائی فرماتے ہیں:
''فیہ نظر لمن کتب عنہ بآخرة کتب عنہ أحادیث مناکیر'' (الضعفاء و المتروکین:٦٩١رقم ٣٧٩)۔

امام ابن الصلاح فرماتے ہیں:
'' قد وجدت فیما روی عن الطبرانی عن اسحاق بن ابراہیم الدبری،عن عبدالرزاق أحادیث استنکرتھا جداً فاحلت أمرھا علی ذلک فأن سماع الدبری منہ متأخرجداً''(مقدمة ابن صلاح:٢٤٦١)۔

(ج) :ـ
عبدالرزاق سے نقل کرے والے '' اسحاق بن ابراہیم الدبری '' یہ خود بھی متکلم فیہ ہیں ، امام ذہبی لکھتے ہیں :
''ماکان صاحب حدیث،وانماأسمعہ أبوہ واعتنی بہ ،سمع من عبدالرزاق تصانیفہ،وھوابن سبع سنین أو نحوھا،لکن روی عن عبدالرزاق أحادیث منکرة،فوقع التردد فیھا ھل ھی منہ فانفرد بھا،أوھی معروفة مما تفرد بہ عبد الرزاق'' (میزان الاعتدال:ج١ص١٨١رقم (٧٣١))

شیخ ألبانی لکھتے ہیں :
''فیہ کلام معروف''،الضعیفة:ج ٧ ص١٠٤ رقم (٣١٠٣)أیضاً الضعیفةتحت الرقم(٥٧٨٢))۔




ثانیاً:
اگر اس روایت کو صحیح مان لیا جائے تو پھر ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے اس عمل کو تعلیم پرمحمول کیاجائے گا جیساکہ عمر فاروق اور عثمان رضی اللہ عنہما دعا ء ثنا ء جہراً پڑھتے تھے اور اسے تعلیم پر محمول کیا جاتاہے ، کمامضی ۔


تنبیہ بلیغ :
علامہ راشدی رحمہ اللہ اس حدیث کو ذکرکرنے کے بعدلکھتے ہیں:

'' اس جگہ امام اور مقتدیوں کا جہراً کہنا ثابت ہوا '' (نشاط العبدص٤٨)۔

(الف)
ہم کہتے ہیں کہ مقتدیوں کے جہر کی صراحت اس حدیث میں ہرگزنہیں ہے ، شاید علامہ راشدی رحمہ اللہ کو ''ونتابعہ معاً ''سے مغالطہ ہواہے ،حالانکہ متابعت میں صرف ''کوئی کام ساتھ ساتھ کرنے'' کا معنی پایا جاتاہے نہ کہ ''ایک ہی کیفیت وشکل میں کرنے '' کا معنی ۔

(ب)
''ونتابعہ معاً ''سے پہلے جو امام کے الفاظ ہیں وہ صرف اللہم ربنا لک الحمدہی نہیں ہیں بلکہ'' سمع اللہ لمن حمدہ اللہم ربنا لک الحمد اللہ أکبر'' ہیں، یعنی تحمید کے ساتھ ساتھ اس سے پہلے والی تسمیع اور اس کے بعد والی تکبیر کا بھی ذکرہے اور پھر مقتدیوں کا طرز عمل ذکر ہے کہ ''ونتابعہ معاً '' اس کا مطلب یہ ہوا کہ مقتدی حضرات امام کے پیچھے تسمیع ، تحمید اورتکبیر تینوں ساتھ ساتھ کہتے تھے ،اور لطف تو یہ ہے کہ امام بیہقی نے اسی چیز(مقتدی بھی سمع اللہ حمدہ کہے) کو ثابت کرنے کے لئے ہی یہ حدیث اپنی کتاب میں ذکرکی ہے ، چنانچہ امام بیہقی نے اس حدیث کو ذکر کرنے سے پہلے یہ باب قائم کیا ہے :

''الامام یجمع بین قولہ ''سمع اللہ لمن حمدہ وربنالک الحمد'' وکذالماموم''

یعنی امام کے ساتھ ساتھ مقتدی حضرات کو بھی ''سمع اللہ لمن حمدہ وربنالک الحمد'' (دونوں) کہناچاہئے۔
اسی طرح اس حدیث کی تخریج علامہ ابن حزم نے بھی کی ہے اور ان کامقصود بھی اسی چیز کااثبات ہے (المحلی :١٥٦٣)،اس تفصیل سے معلوم ہواکہ ''ونتابعہ معاً'' کا مطلب یہ ہے کہ مقتدی حضرات امام کے پیچھے سمع اللہ لمن حمدہ وربنالک الحمد دونوں ساتھ ساتھ کہتے تھے ۔ اب اگر ''ونتابعہ معاً'' میں جہرکا معنی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ مقتدی حضرات سمع اللہ لمن حمدہ بھی جہر سے کہتے تھے ! اور اگر یہاں اس کے جہر کی دلیل نہیں تو پھر ربنا لک الحمد کے جہر کی بھی دلیل نہیں ، فافھم ۔




جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,805
پوائنٹ
773
جہر کی چھٹی دلیل اور اس کا جائزہ۔

امام بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

وَأَخْبَرَنَا أَبُو زَكَرِيَّا بْنُ أَبِي إِسْحَاقَ الْمُزَكِّي، أنبأ عَبْدُ الْبَاقِي بْنُ قَانِعٍ الْقَاضی بِبَغْدَادَ، ثنا إِسْحَاقُ بْنُ الْحَسَنِ الْحَرْبِيُّ، ثنا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، ثنا عَبْدُ اللهِ بْنُ مَيْسَرَةَ، ثنا إِبْرَاهِيمُ بْنُ أَبِي حُرَّةَ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْأَشْعَثِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَمْ يَحْسُدُونَا الْيَهُودُ بِشَيْءٍ مَا حَسَدُونَا بِثَلَاثٍ: التَّسْلِيمِ وَالتَّأْمِينِ، وَاللهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ "
ام المؤمنین عائشہ رضی للہ عنہا سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : '' یہود جتناتین چیزوںمیں ہم سے حسد کرتے اتنا اور چیزوں میں نہیں کرتے : سلام کرنے میں ، آمین کہنے میں ، اللھم ربنالک الحمدکہنے میں''(السنن الكبرى للبيهقي 2/ 82:ـکتاب الحیض(ابواب الصلوٰة):باب التامین رقم 2443 ،نشاط العبدص٢٣)۔

جواب:
یہ روایت سخت ضعیف ہے تفصیل ملاحظہ ہو :

(الف ) : ـ
سند میں ''ابراہیم بن أبی حرہ '' ہیں یہ متکلم فیہ ومختلف فیہ راوی ہیں امام ساجی سے ان کی تضعیف منقول ہے( میزان الاعتدال:ج ١ص٢٦)علامہ ألبانی نے اسی راوی کی وجہ سے اس روایت کو منکر قرار دیاہے ،دیکھیں :سلسلةالأحادیث الضعیفة رقم(٦٩٥٥)۔

(ب) :ـ
سند میں ایک دوسرے راوی '' عبداللہ بن میسرة '' ہیں یہ قطعی طورپر ضعیف راوی ہیں:

امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں:
''ضعیف '' ( الجرح والتعدیل:١٧٧٥رقم ٨٣١)۔
امام نسائی فرماتے ہیں :
''ضعیف'' (الضعفاء والمتروکین:٦٥١رقم٣٤)۔
امام دارقطنی فرماتے ہیں:
''ضعیف'' (کتاب الضعفاء والمتروکین:١٤١رقم ٣١٦)۔
امام یحیی بن معین فرماتے ہیں:
''ضعیف الحدیث'' (تاریخ ابن معین:٢٦٤٣رقم ١٢٤١روایة الدوری)۔
امام ابوزرعہ فرماتے ہیں:
''واھی الحدیث،ضعیف الحدیث'' ( الجرح والتعدیل:١٧٧٥رقم ٨٣١)۔
امام بیہقی فرماتے ہیں :
''متروک'' (السنن الکبری:رقم 32)۔


حافظ ذہبی نے اس راوی (عبداللہ بن میسرة )کی وجہ سے ضعیف قرار پانے والی سندوں میں درج ذیل سند بطور مثال پیش کی ہے :
''مسلم بن ابراہیم حدثنا عبداللہ بن میسرة عن ابراہیم بن أبی حرة عن مجاہد ...'' (میزان:ج٢ص٥١١رقم (٤٦٤١))۔
اور یہ روایت اسی سند کے ساتھ ہے لہٰذا ضعیف ہے ۔

علامہ ألبانی رحمہ اللہ نے بھی اس راوی کی روایات کوضعیف قرار دیا ہے ، مثلاً دیکھئے الضعیفة رقم (٢٢٠١)÷

القول المقبول کے مؤلف نے اسی راوی کی وجہ سے اس روایت کو ضعیف قرار دیاہے۔
موصوف لکھتے ہیں :

''یہ سند ضعیف ہے کیونکہ اس میں '' عبداللہ بن میسرة '' ہے جو ضعیف ہے جیساکہ تقریب میں ہے '' ( القول المقبول : ص ٣٦٦۔ از عبدالرؤف بن عبدالحنان )۔



تنبیہ:۔
علامہ راشدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
''اس(عبداللہ بن میسرة ) پر اتنے شدید جروح وارد نہیں ہیں جوکہ اس کی روایات کوبالکل رد کر دی جائے (کذا)بلکہ جروح بھی غیر مفسر واقع ہیں بلکہ ابن حبان نے ضعفاء میں کہاہے کہ لایحل الاحتجاج بخبرہ، جس کا مطلب یہ ہواکہ اس کی روایت احتجاجاً نہیں مگر استشہاداً پیش کی جاسکتی ہے جس طرح آمین بالجہر کی دوسری روایتو ں کے ساتھ شہادت کے لئے یہ روایت پیش کی جاسکتی ہے اس طرح اس مسئلہ میں بھی شہادت کا کام دے سکتی ہے '' (نشاط العبد:ص٢٤)۔

ہم کہتے ہیں کہ علامہ راشدی رحمہ اللہ نے جویہ کہاکہ:

''اس پر اتنے شدید جروح وارد نہیں ''​

توعرض ہے کہ یہ جرحیں اتنی خفیف بھی نہیں ہیں کہ اس کی روایت صحیح تسلیم کرلی جائے ، صحیح تو کجا اس کی روایت حسن لذاتہ بھی نہیں بن سکتی ،کیونکہ اسے''لیس بشیٔ''،''لیس بثقة''، ''ضعیف''، ''ضعیف الحدیث ''اور'' ذاھب الحدیث'' بلکہ ’’متروک‘‘ وغیرہ کہا گیاہے (کما مضی ) اور اس طرح کی جرحیں جس راوی پر بھی واقع ہوجائیں اس کی روایت صحیح تو در کنار''حسن لذاتہ'' بھی نہیں بن سکتی، اور جہاں تک متاخرین کے اصول میں ''حسن لغیرہ'' کی بات ہے تو اس کے لئے معتبر شواہد و متابعات کی ضروت پڑتی ہے اور اس روایت کا سرے سے کوئی شاہد و متابع ہی نہیں ہے چہ جائے کہ وہ قابل اعتبارہو۔

علامہ راشدی رحمہ اللہ نے آگے کہا :
''بلکہ جروح بھی غیر مفسر واقع ہیں''​

ہم کہتے ہیں کہ جرح غیرمفسر صرف اس وقت رد کی جاتی ہے جب اس کے مقابل میں توثیق و تعدیل موجود ہو (تاہم اس میں بھی تفصیل ہے ) اور یہاں عبداللہ بن میسرہ پر کی گئی جروح کے مقابل میں کوئی توثیق موجود نہیں ہے بلکہ ائمہ جرح وتعدیل نے بالاتفاق اسے ضعیف قرار دیاہے ۔

علامہ راشدی رحمہ اللہ نے مزیدکہا:
''بلکہ ابن حبان نے ضعفاء میں کہاہے کہ لایحل الاحتجاج بخبرہ ، جس کا مطلب یہ ہواکہ اس کی روایت احتجاجاً نہیں مگر استشہاداً پیش کی جاسکتی ہے ''

ہم کہتے ہیں کہ اگراس روایت کو استشہادا ً پیش کر سکتے ہیں تو ہمیں بتلائیے کہ آپ کے پاس اس کی ہم معنی وہ کون سی روایت ہے جس کی خاطر آپ اس روایت کو شاہد بنانا چاہتے ہیں؟ عصر حاضر کے عظیم محدث اور احادیث کی مطبوعہ اور غیر مطبوعہ کتابوںپر گہری نظر رکھنے والے علامہ ألبانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:''اس باب کی جتنی بھی حدیثیں ہیں ان میں سے کسی میں بھی ان دونوں حصوں کا ذکر نہیں ہے ''(الضعیفة تحت الرقم٩٦٥٥وسیاتی) لہٰذا اگر اس روایت کے علاوہ اس کی ہم معنی روایت (یعنی ربنالک الحمد پریہود ی حسد کی روایت ) کاسرے سے کوئی وجود ہی نہیں تو پھر شاہدو استشہاد کی بات کرناکیامعنی رکھتا ہے ۔

علامہ راشدی رحمہ اللہ نے آگے لکھا:
''جس طرح آمین بالجہر کی دوسری روایتو ں کے ساتھ شہادت کے لئے یہ روایت پیش کی جاسکتی ہے اس طرح اس مسئلہ میں بھی شہادت کا کام دے سکتی ہے ''

دیکھئے بات کہاں سے کہاں پہنچ گئی ! علامہ راشدی رحمہ اللہ ابھی تک تو شاہد شاہد کی بات کررہے تھے ، لیکن یہاں آکر بغیر کوئی شاہد حاضر کئے اسے ایک ثابت شدہ روایت کامقام دے کر ' 'مسئلہ ربنا لک الحمدبالجہر'' کی تائید میں پیش کردیا،اور''تائید''کو''شہادت ''سے تعبیرکردیا،جوکہ اصول تصحیح وتضعیف سے صریح روگردانی ہے کیونکہ فقہ میں ''کسی مسئلہ کی تائید'' اورفن حدیث میں ''کسی روایت کی شہادت '' یہ دونوں الگ الگ چیزیں ہیں ،اول الذکرمیں اتحادِ متن کی شرط نہیں جبکہ ثانی الذکرمیں اتحادِ متن لازم ہے،یہی وجہ ہے کہ''مسئلہ آمین بالجہر'' کی تائید میں ''آمین پر یہودی حسد والی روایت'' کو بے شک پیش کیا جاتاہے ،مگر '' آمین بالجہرکی روایت '' کی صحت کے لئے'' آمین پر یہودی حسدوالی روایت'' بطورشہادت کوئی نہیں پیش کرتاکیونکہ دونوں کا متن الگ الگ ہے۔ اور یہاںمعاملہ فقہ کے کسی مسئلہ کے ا ستنباط کانہیں بلکہ حدیث کی صحت کے اثبات کا ہے،لہٰذا علامہ رشدی رحمہ اللہ اگر اس روایت کو شہادت کے لئے پیش کرناچاہتے ہیں تو اس کی خاطر دوسری کوئی ایسی روایت تلاش کریں جس میں ہو بہو یہی متن موجود ہو ،یعنی ربنالک الحمد پریہود ی حسد کی بات ہو۔

ہم توکہتے ہیں کہ کسی دوسری روایت میں اس متن کاثابت ہوناتودرکنار،خوداسی روایت میں اس کاثبوت محل نظرہے کیونکہ اس روایت کے کسی بھی طریق میں اس ٹکڑے کا ذکر نہیں ہے (کماقال الألبانی فی الضعیفة(٦٩٥٥)وعبدالرؤف فی القول المقبول ص٣٦٦)لہٰذایہ زیادتی منکرہے حتی کہ اگر اس کی سندصحیح تسلیم کرلی جائے تب بھی یہ ٹکڑاغیرثابت شدہ ہی مانا جائے گاکیونکہ دریں صورت ثقات کی مخالفت کے باعث یہ زیادتی شاذقرارپائے گی،لہٰذاعلامہ راشدی رحمہ اللہ سب سے پہلے اسی روایت کی خیرمنائیں اس کاشاہدتلاش کرنا توبہت دور کی بات ہے۔


(ج) : ـ
سند میں ایک اور راوی '' عبد الباقی بن قانع '' ہیں علامہ ابن الجوزی نے اسے اپنی کتاب ''الضعفاء والمتروکین'' درج کیا ہے۔دیکھیں:(الضعفاء والمتروکین لابن الجوزی (2 82) رقم1810)
ان کے بارے میں ابو الحسن بن الفرات فرماتے ہیں:
''حدث بہ الاختلاط قبل موتہ'' (المختلطین:٧٠١ رقم ٢٧)۔

امام دارقطنی فرماتے ہیں :
''کان یخطیء ویصر علی الخطأ '' ( سؤالات حمزة :ص 236)

امام ابوبکرالبرقانی سے منقول ہے :
''ھو عندی ضعیف'' ( میزان:ج٢ص٥٣٢،٥٣٣رقم(٧٤٦))۔

محمدبن فتحون المالکی سے منقول ہے :
''لم أر أحدا ممن ینسب الی الحفظ أکثرأوھامامنہ،ولاأظلم أسانید، و لا أنکرمتونا'' (لسان لمیزان:٣٨٣٣ رقم ١٥٣٦)۔

ابن حزم سے منقول ہے :
''وجد فی حدیثہ الکذب البحت والبلاء المبین ،والوضع اللائح '' (أیضاً)۔

علامہ ألبانی نے اس راوی کے سبب بھی بعض روایات کو ضعیف قرار دیا ہے، مثلاًدیکھیں :سلسلةالأحادیث الضعیفة رقم (٦٦٠٦) ، (٦٦٣٦) ۔

(د) : ـ
متن میں اضطراب ہے علامہ ألبانی لکھتے ہیں :
''وحدیثہ ھذاید ل علی ضعف فیہ، فانہ اضطرب فی متنہـکماتریـفانہ فی الروایة الأولی ذکرثلاث خصال، وفی الأخری اثنین وذکر فی ھذہ ''الأذان'' وفی الأولی جملة الحمد(ربنالک الحمد)'' ( سلسلةالأحادیث الضعیفةج١٤ ص١٠٥١رقم الحدیث (٦٩٥٥))۔

ایک طرف سند میں کئی رواة کا متکلم فیہ ہونااور دوسری طرف متن میںواضح اضطراب یہ اس بات کا قوی ثبوت ہے کہ یہ حدیث صحیح نہیں ۔

(ھ) :ـ
متن میں نکارت بھی ہے کیونکہ یہ حدیث کئی طرق سے مروی ہے لیکن کسی میں بھی ربنالک الحمد کا ذکر نہیں ہے ، علامہ ألبانی لکھتے ہیں :
''ولم ترد ھاتان الخصلتان فی شیٔ من الأحادیث الواردة فی الباب فھما منکرتان بل انہ قد خولف فی متنہ فرواہ عمروبن قیس عن محمد بن الأشعث بہ علی لفظ آخر''( سلسلةالأحادیث الضعیفة(١٠٥١١٤):رقم٦٩٥٥)۔

ان تمام وجوہات کی بنا پر یہ روایت سخت ضعیف ہے،لہٰذا لائق حجت نہیں۔




جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,805
پوائنٹ
773
جہر کی ساتویں دلیل اور اس کاجائزہ:

حدیث کے مطابق پہلے سمع اللہ لمن حمدہ کہا جاتا ہے اور اس کے بعد ربنالک الحمد پڑھاجاتا ہے یعنی سمع اللہ لمن حمدہ یہ متبوع ہے اور ربنا لک الحمد یہ تابع ہے اور تابع متبوع کے حکم میں ہوتا ہے ،لہٰذا اگر متبوع جہراً ہے تو تابع بھی جہراً ہونا چاہئے،( نشاط العبد:ص ٩)۔

علامہ راشدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
''جو حکم متبوع کا ہوگا وہی تابع کا ہونا چاہئے ، یعنی اگر متبوع جہراً ہے تو تابع بھی جہراً اور سراً ہے تو تابع بھی سراً ہونا چاہئے '' ( نشاط العبد:ص ٩)۔

جواب:

تابع متبوع سے علامہ راشدی رحمہ اللہ کی کیا مراد ہے اس کی مزید وضاحت کے لئے آں جنا ب کی طرف سے پیش کردہ یہ سوال و جواب ملاحظہ فرمائیے :

'' سوال : نماز میں درود کے لئے بھی ''قولوا''وارد ہے ؟ جواب: لیکن درود تشہد کے تابع ہے اور اور تشہد کا اخفاء کرنا ہی سنت ہے ،(مشکوة ص ٨٥) فحکم التابع کمتبوعہ '' ( نشاط العبدص١٢)۔

دراصل علامہ راشدی رحمہ اللہ نے ایک بحث میں کہا ہے کہ''قولوا'' کامطلب ہوتاہے جہر سے کہنا ،ربنا لک الحمد کے لئے ''قولو ا'' مستعمل ہے لہٰذا اسے جہر سے کہیں گے ، لیکن چونکہ حدیث میں درود کے لئے بھی ''قولو ا''مستعمل ہے لہٰذا اعتراض ہو سکتا تھا کہ پھر درود بھی جہر سے ہوناچاہئے ، اس اعتراض کو رفع کرنے کے لئے موصوف نے یہاں پھر تابع متبوع کا قائدہ دہرا دیا کہ درود تشہد کے تابع ہے، اور تشہد مخفی ہوتا ہے لہٰذا درود مخفی ہونا چاہئے ،موصوف کی اس تحریر سے یہ بات واضح ہوگئی کہ موصوف کے نزدیک ایک چیز کے بعد دوسری چیز کا ذکر ہو تو یہاں پر تابع متبوع کی صورت پائی جائے گی ۔


اب جوابات ملاحظہ ہو:

أولاً:

اگریہی قائدہ ہے توپھر اس قائدہ کی رو سے پوری نماز ہی بلند آواز سے پڑھنی پڑے گی ، کیونکہ نماز کے ہر حصے میں اسے فِٹ کیا جا سکتا ہے ،چنانچہ نماز کی ہر دعاء تکبیر کے بعد پڑھی جاتی ہے مثلاً ثناء کی دعاء ، رکوع کی دعاء ، سجدہ کی دعاء ، جلسہ کی دعاء ، تشہد کی دعاء وغیرہ وغیرہ اس لحاظ سے یہ دعائیں متبوع ہوئیں اور تکبیرات تابع ہوئیں ، پھر تکبیرات بلند آواز سے پڑھی جاتی ہیں لہٰذا اس کے بعدکی دعائیں بھی بآوا ز بلند پڑھنی چاہئے کیونکہ تابع اور متبوع کا حکم ایک ہوتا ہے ،اب یہاں پر فریق دوم کیا فرمائیں گے ؟فماکان جوابکم فھوجوابنا۔

ثانیاً:

علامہ راشدی رحمہ اللہ نے اس بات کو تسلیم کیاہے کہ مقتدی حضرات کے لئے بھی سمع اللہ لمن حمدہ پڑھناضروری ہے ( نشاط العبد ص ٥٣، ٥٤)۔اب سوال یہ ہے کہ مقتدی حضرات سمع اللہ لمن حمدہکس طرح کہیں گے جہراً یا سراً؟ اگر سراً کہیں گے تو اس صورت میں انہیں ربنا لک الحمدبھی سراًپڑھناچاہئے کیونکہ ربنا لک الحمدیہ تابع ہے اور سمع اللہ لمن حمدہ یہ متبوع، اور تابع اور متبوع کا حکم ایک ہوتا ہے ،لہٰذا مقتدی کی سمع اللہ لمن حمدہ سراً ہے تو اس کی ربنا لک الحمدبھی سراًہونا چاہئے کیونکہ حکم التابع کمتبوعہ۔

غورکریں !اب یہی قائدہ کہہ رہا ہے کہ مقتدی حضرات آہستہ ربنا لک الحمدپڑھیں گے، اب اس کاکیاجواب ہوگا؟اور جہاں تک امام کی بات ہے تو امام تمام تکبیرات بلند پڑھتاہے اس کے باوجود اس کے بعد کی دعائیں آہستہ پڑھتاہے ، لہٰذا سمع اللہ لمن حمدہ کا بھی یہی حکم ہوگا کہ اس کے بعد کی دعاء ربنا لک الحمدکو آہستہ پڑھے ،کیونکہ سمع اللہ لمن حمدہ تکبیر ہی کے قائم مقام ہے جیسا کی خود علامہ راشدی رحمہ اللہ بھی اس بات کو تسلیم کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

''انتقالات کی تکبیریں مقتدیوں کوآہستہ کہنی چاہئیں اور سمع اللہ لمن حمدہ تکبیر کے قائم مقام ہے ،فافہم '' ( نشاط العبد:ص ٤٩)۔

واضح رہے کہ ''سمع اللہ لمن حمدہ'' کہنا امام کے ساتھ ساتھ مقتدی کے لئے بھی ضروری ہے (صفة صلوٰة النبی للألبانی(عربی)ص ١١٨،(ترجمہ شیخ عبد الباری) ص ١٩٩) ،
ربنا لک الحمدبالجہرپڑھنے کے سب سے بڑے قائل علامہ علامہ رشدی رحمہ اللہ کا بھی یہی موقف ہے( نشاط العبد ص ٥٣، ٥٤) مگرعام لوگ جوربنا لک الحمد بالجہرپڑھتے ہیں ان کے بارے میں یہی سننے دیکھنے میں آتاہے کہ جونہی ان کا امام ''سمع اللہ لمن حمدہ''کہتا ہے ، یہ لوگ فوراً بآواز بلند ''ربنا لک الحمد...''پڑھنا شروع کردیتے ہیں، سچ کہا گیاہے کہ جب ایک بدعت رواج پاتی ہے تو اس کی جگہ ایک سنّت مردہ ہوجاتی ہے ،(ہدایة الرواة مع تحقیق الألبانی ج ١ص ١٤١)، فالی اللہ المشتکی۔


(ختم شد)
والحمد للہ
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,805
پوائنٹ
773
الحمدللہ کمپوزنگ مکمل ہوئی یہ ہماری اصل کتاب ’’ارشاد العبد الی اخفاء ربنا لک الحمد‘‘ کا اختصارہے، اصل کتاب مکمل کمپوزہوکر دہلی کے ایک پریس میں جاچکی ہے لیکن بعض وجوہات کی بنا پراس کی طباعت رکی ہوئی ہے۔ بعدمیں اس کتاب کا اختصارکیا گیا اوروہ چھپ کرعام بھی ہوئی اب اسی مختصرنسخے کو دوبارہ چھاپنے کی ایک صاحب نے اجازت مانگی ہے ، ان شاء اللہ نظرثانی کے بعد یہ نسخہ انہیں بھیج دیا جائے گا، چونکہ یہ مختصرنسخہ نظرثانی کے مرحلہ میں تھا اس لئے خیال ہوا کہ اسے یہاں بھی پیش کردیاجائے ، ہوسکتا ہے کسی بھائی کے ذریعہ اس سلسلے میں کچھ مزید معلومات مل جائے۔
اہل علم حضرات کے پاس کوئی فائدہ ، تبصرہ یا تنقید ہو تو پیش کریں ، ہم اس کا خیرمقدم کریں گے۔
جزاکم اللہ خیرا وبارک فیکم۔


ہم نے علامہ بدیع الدین شاہ الراشدی رحمہ اللہ کی جس کتاب کا جگہ جگہ حوالہ دیا ہے اسے آپ درج ذیل لنک سے ڈاؤنلوڈ کرسکتے ہیں :

کتاب کا نام نشاط العبد بجہر ربنا و لک الحمد
مصنف ابو محمد بدیع الدین راشدی
ناشر مکتبہ الدعوۃ السفیۃ
صفحات 58
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
جزاک اللہ واحسن الجزاء محترم کفایت اللہ بھائی جان۔ ماشاء اللہ نہایت ہی عمدہ کتابچہ ہے اور خوب مدلل۔ اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائیں اور اس کتابچہ کو ہمارے درمیان اتحاد کا ذریعہ بنا دیں۔ آمین یا رب العالمین۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
الحمدللہ کمپوزنگ مکمل ہوئی یہ ہماری اصل کتاب ’’ارشاد العبد الی اخفاء ربنا لک الحمد‘‘ کا اختصارہے،
بھائی جان، جب یہ کتاب شائع ہو جائے تو ازراہ کرم ہمیں بھی اس کی کمپوزنگ عنایت فرما دیجئے گا، تاکہ کتاب و سنت لائبریری میں اس کتاب کو شامل کیا جا سکے۔۔۔!
 
شمولیت
مارچ 13، 2011
پیغامات
22
ری ایکشن اسکور
150
پوائنٹ
31
السلام علیکم،

کفایت اللہ بھائی ماشاء اللہ بہت ہی عمدہ اور مدلل معلومات فراہم کی ہیں۔

امیدہے مزید تحقیقی معلومات سیکھنے کو ملئنگیں۔

اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائیں آمین یا رب العالمین۔

ابو عبداللہ
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,011
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
السلام علیکم ورحمتہ اللہ!

ماشاء اللہ کفایت اللہ بھائی نے ایسے اہم موضوع پر قلم اٹھایا ہے جس پر برائے نام لکھا گیا ہے۔ بہت بہترین تحقیق ہے اللہ آپ کو اجر عظیم عطا فرمائے۔آمین

راقم الحروف کے نزدیک اس مسئلہ میں اتنی گنجائش تو بہرحال موجود ہے کہ کوئی شخص کبھی کبھار جہراً ربناولک الحمد پڑھ لے کیونکہ جس صحابی نے بلند آواز سے ربناولک الحمد کہا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس صحابی کو جہر سے منع نہیں فرمایا۔ لیکن صحیح حدیث میں موجود اس جواز کی بنیاد پر اگر کوئی شخص اس کو اپنی عادت بنالے اور ہر نماز میں ربناولک الحمد کو جہراً پڑھنے لگے یا پھر تمام مقتدی بیک وقت ہر نماز میں ربناولک الحمد کو بلند آواز سے پڑھنے لگیں اس کی کوئی گنجائش یا جواز بہرحال حدیث میں موجود نہیں اور اس پر عمل پیرا لوگوں کو حدیث کو سمجھنے میں یقیناً غلطی ہوئی ہے۔

اسی موضوع پر قاری خلیل الرحمنٰ جاوید حفظہ اللہ نے بھی اپنی خوبصورت تالیف صلوۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حسین مناظر میں ایک مختصر اور جامع مضمون لکھا ہے بھائیوں کے استفادہ کے لئے اسے یہاں پیش کیا جارہا ہے۔ خلیل الرحمنٰ جاوید حفظہ اللہ کی یہ کتاب نماز سے متعلق لکھی گئی تمام کتابوں میں ایک منفرد مقام رکھتی ہے اس کتاب کی خاص بات یہ ہے کہ نماز سے متعلق تمام اختلافی موضوعات کا اس میں احاطہ کیا گیا ہے چاہے وہ اختلافات اہل حدیث کے درمیان ہوں یا اہل حدیث اور غیر اہل حدیث حضرات کے درمیان۔ جیسے جمعیت اہل حدیث سندھ کے اختلافی مسائل یعنی رکوع کے بعد ہاتھ باندھنا اور جہراً ربنا ولک الحمد پڑھنا یا غربا اہل حدیث کے اختلافی مسائل یعنی رکوع کی رکعت پا لینا اور مقتدیوں کا قرآنی آیات کا جواب دینا یا پھر غیر اہل حدیث کے اختلافی مسائل یعنی فاتحہ خلف الامام، رفع الیدین، آمین بالجہر اور جماعت المسلین کا خود ساختہ مسئلہ امام کے دو سکتات میں مقتدیوں کا سورہ فاتحہ پڑھنا وغیرہ

نوٹ: اس موضوع پر صدیق رضا حفظہ اللہ کی مستقل تصنیف بھی موجود ہے۔ دیکھئے: نماز میں سکتات کا مسئلہ اور جماعت المسلمین رجسٹرڈ

کتاب کی انہی منفرد خصوصیات کی بنا پر عبدالجبار شاکر رحمہ اللہ نے اس کتاب کو نماز کا مسنون انسائیکلو پیڈیا قرار دیا ہے۔ (دیکھئے صلوۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حسین مناظر ص 20)












 
Top