کفایت اللہ
عام رکن
- شمولیت
- مارچ 14، 2011
- پیغامات
- 5,001
- ری ایکشن اسکور
- 9,805
- پوائنٹ
- 773
جہرکی پانچویں دلیل اوراس کا جائزہ:
امام بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
أَخْبَرَنَا أَبُو الْقَاسِمِ التَّاجِرُ، بِالرِّيِّ أنبأ أَبُو حَاتِمٍ مُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى، أنبأ إِسْحَاقُ، عَنْ عَبْدِ الرَّزَّاقِ، عَنِ ابْنِ جُرَيجٍ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أُمَيَّةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ، وَهُوَ إِمَامُ النَّاسِ فِي الصَّلَاةِ يَقُولُ: " سَمِعَ اللهُ لِمَنْ حَمِدَهُ اللهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ اللهُ أَكْبَرُ يَرْفَعُ بِذَلِكَ صَوْتَهُ وَنُتَابِعُهُ مَعًا "
(السنن الكبرى للبيهقي 2/ 138 :کتاب الحیض(ابواب الصلوٰة):باب الامام یجمع بین قولہ سمع اللہ لمن حمدہ ربنالک الحمد وکذا المأموم،رقم(2615)۔نشاط العبدص٤٨ )۔
سعید بن ابی سعید فرماتے ہیں کہ انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو نماز میں لوگوں کی امامت کراتے ہوئے یہ کہتے ہوئے سنا : سمع اللہ لمن حمدہ اللہم ربنا لک الحمد اللہ أکبر، ابوہریرہ رضی اللہ عنہ یہ کلمات بلند آواز سے پڑھتے اور ہم بھی ان کے ساتھ یہ کلمات کہتے ۔
جواب:
أولا:
یہ روایت سخت ضعیف ہے اس کے کئی اسباب ہیں :
(الف) :ـ
ابن جریج نے عن سے روایت کیا ہے ، اور یہ خطرناک قسم کے مدلس ہیں۔
امام دارقطنی فرماتے ہیں:
'' یتجنب تدلیسہ فانہ وحش التدلیس،لا یدلس الافیماسمعہ من مجروح مثلا ابراھیم بن أبی یحیی،وموسی بن عبیدہ وغیرھما ''(سؤالات الحاکم النیسابوری للدارقطنی:١٧٤١رقم٢٦٥)۔
امام احمد فرماتے ہیں:
''بعض ھذہ الاحادیث التی کان یرسلھا ابن جریج أحادیث موضوعة ، کان ابن جریج لا یبالی من أین أخذھا یعنی قولہ أخبرت،وحدثت عن فلان''(العلل و معرفةالرجال: ٢ ٥٥١ )۔
(ب) :ـ
ابن جریج سے نقل کرنے والے ''عبد الرزاق بن ہمام'' ہیں ۔
اول: تو انہوں نے عن سے روایت کیا ہے اوریہ مدلس ہیں ،دیکھیں : طبقات المدلسین = تعریف أہل التقدیس بمراتب الموصوفین بالتدلیس ص 34 نیز ملاحظہ ہو :الضعفاء للعقیلی :ج ٣ص ١١٠۔ ذہبی عصر علامہ معلمی رحمہ اللہ نے بھی ان کے تدلیس کی وجہ سے بعض روایات پرکلام کیا ہے، دیکھئے: (الفوائد المجموعة ص: 347)
دوم:یہ آخری عمر میں مختلط ہو گئے تھے اور یہ روایت ان سے اختلاط کے بعد نقل کی گئی ہے کیونکہ اس کے ناقل ''اسحاق''ہیں اوریہ اسحاق بن ابراہیم الدبری '' ہیں جیساکہ محلی ابن حزم (١٥٦٣)میں ''الدبری'' کے ساتھ ان کی تعین موجودہے، ،اور ان کے بارے میں ائمہ جرح و تعدیل کا فیصلہ ہے کہ انہوں نے عبدالرزاق سے جو بھی روایت لی ہے وہ اختلاط کے بعدکی ہے ۔
امام ابو حاتم فرماتے ہیں:
''یکتب حدیثہ ولا یحتج بہ'' (الجرح والتعدیل:٣٨٦رقم ٢٠٤)۔
حافظ ابن حجر لکھتے ہیں :
''ثقة حافظ مصنف شھیرعمی فی آخرعمرہ فتغیر وکان یتشیع'' (تقریب :٣٥٤٢ رقم ٤٠٦٤)۔
امام نسائی فرماتے ہیں:
''فیہ نظر لمن کتب عنہ بآخرة کتب عنہ أحادیث مناکیر'' (الضعفاء و المتروکین:٦٩١رقم ٣٧٩)۔
امام ابن الصلاح فرماتے ہیں:
'' قد وجدت فیما روی عن الطبرانی عن اسحاق بن ابراہیم الدبری،عن عبدالرزاق أحادیث استنکرتھا جداً فاحلت أمرھا علی ذلک فأن سماع الدبری منہ متأخرجداً''(مقدمة ابن صلاح:٢٤٦١)۔
(ج) :ـ
عبدالرزاق سے نقل کرے والے '' اسحاق بن ابراہیم الدبری '' یہ خود بھی متکلم فیہ ہیں ، امام ذہبی لکھتے ہیں :
''ماکان صاحب حدیث،وانماأسمعہ أبوہ واعتنی بہ ،سمع من عبدالرزاق تصانیفہ،وھوابن سبع سنین أو نحوھا،لکن روی عن عبدالرزاق أحادیث منکرة،فوقع التردد فیھا ھل ھی منہ فانفرد بھا،أوھی معروفة مما تفرد بہ عبد الرزاق'' (میزان الاعتدال:ج١ص١٨١رقم (٧٣١))
شیخ ألبانی لکھتے ہیں :
''فیہ کلام معروف''،الضعیفة:ج ٧ ص١٠٤ رقم (٣١٠٣)أیضاً الضعیفةتحت الرقم(٥٧٨٢))۔
ثانیاً:
اگر اس روایت کو صحیح مان لیا جائے تو پھر ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے اس عمل کو تعلیم پرمحمول کیاجائے گا جیساکہ عمر فاروق اور عثمان رضی اللہ عنہما دعا ء ثنا ء جہراً پڑھتے تھے اور اسے تعلیم پر محمول کیا جاتاہے ، کمامضی ۔
تنبیہ بلیغ :
علامہ راشدی رحمہ اللہ اس حدیث کو ذکرکرنے کے بعدلکھتے ہیں:
'' اس جگہ امام اور مقتدیوں کا جہراً کہنا ثابت ہوا '' (نشاط العبدص٤٨)۔
(الف)
ہم کہتے ہیں کہ مقتدیوں کے جہر کی صراحت اس حدیث میں ہرگزنہیں ہے ، شاید علامہ راشدی رحمہ اللہ کو ''ونتابعہ معاً ''سے مغالطہ ہواہے ،حالانکہ متابعت میں صرف ''کوئی کام ساتھ ساتھ کرنے'' کا معنی پایا جاتاہے نہ کہ ''ایک ہی کیفیت وشکل میں کرنے '' کا معنی ۔
(ب)
''ونتابعہ معاً ''سے پہلے جو امام کے الفاظ ہیں وہ صرف اللہم ربنا لک الحمدہی نہیں ہیں بلکہ'' سمع اللہ لمن حمدہ اللہم ربنا لک الحمد اللہ أکبر'' ہیں، یعنی تحمید کے ساتھ ساتھ اس سے پہلے والی تسمیع اور اس کے بعد والی تکبیر کا بھی ذکرہے اور پھر مقتدیوں کا طرز عمل ذکر ہے کہ ''ونتابعہ معاً '' اس کا مطلب یہ ہوا کہ مقتدی حضرات امام کے پیچھے تسمیع ، تحمید اورتکبیر تینوں ساتھ ساتھ کہتے تھے ،اور لطف تو یہ ہے کہ امام بیہقی نے اسی چیز(مقتدی بھی سمع اللہ حمدہ کہے) کو ثابت کرنے کے لئے ہی یہ حدیث اپنی کتاب میں ذکرکی ہے ، چنانچہ امام بیہقی نے اس حدیث کو ذکر کرنے سے پہلے یہ باب قائم کیا ہے :
''الامام یجمع بین قولہ ''سمع اللہ لمن حمدہ وربنالک الحمد'' وکذالماموم''
یعنی امام کے ساتھ ساتھ مقتدی حضرات کو بھی ''سمع اللہ لمن حمدہ وربنالک الحمد'' (دونوں) کہناچاہئے۔
اسی طرح اس حدیث کی تخریج علامہ ابن حزم نے بھی کی ہے اور ان کامقصود بھی اسی چیز کااثبات ہے (المحلی :١٥٦٣)،اس تفصیل سے معلوم ہواکہ ''ونتابعہ معاً'' کا مطلب یہ ہے کہ مقتدی حضرات امام کے پیچھے سمع اللہ لمن حمدہ وربنالک الحمد دونوں ساتھ ساتھ کہتے تھے ۔ اب اگر ''ونتابعہ معاً'' میں جہرکا معنی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ مقتدی حضرات سمع اللہ لمن حمدہ بھی جہر سے کہتے تھے ! اور اگر یہاں اس کے جہر کی دلیل نہیں تو پھر ربنا لک الحمد کے جہر کی بھی دلیل نہیں ، فافھم ۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امام بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
أَخْبَرَنَا أَبُو الْقَاسِمِ التَّاجِرُ، بِالرِّيِّ أنبأ أَبُو حَاتِمٍ مُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى، أنبأ إِسْحَاقُ، عَنْ عَبْدِ الرَّزَّاقِ، عَنِ ابْنِ جُرَيجٍ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أُمَيَّةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ، وَهُوَ إِمَامُ النَّاسِ فِي الصَّلَاةِ يَقُولُ: " سَمِعَ اللهُ لِمَنْ حَمِدَهُ اللهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ اللهُ أَكْبَرُ يَرْفَعُ بِذَلِكَ صَوْتَهُ وَنُتَابِعُهُ مَعًا "
(السنن الكبرى للبيهقي 2/ 138 :کتاب الحیض(ابواب الصلوٰة):باب الامام یجمع بین قولہ سمع اللہ لمن حمدہ ربنالک الحمد وکذا المأموم،رقم(2615)۔نشاط العبدص٤٨ )۔
سعید بن ابی سعید فرماتے ہیں کہ انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو نماز میں لوگوں کی امامت کراتے ہوئے یہ کہتے ہوئے سنا : سمع اللہ لمن حمدہ اللہم ربنا لک الحمد اللہ أکبر، ابوہریرہ رضی اللہ عنہ یہ کلمات بلند آواز سے پڑھتے اور ہم بھی ان کے ساتھ یہ کلمات کہتے ۔
جواب:
أولا:
یہ روایت سخت ضعیف ہے اس کے کئی اسباب ہیں :
(الف) :ـ
ابن جریج نے عن سے روایت کیا ہے ، اور یہ خطرناک قسم کے مدلس ہیں۔
امام دارقطنی فرماتے ہیں:
'' یتجنب تدلیسہ فانہ وحش التدلیس،لا یدلس الافیماسمعہ من مجروح مثلا ابراھیم بن أبی یحیی،وموسی بن عبیدہ وغیرھما ''(سؤالات الحاکم النیسابوری للدارقطنی:١٧٤١رقم٢٦٥)۔
امام احمد فرماتے ہیں:
''بعض ھذہ الاحادیث التی کان یرسلھا ابن جریج أحادیث موضوعة ، کان ابن جریج لا یبالی من أین أخذھا یعنی قولہ أخبرت،وحدثت عن فلان''(العلل و معرفةالرجال: ٢ ٥٥١ )۔
(ب) :ـ
ابن جریج سے نقل کرنے والے ''عبد الرزاق بن ہمام'' ہیں ۔
اول: تو انہوں نے عن سے روایت کیا ہے اوریہ مدلس ہیں ،دیکھیں : طبقات المدلسین = تعریف أہل التقدیس بمراتب الموصوفین بالتدلیس ص 34 نیز ملاحظہ ہو :الضعفاء للعقیلی :ج ٣ص ١١٠۔ ذہبی عصر علامہ معلمی رحمہ اللہ نے بھی ان کے تدلیس کی وجہ سے بعض روایات پرکلام کیا ہے، دیکھئے: (الفوائد المجموعة ص: 347)
دوم:یہ آخری عمر میں مختلط ہو گئے تھے اور یہ روایت ان سے اختلاط کے بعد نقل کی گئی ہے کیونکہ اس کے ناقل ''اسحاق''ہیں اوریہ اسحاق بن ابراہیم الدبری '' ہیں جیساکہ محلی ابن حزم (١٥٦٣)میں ''الدبری'' کے ساتھ ان کی تعین موجودہے، ،اور ان کے بارے میں ائمہ جرح و تعدیل کا فیصلہ ہے کہ انہوں نے عبدالرزاق سے جو بھی روایت لی ہے وہ اختلاط کے بعدکی ہے ۔
امام ابو حاتم فرماتے ہیں:
''یکتب حدیثہ ولا یحتج بہ'' (الجرح والتعدیل:٣٨٦رقم ٢٠٤)۔
حافظ ابن حجر لکھتے ہیں :
''ثقة حافظ مصنف شھیرعمی فی آخرعمرہ فتغیر وکان یتشیع'' (تقریب :٣٥٤٢ رقم ٤٠٦٤)۔
امام نسائی فرماتے ہیں:
''فیہ نظر لمن کتب عنہ بآخرة کتب عنہ أحادیث مناکیر'' (الضعفاء و المتروکین:٦٩١رقم ٣٧٩)۔
امام ابن الصلاح فرماتے ہیں:
'' قد وجدت فیما روی عن الطبرانی عن اسحاق بن ابراہیم الدبری،عن عبدالرزاق أحادیث استنکرتھا جداً فاحلت أمرھا علی ذلک فأن سماع الدبری منہ متأخرجداً''(مقدمة ابن صلاح:٢٤٦١)۔
(ج) :ـ
عبدالرزاق سے نقل کرے والے '' اسحاق بن ابراہیم الدبری '' یہ خود بھی متکلم فیہ ہیں ، امام ذہبی لکھتے ہیں :
''ماکان صاحب حدیث،وانماأسمعہ أبوہ واعتنی بہ ،سمع من عبدالرزاق تصانیفہ،وھوابن سبع سنین أو نحوھا،لکن روی عن عبدالرزاق أحادیث منکرة،فوقع التردد فیھا ھل ھی منہ فانفرد بھا،أوھی معروفة مما تفرد بہ عبد الرزاق'' (میزان الاعتدال:ج١ص١٨١رقم (٧٣١))
شیخ ألبانی لکھتے ہیں :
''فیہ کلام معروف''،الضعیفة:ج ٧ ص١٠٤ رقم (٣١٠٣)أیضاً الضعیفةتحت الرقم(٥٧٨٢))۔
ثانیاً:
اگر اس روایت کو صحیح مان لیا جائے تو پھر ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے اس عمل کو تعلیم پرمحمول کیاجائے گا جیساکہ عمر فاروق اور عثمان رضی اللہ عنہما دعا ء ثنا ء جہراً پڑھتے تھے اور اسے تعلیم پر محمول کیا جاتاہے ، کمامضی ۔
تنبیہ بلیغ :
علامہ راشدی رحمہ اللہ اس حدیث کو ذکرکرنے کے بعدلکھتے ہیں:
'' اس جگہ امام اور مقتدیوں کا جہراً کہنا ثابت ہوا '' (نشاط العبدص٤٨)۔
(الف)
ہم کہتے ہیں کہ مقتدیوں کے جہر کی صراحت اس حدیث میں ہرگزنہیں ہے ، شاید علامہ راشدی رحمہ اللہ کو ''ونتابعہ معاً ''سے مغالطہ ہواہے ،حالانکہ متابعت میں صرف ''کوئی کام ساتھ ساتھ کرنے'' کا معنی پایا جاتاہے نہ کہ ''ایک ہی کیفیت وشکل میں کرنے '' کا معنی ۔
(ب)
''ونتابعہ معاً ''سے پہلے جو امام کے الفاظ ہیں وہ صرف اللہم ربنا لک الحمدہی نہیں ہیں بلکہ'' سمع اللہ لمن حمدہ اللہم ربنا لک الحمد اللہ أکبر'' ہیں، یعنی تحمید کے ساتھ ساتھ اس سے پہلے والی تسمیع اور اس کے بعد والی تکبیر کا بھی ذکرہے اور پھر مقتدیوں کا طرز عمل ذکر ہے کہ ''ونتابعہ معاً '' اس کا مطلب یہ ہوا کہ مقتدی حضرات امام کے پیچھے تسمیع ، تحمید اورتکبیر تینوں ساتھ ساتھ کہتے تھے ،اور لطف تو یہ ہے کہ امام بیہقی نے اسی چیز(مقتدی بھی سمع اللہ حمدہ کہے) کو ثابت کرنے کے لئے ہی یہ حدیث اپنی کتاب میں ذکرکی ہے ، چنانچہ امام بیہقی نے اس حدیث کو ذکر کرنے سے پہلے یہ باب قائم کیا ہے :
''الامام یجمع بین قولہ ''سمع اللہ لمن حمدہ وربنالک الحمد'' وکذالماموم''
یعنی امام کے ساتھ ساتھ مقتدی حضرات کو بھی ''سمع اللہ لمن حمدہ وربنالک الحمد'' (دونوں) کہناچاہئے۔
اسی طرح اس حدیث کی تخریج علامہ ابن حزم نے بھی کی ہے اور ان کامقصود بھی اسی چیز کااثبات ہے (المحلی :١٥٦٣)،اس تفصیل سے معلوم ہواکہ ''ونتابعہ معاً'' کا مطلب یہ ہے کہ مقتدی حضرات امام کے پیچھے سمع اللہ لمن حمدہ وربنالک الحمد دونوں ساتھ ساتھ کہتے تھے ۔ اب اگر ''ونتابعہ معاً'' میں جہرکا معنی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ مقتدی حضرات سمع اللہ لمن حمدہ بھی جہر سے کہتے تھے ! اور اگر یہاں اس کے جہر کی دلیل نہیں تو پھر ربنا لک الحمد کے جہر کی بھی دلیل نہیں ، فافھم ۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔