محمد عامر یونس
خاص رکن
- شمولیت
- اگست 11، 2013
- پیغامات
- 17,117
- ری ایکشن اسکور
- 6,800
- پوائنٹ
- 1,069
میرے بھائی غلط جگہ آپ نے پوسٹ کی ہےعمیر۔۔ میں نے جو نصیحتیں تم کو کی ہے اسے غورسے پڑھو ۔غصہ مت ہو ۔چونکہ میں نے تمہارے اندر بیت اچھی چیز دیکھی یے اس لیے یہ نصیحتیں کر رہا ہوں اور اللہ سے دعا کررہاہوں کہ وہ تمہیں ہدایت دے مجھے تسلیم ہے کہ تمہیں اچھا ماحول نہیں ملا ہے ورنہ تم ایسا نہ ہوتے ۔۔ اگرتم اپنا موبایل نمبر یا اسکایپ نام دیدو تو تم سے باتیں بھی کروں اور تمیہں کچھ سکھاوں بھی ۔
محترم بهائی!@محمد باقر بھائی
@اشماریہ بھائی
آپ یہ ویڈیو پوری دیکھے اور بتائے کہ یہ روزہ کی خود ساختہ الفاظ کس حدیث کی کتاب میں ہے
● روزے کی نیت ان الفاظ سے کرنا:
( وبصوم غد نویت من شہر رمضان )
*************************************
یہ الفاظ قرآن و حدیث میں کہیں ثابت نہیں ہیں بلکہ کسی جھوٹے انسان کے گھڑے ہوئے ہیں اور جس نے یہ الفاظ بنائے ہیں اس کو عربی زبان بھی نہیں آتی تھی کیو نکہ لفظ ''غد ''کے معنی ہیں ''کل''اور نیت کرنے والا آج کے روزے کی نیت کرتا ہے ،دین قرآن وحدیث کا نام ہے لوگوں کی باتیں ہرگز دین نہیں ہوسکتیں ۔نیت دل سے ہوتی ہے نہ کہ زبان سے۔
کیا ھمارے حنفی بھائی اپنے روزہ کی ابتدا بدعت سے نہیں کرتے ؟
محترم بھائی میں نے اوپر جو بات کی اسکے مطابق مندرجہ ذیل تعریف بنتی ہے
"بدعت وہ فعل ہے جو شریعت میں بلا واسطہ یا بلواسطہ ثابت نہ ہو اور اسے عبادت سمجھ کر کیا جائے۔"
محترم بهائی!
میں ویڈیو تو نہیں دیكھ سکتا کیوں کہ اس کے لیے وقت بھی چاہیے ہوتا ہے اور ویڈیو کی باتوں کو نوٹ بھی کرنا پڑتا ہے اور یہ مشکل ہے۔
البتہ جو بات آپ کو معلوم کرنی ہو وہ لکھ کر معلوم کر لیجیے۔
غد کا معنی ہے آنے والا کل۔ اور اس کی ابتدا صبح طلوع ہونے سے ہوتی ہے۔
فمثال الإضافة إلى الزمان المستقبل أن يقول لزوجته: أنت طالق غداً، وفي هذه الحالة تطلق منه عند حلول أول جزء من الغد، وهو طلوع الصبح
الفقہ علی المذاہب الاربع 4۔316 ط العلمیہ
"زمانہ مستقبل کی طرف نسبت کی مثال یہ ہے کہ اپنی بیوی سے کہے: تجھے کل طلاق ہے۔ اور اس حالت میں کل (غد) کے پہلے جزء کے آنے پر طلاق ہوگی اور وہ صبح کا طلوع ہونا ہے۔"
جس وقت نیت کے یہ الفاظ ادا کیے جا رہے ہوتے ہیں اس وقت طلوع صبح نہیں ہوئی ہوتی۔ اس لیے ان الفاظ کا اطلاق عربیت کے منافی نہیں ہے۔
باقی رہ گئی یہ بات کہ یہ بدعت ہے یا نہیں تو اس کے لیے محترم عبدہ بھائی کی یہ تعریف پڑھیے۔
نیت تو ثابت ہے۔ البتہ زبان سے کرنا ثابت نہیں ہے تو خاص زبان سے کرنے کو کوئی شخص عبادت یا ثواب سمجھ کر کرے تو یہ بدعت ہوگی۔ لیکن ایسا کیا نہیں جاتا۔ زبان سے جو کی جاتی ہے اسے عبادت نہیں سمجھا جاتا۔
اگر کہیں سمجھا جائے گا تو یہ بدعت ہوگی۔
واللہ اعلم
اس میں باقی سب باتیں درست ہیں اور خود میں بھی زبان سے نیت نہیں کرتا۔ البتہ زبان سے نیت کرنے کو بدعت کہنا درست نہیں۔ اور اس کی وجہ اوپر بیان کر چکا ہوں کیوں کہ اس کو عبادت یا ثواب نہیں سمجھا جاتا۔ بدعت کی تعریف پر پورا اترنا چاہیے۔برصغیر پاک وھند میں روزے کی نیت اس طرح کی جاتی ہے :
اے اللہ میں تیرے لیے یقینی روزے کی نیت کرتا ہوں میرے اگلے پچھلے گناہ معاف فرمادے ۔
اوریہ بھی کہا جاتا ہے : وبصوم غد نویت شھررمضان ۔ میں رمضان کے کل کے روزے کی نیت کرتا ہوں ۔
مجھے اس کے معنی ومراد کا علم نہیں ، لیکن کیا یہ نیت کرنی صحیح ہے ، اوراگر ایسا کرنا صحیح ہے توآپ سے گزارش ہے کہ اس کے معنی کی وضاحت کریں یا پھر قرآن وسنت میں سے صحیح نیت بتائيں ؟
الحمد للہ :
کوئی بھی عبادت چاہے وہ روزہ ہویا پھر نماز نیت کےبغیرصحیح نہیں کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
( اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے ، اورہر شخص کے لیے وہی ہے جووہ نیت کرتا ہے ۔۔۔ ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 1 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1907 ) ۔
فرضی روزے کے لیے شرط ہے کہ اس کی نیت رات کو طلوع فجر سے قبل کرلی جائے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
( جوشخص طلوع فجر سے قبل روزے کا ارادہ نہ کرے اس کا روزہ نہیں ) سنن ترمذی حدیث نمبر ( 730 )
نسائی کے الفاظ یہ ہيں :
( جوروزے کی نیت رات کو نہیں کرتا اس کا روزہ نہیں ہے )
سنن نسائي حدیث نمبر ( 2334 ) علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے صحیح الجامع ( 583 ) میں اسے صحیح قرار دیا ہے ۔
حدیث کا معنی یہ ہےکہ جورات کو روزہ رکھنے کاارادہ اورنیت نہ کرے اس کا روزہ نہیں ہے ۔
اورنیت کا تعلق دل ہے جوکہ ایک قلبی عمل ہے اس کا زبان سے کوئي تعلق نہیں اس لیے مسلمان کو دل سے ارادہ کرنا چاہیے کہ وہ کل روزہ رکھےگا ، اس کے لیے مشروع نہیں کہ وہ زبان سے یہ کہتا رہے میں روزے کی نیت کرتا ہوں یا میں حقیقتا تیرے لیے روزہ رکھ رہا ہوں ، یااس طرح کے دوسرے الفاظ جوآج کل لوگوں نےایجاد کررکھے ہیں وہ سب بدعت میں شمار ہوتے ہیں ۔
صحیح نیت یہی ہے کہ انسان دل سے ارادہ کرے کہ وہ صبح روزہ رکھے گا ، اسی لیے شیخ جب شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی سے سوال کیا گيا تو ان کا جواب تھا :
جس کے دل میں یہ بات آگئي کہ وہ صبح روزہ رکھے گا اس کی نیت ہوگئي ا ھـ ۔
دیکھیں الاختیارات صفحہ نمبر ( 191 ) ۔
لجنہ دائمۃ ( مستقل فتوی کمیٹی ) سے مندرجہ ذیل سوال کیا گيا ؟
انسان کورمضان میں روزے کی نیت کس طرح کرنی چاہیے ؟
تولجنۃ کا جواب تھا :
روزہ رکھنے کے عزم سے نیت ہوجائے گی ، اوررمضان میں ہررات کوروزے کی نیت کرنا ضروری ہے ۔ اھـ
دیکھیں فتاوی اللجنۃ الدائمۃ ( 10 / 246 ) ۔
واللہ اعلم .
http://islamqa.info/ur/37643