• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

★ روزہ رکھنےکی اصل نیت کیاہے؟ حقیقت ضرور دیکھیۓاور فیصلہ خودکریں

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290

برصغیر پاک وھند میں روزے کی نیت اس طرح کی جاتی ہے :

اے اللہ میں تیرے لیے یقینی روزے کی نیت کرتا ہوں میرے اگلے پچھلے گناہ معاف فرمادے ۔

اوریہ بھی کہا جاتا ہے : وبصوم غد نویت شھررمضان ۔ میں رمضان کے کل کے روزے کی نیت کرتا ہوں ۔

مجھے اس کے معنی ومراد کا علم نہیں ، لیکن کیا یہ نیت کرنی صحیح ہے ، اوراگر ایسا کرنا صحیح ہے توآپ سے گزارش ہے کہ اس کے معنی کی وضاحت کریں یا پھر قرآن وسنت میں سے صحیح نیت بتائيں ؟


الحمد للہ :

کوئی بھی عبادت چاہے وہ روزہ ہویا پھر نماز نیت کےبغیرصحیح نہیں کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :

( اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے ، اورہر شخص کے لیے وہی ہے جووہ نیت کرتا ہے ۔۔۔ ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 1 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1907 ) ۔

فرضی روزے کے لیے شرط ہے کہ اس کی نیت رات کو طلوع فجر سے قبل کرلی جائے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :

( جوشخص طلوع فجر سے قبل روزے کا ارادہ نہ کرے اس کا روزہ نہیں ) سنن ترمذی حدیث نمبر ( 730 )

نسائی کے الفاظ یہ ہيں :

( جوروزے کی نیت رات کو نہیں کرتا اس کا روزہ نہیں ہے )

سنن نسائي حدیث نمبر ( 2334 ) علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے صحیح الجامع ( 583 ) میں اسے صحیح قرار دیا ہے ۔

حدیث کا معنی یہ ہےکہ جورات کو روزہ رکھنے کاارادہ اورنیت نہ کرے اس کا روزہ نہیں ہے ۔

اورنیت کا تعلق دل ہے جوکہ ایک قلبی عمل ہے اس کا زبان سے کوئي تعلق نہیں اس لیے مسلمان کو دل سے ارادہ کرنا چاہیے کہ وہ کل روزہ رکھےگا ، اس کے لیے مشروع نہیں کہ وہ زبان سے یہ کہتا رہے میں روزے کی نیت کرتا ہوں یا میں حقیقتا تیرے لیے روزہ رکھ رہا ہوں ، یااس طرح کے دوسرے الفاظ جوآج کل لوگوں نےایجاد کررکھے ہیں وہ سب بدعت میں شمار ہوتے ہیں ۔

صحیح نیت یہی ہے کہ انسان دل سے ارادہ کرے کہ وہ صبح روزہ رکھے گا ، اسی لیے شیخ جب شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی سے سوال کیا گيا تو ان کا جواب تھا :

جس کے دل میں یہ بات آگئي کہ وہ صبح روزہ رکھے گا اس کی نیت ہوگئي ا ھـ ۔

دیکھیں الاختیارات صفحہ نمبر ( 191 ) ۔

لجنہ دائمۃ ( مستقل فتوی کمیٹی ) سے مندرجہ ذیل سوال کیا گيا ؟

انسان کورمضان میں روزے کی نیت کس طرح کرنی چاہیے ؟

تولجنۃ کا جواب تھا :

روزہ رکھنے کے عزم سے نیت ہوجائے گی ، اوررمضان میں ہررات کوروزے کی نیت کرنا ضروری ہے ۔ اھـ

دیکھیں فتاوی اللجنۃ الدائمۃ ( 10 / 246 ) ۔

واللہ اعلم .

http://islamqa.info/ur/37643
ویسے عامر بھائی ایک عجیب سی بات ہے۔

اس سائٹ کے اردو فتوی میں یہ لکھا ہے:۔
"اورنیت کا تعلق دل ہے جوکہ ایک قلبی عمل ہے اس کا زبان سے کوئي تعلق نہیں اس لیے مسلمان کو دل سے ارادہ کرنا چاہیے کہ وہ کل روزہ رکھےگا ، اس کے لیے مشروع نہیں کہ وہ زبان سے یہ کہتا رہے میں روزے کی نیت کرتا ہوں یا میں حقیقتا تیرے لیے روزہ رکھ رہا ہوں ، یااس طرح کے دوسرے الفاظ جوآج کل لوگوں نےایجاد کررکھے ہیں وہ سب بدعت میں شمار ہوتے ہیں ۔"

اور عربی فتوی میں اس ہائیلائٹڈ جملہ کا ذکر نہیں ہے۔
"والنية عمل قلبي ، فيعزم المسلم بقلبه أنه صائم غداً ، ولا يشرع له أن يتلفظ بها ويقول : نويت الصيام أو أصوم جاداً لك . . . الخ ، أو نحو ذلك من الألفاظ التي ابتدعها بعض الناس."

اور انگلش فتوی میں بھی اس بات کو ذکر نہیں کیا گیا:۔
"The intention (niyyah) is an action of the heart. The Muslim should resolve in his heart that he is going to fast tomorrow. It is not prescribed for him to utter it out loud and say, “I intend to fast” or “I will fast tomorrow” or other phrases that have been innovated by some people. The correct intention is when a person resolves in his heart that he is going to fast tomorrow. "


یہ تین زبانیں تو مجھے کچھ نہ کچھ آتی ہیں۔ باقیوں کا علم نہیں۔
نہ جانے کیا معاملہ ہے؟
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,786
پوائنٹ
1,069
زبان سے نیت کرنا بدعت ہیں

امام ابن ہمام حنفی فرماتے ہیں:


بعض حفاظ نے کہا ہے کہ کسی صحیح یا ضعیف سند سے بھی ثابت نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کی ابتدا کرتے وقت یہ فرماتے کہ میں فلاں نماز ادا کر رہا ہوں اور نہ ہی صحابہ یا تابعین میں سے کسی سے یہ منقول ہے۔ بلکہ جو منقول ہے وہ یہ کہ آپ جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو ’اللہ اکبر‘ کہتے، اور یہ (زبان سے نیت کرنا) بدعت ہے۔ (فتح القدیر شرح الہدایہ‘‘ (۱/۲۶۶،۲۶۷)

علامہ حموی حنفی رقم طراز ہیں:


’ابن امیر حاج ’’حلیہ شرح منیہ‘‘ میں ’’فتح القدیر‘‘ کی عبارت پر اضافہ کرتے ہیں کہ یہ فعل ائمۂ اربعہ سے بھی مروی نہیں۔ ’’شرح الأشباہ والنظائر‘‘ (ص۴۵) میں (۵۔۶)

علامہ ابن نجیم حنفی لکھتے ہیں:


ظاہر ہےفتح القدیر سے اس کا بدعت ہونا ہی ثابت ہوتا ہے۔‘‘’(بحر الرائق‘‘ (ص۲۱۰)

علامہ حسن شرنبلالی حنفی نے ’’مجمع الروایات‘‘ سے نقل کیا ہے :

کہ زبان سے نیت بولنے کو بعض علماء نے حرام کہا ہے، اس لیے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے اس کے کرنے والے کو سزا دی ہے۔‘‘ (شرح نور الایضاح:۵۶)
فتاویٰ غربیۃ، کتاب الصلوۃ کے دسویں باب میں ہے:
’’کہا گیا ہے کہ زبان سے نیت کرنا بدعت ہے۔‘‘(فتاوی غربیہ:ج۳،ص۲۳۴)

امام ابن عابدین حنفی اپنی کتاب ) میں فرماتے ہیں:

زبان سے نیت کرنا بدعت ہے۔(رد المحتار‘‘ ۱/۲۷۹

امام ملا علی قاری حنفی لکھتے ہیں:

’’الفاظ کے ساتھ نیت کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ یہ بدعت ہے۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع جس طرح آپ کے کاموں میں کرنا لازم ہے، اسی طرح اتباع کام کے نہ کرنے میں بھی لازم ہے، جو شخص آپ کے نہ کیے ہوئے پر اڑا رہےگا وہ بدعتی ہے... نیز فرماتے ہیں: تم جان چکے ہو کہ نہ بولنا ہی افضل ہے۔(مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح‘‘ (۱/۴۱)

مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی نقشبندی حنفی لکھتے ہیں:

’’زبان سے نیت کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سند صحیح بلکہ سند ضعیف سے بھی ثابت نہیں اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمۃ اللہ علیہم زبان سے نیت نہیں کرتے تھے بلکہ جب اقامت کہتے تو صرف ’اللہ اکبر‘ کہتے تھے، زبان سے نیت بدعت ہے۔‘‘ (مکتوبات دفتر اول حصہ سوم، مکتوب نمبر ۱۸۶ ص۷۳)

طحطاوی حنفی ’’میں لکھتے ہیں:


’’صاحب در مختار‘‘ کے قول: ’’یعنی سلف نے اس کو پسند کیا ہے‘‘، اس میں اشارہ ہے اس امر کا کہ حقیقت میں نیت کے ثابت ہو نے کے بارے میں کسی کا اختلاف نہیں ہے اس لیے کہ زبان سے بولنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے اور نہ صحابہ وائمہ اربعہ سے، یہ تو محض بدعت ہے۔‘(‘شرح در مختار‘‘ (۱/۱۹۴)

علامہ انور شاہ کاشمیری دیوبندی حنفی فرماتے ہیں:

’’نیت صرف دل کا معاملہ ہے۔‘‘ (فیض الباری شرح صحیح البخاری :۱/۸)

علامہ عبد الحی لکھنوی حنفی فرماتے ہیں:


نماز کی ابتداء میں زبان سے نیت کرنا بدعت ہے۔(عمدۃ الرعایۃ حاشیہ شرح الوقایہ‘‘(۱/۱۵۹)

مولانا اشرف علی تھانوی اپنی لکھتے ہیں:

زبان سے نیت کرنا ضروری نہیں ہے بلکہ دل میں جب اتنا سوچ لیوے کہ آج کی ظہر کے فرض پڑھتی ہوں اور اگر سنت نماز پڑھتی ہو تو یہ سوچ لے کہ ظہر کی سنت پڑھتی ہوں، بس اتنا خیال کر کے ’اللہ اکبر‘ کہہ کے ہاتھ باندھ لیوے تو نماز ہو جاوےگی اور جو لمبی چوڑی نیت لوگوں میں مشہور ہے اس کا کہنا کچھ ضروری نہیں( ’’بہشتی زیور‘‘ (۲/۲۸)

تمام حنفی مساجد میں آج اس بدعت پر عمل جاری ہے، کیا ہمارے حنفی بھائی اس بدعت کو اپنی مساجد سے ختم کرنے کوشش کریں گے؟؟؟؟؟

نماز کے شروع میں زبان سے نیت کرنا اکابر حنفی علما کے نزدیک بدعت ہے
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,786
پوائنٹ
1,069
عبادات ميں زبان سے نيت كرنے كا حكم

كيا مسلمان عبادات كرتے وقت زبان سے نيت كرے مثلا ميں وضوء كى نيت كرتا ہوں، اور ميں نماز كى نيت كرتا ہوں اور ميں روزے كى نيت كرتا ہوں ؟


الحمد للہ:

شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال دريافت كيا گيا:

كيا نماز وغيرہ دوسرى عبادات شروع كرنا زبان سے نيت كى محتاج ہيں، مثلا كوئى كہے: ميں نے نماز كى نيت كى، اور ميں نے روزے ركھنے كى نيت كى ؟

شيخ الاسلام كا جواب تھا:


الحمد للہ:

طہارت يعنى غسل يا وضوء يا تيمم اور نماز روزہ اور زكاۃ اور كفارات وغيرہ دوسرى عبادات ميں بالاتفاق انسان زبان سے نيت كرنے كا محتاج نہيں، بلكہ نيت دل سے ہوتى ہے اس پر سب آئمہ كا اتفاق ہے، اس ليے اگر اس نے اپنى زبان سے دل كے مخالف الفاظ نكالے تو اعتبار دل كا ہو گا نہ كہ جو اس نے زبان سے الفاظ نكالے ہيں.

اس ميں كسى نے بھى اختلاف نہيں كيا، ليكن متاخرين اصحاب شافعى رحمہ اللہ نے اس ميں ايك وجہ سے اسے كو غلط قرار ديا ہے، علماء كرام كا اس ميں تنازع ہے كہ آيا نيت كے الفاظ زبان سے ادا كرنے مستحب ہيں يا نہيں ؟

اس ميں دو قول پائے جاتے ہيں:


پہلا قول:

اصحاب ابو حنيفہ اور شافعى اور احمد زبان سے نيت كے الفاظ ادا كرنے كو مستحب كہتے ہيں كيونكہ يہ زيادہ تاكيدى ہے.

دوسرا قول:

اصحاب مالك اور احمد وغيرہ كہتے ہيں زبان سے نيت كے الفاظ ادا كرنےمستحب نہيں؛ كيونكہ يہ بدعت ہے اس ليے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے اس كا ثبوت نہيں ملتا، اور نہ ہى صحابہ كرام سے ايسا كرنا منقول ہے، اور نہ ہى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنى امت ميں سے كسى كو زبان سے نيت كے الفاظ ادا كرنے كا حكم ديا ہے، اور نہ كسى مسلمان كو اس كى تعليم دى.

اگر يہ مشروع ہوتا تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اس ميں سستى نہ كرتے، اور نہ ہى صحابہ كرام اس ميں اہمال سے كام ليتے، باوجود اس كے كہ امت كو اس كى ہر روز صبح و شام ضرورت تھى.

يہ دوسرا قول زيادہ صحيح ہے، بلكہ زبان سے نيت كى ادائيگى تو عقلى اور دينى دونوں طرح سے نقص معلوم ہوتا ہے دينى نقص اس ليے كہ يہ بدعت ہے، اور عقلى نقص اس طرح كہ يہ بالكل كھانے كھانے كى جگہ ہے جيسے كوئى كھانا چاہے تو كہے: ميں برتن ميں ہاتھ ڈالنے اور اس سے لقمہ لينے كى نيت كرتا ہوں اور وہ لقمہ اپنے منہ ميں ڈال كر چباؤنگا، پھر اسے نگل لونگا تا كہ پيٹ بھر سكوں، اگر كوئى ايسا كرے تو يہ حماقت اور جہالت ہے.

اس ليے كہ نيت علم كے تابع ہے، لہذا جب بندے كو اپنے فعل كا علم ہو جائے تو ضرورتا اس نے نيت كر لى، اس ليے علم كى موجودگى ميں نيت نہيں ہو سكتى، اور پھر علماء كرام اس پر متفق ہيں كہ بلند آواز اور تكرار سے نيت كرنا مشروع نہيں ہے بلكہ جو ايسا كرنے كا عادى ہو اسے ادب سكھايا جائے اور ايسى سزا دى جائے جو عبادات ميں بدعت كى ايجاد ميں مانع ہو، اور بلند آواز كر كے لوگوں كو اذيت دينے سے باز ركھے.

ديكھيں: الفتاوى الكبرى ( 1 / 214 - 215 )

http://islamqa.info/ur/13337
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
عبادات ميں زبان سے نيت كرنے كا حكم

كيا مسلمان عبادات كرتے وقت زبان سے نيت كرے مثلا ميں وضوء كى نيت كرتا ہوں، اور ميں نماز كى نيت كرتا ہوں اور ميں روزے كى نيت كرتا ہوں ؟


الحمد للہ:

شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال دريافت كيا گيا:

كيا نماز وغيرہ دوسرى عبادات شروع كرنا زبان سے نيت كى محتاج ہيں، مثلا كوئى كہے: ميں نے نماز كى نيت كى، اور ميں نے روزے ركھنے كى نيت كى ؟

شيخ الاسلام كا جواب تھا:


الحمد للہ:

طہارت يعنى غسل يا وضوء يا تيمم اور نماز روزہ اور زكاۃ اور كفارات وغيرہ دوسرى عبادات ميں بالاتفاق انسان زبان سے نيت كرنے كا محتاج نہيں، بلكہ نيت دل سے ہوتى ہے اس پر سب آئمہ كا اتفاق ہے، اس ليے اگر اس نے اپنى زبان سے دل كے مخالف الفاظ نكالے تو اعتبار دل كا ہو گا نہ كہ جو اس نے زبان سے الفاظ نكالے ہيں.

اس ميں كسى نے بھى اختلاف نہيں كيا، ليكن متاخرين اصحاب شافعى رحمہ اللہ نے اس ميں ايك وجہ سے اسے كو غلط قرار ديا ہے، علماء كرام كا اس ميں تنازع ہے كہ آيا نيت كے الفاظ زبان سے ادا كرنے مستحب ہيں يا نہيں ؟

اس ميں دو قول پائے جاتے ہيں:


پہلا قول:

اصحاب ابو حنيفہ اور شافعى اور احمد زبان سے نيت كے الفاظ ادا كرنے كو مستحب كہتے ہيں كيونكہ يہ زيادہ تاكيدى ہے.

دوسرا قول:

اصحاب مالك اور احمد وغيرہ كہتے ہيں زبان سے نيت كے الفاظ ادا كرنےمستحب نہيں؛ كيونكہ يہ بدعت ہے اس ليے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے اس كا ثبوت نہيں ملتا، اور نہ ہى صحابہ كرام سے ايسا كرنا منقول ہے، اور نہ ہى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنى امت ميں سے كسى كو زبان سے نيت كے الفاظ ادا كرنے كا حكم ديا ہے، اور نہ كسى مسلمان كو اس كى تعليم دى.

اگر يہ مشروع ہوتا تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اس ميں سستى نہ كرتے، اور نہ ہى صحابہ كرام اس ميں اہمال سے كام ليتے، باوجود اس كے كہ امت كو اس كى ہر روز صبح و شام ضرورت تھى.

يہ دوسرا قول زيادہ صحيح ہے، بلكہ زبان سے نيت كى ادائيگى تو عقلى اور دينى دونوں طرح سے نقص معلوم ہوتا ہے دينى نقص اس ليے كہ يہ بدعت ہے، اور عقلى نقص اس طرح كہ يہ بالكل كھانے كھانے كى جگہ ہے جيسے كوئى كھانا چاہے تو كہے: ميں برتن ميں ہاتھ ڈالنے اور اس سے لقمہ لينے كى نيت كرتا ہوں اور وہ لقمہ اپنے منہ ميں ڈال كر چباؤنگا، پھر اسے نگل لونگا تا كہ پيٹ بھر سكوں، اگر كوئى ايسا كرے تو يہ حماقت اور جہالت ہے.

اس ليے كہ نيت علم كے تابع ہے، لہذا جب بندے كو اپنے فعل كا علم ہو جائے تو ضرورتا اس نے نيت كر لى، اس ليے علم كى موجودگى ميں نيت نہيں ہو سكتى، اور پھر علماء كرام اس پر متفق ہيں كہ بلند آواز اور تكرار سے نيت كرنا مشروع نہيں ہے بلكہ جو ايسا كرنے كا عادى ہو اسے ادب سكھايا جائے اور ايسى سزا دى جائے جو عبادات ميں بدعت كى ايجاد ميں مانع ہو، اور بلند آواز كر كے لوگوں كو اذيت دينے سے باز ركھے.

ديكھيں: الفتاوى الكبرى ( 1 / 214 - 215 )

http://islamqa.info/ur/13337
اوپر دئیے گئے حوالہ جات ڈھونڈنے میں تو کافی وقت لگ جائے گا۔ اگر ممکن ہو تو عربی عبارات بھی لکھ دیجیے تا کہ میں خود دیکھ سکوں۔

باقی فتاوی کبری میں علماء کی دونوں قسم کی آراء واضح ہیں۔ خود ہی پڑھ لیجیے۔
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
1,979
ری ایکشن اسکور
6,263
پوائنٹ
412
اوپر دئیے گئے حوالہ جات ڈھونڈنے میں تو کافی وقت لگ جائے گا۔ اگر ممکن ہو تو عربی عبارات بھی لکھ دیجیے تا کہ میں خود دیکھ سکوں۔

باقی فتاوی کبری میں علماء کی دونوں قسم کی آراء واضح ہیں۔ خود ہی پڑھ لیجیے۔
عربی عبارات لکھ دیجئے تاکہ اشماریہ صاحب کوئی تاؤیل کرکے عبارات کے مفاہیم بدل سکیں۔ اور پھر یہ دعویٰ کر سکیں کہ زبان سے نیت کرنا بدعت نہیں ہے۔
 

راجا

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 19، 2011
پیغامات
733
ری ایکشن اسکور
2,574
پوائنٹ
211
اس میں باقی سب باتیں درست ہیں اور خود میں بھی زبان سے نیت نہیں کرتا۔ البتہ زبان سے نیت کرنے کو بدعت کہنا درست نہیں۔ اور اس کی وجہ اوپر بیان کر چکا ہوں کیوں کہ اس کو عبادت یا ثواب نہیں سمجھا جاتا۔ بدعت کی تعریف پر پورا اترنا چاہیے۔
ہاں اگر اسے مشروع یا ضروری یا ثواب سمجھا جائے تو یہ بدعت ہو جائے گی۔ اس صورت میں اس سے بچنا چاہیے۔
واللہ اعلم
آپ پتہ نہیں کون سی دنیا میں تشریف فرما ہیں۔
عوام الناس اس نیت کو عبادت کا ضروری حصہ ہی سمجھتی ہے۔بلکہ ایسے بے وقوف بھی بہت ہیں کہ تکبیر تحریمہ چھوٹ جاتی ہے، بلکہ جماعت رکوع میں چلی جاتی ہے اور وہ ابھی کھڑے ہو کر نیت ہی کررہے ہوتے ہیں۔
لہٰذا زبان سے نیت کرنا بدعت ہی ہے جیسا کہ طحاوی اور عبدالحی لکھنوی کا بھی یہی قول ہے۔
 

راجا

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 19، 2011
پیغامات
733
ری ایکشن اسکور
2,574
پوائنٹ
211
م

غد کا معنی ہے آنے والا کل۔ اور اس کی ابتدا صبح طلوع ہونے سے ہوتی ہے۔
فمثال الإضافة إلى الزمان المستقبل أن يقول لزوجته: أنت طالق غداً، وفي هذه الحالة تطلق منه عند حلول أول جزء من الغد، وهو طلوع الصبح
الفقہ علی المذاہب الاربع 4۔316 ط العلمیہ

"زمانہ مستقبل کی طرف نسبت کی مثال یہ ہے کہ اپنی بیوی سے کہے: تجھے کل طلاق ہے۔ اور اس حالت میں کل (غد) کے پہلے جزء کے آنے پر طلاق ہوگی اور وہ صبح کا طلوع ہونا ہے۔"

جس وقت نیت کے یہ الفاظ ادا کیے جا رہے ہوتے ہیں اس وقت طلوع صبح نہیں ہوئی ہوتی۔ اس لیے ان الفاظ کا اطلاق عربیت کے منافی نہیں ہے۔

اللہ کے بندے، اتنی عصبیت بھی اچھی نہیں ہوتی۔ چند گھنٹوں بعد کے لئے کون آنے والا کل کے الفاظ استعمال کرتا ہے؟
جبکہ وہ گزشتہ روز آئندہ کل کے روزے کی تراویح پڑھ چکا ہے اور اب آج کے روزے کی سحری کھا چکا ہے۔ اور اب نیت کے وقت کل کا روزہ کے الفاظ کہے گا؟
تراویح اور روزوں کا تعلق دیکھ لیا جائے تو یہ بات طے ہے کہ اسلام میں رات ، دن سے پہلے آتی ہے۔ "کل" کو سور ج کے طلوع ہونے کے ساتھ نتھی کرنا نہ دینی اعتبار سے درست اور نہ دنیا وی اعتبار سے۔


نیت تو ثابت ہے۔ البتہ زبان سے کرنا ثابت نہیں ہے تو خاص زبان سے کرنے کو کوئی شخص عبادت یا ثواب سمجھ کر کرے تو یہ بدعت ہوگی۔ لیکن ایسا کیا نہیں جاتا۔ زبان سے جو کی جاتی ہے اسے عبادت نہیں سمجھا جاتا۔
اگر کہیں سمجھا جائے گا تو یہ بدعت ہوگی۔
واللہ اعلم
زبان سے جو روزے کی نیت عربی الفاظ میں کی جاتی ہے، اسے روزے کا عین حصہ ہی سمجھا جاتا ہے۔ اور روزہ عبادت ہی کا نام ہے۔
اسے یوں سمجھئے کہ آپ دل میں جو روزے کی نیت کرتے ہیں، کیا اسے عبادت یا روزے کا حصہ نہیں سمجھتے؟
زبان سے نیت کرنے والے اسے بدرجہ اولیٰ عبادت سمجھتے ہیں ۔ کیونکہ ان الفاظ کو یاد کر کے اہتمام سے پڑھا جاتا ہے اور پانی پینے کے بعد باقاعدہ یہ الفاظ ادا کر کے "روزہ بند" کیا جاتا ہے۔
اور کمال کی بات تو یہ ہے کہ آپ زبان سے نیت کو ثابت نہیں سمجھتے۔ اور آپ ہی کے مفتیان اسے اولیٰ اور بہتر قرار دیتے ہیں، ملاحظہ فرمائیے:


http://darulifta-deoband.org/showuserview.do?function=answerView&all=ur&id=16043
کیا دل سے روزہ کی نیت کرنا ضروری ہے، صرف سحری کھانا نیت کے لیے کافی نہیں ہے؟

Sep 07,2009
Answer: 16043
فتوی: 1694=1386/1430/د


سحری کس نیت سے کھائیں گے ظاہر ہے کہ روزہ رکھنے کی نیت سے کھائیں گے تو اس قدر نیت ہوجانا کافی ہے، البتہ زبان سے کہہ لیں تو بہتر ہےال فی المراقي علی نور الإیضاح وحقیقة النیة مقصدہ عازمًا بقلبہ صوم غد ولا یخلو مسلم عن ھذا في لیالي شہر رمضان إلا ما ندر ولیس النطق باللسان شرطًا قال الطحطاوي وقالوا التسحر في رمضان نیةٌ (طحطاوی علی المراقي:۶۴۲)

واللہ تعالیٰ اعلم

دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
1,979
ری ایکشن اسکور
6,263
پوائنٹ
412
باقی رہ گئی یہ بات کہ یہ بدعت ہے یا نہیں تو اس کے لیے محترم عبدہ بھائی کی یہ تعریف پڑھیے۔

نیت تو ثابت ہے۔ البتہ زبان سے کرنا ثابت نہیں ہے تو خاص زبان سے کرنے کو کوئی شخص عبادت یا ثواب سمجھ کر کرے تو یہ بدعت ہوگی۔ لیکن ایسا کیا نہیں جاتا۔ زبان سے جو کی جاتی ہے اسے عبادت نہیں سمجھا جاتا۔
اگر کہیں سمجھا جائے گا تو یہ بدعت ہوگی۔
واللہ اعلم
اشماریہ صاحب آپ صرف ابوحنیفہ کی تقلید نہیں کرتے باقی سب کی تقلید کرتے ہیں۔ بدعت کی تعریف میں آپ نے عبدہ بھائی کو اپنا امام تسلیم کر لیا حالانکہ مقلد ہونے کی حیثیت سے آپ کے لئے صرف اپنے امام کا قول ہی حجت ہے۔ آپ بتائیں کہ ابوحنیفہ نے بدعت کی کیا تعریف کی ہے؟ کی بھی ہے یا نہیں؟ بدعت کا مفہوم و مطلب انہیں معلوم تھا؟؟؟

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: دین میں ہر نیا کام بدعت ہے ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی کا انجام جہنم کی آگ ہے۔

اس حدیث سے بدعت کی تعریف صاف سمجھ میں آتی ہے کہ دین میں داخل کیا جانے والا ہر نیا کام بدعت ہے۔ نیت تو دین کاحصہ ہے بلکہ مسلمان کے تمام کاموں کی قبولیت یا رد کئے جانے کا دارومدار ہی نیت پر ہے۔ اور مقلدوں کا زبان سے نیت کو مستحب قرار دینا بھی اسکے دین میں سے ہونے کی طرف اشارہ ہے۔ جاہل مقلدین (معاف کیجئے گا ہر مقلد جاہل ہی ہوتا ہے اس لئے جاہل کے بجائے صرف مقلد کہہ دینا بھی کافی ہے) زبان سے نیت کئے بغیر نماز کا تصور بھی نہیں کرتے اس طرح بغیر زبان سے نیت کئے روزہ بھی نہیں رکھتے۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ زبان سے نیت کو دین سمجھتے ہیں۔ یہ جہالت صرف عامیوں تک محدود نہیں بلکہ مقلدوں کے علماء، مفتیان سب کا یہی حال ہے۔ بس اہل حدیث کے اس جانب توجہ دلانے کی وجہ سے مجبوراً زبان سے نیت کو واجب و فرض قرار دینے سے گھبرانے اور کترانے لگے ہیں ورنہ یہ بدعت انہیں کی ایجاد کردہ ہے۔
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
1,979
ری ایکشن اسکور
6,263
پوائنٹ
412
حنفی مفتی کا اقرار کہ روزہ اور نماز کی نیت خود ساختہ ہے اسکا حقیقت سے دور دور تعلق نہیں
بھائی تصحیح کرلیں۔ پہلے مولوی صاحب جنھوں نے زبان سے نیت کرنے کا بہترین اور بھرپور رد کیا ہے جن کا نام قاری خلیل الرحمنٰ جاوید ہے یہ ماشاء اللہ اہل حدیث عالم ہیں۔ جبکہ دوسرے مولوی صاحب جنھوں نے زبان سے نیت کو غیر ضروری تسلیم کرنے کے باوجود تاویلات کے ذریعے اس کا دفاع کیا کیونکہ اس کا رد کرنے پر انکے مذہب اور علماء کا غلط ہونا ثابت ہوتا ہے یہ صاحب حنفی ہیں۔

یہ بھلا کیسے ممکن ہے کہ ایک حنفی حق بات نہ صرف قبول کرلے بلکہ اس کا اعلانیہ اقرار بھی کرے یہ حوصلہ صرف اور صرف اہل حدیث کا خاصہ ہے اہل بدعت اس سے کوسوں دور ہیں۔الحمدللہ۔
 
Top