میرے بھائی یہی میں نے بھی عرض کیا ہے کہ اگر ایسا سمجھا جائے تو یہ بدعت ہے۔آپ پتہ نہیں کون سی دنیا میں تشریف فرما ہیں۔
عوام الناس اس نیت کو عبادت کا ضروری حصہ ہی سمجھتی ہے۔بلکہ ایسے بے وقوف بھی بہت ہیں کہ تکبیر تحریمہ چھوٹ جاتی ہے، بلکہ جماعت رکوع میں چلی جاتی ہے اور وہ ابھی کھڑے ہو کر نیت ہی کررہے ہوتے ہیں۔
لہٰذا زبان سے نیت کرنا بدعت ہی ہے جیسا کہ طحاوی اور عبدالحی لکھنوی کا بھی یہی قول ہے۔
محترم بھائی آپ کی پہلی بات کا جواب یہ ہے کہ میں نے عربی لفظ "غد" کے بارے میں عرض کیا ہے کہ اس کا اطلاق طلوع صبح پر ہوتا ہے۔ اس سے پہلے کے وقت کو غد نہیں بلکہ "اللیلۃ" کہا جاتا ہے۔ اس لیے یہ لفظ استعمال کرنا عربیت کے لحاظ سے تو درست ہے۔اللہ کے بندے، اتنی عصبیت بھی اچھی نہیں ہوتی۔ چند گھنٹوں بعد کے لئے کون آنے والا کل کے الفاظ استعمال کرتا ہے؟
جبکہ وہ گزشتہ روز آئندہ کل کے روزے کی تراویح پڑھ چکا ہے اور اب آج کے روزے کی سحری کھا چکا ہے۔ اور اب نیت کے وقت کل کا روزہ کے الفاظ کہے گا؟
تراویح اور روزوں کا تعلق دیکھ لیا جائے تو یہ بات طے ہے کہ اسلام میں رات ، دن سے پہلے آتی ہے۔ "کل" کو سور ج کے طلوع ہونے کے ساتھ نتھی کرنا نہ دینی اعتبار سے درست اور نہ دنیا وی اعتبار سے۔
زبان سے جو روزے کی نیت عربی الفاظ میں کی جاتی ہے، اسے روزے کا عین حصہ ہی سمجھا جاتا ہے۔ اور روزہ عبادت ہی کا نام ہے۔
اسے یوں سمجھئے کہ آپ دل میں جو روزے کی نیت کرتے ہیں، کیا اسے عبادت یا روزے کا حصہ نہیں سمجھتے؟
زبان سے نیت کرنے والے اسے بدرجہ اولیٰ عبادت سمجھتے ہیں ۔ کیونکہ ان الفاظ کو یاد کر کے اہتمام سے پڑھا جاتا ہے اور پانی پینے کے بعد باقاعدہ یہ الفاظ ادا کر کے "روزہ بند" کیا جاتا ہے۔
اور کمال کی بات تو یہ ہے کہ آپ زبان سے نیت کو ثابت نہیں سمجھتے۔ اور آپ ہی کے مفتیان اسے اولیٰ اور بہتر قرار دیتے ہیں، ملاحظہ فرمائیے:
http://darulifta-deoband.org/showuserview.do?function=answerView&all=ur&id=16043
کیا دل سے روزہ کی نیت کرنا ضروری ہے، صرف سحری کھانا نیت کے لیے کافی نہیں ہے؟
Sep 07,2009
Answer: 16043
فتوی: 1694=1386/1430/د
سحری کس نیت سے کھائیں گے ظاہر ہے کہ روزہ رکھنے کی نیت سے کھائیں گے تو اس قدر نیت ہوجانا کافی ہے، البتہ زبان سے کہہ لیں تو بہتر ہے:قال فی المراقي علی نور الإیضاح وحقیقة النیة مقصدہ عازمًا بقلبہ صوم غد ولا یخلو مسلم عن ھذا في لیالي شہر رمضان إلا ما ندر ولیس النطق باللسان شرطًا قال الطحطاوي وقالوا التسحر في رمضان نیةٌ (طحطاوی علی المراقي:۶۴۲)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند
بحث برائے بحث کا فائدہ تو نہیں۔ پھر بھی آپ کی ناانصافی پر کچھ عرض کئے بغیر رہنا درست نہیں۔محترم بھائی آپ کی پہلی بات کا جواب یہ ہے کہ میں نے عربی لفظ "غد" کے بارے میں عرض کیا ہے کہ اس کا اطلاق طلوع صبح پر ہوتا ہے۔ اس سے پہلے کے وقت کو غد نہیں بلکہ "اللیلۃ" کہا جاتا ہے۔ اس لیے یہ لفظ استعمال کرنا عربیت کے لحاظ سے تو درست ہے۔
دوسری بات کے بارے میں عرض یہ ہے کہ اوپر فتاوی کبری کے مطابق علماء کرام کی دونوں رائے مذکور ہیں۔ وہ پڑھ لیجیے۔
باقی میں بہت سی جگہوں پر اختلاف کر جاتا ہوں۔
محترم بھائی۔ میں نے اوپر حوالہ بھی لکھا ہے۔ کیا آپ نے وہ دیکھا ہے؟بحث برائے بحث کا فائدہ تو نہیں۔ پھر بھی آپ کی ناانصافی پر کچھ عرض کئے بغیر رہنا درست نہیں۔
"غد" کا سیدھا سادا مطلب ہے ۔ آئندہ کل۔
اللیلۃ کا سیدھا سادا مطلب ہے۔ رات
آپ فقط "غد" کو مفرد نہ سوچیں جس وقت یہ لفظ ادا کیا گیا ہے اس کے ساتھ نتھی کر کے توجیہ پیش کریں۔
سوچئے کہ آپ چاہے "غد" استعمال کریں۔ اردو میں آئندہ کل استعمال کر لیں ، یا انگریزی میں tomorrow کہہ لیں۔
سورج نکلنے سے ایک ڈیڑھ گھنٹہ قبل کوئی شخص "غد" یا "کل" یا "tomorrow" کہہ کر وہی دن مراد لے، ایسا لغت سے، عرف سے یا شریعت سے ثابت کیا جا سکتا ہے؟
دیکھئے آج مغرب میں تو اس کا "عرف" موجود ہے کہ رات بارہ بجے کے بعد تاریخ بدلتی ہے۔ لہٰذا گیارہ بجے کوئی شخص یہ کہہ سکتا ہے کہ میں کل سوؤں گا اور پھر ساڑھے بارہ بجے وہ سو جائے تو اس کی بات درست رہے گی۔ کیا اسی قسم کا کوئی عرف آج یا اُس زمانے کے عربوں میں "غد" یا طلوع شمس کے حوالے سے موجود تھا؟ حوالہ؟
اور پھر زیادہ نہیں ، بس اتنا فرما دیجئے کہ اگر سحری کے وقت "غد" کہہ کر طلوع آفتاب کے بعد کا "کل " کا روزہ مراد لینا درست ہے۔ تو سحری کے وقت "آج" کا روزہ کون سا کہلائے گا؟ وہ جو گزشتہ روز ختم ہو گیا، اور جس کے بعد آئندہ کے روزے کی تراویح بھی پڑھ لی گئی، بلکہ آئندہ روزے کی سحری بھی کھا لی گئی۔ اسے "آج کا روزہ" قرار دیں گے؟
معاف کیجئے گا اگر عقل کا جنازہ نہ نکل گیا ہو تو آپ کو خود بھی اپنی پیش کردہ تاویل کے سستے پن کا احساس ہو جائے گا۔
یہاں تو دو طرفہ بحث چھڑی ہوئی ہے کوئی کہہ رہا ہے یہ نیت ٹھیک ہے کوئی کہہ رہا ہے نہیں ٹھیک بدعت ہے
ایک ٹھیک اور آسان لفظوں میں اس بات کا خلاصہ کریں کیا یہ نیت کرنا ٹھیک ہے یا نہیں حوالے کے ساتھ بتائیں شکریہ
دین میں بدعت کے بالمقابل سنت ہوتی ہے۔ اگر ایک چیز سنت نہیں تو وہ بدعت ہوگی اور اگر کوئی چیز بدعت نہیں تو سنت ہوگی۔ اب @اشماریہ صاحب فرماتے ہیں کہ زبان سے روزے کی نیت کے الفاظ ادا کرنا بدعت نہیں ہے۔ تو پھر یہ سنت ہوگی لیکن سنت کی کوئی دلیل بھی موصوف پیش نہیں فرما رہے۔بس ورثے میں ملی ہوئی اپنی مذہبی لفاظی سے وقت پورا کررہے ہیں۔ اور دین کی بنیادوں کو کھوکھلا کرنے میں سرگرم ہیں جو کہ مقلدین کا مقصد حیات ہے۔یہاں تو دو طرفہ بحث چھڑی ہوئی ہے کوئی کہہ رہا ہے یہ نیت ٹھیک ہے کوئی کہہ رہا ہے نہیں ٹھیک بدعت ہے
ایک ٹھیک اور آسان لفظوں میں اس بات کا خلاصہ کریں کیا یہ نیت کرنا ٹھیک ہے یا نہیں حوالے کے ساتھ بتائیں شکریہ
حوالہ؟؟؟؟؟؟دین میں بدعت کے بالمقابل سنت ہوتی ہے۔ اگر ایک چیز سنت نہیں تو وہ بدعت ہوگی اور اگر کوئی چیز بدعت نہیں تو سنت ہوگی۔ اب @اشماریہ صاحب فرماتے ہیں کہ زبان سے روزے کی نیت کے الفاظ ادا کرنا بدعت نہیں ہے۔ تو پھر یہ سنت ہوگی لیکن سنت کی کوئی دلیل بھی موصوف پیش نہیں فرما رہے۔بس ورثے میں ملی ہوئی اپنی مذہبی لفاظی سے وقت پورا کررہے ہیں۔ اور دین کی بنیادوں کو کھوکھلا کرنے میں سرگرم ہیں جو کہ مقلدین کا مقصد حیات ہے۔