• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

The Price of Marriage حقِ مہر

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,423
پوائنٹ
521
السلام علیکم

یہ مڈل ایسٹ میں ھے ایشیا میں نہیں۔ پاکستان میں تو اب بھی کچھ والدین اپنی بیٹیوں کی شادی پر حق مہر 32 روپے لکھوانے کا کہتے ہیں جس پر مولانا صاحب اس وقت کے مطابق 32 کا جو نعم البدل بنتا ھے وہ بتا دیتے ہیں۔ اور کچھ والدین اندازہ سے جتنا چاہے لکھواتے ہیں مگر اس پر نکاح سے پہلے بات چیت سے تہہ کر لیا جاتا ھے تاکہ نکاح کے وقت کوئی نیا بکھیڑا نہ کھڑا ہو جائے۔

عرب ممالک میں حق مہر پر وقت کے مطابق ایک کثیر رقم کا مطالبہ کیا جاتا ھے جو نکاح سے پہلے ادا کرنا ہوتی ھے۔

والسلام
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,423
پوائنٹ
521
السلام علیکم

سیاق و سباق سے جیسا مجھے نظر آ رہا ھے اس میں یہ دکھایا گیا ھے کہ لڑکی کے باپ نے کسی لڑکے سے 5 ہزار ڈالر حق مہر مانگا تھا جسے اکٹھا کرنے میں شائد دیر ہو گئی اور کسی دوسرے نے 20 ہزار حق مہر ادا کر دیا؟ واللہ اعلم

والسلام
 

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
وعلیکم السلام
آپ ویڈیو کے متعلق مختصرا بتائیں کہ اس میں کون سی چیز کی طرف توجہ مبذول کروائی گئی ہے؟
آسان الفاظ میں کہا جا سکتا ہے کہ حق مہر کی صورت میں دولت دیکھ کر جو شادیاں کی جاتی ہے ،وہ کامیاب نہیں ہوتی۔
ویڈیو میں ایک نوجوان ہے جو الصلاۃ و صوم کا پابند ہے ،مگر اس کی کمائی کم ہے۔ایسی صورت میں لڑکی کا والد ایک کثیر رقم کا مطالبہ کرتا ہے،نوجوان اس بات سے پریشان ہو جاتا ہے اور تگ ودو سے وہ رقم جمع کرنے لگتا ہے ،یہاں تک کہ اسے اپنی ماں کے زیوارات بھی داؤ پر لگانے پڑ جاتے ہیں۔لیکن جب اس رقم کا آدھا حصہ وہ جمع کر کے لڑکی کے والد سے ملاقات کرتا ہے تو اسے کہا جاتا ہے کہ اس نے دیر کر دی اور رقم"مہر" کسی اور نے ادا کر دی ہے اور اسی سے اس لڑکی کی شادی ہو جاتی ہے۔۔۔۔۔پیسوں کی خاطر کی گئی اس شادی سے نہ لڑکی خوش اور نہ وہ لڑکا جو نیک ہوتے ہوئے بھی معاشرے کے مادیت پرستوں کا شکار ہوتا ہے۔
جزاک اللہ خیرا مشکوۃ سسٹر۔۔۔بہت اچھی کاوش ہے۔
اور لڑکی کے والدین کو اس قدر مطالبہ سے گریز کرنا چاہیئے۔ویسے بھی حق مہر لڑکی کے لیے ہوتا ہے ،والدین کے لیے نہیں!
اس ضمن میں کسی لڑکے کے پاس جو علم دین ، سیرت ،قابلیت ،اور صلاحیت ہے وہ مدنظر رکھی جائے۔۔۔ان شاء اللہ سنت نبوی آسان لگے گی۔
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,423
پوائنٹ
521
السلام علیکم

مگر پاکستان میں حق مہر کوئی بڑا مسئلہ نہیں اور نہ ہی اس کی وجہ سے کسی کی شادی میں کوئی رکاوٹ پیدا ہوتی ھے۔

نکاح نامہ میں مہر کا حصہ دیکھتے ہیں۔


مُعَجِّل: فوراً، اسی وقت۔

مُوَجَّل: جس کے لیے مہلت دی گئی ہو۔

حق مہر کی رقم کم ہو یا زیادہ موجل لکھی جاتی ھے۔ اگر دلہا والوں کی حیثیت کے مطابق ھے تو پھر چاہیں تو وہیں ادا کر دیں یا دلہا اسی دن دلہن کو ادا کر دیتا ھے۔

پاکستان میں مسئلہ جہیز پر ھے، مہر کے بغیر کسی کی شادی ہونے سے نہیں رکتی، مہر پر مسئلہ مڈل ایسٹ میں یا فرنٹیئر کے کچھ حصوں میں۔

والسلام
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
جی ہاں! پاکستان میں مہر کو “نان ایشو” سمجھا جاتا ہے اور جہیز اور دیگر فضول رسموں کو “اہم ایشو”۔ اس سلسلہ میں چند نکات، پاکستانی معاشرے کے حوالہ سے پیش ہیں۔
  1. ہمارے ہاں شادی میں “بری” ایک لازمی حیثیت اختیار کرگئی ہے۔ لڑکی والے، لڑکے کی شادی کا سوٹ، لڑکے کی ماں بہنوں کا جوڑا وغیرہ پر مشتمل بری لڑکے کے گھر لے جاتے ہیں تو اس کے جواب میں لڑکے والے لڑکی کی شادی کا جوڑا، لڑکی کے لئے سونے کے زیورات، لڑکی کی ماں بہنوں کے لئے جوڑے وغیرہ لے جاتے ہیں۔ اور پھر شادی کے بعد میاں بیوی جھگڑتے رہتے ہیں کہ “تم لوگوں” نے ایسی چیز دی ویسی چیز دی۔ لڑکی کو ملا ہوا جوڑا پسند نہیں آتا تو لڑکا الگ خفا ہوتا ہے۔ اس رسمِ بد کا خاتمہ ہونا چاہئے۔ لڑکی والے اپنی پسند سے لڑکی کا اور لڑکے والے اپنی پسند سے لڑکے کا سوٹ خودخریدیں، اپنے اپنے پیسوں سے۔ یوں “بری کا تبادلہ” اور اس بہانے آنے جانے کی “دو تقریبات” کا خاتمہ بھی ہوجائے گا۔
  2. لڑکے والے عموماً لڑکی کو زیورات بھی چڑھاتے ہیں، بری کے سوٹ کے ساتھ۔ جب بری نہیں تو “زیور کے چڑھاوے” کا بھی مسئلہ ختم ہوجائے گا۔
  3. مہر ہمارے ہاں عموماً مُوَجَّل ہی ہوتا ہے۔ یعنی جو “بعد” میں ادا کیا جائے گا۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ بیویاں سالہا سال تک یہ مُوَجَّل مہر طلب نہیں کرتیں اور شوہر کو بھی دینے کی فکر نہیں ہوتی۔ یہ عموماً روپے میں لکھوائی جاتی ہے۔ جیسے اگر آج پچاس ہزار روپے لکھوائی جائے اور اس کی ادائیگی کی نوبت، فرض کریں کہ دس سال بعد آئے۔ تو تب تک آج کا پچاس ہزار روپے ، ڈی ویلیو ہوکر پانچ دس ہزار روپے رہ جائے گا۔ لہٰذا میری تجویز ہے کہ مہر سونے کے زیورات کی شکل میں طلب کی جائے۔ جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ مہر کی مالیت کم سے کم نہ ہونے کے برابر بھی ہوسکتی ہے اور زیادہ سے زیادہ سونے کا پہاڑ بھی ہوسکتی ہے۔ یہ دونوں فریقین کی باہمی رضامندی ، یعنی لڑکی کے طلب اور لڑکے کی رضامندی پر منحصر ہوتی ہے۔ مہر لڑکے کی آمدنی اور اسٹیٹس کے حساب سے طلب کی جانی چاہئے، جو کم از کم اُس کی چند ماہ کی آمدن کے مساوی تو ہونی ہی چاہئے۔ اور یہ مہر سونے کے زیورات کی شکل میں مُعَجِّل طلب کی جائے۔ اس طرح لڑکی کو فوراً مہر بھی مل جائے گا، جو کبھی ڈی ویلیو بھی نہیں ہوگا بلکہ اس کی مالیت بڑھتی ہی جائے گی۔ دوسری طرف لڑکے والوں پر مروجہ ڈبل بوجھ بھی نہیں ہوگا کہ پہلے بری میں بھی زیورات دیں پھر کیش میں مہر بھی لکھوائیں، جس کے دینے میں ٹال مٹول کرکے لڑکا گناہگار بھی ہو وغیرہ وغیرہ
  4. مہر پر تو پہلے ہی کافی ڈسکشن ہوچکا ہے کہ لڑکی والوں کی طرف سے جہیز مانگنا بھیک مانگنے جیسا ہے، جس کا کوئی شرعی جواز بھی نہیں بنتا۔ البتہ اگر لڑکی کے والدین اپنی رضا اور خوشی سے اپنی حیثیت کے مطابق اپنی بیٹی کو اس کی شادی پر تحفہ تحائف بصورت ساز و سامان دیں تو لڑکے والوں کو اس پر اعتراض کا بھی کوئی حق نہیں اور نہ ہی لڑکاشادی کے موقع پر اپنے سسرال کی طرف سے ملنے والے تحفہ، ہدیہ کولینے سے شرعاً انکار کرسکتا ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
The Price of Marriage حقِ مہر ۔ اس عنوان میں انگریزی ترجمہ غلط ہے۔ حقِ مہر، “شادی کی قیمت” نہیں بلکہ یہ Marriage Gift ہے، “شادی کا تحفہ”
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
جزاک اللہ خیرا یوسف ثانی بھائی
صحیح بات ہے، ان بری، داج، مایوں، مہندی اور دیگر فضول رسموں نے شادی کو مشکل بنا دیا ہے، آپ نے ان کی قباحت کو اچھی طرح واضح کیا۔ ایک بات کی سمجھ نہیں آئی،آپ نے کہا:
اکثر دیکھا گیا ہے کہ بیویاں سالہا سال تک یہ مُوَجَّل مہر طلب نہیں کرتیں اور شوہر کو بھی دینے کی فکر نہیں ہوتی۔ یہ عموماً روپے میں لکھوائی جاتی ہے۔ جیسے اگر آج پچاس ہزار روپے لکھوائی جائے اور اس کی ادائیگی کی نوبت، فرض کریں کہ دس سال بعد آئے۔ تو تب تک آج کا پچاس ہزار روپے ، ڈی ویلیو ہوکر پانچ دس ہزار روپے رہ جائے گا۔ لہٰذا میری تجویز ہے کہ مہر سونے کے زیورات کی شکل میں طلب کی جائے۔
قیمت تو سونے کی بھی کم ہو سکتی ہے، اکثر ایسا ہوتا تو نہیں ہے سونے کی قیمت بڑھتی ہی ہے، لیکن قیمت گرنے کا بھی کوئی پتہ نہیں، مثلا ایک شخص سونا دیتا ہے تو اس وقت سونے کی قیمت فی تولہ پچاس ہزار ہے، ایک سال بعد ادا کرنے پر اس کی قیمت چالیس ہزار ہو جاتی ہے۔ میرے خیال میں جو کچھ لکھا جائے وہ اسی وقت ادا کر دیا جائے، پھر لڑکی کی قسمت جو اسے ملے، یا صرف وہی کچھ لکھا جائےجو اس وقت دینے کی حیثیت ہو۔
آپ کیا کہتے ہیں؟
 

نسرین فاطمہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 21، 2012
پیغامات
1,281
ری ایکشن اسکور
3,232
پوائنٹ
396
جزی اک اللہ بہنا عمدہ شئیرنگ ہے ۔۔۔۔ہمارے محلے میں بھی اسی طرح ایک شادی نکاح کے وقت محض زیادہ مہر کی وجہ سے نہ ہو سکی ڈیمانڈ بھی ایسی کہ لڑکا مہر میں پانچ لاکھ نقد دے اور ہر ماہ پانچ ہزار الگ سے جیب خرچ جو گھر کے خرچ کے علاوہ ہو ہر جگہ صرف لڑکے والے ہی نہیں کہیں کہیں لڑکی والے بھی ظالم سماج کا کام کرتے ہیں اور اس طرح نہ صرف دوسروں کی تضحیک کرتے ہیں بلکہ خود اپنی تضحیک کا باعث بنتے ہیں ۔اللہ ہدایت دے ایسے بھٹکے ہوؤں کو۔
 
Top