• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اسلامی آداب زندگی (سبیل المؤمنین)

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
14- علماء اور بڑے لوگوں کی تعظیم کرنا:

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
’’لوگوں کی امامت وہ کرائے جو ان میں کتاب اللہ سب سے اچھا پڑھنے والا ہو۔ اگر قراءت میں سب برابر ہوں تو سنت کا علم سب سے زیادہ رکھنے والا امامت کرائے۔‘‘
(مسلم: کتاب الصلوۃ باب من احق بالامامۃ)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
’’تم میں سے (نماز میں) میرے قریب وہ کھڑے ہوں جو سمجھ دار اور عقلمند ہوں۔ پھر جو ان سے قریب ہوں اور پھر جو ان سے قریب ہوں۔‘‘
(ٍمسلم: کتاب الصلوۃ باب تسویۃ الصفوف واقامتھا)

ابو سعید سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں نو عمر بچہ تھا۔ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں یاد کر لیتا تھا لیکن انہیں بیان کرنے سے مجھے یہ بات روکتی تھی کہ مجھ سے زیادہ عمر کے لوگ موجود ہوتے تھے۔
(بخاری: کتاب الجنائز باب الصلوۃ علی النفساء اذاماتت فی نفاسھا، ومسلم: الجنائز باب این یقوم الامام من المیت للصلوۃ علیہ)

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک بوڑھا آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنا چاہتا تھا لوگوں نے اس کے لیے جگہ چھوڑنے میں دیر کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ شخص ہم میں سے نہیں جس نے ہمارے بچوں پر شفقت نہ کی اور ہمارے بوڑھوں کی توقیر اور عزت نہ کی۔
(سنن ترمذی کتاب البر والصلہ 1919)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
نیک لوگوں کو ستانا خطرناک ہے:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
’’جس نے صبح کی نماز پڑھی وہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی حفاظت و ضمانت میں ہے (اس کو ناحق تنگ کر کے اللہ کی ضمانت نہ توڑو) پس اللہ تعالیٰ تم سے اپنی ضمانت کے بارے میں کچھ باز پرس نہ کرے کیونکہ جس سے وہ باز پرس کرے گا تو (کوتاہی پر) اسے منہ کے بل (اوندھا کر کے) جہنم کی آگ میں ڈال دے گا۔‘‘
(مسلم: کتاب المساجد باب فضل صلاۃ العشاء والصبح فی جماعۃ)

مسلم امراء کا احترام :
جنگِ موتہ میں فتح کے بعد خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے مالِ غنیمت تقسیم کیا۔ قبیلہ حمیزء کے ایک شخص نے ایک کافر کو قتل کیا تھا۔ اس نے مقتول کا سامان لینا چاہا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے دینے سے انکار کیا۔ عوف بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہا اے خالد کیا تمہیں معلوم نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قاتل کو مقتول کا سامان دلوایا ہے۔ خالد بن ولید نے کہا بے شک مگر مجھے یہ سامان بہت معلوم ہوتا ہے۔ جب یہ لشکر اسلام مدینہ منورہ آیا تو عوف رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ کو بتایا کہ خالد نے قاتل کو مقتول کا سامان دینے سے انکار کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خالد سے پوچھا کہ تم نے اس کو سامان کیوں نہ دیا۔ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو سامان دینے کا حکم دیا۔ جب خالد عوف کے سامنے سے گزرے تو عوف نے ان کی چادر کھینچ کرکہا: ’’جو میں نے کہا تھا وہی ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عوف کی بات سن لی۔ آپ بہت ناراض ہوئے اور فرمایا اے خالد اسے نہ دو۔ اے خالد اسے نہ دو۔ پھر فرمایا کیا تم میرے امراء کو نہیں چھوڑتے (کیوں ان کی توہین کرتے ہو) تمہاری اور ان کی مثال ایسی ہے جیسے کسی شخص نے اونٹ اور بکریاں چرانے کے لیے لیں۔ پھر ان کی پیاس کا وقت دیکھ کر حوض پر آیا۔ انہوں نے پینا شروع کیا تو صاف صاف پانی پی لیا اور تلچھٹ چھوڑ دی تو کیا صاف اور اچھی اچھی چیزیں تمہارے لیے اور بری سرداروں کے لیے ہیں۔
(مسلم: کتاب الجہاد باب استحقاق القاتل سلب القتیل)

قوم کا معزز:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جب تمہارے پاس کسی قوم کا معزز آئے تو اس کی عزت کرو۔‘‘
(ابن ماجہ:۲۰۷۳)

امیر کی اطاعت صرف معروف کاموں میں ہے:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبد اللہ بن حذافہ انصاری رضی اللہ عنہ کی سپہ سالاری میں ایک لشکر بھیجا اور اہل لشکر کو حکم دیا کہ اپنے سپہ سالار کی اطاعت کریں۔ راستہ میں سپہ سالار کو کسی بات پر غصہ آگیا۔ اس نے لکڑیاں جمع کرنے کا حکم دیا۔ پھر آگ جلائی۔ سپہ سالار نے کہا اس آگ میں داخل ہو جاؤ۔ بعض لوگوں نے حکم کی تعمیل کا ارادہ کیا اور بعض نے انکار کیا اور دوسروں کو بھی تعمیل کرنے سے روکتے رہے اور کہا کہ ہم آگ ہی سے بھاگ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف آئے۔ اس بحث میں آگ ٹھنڈی ہو گئی۔ اور سپہ سالار کا غصہ بھی ٹھنڈا ہو گیا ۔ جب یہ خبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی تو آپ نے فرمایا اگر تم آگ میں داخل ہو جاتے تو قیامت تک اس میں سے نہ نکلتے اور فرمایا اطاعت تو صرف معروف کاموں میں ہے ۔
(بخاری: کتاب المغازی باب سریہ عبد اللّٰہ بن حذافہ، ومسلم: کتاب الامارۃ باب وجوب طاعۃ الامراء)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
15- مہمان کی عزت و تکریم کرنا:

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
’’جو اللہ تعالیٰ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہے۔ اسے چاہیے کہ :
۱۔ اپنے مہمان سے حسنِ سلوک کرے۔
۲۔ رشتہ داروں سے حسنِ سلوک کرے ۔
۳۔ بھلائی کی بات کرے یا خاموش رہے۔ ‘‘
(بخاری کتاب الادب باب من کان یومن باللّٰہ، مسلم: کتاب الایمان بان الحث علی اکرام الجار والضیف ولزوم الصمت الامن الخیر)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
’’جو اللہ تعالیٰ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہے اسے مہمان کی عزت کرتے ہوئے اس کا حق ادا کرنا چاہیے۔‘‘
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے عرض کیا: ’’اس کا حق کیا ہے؟‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
’’ایک دن اور رات کا بہتر کھانا دینا۔ مہمان نوازی تین دن کی ہے اس کے بعد صدقہ ہے۔‘‘
(بخاری کتاب الادب باب اکرام الضیف وخدمتہ ایاہ بنفسہ، مسلم: کتاب اللقطۃ باب الضیافۃ)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:
’’کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں ہے کہ اپنے بھائی کے پاس زیادہ ٹھہر کر اسے گناہ گار کرے۔‘‘
صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے عرض کیا:
’’اے اللہ کے رسول! اس کو گناہ گار کیسے کرے گا؟‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:
’’اس کے پاس اتنی دیر ٹھہرے کہ اس کے پاس مہمان نوازی کے لیے کوئی چیز نہ رہے۔‘‘
(مسلم: کتاب القطعۃ باب تحریم حلب الماشیۃ بغیراذن مالکھا)

سلمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"کوئی شخص اپنی طاقت سے زیادہ مہمان کے لیے تکلف نہ کرے۔"
(السلسلۃ الصحیحۃ للالبانی ۰۴۴۲)

ایک مومن کو چاہئے کہ وہ اپنی ضیافت میں متقی اور پرہیز گار شخص کو بلائے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"مومن کے سوا کسی اور کو ساتھی نہ بناؤ اور متقی شخص کے علاوہ تمہارا کھانا کوئی اور نہ کھائے۔"
(ابوداؤد کتاب الادب باب من یومر ان یجالس؟ ۔ ح۔۲۳۸۴۔ ترمذی کتاب الزھدباب ماجاء فی صحبۃ المومن ۔ح۔۵۹۳۲۔ ابن حبان، حاکم اور ذہبی نے صحیح کہا ہے)

مہمانی کے لئے صرف امراء کو مخصوص نہیں کرنا چاہئے بلکہ فقراء کو بھی دعوت پر بلانا چاہئے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"بدترین کھانا وہ ولیمہ ہے جس میں دولت مند بلائے جائیں اور فقراء کو نہ بلایا جائے۔"
(بخاری کتاب النکاح باب من ترک الدعوۃ، مسلم کتاب النکاح باب الامر باجابۃ الداعی الی دعوۃ)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
16- ایثار و قربانی کرنا:

ایک انصاری آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مہمان کو گھر لے گیا۔ بیوی نے بتایا کہ
’’گھر میں صرف بچوں کی خوراک ہے۔‘‘
اس نے کہا کہ
’’ بچوں کو بہلا کر سلا دینا اور چراغ بجھا دینا اور ظاہر کرنا کہ ہم بھی کھانا کھا رہے ہیں۔‘‘
چنانچہ مہمان نے کھانا کھایا اور ان دونوں نے بھوکے رات گزاری۔
جب صبح ہوئی تو نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’تم نے آج کی رات اپنے مہمان کے ساتھ جو سلوک کیا ہے، اللہ تعالیٰ اس پر بڑا خوش ہوا ہے۔"
(بخاری کتاب مناقب الانصار باب (ویوثرون علی انفسھم)، مسلم: کتاب الاشربۃ باب اکرام الضیف وفضل ایثارہ)

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَيُؤْثِرُونَ عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ ۚ وَمَن يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ﴿٩﴾ الحشر
’’اور وہ اپنے آپ پر( دوسروں کو) ترجیح دیتے ہیں چاہے خود محتاج ہوں اور جو نفس کی کنجوسی سے بچالیے گئے وہی کامیاب ہیں۔‘‘
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
17- بیوہ اور مسکین کی خبر گیری کرنا:

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
’’بیواؤں اور مسکین کی خبر گیری کرنے والا اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے کی طرح ہے۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ
"وہ اس عبادت کرنے والے کی طرح ہے جو سست نہیں ہوتا اور اس روزے دار کی طرح ہے جو ناغہ نہیں کرتا۔"
(بخاری کتاب الادب باب الساعی علی الارملۃ، مسلم: کتاب الزھد باب الاحسان الی الارملۃ والمسکین)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
18- مسکین مسلمانوں کی امداد کرنا:

عبد الرحمن بن عوف اور سعد بن ربیع رضی اللہ عنہما مہاجرین و انصار کے مواخات میں بھائی بھائی قرار دیے گئے۔ سعد رضی اللہ عنہ نے عبد الرحمن سے کہا:
’’میں انصار میں سب سے زیادہ مالدار ہوں۔ میں اپنے مال کے دو حصے کرتا ہوں ایک تم لے لو۔ اور میری دو بیویاں ہیں جو آپ کو پسند ہو میں اسے طلاق دیدوں پھر جب اس کی عدت پوری ہو جائے تو آپ اس سے نکاح کر لیں۔"
عبد الرحمن نے کہا:
"اللہ تمہیں تمہارے اہل و عیال میں برکت عطا فرمائے۔ مجھے تو بس یہ بتادو کہ بازار کہاں ہے۔"
(صحیح بخاری کتاب مناقب الانصار باب اخاء النبی بین المہاجرین والانصار)

سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم ایک سفر میں تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہمارے ساتھ تھے آپ نے فرمایا:
"جس کے پاس فاضل سواری ہو وہ اس کو دیدے جس کے پاس سواری نہ ہو۔ جس کے پاس فاضل زاد راہ ہو وہ اس کو دیدے جس کے پاس زادِ راہ نہ ہو۔"
پھر آپ نے چند اور چیزوں کا ذکر کیا یہاں تک کہ ہم نے سمجھ لیا کہ فاضل اشیاء میں ہمارا کوئی حق نہیں۔
(مسلم کتاب اللقطۃ باب استحباب المواسات بفضول المال)

مسکین مسلمانوں کو ناراض نہ کرنا:
سیدنا سلمان، صہیب اور بلال رضی اللہ عنہم اجمعین کے پاس سے ابو سفیان گزرے تو انہوں نے (ابو سفیان کو دیکھ کر) کہا:
’’اللہ کی تلواروں نے اللہ کے دشمن (ابو سفیان) سے اپنا حق وصول نہیں کیا۔‘‘
سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کہنے لگے
’’کیا تم یہ بات قریش کے بزرگ سردار کے بارے میں کہہ رہے ہو؟‘‘
پھر ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو سارا قصہ سنایا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اے ابو بکر! شاید تم نے ان مسکین مسلمانوں کو ناراض کر دیا ہے۔ اگر واقعی تم نے ان کو ناراض کر دیا تو اپنے رب کو ناراض کر دیا۔‘‘
یہ سن کر سیدنا ابو بکرصدیق رضی اللہ عنہ ان کے پاس آئے اور کہا:
’’کیا میں نے تمہیں ناراض کیا؟‘‘
انہوں نے کہا: ’’نہیں اے میرے بھائی! اللہ تعالیٰ تمہاری مغفرت فرمائے۔‘‘
(مسلم کتاب فضائل الصحابۃ باب من فضائل سلمان وصہیب وبلال)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
19- یتیم کی کفالت کرنا:

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"یتیم کی کفالت کرنے والا، یتیم اس کا قریبی ہو یا غیر، جنت میں میرے ساتھ ان دو انگلیوں کی طرح ہوگا۔"
آپ نے انگلی شہادت اور درمیان انگلی کے ساتھ اشارہ کیا۔
(بخاری کتاب الادب باب فضل من یعول یتیما۔ ومسلم کتاب الزھد باب الاحسان الی الارملۃ والمسکین والیتیم)

بے وسیلہ لوگوں کی امداد کی برکت سے رزق میں اضافہ:
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں دو بھائی تھے۔ ان میں سے ایک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر رہتا (اور دین کا علم سیکھتا) اور دوسرا کاروبار کرتا اور کماتا تھا۔ کاروباری بھائی نے اپنے بھائی کی شکایت آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کی۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’(تمہیں کیا معلوم) شاید تمہیں روزی اس کی وجہ سے ہی ملتی ہو۔‘‘
(ترمذی ابواب الزھد باب فی التوکل علی اللہ ۔ح۔۵۴۳۲ ۔ امام نووی نے مسلم کی شرط پر صحیح کہا ہے)

سعد رضی اللہ عنہ کو خیال آیا کہ انہیں اپنے سے کم تر لوگوں پر فضیلت حاصل ہے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’تم لوگ انہیں کمزوروں کی وجہ سے مدد کیے جاتے اور رزق دیے جاتے ہو"۔ (پھر ان سے بر تر ہونے کے زعم کا کیا جواز ہے؟)
(بخاری کتاب الجہاد باب من استعان بالضعفاء والصالحین فی الحرب)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
قناعت کابیان

عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’قیامت کے دن ابن آدم کے قدم اپنے رب کے پاس سے اس وقت تک حرکت نہیں کریں گے جب تک اس سے پانچ سوال نہ کر لیے جائیں۔ اس نے عمر کس کام میں ختم کی؟ اس نے جوانی کس کام میں بوسیدہ کی؟ اس نے مال کہاں سے کمایا؟ کہاں خرچ کیا؟ اور جتنا علم تھا اس پر کتنا عمل کیا؟"
(السلسلۃ الصحیحۃ للالبانی:۶۴۹.)

قناعت کی فضیلت
نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:
’’وہ شخص کامیاب ہو گیا جس نے اسلام قبول کیا اور برابر سرابر روزی دیا گیا اور اللہ تعالیٰ نے اس کو جو کچھ دیا اس پر اس کو قناعت کی توفیق ملی۔‘‘
(مسلم کتاب الزکوۃ باب فی الکفاف والقناعۃ)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:
’’اوپر والا ہاتھ (دینے والا) نیچے والے ہاتھ (لینے والے) سے بہتر ہے۔ خرچ کی ابتدا ان لوگوں سے کرو جن کی کفالت تمہارے ذمہ ہے۔ بہترین صدقہ وہ ہے جو اپنی ضروریات پوری کرنے کے بعد ہو اور جو سوال سے بچنا چاہے اللہ تعالیٰ اسے بچا لیتا ہے اور جو لوگوں سے بے نیازی اختیار کرے اللہ تعالیٰ اسے بے نیاز کر دیتا ہے۔
(بخاری کتاب الزکوۃ باب لاصدقہ الاعن ظھر غنی، مسلم کتاب الزکوۃ باب النفقۃ علی العیال)

سیدنا حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مال کا سوال کیا آپ نے مجھے عطا فرمایا میں نے پھر سوال کیا۔ آپ نے مجھے عطا فرمایا۔ میں نے پھر سوال کیا آپ نے پھر عطا فرمایا اور فرمایا:
’’اے حکیم! یہ مال یقیناً سر سبز ہے، شیریں ہے جو اسے بے نیازی کے ساتھ حاصل کرتا ہے اس کے لیے اس میں برکت دی جاتی ہے اور جو اپنے نفس کے لالچ کے ساتھ حاصل کرتا ہے اس کے لیے اس میں برکت نہیں دی جاتی اور وہ بیمار شخص کی طرح ہوتا ہے جو کھاتا ہے اور سیر نہیں ہوتا اور دینے والا ہاتھ مانگنے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔
(بخاری کتاب الزکوۃ باب الاستعفاف عن المسئلۃ، مسلم کتاب الزکوۃ باب بیان ان الید العلیا خیر من الید السفلی)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
مسکین مسلمانوں کی فضیلت:

ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اَللّٰہُمَّ اَحْیِنِیْ مِسْکِیْنًا، وَاَمِتْنِیْ مِسْکِیْنًا، وَاحْشُرْنِیْ فِیْ زَمْرَۃِ الْمَسَاکِیْن.‘‘
’’اے اللہ مجھے مسکینی کی حالت میں زندہ رکھ، اور مسکینی کی حالت میں فوت کر، اور مجھے مساکین کے گروہ میں جمع کر۔‘‘
(السلسلۃ الصحیحۃ للالبانی:۸۰۳)

ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’میرا حوض عدن سے لے کر عمان تک ہو گا، اس کا پانی برف سے زیادہ سفید ہو گا، شہد سے زیادہ میٹھا، اکثر آنے والے لوگ فقراء اور مہاجرین ہوں گے، پراگندہ بالوں والے میلے کچیلے کپڑوں والے جو ناز و نعم والی عورتوں سے شادی نہ کر سکتے ہوں گے نہ ان کے لیے راستے کھولے جاتے ہوں گے۔ جو لوگ اپنے ذمے حق ادا کرتے ہوں گے لیکن ان کا حق انہیں نہ دیا جاتا ہو گا۔‘‘
(السلسلۃ الصحیحۃ للالبانی:۲۸۰۱.)

نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جنت اور دوزخ میں جھگڑا ہوا۔
جہنم نے کہا:
’’میرے اندر سرکش اور متکبر انسان ہوں گے۔‘‘
جنت نے کہا:
’’میرے اندر کمزور اور مسکین لوگ ہوں گے۔‘‘
(مسلم کتاب الجنۃ وصفۃ نعیمھا باب النار یدخلھا الجبارون والجنۃ یدخلھا الضعفاء)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:
’’بہت سے پراگندہ، غبار آلود اشخاص جنہیں دروازوں سے ہی دھکیل دیا جاتا ہے اگر اللہ پر قسم کھا لیں تو اللہ ان کی قسم پوری فرما دیتا ہے۔‘‘
(مسلم کتاب البر والصلۃ باب فضل الضعفاء والخاملین)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:
’’میں جنت کے دروازے پر کھڑا ہوا تو (میں نے دیکھا کہ) اس میں داخل ہونے والے اکثر مسکین لوگ ہیں اور دولت مند رکے ہوئے ہیں۔ میں جہنم کے دروازے پر کھڑا ہوا تو دیکھا کہ ان میں داخل ہونے والی اکثر عورتیں ہیں۔‘‘
(بخاری کتاب النکاح، مسلم کتاب الرقاق باب اکثر اھل الجنۃ الفقراء)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:
’’جنت میں فقراء مال داروں سے 500 سال پہلے داخل ہوں گے۔‘‘
(ترمذی ابواب الزھد باب ماجاء ان فقراء المھاجرین یدخلون الجنۃ قبل اغنیاء ھم ۔ح۔۳۵۳۲۔ امام ترمذی نے حسن صحیح، ابن حبان نے صحیح کہا ہے)

سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر آئے وہاں تین کھالوں، ایک صاع جو اور سلم نامی درخت کے پتوں کے سوا کچھ نہ تھا۔ عمر رضی اللہ عنہ کی آنکھیں بھر آئیں اور رونے لگے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیوں روتے ہو۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا۔ آپ اللہ کے رسول ہیں۔ اور یہ آپ کی کل کائنات ہے۔ چٹائی کے نشان بازو پر پڑ گئے ہیں۔ فارس اور روم کے لوگ پھلوں اور نہروں میں عیش کر رہے ہیں۔ دنیا کی کونسی نعمت ہے جو انہیں نہ ملی ہو۔ حالانکہ وہ اللہ کی عبادت نہیں کرتے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اے ابن خطاب کیا تمہیں اس بات میں کچھ شک ہے کہ انہیں ان کے اعمال کی جزا دنیا میں دے دی گئی ہے۔ کیا تم اس بات پر راضی نہیں کہ ان کے لیے دنیا ہو اور تمہارے لیے آخرت۔ عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول میرے لیے استغفار کیجیے۔“
(بخاری کتاب النکاح باب موعظۃ الرجل ابنتہ لحال زوجھا، مسلم کتاب الطلاق باب فی الایلاء واعتزال النساء وتخیرھن)

سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا چکی پیسا کرتی تھیں۔ چکی پیستے پیستے انہیں کچھ تکلیف ہو گئی۔ انہی ایام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک لونڈی آئی۔ فاطمہ رضی اللہ عنہا لونڈی مانگنے کے لیے آپ کے پاس گئیں۔ آپ گھر میں نہیں تھے۔ جب آپ آئے تو عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے آنے کا ذکر کیا۔ آپ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے گھر گئے اور فرمایا کیا میں تمہیں ایسی چیز نہ بتاؤں جو اس چیز سے بہتر ہے جس کا تم نے سوال کیا۔ جب تم بستر پر لیٹو تو ۴۳ بار اللہ اکبر ۳۳ بار سبحان اللہ اور ۳۳ بار الحمد للہ پڑھ لیا کرو۔ یہ تمہارے لیے خادم سے بہتر ہے۔
(صحیح بخاری باب فضائل الصحابہ باب مناقب جعفر علی بن ابی طالب، مسلم کتاب الذکر)

ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فاطمہ رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف لے گئے لیکن دروازے ہی سے واپس ہو گئے۔ جب سیدنا علی رضی اللہ عنہ آئے تو سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے ان سے اس بات کا ذکر کیا۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور واپسی کا سبب پوچھا۔ آپ نے فرمایا:
"میں نے دروازہ پر ریشمی پردہ دیکھا تو میں نے کہا مجھے دنیا سے کیا مطلب؟"
انہوں نے کہا آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں۔
آپ نے فرمایا:
“اس کو فلاں شخص کے گھر والوں کے پاس بھیج دو وہ ضرورت مند ہیں۔“
(صحیح بخاری کتاب الہبۃ وفضلھا باب ہدیہ مایکرہ ولبسھا)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
مال و دولت کی فراوانی خطرناک ہے:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اللہ کی قسم! مجھے تمہارے بارے میں غربت کا ڈر نہیں ہے بلکہ اندیشہ ہے کہ تم پر دنیا فراخ کر دی جائے گی جیسے تم سے پہلے لوگوں پر کی گئی تھی۔ پھر تم اس میں اسی طرح رغبت کرو گے جیسے انہوں نے کی تھی۔ اور یہ تمہیں بھی اسی طرح ہلاکت میں ڈال دے گی جیسے اس نے ان کو ہلاک کیا۔‘‘
(بخاری کتاب الجزیۃ باب الجزیۃ والموادعۃ مع اہل الذمۃ، مسلم اوائل کتاب الزھد والرقائق)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:
’’بے شک دنیا شیریں و شاداب ہے۔ یقیناً اللہ تعالیٰ اس میں تمہیں جانشین بنائے گا اور دیکھے گا کہ تم کیسے عمل کرتے ہو۔‘‘
’’پس تم دنیا اور عورت (کے فتنے اور مکر) سے بچو۔ بنی اسرائیل کے لیے پہلا فتنہ عورت تھی۔‘‘
(مسلم کتاب الرقاق باب اکثر اھل الجنۃ الفقراء واکثر اھل النار النساء)

ابو مالک اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’دنیا کی مٹھاس آخرت کی کڑواہٹ ہے اور دنیا کی کڑواہٹ آخرت کی مٹھاس ہے.“
(السلسلۃ الصحیحۃ للالبانی ۹۷۱۸۱)

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
عنقریب میری امت کو داء الامم (امتوں کی بیماری) جکڑے گی۔
صحابہ نے کہا:
اے اللہ کے رسول: یہ داء الامم کیا ہے؟
آپ نے فرمایا:
"بد گوئی، تکبر، انکار، ایک دوسرے سے مال کی کثرت کی خواہش، دنیا میں مقابلہ، بغض، حسد حتی کہ وہ شخص سرکش بن جائے۔"
(السلسلۃ الصحیحۃ للالبانی ۴۱۶۲)
 
Top