• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

القراء ات والقراء

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ ابو محمد مکی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
مامون الرشید کے زمانہ میں ابو علی الکسائی الکوفی رحمہ اللہ کو یعقوب الحضرمی رحمہ اللہ کی بجائے ساتواں قرار دیا گیا، کیونکہ الکسائی رحمہ اللہ مامون کامؤدب تھا اور یہ’ سبعہ‘ دو یعنی ابن عامررحمہ اللہ اورابوعمرورحمہ اللہ کے سوا سب کے سب عجمی ہیں بعض نے لکھا ہے کہ ان کے سبعہ کہنے کی وجہ یہ ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ’مصاحف سبعۃ‘ لکھ کر بھیجے تھے توقراء بھی مصاحف کے مطابق سات قرار دئیے گئے اور بعض نے ’أنزل القرآن علی سبعۃ أحرف‘ کے ساتھ مربوط کیاہے جو بے معنی بات ہے۔ ابن حبیب المقری رحمہ اللہ، جو ابن مجاہدرحمہ اللہ سے متقدم ہیں،نے قر اء ات میں اپنی کتاب کا نام ’کتاب الخمسۃ‘ رکھاہے اور اس میں صرف پانچ قراء کا ذکر کیاہے اور بعض نے ’کتاب الثمانیۃ‘ لکھی ہے اوریعقوب الحضرمی رحمہ اللہ کا اضافہ کر دیاہے اور بعض نے ’کتاب العشرۃ‘ الغرض ہر ایک نے اپنے ذوق کے مطابق انتخاب کیا ہے۔ ’’وللناس فیما یعشقون مذاہب‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(١) عبداللہ بن کثیر الداری رحمہ اللہ المتوفی۱۲۰ھ
یہ تابعی ہیں اور مکہ میں بھی ان کی قراء ت کو خاص شہرت حاصل تھی صحابہ کرام میں سے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ، ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ اور عبداللہ بن الزبیررضی اللہ عنہ سے ان کی ملاقات ثابت ہے بعض نے ان کا نسب یوں لکھا ہے:
’’عبداﷲ بن کثیر بن عمرو بن عبداﷲ بن زاذان بن فیروزان بن ہرمز الإمام أبو معبد المکي الداري إمام أہل مکۃ في القراء ت۔‘‘
الداری عطار کو کہا جاتاہے کیونکہ اس زمانہ میں بحرین میں’دارین‘ مقام سے عطر لایا جاتاتھا اس لیے عطار کو الداری کہا جاتاتھا۔ لیکن بعض نے لکھا ہے کہ یہ بنی عبدالدار بن ہانی تمیم الداری کی نسل سے تھے۔ اس لیے ان کو الداری کہا جاتا ہے۔ (التاریخ الکبیر:۵؍۱۸۱)
پہلی وجہ صحیح معلوم ہوتی ہے، کیونکہ یہ ابناء فارس سے تھے جیسا کہ بیان کردہ نسب سے ظاہر ہے اور عبداللہ بن کثیر القرشی اور عبداللہ بن کثیر القاری میں التباس کی وجہ سے دونوں کو ایک ہی سمجھ لیا گیاہے۔
ابن کثیررحمہ اللہ ۴۵ھ کو مکہ میں پیداہوئے اورمکہ میں مذکور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے علاوہ مجاہد بن جبیررحمہ اللہ اور درباس مولیٰ ابن عباس سے ملاقات کی اور ان سے روایت کا شرف بھی حاصل کیا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ حافظ ابو عمرو الدانی رحمہ اللہ وغیرہ نے لکھا ہے :
’’ صاحب ترجمہ نے عبداللہ بن السائب رضی اللہ عنہ سے عرضاً قراء ت حاصل کی۔ اس قول کو گو أبوالعلاء الہمداني نے ضعیف کہا ہے لیکن اس میں ضعف کی کوئی وجہ نہیں ہے جبکہ ابن کثیررحمہ اللہ نے متعدد صحابہ کو پایا ہے اور ان سے روایت بھی کی ہے۔‘‘
٭ ابن الجزری رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’ ابن مجاہدرحمہ اللہ نے امام شافعی رحمہ اللہ کے طریق سے اس کو صراحتاً ذکر کیاہے ان کے تلامذہ میں اسماعیل بن عبداللہ بن القسط رحمہ اللہ، جریر بن حازم رحمہ اللہ، اسماعیل بن مسلم رحمہ اللہ اور ابن جریج رحمہ اللہ وغیرہ شامل ہیں جو ان سے قراء ت کے ر ا وی بھی ہیں ۔ ابن الجزری رحمہ اللہ نے قریباً تیس راویوں کے نام ذکر کئے ہیں جن میں سفیان بن عیینہ اور حماد بن سلمہ بھی شامل ہیں۔‘‘ (غایۃ النہایۃ :۱؍۴۴۳)
٭ ابوعمرورحمہ اللہ کابیان ہے کہ ابن کثیر مجاہدرحمہ اللہ سے عربیت میں فائق تھے ابن مجاہدرحمہ اللہ’کتاب السبعۃ‘ میں لکھتے ہیں:
’’ولم یزل عبداﷲ ہو الإمام المجتمع علیہ في القرائات بمکۃ حتی توفي سنۃ عشرین ومائۃ۔‘‘
(٢) نافع بن عبدالرحمن بن ابی نعیم رحمہ اللہ المتوفی۱۶۹ھ
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ علامہ ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’الإمام، حبر القرآن، أبورویم… ویقال: أبوالحسن ویقال: أبونعیم مولی جعونۃ ابن شعوب اللیثی، حلیف حمزۃ عم رسول اﷲ ﷺ أصلہ أصبہاني۔‘‘
نافع معمرین میں شمار ہوتے ہیں۹۵ھ میں قراء ت اَخذ کی اور ۱۲۰ھ کو مسند قراء ت پرمتمکن ہوئے جب کہ ان کے اکثر مشائخ زندہ تھے امام مالک رحمہ اللہ نافع رحمہ اللہ کو امام الناس فی القراء ت کا لقب دیتے اور یہ بھی فرمایاکرتے: ’’قرائۃ نافع سنۃ‘‘
مدینہ منورہ میں ان کی قراء ت نے خصوصی شہرت حاصل کی ستر تابعین سے قراء ت حاصل کی جو حضرت اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ، عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ اور ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ کے تلامذہ سے تھے۔
٭ ابن الجزری رحمہ اللہ نے نافع رحمہ اللہ سے ۱۴۴ طرق ذکر کئے اور لکھاہے :
’’وأما قرائۃ نافع من روایتي قالون وورش عنہ۔‘‘
’’امام نافع رحمہ اللہ سے قالون رحمہ اللہ اورورش رحمہ اللہ نے روایت نقل کی ہے۔‘‘
پھر دونوں سے روایات نقل کی ہیں اور اَسانید صحیحہ سے تمام طرق کا احصاء کیاہے ۔ اَولاً قالون رحمہ اللہ سے روایات ذکر کر کے آخر میں لکھا ہے :
’’فہذہ ثلاث وثمانون لقالون من طریقي الحلواني وأبي نشیط۔‘‘
’’حلوانی اور ابو نشیط کی سند سے قالون کی تراسی اسناد ہیں۔‘‘
اور پھر ورش رحمہ اللہ تک طریق بیان کیے ہیں اور لکھاہے :
’’فہذہ إحدی وستون طریقا لورش۔‘‘
’’ورش رحمہ اللہ کی اکسٹھ اَسناد ہیں۔‘‘
اور یہ دونوں نافع رحمہ اللہ کے تلمیذ ہیں جو کل ۱۴۴ طرق(اسناد) نافع تک پہنچتے ہیں ان میں سے پانچ کی قراء ت مشہور ہے:
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ عبدالرحمن بن ہرمز الأعرج صاحب أبي ہریرۃ رضی اللہ عنہ
٭ أبوجعفر یزید بن القعقاع أحد القراء العشرۃ
٭ شیبۃ بن نصاح مقرئ المدینۃ ومولی أم سلمۃ رضی اللہ عنہا توفي ۱۳۰ھ
٭ مسلم بن جندب الہذلي ٭ یزید بن رومان
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
حالات
النبلائ: ۱۰؍۳۱۶، إرشاد الأریب: ۶؍۱۰۳، شذرات: ۲؍۴۸، النجوم الزاہرہ: ۲؍۳۱۵، العبر: ۱؍۳۱۸، معرفۃ القراء الکبار: ۱؍۱۲۸، طبقات القراء للجزري
اوران خمسۃ نے مقری المدینہ عبداللہ بن عیاش بن ابی ربیعہ رحمہ اللہ پر بھی قراء ت کی ہے۔
٭ ابن عدی الکامل میں نافع رحمہ اللہ کی روایت کے متعلق لکھتے ہیں:
’’لہ نسخۃ عن الأعرج (یرویہا عنہ ابن أبي فدیک وعنہ أحمد صالح) تبلغ مائۃ حدیث، ولہ نسخۃ أخری عن أبي الزناد ولہ من التفاریق (عما یحدث بہ عنہ جماعۃ من أہل البیت) قدر خمسین حدیثا ولم أر لہ شیئا منکرا۔ (فأذکرہ وأرجو أنہ لا بأس بہ)‘‘
٭ علامہ ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’بہتر ہے کہ اس کی حدیث حسن شمار کی جائے۔‘‘ (النبلاء:۷؍۳۳۸ وطبقات القراء)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
حالات امام نافع کے مصادر
التاریخ الکبیر: ۸؍۷۸، مشاہیر علماء الأمصار: ۱۴۱، الکامل لابن عدی: ۵؍۲۵، تہذیب التہذیب: ۴؍۹، میزان الاعتدال: ۴؍۲۴، العبر للذہبي: ۱؍۲۵۷، شذرات: ۱؍۲۷۰، غایۃ النہایۃ: ۲؍۳۳۰
رسالہ شاطبیہ اور التیسیر میں ان تک سات طرق ذکر ہوئے ہیں صاحب التیسیر نے اَسانید ذکر کی ہیں جو نافع رحمہ اللہ تک پہنچتی ہیں اور الشاطبیہ میں الدانی رحمہ اللہ تک اَسانید مذکور ہیں دوسرا طریق ابن بویان تک الھدایہ میں ابن شریح اور المہدوی سے مذکور ہے تیسرا طریق ابو الحسن بن علی العلان کا ہے جوابن السوار نے ذکر کیا ہے چوتھا طریق ابوبکر بن مہران کا ہے جو کتاب النہایہ سے منقول ہے۔
ابن الجزری رحمہ اللہ نے ان تک اپنی اَسانید ذکر کی ہیں اور ابن بویان تک ۲۳طریق ذکر کیے ہیں اورالقرازتک ۱۱طرق اور القراز اور ابن بویان دونوں قاضی ابوحسان کے تلمیذ ہیں یہ طریق ابن الجزری رحمہ اللہ نے ذکر کیے ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
حالات
أبونشیط ۲۵۸ھ، الحلواني ۲۵۰ھ، ابن بویان ۳۴۴ھ، ابن أبي مہران: ۲۸۹ھ، جعفر بن محمد ۲۹۰ھ، الزرق ۲۴۰ھ، الأصبہاني: ۲۹۶ھ ۔
ابو نشیط محمد بن ہارون الامام المقری، المجود المروزی البغدادی قرء علی عیسیٰ بن مینا بحرف نافع
ہم بیان کر آئے ہیں کہ نافع رحمہ اللہ نے ستر تابعین پر قرآن کی قراء ت کی ہے جن میں ابو جعفر رحمہ اللہ، محمد ابن ہرمز الاعرج رحمہ اللہ ، مسلم بن جندب رحمہ اللہ، محمد بن مسلم بن شہاب الزہری رحمہ اللہ، صالح بن خوات رحمہ اللہ اور یزیدرحمہ اللہ مشہور تر ہیں۔
اور عبدالرحمن بن ہرمز الاعرج رحمہ اللہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہ، ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ، عبداللہ بن عیاش بن ابی ربیعہ المخزومی رضی اللہ عنہ کی ہے اور مسلم بن جندب رضی اللہ عنہ اور ابن رومان رضی اللہ عنہ، عبداللہ بن عیاش رضی اللہ عنہ کے بھی تلمیذ ہیں اور نافع رحمہ اللہ کے اَساتذہ میں ایک شیبہ بن نصاح رضی اللہ عنہ بھی ہیں جنہوں نے حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے قراء ت کی اور وہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ، ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ کے اور ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ وابن عباس رضی اللہ عنہ اور ابن عیاش رضی اللہ عنہ تینوں تلمیذ ہیں اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ کے اور ابن عباس رضی اللہ عنہ نے زید بن ثابت رضی اللہ عنہ پر بھی قراء ت کی ہے اور یہ تینوں صحابہ(زیدرضی اللہ عنہ، ابی رضی اللہ عنہ اور عمررضی اللہ عنہ) بلا واسطہ رسول اللہﷺکے شاگرد ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٣) عبداللہ بن عامر الیحصبي رحمہ اللہ المتوفی۱۰۸ھ
ان کی قراء ت شام میں رائج ہوئی۔ یہ حضرت مغیرہ بن شہاب المخزومی رحمہ اللہ کے شاگرد ہیں اور مغیرہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے۔ علاوہ اَزیں ان کو نعمان بن بشیررضی اللہ عنہ اور واثلہ بن الاسقع سے بھی لقاء حاصل ہے۔ بعض نے ان کو بلاواسطہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا شاگرد گردانا ہے اور لکھا ہے کہ انہوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے قراء ت کی ہے۔(طبقات القراء:۱؍۴۲۳،۴۲۵)
٭ ابن الجزری رحمہ اللہ نے ان کا پورا نسب لکھا ہے:
’’عبداﷲ بن عمر بن یزید بن تمیم بن ربیعہ بن عامر بن عبداﷲ بن عمران الیحصبي۔‘‘(غایۃ النہایۃ:۱؍۴۲۴، الجرح والتعدیل: ۵؍۱۲۲)
یعنی یہ عربی ہیں ان کی کنیت ابوعمران ہے قراء ت میں اہل شام کے امام مانے جاتے ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ ابو عمرو الدانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’أخذ القرائۃ عرضا عن أبي الدرداء وعن المغیرۃ بن أبي شہاب صاحب عثمان بن عفان، وقیل: عرض علی عثمان نفسہ۔‘‘ (میزان الاعتدال:۲؍۴۴۹)
’’انہوں نے ابوالدرداء رضی اللہ عنہ سے اور مغیرہ بن ابی شہاب رضی اللہ عنہ جو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے ساتھی ہیں ان سے قراء ت حاصل کی اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ انہوں نے براہ راست حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے قراء ت حاصل کی ہے۔‘‘
٭ ابن الجزری رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’قلت وقد ورد في إسنادہ تسعۃ أقوال أصحہا أنہ قرأ علی المغیرۃ‘‘
’’میں کہتاہوں کہ اس کی اسناد کے متعلق نو اَقوال مروی ہیں سب سے صحیح ترین قول یہ ہے کہ انہوں نے مغیرہt پر قراء ت کی ہے۔‘‘
لیکن حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر پورا قرآن تلاوت کرنا بعید سا ہے اسی طرح حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے تلمذکی نسبت بھی صحیح نہیں ہے بعض نے حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ پر قراء ت کو بھی بعید سا شمار کیا ہے۔ لیکن ان پر استبعاد کی کوئی وجہ نہیں ہے اور ابن مجاہدرحمہ اللہ کا انکار بے معنی ہے۔
الغرض ابن عامررحمہ اللہ کی قراء ت صحیح اور معتمد ہے اور اس پر طعن صحیح نہیں۔ خصوصاً جبکہ ابن مجاہدرحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ وہ قراء ت میں اہل شام اور جزیرہ کے اُستاد ہیں ۔
 
Top