مذہبی تصورات
سید احمد خان نے
'تفسیر القرآن وھو الھدی والفرقان' کے نام سے قرآن مجید کے تقریباً سترہ پاروں کی تفسیر لکھی ہے۔ اس تفسیر کے شروع میں انہوں نے ٢٠ صفحات میں
'تحریر فی اصول التفسیر' کے نام سے
اپنے ١٥ اصولِ تفسیر بھی نقل کیے ہیں جن میں سے بعض درست ہیں جبکہ بعض جہل مرکب کا نتیجہ ہیں۔ ان اصولوں کا خلاصہ ہم انہی کے الفاظ میں ذیل میں نقل کر رہے ہیں:
''١۔یہ بات مسلم ہے کہ ایک خدا خالق کائنات موجود ہے...٢۔یہ بھی مسلم ہے کہ اس نے انسانوں کی ہدایت کے لیے انبیاء مبعوث کیے ہیں اور محمد ۖ رسول برحق و خاتم المرسلین ہیں۔٣۔ یہ بھی مسلم ہے کہ قرآن مجید کلام الٰہی ہے...٤۔ یہ بھی مسلم ہے کہ قرآن مجید بلفظہ آنحضرت ۖ کے قلب پر نازل ہوا ہے یا وحی کیا گیا ہے' خواہ یہ تسلیم کیا جاوے کہ جبریل فرشتہ نے آنحضرت تک پہنچایا ہے جیسا کہ مذہب عام علمائے اسلام کا ہے یا ملکہ نبوت نے جو روح الامین سے تعبیر کیا گیا ہے آنحضرت کے قلب پر القا کیا ہے جیسا کہ میرا خاص مذہب ہے...مگر میں اس بات کو تسلیم نہیں کرتا کہ صرف مضمون القا کیا گیا تھا اور الفاظِ قرآن آنحضرت ۖکے ہیں...٥۔ قرآن مجید بالکل سچ ہے' کوئی بات اس میں غلط یا خلافِ واقع مندرج نہیںہے...٦۔صفات ثبوتی اور سلبی ذات باری تعالیٰ کے 'جس قدر قرآن مجید میں بیان ہوئے' سب سچ اور درست ہیں'مگر ان صفات کی ماہیت کا من حیث ھی ھی جاننا مافوقِ عقل انسانی ہے... ٧۔صفاتِ باری تعالیٰ عین ذات ہیں اور وہ مثل ذات کے ازلی وابدی ہیں اور مقتضائے ذات' ظہورِ صفات ہے...٨۔ تمام صفات باری تعالیٰ کی' نامحدود اور مطلق عن القیود ہیں...٩۔قرآن مجید میں کوئی امر ایسا نہیں ہے جو قانونِ فطرت (Nature) کے برخلاف ہو...بیشک ہمارے بعض اخوان کو اس پر غصہ آویگا اور قرآن مجید میں بعض امور کو معجزہ قرار دیکر اور ان کو مافوق الفطرت (Super Natural)سمجھ کر پیش کریں گے اور کہیں گے کہ قرآن مجید میں معجزات مافوق الفطرت موجود ہیں۔ ہم ان کے اس قول کو نہایت ٹھنڈے دل سے سنیں گے اور عرض کریں گے کہ جو آیت قرآن مجید کی آپ پیش کرتے ہیں اور اس سے معجزات مافوق الفطرت پر استدلال فرماتے ہیں' آیااس کے کوئی دوسرے معنی بھی ایسے ہیں جو موافق زبان وکلام عرب کے اور موافق محاورات اور استعمالات اور استعارات قرآن مجید کے ہو سکتے ہیں' اگر نہیں ہو سکتے تو ہم قبول کریں گے کہ ہمارا یہ اصول غلط ہے اور اگر ہو سکتے ہیں تو ہم نہایت ادب سے عرض کریں گے کہ آپ اس بات کو ثابت نہیں کر سکے کہ قرآن مجید میں معجزات مافوق الفطرت موجود ہیں...١٠۔قرآن مجید جس قدر نازل ہوا ہے' بتمامہ موجود ہے نہ اس میں ایک حرف کم ہوا ہے نہ زیادہ ہوا ہے...١١۔ہر ایک سورہ کی آیات کی ترتیب میرے نزدیک منصوص ہیں...١٢۔ قرآن مجید میں ناسخ ومنسوخ نہیں ہے' یعنی اس کی کوئی آیت کسی دوسری آیت سے منسوخ نہیں ہوئی...١٣۔قرآن مجید دفعةًواحدةً نازل نہیں ہوا ہے بلکہ نجماً نجماً نازل ہوا ہے... ١٤۔موجوداتِ عالم اور مصنوعات کائنات کی نسبت جو کچھ خدا نے قرآن مجید میں کہا ہے ' وہ سب ھو ھو یا بحیثیة من الحیثیات' مطابق ِواقع ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ اس کا قول اس کی مصنوعات کے مخالف ہو یا مصنوعات اس کے قول کے مخالف ہوں۔ بعض جگہ ہم نے قول کو' ورڈ آف گاڈ' (Word of God)اور اس کی مصنوعات کو 'ورک آف گاڈ' (Work of God)سے تعبیر کیا ہے اور یہ کہا ہے کہ ورڈ آف گاڈ اور ورک آف گاڈ دونوں کا متحد ہونا لازم ہے۔ اگر ورڈ' ورک کے کسی حیثیت سے مطابق نہیں ہے تو ایسا ورڈ' ورڈ آف گاڈ نہیں ہو سکتا۔ ١٥۔باوجود اس بات کے تسلیم کرنے کے کہ قرآن مجید بلفظہ کلامِ خدا ہے مگر جب کہ وہ عربی میں اور انسان کی زبان میں نازل ہوا ہے تو اس کے معنی اسی طرح پر لگائے جاوینگے جیسے کہ ایک نہایت فصیح عربی زبان میں کلام کرنے کے معنی لگائے جاتے ہیں اور جس طرح کہ انسان استعارہ ومجاز وکنایہ وتشبیہ تمثیل اور دلائل لمی واقناعی وخطابی و استقرائی والزامی کو کام میں لاتا ہے … الخ'' (تفسیر قرآن : ١١۔١٤)
سرسید احمد خان کے اصول تفسیر میں سے سب سے زیادہ گمراہی کا سبب جو اصول بنا وہ ان کا نواں اصول ہے کہ جس کے مطابق قرآن مجید میں کوئی امر بھی خلافِ فطرت واقع نہیں ہواہے۔ اپنے اس اصولِ فطرت کو ثابت کرنے کے لیے انہوں نے اپنے آخری اصول کا سہارا لیا ہے اور اجماعی عقائد اسلامیہ کی تردید میں عربی لغت اور صرف ونحو کے ایسے ایسے نادر استعمالات و استشہادات سامنے لائے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔
اپنے اس اصول کے تحت انہوں نے قرآن مجید میں انبیاء ورسل کے معجزات کی عجیب وغریب تاویلات کیں 'مثلاً حضرت موسیٰ علیہ السلام کے قصہ میں عصائے موسیٰ سے سمندر کے پھٹنے اور سمندری پانی کے دیواروں کی مانند دونوں اطراف میں کھڑے ہونے کی تاویل سمندر کے مدو جزر سے کی۔ اسی طرح جب بنی اسرائیل میں ایک شخص کے قتل ہونے پر گائے ذبح کر کے اسے گائے کا ایک ٹکڑا مارنے کا حکم دیا گیاتو اس سے مردہ زندہ ہو گیا' جس کے بیان میں ارشادِ باری تعالی
' کَذٰلِکَ یُحْیِ اللّٰہُ الْمَوْتٰی' کی تاویل سرسید نے یہ کی کہ مردہ کو زندہ کرنے سے مراد یہ ہے کہ نامعلوم قاتل معلوم ہو گیا۔
بنی اسرائیل کے بطور عذاب بندر بنائے جانے یعنی
' کُوْنُوْا قِرَدَةً خَاسِئِیْنَ' کی تاویل بنی اسرائیل کے بندروں کی طرح ذلیل ورسوا ہونے سے کی ہے۔ حضرت عزیر علیہ السلام کے قصہ میں
' فَاَمَاتَہُ اللّٰہُ مِائَةَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَہ...الخ' کی تاویل یہ کی ہے کہ اس سے مراد خواب ہے اور انہوں نے خواب میں اپنے مرے ہوئے گدھے کی ہڈیاں اٹھتے اور ایک گدھے کی صورت اختیار کرتے دیکھی تھیں۔
ارشادِباری تعالیٰ
'اِذْ قَالَ اللّٰہُ یٰعِیْسٰی اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ' کی تاویل یہ کی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت ہو چکے ہیں لیکن وہ صلیب پر نہیں مرے تھے بلکہ طبعی موت مرے تھے اور مسلمانوں نے رفع سماوی اور نزولِ عیسیٰ علیہ السلام کا عقیدہ نصاریٰ سے لیا ہے۔
اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پرندوں کی مورتیوں میںپھونک مار کر اڑتا ہوا پرندہ بنانے کے معجزات کابھی انکار کیا ہے اور کہا ہے کہ قرآن مجید میں یہ نہیں آیا کہ پرندے کی مورتی پھونک مارنے سے جاندار پرندہ بن جاتی تھی بلکہ یہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف سے ایک کھیل تھا جیسا کہ بچے مٹی کی مورتیاں بنا کر کھیلتے ہیں اور انہیں ہاتھوں میں اڑاتے پھرتے ہیں۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے مردوں کو زندہ کرنے کے معجزہ کی تاویل یہ کی ہے کہ اس سے مراد ان کا کافروں کو اسلام میں داخل کرنا ہے۔عصائے موسیٰ کے اژدہا بن جانے کی تاویل یہ کی کہ وہ دیکھنے والوں کے تخیل میں اژدہا اور سانپ تھا نہ کہ حقیقت میں کوئی سانپ بنا تھا' جیسا کہ جادگروں کی رسیاں اور لاٹھیاں بھی حقیقت میں سانپ نہیں بنی تھیں۔ پس عصائے موسیٰ اور جادوگروں کی لاٹھیوں اوررسیوں دونوں کا معاملہ ایک ہی تھا۔ میدانِ بدر میں ایک ہزار فرشتوں کے نزول کی تاویل یہ کی کہ اس سے مراد یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ اہل ایمان کے دلوں کومیدانِ جنگ میں ایک ہزار گنا تقویت اور ثابت قدمی عطا فرمائیں گے۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بن باپ پیدا ہونے کے معجزہ کا انکار کیا ہے۔ اسی طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام کے آگ میں ڈالے جانے کو ایک تخیل قرار دیا ہے۔ حضرت یونس علیہ السلام کے مچھلی کے پیٹ میں رہنے کا انکار کیا ہے اور اس کی تاویل یہ کی ہے کہ درحقیقت مچھلی نے ان کو منہ سے پکڑا تھا اور بعد میں چھوڑ دیا۔
قرآن مجید میں 'ملائکہ' سے مراد 'قوائے ملکوتی' لی ہے اور حضرت جبرائیل سے مراد 'قدرة اللہ' یا 'قوةاللہ' لی ہے۔ شیاطین سے مراد 'شیاطین انس' لیے ہیں۔ جنات سے مراد 'قوائے بہیمیہ 'لیے ہیں یا وحشی و اجڈ یا ڈاکو لیے ہیں۔
انسانوں اور حیوانات کی 'روح' کو ایک ہی روح یعنی 'حیوانی روح' قرار دیا ہے۔ 'سحر' سے مراد ایک خاص قسم کی 'مقناطیسی قوت' لی ہے جس سے دوسروں کو ہپناٹا ئز کیا جاتا ہے۔ دوبارہ زندہ ہونے کے بارے میں سرسید احمد خان کا عقیدہ یہ ہے کہ روح جب انسان کے جسم سے نکل جاتی ہے تو اب اس دنیاوی جسم یا کسی نئے جسم کے ساتھ زندہ نہیں ہو گی بلکہ روح بذاتہ ایک جسم کی مالک ہے اور روح اپنے اس جسم کے ساتھ ہی اخروی زندگی گزارے گی۔ آسان الفاظ میں سرسید احمد خان آخرت میں صرف روحانی زندگی کے قائل ہیں نہ کہ جسمانی کے۔
جنت اور جہنم کی نعمتوں اور عذابوں کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ یہ راحت وتکلیف کو بیان کرنے کے اسالیب ہیں اور جنت سے مراد کوئی مادی جنت نہیں ہے کہ جس میں حور و قصور ہوں بلکہ اس سے مراد روحانی راحت وسہولت ہے اور اسی طرح جہنم سے مراد بھی کوئی مادی جہنم نہیں ہے بلکہ اس سے مراد بے سکونی اور اضطراب کی کیفیات ہیں۔
واقعہ معراج کی یہ تاویل کی ہے کہ اس سے مراد خواب میں بیت المقدس اور آسمانوں کی سیر کرنا ہے۔ سورة المائدة میں 'المُنخنقة' کی تفسیر میں اہل کتاب کے ان جانوروں کو حلال قرار دیا ہے جنہیں انہوں نے گلا گھونٹ کر مار دیا ہو' وغیر ذلک۔