• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

صحیح مسلم (مختصر)

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
مختصر صحیح مسلم

اختصار:- امام حافظ زکی الدین عبدالعظیم المنذری رحمہ اللہ
اردو ترجمہ:- محمد عیسیٰ فاضل اسلامیہ یونیورسٹی اسلام آباد
پبلیشر:- دارالکتب سلفیہ لاہور​
کِتَابُ الإِیْمَان
کِتَابُ الوُضُوْءِ
کِتَابُ الغُسْلِ
کِتَابُ الْحَیْضِ
کِتَابُ الصَّلَاۃِ
کِتَابُ الجُمُعَۃِ
کِتَابُ الْعِیْدَیْنِ
کِتَابُ صَلَاۃِ الْمُسَافِرِیْنَ
کِتَابُ الْجَنَائِزِ
کِتَابُ الزَّکَاۃِ
کِتَابُ الصِّیَامِ
کِتَابُ الْإِعْتِکَافِ
کِتَابُ الْحَجِّ
کِتَابُ النِّکَاحِ
کِتَابُ الطَّلَاقِ
کِتَابُ العِدَّۃِ
کِتَابُ اللِّعَانِ
کِتَابُ الرِّضَاعِ
کِتَابُ النَّفَقَاتِ
کِتَابُ الْعِتْقِ
کِتَابُ الْبُیُوْعِ
کِتَابُ الْمُزَارَعَۃِ
کِتَابُ الْوَصَایَا وَالصَّدَقَۃِ وَالنَّحْلِ وَالعُمْری
کِتَابُ الْفَرَائِضِ
کِتَابُ الْوَقْفِ
کِتَابُ النُّذُوْرِ
کِتَابُ الْأَیْمَانِ
کِتَابُ تَحْرِیْمِ الدِّمَاءِ وَ ذِکْرِ الْقِصَاصِ وَالدِّیَۃِ
کِتَابُ الْقَسَامَۃِ
کِتَابُ الْحُدُوْدِ
کِتَابُ الْقَضَاءِوَالشَّھَادَاتِ
کِتَابُ اللُّقْطَۃِ
کِتَابُ الضِّیَافَۃِ
کِتَابُ الْجِھَادِ
کِتَابُ السِّیَرِ
کِتَابُ الْھِجْرَۃِ وَالْمَغَازِی
 
Last edited:

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
کِتَابُ الإِیْمَان


بَابٌ : اَوَّلُ الإيْمَانِ قَولُ لاَ اِلَهَ اِلاَّ اللَّهُ
ایمان کا پہلا رکن لا الٰہ الا اللہ کہنا ہے​
(1) عَنْ أَبِي جَمْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ كُنْتُ أُتَرْجِمُ بَيْنَ يَدَيِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا وَ بَيْنَ النَّاسِ فَأَتَتْهُ امْرَأَةٌ تَسْأَلُهُ عَنْ نَبِيذِ الْجَرِّ ؟ فَقَالَ: إِنَّ وَفْدَ عَبْدِ الْقَيْسِ أَتَوْا رَسُولَ اللَّهِ ﷺ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ مَنِ الْوَفْدُ أَوْ مَنِ الْقَوْمُ ؟ قَالُوا : رَبِيعَةُ۔ قَالَ : مَرْحَبًا بِالْقَوْمِ أَوْ بِالْوَفْدِ غَيْرَ خَزَايَا وَ لاَ نَدَامَى قَالَ فَقَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّا نَأْتِيكَ مِنْ شُقَّةٍ بَعِيدَةٍ وَ إِنَّ بَيْنَنَا وَ بَيْنَكَ هَذَا الْحَيَّ مِنْ كُفَّارِ مُضَرَ وَ إِنَّا لاَ نَسْتَطِيعُ أَنْ نَأْتِيَكَ إِلاَّ فِي شَهْرِ الْحَرَامِ فَمُرْنَا بِأَمْرٍ فَصْلٍ نُخْبِرُ بِهِ مَنْ وَرَائَنَا وَنَدْخُلُ بِهِ الْجَنَّةَ قَالَ فَأَمَرَهُمْ بِأَرْبَعٍ وَ نَهَاهُمْ عَنْ أَرْبَعٍ قَالَ أَمَرَهُمْ بِالإِيمَانِ بِاللَّهِ وَحْدَهُ وَ قَالَ هَلْ تَدْرُونَ مَا الإِيمَانُ بِاللَّهِ وحده قَالُوا اللَّهُ وَ رَسُولُهُ أَعْلَمُ قَالَ شَهَادَةُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ وَ إِقَامُ الصَّلاَةِ وَ إِيتَائُ الزَّكَاةِ وَ صَوْمُ رَمَضَانَ وَ أَنْ تُؤَدُّوا خُمُسًا مِنَ الْمَغْنَمِ وَ نَهَاهُمْ عَنِ الدُّبَّائِ وَالْحَنْتَمِ وَالْمُزَفَّتِ قَالَ شُعْبَةُ وَ رُبَّمَا قَالَ النَّقِيرِ قَالَ وَ رُبَّمَا قَالَ : الْمُقَيَّرِ وَ قَالَ احْفَظُوهُ وَ أَخْبِرُوا بِهِ مِنْ وَرَائِكُمْ وَ قَالَ أَبُو بَكْرٍ فِي رِوَايَتِهِ مَنْ وَرَائَكُمْ وَ زَادَ ابْنُ مُعَاذٍ فِي حَدِيثِهِ عَنْ أَبِيهِ قَالَ وَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ لِلأَشَجِّ أَشَجِّ عَبْدِ الْقَيْسِ إِنَّ فِيكَ لخَصْلَتَيْنِ يُحِبُّهُمَا اللَّهُ الْحِلْمُ وَالأَنَاةُ
سیدنا ابو جمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے سامنے ان کے اور لوگوں کے درمیان مترجم تھا (یعنی اوروں کی بات کو عربی میں ترجمہ کر کے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کو سمجھاتا) اتنے میں ایک عورت آئی اور گھڑے کے نبیذ کے متعلق پوچھا۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ قبیلہ عبدالقیس کا وفد رسول اللہﷺ کے پاس آیا تو آپ ﷺ نے پوچھا :'' یہ وفد کون ہیں؟ یا کس قوم کے لوگ ہیں؟'' لوگوں نے کہا کہ ربیعہ کے لوگ ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا :''مرحبا ہو قوم یا وفد کو جو نہ رسوا ہوئے نہ شرمند ہوئے (کیونکہ بغیر لڑائی کے خود مسلمان ہونے کے لیے آئے، اگر لڑائی کے بعد مسلمان ہوتے تو وہ رسوا ہوتے، لونڈی غلام بنائے جاتے، مال لٹ جاتا تو شرمندہ ہوتے) ان لوگوں نے کہا یا رسول اللہ! ہم آپ کے پاس دور دراز سے سفر کر کے آتے ہیں اور ہمارے اور آپ ﷺ کے درمیان کافروں کا قبیلہ مضر ہے تو ہم آپ ﷺ تک نہیں آ سکتے ، مگر حرمت والے مہینہ میں (جب لوٹ مار نہیں ہوتی) اس لیے ہم کو ایک صاف بات کا حکم کیجیے جس کو ہم بتلائیں دوسرے لوگوں کو بھی اور اس کے سبب سے جنت میں جائیں۔ آپ ﷺ نے ان کو چار باتوں کا حکم کیا اور چار باتوں سے منع فرمایا۔ اللہ وحدہ لا شریک پر ایمان لانے کا ان کو حکم کیا اور ان سے پوچھا کہ تم جانتے ہو کہ ایمان کیا ہے؟ انھوں نے کہا کہ اللہ اور اس کا رسول خوب جانتے ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا:'' ایمان اس بات کی گواہی دینا ہے اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور بیشک محمد ﷺ اس کے بھیجے ہوئے ہیں اور نماز قائم کرنا اور زکوٰۃ دینا اور رمضان کے روزے رکھنا (یہ چار باتیں ہو گئیں، اب ایک پانچویں بات اور ہے) اور غنیمت کے مال میں سے پانچواں حصہ ادا کرنا (یعنی کفار کی سپاہ یا مسلمانوں کے خلاف لڑنے والوں سے جو مال حاصل ہو مال غنیمت کہلاتا ہے) اور ان کو کدو کے تونبے اور سبز گھڑے اور روغنی برتن سے منع فرمایا ۔شعبہ نے کبھی یوں کہا اور نقیر سے اور کبھی کہا مقیر سے۔ (یہ لکڑی سے بنائے ہوئے برتن ہیں)۔ اور فرمایا:'' اس کو یاد رکھو اور ان باتوں کی ان لوگوں کو بھی خبر دو جو تمہارے پیچھے ہیں۔ اور ابو بکر بن ابی شیبہ نے مَنْ وَرَائَكُمْْ کہا بدلے مِنْ وَرَائِكُمْ کے۔ (ان دونوں کا مطلب ایک ہی ہے)۔ اور سیدنا ابن معاذ رضی اللہ عنہ نے اپنی روایت میں ا پنے باپ سے اتنا زیادہ کیا کہ رسول اللہ ﷺ عبدالقیس کے اشج سے (جس کا نام منذر بن حارث بن زیاد تھا یا منذر بن عبید یا عائذ بن منذر یا عبداللہ بن عوف تھا) فرمایا:'' تجھ میں دو عادتیں ایسی ہیں جن کو اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے، ایک تو عقل مندی، دوسرے دیر سے سوچ سمجھ کر کام کرنا جلدی نہ کرنا۔
(2) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَوْمًا بَارِزًا لِلنَّاسِ فَأَتَاهُ رَجُلٌ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا الإِيمَانُ ؟ قَالَ : أَنْ تُؤْمِنَ بِاللَّهِ وَ مَلاَئِكَتِهِ وَ كِتَابِهِ وَ لِقَائِهِ وَ رُسُلِهِ وَ تُؤْمِنَ بِالْبَعْثِ۔ الآخِرِ قَالَ ۔ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا الإِسْلاَمُ ؟ قَالَ : الإِسْلاَمُ أَنْ تَعْبُدَ اللَّهَ وَ لاَ تُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا وَ تُقِيمَ الصَّلاَةَ الْمَكْتُوبَةَ وَ تُؤَدِّيَ الزَّكَاةَ الْمَفْرُوضَةَ وَ تَصُومَ رَمَضَانَ۔ قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا الإِحْسَانُ ؟ قَالَ : أَنْ تَعْبُدَ اللَّهَ كَأَنَّكَ تَرَاهُ فَإِنَّكَ إِنْ لاَ تَرَاهُ فَإِنَّهُ يَرَاكَ ۔ قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَتَى السَّاعَةُ ؟ قَالَ : مَا الْمَسْئُولُ عَنْهَا بِأَعْلَمَ مِنَ السَّائِلِ وَ لَكِنْ سَأُحَدِّثُكَ عَنْ أَشْرَاطِهَا إِذَا وَلَدَتِ الأَمَةُ رَبَّهَا فَذَاكَ مِنْ أَشْرَاطِهَا وَ إِذَا كَانَتِ الْعُرَاةُ الْحُفَاةُ رُئُوسَ النَّاسِ فَذَاكَ مِنْ أَشْرَاطِهَا وَ إِذَا تَطَاوَلَ رِعَائُ الْبَهْمِ فِي الْبُنْيَانِ فَذَاكَ مِنْ أَشْرَاطِهَا فِي خَمْسٍ لاَ يَعْلَمُهُنَّ إِلاَّ اللَّهُ ثُمَّ تَلاَ ﷺ { إِنَّ اللَّهَ عِنْدَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَ يُنَزِّلُ الْغَيْثَ وَ يَعْلَمُ مَا فِي الأَرْحَامِ وَ مَا تَدْرِي نَفْسٌ مَاذَا تَكْسِبُ غَدًا وَ مَا تَدْرِي نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوتُ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ } قَالَ ثُمَّ أَدْبَرَ الرَّجُلُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ رُدُّوا عَلَيَّ الرَّجُلَ فَأَخَذُوا لِيَرُدُّوهُ فَلَمْ يَرَوْا شَيْئًا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ هَذَا جِبْرِيلُ جَائَ لِيُعَلِّمَ النَّاسَ دِينَهُمْ
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک دن لوگوں میں تشریف فرما تھے کہ اتنے میں ایک شخص آیا اور کہنے لگا یارسول اللہ ! ایمان کسے کہتے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا:'' ایمان یہ ہے کہ تو دل سے اللہ پر اور اس کے فرشتوں پر اور اس کی کتابوں پر اور اس سے ملنے پر اور اس کے پیغمبروں پر اور قیامت کے دن زندہ ہونے پر یقین رکھے ۔'' پھر وہ شخص کہنے لگاکہ یا رسول اللہ ! اسلام کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا:'' اسلام یہ ہے کہ تو اللہ جل جلالہ کی عبادت کرے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائے اور تو فرض نماز قائم کرے اور تو زکوٰۃ دے جس قدر فرض ہے اور رمضان کے روزے رکھے ۔'' پھر وہ شخص کہنے لگا کہ یا رسول اللہ ! احسان کسے کہتے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا:'' تو عبادت کرے اللہ کی گویا کہ تو اسے دیکھ رہا ہے اگر تو اس کو نہیں دیکھتا (یعنی توجہ کا یہ درجہ نہ ہو سکے ) تو اتنا تو خیال رہے کہ وہ تجھے دیکھ رہا ہے۔ '' پھر وہ شخص کہنے لگا یارسول اللہ! قیامت کب ہو گی؟ آپ ﷺ نے فرمایا:'' جس سے پوچھتے ہو قیامت کو وہ پوچھنے والے سے زیادہ نہیں جانتا، لیکن اس کی نشانیاں میں تجھ سے بیان کرتا ہوں کہ جب لونڈی اپنے مالک کو جنے تو یہ قیامت کی نشانی ہے اور جب ننگے بدن ،ننگے پاؤں پھرنے والے لوگ سردار بنیں تو یہ قیامت کی نشانی ہے اور جب بکریاں یا بھیڑیں چرانے والے بڑی بڑی عمارتیں بنائیں تو یہ بھی قیامت کی نشانی ہے۔ قیامت ان پانچ چیزوں میں سے ہے جن کو کوئی نہیں جانتا سوائے اللہ تعالیٰ کے۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے یہ آیت پڑھی کہ ''اللہ ہی جانتا ہے قیامت کو اور وہی اتارتا ہے پانی کو اور جانتا ہے جو کچھ ماں کے رحم میں ہے (یعنی مولود نیک ہے یا بد، رزق کتنا ہے، عمر کتنی ہے وغیرہ) اور کوئی نہیں جانتا کہ وہ کل کیا کرے گا اور کوئی نہیں جانتا کہ وہ کس ملک میں مرے گا۔ اللہ ہی جاننے والا اور خبردار ہے۔'' (لقمان: ۳۴) پھر وہ شخص پیٹھ موڑ کر چلا گیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' اس شخص کو پھر واپس لے آؤ۔'' لوگ اس کو لینے کے لیے نکلیلیکن وہاں کچھ نہ پایا (یعنی اس شخص کا نشان بھی نہ ملا) ۔تب آپ ﷺ نے فرمایا:'' وہ جبرئیل علیہ السلام تھے، لوگوں کو دین کی باتیں سکھلانے آئے تھے۔ ''
(3) عَن سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ عَنْ أَبِيهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ لَمَّا حَضَرَتْ أَبَا طَالِبٍ الْوَفَاةُ جَائَهُ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فَوَجَدَ عِنْدَهُ أَبَا جَهْلٍ وَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أَبِي أُمَيَّةَ ابْنِ الْمُغِيرَةِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَا عَمِّ قُلْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ كَلِمَةً أَشْهَدُ لَكَ بِهَا عِنْدَ اللَّهِ فَقَالَ أَبُو جَهْلٍ وَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي أُمَيَّةَ يَا أَبَا طَالِبٍ أَتَرْغَبُ عَنْ مِلَّةِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَلَمْ يَزَلْ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَعْرِضُهَا عَلَيْهِ وَ يُعِيدُ لَهُ تِلْكَ الْمَقَالَةَ حَتَّى قَالَ أَبُو طَالِبٍ آخِرَ مَا كَلَّمَهُمْ هُوَ عَلَى مِلَّةِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ وَ أَبَى أَنْ يَقُولَ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ أَمَا وَاللَّهِ لأَسْتَغْفِرَنَّ لَكَ مَا لَمْ أُنْهَ عَنْكَ فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ {مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَنْ يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِينَ وَ لَوْ كَانُوا أُولِي قُرْبَى مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُمْ أَصْحَابُ الْجَحِيمِ } (التوبة :113) وَ أَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى فِي أَبِي طَالِبٍ فَقَالَ لِرَسُولِ اللَّهِ ﷺ { إِنَّكَ لاَ تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَ لَكِنَّ اللَّهَ يَهْدِي مَنْ يَشَائُ وَ هُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ}(القصص :56)
سعید بن مسیب (جو مشہور تابعین میں سے ہیں)اپنے والد (سیدنا مسیب بن حزن بن عمرو بن عابد بن عمران بن مخزوم قرشی مخزومی رضی اللہ عنہ، جو کہ صحابی ہیں) سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے کہا کہ جب ابو طالب بن عبدالمطلب (رسول اللہ ﷺ کے حقیقی چچا اور مربی) مرنے لگے تو رسول اللہﷺ ان کے پاس تشریف لائے اور وہاں ابو جہل (عمرو بن ہشام) اور عبداللہ بن ابی امیہ بن مغیرہ کو بیٹھے دیکھا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' اے چچا ! تم ایک کلمہ لا الٰہ الا للہ کہہ دو، میں اللہ کے پاس اس کا گواہ رہوں گا تمہارے لیے (یعنی اللہ عزوجل سے قیامت کے روز عرض کروں گا کہ ابو طالب موحد تھے اور ان کو جہنم سے نجات ہونی چاہیے۔انھوں نے آخر وقت میں کلمہ توحید کا اقرار کیا تھا)۔'' ابو جہل اور عبداللہ بن ابی امیہ بولے کہ اے ابو طالب! عبدالمطلب کا دین چھوڑتے ہو؟ اور رسول اللہ ﷺ برابر یہی بات ان سے کہتے رہے (یعنی کلمہ توحید پڑھنے کے لیے اور ادھر ابو جہل اور عبداللہ بن ابی امیہ اپنی بات بکتے رہے) یہاں تک کہ ابو طالب نے آخری بات جو کی وہ یہ تھی کہ میں عبدالمطلب کے دین پر ہوں اور انکار کیا لا الٰہ الا اللہ کہنے سے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' اللہ کی قسم! میں تمہارے لیے دعا کروں گا (بخشش کی) جب تک کہ منع نہ کیا جاؤں۔'' تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری ''پیغمبر اور دوسرے مسلمانوں کو جائز نہیں کہ مشرکین کے لیے مغفرت کی دعا مانگیں اگرچہ وہ رشتہ دار ہی ہوں، اس امر کے ظاہر ہو جانے کے بعد کہ یہ لوگ دوزخی ہیں۔'' (التوبۃ: ۱۱۳) اور اللہ تعالیٰ نے ابو طالب کے بارے میں یہ آیت اتاری، رسول اللہ ﷺ سے فرمایا:''آپ (ﷺ) جسے چاہیں ہدایت نہیں کر سکتے بلکہ اللہ تعالیٰ ہی جسے چاہے ہدایت کرتا ہے۔ ہدایت والوں سے وہی خوب آگاہ ہے۔''(القصص:۵۶)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
بَابٌ : أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتّى يَقُولُوا لاَ اِلَهَ اِلاَّ اللَّهُ
مجھے حکم ہوا ہے لوگوں سے لڑنے کا یہاں تک کہ وہ لا الٰہ الا اللہ کا اقرارکر لیں​
(4) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ لَمَّا تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ وَاسْتُخْلِفَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ بَعْدَهُ وَ كَفَرَ مَنْ كَفَرَ مِنَ الْعَرَبِ قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ لِأَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ كَيْفَ تُقَاتِلُ النَّاسَ وَ قَدْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَقُولُوا لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ فَمَنْ قَالَ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ فَقَدْ عَصَمَ مِنِّي مَالَهُ وَ نَفْسَهُ إِلاَّ بِحَقِّهِ وَ حِسَابُهُ عَلَى اللَّهِ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَاللَّهِ لأُقَاتِلَنَّ مَنْ فَرَّقَ بَيْنَ الصَّلاَةِ وَالزَّكَاةِ فَإِنَّ الزَّكَاةَ حَقُّ الْمَالِ وَاللَّهِ لَوْ مَنَعُونِي عِقَالاً كَانُوا يُؤَدُّونَهُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ لَقَاتَلْتُهُمْ عَلَى مَنْعِهِ فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَوَاللَّهِ مَا هُوَ إِلاَّ أَنْ رَأَيْتُ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ قَدْ شَرَحَ صَدْرَ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ لِلْقِتَالِ فَعَرَفْتُ أَنَّهُ الْحَقُّ
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ نے وفات پائی اور سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے اور عرب کے لوگ جنھوں کافر ہونا تھا وہ کافر ہو گئے تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے کہاکہ تم ان لوگوں سے کیسے لڑو گے حالانکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' مجھے حکم ہوا ہے لوگوں سے لڑنے کا یہاں تک کہ وہ لا الٰہ الا اللہ کہیں۔ پھر جس نے لا الٰہ الا اللہ کہا اس نے مجھ سے اپنے مال اور جان کو بچا لیا مگر کسی حق کے بدلے (یعنی کسی قصور کے بدلے جیسے زنا کرے یا خون کرے تو پکڑا جائے گا) پھر اس کا حساب اللہ پر ہے۔(اگر اس کے دل میں کفر ہوا اور ظاہر میں ڈر کے مارے مسلمان ہو گیا ہو تو قیامت میں اللہ اس سے حساب لے گا۔ دنیا ظاہر پر ہے، دنیا میں اس سے کوئی مواخذہ نہ ہوگا)۔'' سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا اللہ کی قسم !میں تو اس شخص سے لڑوں گا جو نماز اور زکوٰۃ میں فرق کرے اس لیے کہ زکوٰۃ مال کا حق ہے۔ اللہ کی قسم! اگر وہ ایک عقال روکیں گے جو رسول اللہ ﷺ کو دیا کرتے تھے تو میں ان سے اس کے نہ دینے پر بھی ضرور قتال کروں گا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا اللہ کی قسم! پھر وہ کچھ نہ تھا مگر میں نے یقین کیا کہ اللہ عزوجل نے سیدنا ابوبکررضی اللہ عنہ کا سینہ لڑائی کے لیے کھول دیا ہے ۔ (یعنی ان کے دل میں یہ بات ڈال دی) تب میں نے جان لیا کہ یہی حق ہے۔
(5) عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَشْهَدُوا أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ وَ يُقِيمُوا الصَّلاَةَ وَ يُؤْتُوا الزَّكَاةَ فَإِذَا فَعَلُوا عَصَمُوا مِنِّي دِمَائَهُمْ وَ أَمْوَالَهُمْ إِلاَّ بِحَقِّهَا وَ حِسَابُهُمْ عَلَى اللَّهِ
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' مجھے حکم ہوا ہے لوگوں سے لڑنے کا یہاں تک کہ وہ گواہی دیں اس بات کی کہ کوئی معبود برحق نہیں سوائے اللہ تعالیٰ کے اور بیشک محمد (ﷺ) اس کے رسول ہیں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں پھر جب یہ کریں تو انھوں نے مجھ سے اپنی جانوں اور مالوں کو بچا لیا مگر حق کے بدلے اور ان کا حساب اللہ تعالیٰ پر ہے۔ ''
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
بَابٌ :مَنْ قَتَل رَجُلاً مِّنَ الْكُفَّارِ بَعْدَ أَن قَالَ لاَ اِلَهَ اِلاَّ اللَّهُ
جس نے کافر کو لاالٰہ الا اللہ کہنے کے بعد قتل کیا​

(6) عَنِ الْمِقْدَادِ بْنِ الأَسْوَدِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّهُ قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَ رَأَيْتَ إِنْ لَقِيتُ رَجُلاً مِنَ الْكُفَّارِ فَقَاتَلَنِي فَضَرَبَ إِحْدَى يَدَيَّ بِالسَّيْفِ فَقَطَعَهَا ثُمَّ لاَذَ مِنِّي بِشَجَرَةٍ فَقَالَ أَسْلَمْتُ لِلَّهِ أَ فَأَقْتُلُهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ بَعْدَ أَنْ قَالَهَا ؟ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ لاَ تَقْتُلْهُ قَالَ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّهُ قَدْ قَطَعَ يَدِي ثُمَّ قَالَ ذَلِكَ بَعْدَ أَنْ قَطَعَهَا أَ فَأَقْتُلُهُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ لاَ تَقْتُلْهُ فَإِنْ قَتَلْتَهُ فَإِنَّهُ بِمَنْزِلَتِكَ قَبْلَ أَنْ تَقْتُلَهُ وَإِنَّكَ بِمَنْزِلَتِهِ قَبْلَ أَنْ يَقُولَ كَلِمَتَهُ الَّتِي قَالَ ۔ أَمَّا الأَوْزَاعِيُّ وَابْنُ جُرَيْجٍ فَفِيْ حَدِيْثِهِمَا : قَالَ : أَسْلَمْتُ لِلَّهِ وَ أَمَّا مَعْمَرٌ فَفِي حَدِيثِهِ فَلَمَّا أَهْوَيْتُ ۔ لِأَقْتُلَهُ قَالَ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ
سیدنا مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے کہا یا رسو ل اللہ ! اگر میں ایک کافر سے بھڑوں وہ مجھ سے لڑے اور میرا ایک ہاتھ تلوار سے کاٹ ڈالے پھر مجھ سے بچ کر ایک درخت کی آڑ لے لے اور کہنے لگے کہ میں تابع ہو گیا اللہ کا تو کیا میں اس کو قتل کر دوں جب وہ یہ بات کہہ چکے؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا:'' اس کو مت قتل کر۔'' میں نے کہا یارسول اللہ! اس نے میرا ہاتھ کاٹ ڈالا پھر ایسا کہنے لگا تو کیا میں اس کو قتل کروں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ''اس کو قتل مت کر۔ (اگرچہ تجھ کو اس سے صدمہ پہنچا اور زخم لگا) اگر تو اس کو قتل کرے گا تو اس کا حال تیرا سا ہو گا قتل سے پہلے اور تیرا حال اس کا سا ہو گا جب تک اس نے یہ کلمہ نہیں کہا تھا۔''
(7) عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ بَعَثَنَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فِي سَرِيَّةٍ فَصَبَّحْنَا الْحُرُقَاتِ مِنْ جُهَيْنَةَ فَأَدْرَكْتُ رَجُلاً فَقَالَ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ فَطَعَنْتُهُ فَوَقَعَ فِي نَفْسِي مِنْ ذَلِكَ فَذَكَرْتُهُ لِلنَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ أَ قَالَ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَ قَتَلْتَهُ ؟ قَالَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّمَا قَالَهَا خَوْفًا مِنَ السِّلاَحِ قَالَ أَ فَلاَ شَقَقْتَ عَنْ قَلْبِهِ حَتَّى تَعْلَمَ أَ قَالَهَا أَمْ لاَ فَمَا زَالَ يُكَرِّرُهَا عَلَيَّ حَتَّى تَمَنَّيْتُ أَنِّي أَسْلَمْتُ يَوْمَئِذٍ قَالَ فَقَالَ سَعْدٌ وَ أَنَا وَاللَّهِ لاَ أَقْتُلُ مُسْلِمًا حَتَّى يَقْتُلَهُ ذُو الْبُطَيْنِ يَعْنِي أُسَامَةَ قَالَ قَالَ رَجُلٌ أَلَمْ يَقُلِ اللَّهُ {وَ قَاتِلُوهُمْ حَتَّى لاَ تَكُونَ فِتْنَةٌ وَ يَكُونَ الدِّينُ كُلُّهُ لِلَّهِ } (الانفال : 39) فَقَالَ سَعْدٌ قَدْ قَاتَلْنَا حَتَّى لاَ تَكُونَ فِتْنَةٌ وَ أَنْتَ وَ أَصْحَابُكَ تُرِيدُونَ أَنْ تُقَاتِلُوا حَتَّى تَكُونَ فِتْنَةٌ
سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے ہمیں ایک سریہ میں بھیجا۔ ہم صبح کو حرقات سے لڑے جو جہینہ میں سے ہے۔ پھر میں نے ایک شخص کو پایا، اس نے لا الٰہ الا اﷲ کہا میں نے برچھی سے اس کو مار دیا۔ اس کے بعد میرے دل میں وہم ہوا ( کہ لا الٰہ الا اللہ کہنے پر مارنا درست نہ تھا) ،میں نے رسول اللہ ﷺ سے بیان کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا:'' کیا اس نے لا الٰہ الا اللہ کہا تھا اور تو نے اس کو مار ڈالا؟ میں نے عرض کی کہ یارسول اللہ ! اس نے ہتھیار سے ڈر کرکہا تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا:'' تو نے اس کا دل چیر کر دیکھا تھا تاکہ تجھے معلوم ہوتا کہ اس کے دل نے یہ کلمہ کہا تھا یا نہیں؟'' (مطلب یہ ہے کہ دل کا حال تجھے کہاں سے معلوم ہوا؟) پھر آپ ﷺ بار بار یہی فرماتے رہے یہاں تک کہ میں نے آرزو کی کہ کاش !میں اسی دن مسلمان ہوا ہوتا (تو اسلام لانے کے بعدایسے گناہ میں مبتلا نہ ہوتا کیونکہ اسلام لانے سے کفر کے اگلے گناہ معاف ہو جاتے ہیں)۔ سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اللہ کی قسم! میں کسی مسلمان کو نہ ماروں گا جب تک اس کو ذوالبطین یعنی اسامہ نہ مارے۔ ایک شخص بولا کہ کیا اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا ہے: ''اور تم ان سے اس حد تک لڑو کہ ان میں فساد عقیدہ (شرک، بت پرستی) نہ رہے اور دین اللہ ہی کا ہو جائے''؟ تو سیدنا سعدرضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہم تو (کافروں سے) اس لیے لڑے کہ فساد نہ ہو اور تو اور تیرے ساتھی اس لیے لڑتے ہیں کہ فساد ہو۔
(8) عَنْ صَفْوَانَ بْنِ مُحْرِزٍ أَنَّ جُنْدَبَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ الْبَجَلِيَّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا بَعَثَ إِلَى عَسْعَسِ بْنِ سَلاَمَةَ زَمَنَ فِتْنَةِ ابْنِ الزُّبَيْرِ فَقَالَ اجْمَعْ لِي نَفَرًا مِنْ إِخْوَانِكَ حَتَّى أُحَدِّثَهُمْ فَبَعَثَ رَسُولاً إِلَيْهِمْ فَلَمَّا اجْتَمَعُوا جَائَ جُنْدَبٌ وَ عَلَيْهِ بُرْنُسٌ أَصْفَرُ فَقَالَ تَحَدَّثُوا بِمَا كُنْتُمْ تَحَدَّثُونَ بِهِ حَتَّى دَارَ الْحَدِيثُ فَلَمَّا دَارَ الْحَدِيثُ إِلَيْهِ حَسَرَ الْبُرْنُسَ عَنْ رَأْسِهِ فَقَالَ إِنِّي أَتَيْتُكُمْ وَ لاَ أُرِيدُ أَنْ أُخْبِرَكُمْ الا عَنْ نَبِيِّكُمْ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ بَعَثَ بَعْثًا مِنَ الْمُسْلِمِينَ إِلَى قَوْمٍ مِنَ الْمُشْرِكِينَ وَ إِنَّهُمُ الْتَقَوْا فَكَانَ رَجُلٌ مِنَ الْمُشْرِكِينَ إِذَا شَائَ أَنْ يَقْصِدَ إِلَى رَجُلٍ مِنَ الْمُسْلِمِينَ قَصَدَ لَهُ فَقَتَلَهُ وَ إِنَّ رَجُلاً مِنَ الْمُسْلِمِينَ قَصَدَ غَفْلَتَهُ قَالَ وَ كُنَّا نُحَدَّثُ أَنَّهُ أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا فَلَمَّا رَفَعَ عَلَيْهِ السَّيْفَ قَالَ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ فَقَتَلَهُ فَجَائَ الْبَشِيرُ إِلَى النَّبِيِّ ﷺ فَسَأَلَهُ فَأَخْبَرَهُ حَتَّى أَخْبَرَهُ خَبَرَ الرَّجُلِ كَيْفَ صَنَعَ فَدَعَاهُ فَسَأَلَهُ فَقَالَ لِمَ قَتَلْتَهُ قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَوْجَعَ فِي الْمُسْلِمِينَ وَ قَتَلَ فُلاَنًا وَ فُلاَنًا وَ سَمَّى لَهُ نَفَرًا وَ إِنِّي حَمَلْتُ عَلَيْهِ فَلَمَّا رَأَى السَّيْفَ قَالَ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ أَقَتَلْتَهُ قَالَ نَعَمْ قَالَ فَكَيْفَ تَصْنَعُ بِلاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ إِذَا جَائَتْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ اسْتَغْفِرْ لِي قَالَ وَ كَيْفَ تَصْنَعُ بِلاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ إِذَا جَائَتْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ قَالَ فَجَعَلَ لاَ يَزِيدُهُ عَلَى أَنْ يَقُولَ كَيْفَ تَصْنَعُ بِلاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ إِذَا جَائَتْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ
صفوان بن محرز سے روایت ہے کہ سیدنا جندب بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہما نے عسعس بن سلامہ کو کہلا بھیجا جب سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کا فتنہ ہوا کہ تم اپنے چند بھائیوں کو اکٹھا کرو تاکہ میں ان سے باتیں کروں۔ عسعس نے لوگوں کو کہلا بھیجا۔ وہ اکٹھے ہوئے تو سیدنا جندب رضی اللہ عنہ آئے، ایک زرد برنس اوڑھے ہوئے تھے ( برنس وہ ٹوپی ہے جسے لوگ شروع زمانہ ٔ اسلام میں پہنتے تھے)۔ انھوں نے کہا کہ تم باتیں کرو جو کرتے تھے۔ یہاں تک کہ سیدنا جندب رضی اللہ عنہ کی باری آئی (یعنی ان کو بات ضرور کرنا پڑی) تو انھوں نے برنس اپنے سر سے ہٹا دی اور کہا کہ میں تمہارے پاس صرف اس ارادے سے آیا ہوں کہ تم سے تمہارے پیغمبر کی حدیث بیان کروں۔ رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں کا ایک لشکر مشرکوں کی ایک قوم کی طرفبھیجا اور وہ دونوں ملے (یعنی آمنا سامنا ہوا میدان جنگ میں) تومشرکوں میں ایک شخص تھا، وہ جس مسلمان پر چاہتا اس پر حملہ کرتا اور مار لیتا۔ آخر ایک مسلمان نے اس کو غفلت (کی حالت میں) دیکھا اور لوگوں نے ہم سے کہا (کہ) وہ مسلمان سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما تھے۔ پھر جب انھوں نے تلوار اس پر سیدھی کی تو اس نے کہا لا الٰہ الا اللہ لیکن انھوں نے اسے مار ڈالا۔ اس کے بعد قاصد خوشخبری لے کر رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا۔ آپ ﷺ نے اس سے حال پوچھا۔ اس نے سب حال بیان کیا یہاں تک کہ اس شخص کا بھی حال کہا تو آپ ﷺ نے ان کو بلایا اور پوچھا کہ تم نے کیوں اس کو مارا؟ (سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ نے) کہا یا رسول اللہ ! اس نے مسلمانوں کو بہت تکلیف دی، فلاں اور فلاں کو مارا اور کئی آدمیوں کا نام لیا۔ پھر میں اس پر غالب ہوا ، جب اس نے تلوار کو دیکھا تو لا الٰہ الا اللہ کہنے لگا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :''تم نے اس کو قتل کر دیا؟'' انھوں نے کہا ہاں۔ آپ ﷺ نے فرمایا:'' تم کیا جواب دو گے لا الٰہ الا اللہ کا جب وہ قیامت کے دن آئے گا؟'' انھوں نے عرض کی کہ یارسول اللہ ! میرے لیے بخشش کی دعا کیجیے! آپ ﷺ نے فرمایا :''تم کیا جواب دو گے لا الٰہ الا اللہ کا جب وہ قیامت کے دن آئے گا؟'' پھر آپ ﷺ نے اس سے زیادہ کچھ نہ کہا اور یہی کہتے رہے کہ'' تم کیا جواب دو گے لا الٰہ الا اللہ کا جب وہ قیامت کے دن آئے گا؟ ''
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
بَابٌ : مَنْ لَقِىَ اللَّه تَعَالَى بِالْإِيْمَانِ غَيْرَ شَاكٍ فِيْهِ دَخَل الْجَنَّةَ
جو شخص اللہ تعالیٰ کو ایمان کے ساتھ ملا اور اس کو کسی قسم کا شک نہیں وہ جنت میں داخل ہو گا​

(9) عَنْ عُثْمَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ مَنْ مَاتَ وَ هُوَ يَعْلَمُ أَنَّهُ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ دَخَلَ الْجَنَّةَ
سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' جو شخص مر جائے اور اس کو اس بات کا یقین ہو کہ کوئی عبادت کے لائق نہیں سوائے اللہ جل جلالہ کے تو وہ جنت میں جائے گا۔''
(10) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَوْ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ شَكَّ الأَعْمَشُ قَالَ لَمَّا كَانَ يَوْمُ غَزْوَةُ تَبُوكَ أَصَابَ النَّاسَ مَجَاعَةٌ قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ لَوْ أَذِنْتَ لَنَا فَنَحَرْنَا نَوَاضِحَنَا فَأَكَلْنَا وَ ادَّهَنَّا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ افْعَلُوا قَالَ فَجَائَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنْ فَعَلْتَ قَلَّ الظَّهْرُ وَ لَكِنِ ادْعُهُمْ بِفَضْلِ أَزْوَادِهِمْ ثُمَّ ادْعُ اللَّهَ لَهُمْ عَلَيْهَا بِالْبَرَكَةِ لَعَلَّ اللَّهَ أَنْ يَجْعَلَ فِي ذَلِكَ ۔ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ نَعَمْ قَالَ فَدَعَا بِنِطَعٍ فَبَسَطَهُ ثُمَّ دَعَا بِفَضْلِ أَزْوَادِهِمْ قَالَ فَجَعَلَ الرَّجُلُ يَجِيئُ بِكَفِّ ذُرَةٍ قَالَ وَ يَجِيئُ الآخَرُ بِكَفِّ تَمْرٍ قَالَ وَ يَجِيئُ الآخَرُ بِكَسْرَةٍ حَتَّى اجْتَمَعَ عَلَى النِّطَعِ مِنْ ذَلِكَ شَيْئٌ يَسِيرٌ قَالَ فَدَعَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ بِالْبَرَكَةِ ثُمَّ قَالَ خُذُوا فِي أَوْعِيَتِكُمْ قَالَ فَأَخَذُوا فِي أَوْعِيَتِهِمْ حَتَّى مَا تَرَكُوا فِي الْعَسْكَرِ وِعَائً إِلاَّ مَلَأُوْهُ قَالَ فَأَكَلُوا حَتَّى شَبِعُوا وَ فَضَلَتْ فَضْلَةٌ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ أَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَ أَنِّي رَسُولُ اللَّهِ لاَ يَلْقَى اللَّهَ بِهِمَا عَبْدٌ غَيْرَ شَاكٍّ فَيُحْجَبَ عَنِ الْجَنَّةِ
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ یا سیدنا ابو سعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے یہ اعمش رضی اللہ عنہ کو( جو کہ اس حدیث کے راوی ہیں) شک ہے کہ جب غزوۂ تبوک کا وقت آیا (تبوک ملک شام میں ایک مقام کا نام ہے) تو لوگوں کوسخت بھوک لگی۔ انھوں نے کہا یا رسول اللہ! کاش آپ ہمیں اجازت دیتے تو ہم اپنے اونٹوں کو، جن پر پانی لاتے ہیں ذبح کرتے، گوشت کھاتے اور چربی کا تیل بناتے۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ''اچھا کر لو۔'' اتنے میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ آئے اور انھوں نے کہا کہ یارسول اللہ ! اگر ایسا کریں گے تو سواریاں کم ہو جائیں گی (اس کے بجائے) آپ(ﷺ) تمام لوگوں کو بلا بھیجئے اور کہیے کہ اپنا اپنا بچا ہوا توشہ لے کر آئیں۔ پھر اللہ سے دعا کیجیے کہ وہ توشہ میں برکت دے، شاید اس میں اللہ کوئی راستہ نکال دے (یعنی برکت اور بہتری عطا فرمائے)۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :''اچھا۔'' پھر ایک دستر خوان منگوایا اور اس کو بچھا دیا اور سب کا بچا ہوا توشہ منگوایا۔ کوئی مٹھی بھر جوار لایا اور کوئی مٹھی بھر کھجور لایا۔ کوئی روٹی کا ٹکرا، یہاں تک کہ سب مل کر تھوڑا سا دستر خوان پر اکٹھا ہوا۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے برکت کے لیے دعا کی۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا:'' اپنے اپنے برتنوں میں توشہ بھرو۔'' تو سبھی لوگوں نے اپنے اپنے برتن بھر لیے یہاں تک کہ لشکر میں کوئی برتن نہ چھوڑا جس کو نہ بھرا ہو۔ پھر سب نے کھانا شروع کیا اور سیر ہو گئے۔ اس پر بھی کچھ بچ رہا ۔تب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''میں گواہی دیتا ہوں اس بات کی کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی سچا معبود نہیں اور میں اللہ کا بھیجا ہوا رسول ہوں۔ جو شخص ان دونوں باتوں پر یقین کر کے اللہ سے ملے گا، وہ جنت سے محروم نہ ہو گا۔ ''
(11) عَنِ الصُّنَابِحِيِّ عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّهُ قَالَ دَخَلْتُ عَلَيْهِ وَ هُوَ فِي الْمَوْتِ فَبَكَيْتُ فَقَالَ مَهْلاً لِمَ تَبْكِي ؟ فَوَاللَّهِ لَئِنِ اسْتُشْهِدْتُ لَأَشْهَدَنَّ لَكَ وَ لَئِنْ شُفِّعْتُ لَأَشْفَعَنَّ لَكَ وَ لَئِنِ اسْتَطَعْتُ لَأَنْفَعَنَّكَ ثُمَّ قَالَ وَاللَّهِ مَا مِنْ حَدِيثٍ سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ لَكُمْ فِيهِ خَيْرٌ إِلاَّ حَدَّثْتُكُمُوهُ إِلاَّ حَدِيثًا وَاحِدًا وَ سَوْفَ أُحَدِّثُكُمُوهُ الْيَوْمَ وَ قَدْ أُحِيطَ بِنَفْسِي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ مَنْ شَهِدَ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ النَّارَ
صنابحی ، سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ میں ان کے پاس گیا اور وہ اس وقت قریب المرگ تھے۔ میں رونے لگا تو انھوں نے کہا کہ ٹھہرو، روتے کیوں ہو؟ اللہ کی قسم اگرمیں گواہ بنایا جاؤں گا تو تیرے لیے (ایمان کی) گواہی دوں گا اور اگر میری سفارش کام آئے گی تو تیری سفارش کروں گا اور اگر مجھے طاقت ہو گی تو تجھ کو فائدہ دوں گا۔ پھر کہا اللہ کی قسم ! کوئی ایسی حدیث نہیں جو کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنی اور اس میں تمہاری بھلائی تھی مگر یہ کہ میں نے اسے تم سے بیان کر دیا ،البتہ ایک حدیث میں نے اب تک بیان نہیں کی، وہ آج بیان کرتا ہوں، اس لیے کہ میری جان جانے کو ہے۔ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ ﷺ فرماتے تھے :''جو شخص گواہی دے (یعنی دل سے یقین کرے اور زبان سے اقرار) کہ اللہ کے سوا کوئی سچا معبود نہیں اور بے شک محمد (ﷺ) اللہ کے رسول ہیں تو اللہ تعالیٰ اس پر جہنم کو حرام کر دے گا۔'' (یعنی ہمیشہ جہنم میں رہنے کو یا جہنم کے اس طبقہ کو جس میں ہمیشہ رہنے والے کافر ڈالے جائیں گے)۔
(12) عَن أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ كُنَّا قُعُودًا حَوْلَ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم مَعَنَا أَبُو بَكْرٍ وَ عُمَرُ فِي نَفَرٍ فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم مِنْ بَيْنِ أَظْهُرِنَا فَأَبْطَأَ عَلَيْنَا وَ خَشِينَا أَنْ يُقْتَطَعَ دُونَنَا وَ فَزِعْنَا فَقُمْنَا فَكُنْتُ أَوَّلَ مَنْ فَزِعَ فَخَرَجْتُ أَبْتَغِي رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم حَتَّى أَتَيْتُ حَائِطًا لِلْأَنْصَارِ لِبَنِي النَّجَّارِ فَدُرْتُ بِهِ هَلْ أَجِدُ لَهُ بَابًا فَلَمْ أَجِدْ فَإِذَا رَبِيعٌ يَدْخُلُ فِي جَوْفِ حَائِطٍ مِنْ بِئْرٍ خَارِجَةٍ وَالرَّبِيعُ الْجَدْوَلُ فَاحْتَفَزْتُ كَمَا يَحْتَفِزُ الثَّعْلَبُ فَدَخَلْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ ؟ فَقُلْتُ نَعَمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ مَا شَأْنُكَ ؟ قُلْتُ كُنْتَ بَيْنَ أَظْهُرِنَا فَقُمْتَ فَأَبْطَأْتَ عَلَيْنَا فَخَشِينَا أَنْ تُقْتَطَعَ دُونَنَا فَفَزِعْنَا فَكُنْتُ أَوَّلَ مِنْ فَزِعَ فَأَتَيْتُ هَذَا الْحَائِطَ فَاحْتَفَزْتُ كَمَا يَحْتَفِزُ الثَّعْلَبُ وَ هَؤُلآئِ النَّاسُ وَرَائِي فَقَالَ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ وَ أَعْطَانِي نَعْلَيْهِ قَالَ اذْهَبْ بِنَعْلَيَّ هَاتَيْنِ فَمَنْ لَقِيتَ مِنْ وَرَائِ هَذَا الْحَائِطِ يَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ مُسْتَيْقِنًا بِهَا قَلْبُهُ فَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ فَكَانَ أَوَّلَ مَنْ لَقِيتُ عُمَرُ فَقَالَ مَا هَاتَانِ النَّعْلاَنِ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ فَقُلْتُ هَاتَانِ نَعْلاَ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم بَعَثَنِي بِهِمَا مَنْ لَقِيتُ يَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ مُسْتَيْقِنًا بِهَا قَلْبُهُ بَشَّرْتُهُ بِالْجَنَّةِ فَضَرَبَ عُمَرُ بِيَدِهِ بَيْنَ ثَدْيَيَّ فَخَرَرْتُ لِاَسْتِي فَقَالَ ارْجِعْ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ فَرَجَعْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فَأَجْهَشْتُ بُكَائً وَ رَكِبَنِي عُمَرُ فَإِذَا هُوَ عَلَى أَثَرِي فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم مَا لَكَ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ قُلْتُ لَقِيتُ عُمَرَ فَأَخْبَرْتُهُ بِالَّذِي بَعَثْتَنِي بِهِ فَضَرَبَ بَيْنَ ثَدْيَيَّ ضَرْبَةً خَرَرْتُ لِاَسْتِي فقَالَ ارْجِعْ فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ يَا عُمَرُ مَا حَمَلَكَ عَلَى مَا فَعَلْتَ ؟ قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ بِأَبِي أَنْتَ وَ أُمِّي أَبَعَثْتَ أَبَا هُرَيْرَةَ بِنَعْلَيْكَ مَنْ لَقِيَ يَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ مُسْتَيْقِنًا بِهَا قَلْبُهُ بَشَّرَهُ بِالْجَنَّةِ ؟ قَالَ نَعَمْ قَالَ : فَلاَ تَفْعَلْ فَإِنِّي أَخْشَى أَنْ يَتَّكِلَ النَّاسُ عَلَيْهَا فَخَلِّهِمْ يَعْمَلُونَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فَخَلِّهِمْ
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد بیٹھے تھے اور ہمارے ساتھ اور آدمیوں میں سیدنا ابوبکررضی اللہ عنہ اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھے (اور باہر تشریف لے گئے) پھر آپ نے ہمارے پاس آنے میں دیر لگائی تو ہم کو ڈر ہوا کہ کہیں دشمن آپ کو اکیلا پا کر مار نہ ڈالیں۔ ہم گھبرا گئے اور اٹھ کھڑے ہوئے۔ سب سے پہلے میں گھبرایا تو میں آپ کو ڈھونڈھنے کے لیے نکلا اور بنی نجار کے باغ کے پاس پہنچا۔ (بنی نجار انصار کے قبیلوں میں سے ایک قبیلہ تھا) اس کے چاروں طرف دروازے کو دیکھتے ہوئے چکر لگایا کہ دروازہ پاؤں تو اندر جاؤں (کیونکہ گمان ہوا کہ شاید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے اندر تشریف لے گئے ہوں) دروازہ ملا ہی نہیں۔ (شاید اس باغ میں دروازہ ہی نہ ہو گا یا اگر ہو گا تو سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو گھبراہٹ میں نظر نہ آیا ہو گا) دیکھا کہ باہر کنویں میں سے ایک نالی باغ کے اندر جاتی ہے، میں لومڑی کی طرح سمٹ کر اس نالی کے اندر گھسا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' کیا ابوہریرہ ہے؟'' میں نے عرض کی ہاں، یارسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' کیا بات ہے؟'' میں نے عرض کی کہ یارسو ل اللہ! آپ ہم لوگوں میں تشریف فرماتھے، پھر آپ( صلی اللہ علیہ وسلم )باہر چلے آئے اور واپس آنے میں دیر لگائی تو ہمیں ڈر ہوا کہ کہیں دشمن آپ کو ہم سے جدا دیکھ کر نہ ستائیں، ہم گھبرا گئے اور سب سے پہلے میں گھبرا کر اٹھا اور اس باغ کے پاس آیا (دروازہ نہ ملا) تو اس طرح سمٹ کر گھس آیا جیسے لومڑی اپنے بدن کو سمیٹ کر گھس جاتی ہے اور سب لوگ میرے پیچھے آئے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' اے ابو ہریرہ!'' اور مجھے اپنے جوتے (نشانی کے طور پر)دیے (تاکہ لوگ میری بات کو سچ سمجھیں) اور فرمایا:'' میری یہ دونوں جوتیاں لے جا اور جو کوئی تجھے اس باغ کے پیچھے ملے اور وہ اس بات کی گواہی دیتا ہو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور اس بات پر دل سے یقین رکھتا ہو تو اس کو یہ سنا کر خوش کر دے کہ اس کے لیے جنت ہے۔'' (سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں جوتیاں لے کر چلا) تو سب سے پہلے میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے ملا۔ انھوں نے پوچھا کہ اے ابو ہریرہ ! یہ جوتیاں کیسی ہیں؟ میں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جوتیاں ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دے کر مجھے بھیجا ہے کہ میں جس سے ملوں اور وہ لا الٰہ الا اللہ کی گواہی دیتا ہو، دل سے یقین کر کے، تو اس کو جنت کی خوشخبری دوں۔ یہ سن کر سیدنا عمررضی اللہ عنہ نے ایک ہاتھ میری چھاتی کے بیچ میں مارا تو میں سرین کے بل گرا۔ پھر کہا کہ اے ابوہریرہ! لوٹ جا۔ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لوٹ کر چلا گیا اور رونے والا ہی تھا کہ میرے ساتھ پیچھے سے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بھی آ پہنچے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' اے ابوہریرہ! تجھے کیا ہوا؟'' میں نے کہا کہ میں عمر رضی اللہ عنہ سے ملا اور جو پیغام آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دیکر بھیجا تھا پہنچایا تو انھوں نے میری چھاتی کے بیچ میں ایسا مارا کہ میں سرین کے بل گر پڑا اور کہا کہ لوٹ جا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عمررضی اللہ عنہ سے کہا :''تو نے ایسا کیوں کیا؟'' انھوں نے عرض کی کہ یارسو ل اللہ! آپ پر میرے ماں باپ قربان ہوں، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو آپ نے اپنی جوتیاں دیکربھیجا تھا کہ جو شخص ملے اور وہ گواہی دیتا ہو لا الٰہ الا اللہ کی دل سے یقین رکھ کر تو اسے جنت کی خوشخبری دو؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :''ہاں۔'' سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ (آپ پر میرے ماں باپ قربان ہوں) ایسا نہ کیجیے کیونکہ میں ڈرتا ہوں کہ لوگ اس پر تکیہ کر بیٹھیں گے، ان کو عمل کرنے دیجیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :''اچھا ان کو عمل کرنے دو۔''
(13) عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ كُنْتُ رِدْفَ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم لَيْسَ بَيْنِي وَ بَيْنَهُ إِلاَّ مُؤْخِرَةُ الرَّحْلِ فَقَالَ يَا مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ قُلْتُ لَبَّيْكَ يَارَسُولَ اللَّهِ وَ سَعْدَيْكَ ثُمَّ سَارَ سَاعَةً ثُمَّ قَالَ يَا مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ قُلْتُ لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَ سَعْدَيْكَ ثُمَّ سَارَ سَاعَةً ثُمَّ قَالَ يَا مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ قُلْتُ لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَ سَعْدَيْكَ قَالَ هَلْ تَدْرِي مَا حَقُّ اللَّهِ عَلَى الْعِبَادِ ؟ قَالَ قُلْتُ اللَّهُ وَ رَسُولُهُ أَعْلَمُ قَالَ فَإِنَّ حَقَّ اللَّهِ عَلَى الْعِبَادِ أَنْ يَعْبُدُوهُ وَ لاَ يُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا ثُمَّ سَارَ سَاعَةً قَالَ يَا مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ قُلْتُ لَبَّيْكَ يَارَسُولَ اللَّهِ وَ سَعْدَيْكَ قَالَ هَلْ تَدْرِي مَا حَقُّ الْعِبَادِ عَلَى اللَّهِ إِذَا فَعَلُوا ذَلِكَ ؟ قَالَ قُلْتُ اللَّهُ وَ رَسُولُهُ أَعْلَمُ قَالَ أَنْ لاَ يُعَذِّبَهُمْ
سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں سواری پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے بیٹھا ہوا تھا، میرے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان سوائے پالان کی پچھلی لکڑی کے کچھ نہ تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :''اے معاذ بن جبل!، میں نے عرض کی کہ میں حاضر ہوں آپ کی خدمت میں اور آپ کا فرمانبردار ہوں یارسول اللہ ! پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم تھوڑی دیر چلے اس کے بعد فرمایا:'' اے معاذ بن جبل!'' میں نے کہا یارسول اللہ ! فرمانبردار آپ کی خدمت میں حاضر ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم تھوڑی دیر چلے اس کے بعد فرمایا:'' اے معاذ بن جبل!'' میں نے کہا یارسول اللہ ! فرمانبردار آپ کی خدمت میں حاضر ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' تو جانتا ہے اللہ کا حق بندوں پر کیا ہے؟'' میں نے کہا کہ اللہ اور اس کا رسول خوب جانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' اللہ کا حق بندوں پر یہ ہے کہ اسی کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں۔'' پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم تھوڑی دیر چلے پھر فرمایا:'' اے معاذ بن جبل!'' میں نے کہا یا رسول اللہ! میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوں اور آپ کا فرمانبردار ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' تو جانتا ہے کہ جب بندے یہ کام کریں تو ان کا اللہ پر کیا حق ہے؟'' (یعنی اسی کی عبادت کریں، کسی کو اس کے ساتھ شریک نہ کریں) میں نے کہا کہ اللہ اور اس کا رسول خوب جانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' وہ حق یہ ہے کہ اللہ ان کو عذاب نہ کرے۔''
(14) عَن مَحْمُودِ بْنِ الرَّبِيعِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ عِتْبَانَ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَدِمْتُ الْمَدِينَةَ فَلَقِيتُ عِتْبَانَ فَقُلْتُ حَدِيثٌ بَلَغَنِي عَنْكَ قَالَ أَصَابَنِي فِي بَصَرِي بَعْضُ الشَّيْئِ فَبَعَثْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم أَنِّي أُحِبُّ أَنْ تَأْتِيَنِي فَتُصَلِّيَ فِي مَنْزِلِي فَأَتَّخِذَهُ مُصَلًّى قَالَ فَأَتَى النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وسلم وَ مَنْ شَائَ اللَّهُ مِنْ أَصْحَابِهِ فَدَخَلَ وَ هُوَ يُصَلِّي فِي مَنْزِلِي وَ أَصْحَابُهُ يَتَحَدَّثُونَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ أَسْنَدُوا عُظْمَ ذَلِكَ وَ كُبْرَهُ إِلَى مَالِكِ بْنِ دُخْشُمٍ قَال وَدُّوا أَنَّهُ دَعَا عَلَيْهِ فَهَلَكَ وَ وَدُّوا أَنَّهُ أَصَابَهُ شَيئ فَقَضَى رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم الصَّلاَةَ وَ قَالَ أَلَيْسَ يَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَ أَنِّي رَسُولُ اللَّهِ ؟ قَالُوا إِنَّهُ يَقُولُ ذَلِكَ وَ مَا هُوَ فِي قَلْبِهِ قَالَ لاَ يَشْهَدُ أَحَدٌ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَ أَنِّي رَسُولُ اللَّهِ فَيَدْخُلَ النَّارَ أَوْ تَطْعَمَهُ قَالَ أَنَسٌ فَأَعْجَبَنِي هَذَا الْحَدِيثُ فَقُلْتُ لِاِبْنِي اكْتُبْهُ فَكَتَبَهُ
سیدنا محمود بن ربیع رضی اللہ عنہ سیدنا عتبان بن مالک رضی اللہ عنہ سے سے روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں مدینہ میں آیا تو عتبان سے ملا اور میں نے کہا کہ ایک حدیث ہے جو مجھے تم سے پہنچی ہے (پس تم اسے بیان کرو) ۔عتبان نے کہا کہ میری نگاہ میں فتور ہو گیا (دوسری روایت میں ہے کہ وہ نابینا ہو گئے اور شاید ضعف بصارت مراد ہو) میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کہلا بھیجا کہ میں چاہتا ہوںکہ آپ میرے مکان پر تشریف لا کر کسی جگہ نماز پڑھیں تاکہ میں اس جگہ کو جائے نماز بنا لوں(یعنی ہمیشہ وہیں نماز پڑھا کروں اور یہ درخواست اس لیے کی کہ آنکھ میں فتور ہو جانے کی وجہ سے مسجد نبوی میں آنا دشوار تھا) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور جن کو اللہ نے چاہا اپنے اصحاب میں سے ساتھ لائے۔ آپ اندر آئے اور نماز پڑھنے لگے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب آپس میں باتیں کر رہے تھے۔ (منافقوں کا ذکر چھڑ گیا تو ان کا حال بیان کرنے لگے اور ان کی بری باتیں اور بری عادتیں ذکر کرنے لگے) پھر انھوں نے بڑا منافق مالک بن دخشم کو کہا (یا مالک بن دخیشم یا مالک بن دخشن یا دخیشن ) اور چاہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے لیے بددعاکریں اور وہ مر جائے اور اس پر کوئی آفت آئے (تو معلوم ہوا کہ بدکاروں کے تباہ ہونے کی آرزو کرنا برا نہیں) اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے اور فرمایا:'' کیا وہ (یعنی مالک بن دخشم ) اس بات کی گواہی نہیں دیتا کہ اللہ کے سوا کوئی سچا معبود نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں۔'' صحابہ رضی اللہ عنھم نے عرض کی وہ تو اس بات کو زبان سے کہتا ہے لیکن دل میں اس کا یقین نہیں رکھتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :''جو سچے دل سے لا الٰہ الا اللہ کی گواہی دے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پھر وہ جہنم میں نہ جائے گا یا اس کو انگارے نہ کھائیں گے۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہاکہ یہ حدیث مجھے بہت اچھی معلوم ہوئی تو میں نے اپنے بیٹے سے کہاکہ اس کو لکھ لے، پس اس نے لکھ لی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
بَابٌ : اَلْإِيْمَانُ مَا هُوَ وَ بَيَانُ خِصَالِهِ
ایمان کیا ہے؟ اور اس کی اچھی عادات کا بیان​

(15) عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ أُنَاسًا مِنْ عَبْدِ الْقَيْسِ قَدِمُوا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فَقَالُوا يَا نَبِيَّ اللَّهِ إِنَّا حَيٌّ مِنْ رَبِيعَةَ وَ بَيْنَنَا وَ بَيْنَكَ كُفَّارُ مُضَرَ وَ لاَ نَقْدِرُ عَلَيْكَ إِلاَّ فِي أَشْهُرِ الْحُرُمِ فَمُرْنَا بِأَمْرٍ نَأْمُرُ بِهِ مَنْ وَرَائَنَا وَ نَدْخُلُ بِهِ الْجَنَّةَ إِذَا نَحْنُ أَخَذْنَا بِهِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم آمُرُكُمْ بِأَرْبَعٍ وَ أَنْهَاكُمْ عَنْ أَرْبَعٍ اعْبُدُوا اللَّهَ وَ لاَ تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا وَ أَقِيمُوا الصَّلاَةَ وَ آتُوا الزَّكَاةَ وَ صُومُوا رَمَضَانَ وَ أَعْطُوا الْخُمُسَ مِنَ الْغَنَائِمِ وَ أَنْهَاكُمْ عَنْ أَرْبَعٍ عَنِ الدُّبَّائِ وَالْحَنْتَمِ وَالْمُزَفَّتِ وَالنَّقِيرِ قَالُوا يَا نَبِيَّ اللَّهِ مَا عِلْمُكَ بِالنَّقِيرِ قَالَ بَلَى جِذْعٌ تَنْقُرُونَهُ فَتَقْذِفُونَ فِيهِ مِنَ الْقُطَيْعَائِ قَالَ سَعِيدٌ أَوْ قَالَ مِنَ التَّمْرِ ثُمَّ تَصُبُّونَ فِيهِ مِنَ الْمَائِ حَتَّى إِذَا سَكَنَ غَلْيَانُهُ شَرِبْتُمُوهُ حَتَّى إِنَّ أَحَدَكُمْ أَوْ إِنَّ أَحَدَهُمْ لَيَضْرِبُ ابْنَ عَمِّهِ بِالسَّيْفِ قَالَ وَ فِي الْقَوْمِ رَجُلٌ أَصَابَتْهُ جَرَاحَةٌ كَذَلِكَ قَالَ وَ كُنْتُ أَخْبَؤُهَا حَيَائً مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فَقُلْتُ فَفِيمَ نَشْرَبُ يَا رَسُولَ اللَّهِ ؟ قَالَ فِي أَسْقِيَةِ الأَدَمِ الَّتِي يُلاَثُ عَلَى أَفْوَاهِهَا قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ أَرْضَنَا كَثِيرَةُ الْجُرْذَانِ وَ لاَ تَبْقَى بِهَا أَسْقِيَةُ الأَدَمِ فَقَالَ نَبِيُّ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم وَ إِنْ أَكَلَتْهَا الْجِرْذَانُ وَ إِنْ أَكَلَتْهَا الْجِرْذَانُ وَ إِنْ أَكَلَتْهَا الْجِرْذَانُ قَالَ وَ قَالَ نَبِيُّ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم لِأَشَجِّ عَبْدِ الْقَيْسِ إِنَّ فِيكَ لَخَصْلَتَيْنِ يُحِبُّهُمَا اللَّهُ الْحِلْمُ وَالأَنَاةُ
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عبدالقیس قبیلے کے کچھ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ یارسول اللہ ! ہم ربیعہ کی ایک شاخ ہیں اور ہمارے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیچ میں قبیلہ مضرکے کافر ہیں اور ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حرام مہینوں کے علاوہ (کسی اور مہینے میں) نہیںآ سکتے تو ہمیں ایسے کام کا حکم کیجیے کہ جسے ہم ان لوگوں کو بتلائیں جو ہمارے پیچھے (رہ گئے) ہیں اور ہم اس کام کی وجہ سے جنت میں جائیں، جب کہ ہم اس پر عمل کریں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' میں تمہیں چار چیزوں کا حکم کرتا ہوں اور چار چیزوں سے منع کرتا ہوں (جن چار چیزوں کا حکم کرتا ہوں وہ یہ ہیں کہ) صرف اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دو اور رمضان کے روزے رکھو اور غنیمت کے مالوں میں سے پانچواں حصہ ادا کرو اور میں تمہیں چار چیزوں سے منع کرتا ہوں۔ کدو کے تونبے اور سبز لاکھی برتن اور روغنی برتن اور نقیر سے۔'' لوگوں نے کہا یا رسول اللہ! نقیر آپ نہیں جانتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :''کیوں نہیں جانتا، نقیر ایک لکڑی ہے، جسے تم کھود لیتے ہو، پھر اس میں قطیعاء (ایک قسم کی چھوٹی کھجور، اس کو شریر بھی کہتے ہیں) بھگوتے ہو۔ (سعید نے کہا یاتمر بھگوتے ہو۔) پھر اس میں پانی ڈالتے ہو، جب اس کا جوش تھم جاتا ہے تو اس کو پیتے ہو یہاں تک کہ تم میں سے ایک اپنے چچا کے بیٹے کو تلوار سے مارتا ہے۔'' (نشہ میں آکر جب عقل جاتی رہتی ہے تو دوست دشمن کی شناخت نہیں رہتی، اپنے بھائی کو جس کو سب سے زیادہ چاہتا ہے تلوار سے مارتا ہے۔ شراب کی برائیوں میں سے یہ ایک بڑی برائی ہے، جسے آپ نے بیان کیا) راوی نے کہا کہ ہمارے لوگوں میں اس وقت ایک شخص موجود تھا (جس کا نام جہم تھا) اس کو اسی نشہ کی وجہ سے ایک زخم لگ چکا تھا اس نے کہا لیکن میں اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شرم کے مارے چھپاتا تھا۔ میں نے کہا یا رسول اللہ ! پھر کس برتن میں ہم شربت پئیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' چمڑے کی مشقوں میں پیو، جن کا منہ (ڈوری یا تسمے سے) باندھا جاتا ہے۔'' لوگوں نے کہا کہ یا رسول اللہ ! ہمارے ملک میں چوہے بہت ہیں، وہاں چمڑے کے برتن نہیں رہ سکتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :چمڑے کے برتنوں میں پیو ،اگرچہ چوہے ان کو کاٹ ڈالیں، اگرچہ ان کو چوہے کاٹ ڈالیں، اگرچہ ان کو چوہے کاٹ ڈالیں۔'' (یعنی جس طور سے ہو سکے چمڑے ہی کے برتن میں پیو، چوہوں سے حفاظت کرو لیکن ان برتنوں میں پینا درست نہیں کیونکہ وہ شراب کے برتن ہیں)۔ راوی نے کہا کہ رسول ا للہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبدالقیس کے اشج (سردار) سے فرمایا:'' تجھ میں دو خصلتیں ایسی ہیں جن کو اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے، ایک تو عقلمندی اور دوسری سہولت اور اطمینان۔ (یعنی جلدی نہ کرنا)۔
(16) عَنْ أَبِي ذَرٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَيُّ الأَعْمَالِ أَفْضَلُ ؟ قَالَ الإِيمَانُ بِاللَّهِ وَالْجِهَادُ فِي سَبِيلِهِ قَالَ قُلْتُ أَيُّ الرِّقَابِ أَفْضَلُ ؟ قَالَ أَنْفَسُهَا عِنْدَ أَهْلِهَا وَ أَكْثَرُهَا ثَمَنًا قَالَ قُلْتُ فَإِنْ لَمْ أَفْعَلْ قَالَ تُعِينُ صَانِعًا أَوْ تَصْنَعُ لِأَخْرَقَ قَالَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَ رَأَيْتَ إِنْ ضَعُفْتُ عَنْ بَعْضِ الْعَمَلِ ؟ قَالَ تَكُفُّ شَرَّكَ عَنِ النَّاسِ فَإِنَّهَا صَدَقَةٌ مِنْكَ عَلَى نَفْسِكَ
سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کونسا عمل افضل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''اللہ پر ایمان لانا اور اس کی راہ میں جہاد کرنا، میں نے کہا کونسا بندہ آزاد کرنا افضل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' جو بندہ اس کے مالک کو عمدہ معلوم ہو اور جس کی قیمت بھاری ہو۔'' میں نے کہا کہ اگر میں یہ نہ کر سکوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''تو کسی صانع کی مدد کر یا کسی بے ہنر شخص کے لیے مزدوری کر (یعنی جو کوئی کام اور پیشہ نہ جانتا ہو اور روٹی کا محتاج ہو)۔'' میں نے کہا اگر میں خود ناتواں ہوں تو؟ (یعنی کام نہ کر سکوں یا کوئی کسب نہ کر سکوں؟) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' تو لوگوں کو اپنے شر سے محفوظ کر دے، یہی تیرا اپنے نفس پر صدقہ ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
بَابٌ : فِي الْاَمْرِ بِالايْمَانِ وَالاِسْتِعَاذَةِ بِاللَّهِ عِنْدَ وَسْوَسَةِ الشَّيْطَانِ
ایمان کا حکم اور شیطانی وسوسہ کے وقت اللہ کی پناہ مانگنا​

(17) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنِ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ لاَ يَزَالُ النَّاسُ يَسْأَلُونَكُمْ عَنِ الْعِلْمِ حَتَّى يَقُولُوا هَذَا اللَّهُ خَلَقَنَا فَمَنْ خَلَقَ اللَّهَ ؟ قَالَ وَ هُوَ آخِذٌ بِيَدِ رَجُلٍ فَقَالَ صَدَقَ اللَّهُ وَ رَسُولُهُ قَدْ سَأَلَنِي اثْنَانِ وَ هَذَا الثَّالِثُ أَوْ قَالَ سَأَلَنِي وَاحِدٌ وَ هَذَا الثَّانِي
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' لوگ تم سے علم کی باتیں پوچھتے رہیں گے یہاں تک کہ یہ کہیں گے کہ اللہ نے تو ہمیں پیدا کیا، پھر اللہ کو کس نے پیدا کیا؟'' راوی نے کہا کہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اس حدیث کو بیان کرتے وقت ایک شخص کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھے۔ انھوں نے کہا سچ کہا اللہ اور اس کے رسول نے ،مجھ سے دو آدمی یہی پوچھ چکے اور یہ تیسرا ہے یا یوں کہا کہ ایک آدمی پوچھ چکا ہے اور یہ دوسرا ہے۔
(18) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم لاَ يَزَالُونَ يَسْأَلُونَكَ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ حَتَّى يَقُولُوا هَذَا اللَّهُ فَمَنْ خَلَقَ اللَّهَ ؟ قَالَ فَبَيْنَا أَنَا فِي الْمَسْجِدِ إِذْ جَائَنِي نَاسٌ مِنَ الأَعْرَابِ فَقَالُوا يَا أَبَا هُرَيْرَةَ هَذَا اللَّهُ فَمَنْ خَلَقَ اللَّهَ ؟ قَالَ فَأَخَذَ حَصًى بِكَفِّهِ فَرَمَاهُمْ ثُمَّ قَالَ قُومُوا قُومُوا صَدَقَ خَلِيلِي
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا تھا :''' اے ابوہریرہ! لوگ تجھ سے (دین کی باتیں) پوچھتے رہیں گے یہاں تک کہ یوں کہیں گے کہ بھلا اللہ تو یہ ہے اب اللہ کو کس نے پیدا کیا؟، کہتے ہیں کہ ایک بار میں مسجد میں بیٹھا تھا کہ اتنے میں کچھ دیہاتی آئے اور کہنے لگے کہ اے ابو ہریرہ! اللہ تو یہ ہے، اب اللہ کو کس نے پیدا کیا؟ یہ سن کر سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے ایک مٹھی بھر کنکریاں ان کو ماریں اور کہاکہ اٹھو، اٹھو! سچ کہا تھا میرے دوست (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم )نے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
بَابٌ : فِي الْاِيْمَانِ بِاللّهِ وَالْإِسْتِقَامَةِ
اللہ پر ایمان لانے اور اس پر ڈٹ جانے کے متعلق بیان​

(19) عَنْ سُفْيَانَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الثَّقَفِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم قُلْ لِي فِي الإِسْلاَمِ قَوْلاً لاَ أَسْأَلُ عَنْهُ أَحَدًا بَعْدَكَ وَ فِي حَدِيثِ أَبِي أُسَامَةَ غَيْرَكَ قَالَ قُلْ آمَنْتُ بِاللَّهِ ثُمَّ اسْتَقِمْ
سیدنا سفیان بن عبداللہ ثقفی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے کہا یا رسول اللہ ! مجھے اسلام میں ایک ایسی بات بتا دیجیے کہ پھر میں اس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد (اور ابو اسامہ کی روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا) کسی سے نہ پوچھوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' کہہ میں اللہ پر ایمان لایا پھر اس پر قائم رہ۔ ''
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
بَابٌ : فِي آيَاتِ النَّبِىِّ صلی اللہ علیہ وسلم وَالْإِيْمَانِ بِه
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات اور ان پر ایمان لانے کے متعلق​

(20) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ مَا مِنَ الأَنْبِيَائِ مِنْ نَبِيٍّ إِلاَّ قَدْ أُعْطِيَ مِنَ الآيَاتِ مَا مِثْلُهُ آمَنَ عَلَيْهِ الْبَشَرُ وَ إِنَّمَا كَانَ الَّذِي أُوتِيتُ وَحْيًا أَوْحَى اللَّهُ إِلَيَّ فَأَرْجُو أَنْ أَكُونَ أَكْثَرَهُمْ تَابِعًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' ہر ایک پیغمبر کو وہی معجزے ملے ہیں جو اس سے پہلے دوسر ے پیغمبر کو مل چکے تھے پھر اس پر لوگ ایمان لائے لیکن مجھے جو معجزہ ملا وہ قرآن ہے جو اللہ نے (صرف) میرے پاس بھیجا (ایسا معجزہ کسی پیغمبرکو نہیں ملا)، اس لیے میں امیدکرتا ہوں کہ میری پیروی کرنے والے قیامت کے دن سب سے زیادہ ہوں گے۔ ''
(21) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم أَنَّهُ قَالَ وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ لاَ يَسْمَعُ بِي أَحَدٌ مِنْ هَذِهِ الأُمَّةِ يَهُودِيٌّ وَ لاَ نَصْرَانِيٌّ ثُمَّ يَمُوتُ وَ لَمْ يُؤْمِنْ بِالَّذِي أُرْسِلْتُ بِهِ إِلاَّ كَانَ مِنْ أَصْحَابِ النَّارِ
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی جان ہے! (میرے اس زمانہ سے قیامت تک )کوئی یہودی یا نصرانی (یا اور کوئی دین والا) میرا حال سنے پھر اس پر ایمان نہ لائے جو کہ میں دیکر بھیجا گیا ہوں (یعنی قرآن و سنت پر) تو وہ جہنم میں جائے گا۔ ''
(22) عَنْ صَالِحِ بْنِ صَالِحٍ الْهَمْدَانِيِّ عَنِ الشَّعْبِيِّ قَالَ رَأَيْتُ رَجُلاً مِنْ أَهْلِ خُرَاسَانَ سَأَلَ الشَّعْبِيَّ فَقَالَ يَا أَبَا عَمْرٍو إِنَّ مَنْ قِبَلَنَا مِنْ أَهْلِ خُرَاسَانَ يَقُولُونَ فِي الرَّجُلِ إِذَا أَعْتَقَ أَمَتَهُ ثُمَّ تَزَوَّجَهَا فَهُوَ كَالرَّاكِبِ بَدَنَتَهُ فَقَالَ الشَّعْبِيُّ حَدَّثَنِي أَبُو بُرْدَةَ بْنُ أَبِي مُوسَى عَنْ أَبِيهِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ ثَلاَثَةٌ يُؤْتَوْنَ أَجْرَهُمْ مَرَّتَيْنِ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ آمَنَ بِنَبِيِّهِ وَ أَدْرَكَ النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وسلم فَآمَنَ بِهِ وَاتَّبَعَهُ وَ صَدَّقَهُ فَلَهُ أَجْرَانِ وَ عَبْدٌ مَمْلُوكٌ أَدَّى حَقَّ اللَّهِ تَعَالَى وَ حَقَّ سَيِّدِهِ فَلَهُ أَجْرَانِ وَ رَجُلٌ كَانَتْ لَهُ أَمَةٌ فَغَذَّاهَا فَأَحْسَنَ غِذَائَهَا ثُمَّ أَدَّبَهَا فَأَحْسَنَ أَدَبَهَا ثُمَّ أَعْتَقَهَا وَ تَزَوَّجَهَا فَلَهُ أَجْرَانِ ثُمَّ قَالَ الشَّعْبِيُّ لِلْخُرَاسَانِيِّ خُذْ هَذَا الْحَدِيثَ بِغَيْرِ شَيْئٍ فَقَدْ كَانَ الرَّجُلُ يَرْحَلُ فِيمَا دُونَ هَذَا إِلَى الْمَدِينَةِ
سیدنا صالح بن صالح الہمدانی ، شعبی سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے ایک شخص کو دیکھا جو کہ خراسان کا رہنے والا تھا اس نے شعبی سے پوچھا کہ ہمارے ملک کے لوگ کہتے ہیں کہ جو شخص اپنی لونڈی کو آزاد کرکے پھر اس سے نکاح کر لے تو اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی قربانی کے جانور پر سواری کرے۔ شعبی نے کہا کہ مجھ سے ابو بردہ بن ابی موسیٰ نے بیان کیا، انھوں نے اپنے والد سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :''تین قسم کے آدمیوں کودوہرا ثواب ملے گا۔ ایک تو وہ شخص جو اہل کتاب میں سے ہو، (یعنی یہودی یا نصرانی) اپنے پیغمبر پر ایمان لایا ہواور پھر میرا زمانہ پائے اور مجھ پر بھی ایمان لائے، میری پیروی کرے اور مجھے سچا جانے گا تو اس کو دوہرا ثواب ہے۔ اور ایک اس غلام کو جو اللہ کا حق ادا کرے اور اپنے مالک کا بھی، اس کو دوہرا ثواب ہے۔ اور ایک اس شخص کو جس کے پاس ایک لونڈی ہو، پھر اچھی طرح اس کو کھلائے اور پلائے اس کے بعد اچھی طرح تعلیم و تربیت کرے، پھر اس کو آزاد کرکے اس سے نکاح کر لے تو اس کو بھی دوہرا ثواب ہے۔'' پھر شعبی نے خراسانی سے کہا کہ تو یہ حدیث بغیر محنت کیے لے لے، نہیں تو ایک شخص اس سے چھوٹی حدیث کے لیے مدینے تک سفر کیا کرتا تھا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
بَابٌ : ثَلاَثٌ مَنْ كُنَّ فِيْهِ وَجَدَ حَلاَوَةَ الإِيمَانِ
جس میں یہ تین خصلتیں ہوں اس نے ایمان کی مٹھاس پالی​

(23) عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنِ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ ثَلاَثٌ مَنْ كُنَّ فِيهِ وَجَدَ بِهِنَّ حَلاَوَةَ الإِيمَانِ مَنْ كَانَ اللَّهُ وَ رَسُولُهُ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِمَّا سِوَاهُمَا وَ أَنْ يُحِبَّ الْمَرْئَ لاَ يُحِبُّهُ إِلاَّ لِلَّهِ وَ أَنْ يَكْرَهَ أَنْ يَعُودَ فِي الْكُفْرِ بَعْدَ أَنْ أَنْقَذَهُ اللَّهُ مِنْهُ كَمَا يَكْرَهُ أَنْ يُقْذَفَ فِي النَّارِ
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''تین باتیں جس میں ہوں گی وہ ان کی وجہ سے ایمان کی مٹھاس اور حلاوت پائے گا۔ ایک تو یہ کہ اللہ اور اس کے رسول سے دوسرے سب لوگوں سے زیادہ محبت رکھے۔ دوسری یہ کہ کسی آدمی سے صرف اللہ کے واسطے دوستی رکھے (یعنی دنیا کی کوئی غرض نہ ہو اور نہ ہی اس سے ڈر ہو) تیسری یہ کہ کفر میں لوٹنے کو اس کے بعد کہ اللہ نے اس سے بچا لیا اس طرح برا جانے جیسے آگ میں ڈال دیا جانا۔''
(24) عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم لاَ يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَلَدِهِ وَ وَالِدِهِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ
سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''تم میں سے کوئی بندہ اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ اس کو میری محبت اس کی اولاد، ماں باپ اور سب لوگوں سے زیادہ نہ ہو۔ ''
(25) عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنِ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لاَ يُؤْمِنُ عَبْدٌ حَتَّى يُحِبَّ لِجَارِهِ أَوْ قَالَ لِأَخِيهِ مَا يُحِبُّ لِنَفْسِهِ
سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :''مجھے قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! کوئی آدمی مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ اپنے ہمسایہ یا اپنے بھائی کے لیے وہی نہ پسند کرے جو وہ اپنے لیے پسند کرتا ہے۔
 
Top