ابن قدامہ
مشہور رکن
- شمولیت
- جنوری 25، 2014
- پیغامات
- 1,772
- ری ایکشن اسکور
- 428
- پوائنٹ
- 198
اس تحریر کا کوئی بھائی جواب دے۔ں اس مسلہ سے میں پریشان ہوں -میں نے یہ تحریر ایک دیوبند ویب ساہیٹ پر پڑھی ہے
اسْتَوَی عَلَی الْعَرْش اور غیر مقلدین کا ناقابل فہم مسلک
غیر مقلدین کا موقف یہ ہے کہ ﴿اسْتَوَی عَلَی الْعَرْش﴾ اپنے حقیقی معنوں پر محمول ہے ، یعنی الله تعالیٰ”پھر بیٹھا تخت پر“ اور عرش الله تعالیٰ کامکان ہے اور الله تعالیٰ جہت بلندی سے متصف ہے ۔(وھو في جہة الفوق، ومکان العرش۔(نزل الأبرار، کتاب الایمان، ص:3،لاہور)
اسی طرح یَدْ ، وجہ، ساق، سے الله تعالیٰ کے اعضا وجوارح مراد ہیں، تاہم ان کی کیفیت مجہول ہے۔ (”ولہ وجہ، وعین، وید، وکف، وقبضة، واصابع، وساعد، وذراع، وجنب، وحقو، وقدم، ورجل، وساق، وکیف کما تلیق بذاتہ“․(نزل الابرار من فقہ النبی المختار، کتاب الإیمان، ص:3، لاہور)
اگر غیر مقلدین کے مذکورہ موقف ومسلک کو درست قرار دیا جائے تو ذات بار ی تعالیٰ کے لیے ”جسم“ تسلیم کیے بغیر کوئی چارہ کار نہیں رہتا، کیوں کہ باری تعالیٰ کے لیے مکان وجہت اور اعضائے جارحہ (منھ، ہاتھ، پنڈلی) ثابت کرتے ہی جسمانیت کے تمام پہلو غیر شعوری طور پر پیدا ہو جاتے ہیں یا پھر یہ مسئلہ مبہم اور ناقابل فہم بن جاتا ہے۔
اس لیے کہ جب آپ الله تعالیٰ کے لیے ، چہرہ، ہاتھ، پنڈلی وغیرہ کے اثبات پر زور دیتے ہیں تو اس کے جو معنی انسانی ذہن میں متبادر ہوتے ہیں وہ یہ ہیں کہ اس کی ذات نہ صرف جسم رکھتی ہے، بلکہ اعضا وجوارح سے بھی متصف ہے، لیکن پھر جب آپ کہتے ہیں ان اعضاءِ جوارحہ کی کیفیت مجہول ہے، اس کا ہاتھ ہمارے ہاتھ کی مانند نہیں، اس کا چہرہ ہمارے چہرے کی طرح نہیں تو پھر فیصلہ کن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس نفی کا اطلاق کس سے متعلق ہے؟
کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ:
وہ چہرے، ہاتھ، پنڈلی وغیرہ کے مدلولات ہی سے متصف نہیں؟یا یہ کہ وہ ایک نوع کے اعضائے جارحہ تو رکھتا ہے، مگر یہ اعضائے جارحہ تمام ذی اعضا حیوانات سے مختلف ہیں؟
اگر پہلی صورت صحیح ہے تو اس کا مطلب یہ ہے آپ الفاظ کے ہیر پھیر میں سرگرداں او رکسی نتیجے تک پہنچنے سے قاصر ہیں، کیوں کہ ایک چیز ثابت کرکے پھر اس کی نفی کر دینے سے کوئی واضح مفہوم سامنے نہیں آتا۔
اگر وہ دوسری صورت صحیح ہے تو پھر ”جسمانیت“ سے دامن بچانا محال ہے ،اس لیے کہ آپ کی نفی کا اطلاق صرف ہیئت، شکل اور نوعیت پر ہوا ہے، جس کا سیدھا سادھا مطلب یہ ہے کہ الله تعالیٰ کے لیے ید، وجہ، استوی علی العرش کے جسمانی مدلول تو ثابت ہیں، لیکن ہمارے ہاتھ ، چہرے کے مقابلے میں بے نظیر ہیں ۔
غیر مقلدین کے مسلک کی مذکورہ کیفیت دیکھ کر ہم یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ ان کا مسلک اہل سنت سے جدا او رناقابل فہم ہے۔ (استوی علی العرش، وھذا الأصل معقود لبیان أنہ تعالیٰ غیر مستقر علی مکان کما قدمہ صریحاً فی ترجمة اصول الرکن الأول، ونبہ علیہ مصانا بالجواب عن تمسک القائلین بالجھة والمکان، فإن الکرامیة یثبتون جہة العلو من غیر استقرار علی العرش، والحشویة، وھم المجسمة، یصر حون بالاستقرار علی العرش وتمسکو بظواہرھا منھا قولہ تعالیٰ: ﴿الرحمن علی العرش استوی﴾․ (المسامرة شرح المسایرہ ، الأصل الثامن:ص،44، بیروت)
علامہ قرطبی رحمہ الله تعالیٰ نے کیا خوب فرمایا ( صفات متشابہات) میں تاؤیل سے پہلوتہی اختیار کرکے الفاظ کے ظاہری معنی کے درپے ہو جانے کا مطلب تو یہ ہوا کہ قرآن کریم کی آیات تضادبیانی کا شکار ہیں۔ (وقد جمع فی ھذہ الأیة بین ”استوی العرش“ وبین ”ھو معکم“ ، والأخذ بالظاھر من تناقض، فدل علی انہ لا بدمن التاویل، والإعراض عن التاویل اعتراف بالتناقض)․ (احکام القرآن اللقرطبی) کیوں کہ صفات متشابہات کے ظاہری معنی مراد لینے سے قرآن کی کئی آیات تضادوتناقض کا شکار ہوتی نظر آتی ہیں مثلاً:﴿ ثُمَّ اسْتَوَی عَلَی الْعَرْش﴾․ (اعراف:54) اور ﴿وَہُوَ الْقَاہِرُ فَوْقَ
عِبَادِہِ﴾․ (الأنعام:18) کا ظاہری معنی یہ ہوا کہ الله تعالیٰ حسی طور پر عرش پر بیٹھے ہیں او رجہت فوق میں ہیں ۔لیکن مندرجہ ذیل آیتوں کے ظاہری معنی سے معلوم ہوتا ہے کہ الله تعالیٰ کی ذات گرامی عرش پر نہیں، بلکہ اپنے بندوں کے ساتھ ہے۔ ﴿وَقَالَ اللّہُ إِنِّیْ مَعَکُمْ﴾․ (المائدہ:11)﴿وَہُوَ مَعَکُمْ أَیْْنَ مَا کُنتُمْ﴾․(الحدید:4) ﴿إِنَّنِیْ مَعَکُمَا أَسْمَعُ وَأَرَی﴾․(طہ:46) ﴿أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّہَ یَعْلَمُ مَا فِیْ السَّمَاوَاتِ وَمَا فِیْ الْأَرْضِ مَا یَکُونُ مِن نَّجْوَی ثَلَاثَةٍ إِلَّا ہُوَ رَابِعُہُمْ وَلَا خَمْسَةٍ إِلَّا ہُوَ
سَادِسُہُمْ وَلَا أَدْنَی مِن ذَلِکَ وَلَا أَکْثَرَ إِلَّا ہُوَ مَعَہُمْ أَیْْنَ مَا کَانُوا﴾․(المجادلہ:7)
اگر تاویل بدعت ہے تو پھر اس تعارض اورتناقض کا کیا حل؟
غیر مقلدین کا امام مالک رحمہ الله کے قول سے غلط استدلال
غیر مقلدین کا کہنا ہے کہ امام مالک رحمہ الله صفات متشابہات کو حقیقی معنوں پر محمول کرکے اس کی کیفیت مجہول قرار دیتے تھے ، چناں چہ ایک بار ان سے جب ”استویٰ“ کے متعلق دریافت کیا گیا تو انہوں نے واضح الفاظ میں فرمایا”الاستواء غیر مجہول“ یعنی لفظ ”استویٰ“ کی دلالت اپنے معنی ومراد (استقرار) پر واضح ہے۔ یعنی الله تعالیٰ عرش پر مستقِر ہیں البتہ اس استقرار کی کیفیت مجہول ہے۔ (الاستواء غیر مجہول، والکیف غیر معقول، والایمان بہ واجب، والسئوال عنہ بدعة“․ روح المعانی، الاعراف، تحت آیة رقم:54)
علامہ آلوسی رحمہ الله تعالیٰ نے اس فریب استدلال سے پردہ چاک کرتے ہوئے فرمایا کہ:
” الاستواء غیر مجہول“ کا مطلب یہ ہے الله تعالیٰ کی صفت استوا (قرآن وحدیث) میں مذکور ہے ۔ یہ مطلب نہیں کہ اس کا معنی ومراد ”استقرار“ معلوم ہے۔ ( لیس نصاً فی ھذ المذھب لاحتمال أن یکون المراد من قولہ : غیر مجہول، انہ ثابت معلوم الثبوت لا أن معناہ وھو الاستقرار غیر مجہول۔“ (روح المعانی، الاعراف، تحت آیة رقم:54)
نیز امام مالک رحمہ الله تعالیٰ کا استوا کے متعلق صحیح قول وہ ہے جو سند صحیح کے ساتھ علامہ ابن حجر رحمہ الله نے فتح الباری․ (واخرج البیہقی بسند جید عن عبدالله بن وھب، قال: کنا عند مالک، فدخل رجل فقال: یا أبا عبدالله ﴿الرحمن علی العرش استوی﴾ کیف استوی؟ فاطرق مالک فأخذتہ الرحضاء ثم رفع راسہ، فقال: الرحمن علی العرش استوی، کما وصف بہ نفسہ، ولایقال کیف وکیف عنہ مرفوع․فتح الباری لابن حجر، باب وکان عرشہ علی الماء:494/20) اور علامہ بیہقی رحمہ الله تعالیٰ نے کتاب الاسماء والصفات․(کتاب الاسماء والصفات للبیہقی، ص:408) میں نقل کیا ہے کہ ” الله تعالیٰ عرش پر ایسا
ہی مستوی ہے جیسے خود آیت کریمہ میں بیان فرمایا ہے ﴿الرحمن علی العرش استوی﴾ یعنی صرف صفت استوی کی نسبت باری تعالیٰ کے لیے ثابت کرکے اسے متشابہہ المعنی قرار دیا۔
لہٰذا امام مالک رحمہ الله کے ایک معروف او رمستند قول کو نظر انداز کرکے ایک غیر معروف اور مبہم قول سے اپنے مطلب کا مفہوم اخذ کرنا خود فریبی کے سوا کچھ نہیں۔
اہل سنت والجماعت کا عقیدہ ہے کہ ا لله تعالیٰ کی ذات مبارکہ جسم سے اور جسم کی تمام خصوصیات زمان ومکان اور حدود وجہت سے پاک اور منزہ ہے، لہٰذا ذات باری تعالیٰ کے حق میں کوئی لفظ بھی استعمال نہ کیا جائے جو جسم اور خاصہ جسم پر دلالت کرتا ہو، مثلاً لفظ ”أین“ عربی میں مکان کے لیے استعمال ہوتا ہے اور مکان جسم کا خاصہ ہے، لہٰذا ذات باری کے متعلق لفظ ”أین“ سے استفسار جائز نہیں ( مثلا این الله ؟ الله کہاں ہے؟)۔ چناں چہ علامہ ابن حجر رحمہ الله ایک مقام پر لکھتے ہیں۔
” الله تعالیٰ کی حکمتوں پر کیوں اور کیسے کا سوال اٹھانا ایسے ہی عبث ہے جیسے الله کے وجود پر کہاں اور کیسے کا سوال ۔“ (فلا یتوجہ علی حکمہ لم ولا کیف کما لا یتوجہ علیہ فی وجودہ أین وحیث) ․( فتح الباری لابن حجر:441/1)
لیکن غیر مقلدین اور نام نہاد سلفیوں کے نزدیک ”عرش“ باری تعالیٰ کا مکان اور فوق باری تعالیٰ کی جہت ہے ، دلیل مانگنے پر فوراً مسلم شریف کی حدیث پیش کر دیتے ہیں ، جس میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے ایک باندی سے پوچھا ”أین الله؟“ (الله کہاں ہے؟) جواب میں باندی نے کہا فی السماء (آسمان میں ہے)۔ ( قلت یا رسول الله أفلا أعتقہا قال: ائتنی بھا، فأتیتہ بھا، فقال لہا: این الله؟ قالت: فی السماء․( صحیح مسلم باب تحریم السلام فی الصلاة، رقم الحدیث:1227)
غیر مقلدین اس حدیث سے یوں استدلال کرتے ہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کا ”أین“ سے الله کی ذات کے متعلق سوال فرمانا مکان الہی کے ثبوت پر واضح دلیل ہے ، پھر باندی کے جواب فی السماء پر خاموش رہنا بلکہ اسے مومنہ قرار دے کر آزاد کر ادینا اس بات کی دلیل ہے کہ باندی کا جواب درست تھا کہ الله تعالیٰ فی السماء یعنی جہت فوق میں ہے ۔ مذکورہ حدیث کی چھان بین کرنے پر معلوم ہوا کہ غیر مقلدین نے جس حدیث کو بنیاد بنا کر اپنے عقیدے کی عمارت کھڑی کی ہے اس کو محدثین نے معلول اور شاذ قرار دیا ہے۔
1... چناں چہ امام بیہقی رحمہ الله تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ حدیث مضطرب ہے۔ ( کتاب الاسماء والصفات للبہیقی، ص:422)
2... حافظ ابن حجر رحمہ الله تعالیٰ اس کے اضطراب کی نشان دہی کرتے ہوئے فرماتے ہیں ”وفی اللفظ مخالفة کثیرة“ کہ متن حدیث کے لفظ میں بکثرت اختلاف پایا جاتا ہے۔ ( التلخیص الحبیر:443/3)
3... امام بزار رحمہ الله نے بھی اس حدیث کے اضطراب پر نشان دہی کرتے ہوئے یہی فرمایا کہ اس حدیث کو مختلف الفاظ کے ساتھ روایت کیا گیا ہے ۔ ( کشف الأستار:14/1)
4... علامہ زاہد الکوثری رحمہ الله تعالیٰ نے بھی اس حدیث پر اضطراب کا حکم لگایا ہے ۔ ( ھامش الأسما والصفات:344)
5... نیز حضور صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر کتنے لوگ مشرف بہ اسلام ہوئے، لیکن کسی سے بھی ”أین“ کا سوال منقول نہیں ہے، یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ اس سوال کا ایمان کی حقیقت سے کوئی تعلق نہیں، بلکہ فقط باندی کا امتحان لینا مقصود تھا کہ مشرک ہے یا موحدہ؟( شرح السیوطی علی مسلم:217/2، رقم الحدیث:537)
خلاصہ یہ کہ ایک معلول اور شاذ روایت سے عقیدے کا استنباط نہیں کیا جاسکتا اور ایسی شاذ روایت کو بنیاد بنا کرا شاعرہ کو گم راہ او ربدعتی کہنا تو سراسر جہالت ہے یا تعصب۔ بالفرض اگر اس روایت کو صحیح تسلیم کر لیا تو پھر ”أین“ کا سوال ذات باری تعالی کے مکان کے لیے نہیں، بلکہ منزلت اور مرتبہ کے لیے ہو گا، یعنی ہمارے الله کامرتبہ کیا ہے ؟ یا یہ کہ الله تعالیٰ کے احکام وأوامر کا مکان کون سا ہے؟ (کذا فی شر ح النووی علی مسلم،298/2، رقم الحدیث:836)
خلاصہ یہ کہ غیر مقلدین اور سلفی حضرات کا موقف افراط و تفریط کا شکار ہے، چناں چہ حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ الله ایک مقام پر لکھتے ہیں :
” آج کل بعض لوگ جن پر ظاہریت غالب ہے، جب متشابہات کی تفسیر کرتے ہیں تو درجہ اجمال میں تو مسلک سلف پر رہتے ہیں، مگر چار غلطیاں کرتے ہیں ۔
1... ایک یہ کہ تفسیر ظنی کی قطعیت کے مدعی ہو جاتے ہیں۔ ( چناں چہ مسلک تفویض کو باطل قرار دیتے ہیں۔)
2... دوسری غلطی یہ ہے کہ جب تفصیل کرتے ہیں تو عنوانات موہمہ تکییف وتجسیم اختیا رکرتے ہیں ۔ ( جسے کہ عرش کو الله تعالیٰ کا مکان اور ”فوق“ کو جہت قرار دینا اور ید وجہ سے اعضائے جوارح مراد لینا۔)
3... تیسری غلطی یہ کہ مسلک تأویل کو علی الاطلاق باطل کہہ کر ہزاروں اہل حق کی تضلیل کرتے ہیں، حالاں کہ اہل حق کے پاس ان کے مسلک کی صحت کے لیے احادیث بھی بنا ہیں اور قواعد شرعیہ بھی۔(گذشتہ صفحات میں ان کا ذکر کیا گیا ہے ۔)
4... چوتھی غلطی یہ کہ تفسیر بالاستقرار کو تو سلف کے مسلک پر سمجھتے ہیں اور دوسری تفاسیر لغویہ کو تاویل خلف سمجھتے ہیں ، حالاں کہ سب کا مساوی ہونا اوپر ظاہر ہو چکا ہے۔(امداد الفتاوی:111/6)
صفات متشابہات اور فرقہ مجسمہ کا موقف
فرقہ مجسمہ کے نزدیک الله تعالیٰ کی ذات مبارکہ جسمانیت سے متصف ہے۔
مجسمہ کی عقلی دلیل
فرقہ مجسمہ کی عقلی دلیل تو یہ ہے کہ جب بھی دو موجود فرض کیے جائیں تو وہ د وحال سے خالی نہیں ہوسکتے یا تو دونوں باہم متصل او رملے ہوئے ہوں گے، اس اتصال اور ملاپ کی بھی دو صورتیں ہیں، ایک یہ کہ دونوں کے حدود واطراف آ پس میں ملتے ہوں یا یہ کہ دونوں آپس میں تداخل اور حلول کیے ہوئے ہوں۔
یا دونوں ایک دوسرے سے منفصل اور جدا ہوں گے اور جہت میں ایک دوسرے کے مخالف سمت میں ہوں گے، اب ہمارے سامنے دو موجود ہیں، ایک عالم ،دوسرا ذات باری تعالیٰ ،ان دونوں میں مذکورہ بالا دو احتمال ہیں، پہلا احتمال اس لیے باطل ہے کہ الله تعالیٰ نہ عالم میں حلول کیے ہوئے ہیں، نہ عالم الله تعالیٰ میں حلول کیے ہوئے ہے، کیوں کہ حال او رمحل ہمیشہ ایک دوسرے کے محتاج ہوتے ہیں اور الله تعالیٰ کی ذات کسی چیز کا احتیاج نہیں رکھتی لہٰذا دوسری صورت ہی متعین ہے کہ الله تعالیٰ عالم سے منفصلاور جدا ہے او راس کی جہتِ مخالف میں ہے اور جو چیز جہت میں ہوتی ہے وہ متحیز ہوتی ہے او
رمتحیز جسم ہوتا ہے، لہٰذا الله تعالیٰ جسم ہے۔
مجسمہ کی عقلی دلیل کا جواب
ذات بار ی تعالیٰ جسم کے عیب سے پاک ہے، کیوں کہ جسم ایسی چیزوں کے مجموعے کا نام ہے جو حدوث اور فنا کا تقاضا کرتی ہیں مثلاً ہیئت، مقدار، اجتماع وافتراق۔
باقی آپ نے جو دلیل اور حکم بیان کیا ہے وہ ان دو موجودات کے متعلق ہے جو حسی ہوں ، الله تبارک وتعالی کا وجود غیر محسوس ہے ، اس پر محسوس والا حکم لگانا وہمی ہونے کی دلیل ہے، عقل ودانش کی دنیا میں اس کی کوئی اہمیت نہیں، اہل علم اسے قیاس الغائب علی الشاھد سے تعبیر کرتے ہیں۔(شرح العقائد النسفیة للتفتازانی، ص:46,45)
مجسمہ کی نقلی دلیل او راس کا جواب
مجسمہ نقلی دلائل میں قرآن وحدیث کی وہ نصوص پیش کرتے ہیں جن کے ظاہری الفاظ باری تعالیٰ کے لیے جسمیت او رجہت وغیرہ پر دلالت کرتے ہیں ۔ مثلاً: ﴿وَجَاء رَبُّکَ﴾․ (الفجر:22) ( اور آیا تیرا رب)۔ ﴿الرَّحْمَنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوَی﴾․(طہ:5)(وہ بڑا مہربان عرش پر قائم ہوا)۔ ﴿یَدُ اللَّہِ فَوْقَ أَیْْدِیْہِمْ﴾․(الفتح:10)( الله کا ہاتھ ہے اوپر ان کے ہاتھ کے)۔
جواب… واضح رہے کہ جب باری تعالیٰ کے جسم او رجہت وغیرہ سے پاک ہونے پر دلائل عقلیہ قائم ہوں تو پھر قاعدہ یہ ہے اگر کسی نص کے ظاہری الفاظ کسی ایسی چیز پر دلالت کریں جو خلاف عقل ہے تو اس نص کے ظاہری معنی مراد نہیں ہوں گے ، بلکہ ایسی نصوص متشابہات کہلاتی ہیں اورمتشابہات کے متعلق اہل سنت والجماعت کا موقف گزشتہ صفحات میں گزر چکا ہے۔
اسْتَوَی عَلَی الْعَرْش اور غیر مقلدین کا ناقابل فہم مسلک
غیر مقلدین کا موقف یہ ہے کہ ﴿اسْتَوَی عَلَی الْعَرْش﴾ اپنے حقیقی معنوں پر محمول ہے ، یعنی الله تعالیٰ”پھر بیٹھا تخت پر“ اور عرش الله تعالیٰ کامکان ہے اور الله تعالیٰ جہت بلندی سے متصف ہے ۔(وھو في جہة الفوق، ومکان العرش۔(نزل الأبرار، کتاب الایمان، ص:3،لاہور)
اسی طرح یَدْ ، وجہ، ساق، سے الله تعالیٰ کے اعضا وجوارح مراد ہیں، تاہم ان کی کیفیت مجہول ہے۔ (”ولہ وجہ، وعین، وید، وکف، وقبضة، واصابع، وساعد، وذراع، وجنب، وحقو، وقدم، ورجل، وساق، وکیف کما تلیق بذاتہ“․(نزل الابرار من فقہ النبی المختار، کتاب الإیمان، ص:3، لاہور)
اگر غیر مقلدین کے مذکورہ موقف ومسلک کو درست قرار دیا جائے تو ذات بار ی تعالیٰ کے لیے ”جسم“ تسلیم کیے بغیر کوئی چارہ کار نہیں رہتا، کیوں کہ باری تعالیٰ کے لیے مکان وجہت اور اعضائے جارحہ (منھ، ہاتھ، پنڈلی) ثابت کرتے ہی جسمانیت کے تمام پہلو غیر شعوری طور پر پیدا ہو جاتے ہیں یا پھر یہ مسئلہ مبہم اور ناقابل فہم بن جاتا ہے۔
اس لیے کہ جب آپ الله تعالیٰ کے لیے ، چہرہ، ہاتھ، پنڈلی وغیرہ کے اثبات پر زور دیتے ہیں تو اس کے جو معنی انسانی ذہن میں متبادر ہوتے ہیں وہ یہ ہیں کہ اس کی ذات نہ صرف جسم رکھتی ہے، بلکہ اعضا وجوارح سے بھی متصف ہے، لیکن پھر جب آپ کہتے ہیں ان اعضاءِ جوارحہ کی کیفیت مجہول ہے، اس کا ہاتھ ہمارے ہاتھ کی مانند نہیں، اس کا چہرہ ہمارے چہرے کی طرح نہیں تو پھر فیصلہ کن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس نفی کا اطلاق کس سے متعلق ہے؟
کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ:
وہ چہرے، ہاتھ، پنڈلی وغیرہ کے مدلولات ہی سے متصف نہیں؟یا یہ کہ وہ ایک نوع کے اعضائے جارحہ تو رکھتا ہے، مگر یہ اعضائے جارحہ تمام ذی اعضا حیوانات سے مختلف ہیں؟
اگر پہلی صورت صحیح ہے تو اس کا مطلب یہ ہے آپ الفاظ کے ہیر پھیر میں سرگرداں او رکسی نتیجے تک پہنچنے سے قاصر ہیں، کیوں کہ ایک چیز ثابت کرکے پھر اس کی نفی کر دینے سے کوئی واضح مفہوم سامنے نہیں آتا۔
اگر وہ دوسری صورت صحیح ہے تو پھر ”جسمانیت“ سے دامن بچانا محال ہے ،اس لیے کہ آپ کی نفی کا اطلاق صرف ہیئت، شکل اور نوعیت پر ہوا ہے، جس کا سیدھا سادھا مطلب یہ ہے کہ الله تعالیٰ کے لیے ید، وجہ، استوی علی العرش کے جسمانی مدلول تو ثابت ہیں، لیکن ہمارے ہاتھ ، چہرے کے مقابلے میں بے نظیر ہیں ۔
غیر مقلدین کے مسلک کی مذکورہ کیفیت دیکھ کر ہم یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ ان کا مسلک اہل سنت سے جدا او رناقابل فہم ہے۔ (استوی علی العرش، وھذا الأصل معقود لبیان أنہ تعالیٰ غیر مستقر علی مکان کما قدمہ صریحاً فی ترجمة اصول الرکن الأول، ونبہ علیہ مصانا بالجواب عن تمسک القائلین بالجھة والمکان، فإن الکرامیة یثبتون جہة العلو من غیر استقرار علی العرش، والحشویة، وھم المجسمة، یصر حون بالاستقرار علی العرش وتمسکو بظواہرھا منھا قولہ تعالیٰ: ﴿الرحمن علی العرش استوی﴾․ (المسامرة شرح المسایرہ ، الأصل الثامن:ص،44، بیروت)
علامہ قرطبی رحمہ الله تعالیٰ نے کیا خوب فرمایا ( صفات متشابہات) میں تاؤیل سے پہلوتہی اختیار کرکے الفاظ کے ظاہری معنی کے درپے ہو جانے کا مطلب تو یہ ہوا کہ قرآن کریم کی آیات تضادبیانی کا شکار ہیں۔ (وقد جمع فی ھذہ الأیة بین ”استوی العرش“ وبین ”ھو معکم“ ، والأخذ بالظاھر من تناقض، فدل علی انہ لا بدمن التاویل، والإعراض عن التاویل اعتراف بالتناقض)․ (احکام القرآن اللقرطبی) کیوں کہ صفات متشابہات کے ظاہری معنی مراد لینے سے قرآن کی کئی آیات تضادوتناقض کا شکار ہوتی نظر آتی ہیں مثلاً:﴿ ثُمَّ اسْتَوَی عَلَی الْعَرْش﴾․ (اعراف:54) اور ﴿وَہُوَ الْقَاہِرُ فَوْقَ
عِبَادِہِ﴾․ (الأنعام:18) کا ظاہری معنی یہ ہوا کہ الله تعالیٰ حسی طور پر عرش پر بیٹھے ہیں او رجہت فوق میں ہیں ۔لیکن مندرجہ ذیل آیتوں کے ظاہری معنی سے معلوم ہوتا ہے کہ الله تعالیٰ کی ذات گرامی عرش پر نہیں، بلکہ اپنے بندوں کے ساتھ ہے۔ ﴿وَقَالَ اللّہُ إِنِّیْ مَعَکُمْ﴾․ (المائدہ:11)﴿وَہُوَ مَعَکُمْ أَیْْنَ مَا کُنتُمْ﴾․(الحدید:4) ﴿إِنَّنِیْ مَعَکُمَا أَسْمَعُ وَأَرَی﴾․(طہ:46) ﴿أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّہَ یَعْلَمُ مَا فِیْ السَّمَاوَاتِ وَمَا فِیْ الْأَرْضِ مَا یَکُونُ مِن نَّجْوَی ثَلَاثَةٍ إِلَّا ہُوَ رَابِعُہُمْ وَلَا خَمْسَةٍ إِلَّا ہُوَ
سَادِسُہُمْ وَلَا أَدْنَی مِن ذَلِکَ وَلَا أَکْثَرَ إِلَّا ہُوَ مَعَہُمْ أَیْْنَ مَا کَانُوا﴾․(المجادلہ:7)
اگر تاویل بدعت ہے تو پھر اس تعارض اورتناقض کا کیا حل؟
غیر مقلدین کا امام مالک رحمہ الله کے قول سے غلط استدلال
غیر مقلدین کا کہنا ہے کہ امام مالک رحمہ الله صفات متشابہات کو حقیقی معنوں پر محمول کرکے اس کی کیفیت مجہول قرار دیتے تھے ، چناں چہ ایک بار ان سے جب ”استویٰ“ کے متعلق دریافت کیا گیا تو انہوں نے واضح الفاظ میں فرمایا”الاستواء غیر مجہول“ یعنی لفظ ”استویٰ“ کی دلالت اپنے معنی ومراد (استقرار) پر واضح ہے۔ یعنی الله تعالیٰ عرش پر مستقِر ہیں البتہ اس استقرار کی کیفیت مجہول ہے۔ (الاستواء غیر مجہول، والکیف غیر معقول، والایمان بہ واجب، والسئوال عنہ بدعة“․ روح المعانی، الاعراف، تحت آیة رقم:54)
علامہ آلوسی رحمہ الله تعالیٰ نے اس فریب استدلال سے پردہ چاک کرتے ہوئے فرمایا کہ:
” الاستواء غیر مجہول“ کا مطلب یہ ہے الله تعالیٰ کی صفت استوا (قرآن وحدیث) میں مذکور ہے ۔ یہ مطلب نہیں کہ اس کا معنی ومراد ”استقرار“ معلوم ہے۔ ( لیس نصاً فی ھذ المذھب لاحتمال أن یکون المراد من قولہ : غیر مجہول، انہ ثابت معلوم الثبوت لا أن معناہ وھو الاستقرار غیر مجہول۔“ (روح المعانی، الاعراف، تحت آیة رقم:54)
نیز امام مالک رحمہ الله تعالیٰ کا استوا کے متعلق صحیح قول وہ ہے جو سند صحیح کے ساتھ علامہ ابن حجر رحمہ الله نے فتح الباری․ (واخرج البیہقی بسند جید عن عبدالله بن وھب، قال: کنا عند مالک، فدخل رجل فقال: یا أبا عبدالله ﴿الرحمن علی العرش استوی﴾ کیف استوی؟ فاطرق مالک فأخذتہ الرحضاء ثم رفع راسہ، فقال: الرحمن علی العرش استوی، کما وصف بہ نفسہ، ولایقال کیف وکیف عنہ مرفوع․فتح الباری لابن حجر، باب وکان عرشہ علی الماء:494/20) اور علامہ بیہقی رحمہ الله تعالیٰ نے کتاب الاسماء والصفات․(کتاب الاسماء والصفات للبیہقی، ص:408) میں نقل کیا ہے کہ ” الله تعالیٰ عرش پر ایسا
ہی مستوی ہے جیسے خود آیت کریمہ میں بیان فرمایا ہے ﴿الرحمن علی العرش استوی﴾ یعنی صرف صفت استوی کی نسبت باری تعالیٰ کے لیے ثابت کرکے اسے متشابہہ المعنی قرار دیا۔
لہٰذا امام مالک رحمہ الله کے ایک معروف او رمستند قول کو نظر انداز کرکے ایک غیر معروف اور مبہم قول سے اپنے مطلب کا مفہوم اخذ کرنا خود فریبی کے سوا کچھ نہیں۔
اہل سنت والجماعت کا عقیدہ ہے کہ ا لله تعالیٰ کی ذات مبارکہ جسم سے اور جسم کی تمام خصوصیات زمان ومکان اور حدود وجہت سے پاک اور منزہ ہے، لہٰذا ذات باری تعالیٰ کے حق میں کوئی لفظ بھی استعمال نہ کیا جائے جو جسم اور خاصہ جسم پر دلالت کرتا ہو، مثلاً لفظ ”أین“ عربی میں مکان کے لیے استعمال ہوتا ہے اور مکان جسم کا خاصہ ہے، لہٰذا ذات باری کے متعلق لفظ ”أین“ سے استفسار جائز نہیں ( مثلا این الله ؟ الله کہاں ہے؟)۔ چناں چہ علامہ ابن حجر رحمہ الله ایک مقام پر لکھتے ہیں۔
” الله تعالیٰ کی حکمتوں پر کیوں اور کیسے کا سوال اٹھانا ایسے ہی عبث ہے جیسے الله کے وجود پر کہاں اور کیسے کا سوال ۔“ (فلا یتوجہ علی حکمہ لم ولا کیف کما لا یتوجہ علیہ فی وجودہ أین وحیث) ․( فتح الباری لابن حجر:441/1)
لیکن غیر مقلدین اور نام نہاد سلفیوں کے نزدیک ”عرش“ باری تعالیٰ کا مکان اور فوق باری تعالیٰ کی جہت ہے ، دلیل مانگنے پر فوراً مسلم شریف کی حدیث پیش کر دیتے ہیں ، جس میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے ایک باندی سے پوچھا ”أین الله؟“ (الله کہاں ہے؟) جواب میں باندی نے کہا فی السماء (آسمان میں ہے)۔ ( قلت یا رسول الله أفلا أعتقہا قال: ائتنی بھا، فأتیتہ بھا، فقال لہا: این الله؟ قالت: فی السماء․( صحیح مسلم باب تحریم السلام فی الصلاة، رقم الحدیث:1227)
غیر مقلدین اس حدیث سے یوں استدلال کرتے ہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کا ”أین“ سے الله کی ذات کے متعلق سوال فرمانا مکان الہی کے ثبوت پر واضح دلیل ہے ، پھر باندی کے جواب فی السماء پر خاموش رہنا بلکہ اسے مومنہ قرار دے کر آزاد کر ادینا اس بات کی دلیل ہے کہ باندی کا جواب درست تھا کہ الله تعالیٰ فی السماء یعنی جہت فوق میں ہے ۔ مذکورہ حدیث کی چھان بین کرنے پر معلوم ہوا کہ غیر مقلدین نے جس حدیث کو بنیاد بنا کر اپنے عقیدے کی عمارت کھڑی کی ہے اس کو محدثین نے معلول اور شاذ قرار دیا ہے۔
1... چناں چہ امام بیہقی رحمہ الله تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ حدیث مضطرب ہے۔ ( کتاب الاسماء والصفات للبہیقی، ص:422)
2... حافظ ابن حجر رحمہ الله تعالیٰ اس کے اضطراب کی نشان دہی کرتے ہوئے فرماتے ہیں ”وفی اللفظ مخالفة کثیرة“ کہ متن حدیث کے لفظ میں بکثرت اختلاف پایا جاتا ہے۔ ( التلخیص الحبیر:443/3)
3... امام بزار رحمہ الله نے بھی اس حدیث کے اضطراب پر نشان دہی کرتے ہوئے یہی فرمایا کہ اس حدیث کو مختلف الفاظ کے ساتھ روایت کیا گیا ہے ۔ ( کشف الأستار:14/1)
4... علامہ زاہد الکوثری رحمہ الله تعالیٰ نے بھی اس حدیث پر اضطراب کا حکم لگایا ہے ۔ ( ھامش الأسما والصفات:344)
5... نیز حضور صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر کتنے لوگ مشرف بہ اسلام ہوئے، لیکن کسی سے بھی ”أین“ کا سوال منقول نہیں ہے، یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ اس سوال کا ایمان کی حقیقت سے کوئی تعلق نہیں، بلکہ فقط باندی کا امتحان لینا مقصود تھا کہ مشرک ہے یا موحدہ؟( شرح السیوطی علی مسلم:217/2، رقم الحدیث:537)
خلاصہ یہ کہ ایک معلول اور شاذ روایت سے عقیدے کا استنباط نہیں کیا جاسکتا اور ایسی شاذ روایت کو بنیاد بنا کرا شاعرہ کو گم راہ او ربدعتی کہنا تو سراسر جہالت ہے یا تعصب۔ بالفرض اگر اس روایت کو صحیح تسلیم کر لیا تو پھر ”أین“ کا سوال ذات باری تعالی کے مکان کے لیے نہیں، بلکہ منزلت اور مرتبہ کے لیے ہو گا، یعنی ہمارے الله کامرتبہ کیا ہے ؟ یا یہ کہ الله تعالیٰ کے احکام وأوامر کا مکان کون سا ہے؟ (کذا فی شر ح النووی علی مسلم،298/2، رقم الحدیث:836)
خلاصہ یہ کہ غیر مقلدین اور سلفی حضرات کا موقف افراط و تفریط کا شکار ہے، چناں چہ حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ الله ایک مقام پر لکھتے ہیں :
” آج کل بعض لوگ جن پر ظاہریت غالب ہے، جب متشابہات کی تفسیر کرتے ہیں تو درجہ اجمال میں تو مسلک سلف پر رہتے ہیں، مگر چار غلطیاں کرتے ہیں ۔
1... ایک یہ کہ تفسیر ظنی کی قطعیت کے مدعی ہو جاتے ہیں۔ ( چناں چہ مسلک تفویض کو باطل قرار دیتے ہیں۔)
2... دوسری غلطی یہ ہے کہ جب تفصیل کرتے ہیں تو عنوانات موہمہ تکییف وتجسیم اختیا رکرتے ہیں ۔ ( جسے کہ عرش کو الله تعالیٰ کا مکان اور ”فوق“ کو جہت قرار دینا اور ید وجہ سے اعضائے جوارح مراد لینا۔)
3... تیسری غلطی یہ کہ مسلک تأویل کو علی الاطلاق باطل کہہ کر ہزاروں اہل حق کی تضلیل کرتے ہیں، حالاں کہ اہل حق کے پاس ان کے مسلک کی صحت کے لیے احادیث بھی بنا ہیں اور قواعد شرعیہ بھی۔(گذشتہ صفحات میں ان کا ذکر کیا گیا ہے ۔)
4... چوتھی غلطی یہ کہ تفسیر بالاستقرار کو تو سلف کے مسلک پر سمجھتے ہیں اور دوسری تفاسیر لغویہ کو تاویل خلف سمجھتے ہیں ، حالاں کہ سب کا مساوی ہونا اوپر ظاہر ہو چکا ہے۔(امداد الفتاوی:111/6)
صفات متشابہات اور فرقہ مجسمہ کا موقف
فرقہ مجسمہ کے نزدیک الله تعالیٰ کی ذات مبارکہ جسمانیت سے متصف ہے۔
مجسمہ کی عقلی دلیل
فرقہ مجسمہ کی عقلی دلیل تو یہ ہے کہ جب بھی دو موجود فرض کیے جائیں تو وہ د وحال سے خالی نہیں ہوسکتے یا تو دونوں باہم متصل او رملے ہوئے ہوں گے، اس اتصال اور ملاپ کی بھی دو صورتیں ہیں، ایک یہ کہ دونوں کے حدود واطراف آ پس میں ملتے ہوں یا یہ کہ دونوں آپس میں تداخل اور حلول کیے ہوئے ہوں۔
یا دونوں ایک دوسرے سے منفصل اور جدا ہوں گے اور جہت میں ایک دوسرے کے مخالف سمت میں ہوں گے، اب ہمارے سامنے دو موجود ہیں، ایک عالم ،دوسرا ذات باری تعالیٰ ،ان دونوں میں مذکورہ بالا دو احتمال ہیں، پہلا احتمال اس لیے باطل ہے کہ الله تعالیٰ نہ عالم میں حلول کیے ہوئے ہیں، نہ عالم الله تعالیٰ میں حلول کیے ہوئے ہے، کیوں کہ حال او رمحل ہمیشہ ایک دوسرے کے محتاج ہوتے ہیں اور الله تعالیٰ کی ذات کسی چیز کا احتیاج نہیں رکھتی لہٰذا دوسری صورت ہی متعین ہے کہ الله تعالیٰ عالم سے منفصلاور جدا ہے او راس کی جہتِ مخالف میں ہے اور جو چیز جہت میں ہوتی ہے وہ متحیز ہوتی ہے او
رمتحیز جسم ہوتا ہے، لہٰذا الله تعالیٰ جسم ہے۔
مجسمہ کی عقلی دلیل کا جواب
ذات بار ی تعالیٰ جسم کے عیب سے پاک ہے، کیوں کہ جسم ایسی چیزوں کے مجموعے کا نام ہے جو حدوث اور فنا کا تقاضا کرتی ہیں مثلاً ہیئت، مقدار، اجتماع وافتراق۔
باقی آپ نے جو دلیل اور حکم بیان کیا ہے وہ ان دو موجودات کے متعلق ہے جو حسی ہوں ، الله تبارک وتعالی کا وجود غیر محسوس ہے ، اس پر محسوس والا حکم لگانا وہمی ہونے کی دلیل ہے، عقل ودانش کی دنیا میں اس کی کوئی اہمیت نہیں، اہل علم اسے قیاس الغائب علی الشاھد سے تعبیر کرتے ہیں۔(شرح العقائد النسفیة للتفتازانی، ص:46,45)
مجسمہ کی نقلی دلیل او راس کا جواب
مجسمہ نقلی دلائل میں قرآن وحدیث کی وہ نصوص پیش کرتے ہیں جن کے ظاہری الفاظ باری تعالیٰ کے لیے جسمیت او رجہت وغیرہ پر دلالت کرتے ہیں ۔ مثلاً: ﴿وَجَاء رَبُّکَ﴾․ (الفجر:22) ( اور آیا تیرا رب)۔ ﴿الرَّحْمَنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوَی﴾․(طہ:5)(وہ بڑا مہربان عرش پر قائم ہوا)۔ ﴿یَدُ اللَّہِ فَوْقَ أَیْْدِیْہِمْ﴾․(الفتح:10)( الله کا ہاتھ ہے اوپر ان کے ہاتھ کے)۔
جواب… واضح رہے کہ جب باری تعالیٰ کے جسم او رجہت وغیرہ سے پاک ہونے پر دلائل عقلیہ قائم ہوں تو پھر قاعدہ یہ ہے اگر کسی نص کے ظاہری الفاظ کسی ایسی چیز پر دلالت کریں جو خلاف عقل ہے تو اس نص کے ظاہری معنی مراد نہیں ہوں گے ، بلکہ ایسی نصوص متشابہات کہلاتی ہیں اورمتشابہات کے متعلق اہل سنت والجماعت کا موقف گزشتہ صفحات میں گزر چکا ہے۔