• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

فرض نماز کے وقت سنت پڑھنا

شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
762
پوائنٹ
290
بسم اللہ الرحمن الرحیم
نماز فجر کے بعد فجر کی دو سنت ادا کرنے کی ممانعت

صحيح البخاري كتاب مواقيت الصلاة بَاب الصَّلَاةِ بَعْدَ الْفَجْرِ حَتَّى تَرْتَفِعَ الشَّمْسُ
عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ شَهِدَ عِنْدِي رِجَالٌ مَرْضِيُّونَ وَأَرْضَاهُمْ عِنْدِي عُمَرُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ الصَّلَاةِ بَعْدَ الصُّبْحِ حَتَّى تَشْرُقَ الشَّمْسُ وَبَعْدَ الْعَصْرِ حَتَّى تَغْرُبَ (حدیث متفق علیہ، مرفوع اورمتواتر ہے)
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ قَالَ حَدَّثَنَا يَحْيَى عَنْ شُعْبَةَ عَنْ قَتَادَةَ سَمِعْتُ أَبَا الْعَالِيَةِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ حَدَّثَنِي نَاسٌ بِهَذَا۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم میں سے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ مجھے بہت محبوب تھے وہ فرماتے ہیں بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا صبح کی نماز کے بعد نماز پڑھنے سے یہاں تک کہ سورج بلند ہوجائے اور بعد نمازعصر کے یہاں تک کہ سورج غروب ہوجائےـ

صحيح البخاري كتاب مواقيت الصلاة بَاب الصَّلَاةِ بَعْدَ الْفَجْرِ حَتَّى تَرْتَفِعَ الشَّمْسُ
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ بَيْعَتَيْنِ وَعَنْ لِبْسَتَيْنِ وَعَنْ صَلَاتَيْنِ نَهَى عَنْ الصَّلَاةِ بَعْدَ الْفَجْرِ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ وَبَعْدَ الْعَصْرِ حَتَّى تَغْرُبَ الشَّمْسُ وَعَنْ اشْتِمَالِ الصَّمَّاءِ وَعَنْ الِاحْتِبَاءِ فِي ثَوْبٍ وَاحِدٍ يُفْضِي بِفَرْجِهِ إِلَى السَّمَاءِ وَعَنْ الْمُنَابَذَةِ وَالْمُلَامَسَةِ (حدیث متواتر حدیث مرفوع)
، ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو قسم کی بیع اور دو قسم کے لباس اور دو نمازوں سے منع فرمایا: فجر کے بعد نماز پڑھنے سے جب تک کہ آفتاب اچھی طرح نہ نکل آئے اور عصر کے بعد نماز سے جب تک کہ اچھی طرح آفتاب غروب نہ ہو جائے اور ایک کپڑے میں اشتمال صما اور احتباء سے جو کہ پورے طور پر شرمگاہ کیلئے پردہ نہیں ہو سکتے اور بیع منابذہ اور ملابسہ سے۔

صحيح البخاري كتاب مواقيت الصلاة بَاب لَا تُتَحَرَّى الصَّلَاةُ قَبْلَ غُرُوبِ الشَّمْسِ
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ صَالِحٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ قَالَ أَخْبَرَنِي عَطَاءُ بْنُ يَزِيدَ الْجُنْدَعِيُّ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ يَقُولُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لَا صَلَاةَ بَعْدَ الصُّبْحِ حَتَّى تَرْتَفِعَ الشَّمْسُ وَلَا صَلَاةَ بَعْدَ الْعَصْرِ حَتَّى تَغِيبَ الشَّمْسُ ٭
ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کوئی نماز نہیں صبح کی نماز کے بعد یہاں تک کہ سورج بلند ہوجائے اور نہ نماز عصر کے بعد یہاں تک کہ سورج غروب ہوجائےـ

صحيح البخاري كِتَاب الْجُمُعَةِ بَاب مَسْجِدِ بَيْتِ
حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ سَمِعْتُ قَزَعَةَ مَوْلَى زِيَادٍ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يُحَدِّثُ بِأَرْبَعٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَعْجَبْنَنِي وَآنَقْنَنِي قَالَ لَا تُسَافِرْ الْمَرْأَةُ يَوْمَيْنِ إِلَّا مَعَهَا زَوْجُهَا أَوْ ذُو مَحْرَمٍ وَلَا صَوْمَ فِي يَوْمَيْنِ الْفِطْرِ وَالْأَضْحَى وَلَا صَلَاةَ بَعْدَ صَلَاتَيْنِ بَعْدَ الصُّبْحِ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ وَبَعْدَ الْعَصْرِ حَتَّى تَغْرُبَ وَلَا تُشَدُّ الرِّحَالُ إِلَّا إِلَى ثَلَاثَةِ مَسَاجِدَ مَسْجِدِ الْحَرَامِ وَمَسْجِدِ الْأَقْصَى وَمَسْجِدِي٭
ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے ــــــــــــــــــــــــــ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمايا ـــــــــــــــــــــــــ کہ کوئی نماز نہیں (ان) دو نمازوں کے بعد صبح کی نماز کے بعد یہاں تک کہ سورج بلند ہوجائے اور عصر کی نماز کے بعد یہاں تک کہ سورج غروب ہوجائےـ

سنن ابن ماجه كِتَاب إِقَامَةِ الصَّلَاةِ وَالسُّنَّةِ فِيهَا بَاب مَا جَاءَ فِيمَنْ فَاتَتْهُ الرَّكْعَتَانِ قَبْلَ صَلَاةِ الْفَجْرِ مَتَى يَقْضِيهِمَا
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ إِبْرَاهِيمَ وَيَعْقُوبُ بْنُ حُمَيْدِ بْنِ كَاسِبٍ قَالَا حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِيَةَ عَنْ يَزِيدَ بْنِ كَيْسَانَ عَنْ أَبِي حَازِمٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ
أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَامَ عَنْ رَكْعَتَيْ الْفَجْرِ فَقَضَاهُمَا بَعْدَ مَا طَلَعَتْ الشَّمْسُ

ایک بار نیند کی وجہ سے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فجر کی سنتیں رہ گئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سورج بلند ہوجانےکے بعد قضاء فرمائیں ۔

سنن الترمذي - (ج 2 / ص 208)
حَدَّثَنَا عُقْبَةُ بْنُ مُكْرَمٍ الْعَمِّيُّ الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَاصِمٍ حَدَّثَنَا هَمَّامٌ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ النَّضْرِ بْنِ أَنَسٍ عَنْ بَشِيرِ بْنِ نَهِيكٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ لَمْ يُصَلِّ رَكْعَتَيْ الْفَجْرِ فَلْيُصَلِّهِمَا بَعْدَ مَا تَطْلُعُ الشَّمْسُ
ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ جس کسی نے فجر کی سنت نہ پڑھیں ہوں تو وہ انہیں طلوع آفتاب کے بعد پڑھے۔
سنن أبي داود كتاب الصلاة بَاب فِيمَنْ يَقْرَأُ السَّجْدَةَ بَعْدَ الصُّبْحِ
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الصَّبَّاحِ الْعَطَّارُ حَدَّثَنَا أَبُو بَحْرٍ حَدَّثَنَا ثَابِتُ بْنُ عُمَارَةَ حَدَّثَنَا أَبُو تَمِيمَةَ الْهُجَيْمِيُّ قَالَ
لَمَّا بَعَثْنَا الرَّكْبَ قَالَ أَبُو دَاوُد يَعْنِي إِلَى الْمَدِينَةِ قَالَ كُنْتُ أَقُصُّ بَعْدَ صَلَاةِ الصُّبْحِ فَأَسْجُدُ فَنَهَانِي ابْنُ عُمَرَ فَلَمْ أَنْتَهِ ثَلَاثَ مِرَارٍ ثُمَّ عَادَ فَقَالَ إِنِّي صَلَّيْتُ خَلْفَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَعَ أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ وَعُثْمَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ فَلَمْ يَسْجُدُوا حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ

ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پیچھے نمازیں پڑھی ہیں وہ (نماز فجر کے بعد) سورج نکلنے تک نماز نہیں پڑھا کرتے تھے۔
اللہ کی برکتیں ہوں آپ پر

میرا مخاطب محترم اشماریہ بهائی ہیں اور ان شاء اللہ آپ ان کے دلائل کا انتظار کریں میری طرح اور فرق پر نظر رکہیں انکے دلائل پر ، سوال کی مطابقت سے دلائل دئیے جاتے ہیں ۔

اسکا ہرگز یہ مطلب نا لیں کہ آپ نے دخل اندازی کی یا مجہے ناگوار گذرا ، اللہ آپ کو صحت و توانائی دے کہ مجہے بالعکس خوشی ہوئی ۔ میں آپ سے یہی چاہتا ہوں کہ آپ آپکی معلومات سے بهرہ ور کریں ، آپ کا علم ہمیں بهی بانٹیں ۔
جزاک اللہ خیرا
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
میرا مخاطب محترم اشماریہ بهائی ہیں اور ان شاء اللہ آپ ان کے دلائل کا انتظار کریں میری طرح اور فرق پر نظر رکہیں انکے دلائل پر ، سوال کی مطابقت سے دلائل دئیے جاتے ہیں ۔
محترم! دخل اندازی کی معذرت۔ دراصل اس پر میں نے پہلے سے مواد اکٹھا کر رکھا تھا اس لئے مناسب سمجھا کہ لکھ دوں۔ اس میں محترم اشماریہ کا وقت بچ گیا ۔ ہاں اگر کوئی اشکال اس میں ہے تو مطلع فرمائیں۔ شکریہ
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
762
پوائنٹ
290
محترم! دخل اندازی کی معذرت۔ دراصل اس پر میں نے پہلے سے مواد اکٹھا کر رکھا تھا اس لئے مناسب سمجھا کہ لکھ دوں۔ اس میں محترم اشماریہ کا وقت بچ گیا ۔ ہاں اگر کوئی اشکال اس میں ہے تو مطلع فرمائیں۔ شکریہ
جی نہیں ، مجہے آپ سے اتفاق نہیں ۔ آپ محترم اشماریہ کہ جواب کا انتظار کریں اور نتیجہ قائم کرنے میں جلد بازی نا کریں ۔
نوازش
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
"ﺗﻮ ﺍﯾﺴﮯ ﻣﯿﮟ ﺁﭖ ﺟﻮ ﻃﺮﺯ ﻣﻨﺎﺳﺐ ﺳﻤﺠﮭﯿﮟ ﻭﮦ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﮐﺮ ﻟﯿﮟ-"

ازراہ کرم ہمیشہ کے لئے کیوں وہ بهی سمجہا دیں تاکہ کوئی خلش نا رہے۔
ہمیشہ کے لیے اس لیے کہ یہ پھر آپ کا بوقت تعارض مسئلہ اخذ کرنے کا اصول ہوگا جس طرح فقہاء کے اصول ہوتے ہیں۔ اگر ایک تعارض کو دور کرنے کے لیے آپ ایک طرز اختیار کرتے ہیں (مثال کے طور پر قیاس سے جس کی تائید ہو رہی ہو وہ قول لیتے ہیں اور قاعدہ کلیہ کو چھوڑ دیتے ہیں) اور دوسرے تعارض کے لیے الگ طرز اختیار کرتے ہیں (مثال کے طور پر قاعدہ کلیہ کی روشنی میں دیکھتے ہیں اور قیاس کی تائید والے اصول کو چھوڑ دیتے ہیں) تو آپ کے اجتہاد میں خود تعارض ہو جائے گا۔
جناب اشماریہ بهائی

ایک سوال سمجہنے کی غرض سے میرا ہے اور مجہے واقعی سمجہنا ہے ۔
کیا فجر کی سنت دو رکعتیں (فرض نماز کی اقامت ہوجانے کے بعد) فرض نماز کے بعد ادا نہیں کی جا سکتی ہیں ۔
فجر کی دو سنتیں فجر کے بعد ادا کی جائیں، اس بارے میں یہ احادیث پہلے صفحے پر نقل کی گئی ہیں:
رأى النَّبيُّ صلَّى الله عليْهِ وسلَّمَ رجلاً يصلِّي بعدَ صلاةِ الصُّبحِ رَكعتينِ فقالَ النَّبيُّ صلَّى الله عليْهِ وسلَّمَ أصلاةَ الصُّبحِ مرَّتينِ فقالَ لَهُ الرَّجلُ إنِّي لم أَكن صلَّيتُ الرَّكعتينِ اللَّتينِ قبلَها فصلَّيتُهما , قالَ فسَكتَ النَّبيُّ صلَّى الله عليْهِ وسلَّم(صحيح ابن ماجه: 954)
ترجمہ :نبی ﷺ نے ایک آدمی کو فجر کی نماز کے بعد دو رکعت پڑھتے ہوئے دیکھا تو آپ ﷺ نے فرمایا: کیا فجرکی نماز دو مرتبہ ہے ؟ تو اس آدمی نے کہا کہ فجرکی نماز سے پہلی والی دو رکعت سنت نہیں پڑھ سکا تھا جسے ادا کیا ہوں۔تو آپ ﷺ خاموش ہوگئے ۔
مَن لم يصلِّ رَكْعتيِ الفجرِ فليُصلِّهما بعدَ ما تطلعُ الشَّمسُ(صحيح الترمذي: 423)

ترجمہ : نبی ﷺ کا فرمان ہے کہ جس نے فجر کی دو سنت نہ پڑھی ہو وہ سورج طلوع ہونے کے بعد پڑھ لے ۔


اس کے مقابلے میں وہ احادیث ہیں جن میں فجر کی نماز کے بعد طلوع شمس تک نماز سے منع کر دیا گیا ہے جیسا کہ بخاری کی ان روایات میں ہے جن کا حوالہ عبد الرحمان بھٹی بھائی نے دیا ہے۔

بخاری کی روایت تو صحیح ہونا ظاہر ہے۔
روایت اول کی استنادی حیثیت دیکھتے ہیں:
ابن ماجہ کی اس روایت کو البانیؒ نے صحیح کہا ہے۔
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة قال: حدثنا عبد الله بن نمير قال: حدثنا سعد بن سعيد قال: حدثني محمد بن إبراهيم، عن قيس بن عمرو، قال: رأى النبي صلى الله عليه وسلم رجلا يصلي بعد صلاة الصبح ركعتين، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: «أصلاة الصبح مرتين؟» فقال له الرجل: إني لم أكن صليت الركعتين اللتين قبلها، فصليتهما. قال: فسكت النبي صلى الله عليه وسلم
اس روایت کو اسی سند کے ساتھ دیگر محدثین نے بھی نقل کیا ہے۔ اس میں راوی ہیں سعد بن سعید۔ انہیں امام احمدؒ نے ضعیف فرمایا ہے۔ یحیی بن معین کی ایک روایت میں ضعیف اور ایک روایت میں صالح مذکور ہیں۔ نسائی نے لیس بالقوی کہا ہے اور ابن حبان نے ثقات میں ذکر کر کے ساتھ کہا ہے کہ یہ غلطی کرتے تھے۔ ابن عدی اور محمد بن سعد نے ان کی تعدیل کی ہے۔ (تہذیب الکمال للمزی)
اس روایت میں ان کے استاد محمد بن ابراہیم ہیں۔ وہ روایت کر رہے ہیں صحابی رسول حضرت قیس بن عمرو رض سے۔ لیکن امام ترمذیؒ فرماتے ہیں:
وإسناد هذا الحديث ليس بمتصل محمد بن إبراهيم التيمي لم يسمع من قيس
"اس حدیث کی سند متصل نہیں ہے۔ محمد بن ابراہیم التیمی نے قیس سے سماع نہیں کیا۔"
(ترمذی،2۔284، ط: مصطفی البابی)
درمیان میں کون غائب ہے اس کا نہیں پتا۔ میں نہیں جانتا کہ البانیؒ نے اس کی تصحیح کیوں کی ہے۔
دوسری روایت تو طلوع شمس کے بعد کی ہے اور طلوع کے بعد تو سب پڑھنے کی اجازت دیتے ہیں۔

اب آئیے اصل جواب کی جانب۔
ہم ان دونوں روایات میں اگر تطبیق کرتے ہیں تو بخاری کی روایت میں نماز فجر کے بعد نماز پڑھنے سے منع کیا گیا ہے اور اس (روایت اولی) میں اس شخص کے نماز پڑھنے کا ذکر ہے۔ لیکن یہ تفصیل نہیں ہے کہ یہ طلوع کے بعد پڑھ رہا تھا یا طلوع سے پہلے۔ تو تطبیق کے لیے ہم اس پر محمول کرتے ہیں کہ وہ شخص طلوع شمس کے فورا بعد پڑھ رہا تھا۔
اور اگر ترجیح دیں تو اول بخاری کی روایت صحت کے اعتبار سے اس سے راجح ہے۔ اور دوم بخاری کی روایت میں صراحت ہے نہی کی اور اس میں سکوت ہے اور صراحت سکوت سے راجح ہوتی ہے۔
اس لیے فجر کی سنتیں فرض نماز کے بعد ادا نہیں کی جا سکتیں۔

باقی دوسری روایت میں جو سورج کے طلوع کے بعد پڑھنے کا ذکر ہے تو وہ اس صورت میں ہے جب واقعی رہ گئی ہوں (چاہے نماز فجر کی وجہ سے چھوڑی ہوں، چاہے ایک رکعت ضائع ہونے کے خوف سے چھوڑی ہوں، چاہے تشہد بھی نہ ملنے کے خوف سے یا چاہے سستی کی وجہ سے چھوڑ دی ہوں)۔ اس صورت میں اس وقت نفل یا سنتیں پڑھنے سے کوئی منع نہیں کرتا۔
و اللہ اعلم
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
یہ کہ جن صحابہ کرام رض کا عمل سنتیں ادا کرنے کا تھا وہ نبی کریم ﷺ کی نہی کو کسی خاص موقع پر محمول فرماتے تھے۔ مثال کے طور پر صفوں کے بیچ میں کھڑے ہو کر سنتیں ادا کرنا جب کہ نماز بھی ہو رہی ہو وغیرہ۔
اسی محمل پر امام طحاویؒ نے بھی محمول کیا ہے۔
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
تو تطبیق کے لیے ہم اس پر محمول کرتے ہیں کہ وہ شخص طلوع شمس کے فورا بعد پڑھ رہا تھا۔
محترم! میرے خیال میں یہ بعید از قیاس ہے کہ حدیث مبارکہ کا جملہ ”أصلاة الصبح مرتين؟“ نمازِ فجر سے متصلاً پڑھنے کا عندیہ دیتا ہے۔
میرے خیال میں یہ ہے کہ اس صحابی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نمازِ فجر کے بعد نماز پڑھنے سے ممانعت کی خبر نہ تھی یا اس کا استحضار اس وقت نہ رہا تھا۔ سچنے کی بات ہے کہ کیا اس ڈانٹ کے بعد اس صحابی سے اس کا صدور ہؤا ہوگا؟کسی اور صحابی سے اس کا صدور ثابت نہیں اگر ہے تو مطلع فرما کر مشکور ہوں۔
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
اس روایت کو اسی سند کے ساتھ دیگر محدثین نے بھی نقل کیا ہے۔ اس میں راوی ہیں سعد بن سعید۔ انہیں امام احمدؒ نے ضعیف فرمایا ہے۔ یحیی بن معین کی ایک روایت میں ضعیف اور ایک روایت میں صالح مذکور ہیں۔ نسائی نے لیس بالقوی کہا ہے اور ابن حبان نے ثقات میں ذکر کر کے ساتھ کہا ہے کہ یہ غلطی کرتے تھے۔ ابن عدی اور محمد بن سعد نے ان کی تعدیل کی ہے۔
سعد بن سعيد: بن قيس بن عمرو الأنصاري وهو أخويحيى بن سعيد الأنصاري ، قال الحافظ : صدوق سيئ الحفظ ، وقال الخزرجي في الخلاصة ضعفه أحمد وابن معين ، وقال مرة : صالح ، وقال النسائي : ليس بالقوي وقال ابن عدي : لا أرى بحديثه بأسا ، وقال ابن سعد : ثقة. (تحفة الاحوذي)
لیکن امام ترمذیؒ فرماتے ہیں:
وإسناد هذا الحديث ليس بمتصل محمد بن إبراهيم التيمي لم يسمع من قيس
تفصیل سے پڑھیں شیخ

 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
اس (روایت اولی) میں اس شخص کے نماز پڑھنے کا ذکر ہے۔ لیکن یہ تفصیل نہیں ہے کہ یہ طلوع کے بعد پڑھ رہا تھا یا طلوع سے پہلے
رأى النَّبيُّ صلَّى الله عليْهِ وسلَّمَ رجلاً يصلِّي بعدَ صلاةِ الصُّبحِ رَكعتينِ فقالَ النَّبيُّ صلَّى الله عليْهِ وسلَّمَ أصلاةَ الصُّبحِ مرَّتينِ فقالَ لَهُ الرَّجلُ إنِّي لم أَكن صلَّيتُ الرَّكعتينِ اللَّتينِ قبلَها فصلَّيتُهما , قالَ فسَكتَ النَّبيُّ صلَّى الله عليْهِ وسلَّم(صحيح ابن ماجه: 954)
ترجمہ :نبی ﷺ نے ایک آدمی کو فجر کی نماز کے بعد دو رکعت پڑھتے ہوئے دیکھا تو آپ ﷺ نے فرمایا: کیا فجرکی نماز دو مرتبہ ہے ؟ تو اس آدمی نے کہا کہ فجرکی نماز سے پہلی والی دو رکعت سنت نہیں پڑھ سکا تھا جسے ادا کیا ہوں۔تو آپ ﷺ خاموش ہوگئے.

مزید ابن خزیمہ میں ھے:
( 471 ) باب الرخصة في أن يصلي ركعتي الفجر بعد صلاة الصبح وقبل طلوع الشمس إذا فاتتا قبل صلاة الصبح " .

1116 ثنا الربيع بن سليمان المرادي ، ونصر بن مرزوقبخبر غريب غريب قالا : ثنا أسد بن موسى ، ثنا الليث بن سعد ، حدثني يحيى بن سعيد ، عن أبيه ، عن جده قيس بن عمرو ، أنه صلى مع رسول الله صلى الله عليه وسلم الصبح ، ولم يكن ركع ركعتي الفجر ، فلما سلم رسول الله صلى الله عليه وسلم ، قام فركع ركعتي الفجر ، ورسول الله صلى الله عليه وسلم ينظر إليه ، فلم ينكر ذلك عليه " . (لنک)
 
Last edited:

محمد بن محمد

مشہور رکن
شمولیت
مئی 20، 2011
پیغامات
110
ری ایکشن اسکور
224
پوائنٹ
114
سیدھی بات کو گھما پھرا کر پیچ در پیچ جلیبی کی طرح سیدھا کیوں کیا جا رہا ہے حقیقت یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فجر اور عصر کے بعد نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے اور یہ بالکل صحیح ہے لیکن اس سے مراد نفل نماز ہے جیسا کہ باقی نمازوں کے بعد نوافل پڑھنے کی اجازت ہے اور پڑھے جاتے ہیں لیکن کوئی سبب ہو تو اس سبب کی وجہ سے اس وقت نماز پڑھنا درست اور صحیح ہے جیسا کہ کسی نے عصر کی نماز تو باجماعت پڑھ لی لیکن اس کی ظہر کی نماز کی قضا اس کے ذمہ تھی تو اب وہ عصر کے بعد اس کی قضا کرسکتا ہے اسی طرح فجر کی جماعت کے وقت پہنچا رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کی بنا پر جماعت چھوڑ کر سنت نہیں پڑھ سکتا تو ان سنتوں کی قضا فرائض کی ادائگی کے بعد بھی کرسکتا ہے کیونکہ یہ عام نفل نہیں ہیں۔ اور اگر اجازت نہ بھی دی جائے تو طلوع شمس کے بعد قضا کرنے کا موقع ہے تو پھر کیوں حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت پر کمر کس رکھی ہے؟
آج تو عرب علماء اس سے بھی بڑھ کر اجازت دیتے ہیں کہ عصر کے بعد مسجد میں آنے والا تحیۃ المسجد بھی پڑھ سکتا ہے اور وہ پڑھ رہے ہیں۔
 
Top