• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

فرض نماز کے وقت سنت پڑھنا

شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
760
پوائنٹ
290
میں اہل علم سے درخواست کرتا ہوں کے میری راہ نمائی کریں ۔
لیکن اس میں صرف اہل علم گفتگو فرمائیں اور قاری موضوع مکمل ہونے تک مداخلت نا کریں ۔
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
اس تھریڈ کا اصل موضوع فجر کی جماعت کے ہوتے فجر سنت پڑھنے کی بابت ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین کے وہی معانی صحیح کہلائیں گے جو صحابہ کے طرزِ عمل کے مخالف نہ ہوں۔ احادیث کے مجموعہ سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ کوئی صف میں شامل کی مشابہت سے سنت فجر نہ پڑھے بلکہ علیحدہ جگہ پڑھے۔ صحابہ کرام کے عمل سے یہی بات سامنے آتی ہے۔ واللہ اعلم بالصواب
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
لیکن کوئی سبب ہو تو اس سبب کی وجہ سے اس وقت نماز پڑھنا درست اور صحیح ہے جیسا کہ کسی نے عصر کی نماز تو باجماعت پڑھ لی لیکن اس کی ظہر کی نماز کی قضا اس کے ذمہ تھی تو اب وہ عصر کے بعد اس کی قضا کرسکتا ہے
قضا نمازوں کی ادائیگی بھی اس انداز سے کی جانی چاہیئے کہ کسی کو یہ اندازہ نہ ہو کہ یہ قضا نماز پڑھ رہا ہے۔
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,132
پوائنٹ
412
بہت دیر سے میں سوچ رھا تھا کہ دخل دوں کہ نہیں. میں اہل علم حضرات میں سے تو نہیں ھوں لیکن آپ کی باتوں نے مجھے دخل دینے پر مجبور کر دیا.
اس تھریڈ کا اصل موضوع فجر کی جماعت کے ہوتے فجر سنت پڑھنے کی بابت ہے۔

اس میں کوئ شک نہیں.
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین کے وہی معانی صحیح کہلائیں گے جو صحابہ کے طرزِ عمل کے مخالف نہ ہوں۔
محترم ایسا فہم کہاں سے حاصل کیا؟؟؟
گویا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین کی صحت صحابہ کے فہم کی محتاج ھے؟؟؟
اور معاف کیجۓ گا آپکے لب مبارک سے یہ بات اچھی نہیں معلوم ھوتی. ابھی رفع الیدین والے تھریڈ میں آپ نے ٣۰ صحابہ کے عمل کو چھوڑتے ھوۓ ایک سنت کو منسوخ قرار دیا؟؟؟؟
جناب ایسے عجیب وغریب فہم کہاں سے حاصل کرتے ھیں؟؟؟
احادیث کے مجموعہ سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ کوئی صف میں شامل کی مشابہت سے سنت فجر نہ پڑھے بلکہ علیحدہ جگہ پڑھے۔
ان مجموعہ احادیث میں سے کچھ کو ھمارے سامنے بھی ذکر کر دیں تاکہ ھم بھی مستفید ھوں.
صحابہ کرام کے عمل سے یہی بات سامنے آتی ہے۔
جناب عالی!
جن صحابہ کا عمل حدیث کے موافق ھے اس کے بارے میں کیا خیال ھے؟؟؟
 

محمد بن محمد

مشہور رکن
شمولیت
مئی 20، 2011
پیغامات
110
ری ایکشن اسکور
224
پوائنٹ
114
تو طلوع آفتاب کے بعد پڑھنے سے کون منع کرتا ہے قباحت تو یہ ہے کہ ادھر فجر کی جماعت ہو رہی ہواور ادھر اسی صف میں یا اس سے پچھلی صف میں کھڑے ہو کر پڑھنے میں ہے کہ ایک طرف تو کہا جاتا ہے کہ امام کی قرات سننا فرض ہے اور اگر کسی نے امام کے پیچھے فاتحہ پڑھ لی تو اس کے منہ میں آگ اور دوسری طرف امام جہری قرات بھی کر رہا ہوتا ہے اور پیچھے فاتحہ بھی پڑھی جا رہی ہے اور رکوع و سجود بھی اور قیام و تشہد بھی۔
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
760
پوائنٹ
290
چاہیں تو اسی تہریڈ میں باتیں ہوں اور کسی نئے عنوان سے ہوں نئے تہریڈ میں ، جیسی مرضی لیکن صرف اہل علم سے درخواست ہیکہ وہ مندرجہ ذیل پر راہ نمائی فرمائیں ۔


محترم عمر بھائی۔ یہ تو ممکن نہیں کہ صحابہ کرام نبی کریم ﷺ کے قول کے خلاف اجتہاد کر لیں۔ ہوتا یہ ہے کہ قول نبی ﷺ کا محمل ان صحابہ کے یہاں کچھ اور ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر نہی کو نہی تنزیہی پر محمول کرتے ہیں۔ (یہ جو اصول ہے کہ نہی میں اصل تحریم ہے یہ ان کے لیے ہے جو قول کے شاہد نہیں ہیں۔ لیکن جن کے سامنے سارا معاملہ ہوتا ہے ان کے لیے اصل وہ ہوتا ہے جو وہ سمجھتے ہیں جبکہ وہ ہوں بھی عرب العرباء میں سے۔)
اب بعد میں آنے والے بھی اجتہاد کریں گے۔ اگر ان کا اجتہاد ان صحابہ کے موافق ہوا جو اس قول میں نہی کو تحریم کے لیے سمجھتے ہیں تو وہ بھی تحریم پر محمول کریں گے۔ اور اگر ان کے موافق ہوا جو تنزیہ پر محمول کرتے ہیں تو وہ بھی تنزیہ پر محمول کریں گے۔ یہ ایک مثال ہے فقط۔

ایسے مقامات پر فقہاء کرام کا طرز مختلف رہا ہے۔ احناف کا عام طرز یہ ہے کہ وہ تمام نصوص سے ایک قاعدہ کلیہ اخذ کرتے ہیں اور پھر اس قاعدہ سے ہٹی ہوئی تمام نصوص کی اس کے ساتھ تطبیق کرتے جاتے ہیں۔ فقہ حنفی میں فقہ ابن مسعود رض و فقہ علی رض کا طرز واضح طور پر غالب نظر آتا ہے۔
امام مالکؒ کا تو مشہور طرز ہے کہ وہ اہل مدینہ کے عمل کو دیکھتے ہیں اور اسی کے مطابق تطبیق کرتے ہیں۔
امام شافعیؒ نے کتاب الام میں عینہ کی بحث کے دوران صراحت سے کہا ہے کہ ہم اس قول کو لیں گے جس کی تائید قیاس کرے۔ چنانچہ وہ متعارض آثار میں اپنے قیاس یا اجتہاد کے مطابق اثر کو لیتے ہیں۔
یہی طرز امام طحاویؒ کا ہے کہ وہ احادیث کے ذکر کے بعد نظر ذکر کرتے ہیں جو کہ قیاس ہوتی ہے اور اسی کے ذریعے ایک جانب کو ترجیح دیتے ہیں۔
تو ایسے میں آپ جو طرز مناسب سمجھیں وہ ہمیشہ کے لیے اختیار کر لیں۔


یہ کہ جن صحابہ کرام رض کا عمل سنتیں ادا کرنے کا تھا وہ نبی کریم ﷺ کی نہی کو کسی خاص موقع پر محمول فرماتے تھے۔ مثال کے طور پر صفوں کے بیچ میں کھڑے ہو کر سنتیں ادا کرنا جب کہ نماز بھی ہو رہی ہو وغیرہ۔

میں نے اس پر گہرائی سے تحقیق نہیں کی۔ ویسے سرسری دیکھنے پر میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ امام مالکؒ کا مسلک سب سے بہترین اور جامع ہے کہ اگر پہلی رکعت میں مل جانے کا ظن غالب ہو تو سنتیں پڑھ لی جائیں اور اگر پہلی رکعت نکلنے کا خوف ہو تو نہ پڑھی جائیں۔ اس میں جو صحابہ سنتیں ادا کرتے تھے ان کے فعل کی بھی رعایت ہو جاتی ہے اور جو نہیں کرتے تھے ان کے فعل کی بھی۔ اس کی تحقیق کر لی جائے۔
واللہ اعلم
جناب اشماریہ بهائی

ایک سوال سمجہنے کی غرض سے میرا ہے اور مجہے واقعی سمجہنا ہے ۔
کیا فجر کی سنت دو رکعتیں (فرض نماز کی اقامت ہوجانے کے بعد) فرض نماز کے بعد ادا نہیں کی جا سکتی ہیں ۔
"ﺗﻮ ﺍﯾﺴﮯ ﻣﯿﮟ ﺁﭖ ﺟﻮ ﻃﺮﺯ ﻣﻨﺎﺳﺐ ﺳﻤﺠﮭﯿﮟ ﻭﮦ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﮐﺮ ﻟﯿﮟ-"

ازراہ کرم ہمیشہ کے لئے کیوں وہ بهی سمجہا دیں تاکہ کوئی خلش نا رہے۔
ہمیشہ کے لیے اس لیے کہ یہ پھر آپ کا بوقت تعارض مسئلہ اخذ کرنے کا اصول ہوگا جس طرح فقہاء کے اصول ہوتے ہیں۔ اگر ایک تعارض کو دور کرنے کے لیے آپ ایک طرز اختیار کرتے ہیں (مثال کے طور پر قیاس سے جس کی تائید ہو رہی ہو وہ قول لیتے ہیں اور قاعدہ کلیہ کو چھوڑ دیتے ہیں) اور دوسرے تعارض کے لیے الگ طرز اختیار کرتے ہیں (مثال کے طور پر قاعدہ کلیہ کی روشنی میں دیکھتے ہیں اور قیاس کی تائید والے اصول کو چھوڑ دیتے ہیں) تو آپ کے اجتہاد میں خود تعارض ہو جائے گا۔

فجر کی دو سنتیں فجر کے بعد ادا کی جائیں، اس بارے میں یہ احادیث پہلے صفحے پر نقل کی گئی ہیں:
رأى النَّبيُّ صلَّى الله عليْهِ وسلَّمَ رجلاً يصلِّي بعدَ صلاةِ الصُّبحِ رَكعتينِ فقالَ النَّبيُّ صلَّى الله عليْهِ وسلَّمَ أصلاةَ الصُّبحِ مرَّتينِ فقالَ لَهُ الرَّجلُ إنِّي لم أَكن صلَّيتُ الرَّكعتينِ اللَّتينِ قبلَها فصلَّيتُهما , قالَ فسَكتَ النَّبيُّ صلَّى الله عليْهِ وسلَّم(صحيح ابن ماجه: 954)
ترجمہ :نبی ﷺ نے ایک آدمی کو فجر کی نماز کے بعد دو رکعت پڑھتے ہوئے دیکھا تو آپ ﷺ نے فرمایا: کیا فجرکی نماز دو مرتبہ ہے ؟ تو اس آدمی نے کہا کہ فجرکی نماز سے پہلی والی دو رکعت سنت نہیں پڑھ سکا تھا جسے ادا کیا ہوں۔تو آپ ﷺ خاموش ہوگئے ۔
مَن لم يصلِّ رَكْعتيِ الفجرِ فليُصلِّهما بعدَ ما تطلعُ الشَّمسُ(صحيح الترمذي: 423)

ترجمہ : نبی ﷺ کا فرمان ہے کہ جس نے فجر کی دو سنت نہ پڑھی ہو وہ سورج طلوع ہونے کے بعد پڑھ لے ۔


اس کے مقابلے میں وہ احادیث ہیں جن میں فجر کی نماز کے بعد طلوع شمس تک نماز سے منع کر دیا گیا ہے جیسا کہ بخاری کی ان روایات میں ہے جن کا حوالہ عبد الرحمان بھٹی بھائی نے دیا ہے۔

بخاری کی روایت تو صحیح ہونا ظاہر ہے۔
روایت اول کی استنادی حیثیت دیکھتے ہیں:
ابن ماجہ کی اس روایت کو البانیؒ نے صحیح کہا ہے۔
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة قال: حدثنا عبد الله بن نمير قال: حدثنا سعد بن سعيد قال: حدثني محمد بن إبراهيم، عن قيس بن عمرو، قال: رأى النبي صلى الله عليه وسلم رجلا يصلي بعد صلاة الصبح ركعتين، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: «أصلاة الصبح مرتين؟» فقال له الرجل: إني لم أكن صليت الركعتين اللتين قبلها، فصليتهما. قال: فسكت النبي صلى الله عليه وسلم
اس روایت کو اسی سند کے ساتھ دیگر محدثین نے بھی نقل کیا ہے۔ اس میں راوی ہیں سعد بن سعید۔ انہیں امام احمدؒ نے ضعیف فرمایا ہے۔ یحیی بن معین کی ایک روایت میں ضعیف اور ایک روایت میں صالح مذکور ہیں۔ نسائی نے لیس بالقوی کہا ہے اور ابن حبان نے ثقات میں ذکر کر کے ساتھ کہا ہے کہ یہ غلطی کرتے تھے۔ ابن عدی اور محمد بن سعد نے ان کی تعدیل کی ہے۔ (تہذیب الکمال للمزی)
اس روایت میں ان کے استاد محمد بن ابراہیم ہیں۔ وہ روایت کر رہے ہیں صحابی رسول حضرت قیس بن عمرو رض سے۔ لیکن امام ترمذیؒ فرماتے ہیں:
وإسناد هذا الحديث ليس بمتصل محمد بن إبراهيم التيمي لم يسمع من قيس
"اس حدیث کی سند متصل نہیں ہے۔ محمد بن ابراہیم التیمی نے قیس سے سماع نہیں کیا۔"
(ترمذی،2۔284، ط: مصطفی البابی)
درمیان میں کون غائب ہے اس کا نہیں پتا۔ میں نہیں جانتا کہ البانیؒ نے اس کی تصحیح کیوں کی ہے۔
دوسری روایت تو طلوع شمس کے بعد کی ہے اور طلوع کے بعد تو سب پڑھنے کی اجازت دیتے ہیں۔

اب آئیے اصل جواب کی جانب۔
ہم ان دونوں روایات میں اگر تطبیق کرتے ہیں تو بخاری کی روایت میں نماز فجر کے بعد نماز پڑھنے سے منع کیا گیا ہے اور اس (روایت اولی) میں اس شخص کے نماز پڑھنے کا ذکر ہے۔ لیکن یہ تفصیل نہیں ہے کہ یہ طلوع کے بعد پڑھ رہا تھا یا طلوع سے پہلے۔ تو تطبیق کے لیے ہم اس پر محمول کرتے ہیں کہ وہ شخص طلوع شمس کے فورا بعد پڑھ رہا تھا۔
اور اگر ترجیح دیں تو اول بخاری کی روایت صحت کے اعتبار سے اس سے راجح ہے۔ اور دوم بخاری کی روایت میں صراحت ہے نہی کی اور اس میں سکوت ہے اور صراحت سکوت سے راجح ہوتی ہے۔
اس لیے فجر کی سنتیں فرض نماز کے بعد ادا نہیں کی جا سکتیں۔

باقی دوسری روایت میں جو سورج کے طلوع کے بعد پڑھنے کا ذکر ہے تو وہ اس صورت میں ہے جب واقعی رہ گئی ہوں (چاہے نماز فجر کی وجہ سے چھوڑی ہوں، چاہے ایک رکعت ضائع ہونے کے خوف سے چھوڑی ہوں، چاہے تشہد بھی نہ ملنے کے خوف سے یا چاہے سستی کی وجہ سے چھوڑ دی ہوں)۔ اس صورت میں اس وقت نفل یا سنتیں پڑھنے سے کوئی منع نہیں کرتا۔
و اللہ اعلم
اسی محمل پر امام طحاویؒ نے بھی محمول کیا ہے۔
 

محمد بن محمد

مشہور رکن
شمولیت
مئی 20، 2011
پیغامات
110
ری ایکشن اسکور
224
پوائنٹ
114
یہ کس کا مسئلہ ہے کہ قضا نماز ایسے پڑھنی چاہئے کہ کسی کو پتہ نہ چلے؟
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,132
پوائنٹ
412
چاہیں تو اسی تہریڈ میں باتیں ہوں اور کسی نئے عنوان سے ہوں نئے تہریڈ میں ، جیسی مرضی لیکن صرف اہل علم سے درخواست ہیکہ وہ مندرجہ ذیل پر راہ نمائی فرمائیں ۔
شیخ محترم کا انتظار کر لیں. وہ کیا جواب دیتے ھیں. میرے خیال سے یہ زیادہ مناسب ھے
 
Top