• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

محمدیہ پاکٹ بک

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
مرزائی عذر:
کفار نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے نشان طلب کیا تھا اور اپنے ایمانی فیصلہ کو اس پر ٹھہرایا کہ آپ آسمان پر جائیں۔ وہاں سے کتاب لائیں جس کو ہم پڑھ کر آپ پر ایمان لائیں۔ اللہ نے جواب دیا کہ کہو میرا رب پاک ہے میں بندہ رسول ہوں۔ لیکن رسول کو آسمان پر لے جانے کی سنت الٰہی نہیں۔(۲۷۶)
(جواب۱) موسیٰ علیہ السلام کیسے آسمان پر چڑھ گئے؟ ماجوابکم فہو جوابنا۔
(جواب۲) اس استدلال میں جس قدر یہودیانہ تحریف اور دجالانہ غلط بیانی اور عیارانہ مغالطہ بازی کی گئی ہے وہ ایک مذہبی قوم سے ممکن و محال ہے الا اس صورت میں کہ قائل کو بظاہر مومن بباطن دہریہ سمجھا جائے۔
ناظرین کرام! وہ کفار جن کا قرآن میں اس جگہ مذکور ہے ہمارے مخاطب مرزائی کی طرح دہریہ طبع نہ تھے کہ انسان کا آسمان پر چڑھنا محال و ناممکن یا خلاف سنت الٰہیہ سمجھتے ہوں بلکہ انہیں بظاہر اس کا اقرار تھا اور ان کا قول اس پر گواہ ہے کہ انسان آسمان پر لے جایا جاسکتا ہے اَوْتَرْقٰی فِی السَّمَآئِ یا تو چڑھ آسمان پر مگر سن رکھ کہ وَلَنْ نُوْمِنَ لِرُقَیِّکَ ہم تیرے فقط آسمان پر چڑھ جانے پر ایمان کا مدار نہیں رکھتے حتیٰ تنزل علینا کتاب نقرأہ یہاں تک تو وہاں جا کر ہم پر کتاب نازل نہ کرے۔
برادران! یہ ہے وہ اصل مطالبہ کفار کا جو سراسر جہالت و نادانی پر مبنی ہے کیونکہ یہ کبھی درست نہیں ہوسکتا کہ خدا، پلید طبع انسانوں کو صاحبِ کتاب رسول بنا دے۔ اسی کے جواب میں کہا گیا ہے قُل سبحان ربی ھل کنت الا بشرا رسولا۔ (۲۷۷)کہہ دے خدا کی عادلانہ و حکیمانہ شان اس سے اعلیٰ و ارفع ہے کہ وہ تمہارے جیسے ناپاک طبع انسانوں پر اپنی اعلیٰ کتاب نازل کرکے تمہیں مقتدائے انام بنا دے۔ کیونکہ:
اِذَا کَانَ الْغُرَابُ دِلَیْلَ قَوْمٍ سَیَھْدِیْھِمْ طَرِیْقَ الْھَالِکِیْنَ۔
جب کوّا کسی قوم کا راہنما ہوگا تو یقینا سوائے ہلاکت کے کسی نیک راستہ پر نہ چلا سکے گا۔ باقی رہی میری شخصیت سو میں تو خود اس کا ایک بھیجا ہوا بندہ ہوں۔ میری کیا طاقت و مجال کہ اس کی مرضی کے خلاف از خود اپنی طاقت سے تمہارے مطالبات کو پورا کردوں ایسے لغو و لچر و بے ہودہ مطالبات کے پورا ہونے کی استدعا بھی کروں۔
بھائیو! یہ ہے اصل مطالبہ کفار کا جس پر وہ ایمان کا مدار ٹھہراتے تھے جو سراسر بے وقوفی کا مرقع ہے۔ حاصل یہ کہ کفار آسمان پر چڑھ جانے کو مدار فیصلہ نہیں ٹھہراتے تھے۔ بلکہ اس کے ساتھ بیہودہ شرائط لگاتے تھے:
۱۔ ’’ کفار کہتے تھے کہ ہم تب ایمان لائیں جب ہم ایسا نشان دیکھیں کہ زمین سے آسمان تک ایک نردبان (سیڑھی) رکھی جائے اور تو ہمارے دیکھتے دیکھتے اس نردبان کے ذریعے سے زمین سے آسمان پر چڑھ جائے اور فقط تیرا آسمان پر چڑھنا ہم ہرگز قبول نہیں کریں گے جب تک آسمان سے ایک ایسی کتاب (ہم کو) نہ لادے جس کو ہم پڑھ لیں۔‘‘ (۲۷۸)
(حاشیہ رسالہ تصدیق النبی ص۱۱مضمون مرزا صاحب ایک عیسائی کے تین سوالوں کے جواب)
۲۔ یہ بات نہیں ہے کہ ہر کس و ناکس خدا کا پیغمبر بن جائے اور ہر ایک پر وحی نازل ہو جایا کرے۔ اس کی طرف قرآن شریف نے آپ ہی فرمایا ہے اور وہ یہ ہے وَاِذَا جَائَ تُھُمْ اٰیَۃٌ قَالُوْا لَنْ نُّوْمِنَ حَتّٰی نُؤْتٰی مِثْلَ مَا اُوْتِیَ رَسُلُ اللّٰہِ۔ اَللّٰہُ اَعْلَمُ حَیْث یَجْعَلُ رَسَالَتَہ(۲۷۹)ٗ (پ۸) یعنی جس وقت کوئی نشانی کفار کو دکھائی جاتی ہے تو کہتے ہیں کہ جب تک خود ہم پر ہی کتاب نازل نہ ہو تب تک ایمان نہ لائیں گے۔ خدا خوب جانتا ہے کہ کس جگہ اور کس محل پر رسالت کو رکھنا چاہیے۔ (۲۸۰)
الغرض مرزائی مصنف کی پیش کردہ آیت سے بشر رسول کا آسمان پر جانا ناممکن الحال ثابت نہیں ہوتا۔
(جواب ۳) بفرضِ محال مان لیا جائے کہ کفار نے مدارِ فیصلہ آسمان پر چڑھنے کو ٹھہرایا تھا تو بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جواب سے کہ میں بشر رسول ہوں۔ یہ کہاں ثابت ہوا کہ بشر رسول آسمان پر نہیں جاسکتا۔ یا انسان کا آسمان پر جانا خلاف سنتِ الٰہی ہے۔ لاریب کسی انسان میں یہ طاقت نہیں کہ وہ از خود آسمان پر جب چاہے چلا جائے۔ یا جب چاہے کوئی معجزہ دکھائے۔ ہاں جب خدا چاہے تو لے جاسکتا ہے چنانچہ اس نے حضرت مسیح علیہ السلام کو آسمان پر اٹھا لیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی آسمانوں کی سیر کرائی۔ (۲۸۱)
اعتراض:
قرآن میں ہے وَمَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِّنْ قَبْلِکَ الْخُلْدَ اَفَائِ نْ مِّتَّ فَھُمُ الْخَالِدُوْنَ(انبیاء ع۳)کہ کسی بشر کے لیے ’’ ہمیشہ کی زندگی ‘‘ نہیں۔ مسیح کو زندہ اور آنحضرت کو فوت شدہ ماننا قابل شرم و ہتک نبوی ہے۔ (۲۸۲)
جواب(۱):موسیٰ علیہ السلام کو زندہ ماننا کیوں ہتک نہیں؟
جواب(۲):مسیح کے لیے بھی ہمیشہ کی زندگی نہیں۔ قرآن صاف شاہد ہے وَاِنْ مِّنْ اَھْلِ الْکِتٰبِ اِلاَّ لَیُؤْمِنَنَّ بِہٖ قَبْلَ مَوْتِہٖ(۲۸۳) اسی طرح حدث میں ہے مسیح نازل ہوگا ثم یموت فیدفن معی فی قبری(۲۸۴) غرض مسیح علیہ السلام کو بھی موت آئے گی۔ باقی رہا اعتراض دوم۔ سو جب کہ تم خود موسیٰ علیہ السلام کو آسمانوں پر زندہ مانتے ہو۔ فرشتوں کو زندہ مانتے ہو۔ تو پھر تمہیں خود ایسی ویسی لغو باتوں سے شرم چاہیے۔ سنو! لمبی زندگی باعث فضیلت نہیں:
’’ عیسائیوں کو کبھی خیال نہیں آیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی روحانی زندگی ثابت کریں اور صرف اس لمبی عمر پر خوش نہ ہوں جس میں اینٹ اور پتھر بھی شریک ہیں۔‘‘ (۲۸۵)
اعتراض:
حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے کہا تھا کہ احمد رسول میرے بعد آئے گا۔ بعد سے مراد وفات ہے۔
الجواب:
ہر جگہ بعد سے مراد وفات نہیں ہوتی۔ دیکھئے جب حضرت موسیٰ علیہ السلام توریت لینے گئے تو ان کی قوم نے غیر حاضری میں بچھڑا پوجنا شروع کردیا۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے ثم اتخذتُمُ العجل من بعدہٖ وانتم ظالمون(۲۸۷)جو معنی اس جگہ بعد کے ہیں وہی کلام مسیح علیہ السلام میں ہیں۔
------------
(۲۷۸)
(۲۷۹) پ۸الانعام نمبر ۱۲۲ ؍ ۲۸۰براھین احمدیہ ص۱۶۹، ج۳و روحانی ص۱۸۱، ج۱و تفسیر مرزا ص ۱۲۷، ج۴
(۲۸۱) مرزا جی نے، نصرۃ الحق ص۳۴، ۳۵ (روحانی ص۴۵، ج۲۱) میں اس پر نہایت عمدہ بحث کی ہے جو کہ قابل دید ہے (ابو صہیب)
(۲۸۲) احمدیہ پاکٹ بک ص۳۵۸؍۲۸۳پ۶النساء ۱۵۹
(۲۸۴) دیکھئے باب ھذا کا حاشیہ نمبر ۱۵۷ ؍ ۲۸۵تریاق القلوب ص۶و روحانی ص۱۳۹، ج۱۵
(۲۸۶) احمدیہ پاکٹ بک ص۳۵۸، نوٹ، خود مؤلف مرزائی پاکٹ بک نے صفحہ ۵۲۴میں تسلیم کیا ہے کہ بعد سے مراد غیر حاضری ہے نا کہ وفات، ابو صہیب
(۲۸۷) پ۱البقرہ ۵۱؍ ۲۸۸احمدیہ پاکٹ بک ص۳۶۲
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
تردید دلائل وفات مسیح از احادیث

اعتراض:
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا موسیٰ و عیسیٰ زندہ ہوتے تو میری پیروی کرتے ۔ (۲۸۸)
الجواب:
کہاں آیاتِ قرآنیہ و نصوصات احادثیہ جن میں بالتصریح مسیح علیہ السلام کی حیات آسمانی و نزولِ جسمانی کا تذکرہ ہے اور کہاں یہ غلط مردود ادردی اور بے سند محض قول۔ پس اس کا جواب یہی ہے کہ مہربانی کرکے اس کی سند بیان کرو۔ ورنہ نصوص شرعیہ کے مقابلہ میں ایسے ویسے غلط محض اقوال پیش کرنے سے تمہاری دہریت اور بھی نمایاں ہو جائے گی۔ اس روایت کے جھوٹا ہونے پر الزامی دلیل یہ ہے کہ تم خود موسیٰ علیہ السلام کو زندہ مانتے ہو۔ حالانکہ اس میں فوت شدہ کہا گیا ہے۔ جن علماء کی کتابوں سے یہ قول نقل کیا گیا ہے یعنی ابن کثیر، الیواقیت والجواہر کا مصنف، مصنف فتح البیان، ابن قیم وغیرہ۔ یہ سب کے سب بزرگ حیات و نزول مسیح علیہ السلام کے قائل ہیں۔ چنانچہ ہم آخر مضمون ہذا میں سب کے اقوال بحوالہ کتب درج کریں گے۔ (ان شاء اللہ تعالیٰ)
اب ہم صحیح روایت درج کرتے ہیں جو یہ ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : لَوْکَانَ مُوْسٰی حَیًّا لَمَا وَاسِعَہٗ اِلاَّ اتِّبَاعِیْ(۲۸۹) ایسا ہی مشکوٰۃ کے اسی باب فصل سوم میں بہ تغیر چند الفاظ یہی روایت بحوالہ دارمی لکھی ہے۔ اسی طرح مرزائی صاحب نے جس تفسیر ابن کثیر میں مرزائی صاحب کا حوالہ دیا ہے خود اسی میں مرزائی صاحب کی پیش کردہ روایت سے اوپر دو روایتیں لکھی ہیں جس میں صرف موسیٰ کا ذکر ہے۔
اعتراض:
لَوْکَانَ عیسی حَیًّا لَّمَا وَسِعَہٗ اِلاَّ اتِّبَاعِیْ (شرح فقہ اکبر مصری ص۹۹) اگر عیسیٰ زندہ ہوتے تو ان کو میری پیروی کے بغیر کوئی چارہ نہ ہوتا۔ (۲۹۰)
الجواب:
شرح فقہ اکبر کوئی حدیث کی کتاب نہیں۔ صحیح روایت لَوْکَانَ مُوْسٰی حَیًّا ہے جیسا کہ ہم صحیح روایت نقل کر آئے ہیں۔ اصل یہ ہے کہ شرح فقہ اکبر مصری چھاپہ میں غلطی سے لفظ موسیٰ کی جگہ عیسیٰ لکھا گیا ہے۔ ہندوستان کے تمام مطبوعہ اور قلمی نسخوں میں لفظ موسیٰ ہے۔
----------------------------
(۲۸۹) اخرجہ احمد فی مسندہٖ ص۳۸۷ج۳والبیھقی فی، شعب الایمان، کما ذکرہ الخطیب فی المشکوٰۃ ص۳۰
(۲۹۰) احمدیہ پاکٹ بک ص۳۶۳؍ ۲۹۱شرح شفاء ص۱۰۶ج۱
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
آسان فیصلہ اور اندرونی شہادت:
ہم نے جو لکھا ہے کہ شرح فقہ اکبر چھاپہ مصری میں غلطی ہوگئی۔ اس کی ایک دلیل اوپر مذکور ہوئی یعنی تمام ہندی نسخوں میں لفظ موسیٰ ہے۔ دوسری دلیل یہ ہے کہ جو روایت مرزائی مصری نسخہ سے نقل کرتے ہیں وہ یہ ہے اشارہ اِلٰی ھٰذَا النَّبِی ﷺ بِقَوْلِہِ لَوْکَانَ عِیْسٰی حَیًّا مَّا وَسِعَہٗ اِلاَّ اتِبَاعِیْ بَیَّنْتُ وَجْہَ ذَالِکَ عِنْدَ قَوْلِہٖ فَاِذَا اَخَذَ اللّٰہُ۔ الخ فی شرح الشفا یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو حدیث لوکان (موسی) عیسیٰ حیا فرمایا ہے اس کی پوری پوری تشریح ہم نے آیت واذ اخذا اللّٰہ میثاق النبیین کے تحت اپنی کتاب شرح الشفا میں کو چھوڑی ہے۔
اب فیصلہ آسان ہے۔ آئیے شرح شفا میں دیکھیں کہ اس روایت کے کیا الفاظ ہیں۔ حضرت امام ملا علی قاری رحمہ اللہ کی کتاب شرح شفا۔ شرح فقہ اکبر مصری سے پیشتر استنبول میں ۱۳۰۹ھ میں طبع ہوئی۔ اس کی پہلی جلد فصل سات میں آیت واذ اخذ اللّٰہ الآیہ کے تحت لکھا ہے والیہ اشار ﷺ بقولہ حین رای عمرانہ ینظر من صحیفۃ من التوراۃ لوکان موسی حیا لما وسعہ الا اتباعی(۲۹۱) اس اندرونی شہادت سے قطعی فیصلہ ہوگیا کہ مصری چھاپہ میں غلطی ہے نیز ملا علی قاری اپنی کتاب موضوعات کبیر (جو ۱۲۸۹ھ میں طبع ہوئی تھی) میں حدیث لَوعاشَ اِبْراھیم لَکَانَ صدیقا نبیا۔ پر بحث کرتے کرتے اس حدیث پر ختم کرتے ہیں۔ چنانچہ آپ کی آخری عبارت ملاحظہ ہو لکھتے ہیں:
یقویہ حدیث لوکان موسی علیہ السلام حیا لما وسعہ الا اتباعی۔(۲۹۲)
یہاں بھی بجائے عیسیٰ کے لفظ موسیٰ تحریر کیا ہے۔ ملا صاحب ممدوح اپنی کتاب مرقات شرح مشکوٰۃ مطبوعہ مصر میں ارقام فرماتے ہیں:
ولو کان موسی حیا ای فی الدنیا۔ الخ (۲۹۳)
’’ یعنی موسیٰ اگر دنیا میں زندہ موجود ہوتے۔‘‘
یہاں بھی لفظ موسیٰ بصراحت موجود و مرقوم ہے۔
اسی طرح مسند احمد، بیہقی، دارمی (۲۹۴)اور مشکوٰۃ وغیرہ کتب حدیث میں لوکان موسی حیا وارد ہے۔ اور ملا علی قاری نے انہی حوالوں سے اپنی تمام تصانیف میں لوکان موسی حیا نقل کیا ہے۔ پھر یہ کیونکر باور کیا جاسکتا ہے کہ شرح فقہ اکبر میں وہ لوکان عیسٰی نقل کریں گے؟
لہٰذا مثلِ آفتاب نیم روز واضح ہوگیا کہ مصری نسخہ میں عیسیٰ غلط طبع ہوگیا ہے صحیح موسیٰ ہے۔
مرزائیو! اس مبلغ علم اور ’’ دیانتداری‘‘ کی بنا پر تم لوگ احادیث صحیحہ اور آیات قرآن مجید میں یہودیانہ تصرف کرکے وفاتِ مسیح ثابت کرلو گے؟ ہرگز نہیں! بلکہ ذلیل و رسوا ہوگے۔ اب آؤ ہم تمہیں اسی مصری فقہ اکبر سے امام ملا علی قاری رحمہ اللہ کا مذہب بابت نزولِ مسیح دکھائیں۔
اِنَّہٗ یَذُوْبُ کَالْْمِلْحِ فِی الْمَائِ عِنْدَ نَزُوْلِ عِیْسٰی مِنَ السَّمَاء(۲۹۵) دجال حضرت مسیح علیہ السلام کے آسمان سے نازل ہونے پر یوں گھلنے لگے گا جیسے نمک پانی میں۔
(۲) ان عیسی نبی قبلہ وینزل بعدہ ویحکم بشریعنہ الخ(۲۹۶) عیسیٰ علیہ السلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کا نبی ہے اور بعد میں بھی نازل ہوگا۔ شریعتِ محمدی پر عمل کرے گا۔
(۳) فینزل عیسی ابن مریم من السماء الخ۔(۲۹۷) پس نازل ہوگا عیسیٰ ابن مریم آسمان سے۔
(۴) ان عیسی یدفن بجنب نبینا ﷺ بینہ وبین الشیخین(۲۹۸) تحقیق عیسیٰ علیہ السلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اور ابوبکر رضی اللہ عنہ وعمر رضی اللہ عنہ کے بامین دفن ہوں گے۔
اس آخری قول سے یہ بھی ثابت ہوگیا کہ یدفن معی فی قبری کے معنی ساتھ دفن ہونا ہے۔
اعتراض:
حدیث میں آیا ہے کہ مسیح کی عمر ۱۲۰برس ہوئی۔ (۲۹۹)
جواب:
اول تو یہ روایت ہی ضعیف ہے جیسا کہ ہم اس پر مفصل لکھیں گے بفرضِ محال صحیح بھی ہو تو اس میں مسیح علیہ السلام کی وفات کا کوئی ذکر نہیں۔ صرف یہ الفاظ ہیں اِنَّ عِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ عَاشَ عِشَرِیْنَ وَمَائَۃِ سَنَۃٍ (ابن کثیر وغیرہ) عاش کے معنی ہیں زندگی بسر کی مسیح نے ۱۲۰سال۔ چنانچہ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ حافظ ابنِ عساکر رحمہ اللہ سے نقل کرتے ہیں۔ والصحیح ان عیسی لم یبلغ ھذا العمر وانما ارادمدۃ مقامہ فی امۃ کما۔الخ (۳۰۰)
دوم: حضرت مسیح علیہ السلام کی عمر کے بارے میں اختلاف ضرور ہے لیکن ٹھوس بات کسی کی نہیں۔ جیسا کہ حافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ کے انداز سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے ۳۳اور ۱۲۰کے دونوں قول ذکر کرکے بلا فیصلہ چھوڑ دیا ہے۔ (۳۰۱)بعض ۳۳سال کہتے ہیں جس کو حافظ ابنِ کثیر اور زرقانی شارح مواہب نے ترجیح دی ہے۔ (۳۰۲)مگر اس قول کو حافظ ابن القیم رحمہ اللہ بے اصل قرار دیتے ہیں۔ (۳۰۳)دوسرا قول ۱۲۰سال کا ہے جس کو حافظ ابن کثیر شاذ، غریب العبید (حوالہ مذکورہ) قرار دیتے ہیں اس کی تائید میں طبرانی اور حاکم کے حوالہ سے بروایت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا جو روایت ذکر کی جاتی ہے وہ سخت ضعیف اور کمزور ہونے کے باعث دلیل بننے کے قابل نہیں۔ حافظ ابن کثیر نے بحوالہ مستدرک حاکم ذکر کرکے اس کو ’’حدیث غریب‘‘ (عجیب روایت) قرار دیا ہے۔ (۳۰۴)اور مجمع الزوائد میں بحوالہ طبرانی لاکر ضعیف کہہ دیا ہے۔ (۳۰۵)
سوم : البدایہ والی سند میں محمد بن عبداللہ بن عمرو بن عثمان نامی ایک راوی ہے جو مختلف فیہ سمجھا گیا ہے۔ تاہم حضرت امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں عندہ عجائب اس کے پاس عجیب عجیب روایتیں ہیں۔ (۳۰۶)گویا ان کے نزدیک یہ راوی مشتبہ ٹھہرا۔
چہارم: حضرت مسیح علیہ السلام کی عمر کے بارے میں اختلاف کرنے والے دونوں فریق اصل مسئلہ پر متفق ہیں۔ یعنی اختلاف اس میں نہیں کہ آسمان کی طرف رفع ہوا یا نہیں رفع آسمانی پر سب متفق ہیں۔ اختلاف اس میں ہے کہ آسمان کی طرف اٹھائے جانے کے وقت عمر کیا تھی؟ اور یہی حاصل نواب صدیق حسن خاں رحمہ اللہ کی بحث کا ہے جس کو مرزائی پاکٹ بک کا مصنف (ص۳۳۱) لیے بیٹھا ہے۔ چنانچہ حجج الکرامۃ میں بات رفع کی ہو رہی ہے۔ وفات کا تو یہاں کوئی قصہ ہی نہیں! (۳۰۷)
---------------
(۲۹۲) موضوعات کبیر ص۹۷طبعہ ۱۲۸۹ھ وایضاً ص۱۰۰طبعہ کراچی
(۲۹۳) مرقاۃ شرح مشکوٰۃ ص۲۵۱، ج۱باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ ، ای فی الدنیا کے الفاظ نہیں ہیں (ابو صہیب)
(۲۹۴) سنن دارمی ص ۱۲۶، ج۱باب ما یتقی من تفسیر حدیث النبی ﷺ
(۲۹۵) شرح فقہ اکبر ص۹۲طبعہ مصر ۱۳۲۳ھ و ص۱۶طبعہ مصر ۱۳۲۷ھ
(۲۹۶) شرح شفاء ص۵۱۹،ج۲طبعہ استنبول ۱۳۰۹ھ
(۲۹۷) مرقاۃ شرح مشکوٰۃ ص۲۳۹، ج۱۰باب لا تقوم الساعۃ الا علی علی شرار الناس
(۲۹۸) جمع الوسائل شرح شمائل ص۵۶۳طبعہ مصر؍ ۲۹۹احمدیہ پاکٹ بک ص۳۶۳
(۳۰۰) البدایہ والنھایہ ص۹۵، ج۲
(۳۰۱) فتح الباری ص۳۸۴، ج۶کتاب احادیث الانبیاء باب واذکر فی الکتاب مریم
(۳۰۲) تفسیر ابن کثیر ص۵۸۳، ج۱و فتح البیان ص۴۹۹، ج۲زیر آیت النساء نمبر ۱۵۸
(۳۰۳) زاد المعاد ص۱۹، ج۹ ؍ ۳۰۴البدایہ والنھایہ ص۹۵ج۲
(۳۰۵) مجمع الزوائد ص۲۶، ج۹کتاب علامات النبوۃ باب مرضہ و وفاتہ ﷺ
(۳۰۶) میزان الاعتدال ص۵۹۳، ج۳و تھذیب التھذیب ص۲۶۹، ج۲
(۳۰۷) حجج الکرامۃ ص۴۲۸ ؍ ۳۰۸احمدیہ پاکٹ بک ص۳۶۶
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
احمدی دوستو! اسی مردود انسان کی روایت کی بنا پر احادیث صحیحہ اور آیاتِ قرآنیہ کی تردید کرتے ہو۔
اعتراض:
اسی طرح ایک اور روایت مسلم وغیرہ میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سو سال تک تمام جاندار مرجاویں گے۔(۳۰۸) (کنز العمال راوی جابر و مسلم)
الجواب:
اگر یہی ترجمہ صحیح ہے جو کیا گیا ہے تو پھر ہر ’’جاندار‘‘ میں تو جناب موسیٰ ملائکہ بھی شامل ہیں۔ کیا یہ سب کے سب سو سال کے اندر اندر فوت ہوگئے تھے؟(۳۰۹) لو صاحب جس دلیل سے تم ملائکہ کو ’’ہر جاندار‘‘ کے لفظ سے باہر کرو گے۔ اسی سے ہم مسیح کو نکال لیں گے۔ کیوں؟ کیسی کہی ہاں جس دلیل سے تم موسیٰ علیہ السلام کو بچاؤ گے ہم اس سے مسیح کو۔
حضرات! اصل بات یہ ہے کہ مرزائی مذہب سراپا خیانت و فریب ہے۔ مرزا صاحب کی بھی یہی عادت تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث اپنے مطلب کو نقل کرتے۔ مگر جو فقرہ اپنی نفسانیت کے خلاف ہوتا اس کو چھوڑ دیتے چنانچہ حمامۃ البشریٰ میں کنز العمال کی حدیث لکھتے ہیں جو ہم اسی مضمون میں بذیل ثبوت حیات مسیح لکھ آئے ہیں یعنی حدیث نمبر ۸مگر اس میں لفظ من السماء چھوڑ گئے۔ (۳۱۰)یہی چالاکی مرزائی مصنف نے کی ہے۔ مسلم کی حدیث جو جابر سے مروی ہے۔ اس میں مَا عَلَی الْاَرْضِ کا لفظ موجود ہے۔ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں۔ آج جتنے لوگ زمین پر موجود ہیں۔ سو سال تک ان میں سے کوئی کوئی باقی نہ رہے گا۔
’’ ما علی الارض من نفس منفوسۃ یاتی علیھا مائۃ سنۃ وھی حیۃ یومئذ (مسلم)یعنی روایت ہے جابر سے پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے روئے زمین پر کوئی نفس نہیں جو پیدا کیا گیا ہو اور موجود ہو۔ پھر آج سے سو برس سے گزرے اور وہ زندہ ہو۔ دوسری حدیث صحیح مسلم کی یہ ہے کہ زمین پر کوئی شخص بھی آج کے لوگوں میں سے زندہ موجود ہو۔‘‘ (۳۱۱)
مگر مرزائی کی خیانت ہے کہ ’’ زمین پر آج کے لوگوں‘‘ کے الفاظ اُڑا کر ’’ ہر جاندار‘‘ ترجمہ کرکے مسیح کی وفات ثابت کرتا ہے۔
اعتراض:
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے شبِ معراج باقی انبیاء میں عیسیٰ علیہ السلام کو دیکھا۔ جب وہ فوت شدہ ہیں تو عیسیٰ علیہ السلام بھی وفات یافتہ ہے نہیں تو انہیں بھی زندہ مانو۔ (۳۱۲)
الجواب:
(الف) جناب اگر ایک زندہ انسان کا وفات یافتہ روحوں میں شامل ہونا ثبوتِ وفات ہے تو پھر مرزا صاحب زندگی میں ہی مرچکے تھے جو کہتے تھے کہ:
۱۔ ’’ اس (مسیح نے) کئی دفعہ مجھ سے ملاقات کی۔ ایک دفعہ میں نے اور اس نے عالمِ کشف میں جو گویا بیداری کا عالم تھا ایک جگہ بیٹھ کر ایک ہی پیالہ میں گائے کا گوشت کھایا۔‘‘ (۳۱۳)
۲۔ ’’ ایک دفعہ میں نے بیداری کی حالت میں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مع حسین وعلی و فاطمہ کے دیکھا یہ خواب نہ تھی بلکہ بیداری کی ایک قسم تھی۔‘‘ (۳۱۴)
سنبھل کے رکھیو قدم دشتِ خار میں مجنوں
کہ اس میں اِک سودا برہنہ پا بھی ہے
(ب) یہ استدال درست نہیں کیونکہ اس سے تو پھر یہ لازم آئے گا کہ اس وقت خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی فوت شدہ ہوں۔ حالانکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس دنیوی زندگی میں جسمانی معراج ہوئی۔ پس جس طرح دوسرے انبیاء کی ملاقات کے وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم زندہ تھے اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی زندہ تھے اور آسمانوں پر تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے نزولِ قربِ قیامت کی خبر دی تھی جیسا کہ ابنِ ماجہ میں مصرح ہے۔
اعتراض:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے مسیح اور آنے والے مسیح کا رنگ، حلیہ قد علیحدہ علیحدہ بیان کیا ہے۔ (۳۱۵)
الجواب:
اس طرح سے اگر دو عیسیٰ ہو جاتے ہیں تو دو موسیٰ بھی ماننا ہوں گے۔ کیونکہ ایسا ہی اختلاف سراپا موسیٰ میں بھی اسی حدیث میں مذکور ہے ملاحظہ ہو بَدْئُ الْخَلْقَ میں ہے مُوْسٰی رَجُلاً اٰدَمَ طِوَالاً جَعْدًا کَانَّہٗ مِنْ رِجَالِ شَنُوْئَ ۃَ وَرَأَیْتُ عِیْسٰی رَجُلاً مَوْفُوْعًا مَرْبُوْعَ الْخَلْقِ اِلَی الْحُمْرَۃِ وَالْبَیَاضِ سَبَطَ الرَّأس۔ (۳۱۶) حضرت موسیٰ علیہ السلام گندمی رنگ قد لمبا، گھونگھرالے بال والے تھے جیسے یمن کے قبیلہ شنوء ہ کے لوگ، اور عیسیٰ علیہ السلام درمیانہ قد سُرخ و سفید رنگ، سیدھے بال والے اور کتاب الانبیاء میں ہے:
رأیت موسی واذا رجل ضرب رجل کانہ من رجال شنوء ۃ ورأیت عیسی فاذا ھو رجل ربعۃ احمر (وفی الحدیث الذی بعدہ ) جعد مربوع(۳۱۷) یعنی موسیٰ علیہ السلام دُبلے سیدھے بال والے تھے جیسے شنوء ہ کے لوگ اور عیسیٰ علیہ السلام میانہ قد سرخ رنگ کے گھونگھرالے بال والے۔ پہلی حدیث میں موسیٰ علیہ السلام گھونگھرالے بال والے تھے اور عیسیٰ علیہ السلام سیدھے بال والے۔ اس حدیث میں موسیٰ علیہ السلام سیدھے بال والے تھے اور عیسیٰ علیہ السلام گھونگھرالے بال والے۔ پس دو موسیٰ اور دو عیسیٰ ہوئے (اور سنیے) وَاَمَّا عِیْسٰی وَاَحْمَرُجَعْدٌ عَرِیْضُ الصَّدُرِ وَاَمَّا مُوْسٰی فَاٰدَمُ جَسِیْمٌ بَسَطٌ کَاَنَّہٗ مِنْ رِّجَالٍ الزُّطِ۔ (۳۱۸) یعنی عیسیٰ علیہ السلام کا رنگ سرخ، بال گھونگھرالے اور سینہ چوڑا ہے۔ لیکن موسیٰ علیہ السلام کا رنگ گندمی ہے۔ موٹے بدن کے سیدھے بال والے جیسے جاٹ لوگ ہوتے ہیں پہلی حدیث کے موسیٰ دبلے پتلے شنوء ہ والوں کی طرح تھے اور اس حدیث کے موسیٰ موٹے بدن کے جاٹوں کی طرح ہیں۔ پہلی حدیث کے عیسیٰ کا رنگ سفید سرخی مائل ہے دوسری اور تیسری حدیث کے عیسیٰ کا رنگ بالکل سرخ۔ اس بناء پر جب دو عیسیٰ ہوسکتے ہیں ایک پہلا اور ایک ہونے والا تو موسیٰ بھی دو ہوسکتے ہیں۔ ایک پہلا اور ایک اور کوئی۔
-----------------
(۳۰۹) مرزا جی اپنی معروف کتاب ، شحنہ ھند ص۵۰میں فرماتے ہیں کہ کچھوے کی بڑی عمر ہونی ہے یہاں تک کہ بغیر کسی خارجی صدمہ کے شاذ و نادر ہی مرتا ہے۔ بہت کچھوے ایسے ہوں گے کہ جو ابتدائی زمانہ میں پیدا ہو کر اب تک زندہ موجود ہیں، انتھی بلفظہٖ ، روحانی ص۳۹۱، ج۲ہم قادیانیوں نے سوال کرتے ہیں کہ آخر جس دلیل سے کچھوا مذکورہ حدیث سے خارج ہے وہی دلیل مسیح علیہ السلام کی تصور کرلیجئے گا، ابو صہیب
(۳۱۰) حمامۃ البشرٰی ص۸۸و روحانی ص۳۱۲، ج۷ ؍ ۳۱۱ازالہ اوہام ص۴۸۱و روحانی ص۳۵۸، ج۳
(۳۱۲) مفہوم ازالہ اوہام ص۶۲۶و روحانی ص۴۳۸، ج۳
(۳۱۳) ریویو ص۳۴۸، ج۱والحکم جلد ۶نمبر ۲۹مؤرخہ ۱۷؍ اگست ۱۹۰۲ء ص ۱۲وتذکرہ ص۴۲۷واللفظ لہ
(۳۱۴) الحکم جلد ۶نمبر ۳۲مؤرخہ ۱۰؍ ستمبر ۱۹۰۲وفتاوی احمدیہ ص۱۷۸، ج۱و کتاب البریہ ص۱۸۰و روحانی ج۱۳، ۲۹۸
(۳۱۵) احمدیہ پاکٹ بک ص۳۶۷
(۳۱۶) اخرجہ البخاری فی الصحیح ص۴۵۹، ج۱کتاب بدالخلق باب اذا قال احدکم آمین والملائکۃ فی السماء
(۳۱۷) ایضاً ص۴۸۱، ج۱کتاب الانبیاء باب قول اللّٰہ عزوجل وھل اتک حدیث موسٰی
(۳۱۸) ایضاً ص۴۸۹، ج۱باب واذکر فی الکتاب مریم ؍ ۳۱۹نھایہ ابن اثیر
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رنگ و حلیہ کے اختلافات کی حدیثیں

ورنہ حقیقت میں نہ موسیٰ علیہ السلام کے حلئے میں اختلاف ہے نہ عیسیٰ علیہ السلام کے رنگ و حلیہ میں جس سے کہ دو ہستیاں سمجھی جاسکیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام وعیسیٰ علیہ السلام کے بیان میں لفظ جَعْد کے معنے گھونگھرالے بال کے نہیں۔ بلکہ گٹھیلے بدن کے ہیں۔ نہایہ ابن اثیر میں ہے مَعْنَاہُ شَدِیْدُ الْاَسْرِ وَالْخَلْقِ نَاقَۃٌ جُعْدَۃ اَی مُجْتَمِعَۃُ الْخَلْقِ شَدِیْدَۃ۔ (۳۱۹) یعنی جعد کے معنی جوڑو بند کا سخت ہونا جعدہ اونٹنی مضبوط جوڑ بند والی۔ مجمع البحار میں ہے اَمَّا مُوْسٰی فَجعُدٌ اَرَادَ جُعُوْدَۃَ الْجِسْمِ وَھُوَ اجْتَمَاعُہٗ وَاکتنازہ لا ضد سُبُوطَۃُ الشَّعْر لِاَنَّہٗ رُوِیَ اَنَّہٗ رَجِلُ الشَّعْرِ وَکَذَا فِیْ وَصْفِ عِیْسٰی۔(۳۲۰) (کذافی فتح الباری ص۲۷۶پ۱۳و نودی شرح مسلم ص۹۴ج۱) یعنی حدیث میں موسیٰ و عیسیٰ کے لیے جو لفظ جعد آیا ہے اس کے معنے بدن کا گٹھیلا ہونا ہے نہ بالوں کا گھونگھر ہونا کیونکہ ان کے بالوں کا سیدھا ہونا ثابت ہے۔ اسی طرح لفظ ضربٌ اور جسم میں بھی اختلاف نہیں ہے۔ ضرب بمعنی نحیف البدن اور جیم بمعنی طویل البدن۔ قال القاضی عیاض المراد باالجسم فی صفۃ موسی الزیادہ فی الطول۔ (۳۲۱)یعنی صفت موسیٰ میں لفظ جیم کے معنے لمبائی میں زیادتی ہے۔ اسی طور سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رنگ میں بھی اختلاف نہیں ہے۔ لفظ احمر کا صحابی راوی نے سخت انکار کیا ہے۔ چنانچہ صحیح بخاری میں موجود ہے عَنِ ابْنِ عُمُر قَالَ لَا وَاللّٰہِ مَا قَالَ النَّبِیُّ ﷺ بِعِیْسٰی اَحْمَرَ۔ (۳۲۲) حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ قسم کھا کر فرماتے ہیں کہ قسم ہے اللہ کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی صفت میں احمر یعنی سرخ رنگ کبھی نہیں فرمایا۔ پس پہلا رنگ برقرار رہا یعنی سفید رنگ سرخی مائل لہٰذا رنگ و حلیہ کا اختلاف حضرت موسیٰ علیہ السلام و عیسیٰ علیہ السلام سے مدفوع ہے اور حقیقت میں جیسے موسیٰ علیہ السلام ایک تھے عیسیٰ علیہ السلام بھی ایک ہی ہیں۔
-----------------

(۳۲۰) مجمع البحار ص۱۹۶، ج۱وفتح الباری ص۳۷۵، ج۶باب واذکر فی الکتاب مریم، و نووی شرح مسلم ص۹۴، ج۱

(۳۲۱) فتح الباری ص۳۷۵، ج۶باب واذکر فی الکتاب مریم

(۳۲۲) اخرجہ البخاری فی الصحیح ص۴۸۹ج ۱کتاب الانبیاء باب واذکر فی الکتاب مریم
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ
مرزائی ایک مغالطہ یہ بھی دیا کرتے ہیں کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بھی وفاتِ مسیح کے قائل تھے۔ آپ نے آیت متوفیک کے معنے ممیتک کئے ہیں۔
الجواب:
یہ سراسر افتراء، دروغ بے فروغ اور فریب بیابانی ہے جملہ صحابہ کرام میں سے مبحث حیات مسیح کے ٹھوس، واضح، عیاں اور قطعی فیصلہ کن پہلو یعنی لفظ آسمان کے ساتھ ان کا اٹھایا جانا، ابھی تک حیات ہونا۔ آخری زمانہ میں آسمان سے نازل ہونا کے متعلق حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ پھر حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ پیش پیش ہیں۔ کما مربیانہ، بطور اختصار اس جگہ بھی دو یا تین روایات لکھی جاتی ہیں ملاحظہ ہو حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
(۱) فرفعہ الی السماء ’’ اٹھا لیا عیسیٰ علیہ السلام کو خدا نے آسمان پر‘‘(۳۲۶) (نسائی ابن مردویہ)
(۲) اجتمعت الیھود علی قتلہ فاخبر اللّٰہ بانہ یرفعہ الی السماء۔یہود جب مسیح علیہ السلام کو گرفتار کرنے کو اکٹھے ہو کر آئے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو آسمان پر اٹھائے جانے کی خبر دے کر اطمینان بخشا۔ (سراج منیر)
(۳) وان من اھل الکتب الا لیؤمنن بہ قبل موتہ قال قبل موت عیسیٰ(۳۲۷) آخر زمانہ میں اہل کتاب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی موت سے پہلے پہلے ان پر ایمان لائیں گے۔
اصل حقیقت یہ ہے کہ جیسا کہ ہم سابقاً لکھ آئے ہیں لفظ توفی اگرچہ بحسب الوضع پورا لینے کے معنوں میں ہے۔ مگر مجازی طور پر موت کے معنے بھی ہوسکتے ہیں ومن المجاز توفی فلان وتوفاہ اللّٰہ وادرکتہ الوفاۃ۔ (۳۲۸)
نوٹ: ان ہر دو عبارات کو مرزائی پاکٹ بک میں لکھا ہے (ص۳۱۰) مگر اسی قدیمی سنت یہود پر عمل کرتے ہوئے الفاظ ومن المجاز چھوڑ دئیے ہیں۔ (۳۲۹)
ترجمہ عبارت کا یہ ہے کہ فلاں شخص کی توفی ہوگئی۔ اس کو وفات نے پالیا۔ اس کو خدا نے توفی کرلیا۔ یہ سب مجازی معنے ہیں جو موت و فوت پر دال ہیں۔
چنانچہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بھی متوفیک کے معنے موت کرتے تھے۔ مذہب ان کا یہ تھا کہ:
(۱) عن الضحاک عن ابن عباس فی قولہ انی متوفیک الآیہ رافعک ثم یمیتک فی اٰخر الزمان۔ (۳۳۰)یعنی اے عیسیٰ میں تجھے آسمان پر زندہ اٹھانے والا ہوں۔ آخری زمانہ میں وفات دوں گا۔
(۲) والصحیح ان اللّٰہ تعالٰی رفعہ من غیر وفاۃ ولا نوم قال الحسن وابن زید وھو اختیار الطبری وھو الصحیح عن ابن عباس۔ (۳۳۱) یعنی اصلیت یہ ہے کہ خدا نے مسیح علیہ السلام کو آسمان پر اٹھا لیا بغیر وفات کے اور بغیر نیند کے جیسا کہ حسن اور ابن زید نے کہا اور اسی کو اختیار کیا ہے، طبری ابن جریر نے اور یہی صحیح ہے ابن عباس رضی اللہ عنہ ہے۔
حاصل یہ کہ ابنِ عباس رضی اللہ عنہ اس جگہ تقدیم و تاخیر کے قائل ہیں یعنی رفع آسمانی ہوچکا، آئندہ وفات ہوگی۔
---------------
(۳۲۶) اخرجہ عبد بن حمید والنسائی وابن ابی حاتم وابن مردویہ کما فی الدرالمنثور ص۲۳۸ج۲وقال الحافظ ابن کثیر فی، تفسیرہٖ ص۵۷۲، ج۱بعد ان ساق ھذا الاثرعن ابن ابی حاتم بسندہ الٰی ابن عباس ۔ وھذا اسناد صحیح الٰی ابن عباس (ابو صہیب)
(۳۲۷) تفسیر ابن جریر ص۱۲، ج۶والدر المنثور ص۲۴۱، ج۲
(۳۲۸) اساسۃ البلاغۃ ص۵۰۵و تاج العروس شرح قاموس ص۳۴۴، ج۱۰
(۳۲۹) احمدیہ پاکٹ بک ص۳۳۲طبعہ ۱۹۴۵، نوٹ ہی نہیں بلکہ آنجہانی مرزا قادیانی نے بھی اپنی معروف کتاب، براہین احمدیہ ص۲۰۶، ج۵میں تاج العروس، کی عبارت نقل کی ہے مگر ’’متنبی‘‘ ہاتھ کی صفائی سے، ومن المجاز، کے الفاظ اڑا دیے ہیں (روحانی ص۳۷۹، ج۲۱) انا للہ وانا الیہ راجعون، لطیفہ مشہور ہے کہ کوئی بچہ کھڑے ہو کر پیشاب کر رہاتھا، کسی نے ٹوکا، تو بچے نے آگے سے بدتمیزی کی، وہ شخص اس کے والد سے شکوہ کرنے گیا تو دیکھا کہ بچے کے ابا حضور کھڑے ہوکر ہاتھ میںآلہ تناسل کو پکڑ کر گھر کے صحن میں چکر لگا کر پیشاب کر رہا ہے، وہ صاحب اپنا سا منہ لے کر رہ گئے، یہی حال یہاں ہوا ہے مولانا معمار مرحوم تو ملک صاحب سے بے ایمانی کی شکایت کر رہے ہیں مگر نہیں معلوم کہ ان کے ابا حضور بھی اسی کرتوت کے مرتکب ہیں۔ ابو صہیب
(۳۳۰) اخرجہ اسحق بن بشر وابن عساکر کذافی الدرالمنثور ص۳۶، ج۲
(۳۳۱) تفسیر ابی السعود
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
مرزا اور مرزائیوں کی گستاخانہ روش:
اپنے مطلب کو تو مرزا صاحب نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی خوب تعریف کی اور لکھا کہ وہ قرآن کو سب سے زیادہ اور اچھا سمجھتے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بارے میں ان کے حق میں دعا کی ہوئی تھی۔ (۳۳۲)
مگر جونہی اس آیت پر پہنچے اور انہیں معلوم ہوا کہ میری نفسانیت کو توڑنے والے سب سے پہلے انسان حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ ہیں تو انہوں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، جھٹ سے فتویٰ لگا دیا کہ اس آیت میں تقدیم و تاخیر کے قائل متعصب، پلید، یہودی ، لعنتی، محرف ہیں (معاذ اللہ۔ ناقل)(۳۳۳)
معاذ اللہ، استغفر اللہ، کس قدر شوخی و گستاخی و بدتہذیبی ہے کہ ایک صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، ابن عم محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور کئی ایک بہترین امت مفسرین و محدثین کو اختلاف آراء کی وجہ سے ہر ممکن و شنام کا حق دار بنایا ہے سچ ہے کہ منافق کی علامت سے کہ وہ بدگوئی میں اول نمبر ہوتا ہے۔
دفعیہ:
علم نحو و ادب و بلاغت کی کتابوں میں بالاتفاق موجود ہے کہ حرف واؤ میں ترتیب ضروری و لازمی نہیں ہوتی الواو للجمع المطلق لا ترتیب فیھا کافیہ وغیرہ ان الواو فی قولہ تعالٰی انی متوفیک ورافعک الی لا تفید الترتیب فالاٰیۃ تدل علی انہ تعالٰی یفعل بہ ھٰذا الافعال فاما کیف یفعل ومتٰی یفعل فالامر فیہ موقوف علی الدلیل وقد ثبت بالدلیل انہ حی ووردالخبر عن النبی ﷺ انہ ینزل ویقتل الدجال ثم ان اللّٰہ یتوفی بعد ذالک۔ (۳۳۴)یعنی آیت انی متوفیک ورافعک میں واؤ ترتیب کے لیے نہیں ہے آیت میں اللہ تعالیٰ نے مسیح علیہ السلام سے کئی وعدے کئے ہیں مگر یہ بات وہ کیسے کرے گا اور کب کرے گا یہ محتاجِ دلیل ہے اور البتہ دلیل سے ثابت ہوچکا ہے کہ مسیح زندہ ہے اس بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خبر موجود ہے کہ وہ نازل ہوگا اور دجال کو قتل کرے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ انہیں وفات دے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(۳۳۲) ازالہ اوہام ص۲۴۷و روحانی ص۲۲۵ج۳ ؍ ۳۳۴براھین احمدیہ ص۱۷۸،ج ۵و روحانی ص۳۴۷، ج۲۱و حمامۃ البشرٰی ص۵۷و روحانی ص۲۶۰، ج۷و حاشیہ تریاق القلوب ص ۱۴۴و روحانی ص۴۵۵، ج۱۵و کتاب البریہ ص۶و روحانی ص ۲۴، ج۱۳والحق مباحثہ دہلی ص۸۵و روحانی ص۲۱۵ج۴و تفسیر مرزا ص۱۰۴ج۳
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
واؤ کی ترتیب کے لیے نہ ہونے پر قرآن سے مثالیں:
(۱) وَاللّٰہُ اَخْرَجَکُمْ مِّنْ بُطُوْن اُمَّھٰتِکُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ شَیْئًا وَّجَعَلَ لکم السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ وَالْافْئِدَۃ لَعَّلَکُمْ تَشْکُرُوْنَ۔ (۳۳۵)خدا نے تم کو تمہاری ماؤں کے پیٹوں سے نکالا اس حال میں کہ تم کچھ نہ جانتے تھے اور بنائے تمہارے کان اور آنکھیں و دلی۔ تاکہ تم خدا کا شکریہ کرو۔
اس آیت میں پیدائش ہر انسان کی پہلے ذکر کی اور کان آنکھوں اور دل کا بنانا پیچھے۔ حالانکہ پیدائش سے پیشتر ماں کے پیٹ کے اندر یہ سب چیزیں بچہ میں موجود ہوتی ہیں۔
(۲) شرح رضی میں مصنف مرحوم لکھتے ہیں ولو کانت لترتیب لناقض قولہ تعالیٰ وادخلوا الباب سجدا وقولواحطۃ قولہ فی موضع اخری وقولوا حطۃ وادخلوا الباب سجدا اذا لقصۃ واحدۃ۔ (۳۳۶)اگر واؤ کو ترتیب کے لیے سمجھا جائے تو یہ اللہ تعالیٰ کے قول کے خلاف ہے۔ آیت میں ہے کہ داخل ہو دروازے میں سجدہ کرتے ہوئے اور کہو حطۃ مگر دوسری جگہ اسی مفہوم کو ان الفاظ میں لکھا ہے کہ کہو حطۃٌ اور داخل ہو دروازوں میں سجدہ کرتے ہوئے خلاصہ یہ کہ ایک آیت میں حطۃٌ کو پہلے فرمایا اور دوسری میں پیچھے۔
(۳) اللہ تعالیٰ اہل کتاب کو مخاطب کرکے فرماتا ہے: وَاَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ واٰتُو الزَّکوٰۃ وَارْکَعُوْا مَعَ الرَّاکِعِیْنَ۔ (۳۳۷) نماز پڑھو اور زکوٰۃ دو اور رکوع کرو۔
اس جگہ بھی اگر ترتیب سمجھی جائے تو مطلب یہ ہوگا کہ جب بھی زکوٰۃ دینی ہو، اس کے پہلے نماز پڑھی جائے اور زکوٰۃ دینے کے بعد رکوع کیا جائے۔ حالانکہ منشا خداوندی یہ نہیں ہے مقصود صرف یہ ہے کہ ان کاموں کو اپنے اپنے موقع و محل پر کرو۔ ترتیب کا لحاظ نہیں۔
الغرض اس قسم کی بیسیوں نہیں، سینکڑوں بلکہ ہزاروں امثلہ قرآن و حدیث سے مل سکتی ہیں۔
--------------------------
(۳۳۴) تفسیر کبیر ص زید آیت انی متوفیک پ۳اٰل عمران نمبر ۵۵
(۳۳۵) پ ۱۴النمل ۷۸
(۳۳۶) رضی شرح کافیہ ص ۳۶۳، ج۲طبعہ ایران مؤلفہ محمد ابن الحسن الرضی
(۳۳۷) پ۱البقرہ نمبر ۴۳؍ ۳۳۸حاشیہ تریاق القلوب ص۱۴۳و ۱۴۴و روحانی ص۴۵۴تا ۴۵۵، ج۱۵
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
مرزا صاحب کا اپنا مذہب کہ واؤ میں ترتیب لازمی نہیں
یہ تو سچ ہے کہ یہ ضروری نہیں کہ صرف واؤ کے ساتھ ہمیشہ ترتیب کا لحاظ واجب ہو لیکن اس میں کیا شک ہے کہ خدا تعالیٰ اس آیت میں فقرہ متوفیک کو پہلے، رافعک کو بعد بہرحال ان الفاظ میں ترتیب ہے جن کو خدا نے اپنی ابلغ واضح کلام میں اختیار کیا ہے۔ اور ہمارا اختیار نہیں کہ ہم بلا وجہ اس ترتیب کو اٹھا دیں اور اگر قرآن شریف کے اور مقامات میں مفسرین نے ترتیب موجودہ کے خلاف بیان کیا ہے تو یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ انہوں نے خود ایسا کیا بلکہ نصوصِ حدیثیہ نے اسی طرح ان کی شرح کی تھی یا قرآن شریف کے دوسرے مواضع کے قرائن نے اس بات کے ماننے کے لیے انہیں مجبور کردیا تھا کہ ظاہری ترتیب نظر انداز کی جائے۔ (۳۳۸)
برادران! ملاحظہ فرمائیے مرزا صاحب صاف اقراری ہیں کہ ’’ واؤ میں ہمیشہ ترتیب لازمی نہیں اور نصوص احادیث و قرائن قرآن کی بنا پر قرآن کی ترتیب موجودہ کو بدلنا جائز ہے جن مفسرین نے ایسا کیا ہے از خود نہیں کیا۔ بلکہ قرآن و حدیث نے انہیں ظاہری ترتیب نظر انداز کرنے پر مجبور کردیا‘‘ پھر اگر اس آیت میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے رافعک کو پہلے اور متوفیک کو بعد وقوع ہونے والا سمجھا تو کیا ظلم کیا۔ ایسا ہی دیگر تمام مفسرین نے بھی کون سا برا کام کیا۔
پھر مرزا صاحب نے جو جوش میں آکر تمام قائلین عدم ترتیب کو گالیاں دی ہیں یہ اگر ان کے مغلوب الغضب ہونے کی دلیل نہیں تو کیا ہے۔ حاصل یہ کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ حیاتِ مسیح کے قائل تھے۔ ان پر وفات کا اتہام لگانے والا مفتری کذاب ہے۔
--------------------
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
حضرت حسن رضی اللہ عنہ
ایسا ہی حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ پر بہتان باندھا ہے کہ انہوں نے وفات حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خطبہ میں کہا لقد قبض اللیلۃ عرج فیہ بروح عیسی ابن مریم۔ (۳۳۹)
الجواب:
اوّل: تو طبقاتِ کبریٰ کوئی مستند کتاب نہیں کہ محض اس کا نقل کرنا ہی دلیلِ صداقت سمجھا جائے۔ مرزائیوں پر لازم ہے کہ اس کی سند بیان کریں۔ تاکہ اس کے راوی دیکھے جائیں۔ آیا سچے ہیں، یا مرزائیوں کی طرح مفتری۔
دوم: چونکہ خود اسی کتاب کا مصنف قائلِ حیات مسیح ہے جیسا کہ جلد ۱ص ۲۶پر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا قول دربارہ مثبت حیاتِ مسیح نقل کرکے مصنف نے اس پر کوئی جرح نہیں کی وہو ہذا۔
وانہ رفع بحسدہ وانہ حی الاٰن وسیرجع الی الدنیا فیکون فیھا ملکا ثم یموت کما یموت الناس۔ (۳۴۰)یعنی تحقیق مسیح بمع جسم کے اٹھایا گیا ہے ولاریب وہ اس وقت زندہ ہے، دنیا کی طرف آئے گا اور بحالت شاہانہ زندگی بسر کرے گا پھر دیگر انسانوں کی طرح فوت ہوگا۔
اسی روایت نے فیصلہ کردیا کہ رفع سے مراد رفع جسمی ہے اور اگر حضرت حسن والی روایت درست ہے تو اس کا بھی یہی مطلب ہے۔ ممکن ہے اصل الفاظ یہ ہوں کہ عرج فیھا بروح اللّٰہ عیسی ابن مریم یعنی عیسیٰ بن مریم روح اللہ اٹھایا گیا۔
ایسا ہونا کوئی بڑی بات نہیں۔ عموماً روایات میں الفاظ الٹ پلٹ ہوجایا کرتے ہیں اور تو اور خود صحیح بخاری کی احادیث میں بھی ایسا موجود ہے چنانچہ ہم حدیث لا تفضلونی علی موسیٰ نقل کر آئے ہیں کہ کسی نے لا تفضلونی کہا کسی راوی نے لا تخیرونی کہا۔ کسی نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے علاوہ دیگر انبیاء کو بھی شامل کیا لا تخیروا بین انبیاء اللہ وغیرہ۔
خود یہی زیرِ تنقید روایت مختلف طریقوں سے کتابوں میں مرقوم ہے۔ درمنثور والے نے لیلۃ قبض موسیٰ درج کیا ہے۔
الغرض ایسی ویسی غیر معتبر روایات میں فیصلہ کا صحیح طریق یہی ہے کہ جو بات احادیث صحیحہ و قرآن کے مطابق ہو وہی صحیح سمجھی جائے۔ باقی کو غلط و مردود قرار دیا جائے۔
اب اسی بارے میں ایک اور روایت مستدرک حاکم جلد ۳ص ۱۴۳کی یہ ہے عن الحریث سمعت الحسن بن علی یقول قتل لیلۃ انزل القراٰن ولیلۃ اسری بعیسٰی ولیلۃ قبض موسٰی۔ (۳۴۱)حریث رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے حسن رضی اللہ عنہ سے سنا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اس رات قتل کئے گئے جس رات قرآن اترا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام سیر کرائے گئے اور موسیٰ علیہ السلام قبض کئے گئے۔
حضرات! غور فرمائیے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ جو شہید ہوگئے تھے قتل کا لفظ اور حضرت موسیٰ علیہ السلام پر جو وفات پاگئے ہوئے تھے قبض کا استعمال ہوا مگر مسیح علیہ السلام چونکہ زندہ جسم اٹھائے گئے تھے اس لیے ان کے حق میں اُسریٰ فرمایا گیا ہے اسری بہ اذا قطعہ بالسیرجب کوئی شخص چل کر مسافت طے کرے اس کو سرایت بولتے ہیں۔ خود قرآنِ پاک میں ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام بمع مومنین کے راتوں رات مصر سے نکلے یہ خروج بحکم خدا تھا فَاَسْرِ بِعِبَادِیْ لَیْلاً اِنَّکُمْ مُتَّبعون۔ (۳۴۲)
لے چل میرے بندوں کو راتوں رات تحقیق تمہارا تعاقب کیا جائے گا۔
اسی طرح جب حضرت لوط علیہ السلام کے متعلق وارد ہے کہ فَاَسْرِ بِاَھْلِکَ بِقطْحٍ مِّنَ الَّیْلِ۔ (۳۴۳)لے نکل اپنے اہل کو ایک حصہ رات میں۔
حاصل یہ کہ اگر حضرت حسن رضی اللہ عنہ کا خطبہ امر واقع ہے تو یقینا اس کا یہی مطلب ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بمعہ جسم اٹھائے گئے اور یہی حق ہے جو قرآن و حدیث کے مطابق ہے۔
----------------
(۳۳۹) احمدیہ پاکٹ ص۲۳۳طبعہ ۱۹۳۲و ص۳۷۰طبعہ ۱۹۴۵
(۳۴۰) طبقات ابن سعد ص۲۶ج۱
(۳۴۱) اخرجہ الحاکم فی المستدرک ص۱۴۳، ج۳و اوردہ السیوطی الدرالمنثور ص۳۶ج۲
(۳۴۲) پ۲۵دخان نمبر ۲۳ ؍
(۳۴۳) پ ۱۴الحجر ۶۵
 
Top