• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

محمد شیخ کا فتنہ

شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
760
پوائنٹ
290
جو قابل غور تھا وہ سابقہ مراسلہ میں رقم کردیا ، جو ان صاحب سے اتفاق رکھتے ہوں وہ مزید "غور" فرماتے رہیں ۔ جو اہل حدیث بر صغیر میں کر رہے ہیں اسے کہتے ہیں آدھی ادھوری کہی (لکھی) باتوں کو مکمل سیاق و سباق سے سامنے لانا - یہ برداشت نہیں ہو پارہا ھے - ان اصولوں پر گفتگو ہی کیا جو ہمارا اپنا خاصہ ہیں ، ہم ہی نے فہم سلف کو عام کرنے کا کام کیا وگرنا تو ایک ہی فہم تھی عقیدت بھری ! گفتگو ان پر ہو جو اسلامی اصولوں سے ٹکراتے ہیں ، اسلامی عقائد سے ٹکراتے ہیں - یہاں قلم کیوں نہیں اٹھ پاتا ؟ ان اختلافات حقیقی پر گفتگو کیوں نہیں ہوتی ؟ کیا چیز مانع آتی ھے ؟ "عقیدت" ؟ کسی کی عقیدت؟ جن کا برملا اعتراف کرتے چلے جاتے ہیں شرمائے بغیر !
الزامات لگا تو دیئے جاتے ہیں سوچ سمجھ کر اہل حدیث پر کیا ثابت بھی کیئے جاسکتے ہیں ؟
 

سید طہ عارف

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 18، 2016
پیغامات
737
ری ایکشن اسکور
141
پوائنٹ
118
تبلیغ کا قانون یہ ہے کہ عام آدمی تک بات کو پہنچا دیا جائے (بلغوا عنی ولو آیۃ)
تعلیم کا قانون یہ ہے کہ جب کوئی شخص سوال کرے تو اسے بتایا جائے (قم فصل فانک لم تصل۔۔۔الخ)

لہذا اپنے عمل اور باتوں سے دین کی عمومی تعلیمات کو عوام تک پہنچانا علماء کا کام ہے۔ لیکن اس طرح کی مباحث میں بلا وجہ پڑنا تب ہی مستحسن ہو سکتا ہے جب ان کا کوئی فائدہ نظر آ رہا ہو۔ جب کسی کے ذہن میں اشکال پیدا ہو اور وہ پوچھے تو اسے مکمل تحقیق کے ساتھ جواب دے دیا جائے۔ ورنہ خود سے پیچھے پڑنے اور مناظرے کرنے کا کبھی کوئی فائدہ دیکھا نہیں ہے۔
میں یہ نہیں کہہ رہا کہ یہ کام کوئی کر رہا ہے تو غلط کر رہا ہے۔ صرف یہ کہہ رہا ہوں کہ اسے ثانوی ترجیح میں رکھنا چاہیے۔ پہلے وہ کام کرنے چاہئیں جن سے مسلمانوں کو یقینی فائدہ ہے اور ان لوگوں کے مسائل کو پہلے حل کرنا چاہیے جو صحیح العقیدہ ہیں۔
نبی کریم ﷺ نے تبلیغ بھی فرمائی ہے، جہاد بھی کیا ہے اور تعلیم بھی دی ہے۔ یہ تینوں کام آپ کے بائیس سالہ دور نبوت میں مسلسل ہوئے ہیں۔ لیکن مناظروں کے واقعات پوری سیرت میں شاذ و نادر ہی ملتے ہیں حالانکہ مدینہ آنے کے بعد یہود اور عیسائیوں کی جانب سے یہی مسئلہ تھا کہ وہ کمزور مسلمانوں اور دوسرے اسلام کی جانب آنے والے لوگوں کو اپنے علم کی بنیاد پر بھٹکاتے تھے۔

ابھی ہم مثلاً اس کے جواب میں ایک ویڈیو یا آڈیو بیان بنا لیتے ہیں۔ وہ ہم عوام تک پہنچائیں گے۔ اس سے ایک تو اس کی شہرت اور بڑھے گی اور دوسرا عوام میں سے ایک بڑا طبقہ دونوں فریقوں سے متاثر ہوگا کہ یہ لوگ تو لڑتے ہی رہتے ہیں۔
رہ جائے گا ایک چھوٹا طبقہ۔ اس میں سے آدھے ایسے ہوں گے جو ہر حال میں یا ہمارے ساتھ ہوں گے اور یا اس کے ساتھ۔ پھر اس کی جانب سے بیان آئے گا جس میں یہ اپنی دلیلیں دے گا۔ عوام کو دلیل کی سمجھ تو ہوتی ہی نہیں ہے۔ لہذا باقی رہ جانے والے آدھے لوگ "مذبذبین بین ذلک" ہو جائیں گے۔ کبھی ادھر اور کبھی ادھر۔ اس میں فائدہ کیا ہوا؟
اگر مفتی صاحب اس سے یہ بحث نہ کرتے اور صرف اس کے نظریات سن کر تشریف لے آتے یا اسے کہیں بلاتے جہاں یہ ویڈیو نہیں بنتی تو آج اتنا فتنہ بھی نہ ہوتا۔ "آئی آئی پی سی" تو 2006ء سے کام کر رہی ہے لیکن شہرت وہ آج اس ویڈیو سے حاصل کر رہے ہیں۔

میرا خیال یہ ہے کہ ہمیں کلوزڈ گروپس اور کلوزڈ فورم پر فرصت کے اوقات میں ان مسائل کو حل کرتے رہنا چاہیے اور بوقت ضرورت ان کے حل لوگوں کو بتانے چاہئیں۔ ورنہ اس طرح کے لوگوں کو تو انہی چیزوں کی فنڈنگ ہوتی ہے اور ہم اپنے اصل کام سے بھی جاتے ہیں۔
بھیا اب تو فتنہ بن گیا ہے اور کافی ویوز بن رہے ہیں تو منطقی @اشماریہ شاہ سے درخواست ہے جواب عنایت فرمالیں....
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
بسم اللہ الرحمان الرحیم
9:45 قران میں موسی(ع) کے ساتھ توراۃ نہیں ایا بلکہ فرقان وغیرہ ایا ہے

وَإِذْ قَالَ عِيسَى ٱبْنُ مَرْيَمَ يَـٰبَنِىٓ إِسْرَ‌ٰٓءِيلَ إِنِّى رَسُولُ ٱللَّهِ إِلَيْكُم مُّصَدِّقًا لِّمَا *بَيْنَ يَدَىَّ* مِنَ ٱلتَّوْرَىٰةِ وَمُبَشِّرًۢا بِرَسُولٍ يَأْتِى مِنۢ بَعْدِى ٱسْمُهُۥٓ أَحْمَدُ ۖ فَلَمَّا جَآءَهُم بِٱلْبَيِّنَـٰتِ قَالُوا۟ هَـٰذَا سِحْرٌ مُّبِينٌ(Saff:6)
اس میں اپ نے "بین یدی" کا ترجمہ "مجھ سے پہلے" کیا ہے جب کہ بين=درمیان اور یدی=میرے 2 ہاتھ۔ اسی بات پر وڈیو(1:14:56) میں کافی لمبی بحث ہوئی ہے۔

إِنَّآ أَنزَلْنَا ٱلتَّوْرَىٰةَ فِيهَا هُدًى وَنُورٌ ۚ يَحْكُمُ بِهَا *ٱلنَّبِيُّونَ* ٱلَّذِينَ أَسْلَمُوا۟ لِلَّذِينَ هَادُوا۟
(Maidah:44)
اس میں توراۃ کا لفظ نبیوں(جمع) کے ساتھ کیوں ایا ہے؟
پہلا پوائنٹ سنا۔ اس قدر بے تکی باتیں ہیں کہ سمجھ نہیں آتا کہ جواب کیا دیا جائے۔
سوال یہ ہے کہ قرآن میں موسیٰؑ کے ساتھ توراۃ نہیں آیا تو اس کا نام توراۃ کیوں دیا جاتا ہے؟
قرآن کریم میں لفظ توراۃ کا ذکر مختلف مقامات پر آیا ہے۔ ہم مان لیتے ہیں کہ حضرت موسیؑ پر جو کتاب نازل ہوئی وہ توراۃ نہیں تھی لیکن پھر محمد شیخ صاحب سے کرنے کے لیے کچھ سوالات پیدا ہوں گے (جن کا جواب تو وہ کبھی نہیں دیں گے)۔
1۔ قرآن کریم میں حضرت نبی کریم ﷺ کا نام گرامی "محمد" کہیں بھی "قرآن" کے ساتھ نہیں آیا۔ تو کیا محمد شیخ صاحب یہ ڈھونڈ کر بتا سکتے ہیں کہ یہ "قرآن" جس ہستی پر نازل ہوا ہے اس کا نام کیا ہے؟
2۔ قرآن کریم میں ہے:
وَأَنْزَلَ التَّوْرَاةَ وَالْإِنْجِيلَ (3)
"اس نے توراۃ اور انجیل نازل کیں۔"
ہمارا سوال صرف یہ ہے کہ اگر توراۃ اللہ نے نازل کی ہے تو کس پر؟ قطع نظر اس کے معنی کے کہ یہ کسی کتاب کا نام ہے یا قانون کو کہتے ہیں۔ ہم نے صرف یہ پوچھنا ہے کہ یہ نازل کس پر ہوئی؟
قرآن میں صرف اتنا ہے: "یحکم بہا النبیون"۔ یہ "نبیون" اگرچہ اتنا جمع نہیں ہے جتنا زور سے محمد شیخ صاحب نے اسے بولا تھا۔ یہ جمع قلت ہے لیکن محمد شیخ صاحب کی انٹر کی ڈگری کو دیکھتے ہوئے (جیسا کہ خود فرمایا ہے) ہم جمع قلت و جمع کثرت کی بات کو اسکپ کر دیتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ صرف تین انبیاء کا نام قرآن کریم سے بتا دیں جنہوں نے تورات کو سامنے رکھ کر فیصلہ کیا ہو۔ اور اگر وہ فیصلے بھی بتا دیں تو کیا ہی بات ہے۔ لیکن بتانے قرآن کریم سے ہیں جہاں صراحتاً نام کے ساتھ فیصلے کا ذکر ہو کیوں کہ قرآن ہی اصل "جج" ہے۔
3۔ قرآن کریم میں ہے:
وَكَيْفَ يُحَكِّمُونَكَ وَعِنْدَهُمُ التَّوْرَاةُ
"یہ آپ کو کیسے فیصل بنا سکتے ہیں جبکہ ان کے پاس تورات ہے۔۔۔"
محمد شیخ صاحب صرف اس قوم کی کچھ ہسٹری قرآن کریم سے بتا دیں جو اس آیت میں ذکر ہوئی ہے تاکہ ہم اس قوم سے جا کر پوچھ لیں کہ تورات کیا ہے؟ یہاں یہ یاد رہے کہ یہ قوم اس ہستی کے زمانے میں موجود تھی جس پر قرآن نازل ہوا ہے۔ یہ اسی آیت سے معلوم ہو رہا ہے۔ لہذا ہسٹری بھی کم از کم ایسی بتانی ہے کہ ہم ان سے جا کر پوچھ سکیں۔

اب جبکہ ہم اتنا مان ہی چکے ہیں کہ قرآن کریم میں موسیٰؑ کے نام کے ساتھ تورات کا ذکر نہیں آیا تو یہ بات بھی محمد شیخ صاحب کی ہی مان لیتے ہیں کہ تورات کا مطلب قانون ہے۔ سوال یہ ہے کہ قانون کا مطلب کیا ہے؟
بلیک کی مشہور قانون کی ڈکشنری کہتی ہے:
That which must be obeyed and followed by
citizens, subject to sanctions or legal consequences,
is a "law."
"وہ چیز جس کا عوام پر عمل کرنا اور پیروی کرنا لازم ہو اور جو منظوری اور قانونی نتائج کو ثابت کرتی ہو۔"
موسیٰؑ پر جو کتاب نازل ہوئی اس کی صفت قرآن نے یہ بیان کی ہے:
وَكَتَبْنَا لَهُ فِي الْأَلْوَاحِ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ مَوْعِظَةً وَتَفْصِيلًا لِكُلِّ شَيْءٍ فَخُذْهَا بِقُوَّةٍ وَأْمُرْ قَوْمَكَ يَأْخُذُوا بِأَحْسَنِهَا سَأُرِيكُمْ دَارَ الْفَاسِقِينَ (145)
"اور اس کے لیے ہم نے تختیوں میں ہر چیز بطور نصیحت کے اور ہر چیز کی تفصیل کے طور پر لکھ دی لہذا اسے مضبوطی سے پکڑ اور اپنی قوم کو حکم کر کہ اس کی اچھی اچھی باتوں کو پکڑ لیں۔ میں عنقریب تمہیں نافرمانوں کا گھر دکھاؤں گا۔"
ہر چیز کی تفصیل قانون کی اصطلاح میں "سینکشن" ہے یعنی منظوری حاصل کرنے کے لیے ان تختیوں کو دیکھنا ہوگا۔ مضبوطی سے پکڑنے کا حکم اس پر عمل کرنے کا حکم ہے اور نافرمانوں کا گھر دکھانے کا ذکر قانونی نتائج کا ذکر ہے۔
اب جبکہ موسیٰؑ پر اتری ہوئی تختیوں اور کتاب میں یہ تمام صفات پائی جا رہی ہیں جو کسی قانون یا "لاء" میں ہوتی ہیں تو اسے محمد شیخ صاحب کے اپنے نظریے کے مطابق "تورات" یا "ٹوراہ" کہنے میں کیا حرج ہے؟؟؟
قرآن نے بلاواسطہ اس کا نام حضرت موسیٰؑ کے نام کے ساتھ ذکر نہیں کیا لیکن اللہ پاک نے بالواسطہ ساری صفات بتا کر وضاحت کردی کہ دونوں ایک ہی چیز ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ محمد شیخ اس سے ناواقف رہے۔ لیکن اس میں محمد شیخ صاحب کا قصور نہیں۔ بس انٹر سے ذرا آگے پڑھ کر ایل ایل بی کر لیتے تو یہ غلطی نہیں لگتی۔ یہ جہالت کی وجہ سے ہوتی ہے۔ اللہ معاف فرمائے۔

جاری ہے۔۔۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
بسم اللہ الرحمان الرحیم

پہلا پوائنٹ سنا۔ اس قدر بے تکی باتیں ہیں کہ سمجھ نہیں آتا کہ جواب کیا دیا جائے۔
سوال یہ ہے کہ قرآن میں موسیٰؑ کے ساتھ توراۃ نہیں آیا تو اس کا نام توراۃ کیوں دیا جاتا ہے؟
قرآن کریم میں لفظ توراۃ کا ذکر مختلف مقامات پر آیا ہے۔ ہم مان لیتے ہیں کہ حضرت موسیؑ پر جو کتاب نازل ہوئی وہ توراۃ نہیں تھی لیکن پھر محمد شیخ صاحب سے کرنے کے لیے کچھ سوالات پیدا ہوں گے (جن کا جواب تو وہ کبھی نہیں دیں گے)۔
1۔ قرآن کریم میں حضرت نبی کریم ﷺ کا نام گرامی "محمد" کہیں بھی "قرآن" کے ساتھ نہیں آیا۔ تو کیا محمد شیخ صاحب یہ ڈھونڈ کر بتا سکتے ہیں کہ یہ "قرآن" جس ہستی پر نازل ہوا ہے اس کا نام کیا ہے؟
2۔ قرآن کریم میں ہے:
وَأَنْزَلَ التَّوْرَاةَ وَالْإِنْجِيلَ (3)
"اس نے توراۃ اور انجیل نازل کیں۔"
ہمارا سوال صرف یہ ہے کہ اگر توراۃ اللہ نے نازل کی ہے تو کس پر؟ قطع نظر اس کے معنی کے کہ یہ کسی کتاب کا نام ہے یا قانون کو کہتے ہیں۔ ہم نے صرف یہ پوچھنا ہے کہ یہ نازل کس پر ہوئی؟
قرآن میں صرف اتنا ہے: "یحکم بہا النبیون"۔ یہ "نبیون" اگرچہ اتنا جمع نہیں ہے جتنا زور سے محمد شیخ صاحب نے اسے بولا تھا۔ یہ جمع قلت ہے لیکن محمد شیخ صاحب کی انٹر کی ڈگری کو دیکھتے ہوئے (جیسا کہ خود فرمایا ہے) ہم جمع قلت و جمع کثرت کی بات کو اسکپ کر دیتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ صرف تین انبیاء کا نام قرآن کریم سے بتا دیں جنہوں نے تورات کو سامنے رکھ کر فیصلہ کیا ہو۔ اور اگر وہ فیصلے بھی بتا دیں تو کیا ہی بات ہے۔ لیکن بتانے قرآن کریم سے ہیں جہاں صراحتاً نام کے ساتھ فیصلے کا ذکر ہو کیوں کہ قرآن ہی اصل "جج" ہے۔
3۔ قرآن کریم میں ہے:
وَكَيْفَ يُحَكِّمُونَكَ وَعِنْدَهُمُ التَّوْرَاةُ
"یہ آپ کو کیسے فیصل بنا سکتے ہیں جبکہ ان کے پاس تورات ہے۔۔۔"
محمد شیخ صاحب صرف اس قوم کی کچھ ہسٹری قرآن کریم سے بتا دیں جو اس آیت میں ذکر ہوئی ہے تاکہ ہم اس قوم سے جا کر پوچھ لیں کہ تورات کیا ہے؟ یہاں یہ یاد رہے کہ یہ قوم اس ہستی کے زمانے میں موجود تھی جس پر قرآن نازل ہوا ہے۔ یہ اسی آیت سے معلوم ہو رہا ہے۔ لہذا ہسٹری بھی کم از کم ایسی بتانی ہے کہ ہم ان سے جا کر پوچھ سکیں۔

اب جبکہ ہم اتنا مان ہی چکے ہیں کہ قرآن کریم میں موسیٰؑ کے نام کے ساتھ تورات کا ذکر نہیں آیا تو یہ بات بھی محمد شیخ صاحب کی ہی مان لیتے ہیں کہ تورات کا مطلب قانون ہے۔ سوال یہ ہے کہ قانون کا مطلب کیا ہے؟
بلیک کی مشہور قانون کی ڈکشنری کہتی ہے:
That which must be obeyed and followed by
citizens, subject to sanctions or legal consequences,
is a "law."
"وہ چیز جس کا عوام پر عمل کرنا اور پیروی کرنا لازم ہو اور جو منظوری اور قانونی نتائج کو ثابت کرتی ہو۔"
موسیٰؑ پر جو کتاب نازل ہوئی اس کی صفت قرآن نے یہ بیان کی ہے:
وَكَتَبْنَا لَهُ فِي الْأَلْوَاحِ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ مَوْعِظَةً وَتَفْصِيلًا لِكُلِّ شَيْءٍ فَخُذْهَا بِقُوَّةٍ وَأْمُرْ قَوْمَكَ يَأْخُذُوا بِأَحْسَنِهَا سَأُرِيكُمْ دَارَ الْفَاسِقِينَ (145)
"اور اس کے لیے ہم نے تختیوں میں ہر چیز بطور نصیحت کے اور ہر چیز کی تفصیل کے طور پر لکھ دی لہذا اسے مضبوطی سے پکڑ اور اپنی قوم کو حکم کر کہ اس کی اچھی اچھی باتوں کو پکڑ لیں۔ میں عنقریب تمہیں نافرمانوں کا گھر دکھاؤں گا۔"
ہر چیز کی تفصیل قانون کی اصطلاح میں "سینکشن" ہے یعنی منظوری حاصل کرنے کے لیے ان تختیوں کو دیکھنا ہوگا۔ مضبوطی سے پکڑنے کا حکم اس پر عمل کرنے کا حکم ہے اور نافرمانوں کا گھر دکھانے کا ذکر قانونی نتائج کا ذکر ہے۔
اب جبکہ موسیٰؑ پر اتری ہوئی تختیوں اور کتاب میں یہ تمام صفات پائی جا رہی ہیں جو کسی قانون یا "لاء" میں ہوتی ہیں تو اسے محمد شیخ صاحب کے اپنے نظریے کے مطابق "تورات" یا "ٹوراہ" کہنے میں کیا حرج ہے؟؟؟
قرآن نے بلاواسطہ اس کا نام حضرت موسیٰؑ کے نام کے ساتھ ذکر نہیں کیا لیکن اللہ پاک نے بالواسطہ ساری صفات بتا کر وضاحت کردی کہ دونوں ایک ہی چیز ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ محمد شیخ اس سے ناواقف رہے۔ لیکن اس میں محمد شیخ صاحب کا قصور نہیں۔ بس انٹر سے ذرا آگے پڑھ کر ایل ایل بی کر لیتے تو یہ غلطی نہیں لگتی۔ یہ جہالت کی وجہ سے ہوتی ہے۔ اللہ معاف فرمائے۔

جاری ہے۔۔۔
یہاں تک تو بات اس بنیاد پر تھی کہ ہم وقتی طور پر محمد شیخ صاحب کی بات مان رہے تھے۔ ورنہ حقیقت یہ ہے کہ محمد شیخ صاحب کی بات غلط ہے اور تورات اسی کتاب کا نام ہے جو حضرت موسیٰؑ پر نازل ہوئی ہے۔
ہر زبان میں دو قسم کے اسم استعمال ہوتے ہیں:
اسمائے نکرہ: جنہیں انگلش میں کامن ناؤن کہا جاتا ہے۔ یہ کسی خاص چیز کے بارے میں نہیں بتاتے۔ عربی میں اس کی مثال: کتاب، اردو میں: ایک کتاب، انگریزی میں: اے بک
اسمائے معرفہ: جنہیں انگریزی میں پراپر ناؤن کہتے ہیں۔ یہ کسی خاص چیز کے بارے میں بتاتے ہیں۔ تینوں زبانوں میں اس کی عام فہم مثال کسی شخص کا نام ہے۔ مثلاً ہم جب محمد شیخ کہتے ہیں تو سننے والے کے ذہن میں وہ شخص آتا ہے جو اپنی عقل سے (کم علمی کے باوجود) اللہ کے کلام کو سمجھنے کا دعوی کرتا ہے۔ اسی طرح عربی میں جس کامن ناؤن کے شروع میں "ال" لگا ہوا ہو وہ بھی کسی خاص چیز کے بارے میں بتاتا ہے اور پراپر ناؤن بن جاتا ہے۔
قرآن کریم میں حضرت موسیٰؑ پر نازل ہونے والی کتاب کے بارے میں ذکر ہے:
وَإِذْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ وَالْفُرْقَانَ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ
"اور جب ہم نے موسی کو کتاب اور فرقان دیا تاکہ تم ہدایت حاصل کرو۔"
"کتاب" کہتے ہیں وہ صفحات جن میں کچھ لکھا ہو اور "فرقان" کہتے ہیں اس چیز کو جو دو چیزوں کے درمیان فرق واضح کرے۔ یہاں ان دونوں الفاظ پر "ال" لگا ہوا ہے اور "الکتاب" اور "الفرقان" ہیں۔ اب یہ پراپر ناؤن ہو گیا یعنی اس کتاب سے کوئی ایسی کتاب مراد ہے جس کا سب کو علم ہے۔
اس کے لیے انگریزی میں لفظ "دی" استعمال ہوتا ہے۔ The book is on the table. کا مطلب ہوتا ہے کہ کسی خاص کتاب کے بارے میں یہ بتایا گیا ہے کہ وہ ٹیبل کے اوپر ہے۔
جب قرآن کریم نازل ہوا تو اس میں "الکتاب" اور "الفرقان" کے الفاظ نازل ہوئے یعنی سننے والوں کو پتا تھا کہ کس کتاب کی بات ہو رہی ہے۔ اب اگر آج کے دور میں کوئی محمد شیخ صاحب جیسا شخص ہے جسے یہ نہیں پتا کہ یہاں کس کتاب کی بات ہو رہی ہے یا پتا تو ہے لیکن اس کے علاوہ کچھ پتا ہے جو قرآن کے نازل ہوتے وقت لوگوں کو پتا تھا تو ایسے شخص کے لیے صرف ایک ہی حل ہے۔ یا تو وہ کسی اور آیت میں اس کتاب کا نام ڈھونڈے اور یا پھر اس زمانے کے لوگوں سے پتا کرے۔ کسی اور آیت میں اس کتاب کا نام صراحتاً ہے نہیں اور اس زمانے کے لوگوں کا موقف جاننے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے کہ اس زمانے اور اس کے قریب کے زمانے کے تشریحات کرنے والوں کو پڑھا اور سنا جائے۔ اور یہ لوگ اس کتاب کا نام "تورات" بتاتے ہیں۔
محمد شیخ صاحب جیسے لوگ چاہے جتنے جتن کر لیں قرآن کریم نے یہاں "ال" لگا کر ان کے لیے کوئی طریقہ چھوڑا ہی نہیں ہے۔
اب اگر یہاں محمد شیخ صاحب یہ موقف اختیار کریں کہ یہ "ال" وغیرہ کی باتیں تو انسانوں کی کی ہوئی ہیں اور انسانوں کی باتوں کو لینا تو تحریف ہے تو ہم ان سے انتہائی احترام کے ساتھ صرف یہ پوچھیں گے کہ جن لوگوں کے ترجمے انہوں نے پڑھے ہیں ان میں کیا سرخاب کے پر لگے ہوئے تھے یا ان کے پاس جبریلؑ کا سرٹیفکیٹ تھا؟ اگر ایسا کچھ نہیں تھا تو پھر اس کا مطلب ہے کہ خلل کہیں اور ہے اور اس کے لیے ادویہ کی ضرورت ہے۔

قرآن کریم میں موسیٰؑ کی کتاب کا نام صراحتاً تو تورات مذکور نہیں کیوں کہ سب کو معلوم تھا کہ ان پر کون سی کتاب نازل ہوئی ہے لیکن اشارتاً موجود ہے۔
چنانچہ موسیؑ کی کتاب کے بارے میں یہ صفات مذکور ہیں:
وَآتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ وَجَعَلْنَاهُ هُدًى لِبَنِي إِسْرَائِيلَ
"اور ہم نے موسی کو کتاب دی اور اسے بنی اسرائیل کے لیے ہدایت بنایا۔"
وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ مِنْ بَعْدِ مَا أَهْلَكْنَا الْقُرُونَ الْأُولَى بَصَائِرَ لِلنَّاسِ وَهُدًى وَرَحْمَةً لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ (43)
"اور ہم نے بستیوں کو ہلاک کرنے کے بعد موسی کو کتاب دی جو لوگوں کے لیے بصیرت، ہدایت اور رحمت ہے تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔"
وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى الْهُدَى وَأَوْرَثْنَا بَنِي إِسْرَائِيلَ الْكِتَابَ (53)
"اور ہم نے موسی کو ہدایت دی اور بنی اسرائیل کو کتاب کا وارث بنایا۔"
وَمِنْ قَبْلِهِ كِتَابُ مُوسَى إِمَامًا وَرَحْمَةً
"اور اس سے پہلے موسی کی کتاب بطور رہنما اور رحمت کے تھی۔"

ان آیتوں سے معلوم ہوا کہ موسیٰؑ کی کتاب کی خصوصیات مندرجہ ذیل تھیں:
1۔ ہدایت تھی۔
2۔ بصیرت تھی۔
3۔ رحمت تھی۔
4۔ رہنما تھی۔
5۔ اس کے وارث بنی اسرائیل تھے۔
6۔ پہلے جواب کے ضمن میں ہم بتا چکے ہیں کہ بنے اسرائیل کو اس کی عمدہ عمدہ باتوں کو پکڑنے کا حکم بھی تھا۔

اب جب نبی کریم ﷺ کے ذریعے بنی اسرائیل کو ایک کتاب سامنے لا کر پڑھنے کا کہا گیا تو اللہ پاک نے فرمایا:
قُلْ فَأْتُوا بِالتَّوْرَاةِ فَاتْلُوهَا إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ (93)
"آپ کہہ دیجیے کہ تورات لاؤ اور اس کی تلاوت کرو اگر تم سچے ہو۔"
قُلْ يَاأَهْلَ الْكِتَابِ لَسْتُمْ عَلَى شَيْءٍ حَتَّى تُقِيمُوا التَّوْرَاةَ وَالْإِنْجِيلَ وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ
"آپ کہہ دیجیے کہ اے اہل کتاب! تم ہرگز کسی چیز پر نہیں ہو سکتے یہاں تک کہ تم تورات اور انجیل اور جو تمہاری طرف تمہارے رب کی طرف سے نازل کیا گیا ہے، کو قائم نہ کرو۔"
رب کی طرف سے نازل کیا ہوا تو قرآن پاک ہے، انجیل معروف ہے یہ تورات اگر موسیٰؑ کی کتاب نہیں ہے تو پھر یہ کون سی ایسی کتاب اور ایسا قانون ہے کہ اللہ نے موسیٰؑ کی کتاب کی اتنی صفات بیان کر کے مناظرے میں اسے لانے کو کہہ دیا؟ جو کتاب رہنما تھی، ہدایت تھی، رحمت تھی، بصیرت تھی، جس کو مضبوطی سے پکڑنے کا نبی کو بھی حکم تھا اور امت کو بھی، اسے سائیڈ پر رکھ کر ایک ایسے قانون کو منگوا لیا جسے کوئی جانتا ہی نہیں ہے کہ وہ ہے کیا اور کس پر اترا؟
مزید یہ کہ جب عمل کرنے کا اور رہنما بنانے کا حکم دیا تھا تو الگ کتاب کا دیا تھا اور جب "ڈسکس" میں لانے کا کہا تو ایک غیر متعلق کتاب منگوا لی؟ کیوں؟ اسے مجلس میں پڑھنے کا کیا فائدہ تھا جب اس پر عمل کا حکم ہی نہیں تھا؟
یقیناً کوئی عقلمند ایسی بات نہیں کر سکتا سوائے محمد شیخ صاحب کے (اور یہ استثنیٰ عقلمندی میں نہیں ہے، صرف بات کرنے میں ہے ورنہ آنجناب نے تو کئی ایسی باتیں کی ہیں جن سے لگتا ہے کہ انٹر کے بعد خود کالج والوں نے نکال دیا ہوگا۔)
لہذا ان آیات کے طرز سے بھی یہی پتا چلتا ہے کہ موسیٰؑ پر نازل ہونے والی کتاب ہی تورات تھی۔

خلاصہ یہ ہے ہمارے پاس تورات اور موسیؑ کے کتاب کے ایک ہونے پر تین مضبوط دلائل ہیں:
1۔ اگر تورات کا مطلب قانون سمجھا جائے تو موسیٰؑ کی کتاب قانون کی تعریف پر پوری اترتی ہے۔
2۔ قرآن کریم میں لفظ کتاب کے شروع میں "ال" لگا ہوا ہے جس سے پتا چلتا ہے کہ اس زمانے کی معروف کتاب کا ذکر ہے اور اس کا علم اسی زمانے والوں یا اس کے قریب کے زمانے والوں سے ہی ہو سکتا ہے۔
3۔ موسیؑ کی کتاب کی کئی صفات بیان کر کے اور بنی اسرائیل کو اس کا وارث بنا کر مناظرے میں "تورات" منگوائی گئی ہے جس سے یہ پتا چلتا ہے کہ یہ صفات "تورات" کی ہی تھیں اور اسی پر عمل کرنے کا حکم تھا۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
@اشماریہ بھائی نے شروع کیا ہے، ان شاء اللہ، وہ اسے آگے بڑھاتے ہیں!
میں اتنا عرض کرنا چاہوں گا کہ یہ خود کہہ ر ہاہے کہ اسے عربی گرامر نہیں آتی، صرف ڈکشنری سے الفاظ کے معنی دیکھ کر ترجمہ کرنے کی جسارت کرتا ہے، اس کو اتنا نہیں معلوم کہ جملہ کے معنی اور الفاظ کے لغوی معنی میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے! یہ لغت کو PUZZLE کا کھیل سمجھ کر الفاظ کے لغوی معنی سے جملہ کا ترجمہ کرنے کو اپنا کارنامہ سمجھتے ہیں!
اب یہ خود کہتا ہے کہ قرآن PROPER NOUN ہے، اور اس کا معنی یہ ہے!
اب کوئی یہ پوچھے کہ PROPER NOUN کا ترجمہ کرنے کا مشورہ کس حکیم نے دیا ہے!
اسی طرح التوراة PROPER NOUN ہے ، لہٰذا اس کا معنی کیا ہے یہ اہم نہیں ، بلکہ معلوم کیا جائے گا کہ یہ کس کا یا کس چیز کا نام ہے!
اب موسی بھی تو ایک نام ہے، تو کیا اس کا بھی لغوی معنی نکال کر کہا جائے کہ موسی علیہ السلام کسی ایک مخصوص انسان کا نام نہیں بلکہ ہر اس شخص کو کہتے ہیں جس میں موسی کے معنی کا وصف پایا جائے؟
جیسے اس بندہ کا اپنا نام محمد شیخ ہے!
اب کیا انگریزی میں اس کے نام کا ترجمہ کیا جائے گا، کہ"OLDMAN WHO IS PRAISED"؟
اب اگر ایسا کیا جائے تو کیا جب اسے یہ نام دیا گیا تھا، اس وقت یہ OLDMAN تھا ؟ جب کہ نام تو اس کا اس وقت بھی یہی تھا جب یہ بچہ تھا!
 
Last edited:
شمولیت
ستمبر 21، 2017
پیغامات
548
ری ایکشن اسکور
14
پوائنٹ
61
میں نے تقریباً ایک گھنٹہ کی وڈیو دیکھی ہے۔ مجھے ایسا محسوس ہؤا کہ یہ کہنا چاہ رہا ہے کہ ہر نبی پر یہی قرآن نازل ہؤا ہے۔ وہ جابجا کہتا ہے کہ میں بنی اسرائیل ہوں۔
اس نے دراصل قرآن میں موجود لفظ ’’الکتاب‘‘ جو کہ تقریباً 150 آیات میں آیا ہے اس پر محن کی ہوئی ہے اور ان آیات کو رٹا ہؤا ہے۔ کہیں پھنستا ہؤا محسوس کرتا ہے فوراً گفتگو کا رخ دوسری آیت کی طرف موڑ دیتا ہے۔ بیچ بیچ میں الزامات بھی عائد کرتا ہے مخاطب کے الفاظ کی غلط تأویل کرتے ہوئے۔ واللہ اعلم
بھائی اشماریہ کی بات ٹھیک معلوم ہوتی ہے کہ جو متذبذب ہو اسے سمجھا دیا جائے خواہ مخواہ اس پر رد کی ضرورت نہیں۔
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,121
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

بے اصل فتنہ

اس طرح کےفتنے ہر دور میں جنم لیتے رہے ہیں لیکن حق کی مسلسل چوٹیں ایسے فتنوں کو ہمیشہ پاش پاش کرتی آئیں ہیں ۔ ویسے تو اس مخصوص شخص نے قرآن مجید کی باطل تاویلات اور معنوی تحریفات کر کےیہ ثابت کرنے سے بھی دریغ نہیں کیا کہ قرآن مجید زمانہ ٔ نزول سے لے کر اب تک ایک لاینحل معمہ تھا جو اللہ تعالٰی نے اس کی وساطت سے پوری طرح اُمت پر کھول دیا ہے۔اس مخصوص شخص کی باتوں کا تجزیہ کر کے یہی لگتا ہے کہ اس کی نظر میں بھی قرآن مجید کا کھلے الفاظ میں انکار نا ممکن ہے تو کیوں نہ اس کے بنیادی اور متواترہ تعلیمات ہی کو مشتبہ بنا کر دور درازتاویلات کے سہارے ایک ایسی صورت نکالی جائے کہ جس سے عوام میں تشویش کی ایک لہر بھی دوڑ جائے اور ساتھ ساتھ ان کا ایمان بھی متزلزل ہو جائے۔ اس مخصوص شخص کا مطالعۂ قرآن اتنا محدود، ناقص اور سطحی ہے کہ اہلِ علم کے لیے اس کی محض ابتدائی گفتگو ہی اس کے اناڑی پن کا واضح اورقطعی ثبوت فراہم کر دیتی ہے۔

اس کی تمام باتوں کا حر ف بہ حرف جواب دیا جا سکتا ہے لیکن ہم اس مخصوص شخص کی طرف سے فقط حضرت مریم علیہا السلام کے Hermaphrodite یعنی ”مخنث“( نعوذ باللہ من ذالک) ہونے اور ان کا حضرت مسیح علیہ السلام کا ماں اور باپ دونوں ہونے کی تردید خود قرآن مجید سے ثابت کرتے ہیں۔

اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے کہ :-
إِذْ قَالَتِ امْرَأَتُ عِمْرَانَ رَبِّ إِنِّي نَذَرْتُ لَكَ مَا فِي بَطْنِي مُحَرَّرًا فَتَقَبَّلْ مِنِّي ۖ إِنَّكَ أَنتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ ﴿٣٥﴾ فَلَمَّا وَضَعَتْهَا قَالَتْ رَبِّ إِنِّي وَضَعْتُهَا أُنثَىٰ وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا وَضَعَتْ وَلَيْسَ الذَّكَرُ كَالْأُنثَىٰ ۖ وَإِنِّي سَمَّيْتُهَا مَرْيَمَ وَإِنِّي أُعِيذُهَا بِكَ وَذُرِّيَّتَهَا مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ ﴿٣٦﴾
جب عمران کی عورت کہہ رہی تھی کہ، ”میرے پروردگار! میں اس بچے کو جو میرے پیٹ میں ہے تیری نذر کرتی ہوں، وہ تیرے ہی کام کے لیے وقف ہوگا میری اس پیشکش کو قبول فرما تو سننے اور جاننے والا ہے“ پھر جب وہ بچی اس کے ہاں پیدا ہوئی تو اس نے کہا ”مالک! میرے ہاں تو لڑکی پیدا ہو گئی ہے حالانکہ جو کچھ اس نے جنا تھا، اللہ کو اس کی خبر تھی اور لڑکا لڑ کی کی طرح نہیں ہوتا خیر، میں نے اس کا نام مریمؑ رکھ دیا ہے اور میں اسے اور اس کی آئندہ نسل کو شیطان مردود کے فتنے سے تیری پناہ میں دیتی ہوں“۔
قرآن : سورۃ آلِ عمران: آیت نمبر 36-35

یہاں پہلا نقطہ غور کرنے کے لائق یہ ہے کہ اس آیت میں حضرت مریم علیہا السلام کی جنس کا معاملے سرے سے زیر ِ بحث ہی نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالٰی
فَلَمَّاوَضَعَتْهَافرما تا ہے جس سےصاف معلوم ہوتا ہے کہ آیت میں ” ھا “ کی ضمیر حضرت مریم علیہا السلام کے لڑکی ہونے پر قطعی دلالت کرتی ہے ۔
دوسرا نقطہ یہ کہ جناب عمران کی بیوی(
حنّہ ) کو ہر گز اس بات کا شائبہ نہیں تھا کہ میں نے ایک لڑکی کی بجائےکسی اورکو جنم دیا ہے بلکہ وہ لفظِ ”انثیٰ“ فرما کر پوری صراحت کے ساتھ حضرت مریم علیہا السلام کے لڑکی ہونے کو واضح کرتی ہیں۔

دراصل اس مخصوص شخص نے جان بوجھ کر
وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا وَضَعَتْ وَلَيْسَ الذَّكَرُ كَالْأُنثَىٰکے ذریعے دھوکا دینے کی نا کام کوشش کی ہے کہ جناب عمران کی بیوی(حنّہ ) حضرت مریم علیہا السلام کی جنس سے بے خبر یا شک میں مبتلا تھیں جس پر اللہ تعالٰی نے وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا وَضَعَتْ وَلَيْسَ الذَّكَرُ كَالْأُنثَىٰکہہ کر ان کے مخنث ہونے کی طرف اشارہ فرما کر ان کو تسلی دی۔

لیکن یہاں ایک سوال اُبھرتا ہے کہ اگر جناب عمران کی بیوی کو حضرت مریم علیہا السلام کی جنسیت کے متعلق شبہ تھا تو اللہ تعالٰی نےحضرت مریم علیہا السلام کے متعلق
”ولیس الذکر کالانثیٰ“ والے الفاظ ہی کیوں ارشاد فرمائے؟ کیوں نہ صاف صاف کہہ دیا کہ جنم لینے والی لڑکی نہیں، بلکہ دراصل ایک مخنث ہے؟

اس کا جواب ہے کہ در حقیقت
وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا وَضَعَتْ وَلَيْسَ الذَّكَرُ كَالْأُنثَىٰکہنے کا پسِ منظر یہ تھا کہ:-
”حضرت مریم کی والدہ نے جو منت مانی تھی وہ اس توقع سے مانی تھی کہ ان کے ہاں لڑکا پیدا ہوگا۔ کیونکہ اس عہد میں لڑکے تو اللہ کی عبادت کے لیے وقف کئے جاتے تھے۔ مگر لڑکیوں کو وقف کرنے کا رواج نہ تھا۔ مگر ہوا یہ کہ لڑکے کی بجائے لڑکی پیدا ہوئی تو انہیں اس بات پر افسوس ہونا ایک فطری امر تھا۔ اس آیت میں محرر کا لفظ آیا ہے۔ جس کا لغوی معنی ' آزاد کردہ ' ہے یعنی ایسا بچہ جسے والدین نے تمام ذمہ داریوں سے سبکدوش کردیا ہو تاکہ وہ یکسو ہو کر اللہ کی عبادت کرسکے۔ یہود میں دستور تھا کہ وہ اس طرح کے منت مانے ہوئے وقف شدہ بچوں کو بیت المقدس یا ہیکل سلیمانی میں چھوڑ جاتے اور انہیں ہیکل سلیمانی یا عبادت خانہ کے منتظمین جنہیں وہ اپنی زبان میں کاہن کہتے تھے، کے سپرد کر آتے تھے۔

یہ
( ولیس الذکر کالانثیٰ)بطور جملہ معترضہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مریم کو یہ کہہ کر تسلی دی ہے کہ یہ لڑکی لڑکے سے بدرجہا افضل ہے۔ حتیٰ کہ کوئی بھی لڑکا اس لڑکی کے جوڑ کا نہیں۔ لہذا افسوس کرنے کی کوئی بات نہیں۔“

اس کے بعد تھوڑا آگے چل کر اللہ تعالٰی کا ارشاد ہوتا ہے :-

وَإِذْ قَالَتِ الْمَلَائِكَةُ يَا مَرْيَمُ إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَاكِ وَطَهَّرَكِ وَاصْطَفَاكِ عَلَىٰ نِسَاءِ الْعَالَمِينَ ﴿٤٢﴾
پھر وہ وقت آیا جب مریم علیہا السلام سے فرشتوں نے آکر کہا، "اے مریمؑ! اللہ نے تجھے برگزیدہ کیا اور پاکیزگی عطا کی اور تمام دنیا کی عورتوں پر تجھ کو ترجیح دے کر اپنی خدمت کے لیے چن لیا۔
قرآن : سورۃ آلِ عمران: آیت نمبر 42
یہ آ یت تو پوری صراحت کے ساتھ حضرت مریم علیہا السلام کو ”عورت“ ثابت کر دیتی ہے۔ کیونکہ اللہ تعالٰی دنیا جہان کی عورتوں پر حضرت مریم علیہا السلام کی فضیلت ثابت فرما رہا ہے۔ اگر حضرت مریم علیہا السلام (نعوذ باللہ) مخنث ہوتیں تو اللہ تعالٰی انکو عورتوں پر فضیلت دینے کی بجائے دنیا بھر کے مخنثوں پر فضیلت دیتا ۔

اس ضمن میں اس مخصوص شخص نے سورۃالاحزاب کی آیت
ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِندَ اللَّهِ ۚسے بھی غلط استدلال کرتے ہوا کہا ہے کہ بیٹوں کو ان کے باپ کے نام سے پکارا جائے۔ اب چونکہ حضرت مسیح علیہ السلام کے والد نہ تھے اس لیے حضرت مریم علیہا السلام ہی ان کی والدہ اور والد دونوں ہوئیں۔

عرض ہے کہ قرآن مجید حضرت مسیح علیہ السلام کے باپ کے بغیرپیدا ہونے کے معجزے کو پوری وضاحت سے بیان کرتا ہے ۔ اب جبکہ حقیقت یہی ہے تو اس آیت کاا طلاق حضرت مسیح علیہ السلام پر کیونکر صحیح ہو سکتا ہے؟ اعتراض کی گنجائش تو اس صورت میں تھی جبکہ حضرت مسیح علیہ السلام کا کوئی باپ ہوتا اور ان کو باپ کی نسبت کی بجائے، ماں کی نسبت سے پکارا جاتا۔

اس مخصوص شخص کی کاروائی کچھ ایسی ہی معلوم ہوتی ہے کہ پہلے ایک غلط مقدمہ از خود ذہن سے گھڑتا ہے اور پھر قرآن مجید کی آیات کو اس کے سیاق و سباق سے کاٹ کر معنوی تحریف کر کے ایک نظریئے کو جنم دیتا ہے ۔لطف یہ ہے کہ اپنی بات کی تائید میں کوئی قرآنی شہادت دینے کی بجائے محض اپنے ہی ذہن کے غیرمنطقی و غیرعقلی خیال و گمان کو بطورِ دلیل پیش کر دیتا ہے جسے وہ خود بھی مانتا ہے اور دوسروں کو بھی ماننے پر مجبور کرتا ہے ۔

ذرا ٹھنڈے دل ودماغ سے اسی بات پر غور کریں کہ قرآن مجید میں کہاں آیا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کی والدہ اور والد دونوں حضرت مریم علیہا السلام ہی ہیں؟

دوسرا یہ کہ قرآن مجید کی کس آیت میں اس بات کا ثبوت موجود ہے کہ حضرت مریم علیہا السلام کو Hermaphrodite یعنی” مخنث“ کہا گیا ہے ؟

جب اس مخصوص شخص کے اس نظریہ میں کوئی دم نظر نہیں آتا تو دوسرے نظریات کا حال بھی اس سے کچھ مختلف نہ ہو گا۔ اس لیے ہم نے فقط ایک ہی نظریئے کی تردید کرنے پر اکتفاء کیا ہے۔

آخر میں ہم ایسے لوگوں سے یہی گزارش کر سکتے ہیں کہ اگر آپ کھلے الفاظ میں قرآن مجید کا انکار کرنا چاہتے ہیں تو شوق سے کریں ، ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔ لیکن خُدارا! قرآن مجید کی باطل و گمراہ کن تاویلا ت کے ذریعے قرآن و سنت کی بنیادی اور اعتقادی تعلیمات کو مشتبہ بنا کر وہ کار نامہ سر انجام تو نہ دیں جس سے کفارِ مکہ بھی عاجز تھے۔

 
Top