• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مروان بن حکم کے بارے میں تفصیل درکار ہے ؟

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
مجھے بھی مروان بن حکم سے متعلق تحقیق درکار ہے
ایک روایت ہے
وربِّ هذَا البيتِ لقدْ لعنَ اللهُ الحكَمَ وما وَلدَ على لسانِ نبيهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلمَ
حضرت عبدالله بن زبيرسے روایت ہے کہ رب کعبہ کی قسم اللہ نےاپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان مبارک سے حکم اور اس کی اولاد پر لعنت کی ہے
اس روایت کی تحقیق درکار ہے
پہلی بات تو یہ کہ حافظ البزاراس روایت کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں :
قَالَ الْبَزَّارُ: لا نَعْلَمُهُ، عَنِ ابْنِ الزُّبَيْرِ إِلا بِهَذَا الإِسْنَادِ ‘‘یعنی ابن الزبیر کا یہ کلام صرف اسی سند سے منقول ہے ‘‘
امام البزار ؒ کی اس بات میں نکتہ یہ ہے کہ ابن الزبیر کے ان الفاظ کو نقل کرنے میں امام عبد الرزاق متفرد ہیں ،
اور علامہ الذہبی ؒ تاریخ اسلام میں امام عبد الرزاق کے ترجمہ میں لکھتے ہیں :
قلت: عبد الرّزّاق راوية الإسلام، وهو صدوق في نفسه. وحديثه مُحْتَجٌّ بِهِ في الصِّحاح. ولكن ما هُوَ ممّن إذا تفرّد بشيء عُدّ صحيحًا غريبًا. بل إذا تفرّد بشيء عدّ منكرا.
کہ عبد الرزاق بے شک اسلام کے راوی ہیں اور فی نفسہ صدوق ہیں ،اور ان کی روایات سے صحاح میں استدلال کا عالی مقام بھی حاصل ہے ،تاہم جب وہ کسی چیز میں متفرد ہوں تو وہ صحت کے ساتھ ساتھ غریب بھی ہوتی ہے ،بلکہ کئی دفعہ ان کے تفرد والی روایت منکر شمار ہوتی ہے ۔انتہی

عبد اللہ بن الزبیر کی روایت جسے بعض محدث صحیح کہتے ہیں ،لیکن علامہ ذہبی رحمہ اللہ ’’ سیر اعلام النبلاء ‘‘ میں حکم بن العاص کے ترجمہ میں اس روایت کو نقل کرنے سے پہلے فرماتے ہیں کہ :
’’ ويروى في سبه أحاديث لم تصح ‘‘
وعن النبي -صلى الله عليه وسلم- قال: (ما لي أريت بني الحكم ينزون على منبري نزو القردة (3) !) .
رواه: العلاء بن عبد الرحمن، عن أبيه، عن أبي هريرة.
وفي الباب أحاديث.
قال الشعبي: سمعت ابن الزبير يقول:
ورب هذه الكعبة، إن الحكم بن أبي العاص وولده ملعونون على لسان محمد -صلى الله عليه وسلم-.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس روایت پر بہت کچھ لکھا گیا ہے ،تاہم دو تین بنیادی باتیں قابل توجہ ہیں ۔
حکم بن العاص بہرحال صحابی ہیں ،تو ایسا کون سا گناہ کیا تھا جس کے سبب ان پر لعنت کی گئی ۔اور ان کی اولادپر بھی جس کے گناہ کا علم ہی نہیں،
حافظ الذہبی جیسا عظیم عالم صرف اتنا کہہ سکا :
’’ قيل يُفْشي سرَّ رسول الله صلى الله عليه وسلّم فطرده وسبّه‘‘ یعنی کہا جاتا ہے کہ حکم نے نبی کریم ﷺ کا کوئی راز افشاء کیا تھا جس کے سبب ان کو شہر بدری کی سزا ملی اور ان کی برائی کی گئی ۔‘‘
یعنی الزام بھی قیل سے اور سزا بھی قیل سے
اسی لئے حافظ ذہبی رحمہ اللہ ۔۔تاریخ الاسلام ۔۔میں فرماتے ہیں کہ :
’’ وقد رُوِيَت أحاديث مُنْكرة في لَعْنه لَا يجوز الاحتجاج بها، وليس له في الجملة خصوص الصُّحبة بل عمومها.‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوسری قابل توجہ اہم بات یہ کہ بالفرض اگر ان پر رسول اللہ ﷺ نے لعنت کی بھی تھی ،تو بھی ان پرلعنت پڑی نہیں ،کیونکہ اس دور کے اہل ایمان کیلئے پیغمبر ﷺ کی لعنت بھی دعاء خیر میں بدل دی گئی ہے :
عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: دَخَلَ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلَانِ فَكَلَّمَاهُ بِشَيْءٍ، لَا أَدْرِي مَا هُوَ فَأَغْضَبَاهُ، فَلَعَنَهُمَا، وَسَبَّهُمَا، فَلَمَّا خَرَجَا، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ مَنْ أَصَابَ مِنَ الْخَيْرِ شَيْئًا، مَا أَصَابَهُ هَذَانِ، قَالَ: «وَمَا ذَاكِ» قَالَتْ: قُلْتُ: لَعَنْتَهُمَا وَسَبَبْتَهُمَا، قَالَ: " أَوَ مَا عَلِمْتِ مَا شَارَطْتُ عَلَيْهِ رَبِّي؟ قُلْتُ: اللهُمَّ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ، فَأَيُّ الْمُسْلِمِينَ لَعَنْتُهُ، أَوْ سَبَبْتُهُ فَاجْعَلْهُ لَهُ زَكَاةً وَأَجْرًا "(صحیح مسلم کتاب البر و الصلۃ )
ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ دو شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور میں نہیں جانتی کہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا باتیں کیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو غصہ آ گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں پر لعنت کی اور ان کو برا کہا۔ جب وہ باہر نکلے تو میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! ان دونوں کو کچھ فائدہ نہ ہو گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیوں؟ میں نے عرض کیا کہ اس وجہ سے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر لعنت کی اور ان کو برا کہا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تجھے معلوم نہیں جو میں نے اپنے رب سے شرط کی ہے؟۔ میں نے عرض کیا ہے کہ اے میرے مالک! میں بشر ہوں، تو جس مسلمان پر میں لعنت کروں یا اس کو برا کہوں تو اس کو پاک کر اور ثواب دے۔‘‘
 
Last edited:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
محترم @عبد اللہ بن عبد الرشید بھائی
پوسٹ نمبر ۲۲ میں کچھ تدوین کی ہے لہذا اس دوبار ملاحظہ کریں ؛
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
محترم بهائي
يه صلاح الدين صاحب (حفظه الله) كي كونسي كتاب ہے؟
حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ کی کتاب ’’ خلافت و ملوکیت کی شرعی حیثیت ‘‘ ہے؛
ڈاون لوڈ کر کے پڑھیں بڑی مفید کتاب ہے ؛؛
 
شمولیت
جنوری 23، 2015
پیغامات
63
ری ایکشن اسکور
31
پوائنٹ
79
مروان بن حکم رحمہ اللہ

ان کے بارے میں یہ اختلاف ہے کہ یہ صحابی ہیں یا تابعی۔ ان کے والد حکم بن ابی العاص کو ان کی اسلام دشمنی کے سبب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے طائف میں جلا وطن کر دیا تھا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو نہایت نرمی کے ساتھ اپنے قبیلے اور خاندان کے لوگوں کو اسلام میں لانے کا شوق تھا، اس وجہ سے انہوں نے ان کی سفارش کی اور یہ اسلام قبول کر کے مکہ واپس آ گئے۔ مروان ایک بڑے عالم اور عبادت گزار آدمی تھے اور ان کی تربیت براہ راست اکابر صحابہ کے ہاتھوں ہوئی تھی۔ امام مالک رحمہ الله نے موطاء میں مروان کے متعدد عدالتی فیصلوں کو بطور "سنت ثابتہ" درج کیا ہے۔

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے مروان کو کوئی سرکاری عہدہ نہیں دیا البتہ ان سے کتابت کی خدمات لیتے رہے۔ سرکاری خطوط اور فرامین وغیرہ ان سے لکھواتے ۔ ظاہرہے کہ یہ کوئی ایسا عہدہ نہیں ہے جس پر اعتراض ہو سکے۔ بعض حضرات نے انہیں حضرت عثمان کا سیکرٹری کہا ہے اور ان پر یہ الزام عائد کیا ہے کہ انہوں نے اپنے عہدے کا ناجائز فائدہ اٹھایا۔ حقیقت یہ ہے کہ مروان کو زیادہ سے زیادہ حضرت عثمان کا "پرسنل سیکرٹری" کہا جا سکتا ہے نہ کہ "سیکرٹری آف دی اسٹیٹ۔" ان کی ملازمت کی نوعیت کلیریکل نوعیت کی تھی کہ حضرت عثمان جو فیصلہ لکھوانا چاہیں، ان سے لکھوا لیں۔ انہیں کوئی انتظامی اختیارات حاصل نہ تھے، جس سے وہ فائدے اٹھا سکتے۔

جب باغیوں نے مدینہ کا محاصرہ کیا تو مروان ، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پرجوش حامی بن کر ابھرے۔ یہ ان لوگوں میں سے تھے جو تلوار کے ذریعے باغیوں کا فیصلہ کرنا چاہتے تھے۔ باغیوں کے ساتھ ایک جھڑپ میں یہ شدید زخمی بھی ہوئےجو کہ ان کے خلوص کا ثبوت ہے۔ طبری کی روایات میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ان پر تنقید موجود ہے۔ یہ تنقید بھی ان کے حد سے بڑھے جوش سے متعلق ہے ورنہ بعد میں خود حضرت علی کی دو بیٹیوں کی شادیاں مروان کے دو بیٹوں سے ہوئیں۔ اس کی تفصیل ہم آگے بیان کریں گے۔ چونکہ بعد میں مروان خود ایک سال کے لیے خلیفہ بنے اور ان کے بعد ان کے بیٹوں اور پوتوں میں خلافت منتقل ہوئی جن کے خلاف باغی مسلسل تحریک چلاتے رہے، اس وجہ سے ان کے خلاف روایتیں وضع کر کے ان کی کردار کشی کی گئی

http://www.mubashirnazir.org/ER/0025-History/L0025-04-06-Uthman.htm
"ورنہ بعد میں خود حضرت علی کی دو بیٹیوں کی شادیاں مروان کے دو بیٹوں سے ہوئیں"


اسكی بھی ذرا تفصیل مل جائے تو بہت بهتر ہو۔
جزاکم اللہ خیرا
 

HUMAIR YOUSUF

رکن
شمولیت
مارچ 22، 2014
پیغامات
191
ری ایکشن اسکور
56
پوائنٹ
57
مروان رحمہ اللہ کے بارے میں علمائے دیوبند کا ایک فتویٰ
Marwan 1.jpg

Marwan 2.jpg

Marwan 3.jpg
 

HUMAIR YOUSUF

رکن
شمولیت
مارچ 22، 2014
پیغامات
191
ری ایکشن اسکور
56
پوائنٹ
57
موطا شریف ، صحیح بخاری، سنن نسائی وغیرہ صحاح کی عظیم ترین کتابوں میں حضرت مروان رحمہ اللہ کے ارشادات، فتاویٰ اور قانونی فیصلے مندرج ہیں اور انہیں فقہائے اسلام شرعی نظائر کی حیثیت دیتے ہیں، گویا اسلامی فقہ میں حضرت مروان کی حیثیت بہت بڑی ہے۔ حافظ ابن حجر ہدی الساری میں لکھتے ہیں۔

قال عروہ بن الزبیر کان مروان لایتھم فی الحدیث و قدروی عنہ سھل بن سعد الساعدی الصحابی اعتمادا علی صدقہ وقد اعتمد ما لک علیٰ حدیثہ ورایہ والیاقون مری مسلم۔

ترجمہ"حضرت عروہ بن زبیر رض نے کہا کہ مروان (رحمہ اللہ) حدیث میں غیر مہتم ہیں۔ ان سے حضرت سہل بن سعد رض صحابی نے انکے صدق پر اعتماد اور بھروسہ کرکے روایت لی ہے اور امام مالک نے انکی حدیث اور رائے پر اعتماد کیا ہے اور مسلم کے سوائے باقی محدثین نے بھی۔

بقول شیخ السلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ

اخرج اھل الصحاح عدۃ احادیث عن مروان ولہ قول مع اھل الفتیائ (صحاح ستہ) حضرت مروان رحمہ اللہ سے متعدد احادیث کی روایت کی گئی ہے اور اہل فتویٰ ان کے اقول (اپنے فتاوٰی میں) بطور سند پیش کرتے ہیں۔ تاریخ خمیس میں ہے کہ

وکان مروان فقیھا عالما ادیبا
ترجمہ: حضرت مروان فقیہ و عالم اور ادیب تھے

پھر انکی عبادت اور تقویٰ نے انہیں اپنے ہم عصروں میں بہت ممتاز کردیا تھا۔ تلاوت کلام پاک کا تو ایسا عشق تھا کہ من اقراء الناس القرآن کہلاتے تھے۔ البدایہ و النہایہ ہی میں یہ روایت ہے کہ امیر یزید رحمہ اللہ کی ولایت عہد کی تحریک سے کچھ پہلے امیر المومنین سیدنا امیر معاویہ رض یہ فرماکر حضرت مروان رحمہ اللہ کو جانشین نامزد کرنے کا خیال کررہے تھے کہ وہ کتاب اللہ کے قاری، اللہ کے دین کے فقیہہ اور حدود اللہ قائم کرنے میں شدید ہیں۔ القاری لکتاب اللہ الفقیہہ فی دین اللہ الشدید فی حدود اللہ (ج 8، ص 257) لیکن سیاسی مصلحتوں کے پیش نظر ایسا نہ ہوسکا، پھر جب حضرت مروان کے مسند آرائے خلافت ہونے کا موقع آیا اور لوگ اسکی اطلاع دینے رات کے وقت انکے پاس گئے تو دیکھا کہ خیمے میں شمع روشن ہے اور کلام پاک کی تلاوت میں مشغول ہیں۔ رات کا بڑا حصہ عباد ت میں گزارتے تھے۔ جناب جعفر الصادق کی یہ روایت البدایہ و انہایہ میں بسند صحیحہ امام شافعی رحمہ اللہ سے منقول ہے کہ حضرت مروان رحمہ اللہ کی امامت میں حضرات حسن و حسین رضی اللہ عنھم برابر نمازیں ادا کیا کرتےتھے۔

قارئین کرام کو سوچنا چاہئے کہ ہم حضرت مروان رحمہ اللہ کی وہ عدالت و جلالت و عظمت وبزرگی دیکھیں جو موطا شریف، بخاری شریف اور صحاح کی دوسری کتابوں سے معلوم ہوتی ہیں اور انکے متعلق وہ رائیں بھی دیکھیں جو صحابہ و تابعین اور فقہا و علمائے اسلام نے انکے بارے میں دی ہیں۔ یا ان خرافات کو تسلیم کریں جو بعد کے مصنفوں نے بے سروپا سبائی روایات کی بنا پر کتابوں میں بھر دی ہیں۔ سچ فرمایا امام ابن العربی رحمہ اللہ نے

واما السفھاء من المورخین والادباء فیقولون علی اقدارھم
ارے یہ ناسمجھ مورخ اور ادیب تواپنے ظرف کے مطابق باتیں بناتے ہیں۔

(حقیقت خلافت و ملوکیت۔ از علامہ محمود احمد عباسی رحمہ اللہ۔ صفحہ 95-97)
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top