saeedimranx2
رکن
- شمولیت
- مارچ 07، 2017
- پیغامات
- 177
- ری ایکشن اسکور
- 16
- پوائنٹ
- 71
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
پچھلے کُچھ عرصے سےایک نیا فتنہ دیکھنے میں آرہا ہے کہ جب بھی کوئی تاریخی واقعہ اور خاص کر واقعہ کربلا زیرِ بحث آتا ہے تو یہ سوال کیا جاتا ہے کہ اس کی صحیح سند بیان کریں، صحیح سند سے ثابت کریں کہ اس واقعے میں یہ ہوا، صحیح سند سے ثابت کریں کہ اس واقعے میں کون کون ملوّث تھا وغیرہ وغیرہ۔
دراصل یہ فتنہ انکارِ تاریخ ہے ۔۔۔۔ اس بیماری میں ملوّث ہونے کی مختلف وجوہات ہو سکتی ہیں۔ مثلاََ انکارِ تاریخ کر کے انکارِ حدیث کی طرف رغبت دلانا، ناصبی ہونا ، اپنے مرضی کے واقعات کو غلط یا پھر صحیح ثابت کرنے کی کوشش کرنا ۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔۔
اگر ہم علوم اسلامی کا مطالعہ کریں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ تاریخ کو ایک الگ علم کی حیثیت سے پذیرائی حاصل ہوئی اور حدیث کو ایک بالکل الگ علم کی حیثیت سے۔۔۔۔۔نبی اکرمﷺ کے ساتھ مناسبت کی وجہ سے حدیث کے علم میں سند کو بہت ذیادہ اہمیت ہے اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ نبی اکرمﷺ کے ساتھ کوئی جھوٹی بات منسوب نہ ہو جائے اور وہ دین کا حصہ نہ بنادی جائے ۔۔
جبکہ تاریخ کے حوالے سے ایسی کوئی قید نہیں ہے ۔ اگرچہ صحیح سند کو اہمیت حاصل ہے مگر اسلامی تاریخ کے ابتدائی ماہرین نے صرف اور صرف ان واقعات کو جو دین و نبی اکرمﷺکے ساتھ وابستہ ہیں کی چھان بین و تحقیق کی مگر بہت سارے ایسے واقعات کو بھی قبول کیا جن کی اسناد موجود نہیں تھیں۔
صرف وہی واقعات جن کی بنیاد پر ایمان و عقیدہ و حلال و حرام یا پھر بنیادی مذہبی امور کا تعین کیا جاتا ہے کو پرکھنے کیلیے سند کو نہایت ضروری قرار دیا گیا ۔ سلف صالحین نے بھی تاریخی واقعات کو بے سند یا ضعیف السند ہونے کی بنیاد پر رد کیا ہو (یہ بیماری صرف آج کل کے دور میں ہی سامنے آئی ہے)۔۔۔۔مثال کے طور پر سلف میں واقعہ کربلا کے حوالے سے صرف غلو پر مبنی روایات کے علاوہ کسی روایت کے بارے میں یہ نہیں پوچھا گیا کہ اس بات کی سند کیا ہے یا یہ روایت ضعیف ہے۔
اس کی ایک واضح مثال تاریخ ابن کثیر ہے۔۔ اس کتاب میں ابن کثیر نے واقعہ کربلا کے آغاز میں جلی حروف میں ہیڈنگ دی ہے کہ ۔۔۔۔۔"واقعہ کربلا کا بیان ایک شان کے آئمہ سے نہ کہ ایسا جیسا کہ شیعہ کہتے ہیں"۔ اور پھر انہوں نے وہی روایتیں بیان کی ہیں جن کو ابو مخنف لوط بن یحییٰ نے روایت کیا ہے۔ سند کی اہمیت سر آنکھوں پر اور لوط بن یحییٰ نے جتنی جھوٹی باتیں روایت کی ہیں وہ جھوٹی ہی ہیں مگر تاریخی واقعات کو یکسر سند کے حوالے سے ٹھکرا دینا کہیں بھی کسی بھی جگہ سلف سے ثابت نہیں ہے۔۔۔ میرا ان لوگوں سے جو اس منہج پر چل پڑے ہیں سوال ہے کہ کسی سلف کا منہج اس بارے میں واضح کریں۔
اس کے علاوہ میں مزید دو سوال آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔۔
1۔ صحیح سند سے ثابت کریں کہ "اصحاب الفیل" یا ابرہہ نے مکہ میں کعبہ پر حملہ کیا تھا ۔ اگر آپ ثابت نہیں کرسکتے تو پھر ان تمام مفسرین کو غلط کہیں جنہوں نے یہ واقعہ بیان کیا ہے اور یہ متصل السند بھی نہیں ہے۔ پھر اس واقعے کو بھی (نعوذ باللہ) ایک افسانہ ہی مانا جائے اور غامدی صاحب کی پیروی کی جائے اور ان کو نقطہ نظر اس کے حوالے سے صحیح مانا جائے(حالانکہ یہی لوگ ہیں جنہوں نے غامدیت کا لفظ ہی بنا دیا ہے ان لوگوں کے لیے جو احادیث کا انکار کرتے ہیں۔ اب میرا مشورہ یہ ہے کہ خود انہی لوگوں کے لیے ایک اور لفظ "منکرِ تاریخ" کے علاوہ "منی غامدی" بھی استعمال کرنا چاہئئے کیونکہ تاریخ کے انکار کے بعد بتدریج وہ حدیث کا مکمل انکار کرنا بھی شروع کر ہی دیں گے)۔
2۔ ایک اور واقعہ جو نہایت زور و شور سے اہلِ حدیث و سلفی منہج کی کتب میں بیان کیا جاتا ہے کہ مامون و معتصم کے دور میں معتزلہ کو مضبوط کرنے کے لیے علماء پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے اور بہت سارے علماء پر کورے بھی برسائے گئے وغیرہ وغیرہ ۔۔۔۔ کیا یہ صحیح سند سے ثابت ہے؟
اگر نہیں تو پھر کیوں یہ واقعہ بے سند ہی کتابوں میں بیان کیا جاتا ہے اور پھر آسمان اور زمین کے قلابے ملائے جاتے ہیں۔
براہ مہربانی صرف سنجیدہ حضرات ہی جواب دیں۔ آپ کی مہربانی ہو گی۔
پچھلے کُچھ عرصے سےایک نیا فتنہ دیکھنے میں آرہا ہے کہ جب بھی کوئی تاریخی واقعہ اور خاص کر واقعہ کربلا زیرِ بحث آتا ہے تو یہ سوال کیا جاتا ہے کہ اس کی صحیح سند بیان کریں، صحیح سند سے ثابت کریں کہ اس واقعے میں یہ ہوا، صحیح سند سے ثابت کریں کہ اس واقعے میں کون کون ملوّث تھا وغیرہ وغیرہ۔
دراصل یہ فتنہ انکارِ تاریخ ہے ۔۔۔۔ اس بیماری میں ملوّث ہونے کی مختلف وجوہات ہو سکتی ہیں۔ مثلاََ انکارِ تاریخ کر کے انکارِ حدیث کی طرف رغبت دلانا، ناصبی ہونا ، اپنے مرضی کے واقعات کو غلط یا پھر صحیح ثابت کرنے کی کوشش کرنا ۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔۔
اگر ہم علوم اسلامی کا مطالعہ کریں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ تاریخ کو ایک الگ علم کی حیثیت سے پذیرائی حاصل ہوئی اور حدیث کو ایک بالکل الگ علم کی حیثیت سے۔۔۔۔۔نبی اکرمﷺ کے ساتھ مناسبت کی وجہ سے حدیث کے علم میں سند کو بہت ذیادہ اہمیت ہے اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ نبی اکرمﷺ کے ساتھ کوئی جھوٹی بات منسوب نہ ہو جائے اور وہ دین کا حصہ نہ بنادی جائے ۔۔
جبکہ تاریخ کے حوالے سے ایسی کوئی قید نہیں ہے ۔ اگرچہ صحیح سند کو اہمیت حاصل ہے مگر اسلامی تاریخ کے ابتدائی ماہرین نے صرف اور صرف ان واقعات کو جو دین و نبی اکرمﷺکے ساتھ وابستہ ہیں کی چھان بین و تحقیق کی مگر بہت سارے ایسے واقعات کو بھی قبول کیا جن کی اسناد موجود نہیں تھیں۔
صرف وہی واقعات جن کی بنیاد پر ایمان و عقیدہ و حلال و حرام یا پھر بنیادی مذہبی امور کا تعین کیا جاتا ہے کو پرکھنے کیلیے سند کو نہایت ضروری قرار دیا گیا ۔ سلف صالحین نے بھی تاریخی واقعات کو بے سند یا ضعیف السند ہونے کی بنیاد پر رد کیا ہو (یہ بیماری صرف آج کل کے دور میں ہی سامنے آئی ہے)۔۔۔۔مثال کے طور پر سلف میں واقعہ کربلا کے حوالے سے صرف غلو پر مبنی روایات کے علاوہ کسی روایت کے بارے میں یہ نہیں پوچھا گیا کہ اس بات کی سند کیا ہے یا یہ روایت ضعیف ہے۔
اس کی ایک واضح مثال تاریخ ابن کثیر ہے۔۔ اس کتاب میں ابن کثیر نے واقعہ کربلا کے آغاز میں جلی حروف میں ہیڈنگ دی ہے کہ ۔۔۔۔۔"واقعہ کربلا کا بیان ایک شان کے آئمہ سے نہ کہ ایسا جیسا کہ شیعہ کہتے ہیں"۔ اور پھر انہوں نے وہی روایتیں بیان کی ہیں جن کو ابو مخنف لوط بن یحییٰ نے روایت کیا ہے۔ سند کی اہمیت سر آنکھوں پر اور لوط بن یحییٰ نے جتنی جھوٹی باتیں روایت کی ہیں وہ جھوٹی ہی ہیں مگر تاریخی واقعات کو یکسر سند کے حوالے سے ٹھکرا دینا کہیں بھی کسی بھی جگہ سلف سے ثابت نہیں ہے۔۔۔ میرا ان لوگوں سے جو اس منہج پر چل پڑے ہیں سوال ہے کہ کسی سلف کا منہج اس بارے میں واضح کریں۔
اس کے علاوہ میں مزید دو سوال آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔۔
1۔ صحیح سند سے ثابت کریں کہ "اصحاب الفیل" یا ابرہہ نے مکہ میں کعبہ پر حملہ کیا تھا ۔ اگر آپ ثابت نہیں کرسکتے تو پھر ان تمام مفسرین کو غلط کہیں جنہوں نے یہ واقعہ بیان کیا ہے اور یہ متصل السند بھی نہیں ہے۔ پھر اس واقعے کو بھی (نعوذ باللہ) ایک افسانہ ہی مانا جائے اور غامدی صاحب کی پیروی کی جائے اور ان کو نقطہ نظر اس کے حوالے سے صحیح مانا جائے(حالانکہ یہی لوگ ہیں جنہوں نے غامدیت کا لفظ ہی بنا دیا ہے ان لوگوں کے لیے جو احادیث کا انکار کرتے ہیں۔ اب میرا مشورہ یہ ہے کہ خود انہی لوگوں کے لیے ایک اور لفظ "منکرِ تاریخ" کے علاوہ "منی غامدی" بھی استعمال کرنا چاہئئے کیونکہ تاریخ کے انکار کے بعد بتدریج وہ حدیث کا مکمل انکار کرنا بھی شروع کر ہی دیں گے)۔
2۔ ایک اور واقعہ جو نہایت زور و شور سے اہلِ حدیث و سلفی منہج کی کتب میں بیان کیا جاتا ہے کہ مامون و معتصم کے دور میں معتزلہ کو مضبوط کرنے کے لیے علماء پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے اور بہت سارے علماء پر کورے بھی برسائے گئے وغیرہ وغیرہ ۔۔۔۔ کیا یہ صحیح سند سے ثابت ہے؟
اگر نہیں تو پھر کیوں یہ واقعہ بے سند ہی کتابوں میں بیان کیا جاتا ہے اور پھر آسمان اور زمین کے قلابے ملائے جاتے ہیں۔
براہ مہربانی صرف سنجیدہ حضرات ہی جواب دیں۔ آپ کی مہربانی ہو گی۔