• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

موطأ امام مالک روایۃ ابن القاسم (یونیکوڈ)

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
221- وبه : أن تلبية رسول الله صلى الله عليه وسلم : ( (لبيك اللهم لبيك لبيك ، لا شريك لك لبيك ، إن الحمد والنعمة لك والملك ، لا شريك لك) ) قال نافعٌ : وكان عبد الله بن عمر يزيد فيها : لبيك لبيك ، لبيك وسعديك ، والخير بيديك ، لبيك والرغباء إليك والعمل.

اور اسی سند کے ساتھ ( سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے ) روایت ہے کہ ر سول اللہ یہ لبیک کہتے تھے : «لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ، إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَكَ وَالْمُلْكَ، لَا شَرِيكَ لَكَ» ” اے اللہ ! میں حاضر ہوں ، اے میرے اللہ ! میں حاضر ہوں حاضر ہوں تیرا کوئی شریک نہیں ، حاضرہوں ، حمد و ثنا اور نعمت تیرے لئے ہی ہے اور ملک میں تیرا کوئی شریک نہیں ۔ “ نافع ( تابعی) فرماتے ہیں کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اس میں یہ اضافہ کر تے تھے : لَبَّيْكَ لَبَّيْكَ لَبَّيْكَ وَسَعْدَيْكَ، وَالْخَيْرُ بِيَدَيْكَ لَبَّيْكَ، وَالرَّغْبَاءُ إِلَيْكَ وَالْعَمَلُ ” حاضر ہوں ، حاضر ہوں ، حاضر ہوں اور خیر تیر ے ہاتھ میں ہے ، حاضر ہوں اور ( میری) رغبت تجھی سے ہے اور ( میرا ) عمل تیرے لئے ہی ہے ۔“

سندہ صحیح
متفق عليه
« 221- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 331/1 ، 332 ح 745 ، ك 20 ب 09 ح 28) التمهيد 125/15 ، الاستذكار : 695
و أخرجه البخاري (1549) ومسلم (1184) من حديث مالك به»
------------------
222- وبه : عن حفصة زوج النبي صلى الله عليه وسلم أنها قالت لرسول الله صلى الله عليه وسلم : ما شأن الناس حلوا بعمرةٍ ولم تحلل أنت من عمرتك؟ قال : ( (إني لبدت رأسي وقلدت هدي ، فلا أحل حتى أنحر) ) .

اور اسی سند کے ساتھ ( سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے ) روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک بیوی ( سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہ ) نے ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: کیا وجہ ہے کہ لوگوں نے تو عمرہ کر کے احرام کھول دئیے ہیں اور آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عمرے سے ( ابھی تک ) احرام نہیں کھولا؟ آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میں نے اپنے بال چپکا لئے تھے اور قربانی کے جانورروں کو مقرر کر لیا تھا لہٰذا میں قربانی کر نے تک احرام نہیں کھولوں گا .

سندہ صحیح
متفق عليه
«222- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 3941 ح 908 ، ك 20 ب 58 ح 80) التمهيد 297/15 ، الاستذكار : 848
و أخرجه البخاري (1566) ومسلم (1229) من حديث مالك به»
------------------
223- وبه : أن ابن عمر خرج إلى مكة معتمراً في الفتنة ، فقال : إن صددت عن البيت صنعنا كما صنعنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم ، فأهل بعمرة من أجل أن النبي صلى الله عليه وسلم كان أهل بعمرةٍ عام الحديبية ، ثم إن عبد الله بن عمر نظر في أمره ، فقال : ما أمرهما إلا واحد ، فالتفت إلى أصحابه ، فقال : ما أمرهما إلا واحد ، أشهدكم أني قد أوجبت الحج مع العمرة ، قال : ثم طاف طوافاً واحداً ، ورأى أن ذلك مجزئٌ عنه وأهدى.

اور اسی سندکے ساتھ روایت ہے کہ ( سیدنا ) ابن عمر رضی اللہ عنہ فتنے ( جنگ ) کے زمانے میں عمرہ کر نے کے لئے مکہ کی طرف چلے تو فرمایا : اگر مجھے بیت اللہ سے روک دیا گیا تو ہم اس طرح کر یں گے جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا پھر انہوں نے اس وجہ سے عمرے کی لبیک کہی کہ حدبیبہ والے سال نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرے کے لبیک کہی تھی پھر عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے مسئلے میں غور کیاتو فرمایا : دونوں ( عمر ے اور حج) کا تو ایک ہی حکم ہے ، میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے عمرے کے ساتھ اپنے آپ پر حج لازم کر لیا ہے پھر انہوں نے ایک طواف کیا اور یہ سمجھے کہ یہ کافی ہے اور قربانی کی

سندہ صحیح
متفق عليه
«223- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 360/1ح 818 ، ك 20 ب 31 ح 99) التمهيد 189/15 ، الاستذكار : 767
و أخرجه البخاري (1806) ومسلم (1230) من حديث مالك به»
------------------
224- وبه : أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : ( (خمسٌ من الدواب ليس على المحرم في قتلهن جناحٌ : الغراب والحدأة والعقرب والفأرة والكلب العقور) ) .

اور اسی سند کے ساتھ ( سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے ) روایت ہے کہ ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : حالت احرام میں پانچ جانوروں کے قتل میں کوئی حرج نہیں ہے : کوا ، چیل ، بچھو ، چوہا اور کاٹنے والا کتا ۔

سندہ صحیح
متفق عليه
«224- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 356/1 ح 806 ، ك 20 ب 28 ح 88) التمهيد 153/15 ، الاستذكار : 756
و أخرجه البخاري (1826) ومسلم (1199) من حديث مالك به»
------------------
225- وبه : أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : ( (اللهم ارحم المحلقين) ) ، قالوا : والمقصرين يا رسول الله ، قال : ( (اللهم ارحم المحلقين) ) قالوا : والمقصرين يا رسول الله ، قال : ( (والمقصرين) ) .

ور اسی سند کے ساتھ ( سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے ) روایت ہے کہ ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اے میرے اللہ ! سرمنڈوانے والوں پر رحم کر ، لوگوں نے کہا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اور سر کے بال کٹوانے والوں پر؟ آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اے میرے اللہ ! سر منڈوانے والوں پر رحم کر ، لوگوں نے کہا: یا ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اور سر کے بال کٹوانے والوں پر؟ آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اور ( رحم کر) سر کے بال کٹوانے والوں پر

سندہ صحیح
متفق عليه
«225- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 395/1 ح 912 ، ك 20 ب 20 ح 184) التمهيد 233/15 ، الاستذكار : 852
و أخرجه البخاري (1727) ومسلم (1301/317) من حديث مالك به»
------------------
226- وبه : أن رسول الله صلى الله عليه وسلم دخل الكعبة هو وأسامة بن زيدٍ وبلالٌ وعثمان ابن طلحة الحجبي فأغلقها عليه ومكث فيها. قال عبد الله بن عمر : فسألت بلالاً حين خرج : ماذا صنع رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ فقال : جعل عموداً عن يساره وعمودين عن يمينه وثلاثة أعمدة وراءه ، وكان البيت يومئذٍ على ستة أعمدةٍ ، ثم صلى وجعل بينه وبين الجدار نحواً من ثلاثة أذرعٍ.

اور اسی سند کے ساتھ ( سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے ) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، اسامہ بن زید ، بلال اور عثمان بن طلحہ الحجمی رضی اللہ عنہم کعبتہ اللہ میں داخل ہوئے تو دروازہ بند کرکے وہاں ٹھہرے رہے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : پھر جب آپ باہر آئے تو میں نے سیدنا بلال رضی اللہ عنہ سے پوچھا: کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا عمل فرمایا تھا؟ تو انہوں نے جواب دیا : آپ اس طرح کھڑے ہوئے کہ بائیں طرف ایک ستون تھا ، دائیں طرف دو ستون تھے اور پچھلی طرف تین ستون تھے ان دنوں بیت اللہ کے چھ ستون تھے پھر آپ نے نماز پڑھی ، آپ کے اور دیوار کے درمیان تین ہاتھ کا فاصلہ تھا ۔

سندہ صحیح
متفق عليه
«226- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 398/1 ح 921 ، ك 20 ب 63 ح 193 مختصراً ، وعنده جعل عمودًا عن يمينه و عمر دين عن يساره) ، التمهيد 313/15 ، الاستذكار : 861
و أخرجه البخاري (505) ومسلم (1329) من حديث مالك به»
------------------
227- وبه : أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان إذا قفل من غزوٍ أو حجٍ أو عمرةٍ يكبر على شرفٍ من الأرض ثلاث تكبيراتٍ ، ثم يقول : ( (لا إله إلا الله وحده لا شريك له ، له الملك وله الحمد وهو على كل شيءٍ قديرٌ. آيبون تائبون عابدون ساجدون لربنا حامدون. صدق الله وعده ، ونصر عبده ، وهزم الأحزاب وحده) ) .

اور اسی سند کے ساتھ ( سیدنا بن عمر رضی اللہ عنہ سے ) روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جہاد ، حج یا عمرے سے واپس لوٹتے تو ہر اونچی زمین پر ( چڑھتے ہوئے ) تین تکبیریں کہتے پھر فرماتے : «لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ، وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ، آيِبُونَ تَائِبُونَ عَابِدُونَ سَاجِدُونَ. لِرَبِّنَا حَامِدُونَ. صَدَقَ اللَّهُ وَعْدَهُ. وَنَصَرَ عَبْدَهُ. وَهَزَمَ الْأَحْزَابَ وَحْدَهُ» ” ایک اللہ کے سوا کوئی الہٰ ( معبود برحق) نہیں ، اس کا کوئی شریک نہیں ، اسی کی بادشاہی ہے اور اسی کی حمد و ثنا ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے واپس جا رہے ہیں ، توبہ کرتے ہوئے ، عبادت کرتے ہوئے ، سجدے کرتے ہوئے ، اپنے رب کی حمد و ثنا بیان کرتے ہیں اللہ نے اپنا وعدہ پورا کیا ، اپنے بندے کی مدد کی اور اکیلے اللہ نے تمام گروہوں کو شکست دے دی ۔ “

سندہ صحیح
متفق عليه
«227- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 421/1 ح 971 ، ك 20 ب 81 ح 243) التمهيد 241/15 ، الاستذكار : 912
و أخرجه البخاري (1797) ومسلم (1344/428) من حديث مالك به»
------------------
228- وبه : أن رسول الله صلى الله عليه وسلم أناخ بالبطحاء التي بذي الحليفة وصلى بها. قال نافعٌ : وكان عبد الله بن عمر يفعل ذلك.

اور اسی سند کے ساتھ ( سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے ) روایت ہے کہ ذولحلیفہ کے پاس بطحاءکے مقام پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سواری بٹھائی اور اس کی طرف رخ کرکے نماز پڑھی نافع نے کہا: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بھی اسی طرح کرتے تھے ۔

سندہ صحیح
متفق عليه
«228- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 405/1 ح 933 ، ك 20 ب 69 ح 206) التمهيد 243/15 ، الاستذكار : 874
و أخرجه البخاري (1532) ومسلم (1257/430 بعد ح 1345) من حديث مالك به»
------------------
229- وبه : أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : ( (لا يخطب أحدكم على خطبة أخيه) ) .

اور اسی سند کے ساتھ ( سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے ) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کوئی شخص اپنے بھائی کی منگنی پر منگنی نہ کرے

سندہ صحیح
متفق عليه
«229- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 523/2 ح 1135 ، ك 28 ب 1 ح 2) التمهيد 324/13 ، الاستذكار : 1059
و أخرجه البخاري (5142) ومسلم (1412) من حديث مالك به»
------------------
230- وبه : أن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عن الشغار.
والشغار أن يزوج الرجل ابنته الرجل على أن يزوجه الرجل الآخر ابنته ، ليس بينهما صداقٌ.

اور اسی سند کے ساتھ ( سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے ) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شغار ( وٹے سٹے کے نکاح) سے منع فرمایا ہے ( نافع نے کہا: ) اور شغار اسے کہتے ہیں کہ آدمی اپنی بچی کا نکاح دوسرے آدمی سے اس شرط پر کرے کہ وہ اپنی بچی کا نکاح اس سے کرے گا ( اور ) دونوں کے درمیان حق مہر نہیں ہوگا ۔

سندہ صحیح
متفق عليه
«230- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 535/2 ح 1159 ، ك 28 ب 11 ح 24) التمهيد 70/14 ، الاستذكار : 1081
و أخرجه البخاري (5112) ومسلم (1415/57) من حديث مالك به»
------------------
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
231- وبه : أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : ( (إذا دعي أحدكم إلى الوليمة فليأتها) ) .

اور اسی سند کے ساتھ ( سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے ) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جب تم میں سے کسی کو ولیمے کی دعوت ملے تو اسے چاہئے کہ وہ اسے قبول کرے

سندہ صحیح
متفق عليه
231
- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 456/2 ح 1186 ، ك 28 ب 21 ح 49) التمهيد 14/14 ، الاستذكار : 1106
و أخرجه البخاري (5173) ومسلم (1429/96) من حديث مالك به»
------------------
232- وبه : أن رجلاً لاعن امرأته في زمن رسول الله صلى الله عليه وسلم وانتفى من ولدها ، ففرق رسول الله صلى الله عليه وسلم بينهما وألحق الولد بالمرأة.

اور اسی سند کے ساتھ ( سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے ) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک آدمی نے اپنی بیوی کے ساتھ لعان کیا پھر اس عورت کے بچے کا باپ ہونے سے انکار کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کے درمیان جدائی ڈال دی اور بچہ ماں کو سونپ دیا یعنی بچہ ماں کی طرف منسوب ہوا

سندہ صحیح
متفق عليه
«232- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 567/2 ح 1233 ، ك 29 ب 13 ح 35) التمهيد 13/15 ، الاستذكار : 1153
و أخرجه البخاري (5315) ومسلم (1494/8) من حديث مالك به»
------------------
233- وبه : عن ابن عمر : أنه طلق امرأته وهي حائضٌ في عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم ، فسأل عمر بن الخطاب رسول الله صلى الله عليه وسلم عن ذلك ، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ( (مره فليراجعها ثم ليمسكها حتى تطهر ثم تحيض ثم تطهر ، ثم إن شاء أمسك بعد وإن شاء طلق قبل أن يمس ، فتلك العدة التي أمر الله أن تطلق لها النساء) ) .

اور اسی سند کے ساتھ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اپنی بیوی کو اس کی حالت حیض میں ( ایک) طلاق دی ، پھر سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے اس بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اسے ( ابن عمر کی) حکم دو کہ وہ رجوع کر لے پھر اسے روکے رکھے حتیٰ کہ وہ حیض سے پاک ہو جائے ، پھراسے حیض آئے پھر وہ اس سے پاک ہو جائے پھر اگر چاہے تو اسے اپنے نکاح میں رکھے اور اگر چاہے تو اسے چھونے سے پہلے طلاق دے دے

سندہ صحیح
متفق عليه
«233- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 576/2 ح 1253 ، ك 29 ب 21 ح 53) التمهيد 51/15 وقال : ” هذا حديث مجتمع عليٰ صحته من جهة النقل“ ، الاستذكار : 1172
و أخرجه البخاري (5251) ومسلم (1471) من حديث مالك به»
------------------
234- وبه : أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : ( (من باع نخلاً قد أبرت فثمرها للبائع إلا أن يشترطه المبتاع) ) .
اور اسی سند کے ساتھ ( سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے ) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جو شخص کھجور کے وہ درخت بیچے جن کی پیوندکاری کی گئی ہو تو اس کے پھل کا حقدار بیچنے والا ہے الا یہ کہ خریدنے والا شرط طے کر لے کہ پھل میرا ہوگا .

سندہ صحیح
متفق عليه
«234- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 617/2 ح 1339 ، ك 31 ب 7 ح 9) التمهيد 282/13 ، الاستذكار : 1259
و أخرجه البخاري (2204) ومسلم (1543/77) من حديث مالك به»
------------------
235- وبه : أن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عن بيع الثمار حتى يبدو صلاحها ، نهى البائع والمشتري.

اور اسی سند کی ساتھ ( سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے ) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دکاندار اور گاہک دونوں کو پھلوں کے پکنے سے پہلے بیچنے اور خریدنے سے منع کیا ہے

سندہ صحیح
متفق عليه
«235- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 618/2 ح 1340 ، ك 31 ب 8 ح 10) التمهيد 13/15 ، الاستذكار : 1153
و أخرجه البخاري (2194) ومسلم (1534/49) من حديث مالك به»
------------------
236- وبه : أن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عن المزابنة ، والمزابنة : بيع الثمر بالتمر كيلاً ، وبيع الكرم بالزبيب كيلاً.

اور اسی سند کے ساتھ ( سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے ) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزابنہ سے منع کیا ہے ( اور مزابنہ یہ ہے کہ ) درخت پر لگی ہوئی کھجوروں کو خشک کھجوروں کے بدلے تول کا سودا کیا جائے اور درخت پر لگے ہوئے انگوروں کو خشک انگوروں کے بدلے تول کا سودا کیا جائے
سندہ صحیح
متفق عليه
«236- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 624/2 ح 1354 ، ك 31 ب 13 ح 23) التمهيد 307/13 ، الاستذكار : 1274
و أخرجه البخاري (2171) ومسلم (1542/72) من حديث مالك به»
------------------
237- وبه : عن ابن عمر عن زيد بن ثابتٍ : أن رسول الله صلى الله عليه وسلم أرخص لصاحب العرية أن يبيعها بخرصها.

اور اسی سند کے ساتھ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے وہ سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھجور کے درخت پر لگی ہوئی کھجوروں کے مالک کو اجازت دی ہے کہ وہ اندازے سے ( اکا) انہیں بیچ سکتا ہے

سندہ صحیح
متفق عليه
«237- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 619/2 ، 620 ح 1344 ، ك 31 ب 9 ح 14) التمهيد 323/15 ، الاستذكار : 1266
و أخرجه البخاري (2188) ومسلم (1539/60) من حديث مالك به»
------------------
238- وبه : عن عبد الله بن عمر أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : ( (من ابتاع طعاماً فلا يبعه حتى يستوفيه) ) .

اور اسی سند کے ساتھ سیدنا عباللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جو شخص کھانا ( غلہ) خریدے تو جب تک اسے پورا اپنے قبضے میں نہ لے لے آگے نہ بیچے

سندہ صحیح
متفق عليه
«238- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 640/2 ح 1372 ، ك 31 ب 19 ح 40 ، وعنده : من ابتاع) التمهيد 325/13 وقال : ” هذا حديث صحيح الإسناد“ ، الاستذكار : 1292
و أخرجه البخاري (2126) ومسلم (1526/32) من حديث مالك به»
------------------
239- وبه : أنه قال : كنا في زمان رسول الله صلى الله عليه وسلم نبتاع الطعام فيبعث علينا من يأمرنا بانتقاله من المكان الذي ابتعناه فيه إلى مكانٍ سواه قبل أن نبيعه.

اور اسی سند کے ساتھ ( سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے ) روایت ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں کھانا ( غلہ ، اناج) خریدتے تھے تو آپ ہمارے پاس آدمی بھیج کر حکم دیتے کہ ہم نے جہاں سے یہ خریدا ہے دوبارہ بیچنے سے پہلے وہاں سے دوسرے مقام پر اسے منتقل کر دیں

سندہ صحیح

«239- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 641/2 ح 1374 ، ك 31 ب 19 ح 42) التمهيد 335/13 ، الاستذكار : 1294
و أخرجه مسلم (1572/33) من حديث مالك به»
------------------
240- وبه : أن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عن بيع حبل الحبلة ، وكان بيعاً يتبايعه أهل الجاهلية. كان الرجل يبتاع الجزور إلى أن تنتج الناقة ثم تنتج التي في بطنها.

اور اسی سند کے ساتھ ( سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے ) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ( جانور کے پیٹ میں) حمل کے حمل کو بیچنے سے منع فرمایا ہے اور یہ سودا تھا جو اہل جاہلیت ایک دوسرے کے ساتھ کرتے تھے آدمی اس اونٹ کا سودا کرتا تھا کہ اونٹنی ایک بچی جنے گی پھر اس سے جو اونٹ پیدا ہوگا وہ میرا ہے

سندہ صحیح

« 240- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 653/2 ، 654 ح 1394 ، ك 31 ب 26 ح 62) التمهيد 313/13 ، الاستذكار : 1315
و أخرجه البخاري (2143) من حديث مالك ، ومسلم (1514) من حديث نافع به»
------------------
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
241- وبه : أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : ( (المتبايعان كل واحدٍ منهما بالخيار على صاحبه ما لم يتفرقا ، إلا بيع الخيار) ) .

اور اسی سند کے ساتھ ( سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے ) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : خریدنے اور بیچنے والے دونوں کو جدا ہو جانے سے پہلے اپنے ساتھی پر حق اختیار رہتا ہے الا یہ کہ ( جدا ہو جانے کے بعد بھی) حق اختیار والا سودا ہو ۔

سندہ صحیح
متفق عليه
«241- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 671/2 ح 1411 ، ك 31 ب 38 ح 79) التمهيد 7/14 ، الاستذكار : 1332
و أخرجه البخاري (2111) ومسلم (1531/43) من حديث مالك به»
------------------
242- وبه : أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : ( (لا يبع بعضكم على بيع بعضٍ) ) .

اور اسی سند کے ساتھ ( سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے ) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ایک دوسرے کے سودے پر سودا نہ کرو ۔

سندہ صحیح
متفق عليه
«242- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 683/2 ح 1427 ، ك 31 ب 45 ح 95) التمهيد 316/13 ، الاستذكار : 1348
و أخرجه البخاري (2165) ومسلم (1412/7 ح 1514) من حديث مالك به»
------------------
243- وبه : أن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عن النجش.

اور اسی سند کے ساتھ ( سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے ) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نجش ( جھوٹی بولی لگانے ) سے منع فرمایا ہے
سندہ صحیح
متفق عليه
«243- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 684/2 ح 1428 ، ك 31 ب 45 ح 97) التمهيد 347/13 ، الاستذكار : 1350
و أخرجه البخاري (2142) ومسلم (1516/13) من حديث مالك به»
------------------
244- وبه : أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : ( (من أعتق شركاً له في عبدٍ فكان له مالٌ يبلغ ثمن العبد قوم عليه قيمة العدل فأعطى شركاءه حصصهم وعتق عليه ، وإلا فقد عتق منه ما عتق) ) .

اور اسی سند کے ساتھ ( سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے ) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جو شخص ( مشترکہ) غلام میں سے اپنا حصہ آزاد کر دے ، پھر اس کا مال اگر غلام کی قیمت کے برابر ہو تو غلام کی قیمت کا حساب لگا کر اس کی ملکیت میں شریکوں کو ان کے حصے دیئے جائیں گے اور وہ غلام اس کی طرف سے آزاد ہو جائے گا ورنہ اتنا حصہ ہی اس میں سے آزاد ہوگا جو کہ آزاد ہوا ہے۔

سندہ صحیح
متفق عليه
«244- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 772/2 ح 1543 ، ك 38 ب 1 ح 1) التمهيد 265/14 ، الاستذكار : 1472
و أخرجه البخاري (2522) ومسلم (1501) من حديث مالك به»
------------------
245- وبه : أنه قال : إن اليهود جاؤوا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فذكروا له أن رجلاً منهم وامرأةً زنيا ، فقال لهم رسول الله صلى الله عليه وسلم : ما تجدون في التوراة في شأن الرجم؟) ) فقالوا : نفضحهم ويجلدون. فقال عبد الله بن سلامٍ : كذبتم ، إن فيها الرجم ، فأتوا بالتوراة فاتلوها. فنشروها فوضع أحدهم يده على آية الرجم فقرأ ما قبلها وما بعدها ، فقال له عبد الله بن سلامٍ : ارفع يدك ، فرفع يده فإذا فيها آية الرجم ، فقالوا : صدق يا محمد ، فيها آية الرجم. فأمر بهما رسول الله صلى الله عليه وسلم فرجما.
قال عبد الله بن عمر : فرأيت الرجل يحني على المرأة يقيها الحجارة.

اور اسی سند کے ساتھ ( سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے ) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس یہودی آئے تو آپ کو بتایا کہ ان میں سے ایک مرد و عورت نے آپس میں زنا کیا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا: تم تورات میں رجم کے بارے میں کیا پاتے ہو؟ تو انہوں نے کہا: ہم ( زانیوں کو) ذلیل و رسوا کرتے ہیں اور انہیں کوڑے لگائے جاتے ہیں سیدنا عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے فرمایا : تم نے جھوٹ کہا ہے ، تورات میں رجم والی آیت موجود ہے ، تورات لاؤ اور اسے پڑھو پھر انہوں نے تورات کھولی تو ان میں سے ایک آدمی نے رجم( سنگسار) والی آیت پر اپنا ہاتھ رکھ دیا پھر اس نے آگے پیچھے سے پڑھا تو سیدنا عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا: اپنا ہاتھ اٹھا پھر اس نے ہاتھ اٹھایا تو وہاں آیت رجم تھی یہودیوں نے کہا: اے محمد ! ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اس نے سچ کہا: ، یہاں رجم والی آیت ہے پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تو انہیں رجم کیا گیا ۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : میں نے دیکھا کہ مرد عورت پر اسے پتھروں سے بچانے کے لئے جھک ، جھک جاتا تھا

سندہ صحیح
متفق عليه
«245- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 819/2 ح 1592 ، ك 41 ب 1 ح 1) التمهيد 385/14 ، الاستذكار : 1521
و أخرجه البخاري (3635 ، 6841) ومسلم (1699/27) من حديث مالك به»
------------------
246- وبه : أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قطع سارقاً في مجنٍ ثمنه ثلاثة دراهمٍ. قال مالكٌ : والمجن الدرقة والترس.

اور اسی سند کے ساتھ ( سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے ) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس چور کا ( دایاں) ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا جس نے تین درہم کی قیمت والی ڈھال چرائی تھی ۔
( امام) مالک نے فرمایا : مجن چمڑے یا لوہے کی ڈھال کو کہتے ہیں ۔

سندہ صحیح
متفق عليه
«246- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 831/2 ح 1616 ، ك 41 ب 7 ح 21) التمهيد 375/14 ، الاستذكار : 1544
و أخرجه البخاري (6795) ومسلم (1686/6) من حديث مالك به»
------------------
247- وبه : أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : ( (من شرب الخمر في الدنيا ثم لم يتب منها حرمها في الآخرة) ) .

اور اسی سند کے ساتھ ( سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے ) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جو شخص دنیا میں شراب پیئے ، پھر اس سے توبہ نہ کرے تو آخرت میں اس سے ( یعنی پاکیزہ شراب سے ) محروم رہے گا

سندہ صحیح
متفق عليه
«247- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 846/2 ح 1642 ، ك 42 ب 4 ح 11) التمهيد 5/15 ، الاستذكار : 1570
و أخرجه البخاري (5575) ومسلم (2003/76) من حديث مالك به»
------------------
248- وبه : أن رسول الله صلى الله عليه وسلم خطب الناس في بعض مغازيه ، فقال عبد الله بن عمر : فأقبلت نحوه ، فانصرف قبل أن أبلغه ، فسألت ماذا قال : فقالوا : نهى أن ينبذ في الدباء والمزفت.

اور اسی سند کے ساتھ ( سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے ) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی غزوے میں خطبہ دیا تو عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں آپ کی طرف چلا پھر میرے پہنچنے سے پہلے ہی آپ خطبے سے فارغ ہو گئے تو میں نے پوچھا: آپ نے کیا فرمایا ہے ؟ لوگوں نے بتایا کہ آپ نے کدو کے برتن اور روغنی مرتبان میں نبیذ بنانے سے منع فرمایا ہے ۔

سندہ صحیح

«248- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 843/2 ح 1636 ، ك 43 ب 2 ح 5) التمهيد 331/15 ، الاستذكار : 1564
و أخرجه مسلم (1997/48) من حديث مالك به»
------------------
249- وبه : أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : ( (ما حق امرئٍ مسلمٍ له شيءٌ يوصي فيه يبيت ليلتين إلا ووصيته عنده مكتوبةٌ) ) .

اور اسی سند کے ساتھ ( سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے ) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اگر کسی مسلمان کے پاس وصیت والی کوئی چیز ہے تو اس کے لئے جائز نہیں کہ وہ اپنے پاس لکھنے ( یا لکھوانے ) کے بغیر دو راتیں بھی گزارے۔

سندہ صحیح
متفق عليه
«249- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 761/2 ح 1530 ، ك 37 ب 1 ح 1) التمهيد 290/14 ، الاستذكار : 1459
و أخرجه البخاري (2738) و مسلم (1627) من حديث مالك به»
------------------
250- وبه : أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : ( (إن العبد إذا نصح لسيده وأحسن عبادة ربع فله أجره مرتين) ) .
ور اسی سند کے ساتھ ( سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے ) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جب غلام اپنے آقا کے لئے خیر خواہی کرتا ہے اور احسن طریقے سے اپنے رب کی عبادت کرتا ہے تو اسے دوہرا اجر ملتا ہے ۔

سندہ صحیح
متفق عليه
«250- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 981/2 ح 1905 ، ك 54 ب 17 ح 43) التمهيد 336/14 ، الاستذكار : 1841
أخرجه البخاري (2546) و مسلم (1664/43) من حديث مالك به»
------------------
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
251- وبه : أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : ( (لا يحلبن أحد ماشية أحد بغير إذنه أيحب أحدكم أن تؤتى مشربته فتكسر خزانته فينتقل طعامه ، فإنما تخزن لهم ضروع مواشيهم أطعماتهم ، فلا يحلبن أحدٌ ماشية أحدٍ إلا بإذنه) ) .

اور اسی سند کے ساتھ ( سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم میں سے کوئی کسی کے دوسرے جانور کا دودھ اس کی اجازت کے بغیر نہ دوھے ، کیا تم میں سے کوئی شخص یہ پسند کرتا ہے کہ اس کے کمرے میں آ کر اس کا خزانہ توڑ دے پھر اس کا کھانا ( غلہ) لے کر اپنے پاس منتقل کر لے ؟لوگوں کی خوراک ( دودھ) کو ان کے جانوروں کے تھن جمع اور محفوظ رکھتے ہیں لہٰذا تم میں سے کوئی آدمی دوسرے کی اجازت کے بغیر اس کے جانور کا دودھ نہ دوھے ۔

سندہ صحیح
متفق عليه

« 251- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 971/2 ح 1878 ، ك 54 ب 6 ح 17) التمهيد 206/14 ، الاستذكار : 1814
أخرجه البخاري (2435) و مسلم (1762/13) من حديث مالك به»
------------------
252- وبه : أن عمر بن الخطاب رأى حلةً سيراء تباع عند باب المسجد ، فقال : يا رسول الله ، لو اشتريت هذه فلبستها يوم الجمعة وللوفد إذا قدموا عليك ، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ( (إنما يلبس هذه من لا خلاق له في الآخرة) ) ، ثم جاء رسول الله صلى الله عليه وسلم منها حللٌ ، فأعطى عمر بن الخطاب منها حلةً ، فقال عمر : يا رسول الله صلى الله عليه وسلم ، كسوتنيها وقد قلت في حلة عطاردٍ ما قلت؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ( (لم أكسكها لتلبسها) ) ، فكساها عمر بن الخطاب أخاً له مشركاً بمكة..

اور اسی سند کے ساتھ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے مسجد کے دروازے کے پاس ایک ریشمی کپڑا بکتے ہوئے دیکھا تو کہا: یا رسول اللہ ! اگر آپ اسے خرید لیں تو جمعہ کے دن اور جب آپ کے پاس کوئی وفد آئے تو پہن لیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : یہ تو وہی شخص پہنتا ہے جس کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہے پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ریشم کے کپڑے ( مال غنیمت میں) لائے گئے تو آپ نے ان میں سے ایک کپڑا ( سیدنا) عمر بن الخطاب ( رضی اللہ عنہ) کو دیا عمر ( رضی اللہ عنہ) نے کہا: یارسول اللہ ! آپ نے مجھے یہ کپڑا دیا ہے حالانکہ آپ نے عطارد کے کپڑے کے بارے میں جوارشاد فرماتے تھا ؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میں نے تمھیں یہ کپڑا پہننے کے لئے نہیں دیا پھر عمر بن الخطاب ( رضی اللہ عنہ) نے مکہ میں اپنے مشرک بھائی کو یہ کپڑا پہننے کے لئے دے دیا۔

سندہ صحیح
متفق عليه

«252- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 917/2 , 918 ح 1770 ، ك 48 ب 8 ح 18 , وعنده : لم أكسكها) التمهيد 239/14 ، الاستذكار : 1702
أخرجه البخاري (886 ، 2612) و مسلم (2068/6) من حديث مالك به»
------------------
253- وبه : أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : ( (أراني الليلة عند الكعبة ، فرأيت رجلاً آدم #207# كأحسن ما أنت راءٍ من أدم الرجال ، له لمةٌ كأحسن ما أنت راءٍ من اللمم ، قد رجلها فهي تقطر ماءً ، متكئاً على رجلين ، أو على عواتق رجلين يطوف بالبيت ، فسألت : من هذا؟ ، فقيل لي : المسيح ابن مريم ، ثم إذا أنا برجلٍ جعدٍ قططٍ أعور العين اليمنى ، كأنها عنبةٌ طافيةٌ ، فسألت : من هذا؟ ، فقيل : هذا المسيح الدجال) ) .

اور اسی سند کے ساتھ ( سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : آج رات ( اللہ نے) مجھے خواب دکھایا کہ میں کعبہ کے پاس ہوں پھر میں نے ایک گندمی رنگ کا آدمی دیکھا ، تم نے جو گندمی لوگ دیکھے ہیں وہ ان میں سب سے خوبصورت تھا ، تم نے کندھوں تک سر کے جو لمبے بال دیکھے ہیں ان میں سب سے زیادہ خوبصورت اس کے بال تھے جنھیں اس نے کنگھی کیا تھا ، پانی کے قطرے اس کے بالوں سے گر رہے تھے ، اس شخص نے دو آدمیوں یا ان کے کندھوں پر سہارا لیا ہوا تھا اور بیت اللہ کا طواف کر رہا تھا میں نے پوچھا: یہ کون ہے ؟ بتایا گیا کہ یہ مسیح ابن مریم ہیں ۔
پھر میں نے ایک آدمی دیکھا جو دائیں آنکھ سے کانا تھااور اس کے بال بہت زیادہ گھنگریالے تھے ، اس کی
(کانی) آنکھ اس طرح تھی جیسے پھولے ہوئے انگور کا دانہ ہے میں نے پوچھا: یہ کون ہے ؟ کہا: گیا : یہ مسیح دجال ہے ۔

سندہ صحیح
متفق عليه

«253- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 920/2 ح 1773 ، ك 49 ب 2 ح 2) التمهيد 187/14 ، الاستذكار : 1705
أخرجه البخاري (5902) و مسلم (169/273) من حديث مالك به»
------------------
254- وبه : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ( (إن الحمى من فيح جهنم ، فأطفؤها بالماء) ) ، وكان ابن عمر يقول : اللهم أذهب عنا الرجز.

اور اسی سند کے ساتھ ( سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے ) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : بخار جہنم کے سانس میں سے ہے لہٰذا اسے پانی کے ساتھ ٹھندا کرو ۔
اور ابن عمر
( رضی اللہ عنہ ) فرماتے تھے کہ اے اللہ ! ہم سے عذاب دُور فرما

سندہ صحیح
متفق عليه

«254- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 945/2 ح 1825/2 ، ك 50 ب 6 ح 16/2 المرفوع فقط) الاستذكار : 1761
أخرجه البخاري (5723) و مسلم (2207/79) من حديث مالك به المرفوع فقط ورواه الجوهري (704) عن ابن وهب عن مالك نحوه»
------------------
255- وبه : أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال وهو على المنبر وهو يذكر الصدقة والتعفف عن المسألة : ( (اليد العليا خيرٌ من اليد السفلى ، واليد العليا المنفقة ، والسفلى السائلة) ) .

اور اسی سند کے ساتھ ( سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے ) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر پر صدقے اور مانگنے سے اجتناب کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : ”اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے اوپر والا ہاتھ خرچ کرنے والا ہے اور نیچے والا مانگنے والا ہے ۔“

سندہ صحیح
متفق عليه

«255- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 998/2 ح 1946 ، ك 58 ب 2 ح 8) التمهيد 247/15 ، الاستذكار : 1883
أخرجه البخاري (1429) و مسلم (1033/94) من حديث مالك به»
------------------
256- وبه : أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : ( (من اقتنى كلباً ليس بكلب صيدٍ ولا كلب ماشيةٍ نقص من أجره كل يوم قيراطان) ) .

اور اسی سند کے ساتھ ( سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے ) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”جو شخص کسی شکاری اور جانوروں کی حفاظت والے کتے کے علاوہ کوئی کتا پالے تو اس کے اجر و ثواب ( نیکیوں ) میں سے روزانہ دو قیراط کی کمی ہوتی ہے ۔ “

سندہ صحیح
متفق عليه

«256- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 969/2 ح 1874 ، ك 54 ب 5 ح 13 ، نحو المعنيٰ) التمهيد 217/14 ، الاستذكار : 1810
أخرجه البخاري (5482) و مسلم (1574/50) من حديث مالك به»
------------------
257- وبه : من رواية أحمد وحده : أن رسول الله صلى الله عليه وسلم أمر بقتل الكلاب.

اور صرف ( ابوجعفر ) أحمد ( ابن ابی سلیمان : راوی کتاب ) کی روایت کے ساتھ اسی سند سے ( سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے ) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتوں کے قتل کا حکم دیا۔

سندہ صحیح
متفق عليه

«257- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 969/2 ح 1875 ، ك 54 ب 5 ح 14) التمهيد 224/14 ، الاستذكار : 1811
أخرجه البخاري (3323) و مسلم (1570/43) من حديث مالك به»
------------------
258- وبه من رواية عيسى : أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : ( (إذا كان ثلاثةٌ فلا يتناجى اثنان دون واحدٍ) ) .
كمل حديث نافع عن ابن عمر ، وذلك أربعةٌ وستون حديثاً ، وتقدم له حديث ( (لا ينظر الله يوم القيامة) ) في باب زيد بن أسلم.

اور ( ابوموسیٰ ) عیسٰی ( بن مسکین : راویَ کتاب ) کی روایت سے اسی سند کے ساتھ ( سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے ) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”جب تین آدمی ہوں تو تیسرے کو چھوڑ کر ، دو آدمی آپس میں سرگوشی نہ کریں۔“
نافع کی ابن عمر سے روایتیں مکمل ہوگئیں اور یہ چونسٹھ
(۶۴) حدیثیں ہیں اور ایک حدیث «لا ينظر الله يوم القيامة» زید بن اسلم کے باب میں گزر چکی ہے ( دیکھئے حدیث سابق : ۱۶۵ )

سندہ صحیح
متفق عليه

«258- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 989/2 ح 1923 ، ك 56 ب 6 ح 14) التمهيد 287/15 ، الاستذكار : 1859
أخرجه البخاري (6288) و مسلم (2183) من حديث مالك به»
------------------
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
أبو سعيد
حديثٌ واحدٌ
259- مالكٌ عن نافعٍ عن أبي سعيدٍ الخدري أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : ( (لا تبيعوا الذهب بالذهب إلا مثلاً بمثلٍ ، ولا تشفوا بعضها على بعضٍ ، ولا تبيعوا الورق بالورق إلا مثلاً بمثلٍ ولا تشفوا بعضها على بعضٍ ، ولا تبيعوا منها شيئاً غائباً بناجزٍ) ) .

سیدنا ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”سونے کو سونے کے بدلے میں نہ بیچو مگر برابر برابر ، اس میں بعض کو بعض پر زیادتی واضافہ نہ دواور چاندی کو چاندی کے بدلے میں نہ بیچومگر برابر برابر ، اس میں بعض پر زیادتی واضافہ نہ دو اور ان میں سے کوئی چیز بھی ادھار کے بدلے نقد نہ بیچو . “

سندہ صحیح
متفق عليه
«259- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 632/2 ح 1361 ، ك 31 ب 16 ح 30) التمهيد 5/16 ، الاستذكار : 1281
أخرجه البخاري (2177) و مسلم (1584) من حديث مالك به»
------------------
القاسم بن محمدٍ
حديثٌ واحدٌ
260- مالكٌ عن نافعٍ عن القاسم بن محمد عن عائشة أم المؤمنين أنها اشترت نمرقةً فيها تصاوير. فلما رآها رسول الله صلى الله عليه وسلم قام على الباب فلم يدخل ، فعرفت في وجهه الكراهية وقالت : يا رسول الله ، أتوب إلى الله ورسوله ، فماذا أذنبت؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ( (ما بال هذه النمرقة؟) ) قالت : اشتريتها لك تقعد عليها وتتوسدها. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ( (إن أصحاب هذه الصور يوم القيامة يعذبون بها ، يقال لهم : أحيوا ما خلقتم) ) ، ثم قال : إن البيت الذي فيه الصور لا تدخله الملائكة) ) .

ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک تکیہ نما چھوٹا کمبل خریدا جس پر تصویریں تھیں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دیکھا تو دروازے پر کھڑے ہوگئے اور اندر تشریف نہ لائے میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے پر ناپسندیدگی کے اثرات دیکھے اور کہا: یا رسول اللہ ! میں اللہ اور اس کے رسول کی طرف رجوع کرتی ہوں ، مجھ سے کیا غلطی ہوئی ہے ؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”یہ نمرقہ ( چھوٹا تکیہ ) کیا ہے “ ؟ میں نے کہا: میں نے اسے آپ کے لیے خریدا ہے تاکہ آپ اس پر بیٹھیں اور تکیہ لگائیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”ان تصویر والوں کو قیامت کے دن عذاب ہو گا ، انہیں کہا: جائے گا کہ تم نے جو بنایا ہے اسے زندہ کرو“ پھر آپ نے فرمایا : ”جس گھر میں تصویریں ہوں وہاں ( رحمت کے ) فرشتے داخل نہیں ہوتے . “

سندہ صحیح
متفق عليه
«260- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 966/2 ، 967 ح 1869 ، ك 54 ب 3 ح 8) التمهيد 50/16 ، 51 ، الاستذكار : 1805
أخرجه البخاري (2105) و مسلم (2107/96) من حديث مالك به
وفي رواية يحي بن يحي : ” وَتَوَسَّدُهَا“ »
------------------
إبراهيم
حديثٌ واحدٌ
261- مالكٌ عن نافعٍ عن إبراهيم بن عبد الله بن حنين عن أبيه عن علي بن أبي طالب أنه قال : نهاني رسول الله صلى الله عليه وسلم عن لبس القسي والمعصفر ، وعن تختم الذهب ، وعن القراءة في الركوع. قال أبو الحسن : هذا لفظ كتاب الجامع ، وفي كتاب الصلاة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عن لبس القسي ، وقال فيه : وعن قراءة القرآن في الركوع.

سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ریشمی کپڑے ، زرد رنگ سے رنگے ہوئے کپڑے ، سونے کی انگوٹھی پہننے سے اور رکوع میں قرأت کرنے ( یعنی رکوع میں قرآن پڑھنے ) سے منع فرمایا ہے.
ابوالحسن ( القابسی ) نے کہا: یہ کتاب الجامع کے الفاظ ہیں اور کتاب الصلاۃ میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ریشمی لباس پہننے سے منع فرمایا ہے اور اس میں یہ بھی ہے کہ رکوع میں قرأت قرآن سے منع فرمایا ہے .

إسنادہ صحیح
« 261- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 80/1 ح 173 ، ك 3 ب 6 ح 28 (كتاب الصلوٰاة) بلفظ : ” عن علي بن أبي طالب أن رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نهي عن لبس القسي و عن تختم الذهب و عن قراءة القرآن في الركوع “) التمهيد 111/16 ، الاستذكار : 152
وأخرجه مسلم (2078) من حديث مالك به بلفظ : ” أن رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نهي عن لبس القسيّ و المعصفر وعن تختم الذهب وعن قراءة القرآن في الركوع“ ورواه النسائي (191/8 ح 5271) من حديث ابن القاسم عن مالك به مختصراً»
------------------
زيد بن عبد الله
حديثٌ واحدٌ
262- مالكٌ عن نافعٍ عن زيد بن عبد الله بن عمر عن عبد الله بن عبد الرحمن ابن أبي بكر الصديق عن أم سلمة زوج النبي صلى الله عليه وسلم أن النبي صلى الله عليه وسلم قال : ( (الذي يشرب في آنية الفضة إنما يجرجر في بطنه نار جهنم) ) .

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”جو شخص چاندی کے برتنوں میں پیتا ہے تو وہ اپنے پیٹ میں جہنم کی آگ ( غٹ غٹ ) بھرتا ہے . “

سندہ صحیح
متفق عليه
«262- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 924/2 ، 925 ح 1782 ، ك 49 ب 7 ح 11) التمهيد 101/16 ، الاستذكار : 1714
وأخرجه البخاري (5634) و مسلم (1065) من حديث مالك به»
------------------
صفية
حديثٌ واحدٌ
263- مالكٌ حدثني نافعٌ عن صفية بنت أبي عبيدٍ عن عائشة وعن حفصة أم المؤمنين أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : ( (لا يحل لامرأةٍ أن تؤمن بالله واليوم الآخر تحد على ميت فوق ثلاث ليالٍ إلا على زوجٍ) ) .

ام المؤمنین سیدہ حفضہ رضی اللہ عنہا اور ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” ایسی عورت کے لئے جو اللہ اور روزِ آخرت پر ایمان رکھتی ہے ، حلال نہیں کہ اپنے خاوند کے علاوہ کسی دوسرے شخص کی موت پر تین راتوں سے زیادہ سوگ کرے . “

سندہ صحیح

«263- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 598/2 ح 1307 ، ك 29 ب 35 ح 104) التمهيد 41/16 ، الاستذكار : 1227
أخرجه الامام الشافعي (الام 231/5 ، المسند ص 301) عن مالك به وقال : ” عن عائشة وحفصة أو عائشة أو حفصة“ ورواه مسلم (1490)من حديث نافع به»
------------------
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
باب من لم يسم
حديثان
264- مالكٌ عن نافعٍ أن رجلاً من الأنصار أخبره عن أبيه أنه سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم ينهى أن تستقبل القبلة لغائطٍ أو بولٍ.

ایک انصار آدمی کے باپ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قضائے حاجت یا پیشاب کرتے وقت قبلہ رو ہو کر بیٹھنے سے منع کیا ہے .

صحیح

«264- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 193/1 ح 456 ، ك 14 ب 1 ح 2) التمهيد 125/16 ، الاستذكار : 425
أخرجه الطحاوي في شرح معاني الآثار (232/4) من حديث مالك به والسند ضعيف وللحديث شواهد صحيحة منها الحديث السابق : 124
من رواية يحي بن يحي »
------------------
265- مالكٌ عن نافعٍ عن رجلٍ من الأنصار عن معاذ بن سعد أو عن سعد بن معاذٍ أن جاريةً لكعب بن مالكٍ كانت ترعى غنما لها بسلعٍ ، فأصيبت شاةٌ منها فذكتها بحجرٍ ، فسئل رسول الله صلى الله عليه وسلم عن ذلك ، فقال : ( (لا بأس بها ، فكلوها) ) .

معاذ بن سعد یا سعد بن معاذ سے روایت ہے کہ سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کی ایک لونڈی سلع ( کے مقام ) پر بکریاں چرا رہی تھی پھر ان میں سے ایک بکری مصیبت کا شکار ( زخمی یا بیمار) ہوئی تو اس نے وہاں پہنچ کر اسے پتھر کے ساتھ ذبح کردیا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے بارے میں پوچھا: تو آپ نے فرمایا : ”اس میں کوئی حرج نہیں ہے ، پس تم اسے کھاؤ ۔“

صحيح
«265- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 489/2 ح 1077 ، ك 24 ب 2 ح 4) التمهيد 126/16 ، الاستذكار : 1077
وأخرجه البخاري (5505) من حديث مالك به
رجل من الأنصارصحابي ، ذكره ابن مندة وغيره فى الصحابة كمافي إرشاد القاري للقسطلاني (279/8) وقال ١بن ١لعجمي : ”وهو عبداللّٰه بن كعب بن مالك“ (التوضيح لمبهمات الجامع الصحيح ، مخطوط مصور ص 322) والحمدللہ»
------------------
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
نبيه بن وهبٍ
حديثٌ واحدٌ
266- مالكٌ عن نافعٍ عن نبيه بن وهبٍ أخي بني عبد الدار أن عمر بن عبيد الله أرسل إلى أبان بن عثمان وأبان يومئذٍ أمير الحاج ، وهما محرمان : إني أردت أن أنكح طلحة بن عمر ابنة شيبة بن جبيرٍ ، فأردت أن تحضر ذلك فأنكر ذلك ، عليه أبان ابن عثمان ، وقال : سمعت عثمان بن عفان يقول : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ( (لا ينكح المحرم ولا يخطب ولا ينكح) ) .
قال أبو الحسن : يمكن أن يكون نبيهٌ سمع أبان يقول هذا. وقد جاء من حديث غير مالكٍ ما يصحح هذا ، ولو لم يأت ذلك لكان ذلك ممكناً أن يسمعه من الرسول صلى الله عليه وسلم فيصير متصلاً من حديث مالكٍ بمن لم يسم ، والله ولي التوفيق.
كمل حديث نافعٍ ، وهو اثنان وسبعون حديثاً.

نبیہ بن وہب ( تابعی ) سے روایت ہے کہ عمر بن عبید اللہ نے ابان بن عثمان ( بن عفان ) کر طرف پیغام بھیجا کہ میں ( طلحہ ) بن عمر ( القرشی التیمی ) کا شیبہ بن جبیر کی بیٹی سے نکاح کر نا چاہتا ہوں اور میرا ارادہ ہے کہ آپ بھی اس میں حاضر ہوں ان دنوں ابان ( رحمہ اللہ ) حاجیوں کے امیر تھے اور دونوں ( عمر بن عبید اللہ اور ابان ) حالتِ احرام میں تھے تو ابان بن عثمان نے عمر بن عبید اللہ ( کی دعوت ) کا انکار کیا اور فرمایا میں نے ( اپنے والد سیدنا ) عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : احرام باندھنے والا نہ نکاح کرے اور نہ منگنی کرے اور نہ کسی کا نکاح کرائے
ابوالحسن ( القابسی ) کے کہا: ہو سکتا ہے کہ نبیہ نے اسے ابان سے سنا ہو ( امام ) مالک کے علاوہ دوسروں کی روایت سے اسی بات کی تصیح ( و تائید ) ہوتی ہے اور اگر یہ بات نہ ہوتی تو ممکن ہے کہ انہوں نے پیغام لے جانے والے سے سنا ہو ، پس یہ روایت نامعلوم راوی کی سند کے ساتھ متصل ہو جاتی ہے اور اللہ ہی توفیق دینے والا ہے
نافع کی بیان کردہ احادیث مکمل ہوگئیں اور یہ بہتر ( 72) حدیثیں ہیں

صحيح
«266- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 348/2 ، 349 ح 788 ، ك 20 ب 22 ح 70) التمهيد 45/16 ، الاستذكار : 738
وأخرجه مسلم (1409) من حديث مالك به »
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
أبو سهيلٍ واسمه نافعٌ
حديثٌ واحدٌ
267- مالكٌ عن عمه أبي سهيل بن مالك عن أبيه أنه سمع طلحة بن عبيد الله يقول : جاء رجلٌ إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم من أهل نجد ، ثائر الرأس ، يسمع دوي صوته ولا يفقه ما يقول ، حتى دنا من رسول الله صلى الله عليه وسلم ، فإذا هو يسأل عن الإسلام ، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ( (خمس صلواتٍ في اليوم والليلة) ) ، فقال : هل علي غيرهن؟ قال : ( (لا ، إلا أن تطوع) )قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ( ( وصيام رمضان) ) ، قال : هل علي غيره؟ قال : ( (لا ، إلا أن تطوع) ) ، قال : وذكر له رسول الله صلى الله عليه وسلم الزكاة ، فقال : هل علي غيرها؟ قال : ( (لا ، إلا أن تطوع) ) ، قال : فأدبر الرجل وهو يقول : والله لا أزيد على هذا ولا أنقص منه ، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ( (أفلح إن صدق) ) .

سیدنا طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نجد والوں میں سے ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا ، اس کے سر کے بال بکھرے ہوئے تھے ، اس کی آواز کی گنگناہٹ سنائی دیتی لیکن اس کی بات سمجھ نہیں آرہی تھی حتٰی کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب آگیا کیا دیکھتے ہیں کہ وہ اسلام کے بارے میں کچھ پوچھ رہا تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”دن اور رات میں پانچ نمازیں ( فرض ہیں ) “ اس نے کہا: کیا ان ( پانچوں) کے علاوہ بھی مجھ پر کوئی نماز فرض ہے ؟ آپ نے فرمایا : ”نہیں اِلایہ کہ تم اپنی مرضی سے نوافل پڑھو“
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”اور رمضان کے روزے ( فرض ہیں ) “ اس نے کہا: کیا ان کے علاوہ بھی کوئی روزے مجھ پر فرض ہیں؟ آپ نے فرمایا : نہیں اِلایہ کہ تم اپنی مرضی سے نفلی روزے رکھو
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زکوٰۃ کا ذکر کیا اس نے پوچھا: کیا اس ( زکوٰۃ) کے علاوہ اور بھی مجھ پر کچھ فرض ہے ؟آپ نے فرمایا : ” نہیں الایہ کہ تم اپنی مرضی سے نفلی صدقے دو“ پھر وہ آدمی یہ کہتے ہوئے پیٹھ پھیرکرروانہ ہوا : اللہ کی قسم ! میں ان پر نہ زیادتی کروں گااور نہ کمی کروں گا
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اگر اس نے سچ کہا: ہے تو کامیاب ہو گیا ۔ “

سندہ صحیح
متفق عليه
«267- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 175/1 ح 425 ، ك 9 ب 25 ح 94) التمهيد 157/16 ، 158 ، الاستذكار : 395
و أخرجه البخاري (56) مسلم (11) من حديث مالك به »
------------------
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
نعيمٌ
ثلاثة أحاديث
268- مالكٌ عن نعيم بن عبد الله المجمر أن محمد بن عبد الله بن زيدٍ الأنصاري ، وعبد الله بن زيد هو الذي كان رأى النداء بالصلاة ، أخبره عن أبي مسعودٍ الأنصاري أنه قال : أتاني رسول الله صلى الله عليه وسلم في مجلس سعد بن عبادة ، فقال له بشير بن سعدٍ : أمرنا الله أن نصلي عليك يا رسول الله ، فكيف نصلي عليك؟ قال : فسكت رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى تمنينا أنه لم يسأله ، ثم قال : ( (قولوا : اللهم صل على محمدٍ وعلى آل محمدٍ ، كما صليت على آل إبراهيم ، وبارك على محمدٍ ، وعلى آل محمدٍ كما باركت على آل إبراهيم ، في العالمين إنك حميدٌ مجيدٌ ، والسلام كما قد علمتم) ) .

سیدنا ابومسعود الانصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سیدنا سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کی مجلس میں ہمارے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو بشیر بن سعد ( رضی اللہ عنہ) نے آپ سے کہا: یا رسول اللہ ! اللہ نے ہمیں آپ پر درود پرھنے کا حکم دیا ہے ، پس ہم آپ پر درود کیسے پڑھیں؟پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہوگئے حتیٰ کہ ہماری یہ خواہش ہوئی کہ ( کاش) انہوں نے آپ سے ( یہ) سوال نہ کیا ہوتا پھر آپ نے فرمایا : کہو «اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ، وَبَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا بَارَكْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ فِي الْعَالَمِينَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ »
اے اللہ ! محمدصلی اللہ علیہ وسلم اور آل محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) پر درود بھیج جیسا کہ تو نے آل ابراہیم پر درود بھیجا ، اور محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اور آلِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر برکتیں نازل فرما جیسا کہ تو نے آلِ ابراہیم پر برکتیں نازل فرمائیں اور سلام ( التحیات ) اسی طرح ہے جیسا کہ تم نے جان لیا ہے ۔

سندہ صحیح

«268- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 165/1 ، 166 ح 397 ، ك 9 ب 22 ح 67) التمهيد 183/16 ، الاستذكار : 367
وأخرجه مسلم (405) من حديث مالك به »
------------------
269- وعن نعيم بن عبد الله المجمر عن علي بن يحيى الزرقي عن أبيه عن رفاعة ابن رافعٍ الزرقي أنه قال : كنا يوماً نصلي وراء رسول الله صلى الله عليه وسلم ، فلما رفع رسول الله صلى الله عليه وسلم رأسه من الركعة وقال : ( (سمع الله لمن حمده) ) ، قال رجلٌ وراءه : ربنا ولك الحمد حمداً كثيراً طيباً مباركاً فيه ، فلما انصرف رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : ( (من المتكلم آنفاً؟) ) ، فقال الرجل : أنا يا رسول الله. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ( (لقد رأيت بضعةً وثلاثين ملكاً يبتدرونها أيهم يكتبها أولاً) ) .

سیدنا رفاعہ بن رافع الزرقی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھ رہے تھے پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکوع سے سر اٹھایا اور فرمایا : «سَمِعَ اللہُ لِمَنْ حَمِدَہُ» جس نے اللہ کی حمد کی اسے اللہ نے سنا ہے ، آپ کے پیچھے ( نماز پڑھنے والے ) ایک آدمی نے کہا: «رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ حَمْدًا كَثِيرًا طَيِّبًا مُبَارَكًا فِيهِ» اے ہمارے رب ! اور تیرے ہی لیے حمد وثنا ہے ، بہت زیادہ ، پاک اور مبارک پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرا تو فرمایا : ابھی کس نے ( نماز میں ) کلام کیا تھا ؟ ایک آدمی نے کہا: میں نے یا رسول اللہ ! تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میں نے تیس ( 30 ) سے زیادہ فرشتے دیکھے کہ اسے پہلے لکھنے میں ایک دوسرے سے جلدی کر رہے تھے ۔

سندہ صحیح

«269- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 211/1 ، 212 ح 494 ، ك 15 ب 7 ح 25) التمهيد 197/16 ، الاستذكار : 463
و أخرجه البخاري (799) من حديث مالك به»
------------------
270- وعن نعيم بن عبد الله عن أبي هريرة قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ( (على أنقاب المدينة ملائكةٌ ، لا يدخلها الطاعون ولا الدجال) ) .

سیدنا ابوہریرہرضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”مدینے کے راستوں پر فرشتے ہیں ، اس میں طاعون اور دجال داخل نہیں ہو سکتے ۔ “

سندہ صحیح
متفق عليه
«270- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 892/2 ح 1715/2 ، ك 45 ب 4 ح 16) التمهيد 179/16 ، الاستذكار : 1646
و أخرجه البخاري (1880) مسلم (1379) من حديث مالك به»
------------------
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
باب الصاد
ثلاثةٌ لجميعهم خمسة أحاديث
صفوان بن سليمٍ
حديثان
271- مالكٌ عن صفوان بن سليمٍ عن عطاء بن يسارٍ عن أبي سعيدٍ الخدري أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : ( (غسل يوم الجمعة واجبٌ على كل محتلمٍ) ) .

سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روايت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” ہر بالغ پر غسل جمعہ واجب ہے . “

سندہ صحیح
متفق عليه

« 271- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 102/1 ح 226 ، ك 5 ب 5 ح 4) التمهيد 211/16 ، الاستذكار : 196
و أخرجه البخاري (879) مسلم (846) من حديث مالك به »
------------------
272- وعن صفوان بن سليمٍ عن سعيد بن سلمة من آل بني الأزرق أن المغيرة ابن أبي بردة ، وهو من بني عبد الدار ، أخبره أنه سمع أبا هريرة يقول : سأل رجلٌ رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال : يا رسول الله إنا نركب البحر ، ونحمل معنا القليل من الماء ، فإن توضأنا به عطشنا ، أفنتوضأ من ماء البحر؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ( (هو الطهور ماؤه ، الحل ميتته) ) .

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک آدمی نے پوچھا: یارسول اللہ ! ہم سمندر میں سفر کرتے ہیں اور اپنے ساتھ تھوڑا سا پانی لے جاتے ہیں ، اگر ہم اس سے وضو کریں تو پیاسے رہ جاتے ہیں ، کیا ہم سمندر کے پانی سے وضو لے لیں ؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”اس ( سمندر) کا پانی پاک اور اس کا مردار ( مچھلی) حلال ہے . “

سندہ صحیح

«272- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 22/1 ح 40 ، ك 2 ب 3 ح 12) التمهيد 217/16 ، الاستذكار : 43
و أخرجه أبوداود (83) و الترمذي (69 وقال : ”حسن صحيح“) و النسائي (50/1 ح 59) وابن ماجه (386) كلهم من حديث مالك به وصححه ابن خزيمة (111) وابن حبان (الموارد : 119)
من رواية يحيٰ بن يحيٰ وجاء في الأصل : ” صَفْوَانَ عَنْ سُلَيْمٍ“ وهو خطأ
وفي رواية يحي : ” هُوَ الظَّهُوْرُ“ إلخ »

------------------
صالح بن كيسان
حديثان
273- مالكٌ عن صالح بن كيسان عن عروة بن الزبير عن عائشة رضي الله عنها زوج النبي صلى الله عليه وسلم أنها قالت : فرضت الصلاة ركعتين ركعتين في السفر والحضر ، فأقرت صلاة السفر ، وزيد في صلاة الحضر.

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نماز (پہلے) سفر اور حضر میں دو دو رکعتیں فرض ہوئی تھی پھر سفر والی نماز تو ( اپنے حال پر) باقی رکھی گئی اور حضر کی نماز میں اضافہ کر دیا گیا .

سندہ صحیح
متفق عليه

«273- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 146/1 ح 333 ، ك 9 ب 2 ح 8 وقال : هذا حديث صحيح الإسناد عند جماعة أهل النقل) التمهيد 293/16 ، الاستذكار : 304
و أخرجه البخاري (350) مسلم (685) من حديث مالك به »
------------------
274- وعن صالح بن كيسان عن عبيد الله بن عبد الله عن زيد بن خالدٍ الجهني أنه قال : صلى لنا رسول الله صلى الله عليه وسلم صلاة الصبح بالحديبية في إثر سماءٍ كانت من الليل ، فلما انصرف أقبل على الناس فقال : ( (هل تدرون ماذا قال ربكم؟) ) قالوا : الله ورسوله أعلم ، قال : ( (أصبح من عبادي مؤمنٌ بي وكافرٌ ، فأما من قال : مطرنا بفضل الله ورحمته ، فذلك مؤمن بي كافرٌ بالكوكب ، وأما من قال : مطرنا بنوء كذا وكذا ، فذلك كافرٌ بي مؤمنٌ بالكوكب) ) .

سیدنا زید بن خالد الجہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حدیبیہ کے مقام پر رات کی بارش کے بعد صبح کی نماز پڑھائی پھر جب آپ نے نماز سے سلام پھیرا تو لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا : کیا تمھیں پتا ہے کہ تمھارے رب نے کیا کہا ہے ؟ لوگوں نے کہا: اللہ اور اس کا رسول سب سے زیادہ جانتے ہیں آپ نے فرمایا : ” ( اللہ فرماتا ہے : ) میرے بندوں میں سے کچھ بندوں نے صبح اس حال میں کی ہے کہ ان میں سے کچھ مؤمن ہیں اور کچھ کافر جو شخص کہتا ہے کہ اللہ کے فضل اور رحمت کی وجہ سے بارش ہوئی ہے تو یہ شخص مجھ پر ایمان لانے والا ( مومن) ہے اور ستاروں کا انکار کر نے والا ہے ۔
اور جو کہتا ہے کہ فلاں ستارے کی وجہ سے بارش ہوئی ہے تو یہ شخص میرا انکار کرنے والا اور ستاروں پر ایمان لانے والا ہے۔ “

سندہ صحیح
متفق عليه

«274- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 192/1 ح 452 ، ك 13 ب 3 ح 4) التمهيد 283/16 ، الاستذكار : 421
و أخرجه البخاري (846) مسلم (71) من حديث مالك به
من رواية يحيی بن يحيی »
------------------
صيفي مولى ابن أفلح
حديثٌ واحدٌ

275- مالكٌ عن صيفي مولى ابن أفلح عن أبي السائب مولى هشام بن زهرة عن أبي سعيد الخدري أن رسول الله صلى الله عليه وسلم خرج إلى الخندق ، فبينما هو به إذ جاءه فتى من الأنصار حديث عهدٍ بعرسٍ ، فقال : يا رسول الله ، ائذن لي أحدث بأهلي عهداً ، فأذن له رسول الله صلى الله عليه وسلم ، فأقبل الفتى فإذا هو بامرأته بين البابين فأهوى إليها بالرمح ليطعنها ، فقالت : لا تعجل حتى تدخل وتنظر ، قال : فدخل فإذا هو بحيةٍ منطويةٍ على فراشه ، فلما رآها ركز فيها رحمه ثم نصبه ، قال أبو سعيدٍ : فاضطربت الحية في رأس الرمح حتى ماتت وخر الفتى ميتاً ، فبلغ ذلك رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال : ( (إن بالمدينة جناً قد أسلموا ، فإذا رأيتم منهم شيئاً فآذنوه ثلاثة أيامٍ ، فإن بدا لكم بعد ذلك فاقتلوه ، فإنما هو شيطانٌ) ) .

قال مالكٌ : يحرج عليه ثلاث مراتٍ ، تقول : أحرج عليك بالله واليوم الآخر أن لا تتبدا لنا ولا تخرج.

سیدنا ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ( غزوہ) خندق کی طرف گئے تو ایک انصاری نوجوان کو دیکھا جس کی نئی نئی شادی ہوئی تھی اس نے کہا: یا رسول اللہ ! مجھے اجازت دیں ایک بار پھر گھر سے ہو آئوں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اجازت دے دی پھر وہ نوجوان اپنے گھر کے پاس پہنجا تو دیکھا کہ اس کی بیوی دوںوں دروازوں کے پاس کھڑی ہے وہ نیزہ لے کر اپنی بیوی کو مارنے کے لئے بڑھا تو اس نے کہا: جلدی نہ کرو ، اندر داخل ہو کر دیکھو کای ہے ؟ پھر وہ گھر میں داخل ہوا تو دیکھا کہ ایک سانپ کنڈلی مارے اس کے بستر پر موجود ہے جب اس نے سانپ کو دیکھا تو اسے نیزہ چبھوہ کر اُٹھالیا ابوسعید ( الخدری رضی اللہ عنہ ) نے فرمایا : سانپ نیزے پر تڑپ تڑپ کر مرگیا اور نوجوان بھی گرپڑا ( اور فوت ہوگیا )
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات معلوم ہوئی تو آپ نے فرمایا : ” مدینے میں ایسے جن ہیں جو مسلمان ہو گئے ہیں اگر تم ان میں سے کسی کو دیکھو تو انہیں تین دن تک تنبیہ کرو ( کہ ہمارے گھر سے چلے جائو ) پھر اگر وہ اس کے بعد نظر آئے تو اسے قتل کر دو کیونکہ یہ شیطان ( کافر جن ) ہے ۔ “
امام مالک نے کہا: اس کے سامنے آ کر تین دفعہ کہے : تجھے اللہ اور قیامت کے دن کی قسم : نکل جا ، نہ ہمارے سامنے ظاہر ہونا اور نہ یہاں دوبارہ آنا ۔

سندہ صحیح

«275- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 976/2 ، 977 ح 1894 ، ك 54 ب 12 ح 33 مطولاً) التمهيد 257/16 -259 ، الاستذكار : 1830
و أخرجه مسلم (2236) من حديث مالك به»
----------------- ------------------
 
Top