مظاہر امیر
مشہور رکن
- شمولیت
- جولائی 15، 2016
- پیغامات
- 1,427
- ری ایکشن اسکور
- 411
- پوائنٹ
- 190
221- وبه : أن تلبية رسول الله صلى الله عليه وسلم : ( (لبيك اللهم لبيك لبيك ، لا شريك لك لبيك ، إن الحمد والنعمة لك والملك ، لا شريك لك) ) قال نافعٌ : وكان عبد الله بن عمر يزيد فيها : لبيك لبيك ، لبيك وسعديك ، والخير بيديك ، لبيك والرغباء إليك والعمل.
اور اسی سند کے ساتھ ( سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے ) روایت ہے کہ ر سول اللہ یہ لبیک کہتے تھے : «لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ، إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَكَ وَالْمُلْكَ، لَا شَرِيكَ لَكَ» ” اے اللہ ! میں حاضر ہوں ، اے میرے اللہ ! میں حاضر ہوں حاضر ہوں تیرا کوئی شریک نہیں ، حاضرہوں ، حمد و ثنا اور نعمت تیرے لئے ہی ہے اور ملک میں تیرا کوئی شریک نہیں ۔ “ نافع ( تابعی) فرماتے ہیں کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اس میں یہ اضافہ کر تے تھے : لَبَّيْكَ لَبَّيْكَ لَبَّيْكَ وَسَعْدَيْكَ، وَالْخَيْرُ بِيَدَيْكَ لَبَّيْكَ، وَالرَّغْبَاءُ إِلَيْكَ وَالْعَمَلُ ” حاضر ہوں ، حاضر ہوں ، حاضر ہوں اور خیر تیر ے ہاتھ میں ہے ، حاضر ہوں اور ( میری) رغبت تجھی سے ہے اور ( میرا ) عمل تیرے لئے ہی ہے ۔“
سندہ صحیح
متفق عليه
متفق عليه
« 221- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 331/1 ، 332 ح 745 ، ك 20 ب 09 ح 28) التمهيد 125/15 ، الاستذكار : 695
و أخرجه البخاري (1549) ومسلم (1184) من حديث مالك به»
و أخرجه البخاري (1549) ومسلم (1184) من حديث مالك به»
------------------
222- وبه : عن حفصة زوج النبي صلى الله عليه وسلم أنها قالت لرسول الله صلى الله عليه وسلم : ما شأن الناس حلوا بعمرةٍ ولم تحلل أنت من عمرتك؟ قال : ( (إني لبدت رأسي وقلدت هدي ، فلا أحل حتى أنحر) ) .
اور اسی سند کے ساتھ ( سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے ) روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک بیوی ( سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہ ) نے ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: کیا وجہ ہے کہ لوگوں نے تو عمرہ کر کے احرام کھول دئیے ہیں اور آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عمرے سے ( ابھی تک ) احرام نہیں کھولا؟ آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میں نے اپنے بال چپکا لئے تھے اور قربانی کے جانورروں کو مقرر کر لیا تھا لہٰذا میں قربانی کر نے تک احرام نہیں کھولوں گا .
سندہ صحیح
متفق عليه
متفق عليه
«222- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 3941 ح 908 ، ك 20 ب 58 ح 80) التمهيد 297/15 ، الاستذكار : 848
و أخرجه البخاري (1566) ومسلم (1229) من حديث مالك به»
و أخرجه البخاري (1566) ومسلم (1229) من حديث مالك به»
------------------
223- وبه : أن ابن عمر خرج إلى مكة معتمراً في الفتنة ، فقال : إن صددت عن البيت صنعنا كما صنعنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم ، فأهل بعمرة من أجل أن النبي صلى الله عليه وسلم كان أهل بعمرةٍ عام الحديبية ، ثم إن عبد الله بن عمر نظر في أمره ، فقال : ما أمرهما إلا واحد ، فالتفت إلى أصحابه ، فقال : ما أمرهما إلا واحد ، أشهدكم أني قد أوجبت الحج مع العمرة ، قال : ثم طاف طوافاً واحداً ، ورأى أن ذلك مجزئٌ عنه وأهدى.
اور اسی سندکے ساتھ روایت ہے کہ ( سیدنا ) ابن عمر رضی اللہ عنہ فتنے ( جنگ ) کے زمانے میں عمرہ کر نے کے لئے مکہ کی طرف چلے تو فرمایا : اگر مجھے بیت اللہ سے روک دیا گیا تو ہم اس طرح کر یں گے جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا پھر انہوں نے اس وجہ سے عمرے کی لبیک کہی کہ حدبیبہ والے سال نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرے کے لبیک کہی تھی پھر عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے مسئلے میں غور کیاتو فرمایا : دونوں ( عمر ے اور حج) کا تو ایک ہی حکم ہے ، میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے عمرے کے ساتھ اپنے آپ پر حج لازم کر لیا ہے پھر انہوں نے ایک طواف کیا اور یہ سمجھے کہ یہ کافی ہے اور قربانی کی
سندہ صحیح
متفق عليه
متفق عليه
«223- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 360/1ح 818 ، ك 20 ب 31 ح 99) التمهيد 189/15 ، الاستذكار : 767
و أخرجه البخاري (1806) ومسلم (1230) من حديث مالك به»
و أخرجه البخاري (1806) ومسلم (1230) من حديث مالك به»
------------------
224- وبه : أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : ( (خمسٌ من الدواب ليس على المحرم في قتلهن جناحٌ : الغراب والحدأة والعقرب والفأرة والكلب العقور) ) .
اور اسی سند کے ساتھ ( سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے ) روایت ہے کہ ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : حالت احرام میں پانچ جانوروں کے قتل میں کوئی حرج نہیں ہے : کوا ، چیل ، بچھو ، چوہا اور کاٹنے والا کتا ۔
سندہ صحیح
متفق عليه
متفق عليه
«224- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 356/1 ح 806 ، ك 20 ب 28 ح 88) التمهيد 153/15 ، الاستذكار : 756
و أخرجه البخاري (1826) ومسلم (1199) من حديث مالك به»
و أخرجه البخاري (1826) ومسلم (1199) من حديث مالك به»
------------------
225- وبه : أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : ( (اللهم ارحم المحلقين) ) ، قالوا : والمقصرين يا رسول الله ، قال : ( (اللهم ارحم المحلقين) ) قالوا : والمقصرين يا رسول الله ، قال : ( (والمقصرين) ) .
ور اسی سند کے ساتھ ( سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے ) روایت ہے کہ ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اے میرے اللہ ! سرمنڈوانے والوں پر رحم کر ، لوگوں نے کہا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اور سر کے بال کٹوانے والوں پر؟ آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اے میرے اللہ ! سر منڈوانے والوں پر رحم کر ، لوگوں نے کہا: یا ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اور سر کے بال کٹوانے والوں پر؟ آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اور ( رحم کر) سر کے بال کٹوانے والوں پر
سندہ صحیح
متفق عليه
متفق عليه
«225- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 395/1 ح 912 ، ك 20 ب 20 ح 184) التمهيد 233/15 ، الاستذكار : 852
و أخرجه البخاري (1727) ومسلم (1301/317) من حديث مالك به»
و أخرجه البخاري (1727) ومسلم (1301/317) من حديث مالك به»
------------------
226- وبه : أن رسول الله صلى الله عليه وسلم دخل الكعبة هو وأسامة بن زيدٍ وبلالٌ وعثمان ابن طلحة الحجبي فأغلقها عليه ومكث فيها. قال عبد الله بن عمر : فسألت بلالاً حين خرج : ماذا صنع رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ فقال : جعل عموداً عن يساره وعمودين عن يمينه وثلاثة أعمدة وراءه ، وكان البيت يومئذٍ على ستة أعمدةٍ ، ثم صلى وجعل بينه وبين الجدار نحواً من ثلاثة أذرعٍ.
اور اسی سند کے ساتھ ( سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے ) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، اسامہ بن زید ، بلال اور عثمان بن طلحہ الحجمی رضی اللہ عنہم کعبتہ اللہ میں داخل ہوئے تو دروازہ بند کرکے وہاں ٹھہرے رہے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : پھر جب آپ باہر آئے تو میں نے سیدنا بلال رضی اللہ عنہ سے پوچھا: کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا عمل فرمایا تھا؟ تو انہوں نے جواب دیا : آپ اس طرح کھڑے ہوئے کہ بائیں طرف ایک ستون تھا ، دائیں طرف دو ستون تھے اور پچھلی طرف تین ستون تھے ان دنوں بیت اللہ کے چھ ستون تھے پھر آپ نے نماز پڑھی ، آپ کے اور دیوار کے درمیان تین ہاتھ کا فاصلہ تھا ۔
سندہ صحیح
متفق عليه
متفق عليه
«226- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 398/1 ح 921 ، ك 20 ب 63 ح 193 مختصراً ، وعنده جعل عمودًا عن يمينه و عمر دين عن يساره) ، التمهيد 313/15 ، الاستذكار : 861
و أخرجه البخاري (505) ومسلم (1329) من حديث مالك به»
و أخرجه البخاري (505) ومسلم (1329) من حديث مالك به»
------------------
227- وبه : أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان إذا قفل من غزوٍ أو حجٍ أو عمرةٍ يكبر على شرفٍ من الأرض ثلاث تكبيراتٍ ، ثم يقول : ( (لا إله إلا الله وحده لا شريك له ، له الملك وله الحمد وهو على كل شيءٍ قديرٌ. آيبون تائبون عابدون ساجدون لربنا حامدون. صدق الله وعده ، ونصر عبده ، وهزم الأحزاب وحده) ) .
اور اسی سند کے ساتھ ( سیدنا بن عمر رضی اللہ عنہ سے ) روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جہاد ، حج یا عمرے سے واپس لوٹتے تو ہر اونچی زمین پر ( چڑھتے ہوئے ) تین تکبیریں کہتے پھر فرماتے : «لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ، وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ، آيِبُونَ تَائِبُونَ عَابِدُونَ سَاجِدُونَ. لِرَبِّنَا حَامِدُونَ. صَدَقَ اللَّهُ وَعْدَهُ. وَنَصَرَ عَبْدَهُ. وَهَزَمَ الْأَحْزَابَ وَحْدَهُ» ” ایک اللہ کے سوا کوئی الہٰ ( معبود برحق) نہیں ، اس کا کوئی شریک نہیں ، اسی کی بادشاہی ہے اور اسی کی حمد و ثنا ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے واپس جا رہے ہیں ، توبہ کرتے ہوئے ، عبادت کرتے ہوئے ، سجدے کرتے ہوئے ، اپنے رب کی حمد و ثنا بیان کرتے ہیں اللہ نے اپنا وعدہ پورا کیا ، اپنے بندے کی مدد کی اور اکیلے اللہ نے تمام گروہوں کو شکست دے دی ۔ “
سندہ صحیح
متفق عليه
متفق عليه
«227- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 421/1 ح 971 ، ك 20 ب 81 ح 243) التمهيد 241/15 ، الاستذكار : 912
و أخرجه البخاري (1797) ومسلم (1344/428) من حديث مالك به»
و أخرجه البخاري (1797) ومسلم (1344/428) من حديث مالك به»
------------------
228- وبه : أن رسول الله صلى الله عليه وسلم أناخ بالبطحاء التي بذي الحليفة وصلى بها. قال نافعٌ : وكان عبد الله بن عمر يفعل ذلك.
اور اسی سند کے ساتھ ( سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے ) روایت ہے کہ ذولحلیفہ کے پاس بطحاءکے مقام پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سواری بٹھائی اور اس کی طرف رخ کرکے نماز پڑھی نافع نے کہا: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بھی اسی طرح کرتے تھے ۔
سندہ صحیح
متفق عليه
متفق عليه
«228- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 405/1 ح 933 ، ك 20 ب 69 ح 206) التمهيد 243/15 ، الاستذكار : 874
و أخرجه البخاري (1532) ومسلم (1257/430 بعد ح 1345) من حديث مالك به»
و أخرجه البخاري (1532) ومسلم (1257/430 بعد ح 1345) من حديث مالك به»
------------------
229- وبه : أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : ( (لا يخطب أحدكم على خطبة أخيه) ) .
اور اسی سند کے ساتھ ( سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے ) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کوئی شخص اپنے بھائی کی منگنی پر منگنی نہ کرے
سندہ صحیح
متفق عليه
متفق عليه
«229- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 523/2 ح 1135 ، ك 28 ب 1 ح 2) التمهيد 324/13 ، الاستذكار : 1059
و أخرجه البخاري (5142) ومسلم (1412) من حديث مالك به»
و أخرجه البخاري (5142) ومسلم (1412) من حديث مالك به»
------------------
230- وبه : أن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عن الشغار.
والشغار أن يزوج الرجل ابنته الرجل على أن يزوجه الرجل الآخر ابنته ، ليس بينهما صداقٌ.
والشغار أن يزوج الرجل ابنته الرجل على أن يزوجه الرجل الآخر ابنته ، ليس بينهما صداقٌ.
اور اسی سند کے ساتھ ( سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے ) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شغار ( وٹے سٹے کے نکاح) سے منع فرمایا ہے ( نافع نے کہا: ) اور شغار اسے کہتے ہیں کہ آدمی اپنی بچی کا نکاح دوسرے آدمی سے اس شرط پر کرے کہ وہ اپنی بچی کا نکاح اس سے کرے گا ( اور ) دونوں کے درمیان حق مہر نہیں ہوگا ۔
سندہ صحیح
متفق عليه
متفق عليه
«230- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 535/2 ح 1159 ، ك 28 ب 11 ح 24) التمهيد 70/14 ، الاستذكار : 1081
و أخرجه البخاري (5112) ومسلم (1415/57) من حديث مالك به»
و أخرجه البخاري (5112) ومسلم (1415/57) من حديث مالك به»
------------------