• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نماز نبوی صحیح احادیث کی روشنی میں

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
بعض مساجد میں نمازوں کا ثواب :
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’تین مساجد مسجد حرام، مسجد اقصیٰ اور مسجد نبوی کے علاوہ کسی دوسری جگہ کے لیے سفر اختیار نہ کرو۔‘‘
(بخاری: باب فضل الصلاۃ فی مسجد مکۃ والمدینۃ: ۹۸۱۱، مسلم: ۷۹۳۱.)
خانہ کعبہ (مسجد الحرام) میں ایک نماز دوسری مساجد کی ایک لاکھ نمازوں سے افضل ہے۔
(ابن ماجہ، اقامۃ الصلاۃ، باب ماجاء فی فضل الصلاۃ فی المسجد الحرام: ۶۰۴۱.)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"مسجد نبوی میں ایک نماز دوسری مساجد کی ایک ہزار نمازوں سے بہتر ہے، سوائے خانہ کعبہ کے۔"
(بخاری:۰۹۱۱ ومسلم، الحج، باب فضل الصلاۃ بمسجدی مکۃ والمدینۃ ۴۹۳۱.)
سیدنا سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جس شخص نے گھر میں وضو کیا پھر مسجد قبا گیا اور وہاں نماز پڑھی اس کو عمرہ کے برابر اجر ملے گا۔‘‘
(ابن ماجہ: إقامۃ الصلاۃ، باب: ما جاء فی الصلاۃ فی مسجد قباء: ۲۱۴۱.)
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہر ہفتہ کے دن کو مسجد قبا میں پیدل یا سوار ہو کر جاتے اور دو رکعت نماز پڑھتے۔
(بخاری: ۴۹۱۱، مسلم: ۰۲۵۔(۹۹۳۱).)
فضیلۃالشیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’جب حرم نمازیوں سے بھر جائے اور لوگ ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کھڑے ہوں اور جگہ نہ ملنے کی وجہ سے کچھ لوگ بازار میں نماز ادا کریں تو ان بازار میں نماز ادا کرنے والوں کے لیے بھی امید ہے کہ انہیں بھی اتنا ہی ثواب ملے گا جتنا حرم کے اندر نماز ادا کر نے والوں کو، کیونکہ انہوں نے حسب استطاعت عمل کیا ہے اور اس عبادت کے ادا کر نے میں اہل مسجد کے ساتھ شریک ہوئے ہیں ۔‘‘
(فتاوی اسلامیہ، ص۰۴.)

خانہ کعبہ میں داخل ہو کر نماز ادا کرنا:
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، سیدنا اسامہ بن زید، سیدنا بلال اور سیّدنا عثمان بن طلحہ رضی اللہ عنہم بیت اللہ میں داخل ہوئے اور دروازہ بند کر لیا۔ جب انہوں نے دروازہ کھولا تو سب سے پہلے میں داخل ہوا سیّدنا بلال رضی اللہ عنہ سے میں نے سوال کیا کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کعبہ کے اندر نماز پڑھی تو انہوں نے جواب دیا ہاں ان دو یمانی ستونوں کے درمیان۔
(ابو داود، الصلاۃ، باب ما جاء فی فضل المشی الی الصلاۃ، ۸۵۵۔ اس کی سند حسن ہے۔)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
مسجد جانے کی فضیلت :
سیدنا ابو امامہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جو شخص اپنے گھر سے باوضو ہو کر فرض نماز ادا کرنے کے لیے مسجد کے لیے نکلتا ہے پس اس کو حج کا احرام باندھنے والے کی مانند ثواب ملتا ہے۔‘‘
(بخاری۸۶۴۔ مسلم، الحج، استحباب دخول الکعبۃ للحاج،۹۲۳۱.)
یاد رہے کہ جن پر بیت اللہ کا حج فرض ہو چکا ہو، جب تک وہ وہاں جا کر حج نہ کریں ان سے فرضیت ساقط نہ ہو گی خواہ ساری عمر باوضو ہو کر پانچوں نمازیں مسجد میں جا کر پڑھتے رہیں، اس لیے اللہ کی بخشش اور اجر و ثواب کی فراوانی سے کسی قسم کی غلط فہمی کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کا ثواب اپنے گھر یا بازار میں تنہا نماز پڑھنے سے (کم از کم) پچیس درجے زیادہ ہے۔ پس جب وہ اچھی طرح وضو کر کے مسجد جائے تو اس کے ہر قدم سے اس کا درجہ بلند ہوتا ہے اور گناہ معاف ہوتے ہیں۔ جب وہ نماز پڑھتا ہے تو فرشتے اس کے لیے اس وقت تک دعا کرتے رہتے ہیں جب تک وہ نماز کی جگہ پر بیٹھا رہتا ہے۔ فرشتے کہتے ہیں: ’’اللّٰہُمَّ صَلِّ عَلَیْہِ‘‘ ’’اے اللہ! اس پر اپنی رحمت اتار۔ اے اللہ اس کی توبہ قبول کر۔ ‘‘جب تک وہ کسی کو ایذا نہیں دیتا یا وہ حدث نہیں کرتا فرشتے اس کے لیے دعا کرتے رہتے ہیں۔ جب تک نمازی نماز کا انتظار کرتا ہے وہ نماز ہی میں ہوتا ہے۔
(بخاری، البیوع، باب ما ذکر فی الاسواق، ۹۱۱۲)

دور سے مسجد آنا:
سیدنا ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’بے شک نماز میں لوگوں میں سب سے زیادہ اجر کا مستحق وہ شخص ہے جو ان میں سب سے زیادہ دور سے اس کی طرف چل کر آتا ہے ۔‘‘
(بخاری، الاذان، فضل صلاۃ الفجر ،۱۵۶، مسلم:۲۶۶.)
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جو شخص جس قدر دور سے مسجد آئے گا اسی قدر اس کا اجر بھی زیادہ ہو گا۔‘‘
(ابو داؤد، فضل المشی الی الصلاۃ۶۵۵.)
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مسجد نبوی کے گرد کچھ مکان خالی ہوئے۔ بنو سلمہ نے مسجد کے قریب منتقل ہونے کا ارادہ کیا۔ آپ نے فرمایا:
’’اے بنو سلمہ اپنے (موجودہ) گھروں میں ٹھہرے رہو (مسجد کی طرف آتے وقت) تمہارے ہر قدم (کا ثواب) لکھا جاتا ہے۔‘‘
(مسلم، المساجد، باب فضل کثرۃ الخطا الی المساجد، ۵۶۶.)

مسجد کا نمازی، اللہ کے سائے میں :
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"سات شخص ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ اس دن (حشر میں) اپنے سائے میں رکھے گا جس دن سوائے اس کے سائے کے کوئی سایہ نہیں ہو گا۔ (پہلا) عادل حاکم (دوسرا) وہ نوجوان جو اللہ کی عبادت میں جوانی گزارے (تیسرا) وہ شخص جس کا دل مسجد میں اٹکا ہوا ہو، جس وقت نماز پڑھ کر نکلتا ہے تو اس کی طرف دوبارہ آنے کے لیے بے تاب رہتا ہے۔ (چوتھا) وہ دو شخص جو (صرف) اللہ تعالیٰ (کی رضا) کے لیے آپس میں محبت رکھتے ہیں۔ (جب) ملتے ہیں تو اسی کی محبت میں اور جدا ہوتے ہیں تو اسی کی محبت میں۔ (پانچواں) وہ شخص جو تنہائی میں اللہ کو یاد کرتا ہے اور (افراط محبت یا خشیت سے) اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ پڑتے ہیں۔ (چھٹا) وہ شخص کہ جسے کسی خاندانی، خوبصورت عورت نے (برائی کے لیے) بلایا۔ (یعنی دعوت گناہ دی) پھر اس شخص نے کہا میں اللہ سے ڈرتا ہوں۔ (ساتواں) وہ شخص کہ جس نے اللہ کے نام پر کچھ دیا پھر اس کو چھپایا یہاں تک کہ اس کے بائیں ہاتھ کو علم نہ ہوا کہ اس کے دائیں ہاتھ نے کیا خرچ کیا۔ (یعنی خیرات کو بالکل مخفی رکھتا ہے)۔
(بخاری، الاذان باب من جلس فی المسجد ینتظر الصلاۃ وفضل المساجد، ۰۶۶ ومسلم، الزکاۃ، باب فضل اخفاء الصدقۃ، ۱۳۰۱.)

مساجد میں خوشبو :
ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’محلوں میں مسجدیں بناؤ۔ (یعنی جہاں نیا محلہ آباد ہو وہاں مسجد بھی بناؤ) اور انہیں پاک صاف رکھو، اور خوشبو لگاؤ۔‘‘
(ابو داؤد، الصلاۃ، باب اتخاذ المساجد فی الدور، ۵۵۴۔ ابن ماجہ، المساجد، باب تطھیر المساجد، و تطییبھا، ۸۵۷، ۹۵۷۔ اسے امام ابن خزیمہ اور ابن حبان نے صحیح کہا۔)

مسجد کے نمازیوں کے لیے خوشخبری:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"اندھیروں میں (نماز کے لیے) مسجد کی طرف چل کر آنے والوں کو قیامت کے دن پورے نور کی خوشخبری سنا دو۔‘‘
(ابن ماجہ، المساجد، باب المشی الی الصلاۃ، ۰۸۷۔ امام حاکم اور امام ذہبی نے اسے صحیح کہا۔)
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ فرشتے مسجدوں کے مستقل نمازیوں کے ہم مجلس ہوتے ہیں۔ اگر وہ مسجد سے غیر حاضر ہوں تو وہ انہیں تلاش کرتے ہیں۔ اگر وہ بیمار ہوں تو وہ ان کی عیادت کرتے ہیں۔ اور اگر وہ کسی مشکل میں ہوں تو ان کی مدد کرتے ہیں۔ مسجد کا مستقل نمازی تین خوبیوں کا حامل ہوتا ہے ۔۱۔ استفادہ کرنے والا ۔۲۔ حکمت کی بات سیکھنے والا۔۳۔ اللہ کی رحمت کا امید وار۔
(سلسلہ الاحادیث الصحیحہ للالبانی۱۰۴۳.)

تحیۃ المسجد (مسجد کا تحفہ) :
سیدنا ابو قتادہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جب تم مسجد میں داخل ہو تو بیٹھنے سے پہلے دو رکعت (تحیۃ المسجد کے طور پر ) پڑھو۔‘‘
(بخاری: الصلٰوۃ، باب: اذا دخل المسجد فلیرکع رکعتین ۴۴۴۔ ومسلم: ۴۱۷.)
سیدنا ابو قتادہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں مسجد میں گیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے ساتھ مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے۔ میں بھی بیٹھ گیا۔ آپ نے فرمایا کہ تمہیں بیٹھنے سے پہلے دو رکعت پڑھنے سے کس چیز نے روکا ہے۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں نے آپ کو اور لوگوں کو بیٹھے دیکھا تو میں بھی بیٹھ گیا۔ آپ نے فرمایا جب تم میں سے کوئی مسجد آئے تو جب تک دو رکعت نہ پڑھ لے نہ بیٹھے۔
(مسلم: صلاۃ المسافرین، باب استحباب تحیۃ المسجد برکعتین: ۰۷۔(۴۱۷).)
فضیلۃ الشیخ عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’تحیۃ المسجد سنت مؤکدہ ہے جسے تمام اوقات حتیٰ کہ ممانعت کے اوقات (نماز فجر سے سورج نکلنے اور نماز عصر سے سورج ڈوبنے تک) میں بھی علماء کے صحیح قول کے مطابق ادا کیا جاسکتا ہے ۔‘‘
(فتاوی اسلامیہ، اول۳۳۴.)

قبرستان اور حمام میں نماز کی ممانعت:
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"تمام روئے زمین مسجد ہے (یعنی سب جگہ نماز جائز ہے) سوائے قبرستان اور حمام کے۔‘‘
(ابو داود، الصلاۃ، باب فی المواضع التی لا تجوز فیھا الصلاۃ، ۲۹۴۔ ترمذی، الصلاۃ، باب ما جاء ان الارض کلھا مسجد الا المقبرۃ والحمام، ۷۱۳۔ اسے امام حاکم، امام ابن خزیمہ، ابن حبان، ذہبی اور ابن حزم نے صحیح کہا۔) )
مسجد کے معنی ہیں سجدے کی جگہ، نماز کی جگہ۔ جب قبرستان میں سجدہ اور نماز منع ہوئی تو نماز اور سجدہ کے لیے مسجد (سجدہ کی جگہ) بنانا بھی منع ہوئی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’خبردار آگاہ رہو کہ تم سے پہلے لوگ اپنے نبیوں اور نیک لوگوں کی قبروں کو مسجدیں بنا لیتے تھے۔ تم قبروں کو مسجدیں نہ بناؤ ۔میں تمہیں اس سے منع کرتاہوں۔‘‘
(مسلم، المساجد، النھی عن بناء المساجد علی القبور۲۳۵.)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
مسجد میں ممنوع کام

پیاز اور لہسن کھا کر مسجد میں آنا:
سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جو شخص لہسن یا پیاز کھائے تو وہ ہماری مسجد سے دور رہے اور اپنے گھر میں بیٹھا رہے کیونکہ فرشتوں کو بھی ایذا پہنچتی ہے جس طرح آدمیوں کو تکلیف ہوتی ہے۔‘‘
(بخاری: الأذان، باب: ما جاء فی الثوم: ۵۵۸، مسلم: ۴۶۵.)
سیدنا ابو سعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جو کوئی ان خبیث درختوں (لہسن اور پیاز) کو کھائے تو مسجد کے قریب نہ آئے اور فرمایا اگر تم نے انہیں کھانا ہی ہے تو ان کو پکا کر ان کی بو مارو۔‘‘
لوگ بولے لہسن حرام ہو گیا، آپ نے فرمایا:
"لوگو میں وہ چیز حرام نہیں کر سکتا جس کو اللہ تعالیٰ نے حلال کیا ہے لیکن لہسن کی بو مجھے بری لگتی ہے۔"
(مسلم، المساجد، باب نھی من اکل ثوما او بصلا ۵۶۵.)
شیخ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’کیا کسی کے تصور میں یہ بات آ سکتی ہے کہ سگریٹ پینے والا پیاز و لہسن کے حکم میں داخل نہیں؟ سب کو معلوم ہے کہ سگریٹ کی بدبو پیاز و لہسن کی بو سے کہیں زیادہ اذیت ناک ہوتی ہے، ان دونوں کے کھانے میں کوئی ضرر بھی نہیں جب کہ سگریٹ پینے کے بہت سے نقصانات ہیں اور کوئی فائدہ نہیں۔‘‘
اگر کسی کو مرض کی بنا پر لہسن یا پیاز استعمال کرنا پڑتا ہو تو وہ ان کو استعمال کر سکتا ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیّدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کو سینے کے ایک مرض کی بنا پر لہسن کھا کر مسجد آنے کی اجازت دی تھی۔
(ابو داود، الاطعمۃ، باب فی اکل الثوم، ۶۲۸۳۔ اسے ابن خزیمہ اور ابن حبان نے صحیح کہا۔)

مسجد میں تھوکنا:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"مجھ پر میری امت کے اچھے اور برے اعمال پیش کئے گئے۔ میں نے دیکھا کہ نیک اعمال میں راستہ سے تکلیف دہ چیز کو دور کرنا بھی ہے اور برے اعمال میں مسجد میں تھوکنا بھی ہے جس پر مٹی نہ ڈالی گئی ہو۔‘‘
(مسلم، المساجد، باب النھی عن البصاق فی المسجد، ۳۵۵.)
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں قبلے کی دیوار پر بلغم دیکھا آپ لوگوں کے آگے کھڑے ہوئے نماز پڑھا رہے تھے، آپ نے (نماز ہی میں) اس کو کھرچ ڈالا، جب نماز پڑھ چکے تو فرمایا:
"جب کوئی نماز پڑھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے سامنے ہوتا ہے اس کو چاہیے کہ نماز میں اپنے سامنے بلغم نہ ڈالے۔"
(بخاری: الأذان، باب: ہل یلتفت لا ینزل بہ: ۳۵۷، مسلم: ۷۴۵.)
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے قبلہ کی طرف مسجد میں بلغم دیکھا، آپ نے اس کو اپنے ہاتھ سے کھرچ ڈالا اور آپ کے چہرہ مبارک پر ناخوشگواری کے آثار تھے، گویا آپ کو یہ تھوکنا سخت ناگوار گزرا، پھر آپ نے فرمایا:
’’نماز میں انسان اپنے رب سے مناجات کرتا ہے اور اس کا رب اس کے اور قبلہ کے بیچ میں ہوتا ہے اس لیے اسے چاہیے کہ اپنے سامنے نہ تھوکے بلکہ اپنے بائیں قدم کے نیچے تھوکے، پھر آپ نے اپنی چادر کا کونا لیا اس میں تھوکا اور کپڑے کو مل دیا اور فرمایا کہ ایسا کرے۔‘‘
(بخاری، الصلوۃ، باب حک الیزاق بالید من المسجد: ۵۰۴، مسلم: ۱۵۵.)
اس وقت مسجدیں کچی ہوتی تھیں آجکل تھوکنا ہو تو چادر کے پلو میں تھوک کر مل دے۔
نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’مسجد میں تھوکنا گناہ ہے اور اس کا کفارہ اس پر مٹی ڈال کر دبا دینا ہے۔‘‘
(بخاری، الصلٰوۃ باب کفارۃ البزاق فی المسجد، ۵۱۴، مسلم ۲۵۵.)
آج کل مساجد سے تھوک کو پانی یا کپڑے وغیرہ سے صاف کیا جائے گا۔ (ع، ر)

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"جب تم نماز کے لیے کھڑے ہو تو اپنے سامنے نہ تھوکو کیونکہ تم نماز میں اللہ سے سرگوشی کر رہے ہوتے ہو اور نہ اپنے دائیں طرف تھوکو کیونکہ دائیں طرف فرشتہ ہوتا ہے (جو نیکیاں لکھتا ہے) لہٰذا اپنے بائیں طرف یا اپنے قدم کے نیچے تھوک کر اسے دفن کرو۔"
(صحیح بخاری:۶۱۴، مسلم:۸۴۵.)
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’قیامت کے دن قبلہ رخ بلغم تھوکنے والا آئے گا تو بلغم اس کے چہرے پر لگا ہوا ہو گا ۔‘‘
(سلسلہ الاحادیث الصحیحہ للالبانی۳۲۲.)

مسجد میں ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈالنا:
نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جب تم وضو کر کے مسجد جانے کے لیے گھر سے نکلو تو ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں نہ ڈالو بے شک اس وقت تم نماز ہی میں ہوتے ہو۔‘‘
(ابو داود، الصلاۃ، ماجاء فی الھدی فی المشی الی الصلاۃ، ۲۶۵۔ اسے امام حاکم اور امام ذہبی نے صحیح کہا۔ )
یعنی تمہیں برابر نماز کا ثواب مل رہا ہوتا ہے۔
سیدنا کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’مسجد میں ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں نہ ڈالو تم نماز ہی کی حالت میں ہو جب تک نماز کا انتظار کر رہے ہو۔‘‘
(مسند احمد (۴/۴۴۲، ۰۱۳۸۱، اس کی سند جید ہے، بلوغ الامانی.)
انگلیوں میں انگلیاں ڈالنے کی ممانعت نماز ادا کرنے سے پہلے ہے کیونکہ نماز ادا کرنے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں انگلیاں انگلیوں میں ڈالیں۔
(بخاری الصلاۃ باب تشبیک الاصابع فی المسجد: ۲۸۴.)

مسجد کو گزر گاہ بنانا:
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’مساجد کو گزر گاہ نہ بناؤ ،صرف ذکر اور نماز کے لیے خاص رکھو ۔‘‘
(سلسلہ الاحادیث الصحیحہ للالبانی۱۰۰۱.)

مسجد میں آواز بلند کرنا :
سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ نے طائف کے رہنے والے دو آدمیوں سے کہا: (جو مسجد نبوی میں اونچی آواز سے باتیں کر رہے تھے)
’’اگر تم مدینہ کے رہنے والے ہوتے تو میں تمہیں سزا دیتا۔ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد میں اپنی آوازیں بلند کرتے ہو؟‘‘
(بخاری، الصلٰوۃ، باب رفع الصوت فی المساجد: ۰۷۴.)

مسجد میں خرید و فروخت:
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جب تم کسی شخص کو مسجد میں کچھ بیچتا یا خریدتا دیکھو تو کہو:
(لاَ اَرْبَحَ اللّٰہُ تِجَارَتَکَ)
’’اللہ تیری سوداگری میں نفع نہ دے۔‘‘
(ترمذی، البیوع، باب النھی عن البیع فی المسجد، ۱۲۳۱۔ اسے امام حاکم اور امام ذہبی نے صحیح کہا۔)
اور جس وقت تم کسی شخص کو مسجد میں گم شدہ چیز کا اعلان کرتے ہوئے دیکھو تو تم کہو:
(لاَ رَدَّہَا اللّٰہُ عَلَیْکَ)
’’اللہ تجھے وہ چیز نہ لوٹائے‘‘
"پس بے شک مسجدیں اس مقصد کے لیے تو نہیں بنائی گئیں۔"
(مسلم: المساجد، باب: النہی عن نشد الضالۃ فی المسجد: ۸۶۵.)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
مسجد میں جائز کام

مسجد میں سونا:
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ وہ مسجد نبوی میں سو جاتے تھے حالانکہ وہ کنوارے نوجوان تھے۔
(بخاری، الصلٰوۃ، باب نوم الرجال فی المسجد، ۰۴۴، مسلم: فضائل صحابۃ، باب: من فضائل ابن عمر: ۹۷۴۲.)

مسجد میں کھانا:
سیدنا عبد اللہ بن حارث رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم عہد رسالت میں مسجد میں روٹی اور گوشت کھا لیا کرتے تھے۔
(ابن ماجہ، الاطعمۃ، الاکل فی المسجد،۰۰۳۳.)

مسجد میں جنگی مشقیں:
امّ المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے لیے پردہ کئے ہوئے تھے اور میں حبشیوں کے اس کھیل کو دیکھ رہی تھی جو وہ مسجد میں کھیل رہے تھے۔
(بخاری۴۵۴۔ مسلم، صلاۃ العیدین، الرخصۃ فی اللعب۲۹۸.)

مسجد میں مشرک داخل ہو نا:
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی حنیفہ کے ایک شخص ثمامہ بن اثال کو مسجد کے ستون سے باندھ دیا تھا (حالانکہ وہ اس وقت مشرک تھے)۔
(بخاری، الصلاۃ، باب دخول المشرک المسجد، ۹۶۴، مسلم: الجہاد ۴۶۷۱.)

مسجد میں شعر پڑھنا:
سعید بن مسیب رحمہ اللہ روایت کرتے ہیں کہ ایک دفعہ سیّدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ مسجد کے پاس سے گزرے اور سیّدنا حسان شعر پڑھ رہے تھے (سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سیّدنا حسان کو غصہ سے دیکھا) سیّدنا حسان کہنے لگے کہ میں مسجد میں شعر پڑھا کرتا تھا اور تم سے افضل محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں موجود ہوتے تھے، پھر سیّدنا حسان سیّدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا اے ابو ہریرہ! تمہیں اللہ کی قسم کیا تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے ہوئے نہیں سنا اے حسان تو اللہ کے رسول کی طرف سے کافروں کو جواب دے اے اللہ! روح القدس سے حسان کی مدد کر، سیّدنا ابو ہریرہ نے جواب دیا بیشک (آپ نے فرمایا)۔
(بخاری: بداء الخلق، باب: ذکر الملائکۃ: ۲۱۲۳، مسلم: ۵۸۴۲.)

مسجد میں گفتگو کرنا:
سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم اکثر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجالس میں بیٹھا کرتے تھے، آپ صبح کی نماز پڑھنے کے بعد سورج کے نکلنے تک مسجد میں بیٹھتے، جب سورج طلوع ہوتا تو آپ (جانے کے لیے) کھڑے ہوتے، ہم (مسجد میں) زمانہ جاہلیت کے معاملات کا ذکر کرتے (گفتگو کے دوران) ہم ہنستے بھی تھے اور مسکراتے بھی۔
(مسلم: المساجد، باب: فضل الجلوس فی مصلاۃ: ۰۷۶.)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
مسجد میں داخل ہوتے وقت اور نکلتے وقت کی دعا:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"جب تم مسجد میں داخل ہو تو یہ پڑھو:
’’اَللّٰہُمَّ افْتَحْ لِیْ اَبْوَابَ رَحْمَتِکَ.‘‘
’’اے اللہ میرے لیے اپنی رحمت کے دروازے کھول دے۔‘‘
جب تم مسجد سے نکلو تو یہ پڑھو:
’’اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَسْءَلُکَ مِنْ فَضْلِکَ.‘‘
’’یا اللہ! بے شک میں تجھ سے تیرا فضل مانگتا ہوں۔‘‘
(مسلم، صلاۃ المسافرین باب ما یقول اذا دخل المسجد: ۳۱۷.)
سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مسجد میں داخل ہوتے تو فرماتے:
’’بِسْمِ اللّٰہِ وَالسَّلَامُ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ اَللّٰہُمَّ اغْفِرْ لِیْ ذُنُوْبِیْ وَافْتَحْ لِیْ اَبْوَابَ رَحْمَتِکَ.‘‘
’’اللہ کے نام سے (داخل ہوتا ہوں) اور (دعا کرتا ہوں کہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر سلامتی ہو۔ اے اللہ! میرے گناہ بخش دے اور میرے لیے اپنی رحمت کے دروازے کھول دے۔‘‘
اور جب مسجد سے نکلتے تو فرماتے:
’’بِسْمِ اللّٰہِ وَالسَّلَامُ عَلیٰ رَسُوْلِ اللّٰہِ اَللّٰہُمَّ اغْفِرْ لِیْ ذُنُوْبِیْ وَافْتَحْ لِیْ اَبْوَابَ فَضْلِکَ.‘‘
’’اللہ کے نام سے (مسجد سے باہر آتا ہوں) اور (دعا کرتا ہوں کہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر سلامتی ہو، اے اللہ! میرے گناہ بخش دے اور میرے لیے اپنے فضل و کرم کے دروازے کھول دے‘‘
(ابن ماجہ: المساجد، باب: الدعاء عند دخول المسجد: ۱۷۷۔ترمذی (۴۱۳).)
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’مسجد میں داخل ہوتے وقت اور نکلتے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر سلام کہو۔‘‘
(ابن ماجہ: ۳۷۷۔ امام ابن خزیمہ اور امام ابن حبان نے اسے صحیح کہا۔)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اگر نمازی مسجد میں داخل ہوتے وقت یہ دعا پڑھ لے تو شیطان کہتا ہے کہ اس نے باقی دن مجھ سے محفوظ کر لیا:
’’اَعُوْذُ بِاللّٰہِ الْعَظِیْمِ وَبِوَجْہِہِ الْکَرِیْمِ وَسُلْطَانِہِ الْقَدِیْمِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْمِ‘‘
’’میں شیطان مردود سے عظمت والے اللہ، اس کے عزت والے چہرے اور اس کی قدیم بادشاہت کی پناہ چاہتا ہوں۔‘‘
(ابو داود، الصلاۃ، باب ما یقول الرجل عند دخولہ المسجد، ۶۶۴.)

فجر کی نماز کے لیے مسجد جاتے ہوئے دعا:
سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ جب موذن نے صبح کی نماز کے لیے اذان دی تو آپ نماز کے لیے نکلے اور آپ فرما رہے تھے:
’’اَللّٰہُمَّ اجْعَلْ فِیْ قَلْبِیْ نُوْراً، وَفِیْ لِسَانِیْ نُوْراً، و اجْعَلْ فِیْ سَمْعِیْ نُوْراً، و اجْعَلْ فِیْ بَصَرِیْ نُوْراً، واجْعَلْ َمِنْ خَلْفِیْ نُوْراً، وَ مِنْ اَمَامِی نُوْراً، واجْعَلْ مِنْ فَوْقِیْ نُوْراً، وَمِنْ تَحْتِیْ نُوْراً، اَللّٰہُمَّ أَعْطِنِی نُوراً.‘‘
’’اے اللہ! میرے دل، میری زبان، میری سماعت اور میری بصارت کو (ایمان کے نور سے) منور فرما، میرے اوپر، میرے نیچے، میرے دائیں اور بائیں، میرے سامنے اور پیچھے ،میرے اوپر اور نیچے (ہر طرف) نور پھیلا دے، اے اللہ مجھے نور عطا فرما۔‘‘
(مسلم: صلاۃ المسافرین، باب: الدعا فی صلاۃ اللیل:۱۹۱۔ (۳۶۷))
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
نماز کی سنتوں کا بیان
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
’’قیامت کے دن بندے کا سب سے پہلے نماز کا حساب ہو گا اگر وہ درست ہوئی تو وہ کامیاب ہوا اور نجات پا گیا اور اگر وہ خراب ہوئی تو وہ نا کام ہوا اور خسارہ پانے والوں میں سے ہو گا، اگر اس کے فرضوں میں کچھ کمی ہوئی تو اللہ فرمائے گا کہ میرے بندے کے نفل دیکھو اور پھر ان نفلوں سے فرض کی کمی پوری کی جائے گی اسی طرح اس کے باقی اعمال کا حساب ہو گا۔‘‘
(أبو داود: الصلاۃ، باب: قول النبی کل صلاۃٍ لا یتمہا صاحبہا تتم من تطوعہ: ۴۶۸، ترمذی: ۳۱۴)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’رات اور دن کی (نفل) نماز دو دو رکعتیں (پڑھی جاتی) ہیں۔‘‘
(ابو داؤد، ابواب التطوع، باب فی صلاۃ النھار، ۵۹۲۱۔ امام ابن خزیمہ اور امام ابن حبان نے اسے صحیح کہا۔)
معلوم ہوا چار رکعات سنت بھی دو، دو کر کے ادا کرنی چاہئیں۔

نفل اور سنتیں گھر میں پڑھنا :
سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’فرض نماز کے علاوہ باقی نماز گھر میں پڑھنا افضل ہے۔‘‘
(بخاری، الاذان ،باب صلاۃ اللیل: ۱۳۷، مسلم: ۱۸۷.)
سیدنا عبد اللہ بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ نفل نماز گھر میں پڑھنا افضل ہے یا مسجد میں؟ آپ نے فرمایا کہ:
’’کیا تم نہیں دیکھتے کہ میرا گھر مسجد کے کس قدر قریب ہے اس کے باوجود فرائض نماز کے علاوہ مجھے گھر میں نماز پڑھنا زیادہ پسند ہے۔‘‘
(ابن ماجہ، اقامۃ الصلاۃ، باب ماجاء فی التطوع فی البیت، ۸۷۳۱۔ امام بوصیری اور ابن خزیمہ نے اسے صحیح کہا۔)
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"جب تم مسجد میں نماز پڑھو تو نماز کا کچھ حصہ (نوافل، سنتیں) اپنے گھروں میں پڑھو، اللہ اس نماز کے سبب گھر میں برکت دے گا۔"
(مسلم، صلٰوۃ المسافرین، باب استحباب صلٰوۃ النافلۃ فی بیتہ، ۸۷۷.)
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اپنی نمازوں کا کچھ حصہ اپنے گھروں میں پڑھو (جیسے قبرستان نماز سے خالی ہوتے ہیں ایسے ہی) اپنے گھروں کو قبرستان نہ بناؤ‘‘
(بخاری، الصلاۃ، باب کراھیۃ الصلاۃ في المقابر: ۲۳۴، مسلم: ۷۷۷.)

موکدہ سنتوں کے باعث بہشت میں گھر:
ام المومنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جو شخص دن اور رات میں (فرضوں کے علاوہ) بارہ رکعتیں پڑھے اس کے لیے بہشت میں گھر بنایا جاتا ہے۔"
(مسلم، صلوٰۃ المسافرین باب فضل السنن الراتبۃ: ۸۲۷.)
عبد اللہ بن شقیق رحمہ اللہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نفلوں کا حال دریافت کیا تو ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا:
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر میں ظہر سے پہلے چار رکعتیں پڑھتے تھے۔ پھر آپ نکلتے اور لوگوں کے ساتھ (ظہر کے فرض) پڑھتے، پھر (گھر میں) داخل ہوتے اور دو رکعت نماز پڑھتے۔ آپ لوگوں کے ساتھ مغرب کی نماز پڑھتے، پھر (گھر میں) داخل ہوتے اور دو رکعت (سنت) پڑھتے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے ساتھ عشاء کی نماز پڑھتے، پھر (گھر میں) داخل ہوتے اور دو رکعت نماز پڑھتے اور رات کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نو رکعات (تہجد کی) نماز پڑھتے، ان میں وتر بھی ہوتا تھا اور جب صبح نمودار ہوتی تو (نماز فجر سے پہلے) دو رکعت (سنت) پڑھتے۔
(مسلم صلوٰۃ المسافرین، باب جواز النافلہ قائماً و قاعداً: ۰۳۷.)
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دس رکعتیں یاد کیں ظہر سے پہلے دو رکعت، دو رکعت ظہر کے بعد، دو رکعت مغرب کے بعد، دو رکعت عشا کے بعد اور دو رکعت فجر سے پہلے۔
(بخاری، التھجد، باب الرکعتین قبل الظہر: ۰۸۱۱، مسلم، ۹۲۷.)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
ظہر سے پہلے چار رکعت:
سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ظہر سے پہلے پڑھی جانے والی چار رکعتوں کے لیے آسمان کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں۔
(ابو داؤد، ۰۷۲۱.قال البانی حسن دون قولہ لیس فیھن تسلیم)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جس نے اشراق کی چار رکعت نماز پڑھی اور ظہر سے پہلے چار رکعت پڑھیں اس کے لیے جنت میں گھر بنایا جائے گا۔‘‘
(سلسلہ الاحادیث الصحیحہ للالبانی۹۴۳۲.)
سیدنا عبد اللہ بن سائب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم زوال کے بعد ظہر سے پہلے چار رکعت نماز پڑھتے اور فرماتے:
’’یقیناً اس وقت آسمان کے دروازے کھولے جاتے ہیں اور میں پسند کرتا ہوں کہ ان اوقات میں نیک عمل بھیجوں۔‘‘
(سلسلہ الاحادیث الصحیحہ للالبانی۲۶۹۲.)

ظہر کے بعد چار رکعت:
ام المومنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جس نے ظہر سے پہلے چار رکعت اور ظہر کے بعد چار رکعت کی حفاظت کی اس پر جہنم کی آگ حرام ہے۔‘‘
(أبو داود: التطوع، باب: الأربع قبل الظہر وبعدہا: ۹۶۲۱.)

عصر سے پہلے چار رکعت:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"جو شخص عصر سے پہلے چار رکعات (سنت) پڑھے، اللہ اس پر رحمت کرے۔‘‘
(ترمذی،۰۳۴ وابو داود، ۱۷۲۱۔ اسے ابن خزیمہ ابن حبان اور نووی نے صحیح کہا۔)
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عصر سے پہلے چار رکعت پڑھتے تھے اور دو رکعت کے بعد تشہد اور دعا پڑھ کر سلام پھیرتے تھے۔
(ترمذی الصلاۃ، باب ماجاء فی الاربع قبل العصر،: ۹۲۴، ترمذی نے حسن کہا۔)

مغرب سے پہلے دو رکعتیں:
سیدنا عبد اللہ المزنی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’مغرب کی (فرض) نماز سے پہلے نماز پڑھو، آپ نے دو بار فرمایا اور تیسری بار کہا جس کا دل چاہے، یہ اس لیے فرمایا کہ آپ نا پسند کرتے تھے کہ لوگ اس کو سنتِ موکدہ بنا لیں۔‘‘
(بخاری: أبواب التہجد، باب: الصلاۃ قبل المغرب: ۳۸۱۱.)
سیّدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مدینہ میں موذن مغرب کی اذان کہتا، ہم سب ستونوں کی طرف لپکتے اور دو رکعتیں پڑھتے۔ لوگ اس کثرت سے دو رکعتیں پڑھتے کہ اجنبی یہ گمان کرتا کہ مغرب کی جماعت ہو چکی ہے۔
(مسلم، صلاۃ المسافرین، باب استحباب رکعتین قبل صلاۃ المغرب، ۷۳۸.)
مرثد بن عبد اللہ رحمہ اللہ سیّدنا عقبہ بن عامر الجھنی رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہا ’’کیا یہ عجیب بات نہیں کہ سیّدنا ابو تمیم رضی اللہ عنہ مغرب کی نماز سے پہلے دو رکعت پڑھتے ہیں؟ سیدنا عقبہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہم بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں پڑھتے تھے۔ انہوں نے پوچھا: اب کیوں نہیں پڑھتے؟ کہنے لگے کہ مصروفیت۔
(بخاری، التھجد، باب الصلاۃ قبل المغرب، ۴۸۱۱.)

جمعہ کے بعد کی سنتیں:
نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جب تم جمعہ کے بعد نماز پڑھنا چاہو تو چار رکعات ادا کرو۔‘‘
(مسلم، الجمعۃ، باب الصلاۃ بعد الجمعۃ، ۱۸۸.)
معلوم ہوا کہ جمعہ کے بعد چار رکعات سنتیں پڑھنی چاہئیں اور اگر کوئی دو رکعتیں بھی پڑھ لے تو جائز ہو گا۔
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما جمعہ کے بعد کچھ نماز نہیں پڑھتے تھے یہاں تک کہ اپنے گھر آتے اور دو رکعتیں پڑھتے، پھر فرماتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسا ہی کیا کرتے تھے۔
(بخاری، الجمعۃ، باب الصلاۃ بعد الجمعۃ و قبلھا، ۷۳۹، ومسلم،۲۸۸.)
بعض علماء نے یہ تطبیق دی ہے کہ مسجد میں چار سنتیں (دو، دو کر کے) پڑھے اور اگر گھر میں آ کر پڑھے تو دو سنتیں پڑھے۔
(مرعاۃ المفاتیح.)

فجر کی سنتوں کی فضیلت:
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’فجر کی دو سنتیں دنیا اور جو کچھ دنیا میں ہے، اس سے بہتر ہیں اور مجھے فجر کی دو رکعت (سنتیں) ساری دنیا سے زیادہ محبوب ہیں۔‘‘
(مسلم، صلاۃ المسافرین، باب استحباب رکعتی سنۃ الفجر، ۵۲۷.)
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نوافل (سنن) میں سے کسی چیز پر اتنی محافظت اور مداومت نہیں کرتے تھے جس قدر فجر کی دو سنتوں پر کرتے تھے۔
(بخاری، التھجد، باب تعاھد رکعتی الفجر، ۹۶۱۱ مسلم، ۴۹[ ۴۲۷].)
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اللہ تعالیٰ نے تمہیں ایک نماز زائد دی ہے یہ تمہارے لیے سرخ اونٹوں سے بھی بہتر ہے ۔یہ نماز فجر سے پہلے کی دو رکعتیں ہیں ۔‘‘
(سلسلہ الاحادیث الصحیحہ للالبانی ۱۴۱۱.)
ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ فجر سے پہلے کی دو رکعتیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نہیں چھوڑا کرتے تھے چاہے تندرست ہوں یا بیمار، سفر میں ہوں یا حضر میں۔
(سلسلہ الاحادیث الصحیحہ للالبانی۵۰۷۲.)

فجر کی سنتوں کے بعد دائیں پہلو لیٹنا :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب فجر کی دو سنتیں پڑھتے تو دائیں پہلو پر لیٹتے تھے۔
(بخاری، الاذان، باب من انتظر الاقامۃ، ۶۲۶، مسلم، صلاۃ المسافرین، باب صلاۃ اللیل و عدد رکعات النبی فی اللیل ۶۳۷.)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ سلف میں سے بعض مسجد کی بجائے گھر میں دائیں پہلو لیٹنا مستحب جانتے تھے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ذکر نہیں ملتا کہ آپ مسجد میں دائیں پہلو لیٹتے تھے۔‘‘
(فتح الباری.)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
سنتوں کی قضا:
ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ آپ عصر کے بعد نماز پڑھنے سے منع کرتے تھے پھر میں نے دیکھا کہ آپ نے عصر کی نماز کے بعد دو رکعتیں پڑھیں، میں نے آپ سے اس کی وجہ پوچھی تو آپ نے فرمایا:
’’بات یہ ہے کہ میرے پاس قبیلہ عبدالقیس کے لوگ (احکام دین سیکھنے کے لیے) آئے تھے ان کے ساتھ (میری مصروفیت نے) مجھے ظہر کے بعد کی دو رکعت سنتوں سے باز رکھا پس یہ وہ دونوں تھیں (جو میں نے عصر کے بعد ادا کی ہیں)"
(بخاری: السہو،باب اذا کلم وھو یصلي: ۳۳۲۱، مسلم: ۴۳۸.)

فرض نماز کی جماعت کے دوران انفرادی طور پر سنتوں کا پڑھنا:
ایک شخص مسجد میں آیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صبح کے فرض پڑھ رہے تھے۔ اس نے مسجد کے ایک کونے میں دو رکعت سنت پڑھی۔ پھر جماعت میں شامل ہو گیا۔ جب آپ نے سلام پھیرا تو فرمایا:
’’تو نے فرض نماز کس کو شمار کیا جو اکیلے پڑھی تھی اس کو یا جو ہمارے ساتھ جماعت سے پڑھی ہے؟
(مسلم، صلاۃ المسافرین، باب کراھیۃ الشروع فی نافلۃ۔۔۔ ۲۱۷.)
معلوم ہوا کہ فرض ہوتے وقت سنتوں کا پڑھنا درست نہیں ہے۔
فضیلۃ الشیخ عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’کہ جب جماعت کھڑی ہو جائے اور کچھ لوگ تحيۃ المسجد یا سنتیں پڑھ رہے ہوں تو اس صورت میں ان کے لیے حکم یہ ہے کہ وہ اپنی نماز توڑ کر فرض نماز میں شامل ہو جائیں ۔۔۔ لیکن اگر نماز کھڑی ہو گئی اور آدمی نے دوسری رکعت کا رکوع بھی کر لیا تو پھر نماز مکمل کرنے میں کوئی حرج نہیں کیونکہ نماز قریب الاختتام ہے اور اس کا رکعت سے بھی کم حصہ باقی ہے۔‘‘
(فتاوی اسلامیہ، اول۸۳۴.)

فجر کی سنتیں فرضوں کے بعد پڑھنا:
اگر آپ ایسے وقت مسجد میں پہنچے کہ جماعت کھڑی ہو گئی ہو اور آپ نے سنتیں نہ پڑھی ہوں تو اس وقت سنتیں مت پڑھیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جب نماز کی اقامت (تکبیر) ہو جائے تو فرض نماز کے علاوہ کوئی نماز نہیں ہوتی۔‘‘
(مسلم، صلاۃ المسافرین، باب کراھیۃ الشروع فی نافلۃ بعد شروع الموذن، ۰۱۷.)
ایسی صورت میں آپ جماعت میں شامل ہو جائیں اور فرض پڑھ کر سنتیں پڑھ لیں۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو صبح کی فرض نماز کے بعد دو رکعتیں پڑھتے ہوئے دیکھ کر فرمایا:
’’صبح کی (فرض) نماز دو رکعتیں ہیں (تم نے مزید دو رکعتیں کیسی پڑھی ہیں؟)‘‘ اس شخص نے جواب دیا۔ میں نے دو رکعتیں سنت (جو فرضوں سے پہلے ہیں) نہیں پڑھی تھیں۔ ان کو اب پڑھا ہے۔ (یہ سن کر) آپ خاموش ہو گئے۔
(أبو داود: التطوع، باب: من فاتتہُ متی یقضیہا: ۷۶۲۱، ابن ماجہ: ۴۵۱۱، ۔ اسے ابن حبان حاکم اور ذہبی نے صحیح کہا۔)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خاموشی رضامندی کی دلیل ہے (محدثین کی اصطلاح میں یہ تقریری حدیث کہلاتی ہے)

فجر کی دو سنتوں کو سورج نکلنے کے بعد پڑھنا:
یہ بھی جائزہے کہ ایک نمازی فجر کی دو سنتوں کو سورج نکلنے کے بعد پڑھے جیسا کہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جس شخص نے فجر کی دو رکعتیں نہیں پڑھیں تو جب سورج طلوع ہو جائے اس کے بعد پڑھے۔‘‘
(ترمذی، الصلاۃ، ما جاء فياعا دتھما بعد طلوع الشمس،۳۲۴ابن ماجۃ:۵۵۱۱)
فضیلۃ الشیخ عبد العزیزبن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’کہ اگر کوئی مسلمان نماز سے پہلے فجر کی سنتوں کو ادا نہ کر سکے تو اسے اختیار ہے کہ اگر چاہے تو نماز کے فوراً بعد ادا کر لے یا سورج نکلنے کے بعد ادا کرے کیونکہ سنت سے دونوں طرح ثابت ہے۔‘‘
(فتاوی اسلامیہ، اول۷۳۴.)

نفل نماز:
کوئی صاحب یہ خیال نہ کریں کہ ہم نے نمازوں کی رکعتوں کو کم کر دیا ہے یعنی فرائض اور سنتیں گن لی ہیں اور نفل چھوڑ دیے ہیں۔ مسلمان بھائیوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ نوافل اپنی خوشی اور مرضی کی عبادت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو پڑھنے کے لیے مجبور نہیں کیا، اس لیے ہمیں کوئی حق نہیں ہے کہ ہم اپنے نفلوں کو فرضوں کا ضروری اور لازمی ضمیمہ بنا ڈالیں۔ فرضوں کے ساتھ آپ کی نفل عبادت یعنی سنتیں آ گئی ہیں جن سے نماز پوری اور مکمل ہو گئی ہے، نوافل ہم ممنوعہ اوقات کے سوا دن اور رات کے سب اوقات میں ادا کر سکتے ہیں۔
سیدنا عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ مجھے نماز کے متعلق خبر دیجئے تو آپ نے فرمایا:
’’صبح کی نماز پڑھ، پھر سورج طلوع اور اونچا ہونے تک نماز سے رک جا اس لیے کہ یہ شیطان کے دو سینگوں کے درمیان طلوع ہوتا ہے اور اس وقت کفار اس کو سجدہ کرتے ہیں، پھر نماز پڑھ بقیناً نماز میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں اور سورج کے سیدھا سر پر ہونے کے وقت نماز سے رک جا اس لیے کہ اس وقت جہنم بھڑکائی جاتی ہے اور پھر سورج ڈھلنے کے بعد پڑھ اس لیے کہ نماز کے لیے فرشتے حاضر ہوتے ہیں، پھر نماز عصر پڑھ، پھر اس کے بعد غروب آفتاب تک ٹھہر جا اس لیے کہ یہ شیطان کے دو سینگوں کے درمیان غروب ہوتا ہے اور اس وقت کفار اسے سجدہ کرتے ہیں۔‘‘
(مسلم: الصلاۃالمسافرین، باب: إسلام عمرو بن عبسۃ: ۲۳۸.)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
تہجد اور وتر

فضیلت :
سیدنا ابو امامہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’تہجد ضرور پڑھا کرو، کیونکہ وہ تم سے پہلے صالحین کی روش ہے اور تمہارے لیے اپنے رب کے قرب کا وسیلہ، گناہوں کے مٹنے کا ذریعہ اور (مزید) گناہوں سے بچنے کا سبب ہے۔‘‘
(ابن خزیمہ، حدیث ۵۳۱۱، اسے حافظ عراقی نے حسن امام حاکم اور امام ذہبی نے صحیح کہا۔)
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اس شخص پر اللہ کی رحمت ہو جو رات کو اٹھا۔ پھر نماز (تہجد) پڑھی اور اپنی عورت کو جگایا۔ پھر اس نے (بھی) نماز پڑھی۔ پھر اگر عورت (غلبہ نیند کے باعث) نہ جاگی، تو اس کے منہ پر پانی کے چھینٹے مارے۔ اور اس عورت پر اللہ کی رحمت ہو جو رات کو اٹھی پھر نماز (تہجد) پڑھی اور اپنے خاوند کو جگایا۔ پھر اس نے (بھی) نماز پڑھی۔ اگر خاوند (غلبہ نیند کے باعث نہ جاگا) تو اس کے منہ پر پانی کے چھینٹے مارے۔‘‘
(ابو داود، التطوع باب قیام اللیل، ۸۰۳۱۔ امام حاکم امام ابن خزیمہ، امام ذہبی اور امام نووی نے صحیح کہا۔)
ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ:
"نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تہجد پڑھتے اور میں بستر میں آپ کے سامنے سوئی ہوتی تھی ۔جب آپ وتر پڑھنے لگتے تو مجھے جگا دیتے۔ میں بھی وتر پڑھتی۔"
(بخاری، الوتر، ایقاظ النبی صلی اللہ علیہ وسلم اھلہ بالوتر،۷۹۹۔ مسلم، الصلاۃ، الاعتراض بین یدی المصلی،۲۱۵.)
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:
’’فرض نماز کے بعد سب نمازوں سے افضل تہجد کی نماز ہے۔ اور رمضان کے روزوں کے بعد افضل روزے اللہ کے مہینے محرم کے ہیں۔‘‘
(مسلم، الصیام، باب فضل صوم المحرم، ۳۶۱۱.)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جب انسان سوتا ہے تو شیطان اس کے سر کی گدی پر تین گرہیں لگاتا ہے اور کہتا ہے کہ رات بڑی لمبی ہے اگر وہ بیدار ہو کر اللہ کا ذکر کرے تو ایک گرہ کھل جاتی ہے۔ اور اگر وضو کرے تو دوسری گرہ کھل جاتی ہے اور اگر نماز پڑھے تو تیسری گرہ کھل جاتی ہے۔ اور وہ شادمان اور پاک نفس ہو کر صبح کرتا ہے، ورنہ اس کی صبح خبیث اور سست نفس کے ساتھ ہوتی ہے۔‘‘
(بخاری، التھجد، باب عقد الشیطان علی قافیۃ الراس اذا لم یصل باللیل، ۲۴۱۱، مسلم ۶۷۷.)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اللہ تعالیٰ ہر رات کو جب ایک تہائی رات باقی رہ جاتی ہے آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے اور فرماتا ہے:
’’کوئی ہے جو مجھے پکارے، میں اس کی دعا قبول کروں۔ کوئی ہے جو مجھ سے مانگے، میں اس کو دوں۔ کوئی ہے جو مجھ سے بخشش طلب کرے، میں اس کو بخش دوں۔‘‘
(بخاری، التھجد، باب الدعاء والصلاۃ من آخر اللیل، ۵۴۱۱۔ مسلم صلاۃ المسافرین، باب الترغیب فی الدعاء والذکر فی آخر اللیل، ۸۵۷.)

نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کا شکر کرنے کا انداز:
سیدنا مغیرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (رات کو تہجد میں) اتنا لمبا قیام کیا کہ آپ کے پاؤں سوج گئے۔ آپ سے سوال ہوا: آپ اتنی مشقت کیوں کرتے ہیں حالانکہ آپ مغفور ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"کیا پھر (جب اللہ تعالیٰ نے مجھے نبوت کے انعام، مغفرت کی دولت اور بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے) میں اللہ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں؟"
(بخاری: التفسیر، باب: لیغفر لک اللہ ما تقدم من ذنبک وما تأخر: ۶۳۸۴، ومسلم: صفۃ القیامۃ، باب: اکثار الاعمال والاجتہاد فی العبادہ: ۹۱۸۲.)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
نیند سے بیدار ہونے کی دعائیں:
ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب رات کو (بستر سے تہجد کے لیے) اٹھتے تو (یہ) پڑھتے: ((اَللّٰہُ اَکْبَرُ)) اللہ سب سے بڑا ہے۔ دس بار ((اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ)) ساری تعریف اللہ کے لیے ہے۔ دس بار ((سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہِ)) اللہ اپنی تعریف سمیت (ہر عیب سے ) پاک ہے دس بار ((سُبْحَانَ الْمَلِکِ الْقُدُّوْسِ)) میں نہایت ہی پاکیزہ بادشاہ کی پاکی بیان کرتا ہوں دس بار ((اَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ)) میں اللہ سے بخشش طلب کرتاہوں دس بار ((لاَ اِلٰہ اِلاَّ اللّٰہُ)) اللہ کے سوا کوئی (سچا) معبود نہیں ہے دس بار اور پھر (اَللّٰہُمَّ إِنِّی اَعوُذُ بِکَ مِنْ ضِیقِ الدُّنْیَا وَضِیقِ یَوْمِ الْقِیَامَۃِ) اے اللہ میں دنیا و آخرت کی تنگیوں سے تیری پناہ مانگتا ہوں دس بار۔
(أبو داؤد: الأدب،باب ما یقول اذا اصبح؟ ۵۸۰۵.)
پھر کہتے (اَللّٰہُمَّ اغْفِرْلِیْ وَاہْدِنِیْ وَارْزُقْنِیْ وَعَافِنِیْ)
اے اللہ! مجھے معاف فرما، مجھے ہدایت عطا کر، مجھے رزق دے اور عافیت سے نواز۔‘‘پھر (وضو وغیرہ کر کے) تہجد شروع کرتے۔
(ابو داود، الصلاۃ، باب ما یستفتح بہ الصلاۃ من الدعاء، ۶۶۷۔ اسے امام ابن حبان نے صحیح کہا۔)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’جو شخص رات کو نیند سے جاگے اور کہے :
’’لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہُ لَا شَرِیْکَ لَہُ لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْ ءٍ قَدِیْرٌ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ وَسُبْحَانَ اللّٰہِ وَلَا إِلٰہَ إلاَّ اللّٰہُ وَاللّٰہُ اَکْبَرُ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ.‘‘
’’اللہ کے سوا کوئی سچا معبود نہیں ہے، وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اسی کے لیے ساری بادشاہت اور اسی کے لیے ساری تعریف ہے اور وہ ہر چیز پر خوب قدرت رکھنے والا ہے۔ ساری تعریف اللہ کے لیے ہے، اللہ (ہر عیب سے) پاک ہے، اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اللہ سب سے بڑا ہے، بدی سے بچنے اور نیکی کرنے کی کسی میں طاقت نہیں ہے مگر اللہ کی توفیق سے۔‘‘
پھر کہے :((اَلّٰلہُمَّ اغْفِرْلِیْ))’’اے اللہ!مجھے بخش دے‘‘ (یا کوئی اور دعا کرے) تو قبول ہو گی۔ اور اگر وضو کر کے نماز پڑھے تو (وہ بھی ) قبول کی جائے گی۔‘‘
(بخاری، التھجد، باب فضل من تعار من اللیل فصلی، ۴۵۱۱.)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تہجد کے لیے اٹھے، تو آپ نے بیٹھنے کے بعد سورت آل عمران کی آخری گیارہ آیات (۰۹۱۔۰۰۲) پڑھیں۔
(بخاری، العمل فی الصلاۃ، باب استعانۃ الید فی الصلاۃ اذا کان من امر الصلاۃ، ۸۹۱۱ و مسلم، صلاۃ المسافرین، باب صلاۃ النبی و دعاۂ باللیل ۳۶۷.)

تہجد کی دعائے استفتاح :
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو تہجد کے لیے کھڑے ہوتے تو (تکبیر تحریمہ کے بعد یہ) پڑھتے :
’’أَللّٰہُمَ لَکَ الْحَمْدُ‘ أَنْتَ قَیِّمُ السَّمٰوٰتِ وَالْأَرْضِ وَمَنْ فِیْہِنَّ‘ وَلَکَ الْحَمْدُ ‘لَکَ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْأَرْضِ وَمَنْ فِیْہِنَّ ‘وَلَکَ الْحَمْدُ‘ أَنْتَ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْأَرْضِ وَمَنْ فِیْہِنّ‘َ وَلَکَ الْحَمْدُ‘ أَنْتَ مَلِکُ السَّمٰوٰتِ وَالْأَرْضِ‘ وَلَکَ الْحَمْد‘ُ أَنْتَ الْحَقّ‘ُ وَوَعْدُکَ الْحَقُّ‘ وِلِقَاءُ کَ حَق‘ٌّ وَقَوْلُکَ حَقّ‘ٌ وَالْجَنَّۃُ حَقُّ‘ وَالنَّارُ حَقُّ‘ وَالنَّبِیُّوْنَ حَقٌّ ‘وَمُحَمَّدٌ حَقٌّ ‘وَالسَّاعَۃُ حَقٌّ ‘اَللّٰہُمَّ لَکَ أَسْلَمْتُ ‘وَبِکَ آمَنْتُ‘ وَعَلَیْکَ تَوَکَّلْتُ‘ وَإِلَیْکَ أَنَبْتُ‘ وَبِکَ خَاصَمْتُ‘ وَإِلَیْکَ حَاکَمْتُ‘ فَاغْفِرْ لِیْ مَا قَدَّمْتُ‘ وَمَا أَخَّرْت‘ُ وَمَا أَسْرَرْتُ‘ وَمَا أَعْلَنْتُ‘ أَنْتَ الْمُقَدِّمُ‘ وَأَنْتَ الْمُؤَخِّرُ ‘لَا إِلٰہَ إِلَّا أَنْتَ.‘‘
’’اے اللہ ! تیرے ہی لیے ساری تعریف ہے۔ زمین و آسمان اور جو کچھ ان میں ہے، (سب کو) تو ہی قائم رکھنے والا ہے۔ تیرے ہی لیے ساری تعریف ہے۔ زمین و آسمان اور جو کچھ ان میں ہے، (اس سب) کی بادشاہت تیرے لیے ہے۔ تیرے ہی لیے ساری تعریف ہے۔ تو ہی زمین و آسمان کو اور جو کچھ ان میں ہے روشن کرنے والا ہے، تیرے ہی لیے ساری تعریف ہے۔ تو ہی زمین و آسمان کا بادشاہ ہے۔ تیرے ہی لیے ساری تعریف ہے۔ تو حق ہے، اور (دنیا و آخرت کے متعلق) تیرا وعدہ حق ہے۔ (آخرت میں) تیری ملاقات حق ہے۔ تیرا کلام حق ہے۔ جنت حق ہے۔ جہنم حق ہے۔ تمام انبیاء حق ہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم حق ہیں قیامت حق ہے۔ اے اللہ! میں تیرے سامنے جھک گیا، میں تیرے ساتھ ایمان لایا، میں نے تجھ ہی پر بھروسہ کیا، میں نے صرف تیری طرف رجوع کیا۔ صرف تیری ہی مدد سے (دشمنوں سے) جھگڑتا ہوں۔ میں نے صرف تجھے ہی اپنا حاکم مانا، سو تو میرے اگلے پچھلے اور ظاہر و پوشیدہ (سارے کے سارے) گناہ معاف کر دے۔ تو ہی آگے کرنے والا اور پیچھے کرنے والا ہے۔ تیرے سوا کوئی سچا معبود نہیں ہے۔‘‘
(بخاری: التھجد، باب: التھجد باللیل ۰۲۱۱، ومسلم: صلاۃ المسافرین، باب: صلاۃ النبی ودعاۂ باللیل: ۹۶۷.)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تہجد کی کیفیت:
ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز تہجد کا حسن اور طول بیان نہیں ہو سکتا۔
(بخاری، التھجد، باب قیام النبی باللیل فی رمضان وغیرہ، ۷۴۱۱، مسلم :۸۳۷.)
سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تہجد میں (اتنا لمبا) قیام کیا کہ اس ایک آیت کو (عجز و الحاح سے بار بار) پڑھتے صبح کر دی:
(إِنْ تُعَذِّبْہُمْ فَإِنَّہُمْ عِبَادُکَ وَإِنْ تَغْفِرْ لَہُمْ فَإِنَّکَ أَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ) (المائدۃ: ۸۱۱)
’’اگر تو انہیں عذاب دے تو وہ یقیناً تیرے بندے ہیں اور اگر تو انہیں معاف کر دے تو یقیناً تو غالب (اور) حکمت والا ہے۔‘‘
(نسائی، الافتتاح، باب تردید الایۃ :۱۱۰۱ اسے حاکم ۱/۱۴۲، اور ذہبی نے صحیح کہا۔)
سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ نے نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کو تہجد پڑھتے دیکھا۔ وہ کہتے ہیں سورت فاتحہ کے بعد آپ نے سورۃ البقرۃ پڑھی۔ پھر رکوع کیا۔ آپ کا رکوع آپ کے قیام کی مانند تھا۔ (یعنی قیام کی طرح رکوع بھی کافی طویل کیا) پھر آپ نے رکوع سے سر اٹھایا۔ آپ کا قومہ آپ کے رکوع کی مانند تھا۔ آپ کا سجدہ آپ کے قومہ کی مانند تھا۔ آپ دونوں سجدوں کے درمیان (جلسہ میں) اپنے سجدے کی مانند بیٹھے تھے۔ (یعنی سجدے کی طرح جلسہ میں بھی دیر لگائی اور خوب اطمینان کیا) پس آپ نے چار رکعتوں میں سورۃ البقرہ، سورۃ آل عمران، سورہ النساء اور سورہ المائدہ پڑھیں۔
(ابو داود: الصلاۃ، باب: ما یقول الرجل فی رکوعہ و سجودہ ۴۷۸۔ امام حاکم نے صحیح کہا۔)
سبحان اللّٰہ! یہ تھی نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز تہجد۔ صرف چار رکعات میں سوا سات پارے پڑھے۔ پھر رکوع، قومے، سجدے اور جلسے کی درازی اور ان میں تسبیحوں اور دعاؤں کو کثرت سے پڑھنا آپ پر ختم تھا۔
سیّدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں ایک رات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نفلی نماز میں شریک ہوا۔ آپ نے (سورۂ فاتحہ کے بعد) سورۃ البقرۃ شروع کی۔ میں نے سوچا کہ آپ سو آیات پڑھ کر رکوع میں جائیں گے مگر آپ پڑھتے چلے گئے۔ میں نے خیال کیا کہ سورت بقرہ کو دو رکعتوں میں تقسیم کریں گے لیکن آپ پڑھتے رہے۔ آپ نے سورۃ البقرۃ ختم کر کے سورۃ النساء شروع کر لی، پھر اسے ختم کر کے سورۃ آل عمران کو پڑھنا شروع کر دیا اس کو بھی ختم کر ڈالا۔ آپ نہایت آہستگی سے پڑھتے جاتے تھے۔ جب ایسی آیت کی تلاوت کرتے جس میں سبحان اللّٰہ کہنے کا حکم ہوتا، تو ’’سبحان اللّٰہ‘‘ کہتے۔ اگر کچھ مانگنے کا ذکر ہوتا تو سوال کرتے، اگر پناہ مانگنے کا ذکر ہوتا تو ’’اعوذ باللّٰہ‘‘ پڑھتے۔ آل عمران ختم کر کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکوع کیا۔
(مسلم، صلاۃ المسافرین، باب استحباب تطویل القراءۃ فی صلاۃ اللیل، ۲۷۷.)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ تلاوت قرآن میں ترتیب کا خیال رکھنا ضروری نہیں کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’آل عمران‘‘ کی تلاوت ’’النساء‘‘ کے بعد کی حالانکہ ’’آل عمران‘‘ ترتیب میں ’’النساء‘‘ سے پہلے ہے۔
 
Top