• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نماز نبوی صحیح احادیث کی روشنی میں

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
صف بندی کے مراتب:
سیدنا ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں اپنے ہاتھ ہمارے کندھوں پر رکھتے اور فرماتے برابر ہو جاؤ اور اختلاف نہ کرو ورنہ تمہارے دل مختلف ہو جائیں گے۔ (اور) وہ لوگ جو بالغ اور (دینی اعتبار سے) عقل مند ہیں صف میں میرے قریب رہیں، پھر جو ان سے قریب ہیں، پھر جو ان سے قریب ہیں۔‘‘
(مسلم، الصلاۃ، باب تسویۃ الصفوف حدیث ۲۳۴.)
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس بات کو پسند کرتے تھے کہ مہاجرین اور انصار آپ کے قریب ہوں تاکہ آپ سے سیکھیں۔
(ابن ماجہ، اقامۃ الصلاۃ، من یستحب ان یلی الامام ۷۷۹.)

مقتدی کا امام کے دائیں طرف کھڑے ہونا:
سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں رات کی نماز میں نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کے بائیں طرف کھڑا ہوا۔ آپ نے پیچھے سے میرا سر پکڑا اور مجھے اپنی دائیں طرف کر دیا۔
(بخاری، الاذان باب اذا قام الرجل عن یسار الامام ۶۲۷، مسلم:۳۶۷)۔)
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نماز میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے کھڑا ہو گیا تو آپ نے میرا کان پکڑ کر مجھے اپنی دائیں جانب کر لیا۔
(مسلم، صلوۃ المسافرین، باب الدعا فی صلاۃ اللیل ۶۶۷.)
اس سے معلوم ہوا کہ نوافل کی جماعت میں تکبیر (اقامت) نہیں ہے اور اگر اکیلے آدمی نے نماز شروع کی پھر دوسرا آکر اس کے ساتھ آ ملا تو پہلا نمازی امامت کی نیت کرکے نماز جاری رکھے۔ (ع،ر)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
عورتوں کے ساتھ صف بندی:
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہمارے گھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نفل نماز کی جماعت کرائی، میں اور ایک بچے نے اکٹھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے صف بنائی اور میری ماں سیدہ ام سلیم ہمارے پیچھے اکیلی ہی صف میں کھڑی ہو گئی۔
(بخاری، الاذان باب المرأۃ وحدھا تکون صفا، ۷۲۷۔ مسلم، المساجد، باب حواز الجماعۃ فی النافلۃ، ۸۵۶.)
سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے گھر تشریف لائے گھر میں، میں میری والدہ اور میری خالہ تھیں۔ آپ نے ہمیں نفل نماز باجماعت پڑھائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اپنی دائیں طرف کھڑا کیا اور عورتوں کو ہمارے پیچھے۔
(مسلم، المساجد: ۰۶۶.)
اس سے معلوم ہوا کہ ایک خاتون بھی پیچھے نماز میں کھڑی ہو جائے تو اسے صف شمار کیا جائے گا۔ (ع،ر)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
دوسری جماعت کا حکم:
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو اکیلے نماز پڑھتے ہوئے دیکھا تو فرمایا:
"اس پر کون صدقہ کرے گا کہ وہ اس کے ساتھ نماز پڑھ لے۔"
(ابو داود، الصلاۃ، باب فی الجمع فی المسجد مرتین۔ ۴۷۵۔ امام ترمذی امام حاکم اور امام ذہبی نے اسے صحیح کہا۔)
اس حدیث کی روشنی میں بحوث العلمیۃ والافتاء سعودی عرب کا فتویٰ ہے کہ جب کچھ لوگ مسجد میں اس وقت آئیں جب امام نے سلام پھیر دیا ہو تو پہلی جماعت کے فوت ہونے کی وجہ سے وہ دوسری جماعت کھڑی کر سکتے ہیں اس میں کوئی حرج نہیں۔
(فتاوی اسلامیہ، اول ۹۶۴.)

دوسری جماعت کے لیے اذان اور اقامت :
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا عمل دونوں طرح ثابت ہے۔
سیّدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے ایک مسجد میں آکر جہاں لوگ با جماعت نماز پڑھ چکے تھے دوبارہ اذان اور اقامت کہلوائی اور نماز پڑھی۔
(مصنف ابن ابی شیبہ۸۹۲۲.)
سیّدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے اپنے گھر میں اسود اور علقمہ کو نماز پڑھائی تو انہیں اذان اور اقامت کہنے کا حکم نہیں دیا۔
(مسلم، المساجد، الندب الی وضع الایدی علی الرکب فی الرکوع۴۳۵.)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
امامت کا بیان

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’لوگوں کا امام وہ ہونا چاہیے جو ان میں سب سے زیادہ قرآن اچھی طرح (صحیح پڑھنا) جانتا ہو اور اگر قراءت میں سب برابر ہوں تو پھر وہ امامت کرائے جو سنت کو سب سے زیادہ جانتا ہو۔ (یعنی سب سے زیادہ احکام اور مسائل کی حدیثیں جانتا ہو) پھر اگر سنت کے علم میں بھی سب برابر ہوں تو پھر امامت وہ کرائے جس نے سب سے پہلے (مدینہ کی طرف) ہجرت کی۔ اگر ہجرت میں بھی سب برابر ہوں تو پھر وہ امامت کرائے جو سب سے پہلے مسلمان ہوا۔ اور (بلا اجازت) کوئی شخص کسی کی جگہ امامت نہ کرائے اور نہ کسی کے گھر میں صاحب خانہ کی مسند پر اس کی اجازت کے بغیر بیٹھے۔‘‘
(مسلم، المساجد، باب من احق بالامامۃ؟ ۳۷۶.)

نابالغ بچے اور نابینا کی امامت:
اگر کتاب اللہ کسی نابالغ بچے کو زیادہ یاد ہو تو اسے امام بنایا جا سکتا ہے۔
سیّدنا عمرو بن سلمہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اپنے قبیلے میں سب سے زیادہ قرآن مجھے یاد تھا مجھے امام بنایا گیا حالانکہ میری عمر سات سال تھی۔
(بخاری، المغازی، باب: من شہد الفتح ۲۰۳۴.)
اندھے کو امام بنانا جائز ہے کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عبد اللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کو امام مقرر کیا تھا۔ حالانکہ وہ نابینا تھے۔
(ابو داود، الصلاۃ، باب امامۃ الاعمی، ۵۹۵ امام ابن حبان نے اسے صحیح کہا۔)

نماز میں تخفیف:
سیدنا انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سی بہت ہلکی اور بہت کامل نماز میں نے کسی امام کے پیچھے نہیں پڑھی۔ جب آپ (عورتوں کی صف میں) بچے کے رونے کی آواز سنتے تو اس ڈر سے نماز ہلکی کر دیتے کہ اس کی ماں کو تکلیف ہو گی۔
(بخاری، الاذان باب من اخف الصلاۃ عند بکاء الصبی، ۸۰۷، مسلم: ۹۶۴.)
سیدنا ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’میں نماز لمبی کرنے کے ارادے سے نماز میں داخل ہوتا ہوں۔ پھر (عورتوں کی صف میں) بچے کے رونے کی آواز سنتا ہوں تو اپنی نماز میں کمی کر دیتا ہوں (ہلکی پڑھتا ہوں) کہ بچے کے رونے سے اس کی ماں کو تکلیف ہو گی۔‘‘
(بخاری، ۷۰۷.)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
لمبی نماز پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا غصہ:
سیدنا ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا یا رسول اللہ! اللہ کی قسم میں صبح کی نماز (جماعت میں) اس وجہ سے نہیں آتا کہ فلاں شخص نماز کو لمبا کرتے ہیں سیدنا ابو مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی وعظ میں اتنے غصے میں نہیں دیکھا جتنا (لمبی نماز پڑھانے والوں پر) دیکھا۔ آپ نے فرمایا:
’’تم (لمبی نمازیں پڑھا کر) لوگوں کو نفرت دلانے والے ہو، (سنو) جب تم لوگوں کو نماز پڑھاؤ تو ہلکی پڑھاؤ اس لیے کہ ان (مقتدیوں) میں ضعیف، بوڑھے اور حاجت مند بھی ہوتے ہیں۔
(بخاری، الاذان باب تخفیف الامام فی القیام واتمام الرکوع والسجود، ۲۰۷، ومسلم: ۶۶۴)
سیدنا عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری وصیت یہ تھی:
’’جب تم لوگوں کی امامت کرو تو ان کو نماز ہلکی پڑھاؤ، کیونکہ تمہارے پیچھے بوڑھے، مریض، کمزور اور کام کاج والے لوگ ہوتے ہیں۔ اور جب اکیلے نماز پڑھو تو جس قدر چاہو لمبی پڑھو۔‘‘
(مسلم، الصلاۃ، باب امر الأئمۃ بتخفیف الصلاۃ فی تمام: ۸۶۴.)
ہلکی نماز کا یہ مطلب نہیں کہ رکوع، سجود، قومے اورجلسے کو درہم برہم کر کے رکھ دیا جائے۔ واضح ہو کہ ارکان نماز کی تعدیل اور طمانیت کے بغیر نماز باطل ہوتی ہے۔ اور قرآن کی تلاوت کو نا مناسب حد تک تیز کرنا بھی جائز نہیں ہے، بلکہ ہلکی نماز کا مطلب یہ ہے کہ قراءت میں اختصار کیا جائے۔ مگر قیام زیادہ مختصر بھی نہ ہو۔
نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’افضل نماز وہ ہے جس میں قیام لمبا ہو۔‘‘
(مسلم، صلاۃ المسافرین، باب: أفضل الصلاۃ طول القنوت: ۶۵۷.)

نماز کی طرف سکون سے آنا:
سیدنا ابو قتادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:
ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے، آپ نے لوگوں کی کھٹ پٹ سنی۔ نماز کے بعد آپ نے پوچھا:
’’تم کیا کر رہے تھے؟‘‘ انہوں نے عرض کیا ہم نماز کی طرف جلدی آرہے تھے۔ آپ نے فرمایا:
’’ایسا نہ کرو۔ جب تم نماز کو آؤ تو آرام سے آؤ، جو نماز تمہیں مل جائے پڑھ لو اور جو فوت ہو جائے اس کو بعد میں پورا کرو۔‘‘
(بخاری:۵۳۶، مسلم، المساجد، باب استحباب اتیان الصلاۃ بوقار و سکینۃ، ۳۰۶.)
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جب فرض نماز کی تکبیر کہی جائے تو دوڑتے ہوئے نہ آؤ بلکہ سکون سے آؤ جو ملے پڑھو اور جو رہ جائے اسے بعد میں پورا کر لو کیونکہ جب تم نماز کا ارادہ کرتے ہو تو نماز ہی میں ہوتے ہو۔‘‘
(مسلم، ۲۰۶.)
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جس نے خوب اچھی طرح وضو کیا پھر (نماز باجماعت پڑھنے کے لیے) مسجد کی طرف چلا لیکن مسجد جا کر لوگوں کو دیکھا کہ وہ نماز پڑھ چکے ہیں تو اسے جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کا پورا پورا ثواب ملے گا۔ ذرا سا بھی کم نہ ہو گا۔
(ابو داؤد، الصلاۃ فیمن خرج یرید الصلاۃ فسبق بہا ۴۶۵.)
یعنی اگر وہ بلا وجہ سستی سے کام نہ لے تو جب تک وہ نماز نہیں پڑھ لیتا، اسے نماز کا ثواب مسلسل مل رہا ہوتا ہے، وﷲ اعلم (ع،ر)

افضل کا مقتدی بننا:
جنگ تبوک میں ایک دن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رفع حاجت کے لیے گئے آکر وضو کیا جب پہنچے تو دیکھا کہ سیّدنا عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نماز پڑھا رہے تھے۔ ان کے پیچھے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رکعت پڑھی۔ سیدنا عبد الرحمن بن عوف نے دونوں رکعتیں پڑھنے کے بعد سلام پھیر کر دیکھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پوری کرنے کی خاطر دوسری رکعت کے لیے کھڑے ہو گئے تھے۔ سلام کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم لوگوں نے اچھا کیا۔ تم لوگ وقت مقررہ پر نماز پڑھا کرو۔
(مسلم، الصلاۃ باب تقدیم الجماعۃ من یصلی بھم اذا تأخر الامام: ۴۷۲)
معلوم ہوا کہ افضل مقتدی بن سکتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اماموں پر وبال:
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اگر اماموں نے نماز اچھی طرح (ارکان کی تعدیل اور سنتوں کی رعایت کے ساتھ) پڑھائی تو تمہارے لیے بھی ثواب ہے اور ان کے لیے بھی ثواب ہے اور اگر نماز پڑھانے میں خطا کی (یعنی رکوع و سجود کی عدم طمانیت، اور قومے جلسے کے فقدان سے نماز پڑھائی) تو تمہارے (مقتدیوں) کے لیے ثواب ہے اور ان کے لیے وبال ہے۔‘‘
(بخاری، الاذان باب اذا لم یتم الامام واتم من خلفہ، ۴۹۶.)
امام بغوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’اس حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ اگر کوئی امام بے وضو یا بحالت جنابت نماز پڑھا دیتا ہے تو مقتدیوں کی نماز صحیح اور امام پر نماز کا اعادہ ہے خواہ اس نے یہ فعل ارادتاً کیا ہو یا لاعلمی کی بنا پر۔‘‘
سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو فجر کی نماز پڑھائی۔ (نماز کے بعد) انہوں نے اپنے کپڑوں میں احتلام کا نشان دیکھا تو اپنے کپڑوں سے منی کو دھویا، غسل کیا اور نماز دھرائی۔
(الموطاء، کتاب الطہارہ،باب اعادہ الجنب الصلاۃ۳۱۱.)
آپ نے مقتدیوں کو نماز دہرانے کا حکم نہیں دیا۔
انفرادی طور پر کوئی مقتدی جماعت کے ساتھ نماز میں غلطی کرے تو اس پر سجدہ سہو نہیں ہے ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’امام مقتدیوں کا ضامن ہے اور موذن ان کا امین ہے۔ اے اللہ ہمارے اماموں کو ہدایت دے اور اذان دینے والوں کو معاف فرما دے۔‘‘
(ابو داؤد، الصلاۃ مایجب علی المؤذن من تعاھد الوقت، ۷۱۵.)
سیدنا سھل بن سعد ساعدی نماز پڑھانے کے لیے نوجوانوں کو آگے کرتے تھے ۔ان سے پوچھا گیا کہ آپ بزرگ ہیں آپ جماعت کیوں نہیں کرواتے؟وہ کہنے لگے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
’’امام ضامن ہوتا ہے۔ اگر وہ درست نماز پڑھائے تو اس کے لیے اجر ہے اور مقتدیوں کے لیے بھی۔ اگر وہ نماز صحیح نہ پڑھائے تو مقتدیوں کے لیے اجر ہے اور اس پر گناہ ہے ۔‘‘
(ابن ماجہ، اقامۃ الصلاۃ، ما یجب علی الامام،۱۸۹.)

زبردستی امام بننا:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’تین آدمیوں کی نماز قبول نہیں ہوتی:
۱۔ وہ غلام جو اپنے مالک سے بھاگ گیا ہو جب تک واپس نہ آجائے۔
۲۔ وہ عورت جس کا خاوند ناراض ہو لیکن وہ رات بھر سوتی رہے۔
۳۔ وہ آدمی جو لوگوں کی امامت کرائے جبکہ لوگ نا پسند کرتے ہوں۔‘‘
(ترمذی: الصلاۃ، باب: ما جاء فی من أم قوماء وہم لہ کارہون: ۰۶۳.)
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
’’تین قسم کے لوگوں کی نماز قبول نہیں ہوتی نہ ہی وہ آسمان کی طرف بلند ہوتی ہے اور نہ ان کے سر سے اوپر جاتی ہے۔
۱۔ وہ شخص جو کسی قوم کی امامت کراتا ہے جبکہ لوگ اسے ناپسند کرتے ہیں ۲۔ وہ شخص جس نے کسی کی نماز جنازہ پڑھائی حالانکہ اسے نماز پڑھانے کا نہیں کہا گیا تھا۔
۳۔ وہ عورت جسے رات کے وقت اس کے شوہر نے بلایا لیکن اس نے انکار کیا۔‘‘
(سلسلہ الاحادیث الصحیحہ للالبانی۰۵۶. )

فاسق کو امامت سے ہٹانا:
اگر کسی کو مسجد میں امام مقرر کرنے کا اختیار ہو تو اسے چاہیے کہ فاسق کو امامت سے ہٹا دے۔
ایک صحابی اپنی قوم کی امامت کرواتے تھے ایک دفعہ اس نے قبلہ کی طرف تھوکا جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسے دیکھ رہے تھے جب وہ نماز سے فارغ ہوا تو آپ نے فرمایا کہ
’’یہ تمہاری امامت نہ کرے‘‘
پھر اس نے امامت کرنا چاہی تو اسے روک دیا اور اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان سنایا۔ اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بات کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا:
’’ہاں! تم نے اللہ اور اس کے رسول کو اذیت دی۔‘‘
(أبو داود: الصلاۃ، باب: فی کراہیۃ البزاق فی المسجد: ۲۸۴.)

فاسق فاجر یعنی گناہ گار مسلمان کی اقتدا میں نماز پڑھنا :
جب سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو محصور کر دیا گیا تو ان سے پوچھا گیا کہ فتنہ پرور لوگوں کا امام ہمیں نماز پڑھاتا ہے (ہم کیا کریں) تو آپ نے فرمایا
’’نماز لوگوں کے اعمال میں سب سے اچھا عمل ہے۔ جب لوگ اچھا کام کریں تو تم بھی ان کے ساتھ اچھا کام کرو اور جب وہ برا کام کریں تو تم ان کی برائی میں شامل نہ ہو ۔‘‘
(بخاری، الآذان ،باب امامۃالمفتون والمبتدع۵۹۶.)
فضیلۃ الشیخ مفتی محمد الصالح العثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں
’’اس میں کوئی شک نہیں کہ جو شخص اللہ تعالیٰ سے زیادہ ڈرنے والا ہو، دین پر زیادہ عمل کرنے والا ہو، اس کے پیچھے اس انسان کی نسبت نماز افضل ہے جو دین میں سستی کرنے والا ہو۔
اہل بدعت کی دو اقسام ہیں۔
۱۔ جن کی بدعتیں کفر تک پہنچانے والی ہیں۔
۲۔ جن کی بدعتیں کفر تک پہنچانے والی نہیں ہیں۔
ان میں سے پہلی قسم کے اہل بدعت کے پیچھے نماز جائز نہیں کیونکہ وہ کافر ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں ان کی نماز صحیح نہیں۔ لہٰذا یہ بھی صحیح نہیں کہ وہ مسلمانوں کے امام بنیں۔ اور وہ اہل بدعت جن کی بدعتیں کفر تک نہیں پہنچاتیں ان کے پیچھے نماز کے حکم میں علماء کرام کا اختلاف ہے کہ اہل فسق کے پیچھے نماز جائز ہے یا نہیں۔ راجح بات یہ ہے کہ اہل فسق کے پیچھے نماز جائز ہے الا یہ کہ ان کے پیچھے نماز چھوڑنے میں مصلحت ہو ۔ مثلاً نماز نہ پڑھنے کی صورت میں اگر انہیں تنبیہ ہو اور اس طرح وہ اپنے فسق و فجور ختم کر سکتے ہوں تو اس مصلحت کی وجہ سے بہتر یہ ہے کہ ان کے پیچھے نماز نہ پڑھی جائے۔
(فتاوی اسلامیہ، اول۹۸۳.)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
قریب کی مسجد میں نماز پڑھنا:
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
’’آدمی اس مسجد میں نماز پڑھے جو اس کے قریب ہے۔ دوسری مسجدیں ڈھونڈتا نہ پھرے۔‘‘
(سلسلہ الاحادیث الصحیحہ للالبانی۰۰۲۲.)
اگر قریب کے مسجد کے امام کے عقیدہ میں کفر و شرک ہو تو اس کے پیچھے نماز پڑھنا جائز نہیں ہے ۔اور اگر امام بدعات و فسق میں مبتلا ہو تو دور کی مسجد میں جانا جائز ہے۔

کسی عذر کے سبب امام کے پیچھے نماز ختم کرنا:
سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص پانی اٹھانے والے دو اونٹ لے کر آیا، رات اندھیری ہو گئی تھی، اس نے سیّدنا معاذ کو (عشا کی) نماز پڑھتے ہوئے پایا تو اس نے اپنے اونٹوں کو بٹھایا اور نماز میں شریک ہو گیا، سیّدنا معاذ رضی اللہ عنہ نے سورہ بقرہ شروع کی اس نے سلام پھیرا اکیلے نماز پڑھی اور چلا گیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی اور عرض کیا اے اللہ کے رسول! ہم محنت کرنے والی قوم ہیں، معاذ پہلے آپ کے ساتھ عشا کی نماز پڑھتا ہے پھر (تاخیر کے ساتھ) ہمارے پاس آتا ہے پھر اس نے سورۂ بقرۃ کی تلاوت شروع کر دی، آپ نے سیّدنا معاذ سے فرمایا:
’’اے معاذ! کیا تو لوگوں کو آزمائش میں ڈالتا ہے؟ کیا تو لوگوں کو نفرت دلاتا اور فتنہ کھڑا کرتا ہے، آپ نے تین بار فرمایا۔‘‘
(بخاری، الاذان باب اذا طول الامام وکان للرجل حاجۃ فخرج فصلی: ۱۰۷، مسلم: ۵۶۴.)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نفل پڑھنے والے کے پیچھے فرض نماز ادا کی جا سکتی ہے کیونکہ معاذ رضی اللہ عنہ عشاء کے فرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے ادا کر لیتے تھے۔
فضیلۃ الشیخ مفتی عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں
’’علماء کے صحیح قول کے مطابق نماز تراویح پڑھانے والے امام کی اقتداء میں عشاء کی نیت کر کے نماز عشاء پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ جب امام سلام پھیر دے تو اسے اپنی باقی نماز مکمل کرنا ہو گی۔‘‘
(فتاوی اسلامیہ، اول۲۶۳.)

نماز دو دفعہ ادا کرنا:
سیدنا محجن رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک مجلس میں شریک تھے۔ نماز کے لیے اذان کہی گئی تو آپ نے نماز پڑھائی۔ پھر آپ واپس لوٹے۔ سیدنا محجن رضی اللہ عنہ اسی مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے انہوں نے آپ کے ساتھ نماز نہیں پڑھی۔ آپ نے فرمایا۔ لوگوں کے ساتھ نماز پڑھنے سے تمہیں کس چیز نے روکا؟ کیا تم مسلمان نہیں ہو؟ سیدنا محجن رضی اللہ عنہ نے کہا اے اللہ کے رسول کیوں نہیں۔ لیکن میں اپنے گھر میں نماز پڑھ چکا تھا۔ آپ نے فرمایا۔ جب تم آؤ تو لوگوں کے ساتھ نماز پڑھو اگرچہ تم نماز پڑھ چکے ہو۔
(سلسلہ الاحادیث الصحیحہ للالبانی ۷۳۳۱.)
سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھتے پھر اپنی قوم کے پاس آتے اور انہیں نماز پڑھاتے۔
(بخاری: ۰۰۷، مسلم، الصلاۃ،باب القراء ۃ فی العشاء، ۰۸۱۔(۵۶۴).)
یہ نماز سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ کے لیے نفل اور مقتدیوں کے لیے فرض بن جاتی تھی، اس سے معلوم ہوا کہ نماز میں امام اور مقتدی کی نیت کا مختلف ہونا جائز ہے۔ (ع،ر)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
امام کی تبدیلی:
اگر کسی وجہ سے امام جماعت کروانے کے قابل نہ رہے تو امام کے پیچھے کھڑا مقتدی آگے بڑھے اور لوگوں کی نماز مکمل کروائے۔ عمرو بن میمون فرماتے ہیں جب سیّدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ پر نماز میں قاتلانہ حملہ ہوا تو انہوں نے اپنے پیچھے کھڑے سیّدنا عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کو آگے کر دیا اور انہوں نے نماز مکمل کروائی۔
(بخاری، فضائل الصحابۃ، قصۃالبیعۃ،۰۰۷۳.)

نماز پڑھا کر امام کا مقتدیوں کی طرف منہ پھیرنا:
سیدنا سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:
’’جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ چکتے تو ہماری طر ف منہ کر کے بیٹھتے۔
(بخاری، الاذان، باب یستقبل الامام الناس اذا سلم، ۵۴۸، مسلم: الرؤیا، باب: رویا النبی: ۵۷۲۲.)
سیدنا انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اکثر اپنی داہنی طرف سے مڑتے ہوئے دیکھا ہے۔
(مسلم، صلاۃ المسافرین، باب جواز الانصراف من الصلاۃ عن الیمین والشمال، ۸۰۷.)
سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں تم اپنی نماز میں صرف دائیں طرف سے پھر کر شیطان کا حصہ مقرر نہ کرو۔ تحقیق میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ وہ اپنے بائیں طرف سے بھی پھرتے تھے۔
(بخاری، الأذان، باب الانفتال والانصراف عن الیمین والشمال، ۲۵۸، مسلم: ۷۰۷.)
معلوم ہوا کہ امام کو پھرنے کے لیے صرف ایک طرف مقرر نہیں کر لینی چاہیے۔ بلکہ کبھی دائیں طرف سے پھرا کرے کبھی بائیں طرف سے مگر اکثر دائیں طرف سے مڑنا چاہیے۔
سیدنا براء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھتے تو ہم آپ کے دائیں طرف کھڑے ہونے کو پسند کرتے تھے تاکہ آپ ہماری طرف منہ کر کے بیٹھیں۔
(مسلم، صلاۃ المسافرین، باب استحباب یمین الامام حدیث ۹۰۷.)

مسجد سے عورتوں کا مردوں سے پہلے نکلنا:
سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سلام پھیرتے تو عورتیں سلام پھیرتے ہی کھڑی ہو کر چلی جاتیں اور آپ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ تھوڑی دیر بیٹھے رہتے پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوتے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی آپ کے ساتھ کھڑے ہو جاتے اور آپ کے اٹھنے سے پہلے عورتیں گھروں میں داخل ہو چکی ہوتی تھیں۔
(بخاری: الأذان، باب: التسلیم: ۷۳۸، ۰۵۸.)

امام کی اقتداء کے احکام:
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’امام سے پہل نہ کرو! جب وہ تکبیر کہے، اس کے بعد تم تکبیر کہو۔ اور جب امام (وَلاَ الضَّآلِیْنَ) کہے تو تم اس کے بعد آمین کہو۔ اور جب امام رکوع کرے تم اس کے بعد رکوع کرو اور جب امام (سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہٗ) کہے تو تم (اَللّٰہُمَّ رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ) کہو۔‘‘
(مسلم، الصلاۃ، باب: النہی عن مبادرۃ الإمام بالتکبیر: ۵۱۴.)
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ گھوڑے سے گر پڑے، آپ کی داہنی پہلو چھل گئی تو آپ نے ایک نماز بیٹھ کر پڑھی ہم نے بھی آپ کے پیچھے بیٹھ کر نماز پڑھی، نماز سے فارغ ہونے کے بعد آپ نے فرمایا:
"امام اس لیے مقرر کیا گیا ہے کہ اس کی پیروی کی جائے جب وہ کھڑا ہو کر نماز پڑھے تو تم بھی کھڑے ہو کر پڑھو، جب وہ رکوع کرے تم بھی رکوع کرو اور جب وہ رکوع سے سر اٹھائے تو تم بھی اٹھاؤ اور جب وہ بیٹھ کر نماز پڑھے تو تم بھی بیٹھ کر نماز پڑھو۔‘‘
(بخاری: ۹۸۶، مسلم: ۱۱۴.)
اس حدیث کی رو سے اگر امام مریض ہو اور بیٹھ کر نماز پڑھے تو تندرست مقتدی بھی بیٹھ کر نماز پڑھیں گے البتہ تندرست مقتدی کھڑے ہو کر نماز ادا کر سکتے ہیں جیسا کہ امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حمیدی رحمتہ اللہ علیہ نے کہا آپ کا یہ فرمان کہ جب امام بیٹھ کر نماز پڑھے تو تم بھی بیٹھ کر پڑھو شروع کی بیماری میں تھا، موت کی آخری بیماری میں آپ نے بیٹھ کر نماز پڑھی اور لوگ آپ کے پیچھے کھڑے تھے، آپ نے ان کو بیٹھنے کا حکم نہیں دیا، اور آپ کا جو فعل آخری ہو اسی کو لینا چاہیے۔‘‘
(بخاری: الأذان، باب: إنما جعل الإمام لیوتم بہ: ۹۸۶.)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری کے ایام میں سیّدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے امامت کرائی۔ ایک دن آپ نے تکلیف میں تخفیف پائی تو آپ دو صحابہ رضی اللہ عنہم کا سہارا لیتے ہوئے مسجد میں داخل ہوئے سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ جماعت کرا رہے تھے۔ جب سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ نے آپ کی آمد محسوس کی تو پیچھے ہٹنا چاہا، آپ نے اشارہ کیا کہ پیچھے نہ ہٹو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سیّدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بائیں طرف بیٹھ گئے اور بیٹھ کر نماز ادا کی اور سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کھڑے تھے۔ سیّدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء کرتے اور لوگ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی اقتداء کرتے۔ یہ ظہر کی نماز تھی۔
(بخاری: ۷۸۶، مسلم: الصلاۃ، باب: استخلاف الإمام إذا عرض لہ عذر: ۰۹(۸۱۴).)
سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھتے تھے پس جب آپ (سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہُ) کہتے (تو ہم آپ کے پیچھے قومے میں کھڑے ہو جاتے تھے اور پھر) ہم میں سے کوئی اپنی پیٹھ (سجدہ میں جانے کے لیے)نہ جھکاتا تھا یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی پیشانی زمین پر رکھ دیتے۔ ‘‘
(بخاری:۰۹۶، ومسلم، الصلاۃ، باب متابعۃ الامام والعمل بعدہ، ۴۷۴.)
حضرات! غور کیا آپ نے! کہ جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قومے سے سجدے میں پہنچ کر اپنی پیشانی مبارک زمین پر نہ رکھ دیتے تھے اس وقت تک تمام صحابہ رضی اللہ عنہم کھڑے رہتے تھے۔ کوئی پیٹھ تک نہ جھکاتا تھا اور ہمارا یہ حال ہے کہ امام قومے سے سجدہ میں آنے کے لیے ابھی (اَللّٰہُ اَکْْْبَرُ) ہی کہتا ہے تو مقتدی امام کے سجدے میں پہنچنے سے پہلے ہی سجدے میں پہنچ جاتے ہیں۔
نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
’’امام سے پہلے رکوع کرو نہ سجدہ اور امام سے پہلے کھڑے ہو نہ پہلے سلام پھیرو۔‘‘
(مسلم، الصلاۃ، باب تحریم سبق الامام برکوع او سجود و نحوھما، حدیث ۶۲۴)
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جو کوئی امام سے پہلے سجدہ سے اپنا سر اٹھاتا ہے کیا وہ نہیں ڈرتا کہ اللہ تعالیٰ اس کے سر کو گدھے کے سر یا اس کی شکل کو گدھے کی شکل کی طرح کر دے۔‘‘
(بخاری، الاذان باب اثم من رفع راسہ قبل الامام، ۱۹۶ ومسلم، ۷۲۴.)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
امام کو لقمہ دینا :
اگر امام نماز میں بھول جائے تو اسے یاد دلانا واجب ہے۔
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی آپ پر قرات خلط ملط ہو گئی جب آپ فارغ ہوئے تو آپ نے سیّدنا ابی بن کعب سے فرمایا:
" کیا تم نے ہمارے ساتھ نماز پڑھی؟" انہوں نے کہا ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"تمہیں کس چیز نے (غلطی بتانے سے) روکے رکھا؟"
(ابو داؤد، الصلاۃ، باب الفتح علی الامام فی الصلاۃ، ۷۰۹.)
سیدنا مسور بن یزید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قراءت میں قرآن کا کچھ حصہ چھوڑ دیا۔ ایک آدمی نے کہا: آپ نے فلاں فلاں آیت چھوڑ دی تو آپ نے فرمایا:
’’تو نے مجھے یاد کیوں نہ کروایا؟۔‘‘
(ابو داود:۷۰۹ (م) امام ابن خزیمہ اور امام ابن حبان نے اسے صحیح کہا۔)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جب نماز میں کوئی بات درپیش ہو تو مرد مقتدی سبحان اللّٰہ کہیں اور تالی بجانا عورتوں کے لیے ہے۔‘‘
(بخاری، العمل فی الصلاۃ، باب التصفیق للنساء، ۳۰۲۱۔ مسلم، الصلاۃ، باب تسبیح الرجل و تصفیق المرأۃ اذا نابھما شیْْْ فی الصلاۃ، ۲۲۴.)
عورت سبحان اللہ کہنے کی بجائے ایک ہاتھ کو دوسرے ہاتھ کی پشت پر مارے گی۔ واللہ اعلم، (ع،ر)

عورت کی امامت:
پہلی صف کے وسط میں (دوسری عورتوں کے ساتھ، برابر) کھڑی ہو کر عورت عورتوں کی امامت کرا سکتی ہے۔
سیدہ ام ورقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ وہ اپنے گھر والوں کی امامت کرائیں۔‘‘
(ابو داود، الصلاۃ،باب امامۃ النساء، ۲۹۵۔ اسے ابن خزیمہ (۶۷۶۱) نے صحیح کہا۔)
ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا عورتوں کی امامت کراتیں اور صف کے درمیان کھڑی ہوتی تھیں۔
(سنن الدارقطنی۱/۴۰۴ ،ح ۹۲۴۱۔)

امام اور مقتدی کے درمیان دیوار کا حائل ہونا:
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے:
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے حجرہ میں (رمضان المبارک میں) رات کی نماز پڑھی اور حجرہ کی دیوار چھوٹی تھی لوگوں نے دیکھ لیا اور انہوں نے حجرہ سے باہر آپ کی اقتداء میں نماز ادا کی۔‘‘
(بخاری: الأذان، باب: إذا کان بین الإمام وبین القوم حائط أو سترۃ: ۹۲۷.)
معلوم ہوا کہ امام اور مقتدیوں کے درمیان اگر دیوار آ جائے تو کوئی حرج نہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
مساجد کے احکام

سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
’’میرے لیے ساری زمین کو مسجد اور مٹی کو پاک کرنے والی بنایا گیا ہے لہٰذا جہاں کہیں بھی نماز کا وقت آئے ادا کر لو۔‘‘
(بخاری: التیمم: ۵۳۳، مسلم: ۱۲۵.)
یہ اللہ تعالیٰ کا اس امت پر خاص انعام ہے، اس امت سے قبل کسی بھی امت کو یہ سہولت حاصل نہیں تھی کہ نماز کا وقت آنے پر وہ جس جگہ بھی چاہیں نماز ادا کر لیں سوائے ان جگہوں کے جہاں منع کیا گیا ہے یعنی قبرستان، حمام اور اونٹوں کا باڑہ۔

مسجد کی فضیلت :
سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جو شخص مسجد بنائے اور اس کا مقصود اللہ کی رضا مندی ہو، اللہ اس کے لیے بہشت میں گھر بناتا ہے۔‘‘
(بخاری، الصلاۃ باب من بنی مسجدا، ۰۵۴ ومسلم، المساجد، باب فضل بناء المساجد و الحث علیھا، ۳۳۵.)
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اللہ کو مسجدیں بہت زیادہ محبوب ہیں۔ اور بازار انتہائی ناپسند ہیں۔‘‘
(مسلم، المساجد، باب فضل الجلوس فی مصلاہ بعد الصبح وفضل المساجد، ۱۷۶.)
مطلب یہ ہے کہ مسجدیں دنیا کی تمام جگہوں سے اللہ کو زیادہ محبوب اور پیاری ہیں کیونکہ ان میں اللہ کی عبادت ہوتی ہے اور بازار تمام جگہوں سے اللہ کے نزدیک نہایت ناپسندیدہ ہیں کیونکہ وہاں حرص، طمع، جھوٹ، مکر اور لین دین میں فریب وغیرہ کا دور دورہ ہوتا ہے۔ یاد رہے کہ کسی دینی یا دنیوی ضرورت کے بغیر بازار میں کبھی نہ جائیں اور مسجدوں سے بہت محبت کریں۔

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جو کوئی دن کے اول حصے میں یا دن کے آخری حصہ میں مسجد کی طرف جائے، اللہ اس کے لیے بہشت میں مہمانی تیار کرتا ہے۔‘‘
(بخاری، الاذان باب فضل من غدا الی المسجد و من راح، ۲۶۶۔ ومسلم، المساجد، باب المشی إلی الصلاۃ تمحی بہ الخطایا: ۹۶۶.)
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اللہ تعالیٰ قیامت کے دن آواز دے گا کہ میرے پڑوسی کہاں ہیں، میرے پڑوسی کہاں ہیں؟
فرشتے کہیں گے: ’’اے ہمارے رب کس کے لائق ہے کہ وہ آپ کا پڑوسی بنے‘‘؟
اللہ تعالیٰ فرمائے گا:
’’مسجد کو آباد کرنے والے کہاں ہیں ؟‘‘
(سلسلہ الاحادیث الصحیحہ للالبانی۸۲۷۲.)
 
Top