• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نماز نبوی صحیح احادیث کی روشنی میں

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
طاقت سے بڑھ کر مشقت کی ممانعت:
سیدنا عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ایک ماہ میں ایک بار قرآن پاک ختم کر لیا کرو، انہوں نے عرض کیا میں اس سے زیادہ تلاوت کرنے کی طاقت رکھتا ہوں۔ آپ نے فرمایا:
"تو بیس دن میں ختم کر لیا کرو"۔ انہوں نے کہا میں اس سے بھی زیادہ طاقت رکھتا ہوں۔ آپ نے فرمایا: ’’تو دس دن میں ختم کر لیا کرو‘‘۔ انہوں نے کہا میں اس سے بھی زیادہ طاقت رکھتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’سات دن میں ختم کر لیا کرو۔ اس سے زیادہ کی اجازت نہیں۔ کیونکہ تمہاری بیوی کا تم پر حق ہے۔ تمہارے ملاقاتیوں کا تم پر حق ہے۔ تمہارے بدن کا تم پر حق ہے۔ اور شاید تمہاری عمر زیادہ ہو (اور تم یہ کام بڑھاپے میں نہ کر سکو)"
سیدنا عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ جب بوڑھے ہوئے تو آرزو کرتے تھے کہ
"کاش میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رخصت قبول کر لیتا۔"
(بخاری: فضائل قرآن، باب في کم یقرا القرآن ۴۵۰۵. مسلم، الصیام، باب النھی عن صوم الدھر۔۔۔ ۹۵۱۱)
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں قرآن پاک تین دن میں ختم کرنے کی اجازت دے دی اور فرمایا:
’’قرآن پاک سے اس شخص کو کچھ سمجھ حاصل نہیں ہو سکتی جو تین دن سے کم مدت میں قرآن پاک ختم کرتا ہے۔‘‘
(ترمذی، القراء ات، ۹۴۹۲، وسنن ابی داود، شہر رمضان، باب: فی کم یقرا القرآن؟ ۰۹۳۱۔ امام ترمذی نے اسے حسن صحیح کہا۔)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد کے اندر دو ستونوں کے درمیان لٹکی ہوئی رسی دیکھی تو پوچھا یہ کیا ہے؟ لوگوں نے کہا: یہ ام المومنین زینب رضی اللہ عنہا کی رسی ہے وہ (رات کو نفل) نماز پڑھتی رہتی ہیں پھر جب سست ہو جاتی ہیں یا تھک جاتی ہیں تو اس رسی کو پکڑ لیتی ہیں‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اس کو کھول ڈالو ہر شخص اپنی خوشی کے موافق نماز پڑھے پھر جب سست ہو جائے یا تھک جائے تو آرام کرے۔‘‘
(مسلم، صلاۃ المسافرین، باب امر من نفس في صلاتہ: ۴۸۷)
اس سے معلوم ہوا کہ جائز لذتوں سے کنارہ کشی اور جسمانی تکالیف پر مشتمل صوفیانہ ریاضتوں اور مجاہدات کا اسلام میں کوئی تصور نہیں ہے، (ع،ر)
نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جو شخص رات کے نوافل میں دو سو آیات تلاوت کرتا ہے وہ اطاعت گزار مخلص لوگوں میں شمار ہوتا ہے‘‘
(صحیح ابن خزیمۃ :۳۴۱۱، اسے امام حاکم اور حافظ ذہبی نے صحیح کہا۔)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تین دعائیں:
سیدنا خباب بن ارت رضی اللہ عنہ جو بدری صحابی ہیں ایک رات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔ فرماتے ہیں کہ آپ تمام رات بیدار رہے اور نوافل ادا کرتے رہے یہاں تک کہ صبح صادق ہو گئی۔ جب آپ نے نماز سے سلام پھیرا تو سیدنا خباب رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! میرے ماں باپ آپ پر قربان، آج رات جس طرح آپ نے نوافل پڑھے اس سے پہلے میں نے کبھی آپ کو اس طرح نماز ادا کرتے نہیں دیکھا، آپ نے فرمایا: ’’تم نے درست کہا۔ نماز ایسی عبادت ہے جس میں اللہ کے ساتھ اشتیاق بڑھایا جاتا ہے اور اس کے عذاب سے پناہ مانگی جاتی ہے، چنانچہ میں نے اللہ تعالیٰ سے تین سوال کئے جن میں سے دو قبول ہوئے۔ ایک سوال یہ کہ اللہ میری امت کو سابقہ امتوں کی طرح برباد نہ کرے اس کو اللہ نے قبول فرمایا۔ دوسرا سوال یہ کہ میری (ساری) امت پر (بیک وقت) دشمنوں کو غلبہ حاصل نہ ہو، یہ بھی قبول کر لیا گیا۔ پھر میں نے سوال کیا کہ امت محمدیہ میں اختلاف رونما نہ ہو، لیکن اسے قبول نہیں کیا گیا۔‘‘
(ترمذی، الفتن، باب ما جاء فی سوال النبی ثلاثا فی أمتہ ۵۷۱۲، ابن حبان امام ترمذی نے اسے حسن صحیح غریب کہا۔)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
نماز وتر کا وقت:
ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وتر اول شب میں، بیچ میں اور آخر میں سب وقت ادا کئے ہیں۔
(مسلم، صلاۃ المسافرین، باب صلاۃ اللیل وعدد رکعات النبی فی اللیل ۵۴۷.)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"جسے خطرہ ہو کہ وہ رات کے آخری حصے میں نہیں اٹھ سکے گا وہ اول شب ہی وتر پڑھ لے پھر سو جائے۔ اور جس کو یقین ہو کہ وہ رات کو اٹھ جائے گا وہ آخر میں وتر پڑھے اس لیے کہ آخر رات کی قرأت میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں اور یہ افضل ہے۔"
(مسلم، صلاۃ المسافرین، باب: من خاف أن لا یقوم من أخر اللیل فلیُوتر أولہُ: ۵۵۷.)
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ جو رات کو نماز پڑھے تو اسے چاہیے کہ وتر کو سب سے آخر میں ادا کرے اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہی حکم فرماتے تھے۔
(ابن ماجہ، اقامۃ الصلاۃ،باب ما جاء فيالوتر اول اللیل، ۲۰۲۱.)
سیدناجابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ تم کس وقت وتر کی نماز ادا کرتے ہو۔ سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ عشاء کی نماز کے بعد رات کے ابتدائی حصے میں۔ آپ نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ تم کب وتر پڑھتے ہو تو انہوں نے کہا کہ رات کے پچھلے پہر۔ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ابو بکر تم نے مضبوط کڑا پکڑ لیا اور عمر تم نے قوت کو اختیار کیا۔ (مسلم: ۱۵۷.)
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’جب وتر پڑھتے ہوئے اذان شروع ہو جائے تو نماز مکمل کر لینی چاہیے اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔‘‘ (فتاوی اسلامیہ، اول۹۴۴.)
سیدنا اغر مزنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا اے اللہ کے نبی میں صبح کے وقت جاگا تو وتر کا وقت ختم ہو چکا تھا۔ آپ نے فرمایا:
’’وتر رات کی نماز ہے ۔‘‘ اس نے پھر کہا اے اللہ کے نبی میں صبح کے وقت جاگا تو وتر کا وقت ختم ہو چکا تھا۔ آپ نے فرمایا: ’’وتر پڑھ لو۔‘‘
(سلسلہ الاحادیث الصحیحہ للالبانی۲۱۷۱.)

تہجد میں قراءت:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کے نوافل میں کبھی سری (آہستہ) اور کبھی جہری (بلند آواز سے) قراءت فرماتے۔
(ترمذی، الصلاۃ، باب ما جاء فی قراء ۃ باللیل، ۸۴۴۔ ابن ماجہ، إقامۃ الصلاۃ، باب ما جاء فی القراءۃ فی صلاۃ اللیل، ۴۵۳۱.)
جب آپ گھر میں نوافل ادا کرتے تو حجرہ میں آپ کی قرأ ت سنائی دیتی تھی۔
(ابو داود، التطوع، باب رفع الصوت بالقرأ ۃ فی صلاۃ اللیل، ۷۲۳۱.)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک رات باہر نکلے تو آپ نے دیکھا کہ سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ آہستہ قراءت سے نوافل پڑھ رہے ہیں اور سیّدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نوافل میں اونچی آواز سے قرأت کر رہے ہیں۔ جب وہ دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے فرمایا:
"اے ابوبکر رات میں تیرے پاس سے گزرا، تو پست آواز سے نوافل پڑھ رہا تھا۔؟" انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! جس (اللہ) سے میں سرگوشی کر رہا تھا اس تک میری آواز پہنچ رہی تھی۔ پھر آپ نے سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ: ’’رات میرا تیرے پاس سے گزر ہوا، تو اونچی آواز کے ساتھ نفل پڑھ رہا تھا‘‘ تو انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! میں سوئے ہوؤں کو بیدار کرنا چاہتا تھا (کہ وہ بھی تہجد پڑھیں) اور شیطان کو بھگانے کا ارادہ رکھتا تھا۔ اس پر آپ نے سیّدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو ذرا اونچی آواز سے اور سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ کو ذرا نیچی آواز سے پڑھنے کا حکم دیا۔ (ابو داود: حدیث ۹۲۳۱۔ امام ابن خزیمہ، امام ابن حبان، امام حاکم اور حافظ ذہبی نے اسے صحیح کہا۔)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
قیام اللیل کا طریقہ :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بالعموم وتر پڑھنے کا طریقہ ام المومنین، عائشہ رضی اللہ عنہا یوں بیان فرماتی ہیں کہ:
’’نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نماز عشاء سے فجر تک گیارہ رکعتیں پڑھتے۔ ہر دو رکعتوں پر سلام پھیرتے اور ایک رکعت وتر پڑھتے۔‘‘
(مسلم، صلاۃ المسافرین، باب صلاۃ اللیل وعدد رکعات النبی فی اللیل ۶۳۷.)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’رات کی نماز دو، دو رکعتیں ہے۔ جب صبح (صادق) ہونے کا خطرہ ہو تو ایک رکعت پڑھ لو، یہ (ایک رکعت، پہلی ساری) نماز کو طاق بنا دے گی۔‘‘
(بخاری، الوتر، باب ماجاء فی الوتر، ۰۹۹ ومسلم،۹۴۷)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جب تم رات کو نوافل پڑھنا شروع کرو تو پہلے دو ہلکی رکعتیں ادا کرو۔‘‘
(مسلم، صلاۃ المسافرین : ۸۶۷.)
آپ نے رات کا قیام کیا پہلے دو ہلکی رکعتیں پڑھیں، پھر دو طویل رکعتیں پڑھیں پھر ان سے ہلکی، دو طویل رکعتیں پڑھیں، پھر ان سے ہلکی دو طویل رکعتیں پھر ان سے ہلکی دو طویل رکعتیں پھر ان سے ہلکی دو رکعتیں پھر ایک رکعت وتر پڑھا۔ یہ تیرہ رکعتیں ہوئیں۔ آپ کی ہر دو رکعتیں پہلے والی دو رکعتوں سے ہلکی ہوتی تھیں۔
(مسلم، صلاۃ المسافرین، باب الدعاء فی صلاۃ اللیل و قیامہ، حدیث ۵۶۷.)
ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو کبھی سات، کبھی نو اور کبھی گیارہ رکعتیں پڑھتے تھے۔
(بخاری، التھجد، باب کیف صلاۃ النبی V ۹۳۱۱.)
سعد بن ہشام نے ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہو کر کہا: مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وتر کے بارے میں بتائیں، تو سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے مسواک اور وضو کا پانی تیار رکھتی۔ پھر جب اللہ چاہتا تو آپ کو نماز کے لیے اٹھاتا۔ پھر آپ مسواک کرتے اور وضو کرتے اور نو رکعات نماز (وتر) پڑھتے، آٹھویں رکعت کے بعد تشھد میں بیٹھتے (اور اس سے قبل ۲،۴،۶ رکعت کے بعد التحیات نہ پڑھتے تھے) پھر سلام پھیرے بغیر (التحیات پڑھ کر) کھڑے ہو جاتے، پھر نویں رکعت پڑھتے اور (اس کے بعد آخری قعدے میں) بیٹھ جاتے۔ پس اللہ کو یاد کرتے اور اس کی تعریف کرتے اور اس سے دعا مانگتے (یعنی آخری قعدہ کی معروف دعا پڑھتے) پھر سلام پھیرتے، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بڑی عمر کو پہنچے (تو) آپ سات رکعات وتر پڑھتے۔ آپ اس بات کو پسند کرتے تھے کہ اپنی نماز پر ہمیشگی کریں۔ اور میں نہیں جانتی کہ آپ نے ایک رات میں پورا قرآن پڑھا ہو یا ساری رات نماز پڑھی ہو یا رمضان کے علاوہ کسی اور مہینے میں پورا مہینہ روزے رکھے ہوں۔
(مسلم، صلاۃ المسافرین، باب جامع صلاۃ اللیل،۶۴۷.)
اس حدیث شریف سے معلوم ہوا کہ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے (ایک سلام کے ساتھ) نو وتر پڑھے۔ اور آپ ہر دو رکعتوں کے بعد التحیات نہیں بیٹھتے تھے بلکہ صرف آٹھویں رکعت میں تشہد پڑھتے اور سلام پھیرے بغیر کھڑے ہو جاتے۔ اور پھر آخری رکعت کے آخر میں حسب معمول تشہد پڑھ کر سلام پھیر دیتے تھے۔

پانچ، تین اور ایک وتر:
سیدنا ابو ایوب رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’وتر ہر مسلمان پر حق ہے۔ پس جو شخص پانچ رکعات وتر پڑھنا چاہے تو (پانچ) رکعات پڑھے اور جو کوئی تین رکعات وتر پڑھنا چاہے تو (تین رکعات) پڑھے اور جو کوئی ایک رکعت وتر پڑھنا چاہے تو (ایک) رکعت (وتر) پڑھے۔‘‘
(ابو داود، الوتر، باب کم الوتر؟ ۲۲۴۱۔ ابن ماجہ: إقامۃ الصلاۃ، باب: ماجاء فی الوتر بثلاث و خمس و سبع و تسع، ۰۹۱۱۔ امام حاکم امام ذہبی اور ابن حبان نے اسے صحیح کہا۔)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو (کل) تیرہ رکعات پڑھتے اور ان میں پانچ رکعات وتر پڑھتے تھے (اور ان پانچ وتروں میں) کسی رکعت میں (تشہد کے لیے) نہ بیٹھتے مگر آخر میں۔
(مسلم، صلاۃ المسافرین، باب صلاۃ اللیل و عدد رکعات النبی V فی اللیل، ۷۳۷.)
معلوم ہوا کہ وتروں کی پانچوں رکعتوں کے درمیان تشہد کے لیے کہیں نہیں بیٹھنا چاہیے۔ بلکہ پانچوں رکعتیں پڑھ کر قعدہ میں التحیات درود اور دعا پڑھ کر سلام پھیر دینا چاہیے۔

تین وتروں کی قراءت :
ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پہلی رکعت وتر میں (سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْأَعْلَی) دوسری میں (قُلْ یَا أَیُّہَا الْکَافِرُوْنَ) اور تیسری میں (قُلْ ہُوَ اللّٰہُ أَحَدٌ) (الْفَلَقِ) اور (النَّاس) پڑھتے تھے۔‘‘
(ترمذی: الصلاۃ، باب: ما جاء ما یقرأ فی الوتر: ۳۶۴۔ امام ذہبی اور ابن حبان نے اسے صحیح کہا۔)

مغرب کی نماز کی مشابہت کی ممانعت:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’تین وتر نہ پڑھو پانچ یا سات وتر پڑھو اور مغرب کی مشابہت نہ کرو۔‘‘
(دار قطنی، الوتر ،باب لا تشبہوا الوتر بصلاۃ المغرب ۲/۵۲، ۷۲، حاکم، ذہبی اور ابن حبان نے اسے صحیح کہا۔)
اگر دو رکعت پڑھ کر سلام پھیرا جائے اور پھر ایک رکعت پڑھی جائے تو مغرب کی مشابہت نہیں ہو گی۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وتر کی دو اور ایک رکعت میں سلام سے فصل کرتے۔
(ابن حبان، ۸۷۶۔ حافظ ابن حجر نے اسے قوی کہا ہے۔)
یعنی تین وتر بھی اس طرح پڑھتے کہ دو رکعات پڑھ کر سلام پھیرتے اور پھر اٹھ کر تیسری رکعت الگ پڑھتے۔ (ع، ر)

وتر کی ایک رکعت:
ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر دو رکعت کے بعد سلام پھیرتے اور ایک رکعت وتر پڑھتے۔
(ابن ماجہ: إقامۃ الصلاۃ، باب: ما جاء فی الوتر برکعۃ: ۷۷۱۱، امام بوصیری نے اسے صحیح کہا۔)
ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک رکعت وتر پڑھتے۔ آپ دو رکعتوں اور ایک وتر کے درمیان گفتگو کیا کرتے تھے۔
(سلسلہ الاحادیث الصحیحہ للالبانی۲۶۹۲.)
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا گیا کہ امیر المومنین سیّدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے ایک ہی وتر پڑھا ہے۔ سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ (انہوں نے) درست کام کیا وہ فقیہ اور صحابی ہیں۔
(بخاری، فضائل الصحابۃ، باب: ذکر معاویۃ رضی اللہ عنہ: ۵۶۷۳.)
امام مروزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ فصل (وتر کی دو رکعتوں کے بعد سلام پھیر کر ایک رکعت الگ پڑھنے) والی احادیث زیادہ ثابت ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:
’’وتر آخر رات میں ایک رکعت ہے۔‘‘
(مسلم، صلاۃ المسافرین، باب صلاۃ اللیل مثنی مثنی، ۲۵۷.)

ایک رات میں کئی وتر پڑھنے کی ممانعت:
سیّدنا طلق بن علی رضی اللہ عنہ نے ایک دفعہ رمضان میں قیام کیا اور وتر پڑھ لیا۔ پھر اپنی مسجد میں گئے تو اپنے ساتھیوں کو نماز پڑھائی لیکن وتر نہیں پڑھا اور کہا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ایک رات میں وتر کی نماز دو دفعہ نہیں ہے۔
(ابو داود: الوتر، باب: فی نقض الوتر ۹۳۴۱۔ ابن خزیمہ (۱۰۱۱) اور امام ابن حبان (۱۷۶) نے صحیح اور حافظ ابن حجر نے حسن کہا۔)
اس روایت سے معلوم ہوا کہ وتر کے بعد نفل پڑھے جا سکتے ہیں لیکن دو دفعہ وتر نہیں پڑھنے چاہئیں۔ اگرچہ بہتر یہی ہے کہ وتر کو سب سے آخر میں ادا کرے۔

وتر کی قضا:
نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اگر کوئی شخص وتر پڑھے بغیر سو جائے یا وتر پڑھنا بھول جائے تو اسے جب یاد آئے یا جاگ آئے تو وہ وتر پڑھ لے۔‘‘
(أبو داود: الوتر، باب: فی الدعاء بعد الوتر ۱۳۴۱۔ امام حاکم اور حافظ ذہبی نے اسے صحیح کہا۔)
نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جو شخص رات کا وظیفہ یا کوئی دوسرا معمول چھوڑ کر سو گیا اور پھر اسے نماز فجر سے ظہر تک کے درمیان ادا کر لیا تو اسے رات ہی کے وقت ادا کرنے کا ثواب مل جائے گا۔‘‘
(مسلم: صلاۃ المسافرین، باب: جامع صلاۃ اللیل ومن نام عنہ أو مرض ۷۴۷.)
ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نیند یا بیماری کا غلبہ ہوتا اور رات کو قیام نہ کر سکتے تو دن میں بارہ رکعات نفل پڑھتے۔
(مسلم، الصلاۃ، جامع صلاۃ اللیل،۶۴۷.)
ہمیں اپنا وظیفہ پورا کرنا چاہیے کیونکہ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اتنا عمل اختیار کرو جس قدر تمہیں طاقت ہو۔ اللہ کی قسم! اللہ ثواب دینے سے نہیں تھکتا لیکن تم عمل کرنے سے تھک جاؤ گے اللہ تعالیٰ کے ہاں محبوب ترین عمل وہ ہے جو ہمیشہ کیا جائے خواہ تھوڑا ہی ہو۔‘‘
(بخاری، الرقاق، باب القصد و المداومۃ علی العمل، ۴۶۴۶۔ مسلم، صلاۃ المسافرین، باب فضیلۃ العمل الدائم من قیام اللیل وغیرہ، ۲۸۷.)
نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے سیّدنا عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کو فرمایا:
’’اے عبد اللہ! تو فلاں شخص کی طرح نہ ہو جانا جو رات کا قیام کرتا تھا پھر اس نے رات کا قیام چھوڑ دیا۔‘‘
(بخاری، التھجد، باب ما یکرہ من ترک قیام للیل لمن کان یقوم ۲۵۱۱، مسلم: الصیام، باب: النہی عن صوم الدہر: ۹۵۱۱.)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
قنوت وتر

قنوت وتر رکوع سے قبل:
سیدناابی بن کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تین وتر پڑھتے اور دعاء قنوت رکوع سے پہلے پڑھتے تھے۔‘‘
(نسائی: قیام اللیل، باب: ذکر اختلاف ألفاظ الناقلین لخبر أبی بن کعب فی الوتر: ۰۰۷۱، ۳/۵۳۲۔ ابن ماجہ، إقامۃ الصلاۃ، باب ما جاء فی القنوت قبل الرکوع و بعدہ، ۲۸۱۱) اسے ابن ترکمانی اور ابن السکن نے صحیح کہا۔)
سیدنا عبد اللہ بن مسعود اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم قنوت وتر رکوع سے پہلے پڑھتے تھے۔
(مصنف ابن ابی شیبہ،۲/۷۹ اسے ابن ترکمانی نے صحیح اور حافظ ابن حجر نے حسن کہا۔)
وتر میں رکوع کے بعد قنوت کی تمام روایات ضعیف ہیں اور جو روایات صحیح ہیں ان میں صراحت نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا رکوع کے بعد والا قنوت، قنوت وتر تھا یا قنوت نازلہ۔ لہٰذا صحیح طریقہ یہ ہے کہ وتر میں قنوت رکوع سے قبل کیا جائے۔

دعائے قنوت:
سیّدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے وتر کے آخر میں یہ دعا پڑھتے:
’’اَللّٰہُمَّ اِنِّی اَعُوذُ بِرِضَاکَ مِن سَخَطِکَ، وَبِمُعَافَاتِکَ مِن عُقُوبَتِکَ، وَاَعُوذُبِکَ مِنکَ لاَ اُحصِی ثَنَاءً عَلَیکَ ،اَنتَ کَمَا اَثنَیتَ عَلیٰ نَفسِکَ.‘‘
’’اے اللہ !میں تیری رضا کے ساتھ تیری ناراضگی سے اور تیری بخشش کے ساتھ تیری پکڑ سے پناہ طلب کرتا ہوں اور میں تیرے ساتھ تجھ سے پناہ مانگتا ہوں، میں تیری مکمل ثنا بیان نہیں کر سکتا، تو ویسا ہی ہے جیسا کہ تو نے اپنی ثنا بیان کی ہے۔‘‘
(ابو داؤد ۷۲۴۱. ترمذی: الدعوات،باب في دعا الوتر ۶۶۵۳)
سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے کچھ کلمات سکھائے تاکہ میں ان کو قنوت وتر میں کہوں :
’’اَللّٰہُمَّ اہْدِنِیْ فِیْمَنْ ہَدَیْتَ وَعَافِنِیْ فِیْمَنْ عَافَیْتَ وَتَوَلَّنِیْ فِیْمَنْ تَوَلَّیْتَ وَبَارِکْ لِیْ فِیْمَا أَعْطَیْتَ وَقِنِیْ شَرَّ مَا قَضَیْتَ إِنَّکَ تَقْضِیْ وَلَا یُقْضیٰ عَلَیْکَ وَإِنَّہُ لَا یَذِلُّ مَنْ وَّالَیْتَ وَلَا یَعِزُّ مَنْ عَادَیْتَ تَبَارَکْتَ رَبَّنَا وَتَعَالَیْتَ۔‘‘
’’اے اللہ! مجھے ہدایت دے کر ان لوگوں میں شامل فرما جنہیں تو نے رشد و ہدایت سے نوازا ہے اور مجھے عافیت دے کر ان لوگوں میں شامل فرما جنہیں تو نے عافیت بخشی ہے، اور جن لوگوں کو تو نے اپنا دوست بنایا ہے ان میں مجھے بھی شامل کر کے اپنا دوست بنا لے۔ جو کچھ تو نے مجھے عطا فرمایا ہے اس میں میرے لیے برکت ڈال دے اور جس شر و برائی کا تو نے فیصلہ فرمایا ہے اس سے مجھے محفوظ رکھ اور بچا لے۔ یقیناًتو ہی فیصلہ صادر فرماتا ہے تیرے خلاف فیصلہ صادر نہیں کیا جا سکتا اور جس کا تو دوست بنا وہ کبھی ذلیل وخوار اور رسوا نہیں ہو سکتا اور وہ شخص عزت نہیں پا سکتا جسے تو دشمن کہے، اے ہمارے رب! تو (بڑا) ہی برکت والا اور بلند و بالا ہے۔‘‘
(ابو داود، الوتر، باب القنوت فی الوتر، ۵۲۴۱۔ ترمذی: الصلاۃ، باب: ماجاء فی القنوت فی الوتر ۴۶۴۔ امام ترمذی نے اسے حسن اور امام ابن خزیمہ نے صحیح کہا۔)

تنبیہات:
دعائے قنوت وتر میں ہاتھ اٹھانے کے بارے میں کوئی مرفوع روایت نہیں ہے البتہ مصنف ابن ابی شیبہ میں بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے آثار ملتے ہیں۔
((رَبَّنَا وَتَعَالَیْتَ)) کے بعد ((نَسْتَغْفِرُکَ وَنَتُوْبُ إِلَیْکَ)) کے الفاظ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث میں موجود نہیں ہیں۔ بلکہ یہ دعا میں اضافہ ہے۔
((صَلّی اللّٰہُ عَلٰی النَّبِیِّ)): سیّدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے کہ وہ سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں رمضان میں قیام للیل کرتے اور قنوت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجتے تھے۔ اس طرح سیّدنا معاذ انصاری رضی اللہ عنہ سے بھی ثابت ہے۔
(صحیح ابن خزیمۃ ۰۰۱۱.)
لہٰذا آخر میں ((صَلَّی اللّٰہُ عَلٰی النَّبِیِّ)) پڑھنا جائز ہے۔

وتروں کے سلام کے بعد ذکر:
سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وتروں سے سلام پھیر کر تین بار یہ پڑھتے:
((سُبْحَانَ الْمَلِکِ الْقُدُّوْسِ))
’’پاک ہے بادشاہ، نہایت پاک۔‘‘
(ابوداود، الوتر، باب فی الدعاء بعد الوتر، ۰۳۴۱ ۔ اسے امام ابن حبان نے صحیح کہا۔)

قنوت نازلہ
جنگ، مصیبت اور غلبہ دشمن کے وقت دعائے قنوت پڑھنی چاہیے۔ اسے قنوت نازلہ کہتے ہیں۔ امیر المومنین سیّدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فجر کی نماز میں قنوت کرتے اور یہ دعا پڑھتے تھے:
’’اَللّٰہُمَّ اغْفِرْ لَنَا وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَالْمُسْلِمِیْنَ وَالْمُسْلِمَاتِ وَأَلِّف بَیْنَ قُلُوْبِہِمْ وَأَصْلِحْ ذَاتَ بَیْنِہِمْ وَانْصُرْہُمْ عَلٰی عَدُوِّکَ وَعَدُوِّہِمْ اَللّٰہُمَّ الْعَنْ کَفَرَۃَ أَہْلِ الکِتَابِ الَّذِیْنَ یَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِکَ وَیُکَذِّبُوْنَ رُسُلَکَ وَیُقَاتِلُوْنَ أَوْلِیَاءَ کَ اَللّٰہُمَّ خَالِفْ بَیْنَ کَلِمَتِہِمْ وَزَلْزِلْ أَقْدَامَہُمْ وَأَنْزِلْ بِہِمْ بَأْسَکَ الَّذِیْ لَا تَرُدُّہُ عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِیْنَ.‘‘
’’اے اللہ! ہمیں اور تمام مومن مردوں، مومن عورتوں، مسلمان مردوں اور مسلمان عورتوں کو بخش دے اور ان کے دلوں میں الفت ڈال دے۔ ان کی (باہمی) اصلاح فرما دے۔ اپنے اور ان کے دشمنوں کے خلاف ان کی مدد فرما۔ اے اللہ! کافروں کو اپنی رحمت سے دور کر جو تیری راہ سے روکتے، تیرے رسولوں کو جھٹلاتے اور تیرے دوستوں سے لڑتے ہیں۔ اے اللہ! ان کے درمیان پھوٹ ڈال دے ان کے قدم ڈگمگا دے اور ان پر اپنا وہ عذاب اتار جسے تو مجرم قوم سے نہیں ٹالا کرتا۔‘‘
(السنن الکبری للبیہقی (۲/۰۱۲،۱۱۲) اور انہوں نے اسے صحیح کہا۔)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی پر بد دعا یا نیک دعا کا ارادہ فرماتے تو آخری رکعت کے رکوع کے بعد ((سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہُ رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ)) کہنے کے بعد دعا فرماتے۔
(ابوداود، الوتر، باب القنوت فی الصلوات، (۳۴۴۱) اسے حاکم، حافظ ذہبی اور امام ابن خزیمہ نے صحیح کہا۔)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ماہ تک پانچوں نمازوں میں رکوع کے بعد قنوت نازلہ پڑھی اور صحابہ رضی اللہ عنہم آپ کے پیچھے آمین کہتے تھے۔
(بخاری، التفسیر، باب (لیس لک من الامر شیء) ۰۶۵۴، مسلم، المساجد، باب استحباب القنوت فی جمیع الصلوۃ، ۵۷۶.)
(قنوت نازلہ میں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے۔
(مسند احمد ۳/۷۳۱،۲۰۴۲۱.)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
قیام رمضان

’’جس نے ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے رمضان کا قیام کیا اللہ تعالیٰ اس کے پچھلے تمام گناہ معاف فرما دیتے ہیں۔‘‘
(بخاری، صلوٰۃ التراویح، باب فضل من قام رمضان، ۸۰۰۲ ومسلم، صلاۃ المسافرین، باب الترغیب فی قیام رمضان ۹۵۷.)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین رات قیام رمضان کیا:
سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (رمضان المبارک کے) روزے رکھے، (شروع میں) آپ نے ہمارے ساتھ مہینے میں سے کچھ بھی قیام نہ کیا یہاں تک کہ 23ویں رات کو آپ نے تہائی رات تک قیام رمضان کیا۔ پھر آپ نے 24 ویں رات چھوڑ کر 25 ویں رات کو آدھی رات تک قیام کیا پس میں نے عرض کی کہ کتنا اچھا ہو کہ اگر آپ ہمیں باقی رات بھی نفل پڑھاتے آپ نے فرمایا :
’’جو شخص امام کے ساتھ قیام (رمضان) کرتا ہے اس کے لیے پوری رات کا قیام لکھا جاتاہے‘‘
پھر 26 ویں رات کو چھوڑ کر 27 ویں شب کو اپنے اہل خانہ، اپنی عورتوں اور سب لوگوں کو جمع کر کے قیام کیا یہاں تک کہ ہمیں فلاح ختم ہونے کا ڈر ہوا۔ سیّدنا ابو ذررضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ فلاح کیا ہے؟ تو آپ نے جواب دیا سحری۔
(ابوداود، ابواب شھر رمضان، باب فی قیام شھر رمضان، ۵۷۳۱۔ ترمذی، الصیام، باب ماجاء فی قیام شھر رمضان، ۶۰۸۔ اسے امام ابن حبان اور امام ابن خزیمہ نے صحیح کہا۔)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (تین رات کے قیام کے بعد) فرمایا :
’’میں نے دیکھا کہ تمہارا معمول برابر قائم ہے۔ تو مجھے خطرہ لاحق ہوا کہ کہیں تم پر (یہ نماز) فرض نہ کر دی جائے (اس لیے میں گھر سے نہیں نکلا) پس تم اپنے اپنے گھروں میں (رمضان کی راتوں کا) قیام کرو۔ آدمی کی نفل نماز گھر میں افضل ہوتی ہے۔‘‘
(بخاری، الادب، باب: ما یجوز من الغضب والشدۃ لأمر اللّٰہ: ۳۱۱۶، مسلم: صلاۃ المسافرین، باب استحباب صلاۃ النافلۃ فی بیتہ ۱۸۷.)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ( نے تین شب قیام رمضان کرا کے) لوگوں سے فرمایا :
’’تم اپنے گھروں میں رمضان کی راتوں کا قیام کرو‘‘
گھروں وغیرہ میں فرداً فرداً پڑھنے کے متعلق امام زہری فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد بھی یہی طریقہ جاری رہا۔ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت اور سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے ابتدائی دور میں بھی اسی پر عمل ہوتا رہا۔ سیّدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے باجماعت قیام رمضان (دوبارہ) شروع کرایا مگر یہ بھی فرمایا کہ رات کا آخری حصہ (جس میں لوگ سو جاتے ہیں) رات کے ابتدائی حصہ سے (جس میں لوگ قیام کرتے ہیں) بہتر ہے۔
(بخاری، صلاۃ التراویح، باب فضل من قام رمضان، ۹۰۰۲، ۰۱۰۲، ومسلم، صلاۃ المسافرین ، باب الترغیب فی قیام رمضان و ھو التراویح، ۹۵۷.)
اس طریقے پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور ان کے بعد ساری امت کا عمل رہا اور جس چیز کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی مجموعی تائید حاصل ہو جائے وہ بدعت نہیں ہوا کرتی، نیز اجماع امت کی وجہ سے بھی یہ بدعت نہیں ہے ویسے بھی سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم میں سے ہیں جن کی سنت اختیار کرنے کا حکم خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرما گئے تھے۔
(ابوداود، السنۃ، باب فی لزوم السنۃ، ۷۰۶۴ وترمذی، العلم، باب ماجاء فی الاخذ بالسنۃ واجتناب البدعۃ ۶۷۶۲.)
لہٰذا جب کسی خلیفہ راشد کی سنت کو دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم قبول کر لیں تو وہ باقی امت کے لیے حجت بن جاتی ہے اس لحاظ سے بھی پورے رمضان میں قیام اللیل کا باجماعت اہتمام بدعت نہیں ہے۔ دراصل سیّدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اسے جو بدعت کہا ہے تو اس سے مراد بدعت کا لغوی معنی ہے۔ لیکن افسوس کہ بعض لوگ اپنی بدعات کو جائز ثابت کرنے کے لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بھی بدعتی ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ نعوذ با اللہ من تلک الخرافات۔ اللہ ہم سب کو ہدایت دے آمین ۔نیز بدعت وہ کام ہوتا ہے جس کی اصل اوردلیل سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں موجود نہ ہو جبکہ تراویح باجماعت کی دلیل سنت میں موجود ہے۔ رہا یہ مسئلہ کہ آپ نے پورے مہینے میں اسے باجماعت ادا نہیں کیا تو اس میں آپ کو یہ خطرہ لاحق تھا کہ کہیں اسے فرض نہ قرار دے دیا جائے، اور اب یہ خطرہ آپ کی وفات کے ساتھ ہی ختم ہو گیا ہے اس لیے پورا مہینہ تراویح باجماعت کا اہتمام بلاشبہ مشروع ہے۔ (ع، ر)

قیام رمضان : گیارہ رکعت
سیّدنا ابو سلمہ نے ام المومنین سیّدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ رمضان المبارک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رات والی نماز کیسی تھی؟ سیدہ صدیقہ کبریٰ رضی اللہ عنہا نے فرمایا:
’’رمضان ہو یا غیر رمضان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کی نماز (بالعموم) گیارہ رکعات سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔‘‘
(بخاری، صلاۃ التراویح، باب: فضل من قام رمضان: ۳۱۰۲، ومسلم، صلاۃ المسافرین، باب صلاۃ اللیل و عدد رکعات النبیV فی اللیل، ۸۳۷.)
’’سیدناجابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں آٹھ رکعات قیام رمضان پڑھائیں پھر وتر پڑھائے۔‘‘
(صحیح ابن خزیمۃ، ۰۷۰۱۔ ابن حبان ۰۲۹۔ ابو یعلی الموصلی ۲۰۸۱۔ امام ابن حبان نے اسے صحیح کہا۔)
سیدنا سائب بن یزید سے روایت ہے کہ سیّدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے سیّدنا ابی بن کعب اور سیّدنا تمیم دارمی رضی اللہ عنہا کو حکم دیا کہ لوگوں کو گیارہ رکعت قیام رمضان پڑھائیں۔
(موطا امام مالک، الصلاۃ فی رمضان، باب ماجاء فی قیام رمضان ۱/۵۱۱۔ ضیاء المقدسی اور شیخ البانی نے اسے صحیح کہا۔)
ثابت ہوا کہ سیّدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے مدینے کے قراء کو گیارہ رکعات پڑھانے کا حکم دیا تھا۔
امیر المومنین سیّدنا عمر بن خطاب، سیدنا علی بن ابی طالب، سیدنا ابی بن کعب اور سیّدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہم سے 20 رکعات قیام اللیل کی تمام روایات سنداً ضعیف ہیں۔

نماز تراویح میں قرآن مجید دیکھ کر پڑھنا:
فضیلۃ الشیخ عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’قیام رمضان میں قرآن مجید سے دیکھ کر پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ اس طرح مقتدیوں کو سارا قرآن مجید سنایا جا سکتا ہے۔ کتاب و سنت کے شرعی دلائل سے یہ بات ثابت ہے کہ نماز میں قرآن مجید کی قرات کی جائے اور یہ حکم عام ہے قرآن مجید سے دیکھ کر اور زبانی قرات سبھی شامل ہیں۔ ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے ثابت ہے کہ انہوں نے اپنے غلام ذکوان کو حکم دیا کہ وہ قیام رمضان میں ان کی امامت کروائیں اور ذکوان قرآن مجید سے دیکھ کر پڑھتے تھے۔ امام بخاری نے اپنی صحیح میں تعلیقاً مگر جزم کے صیغہ کے ساتھ بیان فرمایا ہے ۔‘‘ (فتاوی اسلامیہ،اول۲۴۴.)

سحری اور نماز فجر کا درمیانی وقفہ:
سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ :
’’انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سحری کھائی پھر نماز فجر کے لیے کھڑے ہو گئے (اور نماز پڑھی)۔ سحری سے فراغت اور نماز میں داخل ہونے کا وقفہ اتنا تھا جتنی دیر میں کوئی شخص قرآن حکیم کی پچاس یا ساٹھ آیتیں پڑھ لیتا ہے۔‘‘
(بخاری، مواقیت الصلاۃ، باب وقت الفجر، ۵۷۵، مسلم: الصیام، باب: فضل السحور: ۷۹۰۱.)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
نماز جمعہ

جمعہ بہترین دن:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’بہترین دن، جس پر سورج طلوع ہو کر چمکے، جمعہ کا دن ہے۔ اسی د ن سیّدنا آدم علیہ السلام پیدا ہوئے، اسی دن جنت میں داخل کئے گئے، اسی دن جنت سے (زمین پر) اتارے گئے اور قیامت بھی جمعہ کے دن قائم ہو گی۔‘‘
(مسلم، الجمعۃ، باب فضل یوم الجمعۃ، ۴۵۸.)
سیدنا ابو لبابہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جمعہ کا دن دنوں کا سردار ہے، اللہ کے نزدیک بڑا دن ہے اور یہ اللہ کے نزدیک عید الأضحی اور عید الفطر سے بھی بڑا ہے، اس میں پانچ باتیں ہیں:
۱: اس میں اللہ تعالیٰ نے سیّدنا آدم علیہ السلام کو پیدا کیا۔
۲: اس میں اللہ تعالیٰ نے سیدنا آدم علیہ السلام کو زمین پر اتارا۔
۳: اس دن سیدنا آدم علیہ السلام فوت ہوئے۔
۴: اس میں ایک گھڑی ہے جو بندہ اس گھڑی میں اللہ تعالیٰ سے سوال کرتا ہے وہ اس کو دے دیتا ہے جب تک وہ حرام چیز کا سوال نہ کرے۔
۵: اس دن قیامت قائم ہو گی، کوئی مقرب فرشتہ نہ آسمان میں، نہ زمین میں، نہ ہوا میں، نہ پہاڑ میں اور نہ دریا میں مگر وہ جمعہ سے ڈرتے ہیں۔‘‘
(ابن ماجہ: إقامۃ الصلاۃ، باب: فی فضل الجمعۃ: ۴۸۰۱۔ بوصیری نے حسن کہا۔)

جمعہ کی فرضیت:
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
(یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا إِذَا نُوْدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنْ یَّوْمِ الْجُمُعَۃِ فَاسْعَوْا إِلٰی ذِکْرِ اللّٰہِ وَذَرُوا الْبَیْعَ ذٰلِکُمْ خَیْرٌ لَّکُمْ إِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ)
’’اے اہل ایمان! جب جمعہ کے دن نماز (جمعہ) کے لیے اذان دی جائے تواللہ کے ذکر (خطبہ اور نماز) کی طرف دوڑو اور (اس وقت) کاروبار چھوڑ دو۔ اگر تم سمجھو تو یہ تمہارے حق میں بہت بہتر ہے۔‘‘
(الجمعۃ : ۹.)
سیدنا ابو الجعد ضمری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
"جو شخص سستی کی وجہ سے تین جمعہ چھوڑ دے تو اللہ تعالیٰ اس کے دل پر مہر لگا دیتا ہے۔"
(ابوداود: الصلاۃ، باب: التشدید فی ترک الجمعۃ، ۲۵۰۱، ترمذی ۹۹۴، اسے حاکم، ابن خزیمہ، ابن حبان اور امام ذہبی نے صحیح کہا۔)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’لوگ جمعہ چھوڑنے سے باز آ جائیں ورنہ اللہ تعالیٰ ان کے دلوں پر مہر لگا دے گا پھر وہ غافل ہو جائیں گے۔‘‘
(مسلم، الجمعۃ، باب التغلیظ فی ترک الجمعۃ، ۵۶۸.)
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:
"میرا دل چاہتا ہے کہ میں کسی شخص کو حکم دوں کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائے پھر میں ان لوگوں کے گھروں کو جلا دوں جو بلا عذر جمعہ میں نہیں آتے۔
(مسلم، المساجد، باب فضل صلاۃ الجماعۃ و بیان التشدید فی التخلف عنھا،۲ ۵۶.)
معلوم ہوا کہ جمعہ کا چھوڑنا بہت بڑا گناہ ہے، اس پر شدید وعید ہے۔ سوائے بچوں، عورتوں، مریضوں اور مسافروں کے ہر مسلمان پر جمعہ پڑھنا فرض ہے اس میں ہرگز سستی نہیں کرنی چاہیے۔ جب خطیب منبر پر چڑھے، اور اذان ہو جائے تو سارے کاروبار حرام ہو جاتے ہیں۔

جمعہ کی فضیلت:
سیدنا عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جو شخص جمعہ کے دن مسجد میں حاضر ہو خاموشی اور سکون کے ساتھ خطبہ سنے، کسی مسلمان کی گردن نہ پھلانگے، کسی کو تکلیف نہ دے تو یہ عمل اس کے گزشتہ جمعہ سے لے کر اس جمعہ تک اور تین دن مزید اس کے گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہر نیکی کے لیے دس گنا ثواب ہے۔‘‘
(أبو داود: الصلاۃ، باب: الکلام والإمام یخطب: ۳۱۱۱.)
نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جو شخص جمعہ کے روز خوب اچھی طرح نہائے، اور پاپیادہ (مسجد میں) جائے کسی سواری پر سوار نہ ہو، امام کے نزدیک ہو کر دل جمعی سے خطبہ سنے اور کوئی لغو بات نہ کرے تو اس کو ہر قدم پر ایک برس کے روزوں کا اور اس کی راتوں کے قیام کا ثواب ہو گا۔‘‘
(ترمذی: الجمعۃ، باب: ما جاء فی فضل الغسل یوم الجمعۃ: ۶۹۴۔ أبو داود: الطھارۃ، باب: فی الغسل یوم الجمعۃ: ۵۴۳۔ ابن حبان امام حاکم اور حافظ ذہبی نے اسے صحیح کہا۔)
سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جو شخص جمعہ کو نہائے اور جس قدر پاکی حاصل ہو سکے کرے، (مونچھیں کترائے، ناخن کٹائے، زیر ناف بال مونڈے اور بغلوں کے بال دور کرے، وغیرہ) پھر تیل یا اپنے گھر سے خوشبو لگائے اور (جمعہ کے لیے) مسجد کو جائے۔ (وہاں) دو آدمیوں کے درمیان راستہ نہ بنائے (بلکہ جہاں جگہ ملے بیٹھ جائے) پھر اپنے مقدر کی نماز پڑھے۔ پھر دوران خطبہ خاموش رہے تو اس کے گزشتہ جمعہ سے لے کر اس جمعہ تک کے گناہ بخش دیئے جاتے ہیں۔‘‘
(بخاری، الجمعہ باب الدھن للجمعۃ ۳۸۸.)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
جمعہ میں پہلے آنے والوں کا ثواب:
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’فرشتے جمعہ کے دن مسجد کے دروازے پر (ثواب لکھنے کے لیے) ٹھہرتے ہیں اور سب سے پہلے آنے والے کا نام لکھ لیتے ہیں پھر اس کے بعد آنے والے کا (اسی طرح نمبروار لکھتے جاتے ہیں) جو شخص نماز جمعہ کے لیے اول وقت مسجد میں جاتا ہے اس کو اتنا ثواب ملتا ہے جتنا قربانی کے لیے اونٹ بھیجنے والے کو ثواب ملتا ہے۔ پھر جو بعد میں آتا ہے اس کو اتنا ثواب ملتا ہے جتنا قربانی کے لیے گائے بھیجنے والے کو ثواب ملتا ہے۔ اس کے بعد آنے والے کو دنبہ بھیجنے والے کے برابر۔ اس کے بعد آنے والے کو مرغی اور اس کے بعد آنے والے کو انڈا صدقہ کرنے والے کی مانند اجر ملتا ہے۔ پھر جب امام، خطبہ دینے کے لیے نکلتا ہے تو فرشتے دفتر (لکھے ہوئے اوراق) لپیٹ لیتے ہیں اور خطبہ سننے لگتے ہیں۔
(بخاری، الجمعۃ، باب الاستماع الی الخطبۃ ۹۲۹۔ مسلم: الجمعۃ، باب: فضل التھجیر یوم الجمعۃ ۰۵۸.)

جمعہ کے دن قبولیت والی گھڑی:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جمعہ کے دن ایک گھڑی ایسی ہے کہ جو مسلمان اس گھڑی میں اللہ تعالیٰ سے بھلائی کا سوال کرے تو اللہ تعالیٰ اس کو قبول کرتا ہے اور آپ نے ہاتھ سے اشارہ کیا کہ یہ وقت قلیل ہوتا ہے۔‘‘
(بخاری، الجمعۃ، باب الساعۃ التی فی یوم الجمعۃ، ۵۳۹، مسلم، ۲۵۸.)
سیدنا ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جمعہ کی قبولیت کی گھڑی امام کے (منبر پر) بیٹھنے سے لے کر نماز کے خاتمہ تک ہے۔‘‘
(مسلم: الجمعۃ، باب فی الساعۃ التی فی یوم الجمعۃ:۳۵۸.)
سیدناجابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
’’اس گھڑی کو عصر کے بعد تلاش کرو۔‘‘
(أبو داود: الصلاۃ، باب الاجابۃ: ۸۴۰۱.)
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اس گھڑی کو جمعہ کے دن عصر سے غروب آفتاب تک تلاش کرو۔‘‘
(ترمذی: الجمعۃ، باب في الساعۃ التي ترجی في یوم الجمعۃ ۹۸۴.)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
جمعہ کے متفرق مسائل
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’غلام، عورت، بچے اور بیمار کے علاوہ جمعہ پڑھنا ہر مسلمان پر واجب ہے۔‘‘
(ابوداود: الصلاۃ، باب: الجمعۃ للمملوک والمرأۃ: ۷۶۰۱۔ امام نووی نے اسے صحیح کہا۔)
فضیلۃ الشیخ عبد العزیز بن بازرحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’جو شخص کسی شرعی عذر مثلاً بیماری یا دیگر اسباب کی وجہ سے مسلمانوں کے ساتھ مل کر نماز جمعہ ادا نہ کر سکے تو اسے نماز ظہر پڑھنی چاہیے۔ اسی طرح عورت، مسافر اور بادیہ نشین لوگ بھی نماز ظہر ادا کریں جیسا کہ سنت سے ثابت ہے۔‘‘
(فتاوی اسلامیہ، اول۱۳۵.)

دیہات میں جمعہ:
سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں :
"مسجد نبوی کے بعد جو سب سے پہلا جمعہ پڑھا گیا وہ بحرین کے گاؤں جواثی میں عبدالقیس کی مسجد میں تھا۔"
(بخاری: الجمعۃ، باب: الجمعۃ فی القری والمدن: ۲۹۸.)
اس سے ثابت ہوا کہ گاؤں میں بھی جمعہ پڑھنا ضروری ہے اگر لوگ گاؤں میں جمعہ نہیں پڑھیں گے تو گناہ گار ہوں گے۔
سیدنا اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ نے ’’نقیع الخضمات‘‘ کے علاقہ میں بنو بیاضہ کی بستی ’’ھزم النبیت‘‘ (جو مدینہ سے ایک میل کے فاصلہ پر تھی) میں جمعہ قائم کیا، ان کے ساتھ چالیس نمازی تھے۔
(أبو داود: الجمعۃ، باب: الجمعۃ فی القری: ۹۶۰۱ حاکم امام ابن خزیمہ ، اور حافظ ذہبی نے اسے صحیح کہا۔)
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما مکہ اور مدینہ کے درمیان بسنے والے لوگوں کو جمعہ پڑھتے دیکھتے تو اعتراض نہ کرتے۔
(عبدالرزاق ۳/۰۷۱، حافظ ابن حجر نے اسے صحیح کہا۔)

بارش میں جمعہ:
حنین کے دن بارش ہو رہی تھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مؤذن کو حکم دیا:
’’آج اپنی، اپنی قیام گاہوں میں نماز پڑھنے کا اعلان کر دو، اور وہ جمعہ کا دن تھا۔‘‘
(أبو داود: الصلاۃ، باب: الجمعۃ فی الیوم المطیر: ۷۵۰۱، ۹۵۰۱، اسے امام حاکم امام ابن خزیمہ امام ابن حبان اور حافظ ذہبی نے صحیح کہا۔)
معلوم ہوا کہ بارش کے روز جمعہ کی نماز پڑھنی واجب نہیں۔ یعنی اگر بارش کے روز جمعہ پڑھ لیا جائے تو جائز ہے اور بارش کے باعث اگر جمعہ چھوڑ کر ظہر پڑھ لی جائے تو جمعہ چھوڑنے کا گناہ نہیں ہو گا۔

عید کے دن جمعہ:
سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"آج کے دن دو عیدیں (عید اور جمعہ) اکٹھی ہو گئی ہیں۔ جو شخص صرف عید پڑھنا چاہے تو اسے وہ کافی ہے، لیکن ہم (عید اور جمعہ) دونوں پڑھیں گے۔"
(أبو داود: الصلاۃ، باب: إذا وافق یوم الجمعۃ یوم عید: ۳۷۰۱۔اسے امام حاکم اور حافظ ذہبی نے صحیح کہا۔)
سیدنا عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کے زمانے میں جمعہ کے دن عید ہوئی۔ تو انہوں نے نماز عید پڑھائی جمعہ نہ پڑھایا۔ اس واقعہ کی خبر سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کو ملی تو انہوں نے فرمایا:
ان کا یہ عمل سنت کے مطابق ہے۔
(نسائی، صلاۃ العیدین، باب الرخصۃ فی التخلف عن الجمعۃ لمن شھد العید: ۳۹۵۱، أبو داود: ۸۷۰۱۔ امام ابن خزیمہ نے اسے صحیح کہا۔)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"اگر گنجائش ہو تو جمعہ کے لیے روزانہ استعمال ہونے والے کپڑوں کے علاوہ کپڑے بناؤ۔‘‘
(ابن ماجہ: لإقامۃ الصلاۃ، باب: ما جاء فی الزینۃ یوم الجمعۃ: ۶۹۰۱، أبو داود: ۸۷۰۱۔ امام ابن حبان اور امام ابن خزیمہ (۵۶۷۱) نے اسے صحیح کہا۔)
سیّدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شدت کی سردی میں جمعہ کی نماز سویرے پڑھتے تھے۔ اور شدت کی گرمی میں دیر سے پڑھتے تھے۔
(بخاری، الجمعۃ، باب اذا اشتد الحریوم الجمعۃ: ۶۰۹.)

جمعہ میں تشہد میں ملنا:
فضیلۃ الشیخ مفتی عبد اللہ بن عبدالرحمن الجبرین رحمہ اللہ فرماتے ہیں
’’جس نے نماز جمعہ میں ایک رکعت سے کم حصہ پایا اس کا جمعہ فوت ہو گیا لہٰذا اسے ظہر کی چار رکعتیں پڑھنی چاہئیں۔‘‘
(فتاوی اسلامیہ، اول۸۳۵.)
فضیلۃ الشیخ مفتی عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں
’’جو کوئی نماز جمعہ میں سجدہ یا تشہد میں آکر ملے تو اسے جمعہ کی بجائے نماز ظہر پڑھنا ہو گی کیونکہ جمعہ کے لیے ضروری ہے کہ کم از کم ایک رکعت ضرور پا لے ۔۔۔ جو شخص جمعہ کی ایک رکعت بھی نہ پا سکے اس کا جمعہ فوت ہو گیا لہٰذا اسے ظہر کی نماز پڑھنی چاہیے۔‘‘
(فتاوی اسلامیہ، اول۱۴۵.)

جمعہ سے پہلے نوافل کی تعداد:
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
’’جس نے غسل کیا۔ جمعہ میں آیا جتنی تقدیر میں تھی نماز پڑھی خطبہ سے فارغ ہونے تک چپ رہا پھر امام کے ساتھ نماز پڑھی اس کے جمعہ سے گذشتہ جمعہ تک اور ۳ دن کے اور گناہ معاف ہو گئے۔ اور جو کنکریوں سے کھیلے اس نے فضول کام کیا۔
(مسلم، الجمعۃ، باب فضل من استمع و انصت فی الخطبۃ: ۷۵۸.)
اس روایت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جمعہ سے پہلے رکعتیں مقرر نہیں ہیں بلکہ امام کے خطبہ شروع کرنے سے پہلے جس قدر ہو سکے نوافل ادا کرتا رہے۔ مگر دو رکعت ضروری ہیں۔

ظہر احتیاطی کی بدعت:
بعض لوگ نماز جمعہ کے علاوہ ’’ظہر احتیاطی‘‘ پڑھتے اور اس کا فتویٰ بھی دیتے ہیں، حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پاک اور آپ کے بے شمار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے جمعہ کے بعد نماز ظہر کا پڑھنا کہیں ثابت نہیں۔ ہم حیران ہیں کہ نماز جمعہ ادا کر لینے کے بعد (احتیاطًا) ظہر کے فرض پڑھنے والے اور پڑھنے کا حکم دینے والے اللہ تعالیٰ کو کیا جواب دیں گے؟ معاذ اللہ، کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے بعد ظہر پڑھنا اور لوگوں کو بتانا بھول گئے تھے جو بعد میں آنے والے لوگوں نے ایجاد کر کے تکمیل دین کی ہے؟ احتیاطی پڑھنے والو! اللہ سے ڈرو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آگے نہ بڑھو۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سے اپنی آواز اونچی نہ کرو۔

(محض) جمعہ کے دن روزہ رکھنا:
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جمعہ کا دن روزہ کے لیے اور جمعہ کی شب (جمعرات اور جمعہ کی درمیانی رات) کو عبادت کے لیے خاص کرنے سے منع فرمایا۔
(مسلم، الصیام، باب کراھیۃ صیام یوم الجمعۃ منفردا: ۴۴۱۱.)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
جمعہ کے دن درود شریف کی کثرت:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’جمعہ کے دن مجھ پر بکثرت درود بھیجو تمہارا درود مجھے پہنچایا جاتا ہے۔‘‘
(ابوداود: الصلاۃ، باب: فضل یوم الجمعۃ و لیلۃ الجمعۃ، ۷۴۰۱۔ امام حاکم اور حافظ ذہبی نے اسے صحیح کہا۔)

خطبہ جمعہ کے مسائل
مختصر خطبہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دو خطبے ارشاد فرماتے ، ان کے درمیان بیٹھتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ میں قرآن مجید پڑھتے اور لوگوں کو نصیحت کرتے۔
(مسلم: الجمعۃ، باب ذکر الخطبتین قبل صلاۃ ۲۶۸.)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز بھی اوسط درجے کی اور خطبہ بھی اوسط درجے کا ہوتا تھا۔
(مسلم، الجمعۃ، باب تخفیف الصلاۃ والخطبۃ: ۶۶۸.)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ :
’’آدمی کی لمبی نماز اور مختصر خطبہ اس کی دانائی کی علامت ہے۔ پس نماز طویل کرو اور خطبہ مختصر کرو اور بعض بیان جادو ہوتے ہیں۔‘‘
(مسلم، الجمعۃ، باب تخفیف الصلاۃ و الخطبۃ: ۹۶۹.)
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر ہرجمعہ کے خطبہ میں سورۃ قٓ کی تلاوت فرمایا کرتے تھے۔
(مسلم: ۲۷۸.)
سیّدنا جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ ارشاد فرماتے تو آپ کی آنکھیں سرخ ہو جاتیں، آواز بلند ہوتی اور جوش میں آ جاتے تھے۔ گویا کہ آپ ہمیں کسی ایسے لشکر سے ڈرا رہے ہیں جو صبح یا شام ہم پر حملہ کرنے والا ہے اور فرماتے کہ :
’’میں اور قیامت ساتھ ساتھ اس طرح بھیجے گئے ہیں‘‘آپ اپنی شہادت کی انگلی اور درمیانی انگلی کو ملاتے۔
(مسلم، الجمعۃ، باب تخفیف الصلاۃ والجمعۃ، ۷۶۸.)

دوران خطبہ فضول کام سے بچنا:
خطبہ جمعہ کے دوران کنکریوں ،تنکوں اور کسی بھی چیز سے کھیلتے رہنا فضول کام ہے ۔ان کاموں سے بچنا نہایت ضروری ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جس نے لغو کام کیا یا لوگوں کی گردنیں پھلانگیں اسے صرف ظہر کی نماز کا ثواب ملے گا۔‘‘
(ابو داؤد:الطھارۃ،باب فيالغسل للجمعۃ،۷۴۳.)
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
"جمعہ کے خطبہ میں جب تو اپنے پاس بیٹھنے والے کو (از راہ نصیحت) کہے ’’چپ رہو‘‘ تو بلاشبہ تو نے بھی لغو (کام) کیا۔"
(بخاری، الجمعۃ، باب الانصات یوم الجمعۃ والامام یخطب، ۴۳۹ ومسلم، الجمعۃ، باب فی الانصات یوم الجمعۃ فی الخطبۃ، ۱۵۸.)
اس سے ثابت ہوا کہ دوران خطبہ (سامعین کو آپس میں) کسی قسم کی بات کرنا جائز نہیں ہے۔ بڑی خاموشی سے خطبہ سننا چاہیے۔ البتہ خطیب اور مقتدی ضرورت کے وقت ایک دوسرے سے مخاطب ہو سکتے ہیں۔
فضیلۃ الشیخ مفتی عبد اللہ بن عبدالرحمن الجبرین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’جو شخص مسجد میں اس وقت داخل ہو جب اذان ہو رہی ہو تو افضل یہ ہے کہ مؤذن کی اذان کا جواب دینا چاہیے اور اس کے فارغ ہو نے کے بعد تحیۃ المسجد ادا کیا جائے لیکن جمعہ کی اذان کے وقت افضل یہ ہے کہ اذان کے وقت تحےۃ المسجد کو پڑھا جائے تاکہ خطبہ شروع ہو نے سے پہلے آدمی نماز سے فارغ ہو جائے اور پھر خاموش بیٹھ کر خطبہ سن سکے۔‘‘
(فتاوی اسلامیہ،اول۱۵۴.)

مسجد میں بیٹھنے کے لیے جگہ خاص کرنا:
سیدنا عبد الرحمٰن بن شبل سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات سے منع فرمایا ہے کہ کوئی آدمی مسجد میں اپنے بیٹھنے کے لیے جگہ خاص کرے جس طرح اونٹ اپنے بیٹھنے کی جگہ کو اپنے لیے خاص کر لیتا ہے۔
(ابو داؤد، باب صلاۃ من لا یقیم صلبہ فی الرکوع والسجود،۲۶۸.)
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا کہ آدمی اپنے بھائی کو اٹھا کر اس کی جگہ پر بیٹھے۔
نافع سے پوچھا گیا کیا صرف جمعہ میں منع ہے؟ فرمانے لگے جمعہ میں اور اس کے علاوہ بھی۔
( بخاری، الجمعۃ، باب لا یقیم الرجل اخاہ یوم الجمعۃ ویقعد فی مکانہ: ۱۱۹، مسلم،السلام، باب تحریم اقامۃ الانسان من موضعہ: ۷۷۱۲.)

گردنیں پھلانگنے کی ممانعت:
سیدنا عبد اللہ بن بسر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جمعہ کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دے رہے تھے کہ ایک شخص لوگوں کی گردنیں پھلانگتا ہوا آنے لگا تو آپ نے یہ دیکھ کر فرمایا :
’’بیٹھ جاؤ! تم نے (لوگوں کو) ایذا دی اور دیر لگائی۔‘‘
( ابوداود: الصلاۃ، باب تخطی رقاب الناس یوم الجمعۃ: ۸۱۱۱۔ امام حاکم امام ابن خزیمہ ، ابن حبان اور حافظ ذہبی نے اسے صحیح کہا۔)
معلوم ہوا کہ نماز جمعہ کے لیے آنے والوں کو چاہیے انہیں جہاں جگہ ملے وہیں بیٹھ جائیں۔
سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کی روایت کے مطابق دو آدمیوں کے درمیان گھس کر نہیں بیٹھنا چاہیے۔
(بخاری، الجمعۃ، لا یفرق بین الثنین یوم الجمعۃ،۰۱۹.)

جمعہ کے خطبہ میں اپنی جگہ بدلنا:
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جسے جمعہ کے وقت اونگھ آئے وہ اپنی جگہ بدل لے۔‘‘
( ترمذی: الجمعۃ، باب فیمن ینعس یوم الجمعۃ: ۶۲۵۔ امام ترمذی نے حسن صحیح کہا۔)

دوران خطبہ دو رکعتیں پڑھ کر بیٹھنا:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کا خطبہ ارشاد فرما رہے تھے کہ سیّدنا سلیک غطفانی رضی اللہ عنہ مسجد میں آئے۔ اور دو رکعتیں پڑھے بغیر بیٹھ گئے۔ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا :
’’ کیا تم نے دو رکعتیں پڑھی ہیں؟ انہوں نے عرض کیا: ’’ نہیں یا رسول اللہ !‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا:
’’کھڑے ہو جاؤ اور دو رکعتیں پڑھ کر بیٹھو‘‘
پھر آپ نے (ساری امت کے لیے) حکم دے دیا :
’’جب تم میں سے کوئی ایسے وقت مسجد میں آئے کہ امام خطبہ (جمعہ) دے رہا ہو تو اسے دو مختصر سی رکعتیں پڑھ لینی چاہئیں۔‘‘
(بخاری، الجمعۃ، باب اذا رای الامام رجلا جاء و ھو یخطب۔۔۔۰۳۹، ۶۶۱۱، مسلم، ۵۸۷)
معلوم ہوا امام خطبہ میں مقتدی سے کلام کر سکتا ہے اور اس کو کوئی حکم بھی دے سکتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
خطبہ میں صرف ایک ہاتھ کی انگلی سے اشارہ کرنا:
سیدنا عمارہ بن رویبہ رضی اللہ عنہ نے بشیر بن مروان کو جمعہ کے دن منبر پر دونوں ہاتھ اٹھاتے ہوئے دیکھا، تو فرمایا:
اللہ تعالیٰ ان دونوں ہاتھوں کو ہلاک کرے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ میں صرف ایک ہاتھ کی شہادت والی انگلی سے اشارہ کرتے تھے۔
(مسلم، الجمعۃ، باب تخفیف الصلوٰۃ والخطبۃ ۴۷۸.)

کھڑے ہو کر خطبہ دینا:
نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر خطبہ دیا اور آپ کے ہاتھ میں عصا یا کمان تھی۔
(ابوداود، الصلاۃ، باب: الرجل یخطب علی قوس، ۶۹۰۱۔ امام ابن خزیمہ نے اسے صحیح کہا۔)
سیدناجابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو کر خطبہ دیتے پھر بیٹھتے اور پھر کھڑے ہو کر دوسرا خطبہ دیتے۔ جو شخص یہ کہے کہ آپ بیٹھ کر خطبہ دیتے تھے اس نے غلط بیانی کی۔
( مسلم، الجمعۃ، باب ذکر الخطبتین قبل الصلاۃ وما فیھما من الجلسۃ ۲۶۸.)
سیدنا کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ مسجد میں داخل ہوئے اور عبدالرحمن بن ام الحکم بیٹھے ہوئے خطبہ دے رہے تھے۔ سیّدنا کعب رضی اللہ عنہ نے کہا: اس خبیث کی طرف دیکھو، بیٹھے ہوئے خطبہ دیتا ہے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
(وَإِذَا رَأَوْا تِجَارَۃً أَوْ لَہْوًا انْفَضُّوْا إِلَیْہَا وَتَرَکُوْکَ قَاءِماً) (الجمعۃ:۱۱)
’’اور جب یہ لوگ کوئی سودا بکتا دیکھتے ہیں یا کوئی تماشا دیکھتے ہیں تو اس کی طرف بھاگ اٹھتے ہیں اور آپ کو (خطبے میں) کھڑا ہی چھوڑ دیتے ہیں۔‘‘
(مسلم، الجمعۃ، باب فی قولہ تعالی: واذا راوا تجارۃ او لھوا انفضوا الیھا و ترکوک قائما: ۴۶۸.)
معلوم ہوا کہ بیٹھ کر جمعہ کا خطبہ دینا خلاف سنت ہے۔ کیونکہ صحابی رضی اللہ عنہ نے آیت سے آپ کے خطبہ میں کھڑے ہونے پر استدلال کیا۔اس آیت میں خطبہ جمعہ چھوڑنے والوں کی مذمت ہے جو خطبہ جمعہ کے واجب ہونے کی دلیل ہے ۔

خطبہ چھوڑ کر ضرورت پوری کرنا:
سیدنا ابو بردہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں خطبہ دے رہے تھے کہ سیدناحسن اورسیّدنا حسین رضی اللہ عنہما آئے اور وہ سرخ قمیص پہنے ہوئے تھے، وہ مشکل سے چل رہے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر سے اترے انہیں اٹھایا اور اپنے سامنے بٹھایا پھر فرمایا کہ
’’اللہ تعالیٰ نے سچ کہا: (إِنَّمَا أَمْوَالُکُمْ وَأَوْلاَدُکُمْ فِتْنَۃٌ) ’’بیشک تمہارا مال اور تمہاری اولاد آزمائش ہیں‘‘
میں نے ان دونوں بچوں کو دیکھا جو مشکل سے چل رہے تھے پس مجھ سے صبر نہ ہوا حتیٰ کہ میں نے اپنا کلام منقطع کیا اور انہیں اٹھایا۔‘‘
( ترمذی: المناقب، باب: مناقب الحسن والحسین: ۴۷۷۳.)
معلوم ہوا امام اپنا خطبہ چھوڑ کر کسی ضرورت کو پورا کر سکتا ہے۔

دوران خطبہ گوٹ مار کر بیٹھنا:
نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے دوران خطبہ گوٹ مار کر بیٹھنے سے منع فرمایا۔
( ترمذی، الجمعۃ، باب ما جاء فی کراھیۃ الاحتباء والامام یخطب ۴۱۵ امام ترمذی نے اسے حسن کہا۔)
گوٹ مارنا اس طرح بیٹھنے کو کہتے ہیں کہ ہاتھ یا کپڑے کے ساتھ رانوں کو پیٹ سے ملا کر بیٹھیں۔ اس طرح بیٹھنے سے عموما نیند آ جاتی ہے پھر آدمی خطبہ نہیں سن سکتا۔ علاوہ ازیں اس حالت میں آدمی اکثر گر پڑتا ہے۔ نیز شرمگاہ کے بے حجاب ہونے کا امکان ہوتا ہے۔

خطبہ میں سیاہ رنگ کا عمامہ پہننا:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیا۔ آپ کے سر پر سیاہ رنگ کا عمامہ تھا۔ اس کے دونوں سرے آپ نے کندھوں کے درمیان چھوڑے ہوئے تھے۔
( مسلم، الحج، باب جواز دخول مکۃ بغیر احرام، ۹۵۳۱.)

خطبہ جمعہ سے پہلے تقریر کرنا:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جمعہ کے دن مسجد میں نماز جمعہ سے پہلے حلقہ بنانے سے منع فرمایا۔
(ابو داود، الصلاۃ، باب التحلق یوم الجمعۃ قبل الصلاۃ، ۹۷۰۱، ترمذی، الصلاۃ، باب ما جاء فی کراھیۃ البیع والشراء و انشاد الشعر، ۲۲۳، امام ترمذی نے حسن۔ امام ابن خزیمہ نے اسے صحیح کہا۔)
لہٰذا جو علماء اذان اور دو خطبوں سے پہلے تقریر کرتے ہیں انہیں اس عمل کو ترک کر دینا چاہیے۔

غیر عربی زبان میں خطبہ دینا:
عربی زبان نہ بولنے اور سمجھنے والوں کو سمجھانے کے لیے جمعہ کے دو خطبے ان کی زبان میں دئے جا سکتے ہیں ۔
فضیلۃ الشیخ عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ خطبہ سے مقصود سامعین کو نفع پہنچانا، اللہ تعالیٰ کے حقوق یاد دلانا، اس کی طرف دعوت دینا اور انہیں ان امور کے ارتکاب سے ڈرانا ہے جن سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے۔ اور یہ مقصد اسی صورت میں حاصل ہو سکتا ہے کہ خطبہ میں ایسی زبان استعمال کی جائے جسے سامعین سمجھتے ہیں ۔ دوسری دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمام رسولوں کو ان کی قوموں کی زبانوں کے ساتھ مبعوث فرمایا تاکہ وہ ان کی زبانوں میں ان تک اللہ تعالیٰ کی مراد پہنچا دیں ۔۔۔ خصوصاً اس آخری دور میں اس غربت اسلام کے عہد میں جب کہ ہر قوم نے اپنی ہی زبان کو مضبوطی سے تھام رکھا ہے تو آج ترجمہ کی ضرورت و اہمیت بہت بڑھ چکی ہے اور اس کے بغیر داعی دعوت کے کام کو پایہ تکمیل تک نہیں پہنچا سکتا۔
(فتاوی اسلامیہ، اول ۲۴۵.)

خطیب کے علاوہ کسی اور کا نماز جمعہ پڑھانا:
الجنۃ الدائمۃ للافتاء والارشاد سعودی عرب کے فتاویٰ میں مذکور ہے:
’’ سنت یہ ہے کہ لوگوں کو نماز جمعہ بھی وہی پڑھائے جس نے خطبہ دیا ہو کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہمیشہ یہی معمول رہا ہے اور آپ کے بعد خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم نے بھی اسی کی پاپندی کی کہ اپنے عہد میں ان میں سے جب کوئی خطبہ دیتا تو نماز بھی خود ہی پڑھاتا تھا۔۔۔۔۔۔ لیکن اگر کوئی شخص خطبہ دے اور عذر کی وجہ سے کوئی دوسرا شخص نماز پڑھا دے تو جائز ہے اور نماز صحیح ہو گی اور اگر کوئی بغیر عذر کے ایسا کرے تو اگرچہ یہ عمل خلاف سنت ہو گا لیکن نماز صحیح ہو گی۔
(فتاوی اسلامیہ، اول ۱۳۵)

جمعہ کی اذان :
جمعہ کے دن آذان جمعہ منبر کے پاس ہونی چاہیے۔
( المعجم الکبیر للطبرانی :۷/۶۴۱ ۔۷۴۱ ۔ حدیث :۶۴۶۶ ورجالہ ثقات.)
سیدنا سائب بن یزید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ،سیّدنا ابوبکر اور سیّدنا عمر رضی اللہ عنہما کے زمانے میں جمعہ کی اذان اس وقت ہوتی تھی جب امام، خطبہ کے لیے منبر پر بیٹھتا۔ جب سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ خلیفہ بنے اور لوگ زیادہ ہو گئے تو زوراء (جگہ) پر ایک اور اذان دی جانے لگی۔ (زوراء مدینہ کے بازار میں ایک مقام ہے)۔
(بخاری: الجمعۃ، باب: الأذان یوم الجمعۃ: ۲۱۹.)
مسجد کے اندر امام کے خطبہ سے پہلے صرف ایک اذان ہے۔ مسجد میں دی جانے والی دو اذانوں کا ثبوت سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے دور سے بھی نہیں ملتا۔ لہٰذا اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔
جمعہ کے دن پہلی اذان کا پس منظر یہ ہے کہ عہد نبوت میں مدینہ منورہ اور اس کی آبادی کا حجم نسبتاً مختصر تھا، لوگوں کو آسانی سے اذان کا علم ہو جاتا تھا، عہد عثمانی میں جب آبادی زیادہ ہو گئی تو تمام لوگ اذان کی آواز نہیں سن پاتے تھے جس کا لازمی نتیجہ یہ نکلا کہ گونا گوں مصروفیات کا شکار، کئی لوگ مسجد میں بروقت پہنچنے سے قاصر ہو گئے اس کا انتظامی حل یہ نکالا گیا کہ پہلے مسجد سے باہر بازار کے اندر، زوراء کے مقام پر اذان دی جاتی، اس سے کچھ ہی دیر بعد مسجد نبوی میں (دوسری) اذان ہو جاتی۔سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا یہ اقدام بدعت نہیں ہے کیونکہ سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ خلفاء راشدین میں سے ہیں، ان کے دور میں مدینہ منورہ میں جب پہلی دفعہ اس اذان کی ضرورت محسوس کی گئی تو انہوں نے اسے شرعی حکم کے طور پر نہیں، محض انتظامی حل کے طور پر جاری کیا تھا جسے باقی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی خاموش تائید حاصل تھی اور ظاہر ہے کہ جس چیز پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا عمومی اتفاق ہو جائے وہ بدعت نہیں ہوا کرتی۔ واللہ اعلم (ع،ر)
 
Top